Tag: خواتین کی خبریں

  • بھارت: خاتون نے لوہے کی سلاخ سے آدمی کو پیٹ ڈالا

    بھارت: خاتون نے لوہے کی سلاخ سے آدمی کو پیٹ ڈالا

    چندی گڑھ: پڑوسی ملک بھارت میں ایک نوجوان خاتون نے طیش میں آ کر بیچ سڑک پر لوہے کی سلاخ سے ایک آدمی کو پیٹ ڈالا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست پنجاب کے شہر چندی گڑھ میں ایک پچیس سالہ خاتون نے غصے میں آ کر سڑک پر ایک آدمی پر لوہے کی راڈ سے حملہ کر دیا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق خاتون شیتل شرما جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ماروتی ریورس کر رہی تھی کہ پیچھے سے آنے والی گاڑی کو اس نے ٹکر مار دی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون ڈرائیور نے سخت طیش میں ایک اور گاڑی کے ڈرائیور کو پیٹا، جس پر اسے گرفتار کر لیا گیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  بھارت: لیچی کھانے سے مہلک بیماری نے 150 بچوں کی جانیں لے لیں

    دوسری گاڑی کو ٹکر مارنے کے باوجود خاتون شیتل نے غصے میں آ کر لوہے کی سلاخ نکالی اور آدمی پر حملہ کر دیا، سڑک کے بیچ جھگڑا ہونے پر ٹریفک جام ہو گیا۔

    اس جھگڑے کی کسی نے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر بھی ڈال دی، جو کچھ ہی دیر میں وائرل ہو گئی، اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون بڑھ چڑھ کر لوہے کی سلاخ سے ڈرائیور پر حملہ کر رہی ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ تعزیرات ہند کی متعلقہ شقوں کے تحت خاتون کے خلاف مقدمہ درج کر دیا گیا ہے۔

  • خدیجہ صدیقی کی جدوجہد پر بہت خوشی ہوئی: فواد چوہدری کا ٹویٹ

    خدیجہ صدیقی کی جدوجہد پر بہت خوشی ہوئی: فواد چوہدری کا ٹویٹ

    اسلام آباد: وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ انھیں قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی کی جدوجہد پر بہت خوشی ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فواد چوہدری نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں اپنے حق کے لیے عدالتی جنگ لڑنے والی قانون کی طالبہ کی جدوجہد پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔

    [bs-quote quote=”فواد چوہدری نے انصاف کی جنگ لڑنے والی خدیجہ صدیقی کو ’دی فائٹر‘ قرار دے دیا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    وزیرِ اطلاعات نے لکھا کہ خدیجہ صدیقی نے اپنے عزم سے پاکستانی خواتین کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔

    وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے انصاف کی جنگ لڑنے والی خدیجہ صدیقی کو ’دی فائٹر‘ قرار دے دیا۔

    فواد چوہدری نے خدیجہ صدیقی کے وکیل حسن نیازی کے کردار کو بھی سراہا، لکھا ’مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے پر حسن نیازی تعریف کے مستحق ہیں۔‘

    خیال رہے کہ گزشتہ روز خدیجہ صدیقی حملہ کیس میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم شاہ حسین کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور 5 سال قید کی سزا کا فیصلہ بھی برقرار رکھا۔

    مئی 2016 میں قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی پر شاہ حسین نے خنجر کے 23 وار کیے تھے، جس سے وہ شدید زخمی ہوگئی تھیں۔ جوڈیشیل مجسٹریٹ نے مجرم کو 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

    یہ بھی پڑھیں:  خدیجہ کیس: سپریم کورٹ کا ملزم شاہ حسین کوگرفتار کرنے کا حکم، 5سال قید کی سزا برقرار

    ملزم نے مجسٹریٹ کورٹ کی سزا کے خلاف سیشن کورٹ میں اپیل دائر کی، جس نے سزا کم کر کے 5 سال کر دی، بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کو رہا کردیا، تاہم سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس پر از خود نوٹس لے لیا۔

  • حکومت خواتین کی ویٹ لفٹنگ کو سپورٹ کرے: ویٹ لفٹر بہنوں کی درخواست

    حکومت خواتین کی ویٹ لفٹنگ کو سپورٹ کرے: ویٹ لفٹر بہنوں کی درخواست

    لاہور: پاکستان کے دل لاہور سے تعلق رکھنے والی چار ویٹ لفٹر بہنوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان میں خواتین کی پاور لفٹنگ کھیل کو زیادہ سے زیادہ سپورٹ کرے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک ہی گھر کی چار نوجوان لڑکیاں ویٹ لفٹنگ میں پاکستان کا فخر بن گئیں، ساؤتھ ایشین اور کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کے لیے تیاریاں بھی جاری ہیں۔

    [bs-quote quote=”ساؤتھ ایشین گیمز کے ساتھ کامن ویلتھ گیمز کے لیے 47 کیٹیگری میں تیاریاں کر رہی ہوں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”ٹوئنکل سہیل”][/bs-quote]

    اے آر وائی نیوز نے ویٹ لفٹر بہنوں پر خصوصی فیچر کیا، کئی کئی کلوگرام وزن اٹھانا ان چاروں بہنوں کے لیے معمول کی بات ہے تاہم ویٹ لفٹنگ جیسے مشکل کھیل میں انھیں اپنی پہچان بنانا آسان نہیں تھا۔

    ٹوئنکل، ویرونیکا، مریم اور سیبل ایشین چیمپئن شپ سمیت بین الاقوامی سطح پر کئی مقابلے جیت چکی ہیں، ایک ہی گھر سے تعلق رکھنے والی ان چار ایتھلیٹس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں خواتین کی پاور لفٹنگ میں کتنا پوٹینشل ہے۔

    ویٹ لفٹر بہنوں کا کہنا ہے کہ ان کے دادا چچا وغیرہ ہمارے والد سے کہا کرتے تھے کہ یہ کس کام میں بیٹیوں کو لگا دیا ہے، اب جب ہم اس کھیل میں آگے آئے ہیں تو وہ بھی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔

    ایک بہن نے بتایا کہ اگر ہم نے اس ویٹ لفٹنگ میں باہر ٹور کرنا ہے تو اس کے لیے ہمیں تین سے چار سال پاکستان میں گیمز کھیل کر ایونٹس جیتنے پڑیں گے۔

    ویٹ لفٹر لڑکی کا کہنا تھا لوگوں کے گھر میں جاؤ تو ان کے گھروں میں ڈیکوریشن کے پیس پڑے ہوتے ہیں لیکن ہمارا گھر میڈلز اور ٹرافیوں سے بھرا ہوا ہے، سمجھ نہیں آتی کہ مزید ٹرافیاں کہاں رکھیں۔


    یہ بھی پڑھیں:    ثنا میر کے لیے ایک اور اعزاز


    پُر عزم ویٹ لفٹر نے کہا کہ میں ساؤتھ ایشین گیمز کے ساتھ ساتھ کامن ویلتھ گیمز کے لیے 47 کیٹیگری میں تیاریاں کر رہی ہوں، میں چاہتی ہوں کہ حکومت ہمیں زیادہ سے زیادہ سپورٹ کرے۔

    اے آر وائی نیوز کی نمائندہ ثانیہ چوہدری نے بتایا کہ پاکستان میں خواتین کی ویٹ لفٹنگ کو شروع ہوئے ابھی صرف تین سال ہوئے ہیں، پھر بھی اس کھیل میں دل چسپی رکھنے والی لڑکیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

  • سندھ میں ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کے لیے قانونی مسودہ تیار

    سندھ میں ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کے لیے قانونی مسودہ تیار

    کراچی: صوبہ سندھ میں ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کے لیے قانونی مسودہ تیار کرلیا گیا۔ مردوں کا خواتین کو چھیڑنا، ہراساں کرنا اور جنسی تشدد ناقابل معافی جرم ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ نے ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کے لیے قانونی مسودہ یعنی سندھ پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ ایٹ ورک پلیس ایکٹ تیار کرلیا۔

    ایکٹ کے مطابق سندھ میں خواتین کو چھیڑنا، ہراساں کرنا اور جنسی تشدد ناقابل معافی جرم ہوگا۔ خواجہ سراؤں کو چھیڑنے والے بھی قانون کی گرفت میں آئیں گے۔

    تمام نجی و سرکاری اداروں میں خواتین کے تحفظ کے لیے کمیٹی بنانا لازم ہوگا۔ انکوائری اتھارٹی 3 ارکان پر مشتمل ہوگی۔ خواتین ہراساں کیے جانے کی صورت میں تحریری شکایت کرسکیں گی۔

    مزید پڑھیں: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں؟

    ایکٹ کے مطابق صوبائی محتسب سے بھی براہ راست شکایت کی جاسکے گی۔ انکوائری اتھارٹی شکایت پر 3 دن میں فیصلہ کرے گی۔ قصور وار شخص پر ملازمت سے برطرفی، تنخواہ و مراعات روکنے کی سزائیں بھی ایکٹ میں شامل ہے جبکہ چھیڑ خانی کرنے والے مردوں کی ترقی و انکریمنٹ روکنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

    صوبائی محتسب خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعے کا از خود نوٹس بھی لے سکے گا۔

    ملازمت کی جگہ پر خواتین کے تحفظ کا ایکٹ آج کابینہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ کابینہ سے منظوری کی صورت میں ایکٹ سندھ اسمبلی میں لایا جائے گا۔

  • غیر ضروری آپریشن سے بچوں کی پیدائش کا خطرناک رجحان

    غیر ضروری آپریشن سے بچوں کی پیدائش کا خطرناک رجحان

    لندن: ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں لاکھوں خواتین بچوں کی پیدائش کے لیے غیر ضروری طور پر آپریشن کروانا پسند کرتی ہیں، آپریشن سے بچے کی پیدائش ایک ’عالمی وبا‘ بن گئی ہے۔

    برطانوی میگزین دی لانسیٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان خواتین میں بھی آپریشن کا رجحان بڑھ گیا ہے جن کے ہاں بچے کی نارمل پیدائش ممکن ہوتی ہے۔

    [bs-quote quote=”غیر ضروری آپریشن کروانے والی زیادہ تر وہ خواتین ہیں جن کی مالی حیثیت مستحکم ہے” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کی پیدائش کے لیے غیر ضروری آپریشن زیادہ تر خطرناک ثابت ہوتے ہیں، ماہرین کے مطابق اس طرزِ عمل سے زچہ بچہ کی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، نیز ماؤں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    دی لانسیٹ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نئی صدی کی ابتدا سے پندرہ برسوں میں (2000 تا 2015) آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کے عالمی کیسز میں تقریباً دُگنا اضافہ ہوا ہے۔

    غیر ضروری آپریشن کروانے والے ممالک کے سلسلے میں عالمی ادارۂ صحت اور یونی سیف نے اعداد و شمار اکھٹے کیے، اس کے مطابق ایسے ممالک کی تعداد 169 تھی جہاں مذکورہ رجحان تھا یا اس کے برعکس یعنی آپریشن کی ضرورت ہوتے ہوئے بھی آپریشن نہیں کیے گئے۔


    یہ بھی پڑھیں:  چنیوٹ: لیڈی ڈاکٹر کی فرض شناسی، خاتون نے رکشے میں بچی کو جنم دے دیا


    لانسیٹ کی تحقیق کے مطابق بچوں کی پیدائش کے لیے غیر ضروری آپریشن کروانے والی زیادہ تر وہ خواتین ہیں جن کی مالی حیثیت مستحکم ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ بعض ممالک تو ایسے بھی ہیں جہاں سرجری فیشن کا حصہ بن چکی ہے۔

  • بھارت میں نوجوان عورتوں میں خود کشی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی

    بھارت میں نوجوان عورتوں میں خود کشی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی

    انڈیا: برطانوی طبی جریدے کی تازہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں نوجوان خواتین میں خود کشی کی شرح حیران کن طور پر 40 فی صد ہے۔

    تفصیلات کے مطابق طبی جریدے دی لانسیٹ نے ان عوامل پر روشنی ڈالی ہے کہ بھارتی نوجوان عورتوں میں خود کشی کا رجحان اتنا زیادہ کیوں ہے۔طبی جریدے نے تحقیق کے بعد انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر میں جتنی خواتین ایک سال میں خود کشی کرتی ہیں ان میں سے تقریباً 40 فی صد ہندوستانی خواتین ہوتی ہیں۔

    دی لانسیٹ کی تحقیق کے مطابق انڈیا میں ہر ایک لاکھ خواتین میں سے 15 خود کشی کر لیتی ہیں، یہ تعداد دنیا میں پائے جانے والے اعداد و شمار کی دگنی تعداد ہے، یعنی دنیا میں اوسطاً ہر ایک لاکھ میں 7 خواتین خود کشی کر لیتی ہیں۔

    دوسری طرف بھارت میں مردوں میں بھی خود کشی کا رجحان کچھ کم نہیں ہے، رپورٹ کے مطابق مردوں کے خود کشی کرنے کے معاملے میں انڈیا کا حصہ 24 فی صد ہے۔ مذکورہ تحقیق سے جڑی محققہ راکھی داندونا نے بتایا کہ انڈیا خواتین کے خود کشی کے واقعات میں کمی لانے میں کام یاب ہوا ہے لیکن اس کی رفتار زیادہ تیز نہیں ہے۔

    طبی جریدے نے انکشاف کیا کہ خود کشی کے رجحان میں اضافے کی ایک وجہ صحتِ عامہ کی خراب صورتِ حال ہے، بھارت میں عوام کو غربت کی وجہ سے صحت برقرار رکھنے کی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ زیادہ تر خود کشی کرنے والی عورتیں شادی شدہ ہوتی ہیں، یہ شادیاں والدین کی مرضی سے کی جانے والی شادیاں ہیں جن کا انجام افسوس ناک نکل آتا ہے۔


    یہ بھی پڑھیں:  سیکولر بھارت کا مکروہ چہرہ، بیویاں کرائے پر دستیاب


    خود کشی کی دیگر وجوہ میں ڈپریشن، نفسیاتی طبی سہولیات کی عدم دستیابی، خواتین کی سماجی حیثیت وغیرہ بھی شامل ہیں، ایک وجہ خواتین کی بڑی خواہشوں کو بھی قرار دیا گیا۔

    تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پسند کی شادیاں اور ذہنی طبی سہولیات اور بہتر ملازمتوں کی فراہمی کے ذریعے اور خواتین کی شکایات کے اندراج کے نظام کی سہولت کے ذریعے خود کشیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

  • نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون کون تھیں؟

    نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون کون تھیں؟

    دنیا کا سب سے معتبر اعزاز نوبل انعام اب تک کئی خواتین کو مل چکا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون کون تھیں؟

    نوبل انعام پہلی بار جس خوش نصیب خاتون کے حصے میں آیا وہ پولینڈ سے تعلق رکھنے والی سائنس داں میری کیوری تھیں۔ وہی میری کیوری جنہوں نے ریڈیم کی دریافت کی تھی۔

    سنہ 1867 میں پیدا ہونے والی میری کا تعلق وارسا کے ایک غریب خاندان سے تھا۔ پانچ بہن بھائیوں میں وہ سب سے زیادہ ذہین تھی اور اس نے بہت کم عمری میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔

    جب اس کی والدہ اور بڑی بہن کا انتقال ہوا تو اسے مجبوراً گھر چلانے کے لیے ملازمت کرنی پڑی۔ اس کی پہلی ملازمت ایک معلمہ کی تھی اور یہ وہ وقت تھا جب خود اس کی تعلیم نامکمل تھی۔

    اسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا تاہم پولینڈ کی یونیورسٹیوں میں اس وقت خواتین کا داخلہ ممنوع تھا۔ میری نے اپنے طور پر طبیعات اور ریاضی کی کئی کتابیں پڑھ ڈالیں۔

    وہ سائنس کے شعبے میں آگے جانا چاہتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ سائنسی ایجادات اور دریافتیں برے کاموں سے زیادہ بہتری کے لیے استعمال کی جاسکتی ہیں۔

    6 سال تک ملازمت کرنے کے بعد وہ اتنی رقم جمع کرسکی کہ فرانس جاسکے اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرسکے۔

    فرانس آنے کے بعد بھی میری نے اپنی زندگی کا زیادہ تر عرصہ نہایت غربت میں گزارا۔ وہ طویل وقت تک سخت محنت کرتی رہتی جبکہ بعض اوقات وہ پورا دن ایک ڈبل روٹی، پنیر اور ایک کپ چائے پر گزارا کرتی۔

    یونیورسٹی میں اس کے تمام ہم جماعت مرد تھے جو اکثر مشکل تھیوریز سمجھنے کے لیے اس کی مدد لیا کرتے تھے۔ میری نے طبیعات کی ڈگری حاصل کی اور اس کے ساتھ ہی ایک فرانسیسی طبیعات داں سے شادی کرلی۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    یہ وہ دور تھا جب ایکسرے نیا نیا دریافت ہوا تھا اور میری اسے سمجھنے اور اس پر کام کرنے کے لیے نہایت پرجوش تھی۔ میری ہی تھی جس نے تیز (تابکار) شعاعوں کی دریافت کی اور انہیں ریڈیو ایکٹیوٹی کا نام دیا۔

    یہ بہت بڑی دریافت تھی جو اس نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر کی تھی۔ اس دریافت کو طبیعات میں نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا لیکن یہ نامزدگی صرف میری کے شوہر کے لیے تھی۔

    شدید صنفی امتیاز کے اس دور میں لوگ یقین نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی عورت سائنس پر بھی کام کرسکتی ہے؟

    اس کے شوہر کے اصرار پر بالآخر اس کی محنت کو بھی تسلیم کیا گیا اور دونوں کو انعام کے لیے نامزد کیا گیا، بعد ازاں میری نے اپنے شوہر کے ساتھ نوبل انعام جیت لیا اور اس کے ساتھ ہی وہ نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون بن گئیں۔

    اس وقت آئن اسٹائن نے میری کی ہمت بندھائی اور تمام تنقید اور طنز کو نظر انداز کرنے کو کہا۔ آئن اسٹائن نے میری کو نصیحت کی، ’کبھی بھی حالات یا لوگوں کی وجہ سے اپنی ذات کو کمتر مت جانو‘۔

    یہ وہ وقت تھا جب لیبارٹریز میں صرف مرد ہوا کرتے تھے اور میری ان میں واحد خاتون تھیں، لیکن وہ ان کے شانہ بشانہ کام کرتی تھیں۔

    میری نے بعد ازاں مزید 2 عناصر پولونیم اور ریڈیم دریافت کیے۔ اس دریافت پر اسے ایک بار پھر نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا، اور اس بار یہ انعام کیمیا کے شعبے میں تھا۔

    جنگ عظیم اول کے دوران میری کو ایک تجربے کے دوران معلوم ہوا کہ ایکسریز سے زخمی فوجیوں کا علاج بھی کیا جاسکتا ہے تاہم ایکسرے مشین اس وقت بہت مہنگی تھیں۔

    اس موقع پر بھی میری نے ہمت نہیں ہاری اور ایک ہلکی پھلکی ایکسرے مشین ایجاد کر ڈالی جو ٹرک کے ذریعے اسپتال تک پہنچائی جاسکتی تھی۔ اس مشین کی بدولت 10 لاکھ فوجیوں کی جانیں بچائی گئیں۔

    ساری زندگی تابکار شعاعوں کی زد میں رہنے والی میری بالآخر انہی شعاعوں کا شکار ہوگئی، اس کا انتقال 4 جولائی 1934 کو ہوا۔

    میری کیوری نہ صرف نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں بلکہ وہ اب تک واحد خاتون ہیں جنہیں 2 مختلف شعبوں میں نوبل انعام ملا۔ ان کی دریافتوں نے جدید دور کی طبعیات اور کیمیائی ایجادات میں اہم کردار ادا کیا۔

    وہ کہتی تھیں، ’ہمیں یقین ہونا چاہیئے کہ خدا نے ہمیں کسی نے کسی صلاحیت کے تحفے سے نواز ہے۔ ہمیں بس اس تحفے کو پہچاننا ہے اور اس مزید مہمیز کرنا ہے‘۔

  • پاکستانی طالبہ نے 5G وائرلیس سسٹم کو بہتر بنانے پر اطالوی ایوارڈ جیت لیا

    پاکستانی طالبہ نے 5G وائرلیس سسٹم کو بہتر بنانے پر اطالوی ایوارڈ جیت لیا

    اسلام آباد: پاکستان کی ایک پی ایچ ڈی طالبہ نے لانگ ٹرم ایولوشن (LTE) اور 5G وائرلیس سسٹم میں بہتری لانے پر اٹلی کا ایوارڈ جیت لیا۔

    تفصیلات کے مطابق کنگ عبداللہ یونی ورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (KAUST) کی طالبہ قرۃ العین ندیم نے ٹیکنالوجی میں ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جس نے سب کو حیران کر دیا۔

    قرۃ العین نے ایل ٹی ای اور فائیو جی وائرلیس سسٹم کو مزید بہتر بنا کر ٹرانسمیشن ٹیکنالوجی میں اپنے کارنامے کے لیے اٹلی کا مارکونی سوسائٹی پال بران ینگ اسکالر ایوارڈ جیت لیا ہے۔

    ایوارڈ کی وصولی کے لیے قرۃ العین ندیم 2 اکتوبر کو اٹلی کے شہر بلونیا جائیں گی، جہاں وہ ایوارڈ کے ساتھ ساتھ 5000 امریکی ڈالر کی انعامی رقم بھی وصول کریں گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی طالبہ کی فُل ڈائمنشن (FD)، میسیو ملٹی پل ان پٹ ملٹی پل آؤٹ پٹ (MIMO) میں کی گئی تحقیق موجودہ وائرلیس کمیونیکیشن سسٹمز سے کہیں زیادہ بہتر ہے جو لانگ ٹرم ایولوشن سسٹمز کے اوسط کو دگنے سے بھی زیادہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔


    باہمت عظمیٰ ٹریننگ کے بعد مکینکل انجینئر بن گئیں، آٹو ورک شاپ میں کام کرتے دیکھ کر لوگ حیران


    قرۃ العین کنگ عبداللہ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں، ان کی تحقیق تھری ڈی چینل ماڈلنگ اور انٹینا کی زیادہ گہرائی میں ترتیب کے نظری پہلوؤں پر مبنی ہے۔

    اعزاز ملنے پر قرۃ العین نے کا کہنا تھا کہ اس ایوارڈ سے خطے میں سائنس کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو ترغیب ملے گی کہ وہ مزید بڑے کارنامے انجام دیں۔

  • فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    کابل: ایک ایسا ملک جہاں خواتین کے گھر سے باہر قدم رکھنے کو ’گناہ‘ سمجھا جاتا ہو، وہاں ایک لڑکی کے گھر سے باہر نکلنے، اس کے میدان تک جانے، وہاں فٹبال کھلینے، اور پھر اسے معیوب خیال نہ کرنے کے جرم کو آپ کیا نام دیں گے؟

    آپ چاہے اسے جو بھی کہیں، لیکن افغانستان میں ایسی ہی ایک لڑکی کے لیے ’طوائف‘ کا لفظ استعمال کیا گیا، اور خالدہ پوپل اس لفظ کو سننے کی اس قدر عادی ہوچکی ہیں کہ اب انہیں اس لفظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    خالدہ کو یہ لقب ان کے فٹبال کھیلنے کے جرم کی پاداش میں ملا ہے۔ وہ افغانستان میں 2007 میں تشکیل دی جانے والی پہلی خواتین فٹبال ٹیم کی کپتان ہیں اور فی الحال اپنے ملک سے دور جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔

    اپنے بچپن کے بارے میں بتاتے ہوئے خالدہ کہتی ہیں، ’مجھے فٹبال کھیلنے کی تحریک میری والدہ نے دی۔ وہ ایک روشن خیال خاتون تھیں اور انہوں نے ہمیشہ میری غیر نصابی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی‘۔

    kahlida-2

    خالدہ کو کھیلنے کے لیے فٹبال اور جوتوں کی پہلی جوڑی ان کی والدہ نے ہی اپنی جمع پونجی سے خرید کر دی۔

    اپنے بچپن میں وہ اپنے خاندان کی دیگر لڑکیوں کے ساتھ گھر کے صحن میں ہی فٹبال کھیلا کرتیں۔ لیکن ابھی وہ گھر سے باہر جا کر بلندیوں کی طرف اڑان بھرنے کا سوچ ہی رہی تھیں کہ افغانستان میں طالبان داخل ہوگئے اور ظلم و جہالت کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔

    کھلی فضاؤں میں سانس لینے کی غرض سے خالدہ کچھ عرصہ کے لیے اپنے والدین کے ساتھ سرحد پار کرکے پشاور میں مقیم ہوگئی۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ کب طالبان ان کا ملک چھوڑیں اور وہ واپس جا کر نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کریں۔

    وطن واپسی کے بعد، جب دارالحکومت کابل میں طالبان کا زور کچھ کم تھا، خالدہ اور ان کی والدہ نے لڑکیوں کے اسکولوں میں فٹبال اور دیگر کھیلوں کے کلب قائم کرنے کی تحریک شروع کی۔ اسکولوں میں ان کلبز کے قیام کے بعد افغانستان فٹبال فیڈریشن کے صدر سے ملاقات کی گئی اور ان سے خواتین کی فٹبال ٹیم تشکیل دینے کی درخواست کی گئی۔

    مزید پڑھیں: ریو اولمپکس میں شریک پہلی بلوچ خاتون ایتھلیٹ

    خوش قسمتی سے اس وقت کے افغانستان فٹبال فیڈریشن کے صدر کریم الدین کریم نے اس تجویز کو قابل عمل سمجھا اور افغانستان کی پہلی خواتین فٹبال ٹیم تشکیل پائی۔

    اس ٹیم نے جس میں صرف 4 لڑکیاں موجود تھیں، ابتدا میں مالی مشکلات کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا۔ ٹیم میں شامل کھلاڑی روشن خیال اور مہذب خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں اور انہیں اپنے والدین اور خاندان کی پوری حمایت حاصل تھی۔ کچھ ایسی بھی تھیں جنہیں فٹبال کا شوق تھا لیکن خاندان سے اجازت نہ ملنے کے باعث وہ اپنے گھروں کو چھوڑ آئی تھیں۔

    افغانیوں کے لیے اس بات کو تسلیم کرنا ذرا مشکل تھا۔

    افغانستان سے طالبان کا کنٹرول ختم ہونے کے باوجود ان کی سوچ لوگوں میں سرائیت کر چکی تھی اور لڑکیوں کا کھیلوں کے شعبہ میں جانا انتہائی برا خیال کیا جاتا تھا۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق کو للکارتی مصر کی خواتین بائیکرز

    خالدہ پوپل بتاتی ہیں، ’فٹبال کیریئر شروع کرنے کے بعد مجھے اپنے اسکول میں شدید تفریق کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے استاد مجھے کلاس سے باہر نکال دیتے تھے صرف اس لیے کیونکہ میں فٹبال کھیلتی تھی۔ مجھے اعتراض تھا کہ اگر مرد فٹبال کھیل سکتے ہیں تو ہم خواتین کیوں نہیں‘۔

    وہ بتاتی ہیں، ’لوگ ہم پر کچرا اور پتھر پھینکا کرتے تھے کیونکہ ہم فٹبال کھیلتی تھیں‘۔

    کچھ عرصہ بعد خالدہ نے فٹبال کو خواتین کی خود مختاری پر آواز بلند کرنے کے لیے علامتی طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ وہ کہتی ہیں، ’فٹبال میرے لیے خواتین کے ایک بنیادی حق کی حیثیت اختیار کرگیا۔ اگر مرد اس قسم کے چھوٹے چھوٹے فیصلوں میں خود مختار ہیں، کہ انہیں کہاں جانا ہے، کیا بننا ہے، کیا کھیلنا ہے تو خواتین کیوں نہیں‘۔

    k3

    وہ بتاتی ہیں، ’طالبان کے دور میں افغان خواتین بھول گئیں کہ وہ انسان بھی ہیں۔ کیونکہ معاشرے نے انہیں انسان سمجھنا چھوڑ دیا۔ خواتین پر طالبان کے قوانین کی خلاف ورزی پر سرعام تشدد کیا جاتا تو بھلا کون انسان ایسے سلوک کا حقدار ہے‘۔

    سنہ 2011 میں خالدہ نے بے تحاشہ دھمکیوں کے بعد بالآخر افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے خاندان اور زندگی کے درمیان ایک چیز کا انتخاب کیا اور ملک اور خاندان کو مجبوراً چھوڑ دیا۔

    اب وہ دنیا بھر میں خواتین کی فٹبال کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ خواتین کی خود مختاری کے لیے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این وومین سمیت کئی اداروں کی رکن بن چکی ہیں اور اپنی جدوجہد کی داستان سنا کر دنیا کو مہمیز کرتی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’میری آواز دنیا کی ان تمام خواتین کے لیے بلند ہوگی جو ظلم و جبر کی چکی میں پس کر اپنے انسان ہونے کی شناخت بھی بھول چکی ہیں۔ میں پہلے انہیں ان کی یہ شناخت واپس دلاؤں گی اس کے بعد ان کی شخصیت کی تعمیر کرنے میں ان کی مدد کروں گی‘۔

  • خواتین کو جنسی حملوں سے بچانے والا اسمارٹ فون کیس

    خواتین کو جنسی حملوں سے بچانے والا اسمارٹ فون کیس

    دنیا بھر میں خواتین پر راہ چلتے جنسی حملے نہایت عام ہوگئے ہیں اور ایسے واقعات ان خواتین کے ساتھ زیادہ پیش آتے ہیں جو اکیلی یا کسی وجہ سے رات کے وقت سفر کریں۔

    تاہم اب اسمارٹ فون کا ایسا کور بنا لیا گیا ہے یا جو ان حملوں سے تحفظ دے سکتا ہے۔

    یہ کیس تمام وقت کسی عام کیس کی طرح اسمارٹ فون کو گرنے سے بچانے اور اسے محفوظ رکھنے کے کام آئے گا۔

    لیکن اس کا صرف ایک بٹن دبانے سے اس کے کونے پر دو نوکیلے سرے نکل آئیں گے جو کرنٹ پیدا کریں گے۔

    یہ نوکیلے سرے حملہ آور کے جسم میں کہیں بھی لگا دیے جائیں تو وہ بوکھلا کر آپ کو چھوڑ دے گا جس کے بعد باآسانی خود کو بچایا جاسکتا ہے۔

    اس کیس کو بھی بجلی سے ریچارج کرنے کی ضرورت ہوگی تاہم اس کی بیٹری میں اضافی استعداد موجود ہے جو کئی دن تک چل سکتی ہے۔