Tag: خواتین کے حقوق

  • مودی کا ہندوستان، خواتین کے حقوق کا دشمن

    مودی کا ہندوستان، خواتین کے حقوق کا دشمن

    مودی کا ہندوستان خواتین کے حقوق کا دشمن بن گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج دُنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہاہے، مگر مودی کے ہندوستان میں ہوا کی بیٹی پر زمین تنگ ہوچکی ہے، بھارتی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی صرف 11 فیصد ہے جبکہ ملازمت میں نمائندگی صرف 19 فیصد ہے۔

    سٹیٹسٹا کے مطابق ہندوستان کو عورت کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے بھارتی نیشنل کمیشن برائے خواتین کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال میں خواتین کے خلاف جرائم کی 28 ہزار شکایات موصول ہوئیں، سب سے زیادہ شکایات ہراسگی کی موصول ہوئیں جن کی تعداد 8 ہزار سے زائد تھیں۔

    انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق روزانہ سفر کرنے والی خواتین میں سے 80 فیصد کو جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بھارت میں روزانہ خواتین سے 86 زیادتی کے واقعات پیش آتے ہیں جن میں سے دہلی 6 واقعات کے ساتھ سرِ فہرست ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سیاح خواتین بھی بھارت میں محفوظ نہیں، امریکہ سمیت کئی ممالک نے کئی بار اپنے شہریوں کو بھارت سفر کرنے کے خلاف وارننگ جاری کرچکے ہیں۔

  • ریاست ماں بن کر خواتین کے حقوق کی پاسداری کرے گی،فردوس عاشق اعوان

    ریاست ماں بن کر خواتین کے حقوق کی پاسداری کرے گی،فردوس عاشق اعوان

    سیالکوٹ: معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ ریاست ماں بن کر خواتین کے حقوق کی پاسداری کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق سیالکوٹ میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اب سیاحت سے پہچاناجاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کا دل بارڈر پر بسنے والوں کے ساتھ دھڑکتا ہے، عمران خان نے دنیا میں پاکستان کا حقیقی چہرہ متعارف کروایا۔

    فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ حکومتی اقدامات سے اشیائے ضرویہ کی قیمتوں میں کمی ہوئی، وزیراعظم نے 192ارب روپے خواتین کو تحفظ، روزگار کے لیے مختص کیے، حکومت کفالت کارڈ کے ذریعے پسے ہوئے طبقے کی کفالت کر رہی ہے۔

    معاون خصوصی برائے اطلاعات کا کہنا تھا کہ ایک طبقہ ایسے نعروں کے ساتھ مارچ کر رہا ہے جس کی مذہب اجازت نہیں دیتا، ایسے نعروں سے معاشرے کو بے راہ روی کا شکار نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین مارچ پر پتھراؤ کرنے والے انتہاپسندانہ ذہن کے مالک ہیں۔

    ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ریاست ماں بن کر خواتین کے حقوق کی پاسداری کرے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں سیرت فاطمہ کو رول ماڈل بنانا ہے مغربی پیروی نہیں کرنی۔

  • غربت میں کمی کے لیے خواتین کو با اختیار بنانا ضروری ہے: اسلام آباد ویمن چیمبر

    غربت میں کمی کے لیے خواتین کو با اختیار بنانا ضروری ہے: اسلام آباد ویمن چیمبر

    اسلام آباد: ویمن چیمبر کی بانی صدر ثمینہ فاضل کا کہنا ہے کہ غربت میں کمی کے لئے خواتین کو با اختیار بنانا ضروری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ویمن چیمبر کے تحت منعقدہ سالانہ نمائش کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ویمن چیمبر کی بانی صدرثمینہ فاضل نے ملک میں خواتین کے کردار پر روشنی ڈالی۔

    انہوں نے کہا کہ ملک بھر کی تاجر خواتین وزیر اعظم کے اعلان کردہ غربت مٹاؤ پراگرام کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت کرتی ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبہ میں غریب خواتین کی ترقی کو توجہ دی گئی ہے اور یہ بڑی تعداد میں عوام کو خط غربت سے اوپر لے آئے گا۔

    ویمن چیمبر کی بانی صدر نے بتایا کہ غربت میں کمی کے لیے خواتین کو با اختیار بنانا اور ان کی معاشی سرگرمیوں میں بھرپور شمولیت یقینی بنائی جائے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ بنگلا دیش نے خواتین کی مدد سے سرعت سے ترقی کی ہے اور پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، خواتین کو نظر انداز کر کے غربت کے خاتمہ کے لئے تین گنا زیادہ وسائل درکار ہوں گے جو ہمارے پاس نہیں ہیں۔

  • فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    کابل: ایک ایسا ملک جہاں خواتین کے گھر سے باہر قدم رکھنے کو ’گناہ‘ سمجھا جاتا ہو، وہاں ایک لڑکی کے گھر سے باہر نکلنے، اس کے میدان تک جانے، وہاں فٹبال کھلینے، اور پھر اسے معیوب خیال نہ کرنے کے جرم کو آپ کیا نام دیں گے؟

    آپ چاہے اسے جو بھی کہیں، لیکن افغانستان میں ایسی ہی ایک لڑکی کے لیے ’طوائف‘ کا لفظ استعمال کیا گیا، اور خالدہ پوپل اس لفظ کو سننے کی اس قدر عادی ہوچکی ہیں کہ اب انہیں اس لفظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

    خالدہ کو یہ لقب ان کے فٹبال کھیلنے کے جرم کی پاداش میں ملا ہے۔ وہ افغانستان میں 2007 میں تشکیل دی جانے والی پہلی خواتین فٹبال ٹیم کی کپتان ہیں اور فی الحال اپنے ملک سے دور جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔

    اپنے بچپن کے بارے میں بتاتے ہوئے خالدہ کہتی ہیں، ’مجھے فٹبال کھیلنے کی تحریک میری والدہ نے دی۔ وہ ایک روشن خیال خاتون تھیں اور انہوں نے ہمیشہ میری غیر نصابی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی‘۔

    kahlida-2

    خالدہ کو کھیلنے کے لیے فٹبال اور جوتوں کی پہلی جوڑی ان کی والدہ نے ہی اپنی جمع پونجی سے خرید کر دی۔

    اپنے بچپن میں وہ اپنے خاندان کی دیگر لڑکیوں کے ساتھ گھر کے صحن میں ہی فٹبال کھیلا کرتیں۔ لیکن ابھی وہ گھر سے باہر جا کر بلندیوں کی طرف اڑان بھرنے کا سوچ ہی رہی تھیں کہ افغانستان میں طالبان داخل ہوگئے اور ظلم و جہالت کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔

    کھلی فضاؤں میں سانس لینے کی غرض سے خالدہ کچھ عرصہ کے لیے اپنے والدین کے ساتھ سرحد پار کرکے پشاور میں مقیم ہوگئی۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ کب طالبان ان کا ملک چھوڑیں اور وہ واپس جا کر نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کریں۔

    وطن واپسی کے بعد، جب دارالحکومت کابل میں طالبان کا زور کچھ کم تھا، خالدہ اور ان کی والدہ نے لڑکیوں کے اسکولوں میں فٹبال اور دیگر کھیلوں کے کلب قائم کرنے کی تحریک شروع کی۔ اسکولوں میں ان کلبز کے قیام کے بعد افغانستان فٹبال فیڈریشن کے صدر سے ملاقات کی گئی اور ان سے خواتین کی فٹبال ٹیم تشکیل دینے کی درخواست کی گئی۔

    مزید پڑھیں: ریو اولمپکس میں شریک پہلی بلوچ خاتون ایتھلیٹ

    خوش قسمتی سے اس وقت کے افغانستان فٹبال فیڈریشن کے صدر کریم الدین کریم نے اس تجویز کو قابل عمل سمجھا اور افغانستان کی پہلی خواتین فٹبال ٹیم تشکیل پائی۔

    اس ٹیم نے جس میں صرف 4 لڑکیاں موجود تھیں، ابتدا میں مالی مشکلات کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا۔ ٹیم میں شامل کھلاڑی روشن خیال اور مہذب خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں اور انہیں اپنے والدین اور خاندان کی پوری حمایت حاصل تھی۔ کچھ ایسی بھی تھیں جنہیں فٹبال کا شوق تھا لیکن خاندان سے اجازت نہ ملنے کے باعث وہ اپنے گھروں کو چھوڑ آئی تھیں۔

    افغانیوں کے لیے اس بات کو تسلیم کرنا ذرا مشکل تھا۔

    افغانستان سے طالبان کا کنٹرول ختم ہونے کے باوجود ان کی سوچ لوگوں میں سرائیت کر چکی تھی اور لڑکیوں کا کھیلوں کے شعبہ میں جانا انتہائی برا خیال کیا جاتا تھا۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق کو للکارتی مصر کی خواتین بائیکرز

    خالدہ پوپل بتاتی ہیں، ’فٹبال کیریئر شروع کرنے کے بعد مجھے اپنے اسکول میں شدید تفریق کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے استاد مجھے کلاس سے باہر نکال دیتے تھے صرف اس لیے کیونکہ میں فٹبال کھیلتی تھی۔ مجھے اعتراض تھا کہ اگر مرد فٹبال کھیل سکتے ہیں تو ہم خواتین کیوں نہیں‘۔

    وہ بتاتی ہیں، ’لوگ ہم پر کچرا اور پتھر پھینکا کرتے تھے کیونکہ ہم فٹبال کھیلتی تھیں‘۔

    کچھ عرصہ بعد خالدہ نے فٹبال کو خواتین کی خود مختاری پر آواز بلند کرنے کے لیے علامتی طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ وہ کہتی ہیں، ’فٹبال میرے لیے خواتین کے ایک بنیادی حق کی حیثیت اختیار کرگیا۔ اگر مرد اس قسم کے چھوٹے چھوٹے فیصلوں میں خود مختار ہیں، کہ انہیں کہاں جانا ہے، کیا بننا ہے، کیا کھیلنا ہے تو خواتین کیوں نہیں‘۔

    k3

    وہ بتاتی ہیں، ’طالبان کے دور میں افغان خواتین بھول گئیں کہ وہ انسان بھی ہیں۔ کیونکہ معاشرے نے انہیں انسان سمجھنا چھوڑ دیا۔ خواتین پر طالبان کے قوانین کی خلاف ورزی پر سرعام تشدد کیا جاتا تو بھلا کون انسان ایسے سلوک کا حقدار ہے‘۔

    سنہ 2011 میں خالدہ نے بے تحاشہ دھمکیوں کے بعد بالآخر افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے خاندان اور زندگی کے درمیان ایک چیز کا انتخاب کیا اور ملک اور خاندان کو مجبوراً چھوڑ دیا۔

    اب وہ دنیا بھر میں خواتین کی فٹبال کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ خواتین کی خود مختاری کے لیے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این وومین سمیت کئی اداروں کی رکن بن چکی ہیں اور اپنی جدوجہد کی داستان سنا کر دنیا کو مہمیز کرتی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’میری آواز دنیا کی ان تمام خواتین کے لیے بلند ہوگی جو ظلم و جبر کی چکی میں پس کر اپنے انسان ہونے کی شناخت بھی بھول چکی ہیں۔ میں پہلے انہیں ان کی یہ شناخت واپس دلاؤں گی اس کے بعد ان کی شخصیت کی تعمیر کرنے میں ان کی مدد کروں گی‘۔

  • ہالی وڈ اداکارہ این ہیتھ وے اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر مقرر

    ہالی وڈ اداکارہ این ہیتھ وے اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر مقرر

    مشہور ہالی وڈ اداکارہ این ہیتھ وے کو اقوام متحدہ (خواتین) کی خیر سگالی سفیر مقرر کردیا گیا ہے۔ وہ نکول کڈمین اور ایما واٹسن کے بعد تیسری ہالی وڈ اداکارہ بن گئی ہیں جو اقوام متحدہ کے ساتھ خواتین کے حقوق کے لیے کام کریں گی۔

    فلم ’لیس مزر ایبل‘ میں معاون اداکارہ کے طور پر آسکر ایوارڈ جیتنے والی این ہیتھ وے خواتین کے حقوق کے لیے کام کریں گی۔ ہالی وڈ اداکارہ ایما واٹسن اور نکول کڈمین کے علاوہ تھائی لینڈ کی شہزادی بھی اس مشن میں ان کے ساتھ شامل ہیں۔

    این ہیتھ وے کا شعبہ ’کام کے دوران ماؤں کو دی جانے والی سہولیات‘ کا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فمزلے مالمبو کے مطابق یو این وومن آفسز میں خواتین کے ساتھ صنفی امتیاز کے خلاف کام کر رہی ہے اور این کی تقرری اسی مقصد کی ایک کڑی ہے۔

    اس موقع پر این نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس تقرری پر بہت فخر محسوس کر رہی ہیں اور صنفی امتیاز کے خاتمے پر کام کرنے کے لیے پرجوش ہیں۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ مختلف مقاصد کی تشہیر اور فروغ کے لیے مختلف اداکار و اداکاراؤں اور دیگر شعبوں کی مشہور شخصیات کو اپنا خیر سگالی سفیر مقرر کر چکا ہے۔

    اس سے قبل ایما واٹسن بھی یو این وومن کے ساتھ صنفی برابری کے لیے ’ہی فار شی یا خواتین کے لیے مرد‘ مہم کا آغاز کر چکی ہیں۔ نکول کڈمین یو این وومین کے ساتھ مل کر خواتین پر تشدد کے خلاف کام کر رہی ہیں۔

    جیمز بونڈ کا کردار ادا کرنے والے اداکار ڈینیئل کریگ بارودی سرنگوں کے نقصانات سے بچاؤ، جبکہ آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو کلائمٹ چینج کے خلاف اقوام متحدہ کے خیر سگالی سفیر ہیں۔

    مشہور اداکارہ انجلینا جولی بھی جنگ زدہ علاقوں میں جنسی تشدد کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر ہیں۔

    این ہیتھ وے اس سے قبل بھی ایک ادارے کے ساتھ ترقی پذیر ممالک میں لڑکیوں کی خود مختاری پر کام کر چکی ہیں جبکہ انہوں نے جنسی تشدد کے خلاف آگاہی کے لیے کینیا کا سفر بھی کیا تھا۔

    انہوں نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی جانب سے بنائی جانے والی ڈاکومنٹری ’گرل رائزنگ‘ میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا۔