Tag: خواتین

  • گاؤں دیہات میں بیت الخلا کی عدم دستیابی ۔ کیا وجہ صرف غربت ہے؟

    گاؤں دیہات میں بیت الخلا کی عدم دستیابی ۔ کیا وجہ صرف غربت ہے؟

    32 سالہ رحمت بی بی نے اپنی جھونپڑی کے دروازے سے باہر دیکھا، باہر گھپ اندھیرا تھا اور گہرا سناٹا۔ ایک لمحے کو اس کا دل گھبرایا لیکن باہر جانا بھی ضروری تھا، ضرورت ہی کچھ ایسی تھی۔

    رحمت بی بی کچھ دیر برداشت کرتی رہیں لیکن جب معاملہ اس کی برداشت سے باہر ہونے لگا تو مجبوراً اس نے برابر میں سوئی اپنی بہن کو جگایا، بہن بمشکل آنکھیں کھول کر اس کی بات سننے کی کوشش کرتی رہی، پھر معاملے کو سمجھ کر وہ اٹھ گئی، دونوں بہنیں باہر گئیں جہاں گھر سے کچھ دور جھاڑیاں ان کی منزل تھیں۔ جھاڑیوں کو بطور بیت الخلا استعمال کرنے کے بعد دونوں بہنیں واپس جھونپڑی میں تھیں لیکن اس دوران دونوں جیسے کئی میل کا سفر طے کر آئی تھیں۔

    رحمت بی بی پاکستان کی ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہیں جنہیں بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 22 لاکھ افراد کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں، یعنی ملک کی 13 فیصد آبادی بیت الخلا سے محروم ہے۔

    یہ افراد زیادہ تر گاؤں دیہات اور کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں۔ رحمت بی بی کا گاؤں بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہ گاؤں کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن کی حدود میں واقع ہے، اس کا نام مٹھو گوٹھ ہے، اور یہاں جا کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی کئی صدیاں پیچھے چلی گئی ہو۔

    صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کی قدرتی سرحد یعنی کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں واقع یہ گاؤں ایک پہاڑ پر آباد ہے۔ اس گاؤں میں تقریباً 100 گھر ہیں اور ہر گھر میں 8 سے 10 افراد موجود ہیں جن میں سے نصف تعداد خواتین کی ہے۔

    مٹھو گوٹھ 100 گھروں پر مشتمل گاؤں ہے

    گاؤں کا انحصار زراعت پر ہے، یہاں چھوٹے پیمانے پر گندم، گوار اور مختلف سبزیاں اگائی جاتی ہیں جو نہ صرف ان گاؤں والوں کے اپنے کام آتی ہیں بلکہ اسے شہر میں لے جا کر فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ گاؤں والوں نے مویشی بھی پال رکھے ہیں جن میں زیادہ تعداد بکریوں کی ہے، ان کا دودھ بھی شہر میں فروخت کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سب کا انحصار بارش پر ہے۔ گاؤں میں پانی کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں، بارش ہوتی ہے تو ہی ان کی فصلوں کو پانی ملتا ہے، اور جانور چارہ کھا سکتے ہیں۔ جس سال بارش کم ہو، اس سال یہاں خشک سالی ہوجاتی ہے اور یہاں کے لوگ عارضی طور پر ہجرت کر کے کسی دوسرے گاؤں یا شہر کے قریب جا رہتے ہیں، لیکن بارشیں ہوتے ہی واپس اپنے گاؤں مٹھو گوٹھ آجاتے ہیں۔

    طویل عرصے سے آباد یہاں کے لوگوں کے معاشی حالات یا گاؤں کے مجموعی حالات میں بظاہر تو کوئی تبدیلی نہیں آئی، البتہ حال ہی میں آنے والی ایک تبدیلی ایسی ضرور ہے جس کی خوشی یہاں کی خواتین کے چہروں پر چمکتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ تبدیلی ہے، خواتین کے لیے واش رومز کی تعمیر۔

    اس گاؤں میں صرف ایک واش روم تھا جو گاؤں کی مسجد کے باہر بنا ہوا تھا اور یہ مردوں کے زیر استعمال رہتا تھا۔ نماز کے لیے وضو کے علاوہ اسے عام اوقات میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

    کچھ سال قبل جب یہاں طوفانی بارشوں کے سبب سیلاب آیا، اور امداد دینے کے لیے یہاں حکومتی افراد، غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور مخیر افراد کی آمد شروع ہوئی تو ان کے لیے ایک اور واش روم کی ضرورت پڑی۔ تب ایک این جی او نے یہاں ایک اور باتھ روم بنوا دیا لیکن وہ صرف باہر سے آنے والے مہمانوں کے لیے مخصوص تھا، اور عام دنوں میں اسے کوئی استعمال نہیں کرتا تھا۔

    گاؤں کی خواتین صبح اور رات کے اوقات میں گھر سے دور، کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور تھیں۔ رحمت بی بی بتاتی ہیں، ’زیادہ مشکل اندھیرا ہونے کے بعد پیش آتی تھی۔ اس وقت کسی عورت کا اکیلے جانا ناممکن تھا۔ چنانچہ دو یا تین عورتیں مل کر ساتھ جایا کرتی تھیں، چھوٹی بچیاں عموماً اپنی بڑی بہنوں یا ماں کے ساتھ جاتیں۔‘

    رحمت بی بی خاندان کی دیگر خواتین کے ساتھ

    یہ ایک مستقل اذیت تھی جو گاؤں کی خواتین کو لاحق تھی۔ دن کے کسی بھی حصے میں اگر انہیں باتھ روم کی ضرورت پیش بھی آتی تو وہ اسے شام تک برداشت کرنے پر مجبور ہوتیں تاکہ مرد گھر لوٹ آئیں تو وہ سناٹے میں جا کر فراغت حاصل کرسکیں۔

    گاؤں میں پہلے سے موجود 2 باتھ روم ان کے لیے غیر ضروری تھے، کیونکہ ان میں سے ایک تو مہمانوں کے لیے مخصوص تھا، جبکہ دوسرا مردوں کے زیر استعمال تھا، لہٰذا وہ شرم کے مارے چاہ کر بھی اسے استعمال نہیں کرتی تھیں۔

    باتھ روم کی سہولت نہ ہونے اور صفائی کے ناقص انتظام کے باعث 2 خواتین یہاں ڈائریا کے ہاتھوں جان سے بھی دھو چکی تھیں۔

    ان خواتین کی زندگی کا یہ سب سے بڑا مسئلہ اس وقت حل ہوا جب ایک غیر سرکاری تنظیم نے خواتین کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے یہاں واش رومز بنوائے۔ خواتین کے لیے بنوائے جانے یہ دو بیت الخلا ان کے لیے رحمت ثابت ہوئے جو ان کے گھروں کو نزدیک بنوائے گئے تھے اور وہ دن کے کسی بھی حصے میں انہیں استعمال کرسکتی تھیں۔

    نو تعمیر شدہ بیت الخلا
    نو تعمیر شدہ بیت الخلا

    اس بارے میں تنظیم کے سربراہ منشا نور نے بتایا کہ یہاں پر بیت الخلا کی تعمیر کا مقصد ایک تو ان خواتین کو محفوظ باتھ روم کی سہولت فراہم کرنا تھا، دوسرا صفائی کے رجحان کو بھی فروغ دینا تھا۔ ’جب ہم نے یہاں بیت الخلا بنوانے کا ارادہ کیا تو گاؤں کی خواتین سے اس بارے میں تفصیلی مشاورت ہوئی۔ انہیں ایک محفوظ باتھ روم نہ ہونے کی پریشانی تو ضرور تھی تاہم وہ اس بات سے بے خبر تھیں کہ کھلے میں رفع حاجت اور صفائی کا فقدان ان کی صحت کے لیے خطرناک مسائل پیدا کرسکتا ہے۔‘

    منشا نور کے مطابق ان خواتین کو باتھ روم کی تعمیر کے ساتھ صحت و صفائی کے اصولوں کی بھی ٹریننگ دی گئی جیسے باتھ روم کے استعمال کے بعد ہاتھ دھونا، کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا، اور صابن کا باقاعدہ استعمال کرنا۔

    کیا بیت الخلا کی تعمیر میں کوئی سماجی رکاوٹ بھی ہے؟

    حکومت پاکستان کے ساتھ سینی ٹیشن پر کام کرنے والی تنظیم واٹر ایڈ کے پروگرام مینیجر عاصم سلیم کے مطابق گاؤں دیہات میں گھروں میں، یا گھروں کے قریب ٹوائلٹ نہ بنوانا، اس امر میں کہیں غربت ان کی راہ میں حائل ہے اور کہیں پر یہ ان کی صدیوں پرانی روایات و عادات کا حصہ ہے۔ ’ہر گاؤں میں ایک بیت الخلا ضرور ہوتا ہے لیکن اسے مہمانوں کے لیے تعمیر کیا جاتا ہے۔ مہمانوں کے لیے ایک مخصوص کمرہ بیٹھک (اور بعض زبانوں میں اوطاق) بیت الخلا کے بغیر ادھورا ہے، یہ کمرہ گاؤں کے بیچوں بیچ تعمیر کیا جاتا ہے اور اسے صرف مہمانوں کے لیے ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔‘

    عاصم کے مطابق اکثر گاؤں دیہات کے مقامی مرد و خواتین کھلے میں رفع حاجت کے عادی ہوتے ہیں اور یہ ان کی عادت بن چکا ہے چنانچہ ان کی ٹیم اسی عادت کو تبدیل کرنے پر کام کرتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض جگہوں پر گاؤں والے ایک خاص وجہ کے تحت بھی بیت الخلا نہیں بنواتے۔ چونکہ گاؤں والے کنوؤں اور ہینڈ پمس کے ذریعے زمین کا پانی نکال کر اسے پینے، فصلوں کو پانی دینے اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور ایسی جگہوں پر ایک باقاعدہ سیوریج سسٹم موجود نہیں ہوتا تو وہ سمجھتے ہیں کہ بیت الخلا بنوا کر اسے استعمال کرنا زیر زمین پانی کو آلودہ کرسکتا ہے۔ سیوریج سسٹم کی عدم موجودگی کے سبب وہ بیت الخلا بنوانا بے فائدہ سمجھتے ہیں۔

    بیت الخلا کی تعمیر میں کیا چیلنجز درپیش ہیں؟

    محکمہ صحت سندھ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سندھ میں سینی ٹیشن پالیسی سنہ 2017 میں تشکیل دی گئی تھی جس کا موٹو ’صاف ستھرو سندھ‘ رکھا گیا۔ اس کے تحت صوبائی حکومت کا وعدہ ہے کہ سنہ 2025 تک سندھ سے کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کا خاتمہ کردیا جائے گا۔

    لیکن ترجمان کا کہنا ہے کہ اس میں انہیں بہت سے چیلنجز درپیش ہیں، ’سب سے پہلا چیلنج تو لوگوں کی اس عادت کو بدلنا ہے کہ وہ کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کو ترک کر کے ٹوائلٹس کا استعمال شروع کریں۔‘

    ان کے مطابق اس سلسلے میں کمیونٹیز کے ساتھ کام کرنے والے افراد بھی مخمصے کا شکار ہیں کہ ان کی صدیوں پرانی اس عادت کو بدلنے کے لیے کون سا طریقہ آزمایا جائے۔

    انہوں نے بتایا کہ کئی مقامات پر جب لوگوں کو ٹوائلٹس تعمیر کروا کر دیے گئے تو ایک صاف ستھری اور طریقے سے بنی ہوئی جگہ کو بطور بیت الخلا استعمال کرنے کو ان کا دماغ تیار نہیں ہوا، چنانچہ اکثر افراد نے انہیں بطور اسٹور روم اور بعض نے بطور کچن استعمال کرنا شروع کردیا۔

    ترجمان کے مطابق اس وقت سندھ کے شہری علاقوں میں 74 فیصد افراد کو بیت الخلا کی سہولت میسر ہے جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح صرف 48 فیصد ہے۔

    ایک طرف تو سندھ حکومت اس غیر صحتمند رجحان کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے، تو دوسری طرف مختلف این جی اوز بھی ان کی مدد کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف، جنہیں سنہ 2030 تک مکمل کیا جانا ہے، میں چھٹا ہدف بھی اسی سے متعلق ہے کہ ہر شخص کے لیے محفوظ بیت الخلا کی دستیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔

    گاؤں دیہات کی خواتین کو ٹوائلٹ کی عدم موجودگی میں تکلیف میں مبتلا دیکھ کر امید کی جاسکتی ہے کہ سنہ 2025 تک کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کے خاتمے کا ہدف پورا ہوسکے گا۔

  • سعودی خاتون اسکالر کا منفرد کاروبار

    سعودی خاتون اسکالر کا منفرد کاروبار

    ریاض: سعودی خواتین زندگی کے ہر شعبے میں تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہیں، ایسی ہی ایک خاتون فوزیہ الزہرانی ہیں جو اسکالر ہونے کے ساتھ اپنے قہوے کا منفرد کاروبار چلا رہی ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق فوزیہ الزہرانی نے بزنس مینجمنٹ کا کورس کیا ہے اور الباحہ یونیورسٹی میں لیکچرر شپ ملنے کے باوجود انہوں نے قہوہ سازی کو ترجیح دی ہے۔

    فوزیہ کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ کوئی ایسا منفرد کام کروں جس سے معاشرے کی خدمت ہو اور حلال روزی میرے گھر میں آئے۔ اسی دوران مجھے قہوہ تیار کرنے اور انواع و اقسام کی مٹھائیاں بنانے کا خیال آیا۔

    ان کے مطابق انہوں نے قہوے اور مٹھائیوں کی ایسی دکان تیار کی ہے جسے جدید و قدیم کا حسین امتزاج قرار دیا جاسکتا ہے۔

    فوزیہ نے بتایا کہ وہ سنہ 2015 میں امریکا سے واپس آئی تھیں، امریکا میں انہوں نے میڈیکل سینٹرز اور تجارتی مراکز میں کام کیا تھا۔ ’میرا مقصد امریکا میں کاروبار کرنا یا پیسہ کمانا نہیں بلکہ تجربات حاصل کرنا تھا‘۔

    انہوں نے اپنی انواع و اقسام کے قہوے اور مٹھائیوں کی دکان کھولنے اور سجانے کے لیے قرضہ اسکیم سے فائدہ اٹھایا۔ اپنے کاروبار کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ قہوے کی سجاوٹ میں خوبصورت اضافہ وہی شخص کر سکتا ہے جسے اس کا ذوق ہو۔

    فوزیہ نے دیگر سعودی خواتین کو پیغام دیا ہے کہ وہ نہ صرف اس شعبے بلکہ دیگر کاروباری شعبوں میں بھی آگے آئیں، ’اگر کوئی مجھ سے مدد اور رہنمائی کا طلبگار ہوگا تو میں ضرور اس کی رہنمائی کروں گی‘۔

  • قیمتی گھڑیاں چرانے کے لیے 2 خواتین نے امیر زادے کو بے وقوف بنا دیا

    قیمتی گھڑیاں چرانے کے لیے 2 خواتین نے امیر زادے کو بے وقوف بنا دیا

    واشنگٹن: امریکی شہر لاس اینجلس میں دو خواتین ایک امیر شخص کو بیوقوف بنا کر اس کے گھر سے 2 قیمتی گھڑیاں لے اڑیں، پولیس نے دونوں کی تلاش شروع کردی۔

    پولیس کے مطابق مذکورہ خواتین کی متاثرہ شخص اور اس کے دوست سے ایک ریستوران میں ملاقات ہوئی، بعدا زاں چاروں افراد متاثرہ شخص کے گھر پہنچے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ خواتین نے دونوں مردوں کے مشروبات میں کچھ شامل کیا۔ ان میں سے ایک خاتون نے سرخ بالوں کی وگ پہنی ہوئی تھی۔

    تھوڑی دیر بعد سرخ بالوں والی خاتون اور متاثرہ شخص کا دوست گھر سے باہر چلے گئے، تاہم تھوڑی ہی دیر بعد وہ خاتون ریسٹ روم استعمال کرنے کا کہہ کر گھر کے اندر واپس چلی گئیں۔

    جب کافی دیر تک وہ واپس نہ آئی تو دوست گھر کے اندر آیا، اس نے دیکھا کہ دونوں خواتین وہاں موجود نہیں تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے دوست کو کمرے کے اندر بے ہوش حالت میں پایا۔

    ایمبولینس کے آنے کے بعد متاثرہ شخص کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس کی حالت بہتر بتائی جارہی ہے۔ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اس کے بے ہوش ہونے کی وجہ کیا بنی۔

    بعد ازاں علم ہوا کہ مذکورہ شخص کے کمرے سے 2 نہایت قیمتی گھڑیاں بھی غائب ہیں، پولیس نے گھڑیوں کی مالیت ظاہر نہیں کی۔

    دونوں خواتین کی عمریں 20 سے 30 برس کے درمیان بتائی جارہی ہیں، پولیس واقعے کی مزید تفتیش کررہی ہے۔

  • سپریم کورٹ کا خواتین کے مقدمات میں خاتون تفتیشی افسر مقرر کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ کا خواتین کے مقدمات میں خاتون تفتیشی افسر مقرر کرنے کا حکم

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے خواتین کے مقدمات میں خاتون کو ہی تفتیشی افسر مقرر کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے پولیس کو سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اپنی ذہنیت تبدیل کریں اور غلامی سے نکلیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں گوجرانوالہ میں خلع کے بعد اغوا کی جانے والی خاتون کی درخواست کی سماعت ہوئی، سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اہم احکامات جاری کردیے۔

    سپریم کورٹ نے خواتین کے مقدمات میں خاتون کو ہی تفتیشی افسر بنانے کا حکم دے دیا، سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ ایس او پی تمام تھانوں میں آویزاں کردیے جائیں اور ایس او پی کا اردو ترجمہ تمام ایس ایچ اوز تک پہنچائے جائیں۔

    آئی جی کو آئی جی صاحب کہنے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایس پی کی سخت سرزنش کر ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ آئی جی صاحب کوئی نہیں ہوتا آئی جی صرف آئی جی ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے سنہ 47 میں آزادی حاصل کر لی تھی، لیکن پولیس ابھی تک انگریز کے دور میں ہے۔ دنیا میں کہیں آئی جی کو آئی جی صاحب نہیں کہا جاتا، پولیس اپنی ذہنیت تبدیل کرے اور غلامی سے نکلے۔

    سپریم کورٹ نے خاتون کے کیس میں مرد تفتیشی افسرمقرر کرنے پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے کہا کہ ایس او پی کے مطابق خواتین کے مقدمات میں خاتون افسر تفتیش کر سکتی ہیں۔

    وکیل نے کہا کہ گوجرانوالہ میں خاتون کے مبینہ اغوا اور زیادتی کے مقدمے کی تفتیش مرد تفتیشی افسر نے کی، مرد افسر کی تفتیش پر عدالت نے سوال اٹھایا تو ایس پی نے آئی او کو شوکاز جاری کیا۔

    عدالت نے ایس پی کے شوکاز نوٹس جاری کرنے پر سوال اٹھا دیا، عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ کیا ایس پی اپنے ماتحت جس کو وہ خود تعینات کرتا ہو شوکاز نوٹس جاری کرسکتا ہے؟

    سرکاری وکیل نے کہا کہ ایس پی شوکاز نہیں جاری کر سکتا، نوٹس واپس لے لیا جائے گا۔

    عدالت نے مرد تفتیشی افسر مقرر کرنے پر متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کا حکم دے کر درخواست نمٹا دی۔

  • خواتین کا کٹی پتنگ کے لیے ناقابل یقین جیمز بانڈ ایکشن، ویڈیو وائرل

    خواتین کا کٹی پتنگ کے لیے ناقابل یقین جیمز بانڈ ایکشن، ویڈیو وائرل

    فیصل آباد: پنجاب کے شہر فیصل آباد میں خواتین نے کٹی پتنگ کے لیے ناقابل یقین حد تک جیمز بانڈ ایکشن کا مظاہرہ کر کے لوگوں کو حیران کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق فیصل آباد کے علاقے مدن پورہ میں پتنگ باز خواتین نے کٹی پتنگ کے لیے اپنے ایکشن سے دیکھنے والوں کو حیران کر دیا، رسی کی مدد سے چھت سے لڑکی کے اترنے اور چڑھنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔

    فوٹیج کے مطابق مدن پورہ کے ایک گھر کی چھت پر کچھ خواتین پتنگ بازی میں مصروف تھیں کہ ایک پتنگ کٹ کر نیچے گلی میں گری، خواتین نے پتنگ اٹھانے کے لیے ایک لڑکی کو رسی کے ذریعے نیچے گلی میں اتارا۔

    فوٹیج میں لڑکی کو چھت سے کٹی پتنگ اٹھاتے دیکھا جا سکتا ہے، جب کہ چھت پر موجود 4 خواتین رسی لٹکاتے ہوئے بھی دیکھی جا سکتی ہیں، چھت پر موجود خواتین نے لڑکی کو رسی کے سہارے پہلے نیچے اتارا اور اوپر کھینچا۔ ویڈیو میں منڈیر کے قریب خواتین کو خطرناک انداز میں لڑکی کو تھامتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایکشن مکمل ہونے پر قریبی چھتوں پر موجود منچلوں نے تالیاں بجا کر پاکستانی جیمز بانڈ خواتین کو داد دی۔

    دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے فیصل آباد میں پتنگ بازی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کمشنر اور آر پی او کو کارروائی کا حکم دے دیا ہے، عثمان بزدار نے کہا کہ پابندی کے باوجود پتنگ بازی کے واقعات ناقابل برداشت ہیں، جہاں بھی غفلت ہوئی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

    دریں اثنا، فیصل آباد میں پتنگ بازوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں 275 پتنگ بازوں اور دکان داروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، ملزمان سے 7820 پتنگیں، 1500 چرخی کیمیکل ڈور برآمد ہوئی، پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کے خلاف مختلف تھانوں میں 243 مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں بھی پاک بنگلا دیش ٹیسٹ میچ کے دوران ایک کٹی پتنگ اڑتی ہوئی آ گری تھی۔

  • سعودی دارالحکومت ریاض کو خواتین سے منسوب کردیا گیا

    سعودی دارالحکومت ریاض کو خواتین سے منسوب کردیا گیا

    ریاض: سعودی دارالحکومت ریاض کو رواں برس خواتین سے منسوب کردیا گیا، یہ فیصلہ سعودی عرب کے رواں برس عرب خواتین کمیٹی کا صدر رہنے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق عرب خواتین کمیٹی کا 39 واں اجلاس عرب لیگ کے بینر تلے 9 اور 10 فروری کو سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقد ہوگا جس میں عرب ممالک کے وفود، وزرا، سربراہان، عرب خواتین کے قومی اداروں، عرب اور عالمی تنظیموں کے نمائندے شرکت کریں گے۔

    سعودی عرب ایک برس تک عرب خواتین کمیٹی کا صدر رہے گا، اس موقع پر ریاض کو سنہ 2020 میں عرب خواتین کے دارالحکومت کا نام دیا جائے گا۔

    عرب خواتین کمیٹی کے اجلاس کے ایجنڈے میں اہم موضوعات شامل ہیں جس میں عرب دنیا میں خواتین کی خود مختاری کے اقدامات پر بحث سرفہرست ہے۔

    اجلاس میں عرب معاشروں میں خواتین کے کردار کو فروغ دینے سے متعلق وزارتی کانفرنس کی سفارشات کا جائزہ بھی لیا جائے گا جبکہ خواتین سے متعلق بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کے طریقہ کار کو جدید خطوط پر استوار کرنے پر غور ہوگا۔

    سعودی حکام کا کہنا ہے کہ ان دنوں سعودی عرب میں وژن 2030 کے مطابق خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لیے متعدد اصلاحات نافذ کی جا رہی ہیں۔

    ان اصلاحات کی بدولت سعودی خواتین کو مختلف شعبوں میں کامیابی ملی ہے، خواتین کے حوالے سے قانون سازی ہوئی ہے اور کئی اہم فیصلے بھی کیے گئے ہیں۔

  • خانہ بدوش شوہر نے بیوی کا سر مونڈ دیا، ملزم گرفتار

    خانہ بدوش شوہر نے بیوی کا سر مونڈ دیا، ملزم گرفتار

    کبیروالا: پنجاب کے ضلع خانیوال کے شہر کبیروالا میں افسوس ناک واقعہ پیش آیا، خانہ بدوش شوہر نے بیوی کے سر کے بال کاٹ کر اسے گنجی کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کبیر والا میں خانہ بدوش گل شیر نے بیوی پر تشدد کر کے اس کے سر کے بال کاٹ دیے، گل شیر نے اپنی بیوی زبیدہ کو شک کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا۔

    سٹی کبیر والا پولیس نے موقع پر پہنچ کر ملزم کو گرفتار کر لیا، شوہر کے تشدد سے خاتون کے چہرے، بازو اور کمر پر زخم آئے۔ خاتون کا کہنا تھا کہ شوہر نے اسے مارا پیٹا اور قینچی سے سر کے بال کاٹ دیے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ خانہ بدوش گل شیر نے دوسری شادی کی ہے، گھریلو ناچاقی کی وجہ سے اس نے بیوی پر تشدد کیا اور اس کا سر مونڈ دیا۔ ملزم کو موقع ہی پر گرفتار کر لیا گیا ہے، ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔

    خاتون نے پولیس کو بتایا کہ وہ نیو سبزی منڈی میں واقع جھگیوں میں اپنے گھر میں موجود تھی کہ شوہر نے آکر تشدد کیا، اس نے دوسری شادی کر رکھی ہے اور اب مجھ پر شک کرتا ہے کہ دیور کے ساتھ میرے ناجائز تعلقات ہیں، تشدد کے دوران میرے شور مچانے پر مجھے شوہر کے چنگل سے رشتے دار نے آکر بچایا۔

  • ریاض میں خواتین کے لیے موٹر سائیکل چلانے کی تربیت

    ریاض میں خواتین کے لیے موٹر سائیکل چلانے کی تربیت

    ریاض: سعودی دارالحکومت ریاض میں قائم موٹر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں خواتین کو بھی موٹر سائیکل چلانے کی تربیت دینے کا آغاز کردیا گیا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق ریاض میں قائم بائیکرز اسکل انسٹی ٹیوٹ سعودی عرب کا پہلا ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ہے۔ یہاں موجود یوکرین کی تجربہ کار انسٹرکٹر ایلینا بکریویا بھی فی الوقت سعودی عرب میں خواتین بائیکرز کے لیے واحد ٹرینر ہیں۔

    انسٹی ٹیوٹ میں ابتدائی طور پر جو خصوصی کورسز سکھائے جا رہے ہیں ان میں بیسک موٹر سائیکل رائیڈنگ، اسمارٹ رائیڈنگ اور ٹاپ گن موٹو جمخانہ جیسے پروگرام شامل ہیں۔

    انسٹی ٹیوٹ میں اس وقت موٹر سائیکل چلانے کی تربیت لینے کے لیے مختلف ممالک کی 43 خواتین بائیکرز میں 20 سعودی خواتین کے علاوہ مصر، لبنان اور برطانوی خواتین بھی شامل ہیں۔

    انسٹرکٹر ایلینا کے مطابق یہاں پر خواتین کے لیے ڈرائیونگ پر پابندی ختم ہونے کے بعد ان تربیتی پروگراموں کا آغاز کیا گیا ہے۔ یہ کورسز بین الاقوامی معیار کے مطابق ہیں اور حفاظت کی بنیادی باتیں سکھانے کے اسباق پر مشتمل ہیں۔

    یہاں موٹر سائیکلوں کے بارے میں ابتدائی معلومات سے لے کر متوقع پیچیدگیوں کے بارے میں بائیک سواروں کو تعلیم دی جا رہی ہے فیلڈ ٹریننگ میں گیئر شفٹوں سے لے کر ایمرجنسی اسٹاپس، یو ٹرنز اور کارنرننگ تک ہر چیز سکھائی جاتی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ درحقیقت نئی اور مفید چیزوں کو اپنانے اور قبول کرنے میں سعودی معاشرے نے اپنی صلاحیت کو ثابت کردیا ہے اور یہ نہایت قابل تعریف ہے۔

  • سعودی عرب کی خواتین ملٹری پولیس اہلکاروں کے لیے منفرد تربیت

    سعودی عرب کی خواتین ملٹری پولیس اہلکاروں کے لیے منفرد تربیت

    ریاض: سعودی عرب کی ملٹری پولیس کی خواتین اہلکاروں کو انوکھی تربیت دی جارہی ہے جس سے ان کی کارکردگی و استعداد میں اضافہ ہوگا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق جدہ اور طائف کی جیلوں میں ملٹری پولیس کی خواتین اہلکاروں کو تلاشی لینے کی مشق سکھائی جا رہی ہے، سعودی بری فوج کی خواتین ملٹری پولیس اہلکاروں کے لیے تربیتی کورس کا انعقاد 5 دن تک جاری رہے گا۔

    مکہ مکرمہ کے محکمہ جیل خانہ جات کے قائم مقام سربراہ بریگیڈیئر ڈاکٹر ابراہیم بن سعد الغامدی نے کہا ہے کہ پہلی مرتبہ اس نوعیت کا تربیتی کورس منعقد کیا جارہا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ کورس میں خواتین ملٹری پولیس اہلکاروں کو تفتیش اور تلاشی کے گر سکھائے جائیں گے، جیل میں سامان کی تلاشی، امن و امان برقرار رکھنے، قیدیوں اور وزیٹر کی سلامتی اور ریکارڈ رکھنے کی بھی تربیت دی جا رہی ہے۔

    ڈاکٹر ابراہیم کے مطابق خواتین اہلکاروں کے لیے تربیتی کورس مسلح افواج اور محکمہ جیل خانہ جات کے درمیان تعاون کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

    خیال رہے کہ سعودی عرب کی مسلح فواج میں خواتین کی بھرتی کا عمل کچھ عرصہ قبل ہی شروع کیا گیا ہے، سعودی افواج کے چیف آف اسٹاف جنرل فیاض بن حامد الرویلی نے مسلح افواج میں پہلے لیڈیز آرمی ونگ کا افتتاح کیا تھا۔

    سعودی مسلح افواج مختلف شعبوں میں تعیناتی کے لیے خواتین کو طلب کر رہی ہے۔

  • سعودی فوج میں خواتین کی شمولیت کا آغاز

    سعودی فوج میں خواتین کی شمولیت کا آغاز

    ریاض: سعودی عرب کی آرمی میں خواتین کی شمولیت کا عمل شروع ہوگیا، مقامی خواتین کی بڑی تعداد نے مسلح افواج میں شمولیت کے لیے درخواستیں دیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب کی مسلح افواج میں خواتین کی بھرتی کا عمل شروع کردیا گیا، سعودی افواج کے چیف آف اسٹاف جنرل فیاض بن حامد الرویلی نے مسلح افواج میں پہلے لیڈیز آرمی ونگ کا افتتاح کیا۔

    سعودی مسلح افواج مختلف شعبوں میں تعیناتی کے لیے خواتین کو طلب کر رہی ہے۔

    مسلح افواج میں عسکری تربیت اور داخلہ جات کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عماد بن عبداللہ العیدان نے اس موقع پر چیف آف سٹاف کو بتایا کہ ملک کے مختلف علاقوں سے خواتین کو فوج میں بھرتی کرنے کے لیے سہولتیں مہیا کی جارہی ہیں۔

    محکمہ دفاع کی جانب سے اس حوالے سے تمام انتظامات کیے گئے ہیں۔ تقریب میں چیف آف سٹاف جنرل حامد الرویلی کو یادگاری تحفہ بھی پیش کیا گیا۔

    خیال رہے کہ سعدوی حکومت نے گزشتہ برس اکتوبر میں خواتین کو مسلح افواج میں ملازمتیں دینے کا اعلان کیا تھا، سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ مقامی خواتین اگر مسلح فوج میں ملازمت کرنا چاہتی ہیں تو انہیں مکمل اجازت ہے۔

    سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ایک اور قدم، اب تاریخ میں پہلی بار سعودی خواتین بھی آرمی میں شمولیت کرسکیں گی۔

    مسلح افواج میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے شادی شدہ یا غیر شادی شدہ کی شرط عائد نہیں کی گئی تھی۔