Tag: خواتین

  • سہیلیوں کے ساتھ وقت گزارنا خواتین کی صحت میں بہتری کا سبب

    سہیلیوں کے ساتھ وقت گزارنا خواتین کی صحت میں بہتری کا سبب

    یوں تو دوستوں سے اچھا تعلق ذہنی تناؤ سے نجات میں معاون ثابت ہوتا ہے، تاہم حال ہی میں ماہرین نے کہا ہے کہ خواتین اگر اپنی صحت کو بہتر بنانا چاہتی ہیں تو انہیں چاہیئے کہ اپنی سہیلیوں سے دوستی کو مزید گہرا کرلیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ جب خواتین اپنی اچھی دوستوں کے ساتھ اچھا وقت گزارتی ہیں تو ان میں اوکسی ٹوسن نامی ہارمون میں اضافہ ہوتا ہے۔

    یہ ہارمون دوسروں پر بھروسہ کرنے اور دوستی کے جذبے میں اضافہ کرتا ہے، اسے محبت کا ہارمون بھی کہا جاتا ہے۔

    دراصل دوستوں کے ساتھ اچھا وقت گزارنا ذہنی و دماغی صحت کے لیے مفید ہے۔

    ایک تحقیق میں یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ مضبوط اور خوش رکھنے والے سماجی رشتے کسی شخص کی عمر میں اضافہ کرسکتے ہیں جبکہ ڈیمینشیا کے خطرے اور ذہنی تناؤ میں کمی کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے ارد گرد چند اچھے اور گہرے دوستوں کی موجودگی ہماری صحت پر حیران کن مثبت اثرات مرتب کرتی ہے، لہٰذا ایسے دوست جن کے ساتھ آپ خوشی محسوس کرتے ہوں ان سے اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔

    ماہرین طب کے مطابق خواتین کی صحت کے لیے سب سے فائدہ مند بات یہ ہے کہ اپنی سہیلیوں سے تعلق کو گہرا اور مضبوط کیے رکھیں۔

    آپ اس تحقیق سے کتنے متفق ہیں؟

  • گھریلو تشدد سے ہلاک خواتین کی یاد میں انوکھا اقدام

    گھریلو تشدد سے ہلاک خواتین کی یاد میں انوکھا اقدام

    انقرہ: ترکی میں گھریلو تشدد کے باعث ہلاک ہونے والی خواتین کی یاد میں سڑک پر ایک منفرد ڈسپلے رکھا گیا جس نے گزرنے والوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔

    ترکی کے شہر استنبول میں ایک سڑک پر جوتوں کی دیوار بنا دی گئی، دیوار پر سجائے گئے جوتوں کے 440 جوڑے، ان 440 خواتین کی یاد میں رکھے گئے جو سنہ 2018 میں اپنے گھر والوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئیں۔

    یہ ڈسپلے ایک ترک فنکار وحیت تونا نے کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ڈسپلے کا مقصد یہ ہے کہ سڑک پر سے گزرتے لوگ رک کر اس دیوار کو دیکھیں اور خواتین پر ہونے والے تشدد کے بارے میں سوچیں۔

    ترکی میں تقریباً 38 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں اور ان میں 15 سے لے کر 59 سال تک کی ہر عمر کی عورت شامل ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2018 میں 440 خواتین گھریلو تشدد سے ہلاک ہوئیں، اور رواں برس یہ تعداد بڑھ گئی۔ سنہ 2019 کے صرف پہلے 6 ماہ میں گھریلو تشدد سے مرنے والی خواتین کی تعداد 214 رہی۔

    رواں برس کے آغاز میں اس وقت پورے ملک میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا جب ایک خاتون کے سابق شوہر نے بیٹی کے سامنے انہیں قتل کردیا تھا، اس وقت ہزاروں خواتین سڑکوں پر نکل آئیں اور ملک میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے مظاہرے کیے۔

    38 سالہ خاتون کے مرنے سے قبل آخری الفاظ تھے، ’میں مرنا نہیں چاہتی‘۔

    ترک فنکار کو امید ہے کہ ان کا یہ عمل ان آگاہی کی کوششوں کا ایک فائدہ مند حصہ ثابت ہوگا جو ملک بھر میں خواتین پر تشدد کے خلاف کی جارہی ہیں۔

  • گھر بیٹھی خواتین کو معاشی عمل کا حصہ بنانا ہے: فردوس عاشق اعوان

    گھر بیٹھی خواتین کو معاشی عمل کا حصہ بنانا ہے: فردوس عاشق اعوان

    سیالکوٹ: وزیر اعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معاشی برتری تک دنیا اس کی بات توجہ سے نہیں سنے گی، 52 فیصد گھر بیٹھی خواتین کو معاشی محاذ پر لانا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے اسٹیٹ بینک کی ایس ایم ایز فنانس کی آگاہی پر ہونے والی تقریب میں شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو معاشی ترقی میں سہولت دینا وزیر اعظم کے مشن کا عکاس ہے۔

    معاون خصوصی نے کہا کہ ملک کے ساتھ ناانصافیاں ہوئی ہیں، ملک کو گدھ بن کر نوچا گیا۔ صنعتی پالیسی میں ایس ایم ایز کا کردار ہوگا۔ سنہ 2023 تک ایک کھرب 900 ارب روپے کا حجم رکھا گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم گھریلو صنعت کو فروغ دینا چاہتے ہیں، خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے 6 ارب رکھے گئے ہیں۔ خواتین کو قرضوں کی مد میں ہر ممکن سہولیات دی جائیں گی۔

    معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ سرحدوں پر لڑی جانے والی جنگوں کا رواج ختم ہو چکا ہے، اب جنگ وہی جیتے گا جو معاشی طور پر مستحکم ہوگا۔ 52 فیصد گھر بیٹھی خواتین کو معاشی محاذ پر لانا ہے۔ پاکستان کی معاشی برتری تک دنیا اس کی بات توجہ سے نہیں سنے گی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کو مضبوط کرنے تک ملکی معیشت میں استحکام نہیں لایا جا سکتا، حکومت خواتین کو اپنی صلاحیتیں منوانے کے مواقع دے گی۔ خواتین ملک کی طاقت بنیں۔

    معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے احسن طریقے سے مسلمانوں اور کشمیریوں کا مقدمہ لڑا، وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں اسلام کے حقیقی چہرے کو پیش کیا۔ کپتان نے کہا مسئلہ فلسطین کے حل تک اسرائیل تسلیم نہیں، وزیر اعظم نے دنیا پر واضح کیا کہ اسلام ایک ہی ہے۔ وزیر اعظم ہمیشہ پسے ہوئے طبقے کی آواز بنے۔

  • عہد حاضر میں زیورات کا استعمال اورجدت کے نئے رنگ

    عہد حاضر میں زیورات کا استعمال اورجدت کے نئے رنگ

    سجنا سنورنا اورخوبصورت نظر آناخواتین کا پیدائشی حق ہوتاہے ۔ نئے زمانے میں جہاں ہر چیز میں جدت آچکی ہے وہیں خواتین اپنے بناؤ سنگھار میں جدت سے بھلا کیوں پیچھے رہیں اور جہاں بات آجائے بناو ٔسنگھار کی تو زیورات کے بغیر تو ہر فیشن ادھورا معلوم ہوتاہے ۔

    ماضی میں سونے اور چاندی کے زیوارت ہی خواتین کا اصل زیورمانے جاتے تھے لیکن وقت کے ساتھ مہنگائی نے خواتین کے لیے سونا چاندی کے زیوارت خریدنا مشکل بنادیا ہے اور اسی مشکل کے سبب بڑھی ہے مانگ مصنوعی زیورات کی ۔ چوڑیاں ، کنگن، انگوٹھیاں ، بندے ، بالیاں، ہار ، پازیب، یوں تو زیورات کی اقسام وہی پرانی ہیں لیکن جدید دور میں ڈیزائنز میں آنے والی جدت نے سجنے سنورنے کے تقاضوں کو غیر معمولی بنادیاہے ۔

    سر سے لے کر پاوں تک خواتین کے حسن کو کئی گنا بڑھاتے یہ زیورات کل بھی سجنے سنورنے کیے لیے ضروری تھے ۔۔اور آج بھی لازمی ہیں۔


    1 .خوبصورت ہاتھوں میں اگر نگینے جڑی سنہری چمکتی انگوٹھی نہ ہوتو سجاوٹ ادھوری سی لگتی ہے۔.2 کلائیاں چوڑیوں کے بغیر سونی سونی سی لگتی ہیں۔بازار میں خوبصورت رنگوں سے مزین اور منقش چوڑیاں دستیاب ہیں۔3 .روز مرہ کے استعمال کے لیے الگ نازک یا ڈیسنٹ ڈیزائنز میں دھاتی چوڑیوں او ر کڑوں کا سیٹ مناسب قیمتوںمیں موجود ہیں۔4 . شادی بیاہ ، عید ،بقریٰ عید سمیت دیگر تہوار کے لیے بھاری بھرکم ڈیزائنز دیکھتے ہی خواتین کی آنکھوں میں چمک آجاتی ہے !!!!.5 چہرے کی خوبصورتی تو اُس وقت تک کھل کر ہی سامنے نہیں آتی جب تک کانوں میں بندے یا بالیاں نہ پہن لی جائیں ۔۔6 . بندے بھی کوئی ایسے ویسے سادہ سے نہیں ۔۔۔ بھاری یا ہلکے ، ہر قسم کی نگینے جڑے بندے بھی مارکیٹ میں اِن ہیں ۔

    .7 جدید دور ہے ، ایک سے بڑھ کر ایک نئے ڈیزائنز کے چھوٹے بڑے مختلف رنگوں کے موتیو ں سے بنے جھمکے بھی لڑکیوں میں بے حدمقبول ہیں ۔

    .8 اگر موڈ ہو مغربی ڈریسنگ کا تو نگینے جڑے کیچر سے اپنے بالوں کی پونی ٹیل باندھیں کہ اس کے ذریعے خواتین مزید پرکشش نظر آتی ہیں۔

    .9 مغربی یا مشرقی ۔۔ لباس جیسا بھی ہو ۔۔ کلرڈ موتیوں کے نیکلیس خواتین کی شخصیت کو فوری اسٹائلش بنا دیتے ہیں۔

    کہیں تقریب میں جانا ہے اور بھاری زیورات کا دل نہ ہوتو میچنگ چوڑیوں سے ہی سوٹ کا رنگ بھی نکھر کر آجاتا ہے۔

    .11 آج کل لمبے پینڈنٹ کے ساتھ ساتھ نت نئے ڈیزائنز کے ہار بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں ۔ مختلف دھاتوں پر دیدہ زیب رنگوں کے نگینوں سے سجے یہ ہار خواتین کو لمحوں میں ہی اسٹائلش بنا دیتے ہیں۔

    .12بچیاں کس کو نہیں پیاری۔ چھوٹی بچیوں کی کلائیاں چوڑیوں کے سنگ مزید پیاری لگتی ہیں۔


    تحریرو تصاویر: شازیہ تسنیم فاروقی

  • کیا آپ بھی سیزیرین آپریشن کے حوالے سے ان توہمات کا شکار ہیں؟

    کیا آپ بھی سیزیرین آپریشن کے حوالے سے ان توہمات کا شکار ہیں؟

    آج کل دنیا بھر میں سیزیرین ڈلیوری کا رجحان بے حد بڑھ گیا ہے، اس کی وجہ ماؤں کا حمل کے دوران احتیاطی تدابیر نہ اپنانا، زچگی کے وقت کسی پیچیدگی کا پیش آجانا یا کم علمی اور غفلت کے باعث اس پیچیدگی سے صحیح سے نہ نمٹ پانا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد حاملہ خواتین نارمل ڈلیوری کے عمل سے باآسانی گزر سکتی ہیں جبکہ صرف 15 فیصد کو آپریشن کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تاہم آج کل ہر 3 میں سے ایک حاملہ خاتون آپریشن کے ذریعے نئی زندگی کو جنم دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    سیزیرین ڈلیوری سے متعلق کچھ توہمات نہایت عام ہیں جن کا بڑا سبب کم علمی ہے۔ آج ہم ایسے ہی توہمات اور ان کی حقیقت سے آپ کو آگاہ کرنے جارہے ہیں۔

    سیزیرین آپریشن کے بعد نارمل ڈلیوری ناممکن ہے

    ایک عام خیال ہے کہ ایک بار سیزیرین ڈلیوری کے بعد نارمل ڈلیوری کے ذریعے بچے کو جنم دینا ناممکن ہے، یہ خیال بلکل غلط ہے۔

    سیزیرین آپریشن کے بعد ڈاکٹر ماں کا چیک اپ کرتے ہیں اور اس کے بعد انہیں بتاتے ہیں کہ آیا ان کا اندرونی جسمانی نظام اب اس قابل ہے کہ وہ مستقبل میں نارمل ڈلیوری کے عمل سے گزر سکتی ہیں یا انہیں ہر بار سیزیرین آپریشن ہی کروانا ہوگا۔

    80 فیصد خواتین میں یہ خدشہ نہیں ہوتا اور ڈاکٹرز انہیں بالکل فٹ قرار دیتے ہیں جس کے بعد ان خواتین میں دیگر بچوں کی پیدائش نارمل طریقہ کار کے ذریعے ہوسکتی ہے۔

    زندگی میں کتنے سیزیرین آپریشن ہوسکتے ہیں

    یہ ماں بننے والی خاتون کے اندرونی جسمانی نظام پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کتنی بار اس تکلیف دہ عمل سے گزر سکتی ہے۔ بعض خواتین کے لیے ایک بار سیزیرین آپریشن کروانے کے بعد مزید سیزیرین آپریشن کروانا خطرناک ہوسکتا ہے۔

    ایسی خواتین اگر بعد میں نارمل ڈلیوری کے عمل سے نہ گزر سکتی ہوں تو انہیں ڈاکٹر کی جانب سے واضح طور پر بتا دیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ ماں بننے سے گریز کریں ورنہ ان کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

    بعض خواتین متعدد بار سیزیرین آپریشن کے عمل سے گزر سکتی ہیں۔ یہ مکمل طور پر خواتین کی اپنی قوت مدافعت، جسمانی نظام اور صحت مند جسم پر منحصر ہوتا ہے۔

    آپریشن کے دوران کچھ محسوس نہیں ہوتا

    بعض خواتین ڈلیوری کی تکلیف سے بچنے کے لیے سیزیرین آپریشن کروانا چاہتی ہیں تاکہ انہیں سن ہونے والی دوائیں دی جائیں اور انہیں کچھ محسوس نہ ہو۔

    ایسا نہیں ہے کہ سیزیرین آپریشن کے دوران کچھ محسوس نہیں ہوتا، ہلکا پھلکا دباؤ یا تھوڑی بہت تکلیف محسوس ہوسکتی ہے۔ البتہ آپریشن کے بعد درد، جسم میں کپکپاہٹ، متلی اور الٹیاں وغیرہ محسوس ہوسکتی ہیں۔

    صحتیابی کے عرصے میں فرق

    سیزیرین آپریشن کے 4 سے 5 دن بعد ماں کو گھر جانے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ ان کی مکمل صحتیابی کا وقت بھی تقریباً مہینہ بھر ہوتا ہے۔

    اس کے برعکس نارمل ڈلیوری میں ایک سے دو دن بعد گھر جانے کی اجازت مل جاتی ہے اور مکمل صحتیابی بھی صرف 2 ہفتوں میں ہوجاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے تجاویز

  • بارش کا پانی آپ کے بالوں کے لیے فائدہ مند

    بارش کا پانی آپ کے بالوں کے لیے فائدہ مند

    خوبصورت اور چمکدار زلفیں ہر انسان کو پسند ہوتی ہیں خصوصاً خواتین اپنے بالوں کو چمکدار اور صحت مند بنانے کے لیے ہر طرح کے جتن اور ٹوٹکے کرتی ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں بارش کا پانی ان تمام ٹوٹکوں پر حاوی ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بارش میں نہانے سے ہمارے بال چمکدار اور نرم و ملائم ہوجاتے ہیں، اس کے لیے صرف بارش میں نہانا ہی ضروری نہیں بلکہ آپ بارش کے پانی کو محفوظ کر کے بعد میں بھی اس سے نہا سکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بارش کا پانی عام پانی سے مختلف ہوتا ہے، بارش کے پانی کو سافٹ واٹر جبکہ عام پانی کو ہارڈ واٹر کہا جاتا ہے کیوں کے بارش کا پانی نمک اور دیگر معدنیات سے پاک و صاف ہوتا ہے۔

    گو کہ اس پانی میں بھی کچھ کیمیکلز موجود ہوسکتے ہیں تاہم ان کی مقدار اور شدت عام پانی سے کم ہوتی ہے۔

    البتہ اگر آپ بارش کے پانی کو اپنے بالوں کے لیے آزمانا چاہتے ہیں تو خیال رکھیں کہ پہلی بارش میں نہانے سے گریز کریں۔ پہلی بارش فضا میں موجود زہریلی اور مضر گیسوں اور اجزا کو ساتھ لے کر آتی ہے۔

    پہلی بارش کے بعد فضا صاف اور نکھر جاتی ہے جس کے بعد ہونے والی بارشوں کا پانی صاف ہوتا ہے اور یہی پانی آپ کے بالوں کے لیے نہایت فائدہ مند ہوتا ہے۔

  • لڑکیوں کو سائنس کی طرف راغب کرنے کے لیے سمر پروگرام

    لڑکیوں کو سائنس کی طرف راغب کرنے کے لیے سمر پروگرام

    موسم گرما کی تعطیلات میں طلبا کے لیے سمر کیمپس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں طلبا کو مختلف سرگرمیوں سے متعارف کروایا جاتا ہے، تاہم نیویارک میں ایک سمر کیمپ صرف چھوٹی بچیوں کے لیے مخصوص ہے جہاں ان کو سائنس سے متعلق سرگرمیاں کروائی جاتی ہیں۔

    نیویارک کا یہ سمر پروگرام 10 سے 13 سال کی عمر کی بچیوں کے لیے ہے جہاں انہیں ایس ٹی ای ایم یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور میتھا میٹکس سے متعلق سرگرمیاں کروائی جاتی ہیں۔

    اس سمر پروگرام کا مقصد لڑکیوں کو سائنس کے شعبے کی طرف راغب کرنا ہے۔

    پروگرام کا ایک اہم جز بچیوں کو فطرت سے قریب رکھنا ہے، بچیاں مختلف پارکس اور ساحلوں کا دورہ کرتی ہیں، وہاں کی مٹی سے واقف ہوتی ہیں اور وہاں ملنے والے جانوروں کے بارے میں معلومات حاصل کرتی ہیں۔

    جنگلی و آبی حیات کے بارے میں جان کر بچیوں میں مزید جاننے کا شوق پیدا ہوتا ہے اور یوں وہ سائنس و ٹیکنالوجی کی طرف راغب ہوتی ہیں۔

    سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خواتین کی کمی کے حوالے سے مائیکرو سافٹ کمپنی کی شریک بانی میلنڈا گیٹس کہتی ہیں کہ خواتین کے معاملے میں یہ شعبہ دقیانوسیت کا شکار ہے، ’اس شعبے میں خواتین کو عموماً خوش آمدید نہیں کہا جاتا‘۔

    وہ بتاتی ہیں، ’جب میں کالج میں تھی اس وقت لڑکیوں کی سائنس پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، اس وقت خواتین سائنس گریجویٹس کا تناسب 37 فیصد تھا جو اب کم ہو کر 18 فیصد پر آگیا ہے‘۔

    میلنڈا کا کہنا ہے کہ سائنسی مباحثوں اور فیصلوں میں خواتین کی بھی شمولیت ازحد ضروری ہے۔

  • انسانیت سے ہمدردی کا عالمی دن خواتین رضا کاروں کے نام

    انسانیت سے ہمدردی کا عالمی دن خواتین رضا کاروں کے نام

    نیویارک : دنیا بھر میں آج انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد انسانی ہمدردی کے تحت اپنا گھر بار چھوڑ کر مجبور اور ضرورت مند افراد کی مدد کرنے والے افراد خدمات کا اعتراف کرنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق رواں برس انسانی ہمدردی کے عالمی دن کی تھیم ’خواتین اور انسانیت‘ ہے کیوں کہ امدادی خدمات انجام دینے والی خواتین دنیا بھر میں قدرتی آفات ، دہشت گردانہ کارروائیوں اورجنگوں کا شکار متاثرین کی امداد کے لیے کوشاں ہیں۔

    رواں برس انسانیت کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کا مقصد ان ہیروز کی خدمات کا اعتراف کرنا ہے جوکمیونیٹی کےلیےجنگ سے متاثرہ افغانستان کےدشوار گزار پہاڑی علاقوں میں، افریقہ میں فرنٹ لائن پر کام کررہی ہیں ، ان متاثرین میں بہت سے ایسے افراد بھی شامل ہیں’ جن کے گھر تباہ ہوچکے ہیں جیسے سینٹرل افریقن ریپبلک، جنوبی سوڈان، شام اور یمن کے عوام‘۔

    اقوام متحدہ امدادی خدمات انجام دینے والی خواتین کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جو دنیا بھر میں متاثرہ افراد کو امداد فراہم کررہی ہیں۔

    یو این کا کہنا ہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو دوسروں کی زندگیاں بچانے کےلیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالی ہوئی ہیں۔

    واضح رہے کہ 2003 میں عراق کے دارالحکومت بغداد میں اقوام متحدہ کے دفتر پر حملے کے بعد اس دن کو منانے کی قرارداد منظور کی گئی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ یہ دن ان افراد کے لیے منسوب ہے جو انسانی ہمدردی کے تحت اپنا گھر بار چھوڑ کر مجبور اور ضرورت مند افراد کی مدد کرتے ہوئے مارے گئے۔

  • معروف باکسر خواتین پر تشدد کرنے والوں کو خاک چٹانے کے لیے میدان میں آگئیں

    معروف باکسر خواتین پر تشدد کرنے والوں کو خاک چٹانے کے لیے میدان میں آگئیں

    اسپین کی معروف باکسر میریم گتریز نے باکسنگ کے ساتھ سیاست میں بھی زور آزمائی شروع کردی، ان کا سیاست میں آنے کا مقصد خواتین کے خلاف ناانصافیوں اور تشدد کا خاتمہ ہے۔

    میریم گتریز جنہیں اسپین میں ’دا کوئین‘ کہا جاتا ہے، یورپین لائٹ ویٹ باکسنگ چیمپیئن رہ چکی ہیں۔ رواں برس وہ میڈرڈ کے قریب ایک قصبے کی مقامی کونسل کی رکن بھی منتخب ہوئی ہیں۔

    کوئین کا مقصد خواتین پر بڑھتے تشدد کی روک تھام کرنا، ذمہ داران کو سزا دلوانا، اور خواتین کو اپنے حقوق سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔

    وہ جب 21 سال کی اور 8 ماہ کی حاملہ تھیں، تب ان کے شوہر نے ان پر بہیمانہ تشدد کیا تھا، وہ بتاتی ہیں کہ ان کے چہرے کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔

    باجود اس کے، کہ وہ باکسر تھیں، وہ اپنا دفاع کرنے اور شوہر کو منہ توڑ جواب دینے میں ناکام رہیں۔ اس واقعے کی وجہ سے انہیں پری میچور ڈلیوری سے بھی گزرنا پڑا اور انہوں نے ایک کمزور بچے کو جنم دیا۔ خوش قسمتی سے بچہ زندہ رہا اور جلد ہی صحتیاب ہوگیا۔

    اس واقعے کے بعد مریم سخت ڈپریشن میں چلی گئیں اور باکسنگ چھوڑ دی، تاہم ایک سال بعد اپنے کوچ کے اصرار پر پھر سے باکسنگ رنگ میں اتر آئیں۔

    اب وہ گزشتہ 13 سالوں سے باکسنگ کے ساتھ مختلف اسکولوں کے دورے کر رہی ہیں اور لڑکیوں کو سیلف ڈیفینس کی ٹریننگ دے رہی ہیں۔

    اسپین میں خواتین پر تشدد اور زیادتی کے واقعات عام ہیں۔ سنہ 2003 سے اب تک 1 ہزار سے زائد خواتین شوہر یا اپنے پارٹنر کے ہاتھوں قتل ہوچکی ہیں، اور یہ وہ تعداد ہے جو صرف کچھ عرصہ قبل آفیشل ریکارڈ رکھنے کے طفیل سامنے آسکی۔

    سنہ 2017 میں اسپین کی مقامی عدالتوں کو خواتین پر تشدد اور ظلم کی ڈیڑھ لاکھ سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔

    اسپین میں قائم مخلوط حکومت میں دائیں بازو کی ایک جماعت ووکس پارٹی بھی پارلیمنٹ میں 24 سیٹوں کے ساتھ موجود ہے، جن کے منشور میں صنفی امتیاز کے خلاف قوانین کا خاتمہ شامل تھا۔ اس پارٹی کا دعویٰ تھا کہ یہ قانون مردوں کو غیر محفوظ کر رہا ہے اور ان پر زیادتی کی راہ ہموار کر رہا ہے۔

    میریم اب ورلڈ چیمپئن شپ ٹائٹل کے حصول کے ساتھ ملک میں صنفی تشدد کے خاتمے اور خواتین کے حقوق کے لیے بھی کام کر رہی ہیں۔

  • جنوبی افریقہ میں خواتین فیکٹری ورکرز سے زبردستی جنسی روابط قائم کرنے کا انکشاف

    جنوبی افریقہ میں خواتین فیکٹری ورکرز سے زبردستی جنسی روابط قائم کرنے کا انکشاف

    جنوبی افریقہ میں برانڈڈ گارمنٹس کی فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین کو زبردستی جنسی روابط قائم کرنے پر مجبور کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے جس کے بعد مذکورہ برانڈز متحرک ہوگئے۔

    امریکا کے 3 بڑے ملبوسات برانڈز نے لیسوتھو فیکٹریز میں جنسی استحصال کے خلاف کریک ڈاؤن پر زور دیا ہے، مذکورہ فیکٹریز میں خواتین کو نوکری پر رہنے کے لیے جنسی روابط قائم کرنے پر مجبور کیے جانے کا انکشاف ہوا تھا۔

    معروف برانڈز لیوائی اسٹراس اینڈ کمپنی، کونتور برانڈز جو رینگلر اور لی جینز کی بھی مالک ہیں اور دی چلڈرنز پلیس نے جنوبی افریقہ کے چھوٹے سے ملک میں 5 فیکٹریوں سے جنسی ہراسانی کے خاتمے کے لیے معاہدہ کیا جہاں 10 ہزار خواتین ان برانڈز کے لیے کپڑے تیار کرتی ہیں۔

    ورکر رائٹز کنزورشیم (ڈبلیو آر سی) کی سینیئر پروگرام ڈائریکٹر رولا ابی مورچڈ کا کہنا تھا کہ یہ معاہدے دیگر کپڑوں کا کاروبار کرنے والے اداروں کے لیے ہراسانی اور تشدد کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مثالی ہیں۔

    ڈبلیو آر سی کی تحقیقات کے مطابق تائیوان کی عالمی جینز بنانے والی کمپنی نیئن ہسنگ ٹیکسٹائل کی ملکیت میں امریکی برانڈز کے لیے جینز بنانے والی 3 فیکٹریوں میں خواتین کو اپنے سپروائزرز سے روزانہ جنسی روابط قائم کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے تاکہ ان کی نوکری برقرار رہے۔ یہ کمپنی افریقی ملک میں گارمنٹ کے شعبے میں مزدوروں کی ایک تہائی تعداد رکھتی ہے۔

    ڈبلیو آر سی نے ایک خاتون کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ میرے ڈپارٹمنٹ میں تمام خواتین کے ساتھ سپروائزر نے جنسی روابط قائم کیے ہیں، خواتین کے لیے یہ زندگی اور موت کا سوال ہے، اگر آپ انکار کریں تو آپ کو نوکری نہیں ملے گی یا آپ کے کنٹریکٹ کی تجدید نہیں کی جائے گی۔

    نیئن ہسنگ سے طے کیے گئے معاہدے کے مطابق 5 ٹریڈ یونین اور 2 خواتین کے حقوق کے ادارے سمیت ایک خود مختار کمیٹی ان شکایات کو دیکھے گی اور خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرے گی۔ نیئن ہسنگ خود مختار سول سوسائٹی کے اراکین کو بھی فیکٹریوں تک رسائی فراہم کرے گی جہاں وہ مزدوروں سے بات کریں گے اور مینیجرز سے شکایت لانے والے مزدوروں کو روکنے سے منع کریں گے۔

    جینز بنانے والوں کا کہنا تھا کہ ہم مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے پر عزم ہیں۔ ’ہمارا ماننا ہے کہ اس معاہدے سے طویل المدتی تبدیلی آئے گی اور ان فیکٹریوں میں ایک مثبت ماحول پیدا ہوگا جو یہاں کام کرنے والے تمام لوگوں کے لیے مثبت اثر چھوڑ جائے گا‘۔