Tag: خواتین

  • پاکستان کی نمائندگی کرنے والی دنیا کی پہلی باحجاب خاتون ویٹ لفٹر

    پاکستان کی نمائندگی کرنے والی دنیا کی پہلی باحجاب خاتون ویٹ لفٹر

    پاکستانی نژاد امریکی خاتون کلثوم عبداللہ نے پہلی پاکستانی خاتون ویٹ لفٹر ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا، یہی نہیں وہ ویٹ لفٹنگ مہں حصہ لینے والی پہلی باحجاب خاتون ہیں۔

    کلثوم عبداللہ کے والدین جو خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی بیٹی کی پیدائش سے قبل امریکا منتقل ہوگئے تھے۔ کلثوم عبداللہ ان والدین کی ہونہار اولادوں میں سے ایک ہیں۔ شعبے کے لحاظ سے وہ کمپیوٹر انجینئر ہیں اور جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے پی ایچ ڈی کرچکی ہیں۔

    سنہ 2010 سے کلثوم ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں میں حصہ لے رہی ہیں، وہ دنیا کی پہلی باحجاب خاتون لفٹر بھی ہیں تاہم اب حجاب کی وجہ سے ان پر عالمی مقابلوں میں شرکت کرنے پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔

    انہوں نے سنہ 2011 میں امریکی قومی مقابلوں میں حصہ لیا تھا، اسی سال انہوں نے عالمی سطح پر ورلڈ ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ 2011 میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔

    سنہ 2012 میں انہوں نے جنوبی کوریا میں ہونے والے ایشیئن ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی۔ کلثوم نے ویٹ لفٹنگ کے امریکن اوپن مقابلوں کے لیے بھی کوالیفائی کیا تاہم ویٹ لفٹنگ کمیٹی نے ان کے حجاب کی وجہ سے ان پر پابندی عائد کردی۔

    کلثوم کا کہنا ہے کہ دوران تعلیم بہت کم عمری میں ہی انہیں احساس ہونا شروع ہوگیا کہ ہر شعبے میں مردوں کی اجارہ داری قائم ہے تاہم اپنے اہلخانہ کی بہترین معاونت کے باعث ہی وہ اپنے پسندیدہ شعبے میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئیں۔

  • سعودی خواتین کو محرم کے بغیر بیرون ملک سفر کی اجازت دے دی گئی

    سعودی خواتین کو محرم کے بغیر بیرون ملک سفر کی اجازت دے دی گئی

    ریاض: سعودی عرب میں حکومت نے خواتین کو محرم کے بغیر بیرون ملک سفر کی اجازت دے دی، اس سے قبل سعودی خواتین کو بیرون ملک جانے، شادی کرنے، اپنا پاسپورٹ بنوانے یا اس کی تجدید کروانے کے لیے محرم کی اجازت درکار تھی۔

    عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی حکومت نے گارجین شپ (سرپرست) قانون میں تبدیلی کا فیصلہ کرتے ہوئے 21 سال سے زائد عمر کی خواتین کو بیرونِ ملک سفر کے لیے محرم کی موجودگی یا اس کی اجازت کو غیر ضروری قرار دے دیا۔

    رپورٹ کے مطابق 18 سال سے کم عمر خواتین بھائی، والد و دیگر رشتے دار کے ساتھ ہی بیرون ملک جانے کی مجاز ہوں گی جبکہ شناختی کارڈ کی حامل خواتین کو مردوں کی رضامندی کی ضرورت نہیں ہوگی۔

    عرب میڈیا رپورٹ کے مطابق سرپرست قانون میں ترمیم کر کے اسے منظوری کے لیے فرمانروا کو بھیجا گیا تھا اور ان کی منظوری کے بعد گزشتہ روز سے یہ قانون نافذ کردیا گیا ہے۔

    اس حوالے سے امریکا میں تعینات سعودی سفیر ریما بنت بندر نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ ریما سعودی عرب کی جانب سے مقرر کی جانے والی پہلی خاتون سفیر ہیں۔

    واضح رہے کہ سعودی عرب وژن 2030 کے تحت روشن خیالی کی طرف تیزی سے گامزن ہے، اس ضمن میں گزشتہ برس نہ صرف خواتین کو گاڑیاں ڈرائیو کرنے کی اجازت دی گئی بلکہ انہیں اب اسٹیڈیم میں بغیر محرم کے فٹبال میچ دیکھنے کی بھی اجازت ہے اور مختلف شعبوں میں ملازمتیں بھی دی جارہی ہیں۔

  • جاپان کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ

    جاپان کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ

    جاپان کی فضائی فوج میں پہلی خاتون فائٹر پائلٹ اپنی تربیت مکمل کرنے کے بعد باقاعدہ فضائی فوج کا حصہ بن گئیں۔

    26 سالہ لیفٹیننٹ میسا متسوشیما کو جاپان کی ایئر سیلف ڈیفینس فورس میں جنگی جہاز اڑانے والی پہلی خاتون پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

    میسا نے اپنی ٹریننگ کے دوران ایف 15 طیارہ اڑایا، وہ ٹریننگ پانے والے گروپ میں واحد خاتون تھیں جو اب اپنی تربیت مکمل کر کے ایئر فورس کا باقاعدہ حصہ بن گئی ہیں۔

    میسا کہتی ہیں کہ انہیں جنگی طیارے اڑانے کا شوق اپنے اسکول کے دنوں میں ٹام کروز کی فلم ’ٹاپ گن‘ دیکھ کر ہوا۔ اس وقت ان کے دل میں شوق جاگا کہ وہ بھی اس طرح جنگٰ طیارے اڑائیں اور ان کا خواب اب پورا ہوگیا ہے۔

    جاپان کی سیلف ڈیفینس فورس کا قیام سنہ 1954 میں عمل میں لایا گیا تھا تب سے خواتین اس شعبے میں صرف بطور نرس اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ سنہ 1992 میں نیشنل ڈیفینس اکیڈمی نے خواتین کو بھی جنگی پوزیشنز کے لیے تربیت دینی شروع کی۔

    سنہ 2016 تک جاپانی فوج میں مختلف پوزیشنز پر فعال خواتین کی تعداد صرف 6.1 فیصد تھی تاہم اس کے بعد جاپان میں فوج میں مزید خواتین کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

    ایک موقع پر جاپانی وزیر اعظم شنزو ایبے نے بھی فضائی فوج میں خواتین کی کم شرح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی وجہ مختلف شعبوں میں خالص مردانہ کلچر کو قرار دیا۔

    سنہ 2015 تک جاپان میں خواتین پر فائٹر جیٹس اڑانے پر بھی پابندی تھی لیکن پھر یہ پابندی کالعدم قرار دے دی گئی اور یوں میسا جیسی خواتین کے لیے اس شعبے میں آنے کی راہ ہموار ہوئی۔

    اس دوران میسا مال بردار جہاز کی پائلٹ بننے کی تیاریاں کر رہی تھیں لیکن خواتین پر سے فائٹر جیٹ اڑانے کی پابندی ہٹتے ہی انہوں نے فضائی فوج میں اپلائی کردیا اور جلد ہی انہیں ان کی منزل مل گئی۔

    وہ کہتی ہیں، ’یہ صرف میرے خواب کی تکمیل ہی نہیں بلکہ دیگر خواتین کے لیے آگے آنے کا راستہ بھی ہے‘۔

    میسا کے علاوہ 3 مزید خواتین کو بھی فائٹر جیٹ اڑانے کی تربیت دی جارہی ہیں جو جلد مکمل ہوجائے گی یوں جاپانی فوج میں مزید خواتین فائٹر پائلٹس کا اضافہ ہوگا۔

  • خواتین پر تشدد کے حوالے سے بنائے گئے قوانین پرعملدرآمد کرانا ہوگا‘ چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ

    خواتین پر تشدد کے حوالے سے بنائے گئے قوانین پرعملدرآمد کرانا ہوگا‘ چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ

    لاہور: چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان نے کہا ہے کہ خواتین پر تشدد کے حوالے سے صرف قانون بنا دینے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ ان قوانین پر عملدرآمد کرانا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان نے لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین سے زیادتیاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں، موجودہ دور میں خواتین کے تحفظ کے لیے ریفارمز کی ضرورت ہے۔

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ دین اسلام بھی خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جینڈر بیسڈ وائیلنس کے حوالے بنائی گئی عدالتیں موثر طریقے سے کام کر رہی ہیں۔

    جسٹس سردار شمیم محمد خان نے کہا کہ خواتین پر تشدد انسانی حقوق کی بدترین مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں اس کی مختلف اقسام دیکھنے میں ملتی ہیں، گھریلو تشدد سے لے کر دفاتر میں ہراساں کرنے، غیرت کے نام پر قتل اور ظلم و زیادتی کے تمام معاملات جینڈربیسڈ وائیلنس میں آتے ہیں۔

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ جینڈر بیسڈ وائیلنس جرائم مختصر اور طویل دورانیے کے ہوتے ہیں جو ایسے جرائم کا شکار افراد کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم نے معاشرے کے ہر فرد کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بنانا ہے، اس حوالے سے ریاست کا کردار بہت اہم ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ خواتین پر تشدد کے حوالے سے صرف قانون بنا دینے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ ان قوانین پر عملدرآمد کرانا ہوگا۔

  • باصلاحیت طالبات نے بے گھر افراد کے لیے انوکھے خیمے تیار کرلیے

    باصلاحیت طالبات نے بے گھر افراد کے لیے انوکھے خیمے تیار کرلیے

    امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ہائی اسکول کی باصلاحیت طالبات نے بے گھر افراد کے لیے شمسی توانائی سے مزین خیمے تیار کرلیے۔

    یہ خیمے کیلی فورنیا کے شہر سان فرنانڈو سے تعلق رکھنے والی 12 طالبات نے تیار کیے ہیں۔ ان طالبات نے اس سے قبل نہ تو کوڈنگ کی ہے، نہ سلائی اور نہ ہی تھری ڈی پرنٹنگ۔

    اس کے باوجود انہوں نے تھری ڈی پرنٹنگ اور ہاتھ کی سلائی کی مدد سے ایسے خیمے تیار کیے ہیں جو بے گھر افراد کو چھت فراہم کرسکتے ہیں۔

    خیمے کے اوپر لگا شمسی توانائی کا پینل موسم کی مناسبت سے خیمے کو حرارت یا ٹھنڈک اور بجلی فراہم کرتا ہے۔

    لاس اینجلس ہوم لیس سروس ایجنسی کے مطابق صرف کیلی فورنیا میں ایک سال کے اندر بے گھر افراد کی تعداد میں 36 فیصد اضافہ ہوا۔ پروجیکٹ کی ٹیم لیڈر ورونیکا کا کہنا ہے، ’بے گھر کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ اگر آپ کے والدین مختلف بلز نہ بھر سکیں تو آپ بھی بے گھر ہوسکتے ہیں‘۔

    طالبات کے اپنے طور پر شروع کیے جانے والے اس پروجیکٹ کو اب بے حد سراہا جارہا ہے، میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے بھی اس منصوبے کی معاونت کے لیے ان طالبات کو ایک مناسب رقم اور اپنے ماہرین کی معاونت فراہم کی ہے تاکہ اس منصوبے کو مزید بہتر بنایا جاسکے۔

  • خواتین کے لیے جنک فوڈ کھانے کا نقصان

    خواتین کے لیے جنک فوڈ کھانے کا نقصان

    ماں بننا خواتین کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے اور اس میں تاخیر ہونا خواتین کو پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے، حال ہی میں ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ زیادہ جنک فوڈ کھانے والی خواتین کو حمل ٹہرنے میں تاخیر کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ایڈیلیڈ کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں خواتین کی غذائی عادات اور حمل کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ وہ خواتین جن کی غذا میں پھل زیادہ اور جنک فوڈ کم شامل ہوتا ہے ان کی زرخیزی میں اضافہ ہوا جبکہ وہ کم وقت میں حاملہ ہوئیں۔

    اس کے برعکس وہ خواتین جو کم پھل کھاتی تھیں، یا بہت زیادہ جنک فوڈ کھاتی تھیں ان کا حمل نہ صرف تاخیر سے ٹہرا بلکہ ان کے حمل میں پیچیدگیاں بھی پیدا ہوئیں۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    اس سے قبل کی گئی ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد حاملہ خواتین نارمل ڈلیوری کے عمل سے باآسانی گزر سکتی ہیں جبکہ صرف 15 فیصد کو آپریشن کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تاہم آج کل ہر 3 میں سے ایک حاملہ خاتون آپریشن کے ذریعے نئی زندگی کو جنم دیتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بچے کو جنم دیتے ہوئے قدرتی طریقہ کار یعنی نارمل ڈلیوری ہی بہترین طریقہ ہے جو ماں اور بچے دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔

    تحقیق کے مطابق حمل کے دوران ذہن کا ہلکا پھلکا اور خوش باش ہونا ڈلیوری کے عمل کو بھی آسان بنا دیتا ہے۔ ذہنی دباؤ، خوف یا ٹینشن کسی خاتون کی ڈلیوری کو ان کی زندگی کا بدترین وقت بنا سکتا ہے۔

  • 50 سال سے کم عمر خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ دگنا

    50 سال سے کم عمر خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ دگنا

    چھاتی کا سرطان یا بریسٹ کینسر خواتین کو اپنا شکار بنانے والا ایک عام مرض ہے، حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ 50 سال سے کم عمر خواتین بریسٹ کینسر کے خطرے کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جوان خواتین میں بریسٹ کینسر یعنی چھاتی کے سرطان کا امکان زیادہ ہوتا ہے اور یہی خواتین علاج کی طرف کم دھیان دیتی ہیں۔

    تحقیق کے لیے سنہ 2010 سے 2014 کے درمیان 10 لاکھ خواتین کا جائزہ لیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق 50 سال سے کم عمر خواتین میں، 50 سے 65 سال کی عمر کی خواتین کی نسبت بریسٹ کینسر کا خطرہ دگنا ہوتا ہے۔ یہ خواتین ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر کا شکار ہوسکتی ہیں جو زیادہ خطرناک اور شدید ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کینسر کی اہم وجہ کیا ہے؟ جانیں انجلینا جولی کی کینسر سرجن سے

    ماہرین کے مطابق بریسٹ کینسر کا سبب بننے والی عمومی وجوہات یہ ہوسکتی ہیں۔

    دیر سے شادی ہونا۔

    اولاد نہ ہونا یا 30 سال کی عمر کے بعد ہونا۔

    بچوں کو اپنا دودھ نہ پلانا۔

    مینو پاز یا برتھ کنٹرول کے لیے کھائی جانے والی دوائیں بھی بریسٹ کینسر پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔

    اگر خاندان میں کسی کو بریسٹ کینسر رہا ہو تو عموماً یہ مرض آگے کی نسلوں میں بھی منتقل ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

    بہت زیادہ چکنائی والی غذائیں کھانا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چھاتی کے سرطان کو اگر ابتدائی مرحلے میں تشخیص کرلیا جائے تو مریض کے صحت یاب ہونے کے امکانات 90 فیصد تک ہوتے ہیںم تاہم اس کے باوجود ہر سال پاکستان میں ہزاروں خواتین اس مرض کے ہاتھوں ہلاک ہوجاتی ہیں۔

  • ایک سال کے دوران 50 ہزار خواتین اپنوں کے ہاتھوں قتل، رپورٹ

    ایک سال کے دوران 50 ہزار خواتین اپنوں کے ہاتھوں قتل، رپورٹ

    ویانا : عالمی ادارے کی خواتین سے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2017 میں پرتشدد کارروائیوں یا جرائم کے نتیجے میں ہلاک ہونے والی خواتین کی تعداد 87000 تھی۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے انسداد منشیات و جرائم یو این او ڈی سی نے دعویٰ کیا ہے کہ صرف ایک سال کے دوران دنیا میں 50 ہزار خواتین کو ان کے خاوندوں، بھائیوں، والدین، پارٹنرز یا اہل خانہ نے ہی قتل کردیا۔

    یو این او ڈی سی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2017 میں پُرتشدد کارروائیوں یا جرائم کے نتیجے میں ہلاک ہونے والی خواتین کی تعداد 87000 تھی۔

    آسٹریا کے دارالحکومت ویانا سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ متعدد ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں کہ قتل سے قبل خواتین تسلسل کے ساتھ اپنوں کے ہاتھوں ہی پُرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بنتی رہی تھیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین کے قتل کی ایک وجہ حسد اور طویل گھریلو جھگڑے بھی تھے جب کہ کئی واقعات میں جان سے مارنے کی وجہ خوف بھی سامنے آئی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارےکے مطابق رپورٹ میں درج اعداد و شمار کے مطابق براعظم ایشیا سے تعلق رکھنے والے ممالک میں یہ تعداد 20 ہزار تھی جب کہ افریقہ میں 19 ہزار، امریکا میں آٹھ ہزار اور مغربی ممالک میں تین ہزار تھی۔

    ویانا سے جاری کردہ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر آبادی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو براعظم افریقہ خواتین کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا ہے۔

  • پستہ قد خواتین کے لیے بری خبر

    پستہ قد خواتین کے لیے بری خبر

    کیا آپ پستہ قد ہیں اور اپنا وزن گھٹانا چاہتی ہیں؟ تو پھر آپ کے لیے ایک بری خبر ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پستہ قد خواتین کو وزن کم کرنے میں اوسط قد رکھنے والی خواتین کی نسبت زیادہ مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس تحقیق کی بنیاد اوسط قد، جسم اور میٹابولزم کی مقدار پر رکھی گئی۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں خواتین کا اوسط قد 5 فٹ 6 انچ ہے۔ اسی طرح اس اوسط قد کے حساب سے میٹا بولزم یعنی کیلیوریز کے جلنے، خلیوں کے ٹوٹنے اور دوبارہ بننے کا عمل بھی اوسطاً انجام پاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: پستہ قد افراد میں غصے اور تشدد کا رجحان زیادہ

    اس قد کی خواتین میں کیلیوریز کے جلنے کی اوسط مقدار 14 سو روزانہ ہے۔ یہ وہ کیلوریز ہیں جو بغیر کوئی حرکت یا ورزش کیے بغیر بھی خودبخود ختم ہوجاتی ہیں۔

    تاہم چھوٹے قد کی خواتین میں یہ تعداد کم ہو کر 12 سو ہوجاتی ہیں جبکہ لمبے قد کی خواتین میں یہ تعداد 17 سو 50 کیلوریز تک جا پہنچتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق میٹا بولزم کی یہ تعداد پستہ قد خواتین میں وزن کی کمی نہایت مشکل عمل بنا دیتی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ پستہ قد خواتین کو صرف اپنی بھوک کے حساب سے کھانا چاہیئے جبکہ انہیں صحت بخش غذا کھانا چاہیئے تاکہ ان کی غذائی ضروریات پوری ہوسکیں اور جسم کو درکار توانائی مل سکے۔

  • تنازعات کے باوجود امریکی خواتین سوکر ٹیم ورلڈ کپ کے فائنل میں

    تنازعات کے باوجود امریکی خواتین سوکر ٹیم ورلڈ کپ کے فائنل میں

    امریکا کی خواتین سوکر ٹیم ورلڈ کپ میں شاندار کارکردگی دکھا کر فائنل میں پہنچ گئی، بہترین کارکردگی کے ساتھ ساتھ پلیئرز کی انجری کے مسائل اور مختلف تنازعات نے انہیں دنیا بھر کی نظروں کا مرکز بنا دیا ہے۔

    فرانس میں ہونے والے خواتین فٹبال ورلڈ کپ 2019 میں امریکی ٹیم نے حیران کن کارکردگی دکھا کر فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا۔ فائنل امریکا اور نیدر لینڈز کے درمیان 7 جولائی کو کھیلا جائے گا۔

     

    View this post on Instagram

     

    Congrats to the #USWNT for earning that tea. On to the final! 🇺🇸

    A post shared by Hillary Clinton (@hillaryclinton) on

    امریکی خواتین کی ٹیم اس سے قبل ایک میچ میں 13 گول کر کے سوکر میچز کی تاریخ کا نیا ریکارڈ قائم کر چکی ہے۔

    خواتین سوکر ٹیم کی اس کارکردگی پر جہاں ان کی تعریف کی جارہی ہے وہیں مختلف تنازعات بھی ان کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔

    امریکی ٹیم کی پلیئر میگن راپینو نے ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب میں قومی ترانہ نہ گا کر بہت سے لوگوں کو خفا کردیا تھا۔ یہ حرکت انہوں نے اقلیتوں کے ساتھ ناانصافیوں کے خلاف بطور احتجاج کی۔

    وہ اس سے قبل سنہ 2016 میں بھی یہی عمل دہرا چکی ہیں جب وہ ایک میچ میں قومی ترانے کے دوران سیدھا کھڑے ہونے کے بجائے جھک گئیں، اس کا مقصد ملک میں نسلی بنیادوں پر ناانصافی اور منصوبہ بندی کے تحت استحصال کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔

    امریکی خواتین سوکر ٹیم اس سے قبل اپنے جائز معاوضوں کے لیے عدالتوں کے چکر لگانے کی وجہ سے پہلے ہی خبروں میں ہے۔

    رواں برس مارچ میں امریکی خواتین سوکر ٹیم نے یو ایس سوکر فیڈریشن پر مقدمہ دائر کرتے ہوئے اپنا معاوضہ مرد سوکر پلیئرز کے برابر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

    عدالت میں جمع کروائی گئی درخواست میں 28 خواتین پلیئرز کا کہنا تھا کہ فیڈریشن کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ ’کاروباری حقائق یہ ہیں کہ خواتین مردوں کے برابر معاوضے کی حقدار نہیں ہیں‘۔

    پلیئرز نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے مردوں کی ٹیم کے مقابلے میں زیادہ مقابلے کھیلے اور جیتے ہیں جبکہ ان کی وجہ سے فیڈریشن کے منافع میں بھی اضافہ ہوا، اس کے باوجود ان کے معاوضے مرد پلیئرز سے کم ہیں۔

    امریکا کی خواتین سوکر ٹیم نے اس سے قبل بھی کئی بار فیڈریشن سے یکساں معاوضوں کا مطالبہ کیا تھا تاہم ہر بار ان کا مطالبہ مسترد کردیا گیا۔

    اب جبکہ یہ ٹیم ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچ چکی ہے اور اس کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اس کی فتح کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، تو انہیں امید ہے کہ اس بار وہ یہ مقدمہ ضرور جیتیں گی اور اپنا یکساں معاوضے کا حق حاصل کر کے رہیں گی۔