Tag: خواتین

  • قومی ترقی میں خواتین کا اہم کردار ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان

    قومی ترقی میں خواتین کا اہم کردار ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان

    کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا کہنا ہے کہ جو قومین خواتین کو ترقی کے عمل میں شریک کرتی ہیں وہ تیزی سے ترقی کے زینے طے کرتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جام کمال خان نے بلوچستان کی پہلی خاتون محتسب محترمہ صابرہ اسلام سے ملاقات کے دوران کہا کہ خواتین ملک کی آبادی کا نصف ہے جو ملک کی تعمیر و ترقی میں بھرپور اور فعال کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

    وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ خواتین تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں، قانون، تعلیم، صحت، معیشت، سیاست، آئی ٹی اور کھیل کے شعبوں میں خواتین کا بھرپور کردار روز روشن کی طرح عیاں اور ملک کے لیے باعث فخر ہے۔

    جام کمال خان نے کہا کہ بلوچستان کی خواتین ملک کی دیگر خواتین سے پیچھے نہیں ہیں اور جس بھی شعبہ زندگی میں انہیں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا ہے انہوں نے ملک اور صوبے کا نام روشن کیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں سوشل پروٹیکشن کے تحت خواتین کو بھی معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مواقع میسر ہوں گے۔

    وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ خواتین کے حقوق کا تحفظ اور احترام معاشرے پر فرض ہے اور بلوچستان میں خاتون محتسب کی تعیناتی اہم پیش رفت ہے جس کا مقصد خواتین کو قانونی رہنمائی ومعاونت فراہم کرنا ہے۔

    جام کمال خان نے کہا کہ وومن محتسب ڈائریکٹریٹ کو بھرپور طور پر فعال کیا جائے گا اور وویمن محتسب ڈائریکٹوریٹ کا قیام جلد عمل میں لایا جائے گا جو خواتین کو قانونی تحفظ اور رہنمائی فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

    دوسری جانب محترمہ صابرہ اسلام نے حقوق نسواں کے تحفظ اور خواتین کو ترقی کے مواقعوں کی فراہمی کے حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان کے ویژن کو قابل تعریف قرار دیتے ہوئے یقین دلایا کہ وویمن محتسب ڈائریکٹریٹ اس ضمن میں اپنے فرائض کی ادائیگی کو یقینی بنائے گا۔

  • مسلم خواتین کے خلاف اشتعال انگیز بیان دینے والی بی جے پی رہنما برطرف

    مسلم خواتین کے خلاف اشتعال انگیز بیان دینے والی بی جے پی رہنما برطرف

    دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی نے مسلم خواتین کے خلاف اشتعال انگیز بیان دینے والی رہنما کو عہدے سے ہٹا دیا.

    تفصیلات کے مطابق بھارتی حکمران جماعت بی جے پی نے اپنی پارٹی لیڈر سنیتا سنگھ کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے اسے برطرف کر دیا.

    مذکورہ خواتین نے اپنے اشتعال انگیز بیان میں انتہا پسند ہندوؤں کو مسلم خواتین کے خلاف تشدد اور جنسی زیادتی پر اکسایا تھا.

    سنیتا سنگھ نے اپنے شرم ناک بیان میں انتہا پسندوں کو ترغیب دی تھی کہ وہ دس افراد پر مشتمل گروہ بنا کر سرعام مسلمان خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنائیں۔

    ملعونہ سنیتا سنگھ گور نے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپنا پیغام شیئر کیا، جس میں انھوں نے یہ افسوس ناک تجویز پیش کی۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں انتہاپسندوں نے ایک اور مسلمان نوجوان کو قتل کردیا

    سوشل میڈیا پر بھارت کے روشن خیال طبقات کی جانب سے اس پیغام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد بی جے پی نے الیکشن لیتے ہوئے سنیتا سنگھ کو عہدے سے برطرف کر دیا. ساتھ ہی یہ نفرت انگیز پیغام بھی ہٹا دیا گیا.

    پارٹی نے موقف دیا ہے کہ کسی کو بھی نفرت انگیزی پھیلانے والے پیغاما ت بھیجنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

  • سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے ان تجاویز پر عمل کریں

    سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے ان تجاویز پر عمل کریں

    ماں بننا اور ایک نئی زندگی کو جنم دینا جہاں زندگی میں بہت سی تبدیلیاں لے کر آتا ہے، وہیں اس بات کا بھی متقاضی ہوتا ہے کہ اس سارے عرصے کو نہایت احتیاط اور خیال کے ساتھ گزارا جائے تاکہ ماں اور آنے والا بچہ دونوں صحت مند رہیں۔

    آج کل دنیا بھر میں سیزیرین ڈلیوری کا رجحان بے حد بڑھ گیا ہے جس کی وجہ حمل کے دوران احتیاطی تدابیر نہ اپنانا، زچگی کے وقت کسی پیچیدگی کا پیش آجانا یا کم علمی، غفلت کے باعث اس پیچیدگی سے صحیح سے نہ نمٹ پانا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد حاملہ خواتین نارمل ڈلیوری کے عمل سے باآسانی گزر سکتی ہیں جبکہ صرف 15 فیصد کو آپریشن کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تاہم آج کل ہر 3 میں سے ایک حاملہ خاتون آپریشن کے ذریعے نئی زندگی کو جنم دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    بعض خواتین اپنی مرضی سے سیزیرین آپریشن بھی کرواتی ہیں تاکہ انہیں اذیت ناک تکلیف اور گھنٹوں تک بے چینی نہ سہنی پڑے اور وہ جلد اس مرحلے سے گزر جائیں تاہم یہ چند گھنٹوں کا ریلیف مستقبل میں انہیں بے شمار طبی مسائل سے دو چار کردیتا ہے، علاوہ ازیں آپریشن سے ہونے والی ڈلیوری کے بعد صحت یابی میں بھی نارمل ڈلیوری کی نسبت زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق بچے کو جنم دیتے ہوئے قدرتی طریقہ کار یعنی نارمل ڈلیوری ہی بہترین طریقہ ہے جو ماں اور بچے دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ ان کے مطابق خواتین کو نارمل ڈلیوری کے لیے حمل کے دوران مندرجہ ذیل طریقوں پر عمل کرنا چاہیئے۔

    ذہنی تناؤ سے دور رہیں

    حمل کے دوران ذہنی تناؤ سے دور رہنا اور خوش رہنا بے حد ضروری ہے۔ ذہنی دباؤ اور ٹینشن نہ صرف بچے کی صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ حمل کے عرصے کو بھی مشکل بنا سکتا ہے جس کا نتیجہ ایک تکلیف دہ ڈلیوری کی صورت میں نکلتا ہے۔

    حمل کے عرصے کے دوران مراقبہ کریں، میوزک سنیں، کتابیں پڑھیں اور وہ کام کریں جس سے آپ کو خوشی ملتی ہے۔

    ایسے لوگوں کی کمپنی میں بیٹھیں جو آپ کے ذہن پر خوشگوار تاثر چھوڑیں۔

    ایسی خواتین سے بالکل دور رہیں جو اپنی زچگیوں کے کچھ سچے اور کچھ جھوٹے، بھیانک قصے سنا کر آپ کو ٹینشن میں مبتلا کردیں۔ ایسی خواتین آپ کی ڈلیوری کو بھی ایک بھیانک عمل بنا سکتی ہیں۔ جب بھی آپ کا واسطہ کسی ایسی خاتون سے پڑے تو اس سے دور ہوجائیں اور اس سے ملنے جلنے سے گریز کریں۔

    مزید پڑھیں: حمل ایک سے دوسری خاتون کو ’لگ سکتا ہے‘

    حمل کے دوران آپ کے ذہن کا ہلکا پھلکا اور خوش باش ہونا آپ کی ڈلیوری کے عمل کو بھی آسان بنا دے گا۔ ذہنی دباؤ، خوف یا ٹینشن آپ کی ڈلیوری کو آپ کی زندگی کا بدترین وقت بناسکتا ہے۔

    معلومات حاصل کریں

    حمل اور بچے کی پیدائش کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ اس کے لیے اپنی ڈاکٹر، والدہ اور نانی یا انٹرنیٹ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ آپ کو علم ہونا چاہیئے کہ حمل کے دوران کون سی غذائیں اور کام آپ کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر کا انتخاب

    پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جہاں ڈاکٹرز زیادہ پیسے لینے کے لیے بچے کی پیدائش سی سیکشن کے ذریعے کروانے پر زور دیتے ہیں۔

    ایسے ڈاکٹرز کو جب اپنا مقصد ناکام ہوتا نظر آئے تو یہ لیبر روم سے باہر آ کر ایک مصنوعی ایمرجنسی کی صورتحال پیدا کرتے ہیں جس سے اہل خانہ کو تاثر جاتا ہے کہ ان کی بیٹی اور ہونے والے بچے کی زندگی خطرے میں ہے اور انہیں بچانے کا واحد حل صرف سیزیرین آپریشن ہی ہے۔

    اس صورتحال سے بچنے کے لیے کسی معتبر، جانے پہچانے اور قابل اعتبار ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ بدنام اسپتالوں اور ڈاکٹرز کے پاس جانے سے گریز کریں۔

    حمل کے آخری چند ہفتوں کی صورتحال اس بات کا تعین کردیتی ہے کہ بچہ نارمل ہوگا یا آپریشن سے، اس صورتحال سے ان تمام افراد کو آگاہ رکھیں جو عین وقت میں آپ کے ساتھ اسپتال میں ہوں گے۔

    حمل کے آخری مہینے میں اپنی ڈاکٹر کے علاوہ ایک دو اور ڈاکٹرز کے پاس جا کر بھی چیک اپ کروایا جاسکتا ہے تاکہ متنوع آرا معلوم کی جاسکیں۔

    یاد رکھیں، ماں بننا اور اس عمل میں ہونے والی تکلیف ہونا ایک معمول کا عمل ہے۔ قدرتی طریقے سے ہونے والی ولادت ماں کو جلد صحت یاب کردیتی ہے جبکہ مصنوعی طریقے یعنی آپریشن سے ہونے والی پیدائش طویل المدت نقصانات کا باعث بنتی ہے۔

  • فورڈ کی مینیجر ادارے کو خواتین کے لیے محفوظ بنانے میں کوشاں

    فورڈ کی مینیجر ادارے کو خواتین کے لیے محفوظ بنانے میں کوشاں

    مختلف اداروں اور شعبوں میں جنسی ہراسمنٹ کے الزامات نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور کام کرنے والے مقامات پر خواتین کے تحفظ کے حوالے سے دنیا بھر میں بحثیں جاری ہیں۔

    اس حوالے سے بڑے عہدوں پر کام کرنے والے افراد پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ اپنے ادارے میں خواتین کو کام کرنے کے لیے باعزت، محفوظ اور پیشہ وارانہ ماحول فراہم کریں۔

    ایسی ہی ایک کوشش ڈیبرا منزانو بھی کر رہی ہیں جو امریکی موٹر کمپنی فورڈ کی پروڈکشن مینیجر ہیں، ڈیبرا فورڈ کا کلچر تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔

    ڈیبرا گزشتہ 25 سال سے فورڈ سے منسلک ہیں اور گزشتہ برس ہی انہیں پروڈکشن مینیجر کے عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔ وہ اس وقت کمپنی کے شمالی امریکا میں واقع 27 پلانٹس میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی خاتون ہیں۔

    وہ چاہتی ہیں کہ وہ اس کلچر کو تبدیل کریں جہاں لوگ آسانی سے ایک دوسرے کو مذاق و تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور انہیں کسی جوابی کارروائی کا خوف نہیں ہوتا۔ ان کا مقصد خواتین کے لیے ادارے میں ایک پرسکون ماحول فراہم کرنا ہے۔

    ڈیبرا کہتی ہیں، ’میرے لیے اہم یہ ہے کہ ہمارے ادارے کا ماحول ایسا ہو جہاں سب کی عزت کی جاتی ہو۔ یہ رویہ پہلے اونچے عہدے کے لوگوں سے شروع ہوگا اس کے بعد نچلی سطح پر آئے گا‘۔

    فورڈ گزشتہ کچھ عرصے سے کئی مقدمات اور الزامات کا سامنا کر رہا ہے جن کے مطابق کمپنی کے اندر امتیاز روا رکھا جارہا ہے اور نسلی تعصب برتا جارہا ہے، علاوہ ازیں جنسی ہراسمنٹ کے الزامات بھی لگائے گئے۔ دسمبر 2017 میں فورڈ کے سی ای او جم ہیکٹ نے عوامی طور پر ان واقعات پر معافی مانگی تھی۔

    ڈیبرا کا کہنا ہے کہ وہ جنسی ہراسمنٹ کے لیے صفر برداشت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، اور ایک لیڈر کا ایسا رویہ یقیناً کمپنی کے ماحول پر مثبت اثرات مرتب کر رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: سوئٹزر لینڈ میں ہزاروں خواتین کی ملک گیر ہڑتال

    ڈیبرا ہفتے میں کچھ وقت مختلف ملازمین کے ساتھ گزارتی ہیں اور ان سے دریافت کرتی ہیں کہ وہ کمپنی کے بارے میں اپنے تجربات شیئر کریں اور یہ بھی بتائیں کہ ایسا کیا کیا جائے کہ وہ خود کو ادارے میں محفوظ اور پرسکون سمجھیں۔

    انہوں نے مرد ملازمین سے بھی اس بارے میں بات کی کہ وہ خواتین ملازمین کی عزت کریں اور کام کے معاملے میں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ ’جب خواتین بڑے عہدوں پر فائز ہوتی ہیں تو دیگر خواتین کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے منفی سلوک کے بارے میں بات کرسکیں‘۔

    ان کا کہنا ہے، ’میں چاہتی ہوں کہ لوگ اپنے بچوں کو یہاں کام کرنے کے لیے بھیجنے کی خواہش کریں۔ میں کمپنی کے ملازمین سے بھی پوچھتی ہوں کہ کیا وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کو یہاں کام کرنے کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں؟ اگر ان کا جواب نفی میں ہوتا ہے تو میں ان سے پوچھتی ہوں کہ ایسا کیا ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ادارے کو زیادہ سے زیادہ محفوظ اور آرام دہ بنایا جاسکے‘۔

    ڈیبرا کا ماننا ہے کہ ایک محفوظ اور باعزت معاشرے کے لیے صرف خواتین کو ہی نہیں بلکہ مردوں کو بھی کوشش کرنی ہوگی۔ ’دونوں فریق مل کر ہی ایک دوسرے کے لیے بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں‘۔

  • سعودی عرب میں پہلی بار خواتین نوٹری مقرر کی جائیں گی

    سعودی عرب میں پہلی بار خواتین نوٹری مقرر کی جائیں گی

    ریاض : سعودی عرب کی وزارت ِانصاف خواتین کو عدالتی خدمات میں سہولتیں مہیا کرنے کی غرض سے ان کا الگ سے محکمہ نوٹری شروع کرنے پر غور کررہی ہے، مختلف شہروں میں قائم کیے جانے والے اس محکمے کے دفاتر میں خواتین ہی کو نوٹری مقرر کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی وزیر انصاف اور سپریم جوڈیشیل کونسل کے چئیر مین ڈاکٹر ولید بن محمد الصمعانی نے اپنی وزارت کو ملک کے مختلف شہروں میں خواتین کے شعبہ نوٹری کے آغاز کے لیے ضروری اقدامات کی ہدایت کی ہے۔

    وزارتِ انصاف نے پہلے ہی خواتین کو بہ طور قانونی مشیر ، محققین اور قانون ساز بھرتی کرنے کا عمل شروع کررکھا ہے،اس کا مقصد وزارت کے نئے تنظیمی ڈھانچے کے تحت خواتین کی اپنی انتظامیہ کی تشکیل عمل میں لانا ہے۔

    وزارت کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق گذشتہ کچھ عرصے کے دوران میں 70 خواتین کو نوٹری کے طور پر تصدیقی کام کے لیے لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال خواتین کو 155 قانونی لائسنس جاری کیے گئے تھے ۔ان کے علاوہ وزارت انصاف کے تحت قانونی ، تکنیکی اور سماجی شعبوں میں 240 سعودی خواتین کو بھرتی کیا گیا تھا۔

    عرب میڈیا کے مطابق سعودی خواتین کو 2018ءمیں وزارت انصاف میں پرائیویٹ نوٹری کے طور پر لائسنسوں کے اجرا کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔وہ اب ایک مربوط ڈیجیٹل نظام کے تحت ہفتے میں سات دن صبح اور شام کے اوقات میں اپنی نجی دفاتر میں کام کررہی ہیں۔

    وزارت ِ انصاف کے مطابق نجی شعبے میں کام کرنے والے مرد وخواتین نوٹری وکالت نامے کے اختیار کو جاری اور منسوخ کرسکتے ہیں اور کارپوریٹ دستاویزات کی تصدیق کرسکتے ہیں۔

    سعودی عرب میں اس وقت کام کرنے والے لائسنس یافتہ پرائیوٹ نوٹریوں کی تعداد تیرہ ہزار سے زیادہ ہے، ان کی تصدیق شدہ دستاویزات کو تمام سرکاری محکموں اور عدلیہ کے ماتحت اداروں میں تسلیم کیا جاتا ہے۔

    وزارتِ انصاف کا کہناتھا کہ وہ نوٹری کے لائسنسوں کے اجرا کا سلسلہ جاری رکھے گی جبکہ ان کی جانب سے فراہم کردہ خدمات کے معیار پر بھی کڑی نظر رکھے گی، سعودی عرب میں پہلے مردوں کے لیے پبلک نوٹری خدمات کا اجرا کیا گیا تھا اور ان کا فروری 2017 سے آغاز ہوا تھا۔

    وزارت کے مطابق ”نوٹری خدمات کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا اقدام وزارتِ انصاف کے این ٹی پی 2020ءکا حصہ ہے، اس کا مقصد افراد اور کمپنیوں کے لیے نوٹری کی کارکردگی کو موثر بنانا ہے۔اس سے عدالتی خدمات کو نجی شعبے کے حوالے کرنے میں مدد ملے گی اور سعودی ویڑن 2030ءکے مطابق قومی معیشت کو ترقی ملے گی۔

  • سوئٹزر لینڈ میں صنفی تفریق کے خلاف ہزاروں خواتین کی ملک گیر ہڑتال

    سوئٹزر لینڈ میں صنفی تفریق کے خلاف ہزاروں خواتین کی ملک گیر ہڑتال

    برن: سوئٹزر لینڈ میں لاکھوں خواتین کم معاوضوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں۔ سوئٹزر لینڈ میں اس وقت خواتین کو مردوں کے مقابلے میں 20 فیصد کم معاوضے دیے جارہے ہیں۔

    خواتین کی جانب سے دی گئی ملک گیر ہڑتال کی کال پر مختلف شہروں میں دفتری اوقات کے دوران مظاہرے ہوئے اور خواتین نے کام چھوڑ کر کم معاوضوں کے خلاف احتجاج کیا۔

    اس دن کو سوئٹزر لینڈ میں ہی سنہ 1991 میں کیے جانے والے مظاہرے کے 28 برس بھی مکمل ہوگئے جس کے بعد حکام صنفی مساوات کا ایکٹ تیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس ایکٹ کے تحت خواتین کو صنفی تفریق اور جنسی حملوں کے خلاف قانونی تحفظ حاصل ہوگیا۔

    صنفی مساوات کے حوالے سے سوئٹزر لینڈ کسی مثالی پوزیشن پر نہیں، یہاں خواتین کو ووٹ دینے کا حق سنہ 1971 میں دیا گیا تھا۔

    مظاہرے میں شریک ایک خاتون کا کہنا تھا، ’یہ آج کے دور میں بھی ایک قدامت پسند ملک ہے، کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ ہمیں ووٹ دینے کے لیے 70 کی دہائی تک انتظار کرنا پڑا‘۔

    مظاہرین کا کہنا تھا کہ سوئٹزر لینڈ میں عدم مساوات کئی مغربی یورپی ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم کی ہر سال جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق سوئٹزر لینڈ صنفی عدم مساوات میں عالمی درجہ بندی میں 20 ویں پوزیشن پر ہے۔

  • امریکی خواتین سوکر ٹیم عالمی ریکارڈ بنانے کے باوجود مناسب معاوضوں سے محروم

    امریکی خواتین سوکر ٹیم عالمی ریکارڈ بنانے کے باوجود مناسب معاوضوں سے محروم

    امریکا کی خواتین سوکر ٹیم نے ورلڈ کپ میں ایک میچ میں 13 گول کر کے سوکر میچز کی تاریخ کا نیا ریکارڈ قائم کردیا، تاہم شاندار ریکارڈ بنانے کے باجود یہ ٹیم اپنے لیے جائز معاوضوں سے محروم ہے۔

    امریکا کی ویمن سوکر ٹیم نے رواں برس فرانس میں ہونے والے ورلڈ کپ میں شرکت کی جس میں تھائی لینڈ کے خلاف میچ میں انہوں نے 0-13 گولز سے نہ صرف میچ اپنے نام کیا بلکہ سوکر کی تاریخ کا انوکھا ریکارڈ بھی بنا دیا۔

    یہ ریکارڈ اس سے پہلے سوکر میں خواتین یا مردوں کی کوئی ٹیم نہیں بنا سکی۔

    تاہم اس قدر شاندار ریکارڈ بنانے کے باجوود یہ ٹیم اپنے جائز معاوضوں کے لیے عدالتوں کے چکر لگانے پر مجبور ہے۔

    رواں برس مارچ میں امریکی خواتین سوکر ٹیم نے یو ایس سوکر فیڈریشن پر مقدمہ دائر کرتے ہوئے اپنا معاوضہ مرد سوکر پلیئرز کے برابر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

    عدالت میں جمع کروائی گئی درخواست میں 28 خواتین پلیئرز کا کہنا تھا کہ فیڈریشن کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ ’کاروباری حقائق یہ ہیں کہ خواتین مردوں کے برابر معاوضے کی حقدار نہیں ہیں‘۔

    پلیئرز نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے مردوں کی ٹیم کے مقابلے میں زیادہ مقابلے کھیلے اور جیتے ہیں جبکہ ان کی وجہ سے فیڈریشن کے منافع میں بھی اضافہ ہوا، اس کے باوجود ان کے معاوضے مرد پلیئرز سے کم ہیں۔

    امریکا کی خواتین سوکر ٹیم نے اس سے قبل بھی کئی بار فیڈریشن سے یکساں معاوضوں کا مطالبہ کیا تھا تاہم ہر بار ان کا مطالبہ مسترد کردیا گیا۔

    اب اپنے پہلے ہی ورلڈ کپ میں تاریخ ساز ریکارڈ بنانے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی لوگ ان کے ہم آواز ہوگئے، لوگوں نے مطالبہ شروع کردیا کہ ان پلیئرز کو ان کا جائز معاوضہ دیا جائے۔

    ٹیم کے مارچ میں دائر کیے گئے مقدمے کے دوران ڈیزائن کمپنی ایڈیڈس نے کہا تھا کہ ان کے اسپانسر کیے ہوئے وہ تمام کھلاڑی جو ویمن ورلڈ کپ 2019 میں اچھی کارکردگی دکھائیں گے انہیں مرد کھلاڑیوں کے برابر بونس دیا جائے گا۔

    تاہم اس کے باوجود مرد کھلاڑیوں کے برابر معاوضے کا سوال جوں کا توں اپنی جگہ برقرار ہے۔

    اس معاملے کی گونج وائٹ ہاؤس میں بھی سنائی دی جب ایک صحافی نے امریکی صدر ٹرمپ سے اس بارے میں سوال کیا۔ صدر ٹرمپ نے خواتین کی تاریخ ساز فتح پر خوشی کا اظہار تو کیا تاہم جب صحافی نے دریافت کیا کہ کیا ان خواتین کو مرد پلیئرز کے برابر معاوضہ دیا جانا چاہیئے؟ تو صدر ٹرمپ نے کہا، ’ہم اس بارے میں بعد میں بات کریں گے‘۔

    خواتین کا مردوں سے کم معاوضے کا مسئلہ صرف یہیں تک محدود نہیں، انٹرنیشنل فٹبال ایسوسی ایشن فیفا میں بھی اس حوالے سے بدترین صنفی تفریق موجود ہے جہاں مردوں کی 32 ٹیمز کو 40 کروڑ ڈالر ادا کیے جاتے ہیں، اس کے برعکس خواتین کی 24 ٹیمز کو صرف 3 کروڑ ڈالر دیے جاتے ہیں۔

    اب ورلڈ کپ کے میچ میں اس فتح کے بعد خواتین سوکر پلیئرز پرامید ہیں کہ اس بار وہ یہ مقدمہ ضرور جیتیں گی اور اپنا یکساں معاوضے کا حق حاصل کر کے رہیں گی۔

  • برطانیہ میں ہم جنس پرست خواتین پر تشدد

    برطانیہ میں ہم جنس پرست خواتین پر تشدد

    لندن : برطانوی دارالحکومت میں نازیبا فعل انجام نہ دینے پر نوجوانوں کے ایک گروہ نے ہم جنس پرست خواتین کو لہولہان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے علاقے کیمدن ٹاؤن میں ہم جنس پرست خواتین پر تشدد کا واقعہ سامنے آیا جہاں رات گئے بس میں سفر کرنے والی دو ہم جنس پرست خواتین کو بوسہ نہ دینے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

    متاثرہ خاتون میلانیا گیمونٹ اور کرس نے بتایا کہ ان پر متعدد مردوں نے رات گئے حملہ کرکے لہولہان کیا جب انہوں نے بوسہ دینے سے انکار کیا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ دونوں متاثرہ خواتین کو اسپتال میں طبی امداد فراہم کی جارہی ہے، حادثے کے دوران دونوں خواتین کے چہروں پر گہرے زخم آئے تھے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث چار نوجوانوں کی عمر 15 سے 18 برس کے درمیان ہے جنہوں نے 28 سالہ میلانیا گیمونٹ اور 29 سالہ کرس کو تشدد نشانہ بنایا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق گیمونٹ نے بتایا کہ بوسہ دینے سے انکار پر نوجوانوں کے گروہ نے انہیں اور ان کی دوست کو سرعام تشدد کا نشانہ بنایا جس کے باعث ان کا چہرہ خون سے بھرگیا۔

    متاثرہ خواتین کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہمیں ہم جنس پرست ہونے کے باعث زبانی حملوں کا سامنا رہا ہے لیکن پہلی مرتبہ سرعام مارپیٹ کا سامنا کرنا پڑا۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا تھا کہ پولیس نے واقعے کی سی سی ٹی وی فویج حاصل کرنے کے بعد ملزمان کی تلاش کا کام شروع کردیا ہے لیکن ابھی تک کسی بھی ملزم کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔

    میڈیا ذرائع کا کہنا تھا کہ متاثرہ خواتین پر تشدد کا واقعہ 30 مئی کی رات پیش آیا تھا۔

    برطانوی پولیس کا کہنا تھا کہ 2014 سے 2018 تک ہم جنس پرستوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، پانچ سالوں کے دوران صرف دارالحکومت لندن میں ہم جنس پرستوں پر تشدد کے 1488 واقعات رپورٹ ہوئے تھے جبکہ پورے برطانیہ میں 2308 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔

  • زخمی فوجیوں کو ان کا چہرہ لوٹانے والی باکمال خاتون

    زخمی فوجیوں کو ان کا چہرہ لوٹانے والی باکمال خاتون

    دنیا کی تاریخ کی ہولناک ترین جنگ، جنگ عظیم اول 1 کروڑ 60 لاکھ افراد کی جانیں لے گئی تھی۔ ان کے علاوہ لاکھوں افراد ایسے بھی تھے جو اس جنگ میں معذور ہوگئے۔

    اس جنگ میں 20 ہزار کے قریب افراد ایسے بھی تھے جو گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد اپنے چہرے کی خوبصورتی سے محروم ہوگئے اور ان کا چہرہ بدنما ہوگیا۔

    یہ زیادہ تر فوجی تھے جو گولیوں یا گولوں کا نشانہ بننے سے بری طرح زخمی ہوگئے۔ گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد ان کا چہرہ بگڑ گیا اور جب جنگ ختم ہوئی تو ان کے پریشان کن چہرے نے انہیں معمول کی زندگی گزارنے سے روک دیا۔

    اس وقت پلاسٹک سرجری اس قدر جدید نہیں تھی کہ ان فوجیوں کو ان کا چہرہ کسی حد تک واپس لوٹا سکتی، ایسے میں ایک خاتون اینا کولمین لیڈ نے گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے ان فوجیوں کو نئی زندگی دی۔

    اینا ایک مجسمہ ساز تھی جس نے ایک فزیشن نے شادی کی تھی۔ جنگ کے دوران جب اسے ان فوجیوں کے بارے میں پتہ چلا تو اس نے ان کے لیے خصوصی ماسک تیار کرنے کی تجویز پیش کی جو ان کے چہرے کی بدنمائی کو کسی حد تک چھپا دے۔

    جنگ کے بعد اینا نے ریڈ کراس کے تعاون سے پیرس میں ایک اسٹوڈیو قائم کیا جہاں اس نے ان فوجیوں کے لیے ماسک بنانا شروع کردیے۔

    اینا پہلے فوجی کے چہرے کی مناسبت سے پلاسٹر کا ایک سانچہ سا تیار کرتی تھی، اس کے بعد وہ کاپر سے ایک اور سانچہ بناتی اور مذکورہ فوجی کی پرانی تصاویر کی مدد سے اس سانچے کو اس کے پرانے چہرے جیسا بناتی۔

    اس کے بعد اس ماسک پر مذکورہ فوجی کی اسکن ٹون جیسا رنگ کیا جاتا۔ ایک ماسک کی تیاری میں تقریباً 1 ماہ کا وقت لگا۔

    اینا کی یہ کاوش ان فوجیوں کے لیے نئی زندگی کی نوید تھی۔ وہ پھر سے جی اٹھے اور ایک بار پھر معمول کی زندگی کی طرف لوٹنے لگے۔

    ایک انٹرویو میں اینا کے معاون نے بتایا کہ ان کے پاس آنے والا ایک فوجی جنگ ختم ہونے کے بعد بھی کئی عرصے تک اپنے گھر واپس نہیں گیا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی ماں اس کا بدنما چہرہ دیکھے۔

    اسی طرح ایک فوجی نے اپنے چہرے کی بحالی کے بعد اینا کو خط لکھا جس میں اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے اپنی محبوبہ سے شادی کرلی ہے جو پہلے اس لیے شادی سے انکاری تھی کیونکہ وہ اس کے چہرے سے خوفزدہ تھی۔

    کچھ عرصے تک فوجیوں کے لیے ماسک بنانے کے بعد اینا واپس امریکا لوٹ گئی تھی جہاں اس نے مجسمہ سازی کا کام شروع کردیا تاہم فوجیوں کے لیے کیے جانے والے اس کے کام نے اسے ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔

  • نئے پاکستان میں خواتین کوحقیقی معنوں میں با اختیار بنایا جائے گا، عثمان بزدار

    نئے پاکستان میں خواتین کوحقیقی معنوں میں با اختیار بنایا جائے گا، عثمان بزدار

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ خواتین کو ترقی کے مساوی حقوق دینا تحریک انصاف کا مشن ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار سے چیئرپرسن ٹاسک فورس برائے خواتین بااختیاری نے ملاقات کی۔

    سردار عثمان بزدار نے کہا کہ نئے پاکستان میں خواتین کوحقیقی معنوں میں بااختیار بنایا جائے گا، خواتین کو با اختیار بنانے کے دعوے نہیں عملی اقدامات کر رہے ہیں۔

    وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ خواتین کو ترقی کے مساوی حقوق دینا تحریک انصاف کا مشن ہے، پنجاب کے پسماندہ اضلاع میں خواتین کو معاشی مضبوط بنائیں گے۔

    سردار عثمان بزدار نے کہا کہ خواتین کی تعلیم اور صحت کے نئے پروگرام پر کام شروع کر دیا ہے۔

    تبدیلی کی راہ میں رکاوٹیں آتی ہیں، ہمت نہیں ہاریں گے، عثمان بزدار

    یاد رہے کہ دو روز قبل وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارکا کہنا تھا کہ تبدیلی کی راہ میں رکاوٹیں آتی ہیں مگر ہمت نہیں ہاریں گے، وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیں مگر حوصلے بلند ہیں۔

    وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ نئے پاکستان میں تعلیم، صحت پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، نئے پاکستان کی منزل میں کسی رکاوٹ کو حائل نہیں ہونے دیں گے، عوام کے مسائل حل کرنے کا وعدہ پورا کریں گے۔