Tag: خواتین

  • سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں کے ضمیر نوکریوں کی زنجیروں سے بندھے ہوئے ہیں: زرتاج گل

    سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں کے ضمیر نوکریوں کی زنجیروں سے بندھے ہوئے ہیں: زرتاج گل

    اسلام آباد: وزیر مملکت زرتاج گل نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں کے ضمیر نوکریوں کی زنجیروں سے بندھے ہوئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب کے بیان پر وزیرِ مملکت زرتاج گل نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے، انھوں نے کہا کہ ان کے ضمیر نوکریوں کی زنجیروں سے بندھے ہوئے ہیں۔

    زرتاج گل کا کہنا تھا کہ عوام کو دلاسے دینے والے کرپشن کنگز ہیں، کرپشن کنگز لوٹ مار نہ کرتے تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔

    وزیر مملکت نے سیاسی جماعتوں پر کڑی تنقید کی، کہا یہ سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں جنھوں نے ملک لوٹا، سیاسی جماعتوں کی آڑ میں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کے ترجمان لگائے جا رہے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  مریم اورنگزیب کی نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم اور وزیر اعظم پر الزامات کی بارش

    زرتاج گل نے کہا ’ان کے ضمیر نوکریوں کی زنجیروں سے بندھے ہوئے ہیں، عمران خان اور فواد چوہدری سچ بولتے ہیں تو کرپشن کنگز کو تکلیف ہوتی ہے، لیکن ہم سچ بول کر قوم کا پیسا لوٹنے والوں کی چیخیں سنتے رہیں گے۔‘

    خیال رہے کہ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسکیم کو وزیر اعظم ہاؤس یونی ورسٹی کا ایکشن ری پلے قرار دیا تھا۔

    مریم اورنگ زیب نے کہا ’میں وزیر اعظم کو شہباز شریف کے منصوبے کی نقل پر مبارک باد دیتی ہوں، شہباز شریف نے 2011 میں آشیانہ اقبال، آشیانہ قائد کی بنیاد رکھی تھی، لیکن یہ نہ تو گھر بنا سکتے ہیں، نہ ہی بس سروس بنا سکتے ہیں۔‘

  • خواتین کو مسجد میں عبادت کی اجازت، بھارتی سپریم کورٹ نے درخواست پر غور شروع کردیا

    خواتین کو مسجد میں عبادت کی اجازت، بھارتی سپریم کورٹ نے درخواست پر غور شروع کردیا

    نئی دہلی: بھارت کی سب سے بڑی عدالت نے مسلمان خواتین کو مساجد میں جاکر عبادات کرنے کی درخواست پر غور شروع کردیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق نئی دہلی کے رہائشی جوڑے یاسین پیرزادا (خاتون) اور زبیرپیرزادا نے خواتین کو عبادت گاہوں پر جانے سے روکنے کی روایت کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

    درخواست گزار یاسین پیرزادا اور ان کے شوہر زبیر پیرزادا نے مؤقف اختیار کیا کہ ’’شرعی طور پر خواتین کو مسجد میں داخلے کی اجازت ہے، شرعی تعلیمات کے حساب سے مردوں کی طرح خواتین کو بھی اپنے عقیدے کے مطابق مساجد میں عبادت کرنے کا حق حاصل ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں تین طلاقیں ایک ساتھ دینا قابل سزا جرم قرار دینے کا آرڈیننس منظور

    اُن کا کہنا تھا کہ مسلمان خواتین کو مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت نہ دینے کے حوالے سے کوئی صنفی امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔

    واضح رہے کہ بھارت میں مسلمان خواتین کا مسجدوں میں داخلہ ممنوع ہے تاہم چند مسجدوں میں خواتین کی عبادات کے لیے علیحدہ جگہ مقرر کی جاتی ہے جس کا داخلی دروازہ بھی الگ ہوتا ہے۔

    خیال رہے کہ عدالت نے گزشتہ سال جنوبی بھارت میں خواتین کے ایام خصوصی کے دوران ان کے مندر میں داخلے پر پابندی کو ختم کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ عبادت کرنے کے حق کے خلاف ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: شادی بیاہ اور دیگر تقاریب میں مرد و خواتین کا ایک ساتھ کھانا کھانا حرام قرار، فتویٰ جاری

    مسلمان جوڑے نے اپنی درخواست میں عدالت کے اس فیصلے کا بھی حوالہ دیا جس پر ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا تھا۔

  • ایران کی پہلی خاتون باکسر رنگ میں اتر آئیں

    ایران کی پہلی خاتون باکسر رنگ میں اتر آئیں

    ایران کی پہلی خاتون باکسر رنگ میں اتر آئیں، وہ باکسنگ کے کسی باقاعدہ مقابلے میں حصہ لینے والی پہلی ایرانی خاتون بن گئی ہیں۔

    24 سالہ صدف خادم نے دو روز قبل فرانسیسی باکسر کے ساتھ اپنا پہلا میچ کھیلا اور اسے شکست دی، اپنے ملک میں خواتین کے لیے باکسنگ میں آنے کا راستہ کھولنے والی صدف اس وقت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گئی ہیں تاہم ان کا یہ سفر آسان نہیں تھا۔

    صدف نے 4 سال قبل باکسنگ شروع کی۔ انہوں نے تربیت حاصل کرنے کے لیے باکسنگ سینٹرز کا رخ کیا تو وہاں موجود تمام سہولیات کو مردوں کے لیے مخصوص پایا۔

    بالآخر جب انہیں ایرانی باکسنگ فیڈریشن کی جانب سے کہا گیا کہ صرف خواتین باکسر ہی انہیں تربیت فراہم کرسکتی ہیں (لیکن ایران میں کوئی خاتون باکسنگ ٹرینر موجود نہیں) تو صدف نے فرانس کا سفر کیا۔

    یہاں انہوں نے ایرانی نژاد باکسنگ ورلڈ چیمپئن مہر منشی پور سے تربیت لینی شروع کردی۔ فرانس منتقل ہونے کے بعد انہیں باکسنگ کا باقاعدہ لائسنس بھی فراہم کردیا گیا جس کے بعد ان کے لیے باقاعدہ میچز میں حصہ لینے کی راہ ہموار ہوئی۔

    اپنے پہلے ہی میچ میں فتح کو وہ ایرانی خواتین کی جیت سمجھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی جیت مزید ایرانی خواتین کو اس کھیل کی طرف راغب کرے گی۔

    ایران میں اس وقت کئی خواتین باکسنگ کر رہی ہیں تاہم انہیں حکومت سے باقاعدہ اجازت حاصل نہیں ہے۔ وہ ترکی جا کر بغیر کسی ہیلتھ انشورنس کے مختلف میچز میں حصہ لیتی ہیں۔

    ایران نے خواتین کے لیے کچھ کھیلوں پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ یہ پابندی چند ماہ قبل ختم کی گئی لیکن خواتین کی ٹریننگ کے لیے خواتین ٹرینرز ضروری ہیں جس کے بغیر ایرانی خواتین کھیلوں میں حصہ نہیں لے سکتیں۔

  • مسلمان کانگریس خواتین کیخلاف ٹرمپ کے بیان پر اراکین پارلیمنٹ کی مذمت

    مسلمان کانگریس خواتین کیخلاف ٹرمپ کے بیان پر اراکین پارلیمنٹ کی مذمت

    واشنگٹن : امریکا میں ڈیموکریٹ ارکان پارلیمنٹ سمیت صدارتی امیدواروں نے ڈونلڈ ٹرمپ اور ریپبلکن کی جانب سے مسلمان کانگریس خواتین کے خلاف تضحیک آمیز بیانات کو قابل مذمت قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈیموکریٹس اراکین نے کہا کہ امریکی ایونِ نمائندگان کا حصہ بننے والی دو مسلمان خواتین کے خلاف امریکی صدر کا بیان انتہائی خطرناک اور تشدد کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک حامی نے کانگریس کی خاتون رکن الہان عمر کو مسلمان ہونے کی بنیاد پر قتل کرنے کی دھمکی دی تھی جسے بعدازاں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    کانگریس میں مسلم خاتون کی کامیابی پر ٹرمپ نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ہم کبھی نہیں بھولیں گے، امریکی صدر کا مذکورہ بیان نائن الیون حملے سے متعلق تھا۔

    خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ انتخابات 2020 کے دو صدارتی امیدواروں نے پارٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹ سمیت دیگر متنازع بیانات کی مذمت کریں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سینیٹر بارنی سینڈرز نے کہا کہ الہان عمر پر حملہ پریشان کن اور خطرناک ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ الہان عمر اور ہم، ڈونلڈ ٹرمپ کے نسل پرستانہ اور نفرت آمیز بیان سے متعلق مذاحتمی بیان سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

    دوسری جانب سینیٹر ایلزبتھ ورین نے ٹوئٹ کیا کہ صدر اور ان کا پورا گروہ مذہب کی بنیاد پر کانگریس خاتون کے خلاف تشدد کو فروغ دے رہے ہیں، یہ بہت قابل مذمت اور ندامت پر مشتمل ہے۔

  • تہمینہ جنجوعہ خواتین کے لئے رول ماڈل ہیں: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی

    تہمینہ جنجوعہ خواتین کے لئے رول ماڈل ہیں: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی

    اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ تہمینہ جنجوعہ خواتین کے لئے رول ماڈل ہیں.

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کے اعزاز میں منعقدہ الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا.

    شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں تہمینہ جنجوعہ کو ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں، تہمینہ جنجوعہ بااصول سیکریٹری خارجہ رہیں.

    وزیر خارجہ نے کہا کہ تہمینہ جنجوعہ خواتین کے لئے رول ماڈل ہیں اور ان کا کردار قابل تعریف ہے.

    خیال رہے کہ تہمینہ جنجوعہ کو فروری 2017 میں سیکریٹری خارجہ مقرر کیا گیا تھا، وہ یہ عہدہ سنبھالنے والی ملک کی تاریخ کی پہلی خاتون تھیں۔

    مزید پڑھیں: سی پیک سے خطے میں روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں گے: تہمینہ جنجوعہ

    اس عہدے پر فائز ہونے سے قبل وہ اقوام متحدہ کے جنیوا آفس میں پاکستان کی مستقل مندوب کے طور پر کام کر رہی تھیں، وہ اٹلی میں بطور پاکستانی سفیر کے فرائض انجام دیتی رہیں۔

    2011 میں اٹلی میں بطور سفیر تعیناتی سے قبل وہ اسلام آباد میں ترجمان دفتر خارجہ بھی رہیں۔ ان کا شمار اپنے شعبے کے بااثر ترین خواتین اور بہتر منتظمین میں ہوتا تھا.

  • انقلاب کے گیت گاتی سوڈانی خاتون جدوجہد کا استعارہ بن گئی

    انقلاب کے گیت گاتی سوڈانی خاتون جدوجہد کا استعارہ بن گئی

    خرطوم: مشرقی افریقی ملک سوڈان میں کئی ماہ سے جاری مظاہروں کے دوران ایک خاتون اس وقت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گئیں جب انہوں نے انقلاب کے نعرے بلند کیے اور بدعنوانی اور مہنگائی کا شکار عوام نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

    سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس پر وائرل ہونے والی ویڈیو سفید لباس میں ملبوس ایک مقامی خاتون کی ہے جس میں وہ ایک کار کی چھت پر چڑھ کر ’تواراہ‘ یعنی انقلاب کے نعرے لگا رہی ہیں اور لوگوں کا ہجوم ان کی آواز سے آواز ملا رہا ہے۔

    عرب میڈیا کے مطابق مذکورہ خاتون کا نام الا صلاح ہے جنہیں اب سوڈان میں انقلاب کی علامت سمجھا جارہا ہے۔

    سوڈان میں دسمبر 2018 سے صدر عمر البشیر کے خلاف پرتشدد مظاہرے جاری ہیں جو گزشتہ 30 سال سے اقتدار پر قابض ہیں۔ مظاہروں کا آغاز اس وقت ہوا جب دسمبر میں حکومت نے بچت مہم کے دوران اشیائے خور و نوش پر سبسڈی کے خاتمے کا اعلان کیا اور ملک میں مہنگائی کا طوفان آگیا۔

    روٹی کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہوگیا جبکہ تیل کی قیمتیں بھی آسمان پر جا پہنچیں۔

    گزشتہ ایک دہائی سے سوڈان کی معیشت ویسے بھی مشکلات کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سوڈان کی 13 فیصد آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

    اب اس معاشی بدحالی کی وجہ سے سوڈان کی عوام سڑکوں پر ہے، برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ مظاہرین کے نعروں میں ایک نعرہ ’آزادی، امن اور انصاف‘، اور دوسرا نعرہ ’ ایک فوج اور ایک قوم‘ مقبول ہورہے ہیں۔

    اس موقع پر فوج نے صدر کا ساتھ دیا اور دارالحکومت میں کرفیو نافذ کردیا تاہم مظاہرین نے فوج کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کرفیو کا نفاذ غیر قانونی ہے۔

    مظاہروں میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شریک ہے جو صدر عمر البشیر کے خلاف نعرے لگا رہی ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لوگوں نے الا صلاح کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ صلاح نہ صرف سوڈان کے لیے ایک امید کی علامت بن کر ابھری ہیں بلکہ وہ سوڈانی خواتین کی نمائندہ ہیں۔

    لوگوں کا کہنا ہے، ’صلاح کی آواز ہر سوڈانی خاتون کی آواز ہے‘۔

    ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سوڈان میں جاری مظاہروں میں اب تک 51 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ دارالحکومت میں ایوان صدر کے قریب مظاہرین نے سنگ باری بھی کی جس کے بعد فورسز اور مظاہرین کے درمیان خونریز جھڑپیں جاری ہیں۔

  • حکومتوں کو خواتین کے لئے مردوں کے مساوی مواقع فراہم کرنے چاہییں: صدر پاکستان

    حکومتوں کو خواتین کے لئے مردوں کے مساوی مواقع فراہم کرنے چاہییں: صدر پاکستان

    اسلام آباد: صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ معاشی خودمختاری ہی صحیح معنوں میں خواتین کی آزادی اور ترقی کی ضامن ہے، حکومتوں کو خواتین کے لئے مردوں کے مساوی مواقع فراہم کرنے چاہییں۔

    ان خیالات کا اظہار صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ینگ ویمن لیڈر شپ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا. ان کا کہنا تھا کہ اسلام نے سب سے پہلے عورتوں کو وراثت میں حصہ دیا، اس قانون پر عمل درآمد خواتین کی معاشی خودمختاری کے انتہائی اہم ہے۔

    صدر مملکت نے کہا کہ معاشی خودمختاری ہی صحیح معنوں میں خواتین کی آزادی اور ترقی کی ضامن ہے، معاشرے میں خواتین کو جائز مقام اور تحفظ دلانا قومی ذمہ داری ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے لئے بہت سے شعبوں میں مواقع پیدا ہو رہے ہیں، ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ حکومتوں کو خواتین کے لئے مردوں کے مساوی مواقع فراہم کرنے چاہییں.

    مزید پڑھیں: ریاست مدینہ کیسے بنائی جائے ؟ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان کل ایوان صدر مدعو

    صدر مملکت نے مزید کہا تعلیمی اداروں میں خواتین کے داخلے کی شرح 70 فیصد ہے، البتہ اداروں میں کام کرنے والی خواتین کی شرح محض 20 فیصد ہے، جس میں اضافہ ضروری ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ریاست کو معاشرے کے پسماندہ طبقات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے، معاشرے کی ترقی میں عورتوں کا فعال کردار انتہائی اہم ہے۔

  • سعودی وزارت سول سروس میں پہلی مرتبہ خاتون تعینات

    سعودی وزارت سول سروس میں پہلی مرتبہ خاتون تعینات

    ریاض: سعودی عرب کے وزیر برائے سول سروسز سلیمان الحمدان نے ہند بنت خالد الزاہد کو سیکریٹری کے عہدے پر تعینات کردیا۔ وہ اس عہدے پر تعینات ہونے والی پہلی سعودی خاتون ہیں۔

    سعودی حکومت کی خواتین کو خود مختار بنانے کی پالیسی کے تحت ایک اور اہم عہدے پر پہلی بار خاتون کو تعینات کردیا گیا۔ وزارت سول سروسز میں پہلی بار تعینات کی جانے والی ہند الزاہد نے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور وہ انتظامی امور میں 18 سال کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔

    وہ اس سے قبل وزارت لیبر و سماجی بہبود اور سعودی عرب کی آئل کمپنی ارامکو میں بھی خدمات انجام دے چکی ہیں۔

    ہند بنت خالد نے دمام کی عبد الرحمان بن فیصل یونیورسٹی میں متعدد کمیٹیوں میں مشیر کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں اور دمام فضائی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔

    سول سروسز کی وزارت میں خاتون کی سیکریٹری کے عہدے پر تعیناتی کا تمام حکومتی اداروں کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا ہے اور اسے وزارت کے پروگرام کے اہداف کو بہتر بنانے کے لیے اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔

    گزشتہ ماہ امریکا میں سعودی سفیر کے عہدے پر بھی پہلی بار ایک خاتون ریما بنت بندر بن سلطان کو تعینات کیا گیا تھا۔ شہزادی ریما بنت بندر سعودی عرب میں ماس پارٹی سپیشن فیڈریشن کی صدر اور ڈیولپمنٹ پلاننگ اسپورٹس اتھارٹی میں بطور نائب اپنی خدمات انجام دے رہی تھیں۔

    ریما بنت بندر کے والد بندر بن سلطان بھی سنہ 1983 سے 2005 تک امریکا میں سعودی سفیر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

    یاد رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان وژن 2030 کے تحت سعودی خواتین کو ڈرائیونگ اور کھیل سمیت مختلف شعبوں میں آگے لانے کے لیے کوشاں ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ملکی امور میں مرد و خواتین کی یکساں شرکت ہی ملک کی ترقی کا باعث بنے گی۔

  • دھڑ جڑی بہنوں کی وہ کہانی جو آپ کو رونے پر مجبور کردے

    دھڑ جڑی بہنوں کی وہ کہانی جو آپ کو رونے پر مجبور کردے

    آج کل ایسے بچوں کی پیدائش عام ہوگئی ہے جن کا دھڑ آپس میں جڑا ہوا ہوتا ہے، جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دونوں بچوں کو علیحدہ بھی کیا جاسکتا ہے جس کے بعد دونوں ایک صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔

    تاہم آج سے ایک صدی قبل تک ایسے بچوں کو عفریت تصور کیا جاتا تھا اور ایسے بچے نہایت ترحم آمیز زندگی گزارتے تھے۔ ایسے ہی حالات کا شکار ہلٹن سسٹرز بھی تھیں جنہیں خوفزدہ نظروں سے دیکھا جاتا تھا تاہم یہ اپنے وقت کی سپر اسٹارز بھی تھیں۔

    ہلٹن سسٹرز کا دھڑ آپس میں جڑا ہوا تھا، ڈیزی اور وائلٹ نامی یہ دھڑ جڑی بچیاں سنہ 1908 میں انگلینڈ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق انہیں علیحدہ نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ ان کا نظام دوران خون ایک تھا، اور الگ کرنے کی صورت میں دونوں کی موت واقع ہوسکتی تھی۔

    ان بچیوں کی والدہ کیٹ اسکنر ایک 21 سالہ غیر شادی شدہ خاتون تھیں جو ایسی بچیوں کی پیدائش کو اپنے گناہوں کی سزا سمجھنے لگی اور ایک دن اسپتال میں ہی لاوارث چھوڑ کر چلی گئی۔

    اسپتال کی ایک مڈ وائف میری ہلٹن نے ان بچیوں کو گود لے لیا لیکن اس کی نیت اچھی نہیں تھی اور یہیں سے ان بہنوں کی پر اذیت زندگی کا آغاز ہوا۔

    میری ان بچیوں کو ’عفریت‘ کا نام دیتی تھی اور اس کا خیال تھا کہ ان کی نمائش کر کے وہ ان سے منافع کما سکتی ہے۔ میری نے انہیں ایک پب میں رکھا اور ان کی تصاویر پر مشتمل پوسٹ کارڈ بیچنا شروع کردیے۔

    پب میں آنے والے لوگ ان بچیوں کی تصاویر دیکھ کر تجسس میں مبتلا ہوجاتے اور ان بچیوں کو دیکھنا چاہتے جس کی انہیں قیمت ادا کرنی ہوتی۔ پب میں بھی کسی بھی وقت کوئی بھی شخص ان بچیوں کو دیکھنے کی فرمائش کر سکتا تھا اور انہیں چھو بھی سکتا تھا۔

    بعد میں ایک انٹرویو میں ہلٹن سسٹرز نے بتایا، کہ ان کی یادداشت میں بچپن کی یاد کے نام پر صرف سگاروں اور پائپوں کی بو محفوظ ہے، اور انہیں دیکھنے آنے والوں کا ناخوشگوار لمس، ’وہ بعض اوقات کپڑے ہٹا کر یہ بھی دیکھا کرتے تھے کہ ہم کس طرح آپس میں جڑی ہوئی ہیں‘۔

    صرف 3 سال کی عمر میں ان بہنوں کو مختلف میلوں میں لے جایا جانے لگا جہاں ان کی باقاعدہ نمائش کی جاتی تھی۔ ان کی منہ بولی ماں میری نے انہیں گانا اور آلات موسیقی بجانا بھی سکھایا۔ جب بھی یہ بچیاں اس کی مرضی کے خلاف چلنے کی کوشش کرتی تو وہ بیلٹ سے ان پر تشدد کرتی۔

    یہ سب چلتا رہا، بچیاں بڑی ہوتی گئیں، اس دوران میری نے انہیں لے کر پورے انگلینڈ، جرمنی، اور آسٹریلیا کا سفر بھی کیا لیکن اسے زیادہ کامیابی اور خوشحالی نصیب نہ ہوسکی۔

    سنہ 1915 میں اس نے ایک بار پھر اپنی قسمت آزماتے ہوئے امریکا منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ امریکا آنے کے 4 برس بعد میری کا انتقال ہوگیا اور اس کے داماد میئرز نے ان بہنوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔

    میئرز اور اس کی بیوی ان کے لیے میری سے بھی زیادہ سخت نگہبان ثابت ہوئے، وہ ہر وقت ان کی کڑی نگرانی کرتے حتیٰ کہ انہیں اپنے کمرے میں ہی ساتھ سلاتے۔ اکثر اوقات وہ انہیں گھر سے نکالنے کی بھی دھمکی دیتے جس سے لڑکیاں خوفزدہ ہوجاتیں۔

    سنہ 1920 میں ان بہنوں نے تھیٹرز ایکٹس کرنا شروع کیے اور یہاں سے ان کی قسمت کھلی۔ یہ ووڈیول کا دور تھا جو اس وقت امریکا کی واحد عوامی تفریح تھی۔ جلد ہی یہ بہنیں مقبول ہوگئیں اور ایک وقت ایسا تھا کہ اخبار کے انٹرٹینمنٹ صفحات پر صرف ان بہنوں کا نام ہوتا۔

    ہلٹن سسٹرز اس وقت سیکسو فون بجاتیں اور گانے گاتیں جسے دیکھنے کے لیے اس قدر لوگ امڈ آتے کہ یہ ہفتے میں 5 ہزار ڈالر کمانے لگیں۔ اس قدر کمانے کے باوجود انہیں ایک پیسہ بھی نہ ملتا، وہ کہتی تھیں، ’ہم بے تحاشہ امیر لیکن تنہا لڑکیاں تھیں جو جدید غلامی کرنے پر مجبور تھیں‘۔

    سنہ 1931 میں اپنے ایک دوست کے مشورے پر انہوں نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں اور اپنے نگران میئرز کے خلاف کیس کردیا۔ جلد ہی کیس کا فیصلہ ہوا اور یہ بہنیں عدالت کے حکم پر میئرز سے 1 لاکھ ڈالر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔

    اب یہ بہنیں آزاد تھیں، انہوں نے صحیح معنوں میں اب زندگی کو دریافت کیا، اور گھومنا پھرنا اور پارٹیز میں جانا شروع کیا۔ اپنی علیحدہ شخصیتوں کے اظہار کے لیے انہوں نے ایک دوسرے سے مختلف کپڑے پہننا شروع کیے۔

    ان دونوں نے اپنا شو شروع کیا، لیکن اس وقت بولتی فلموں کی مقبولیت کا دور شروع ہوچکا تھا اور ووڈیول زوال پذیر ہورہا تھا۔ جلد ہی ان بہنوں کو بھی ایک فلم ‘فریکس‘ میں کاسٹ کرلیا گیا۔ یہ فلم اس وقت متنازعہ قرار پائی لیکن آج اسے کلاسک کا درجہ دیا جاتا ہے۔

    سنہ 1951 میں ان دونوں نے اپنی زندگی پر بنی فلم ’چینڈ فار لائف‘ میں کام کیا لیکن یہ فلم بری طرح فلاپ ہوئی۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان بہنوں کی مقبولیت میں بھی کمی آتی جارہی تھی۔ یہ دونوں شادی بھی کرنا چاہتی تھیں لیکن یہ ممکن نہیں تھا۔

    10 سال بعد ان دونوں نے اپنی زندگی کا آخری عوامی شو کیا۔ جب عوامی زندگی کی رونقیں ختم ہوئیں تو یہ دونوں خالی ہاتھ تھیں اور ان کے پاس رہنے کے لیے گھر بھی نہ تھا۔

    زندگی گزارنے کے لیے ان بہنوں نے ایک گروسری اسٹور میں کیشیئر کا کام شروع کردیا جبکہ ایک چرچ کی جانب سے انہیں گھر فراہم کردیا گیا جس کے بعد ان کی زندگی پرسکون ہوگئی۔ شاید یہ ان کی زندگی کا واحد وقت تھا جو ان کے لیے پرسکون ثابت ہوا۔

    سنہ 1968 میں ہانگ کانگ فلو نامی وبا پھیلی جس نے دنیا بھر میں 10 لاکھ لوگوں کو اپنا شکار بنایا۔ اپنی زندگی کے آخری دن گزارتی یہ بہنیں بھی اس وبا کا شکار ہوگئیں، اور تھوڑے ہی عرصے میں کچھ دن کے وقفے سے انتقال کرگئیں۔ نشیب و فراز، پراسرار انفرادیت اور اذیت سے بھرپور زندگی کی یہ کہانی ان بہنوں کی موت کے ساتھ اختتام پذیر ہوگئی۔

  • کاروبار اور قومی معیشت میں خواتین کا کردار اہمیت کا حامل ہے: پال جونز

    کاروبار اور قومی معیشت میں خواتین کا کردار اہمیت کا حامل ہے: پال جونز

    اسلام آباد: امریکی قائم مقام سفیر پال جونز کا کہنا ہے کہ کاروبار اورقومی معیشت میں خواتین کا کردار اہمیت کاحامل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاک امریکا ویمنزکونسل کی جانب سے تربیتی پروگرام کا افتتاح کر دیا گیا، امریکی قونصل خانہ میں افتتاحی تقریب سے خطاب میں پال جونز کا کہنا تھا کہ کونسل کا قیام کا مقصد خواتین کو افرادی قوت کا حصہ بنانا ہے، کونسل کے اراکین پروگرام کی کامیابی میں پیش پیش رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اب تک دنیا بھر میں بیس لاکھ سے زائد افراد سے تربیتی تعلقات قائم کرنے میں مدد فراہم کر چکے ہیں، پروگرام کامقصد پاکستان میں خواتین تعلیم صحت اور معشیت کے شعبوں میں با اختیار بنانا ہے، پاکستان میں مقامی صنعتوں کا تعاون بھی خوش آیند ہے۔

    پال جونز کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت اور ٹیکساس کی اے اینڈ ایم یونیورسٹی سمیت پاکستان و امریکا کی نجی کمپنوں کے مابین منفرد سرکاری ونجی اشتراک کار ہے۔

    اس موقع پر امریکی قائم مقام سفیر پال جونز نے کونسل کے دو نئے پروگراموں کا اعلان بھی کیا جن میں وویمن مینٹر انیشیٹواور وویمن بزنس انیشیٹو شامل ہیں۔

    تقریب میں قائم مقام امریکی سفیر پال جونز کی اہلیہ کیتھرین جونز، کراچی میں تعینات امریکی قونصل جنرل جوائن ویگنز، وویمن کونسل کی ایگزیکٹو ڈایریکٹر رادھیکا پرابھو کے علاوہ کراچی کی کاروباری برادری اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بھی شرکت جبکہ پینل ڈسکشن میں اب تک کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔