Tag: خواتین

  • پارلیمنٹ میں 68 فیصد خواتین کا ورلڈ ریکارڈ

    پارلیمنٹ میں 68 فیصد خواتین کا ورلڈ ریکارڈ

    ایک عرصے سے خواتین کی خود مختاری کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی زور دیا جارہا ہے کہ خواتین کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیا جائے اور حکومتی ایوانوں میں ان کی تعداد بڑھائی جائے۔

    تاہم ترقی یافتہ ممالک کے برعکس مشرقی افریقہ کے ملک روانڈا نے اس بات کی اہمیت کو سمجھا جہاں کی پارلیمنٹ میں اب دنیا میں سب سے زیادہ خواتین موجود ہیں۔

    روانڈا ایک عرصے سے پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد کے حوالے سے ورلڈ ریکارڈ کا حامل رہا ہے جہاں ارکان پارلیمنٹ میں 64 فیصد خواتین تھیں۔ گزشتہ برس ستمبر کے پارلیمانی انتخابات میں روانڈا نے اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا اور اب وہاں کی پارلیمنٹ میں 67.5 فیصد خواتین ہیں۔

    80 نشستوں کے ایوان میں 54 نشستیں خواتین کے پاس ہیں، ان خواتین کو روانڈا کی تعمیر نو کا معمار بھی کہا جاتا ہے۔

    گو کہ روانڈا میں پارلیمانی اکثریت خواتین کے پاس ہے تاہم روانڈا خواتین کے حقوق اور خود مختاری کے حوالے سے کسی مثالی پوزیشن پر نہیں ہے، اس کے باوجود پالیسی سازی میں خواتین کی شمولیت کے حوالے سے روانڈا دیگر ممالک کے لیے ایک مثال ہے۔

    اس حوالے سے اگر پاکستان کو دیکھا جائے تو یہاں بھی صورتحال پہلے سے بدتر نظر آتی ہے۔ دنیا بھر کی پارلیمان اور ایوانوں کا ریکارڈ مرتب کرنے والے ادارے انٹر پارلیمنٹری یونین کی ویب سائٹ کے مطابق سنہ 2017 میں پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد کی فہرست میں پاکستان 89 ویں نمبر پر تھا۔

    مذکورہ فہرست کے مطابق پاکستانی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی صرف 20.6 فیصد تھی۔ یعنی 342 نشستوں پر مشتمل پارلیمان میں صرف 70 خواتین موجود تھیں جو ملک بھر کی 10 کروڑ 13 لاکھ سے زائد (مردم شماری کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق) خواتین کی نمائندگی کر رہی تھیں۔

    اب 2019 میں پاکستان اس درجہ بندی میں مزید نیچے 101 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ صنفی ماہرین کا کہنا ہے کہ پالیسی سازی کے عمل اور قومی اداروں میں خواتین کی شمولیت ضروری ہے تاکہ وہ ملک کی ان خواتین کی نمائندگی کرسکیں جو کمزور اور بے سہارا ہیں۔

  • سعودیہ میں‌ قید خواتین رضاکار ایک مرتبہ پھر عدالت میں پیش

    سعودیہ میں‌ قید خواتین رضاکار ایک مرتبہ پھر عدالت میں پیش

    ریاض : سعودی حکام نے انسانی حقوق کے لیے سماجی خدمات انجام دینے والی 10 خواتین رضاکاروں کو تقریباً ایک سال قید میں رکھنے کے بعد آج دوسری مرتبہ عدالت میں پیش کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب نے انسانی حقوق کی علمبردار متعدد خواتین رضاکاروں کو ایک برس قبل سعودی حکومت کے خلاف اور خواتین کی آزادی کےلیے آواز اٹھانے پر گرفتار کیا تھا جن میں سے دس رضاکار خواتین کو آج مقدمات کی سماعت کےلیے دوسری مرتبہ عدالت میں پیش کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ عدالت میں پیش کی گئی خواتین میں لجین الھذلول، بلاگر ایمان النفجان اور یونیورسٹی پروفیسر ھنون الفاسی شامل ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اگر استغاثہ نے مذکورہ خواتین پر عائد الزامات ثابت کردئیے تو انسانی حقوق کے لیے خدمات انجام دینے والی رضاکاروں کو پانچ پانچ برس قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ گرفتار خواتین کو سعودی عرب کی کرمنل کورٹ میں پیش کیا گیا، حکام نے عدالت میں غیر ملکی سفیروں اور صحافیوں کے داخلے پر پابندی لگائی ہوئی تھی تاہم مذکورہ خواتین کے اہلخانہ کو عدالت میں آنے کی اجازت تھی۔

    خیال رہے کہ کچھ ماہ قبل برطانیہ کی انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب سے متعلق اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ سعودی عرب کے صوبے جدہ کی دھابن جیل میں قید انسانی حقوق کی عملبردار خواتین کو دوران تفتیش جنسی زیادتی، تشدد اور دیگر ہولناک زیادتیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں : سعودیہ میں قید خواتین رضاکاروں کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

    ایمنسٹی انٹرنینشل نے اپنی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گرفتار خواتین رضاکاروں کو دوران تفتیش بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور اس قدر کوڑے مارے گئے ہیں کہ متاثرہ خواتین کھڑی ہونے کے بھی قابل نہیں رہیں۔

    جاری رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ تفتیش کاروں نے کم از کم 10 خواتین کو ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور تفتیش کاروں نے جبراً ایک دوسرے کو بوسہ دینے پر مجبور کیا گیا۔

  • گھریلو تشدد کا شکار خواتین کے لیے رہائش فراہم کرنے کا اعلان

    گھریلو تشدد کا شکار خواتین کے لیے رہائش فراہم کرنے کا اعلان

    جزیرہ بلقان کے ملک البانیا میں گھریلو تشدد کا شکار خواتین کو کم قیمت رہائش فراہم کرنے کا قانون منظور کرلیا گیا۔

    البانیا میں اقوام متحدہ خواتین (یو این ویمن) کے اشتراک سے ملک بھر میں کام کرنے والی 48 سول سوسائٹی کی تنظیمیں اس وقت ان خواتین کو کم قیمت رہائش فراہم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہیں جو رہائش نہ ہونے کے سبب گھریلو تشدد کا شکار ہونے پر مجبور ہیں۔

    یہ خواتین اپنے شوہروں یا ساتھیوں کی جانب سے مستقل گھریلو تشدد کا شکار ہورہی ہیں اور اس رشتے سے اس لیے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتیں کیونکہ ان کے پاس کوئی جائے رہائش نہیں۔

    ایسی خواتین کو رہائش فراہم کرنے کا بل گزشتہ سال پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا جسے اب منظور ہونے کے بعد یو این ویمن کی معاونت بھی حاصل ہوگئی ہے۔

    رضا کارانہ بنیادوں پر گزشتہ کئی برسوں سے بے سہارا خواتین کے لیے شیلٹر ہاؤس چلانے والی معروف سماجی کارکن ایڈلرا کا کہنا ہے کہ عموماً خواتین کے پاس ذاتی گھر نہیں ہوتے، اگر وہ ناپسندیدہ رشتے سے جان چھڑانا چاہیں تو طلاق کے بعد رہائش سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں، بعد میں وہ معاشی طور پر اس قابل نہیں ہوتیں کہ گھر خرید سکیں یا کرائے کا گھر حاصل کرسکیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ رہائش نہ ہونا ہی خواتین کا پرتشدد رشتوں میں بندھے رہنا ایک بڑا سبب ہے تاہم انہیں امید ہے کہ اب نیا قانون ایسی خواتین کے لیے آسانیاں پیدا کرسکے گا۔

    شیلٹر ہاؤس میں رہنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ کچھ عرصے تک شیلٹر ہاؤس میں رہنے کے بعد انہیں مجبوراً الگ گھر حاصل کرنا پڑا، مہنگی رہائش کے سبب ان کی کمائی کا بڑا حصہ کرائے کی نذر ہوجاتا ہے۔ ’کرایہ ادا کرنے کے لیے مجھے بعض اوقات بھوکا بھی رہنا پڑتا ہے‘۔

    انہیں امید ہے کہ اب حکومت کے اس اقدام کے بعد ان جیسی کئی خواتین کو باسہولت رہائش میسر آسکے گی۔

  • نوجوان لڑکیوں کی ذہنی صحت کی بہتری کے لیے کوشاں خاتون

    نوجوان لڑکیوں کی ذہنی صحت کی بہتری کے لیے کوشاں خاتون

    دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے ذہنی امراض لوگوں کی صحت کو بے حد متاثر کر رہے ہیں، تاہم ان امراض کو سمجھنا اور ان پر قابو پانا ایک مشکل عمل ہے۔

    ایک امریکی خاتون اچیا ریڈ نے اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ذہنی مسائل سے نبرد آزما نوجوان لڑکیوں کے لیے ایک ادارہ قائم کیا ہے جہاں وہ لڑکیوں کو کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔

    ریڈ سنہ 2016 میں شدید ڈپریشن اور اینگزائٹی ڈس آرڈر کا شکار ہوگئی تھیں، اپنی اس کیفیت پر قابو پانے کے لیے انہوں نے اپنے خیالات پر مشتمل بلاگ لکھنا شروع کیے۔

    لکھنے سے ان کے مرض میں خاصی کمی آئی، تب ہی انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ڈپریشن کا شکار نوجوان لڑکیوں کو اس بات کی طرف راغب کیا جائے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں تاکہ ان کے مرض میں کمی آئے۔

    ریڈ اس سال کے وسط میں اپنی کتاب بھی منظر عام پر لانے والی ہیں جس کا نام ہے، ’بی فری بی یو‘۔ وہ کہتی ہیں، ’ڈپریشن سے لڑنے والے افراد کے لیے میرا پیغام ہے، آپ اکیلے نہیں ہیں، اپنے خیالات کا اظہار کریں‘۔

    ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آپس میں گفتگو کرنا بھی آپ کی ذہنی صحت کو بہتر کرسکتا ہے، ’ضرورت اس بات کی ہے کہ گفت و شنید کے لیے محفوظ مقام میسر ہو جہاں آپ اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے نہ گھبرائیں‘۔

    ریڈ کا ادارہ نہ صرف ڈپریشن کے شکار افراد کو ایسی جگہ مہیا کرتا ہے، بلکہ وہ ان کی ذہنی حالت کے پیش نظر انہیں مدد اور رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔

  • کے پی اسمبلی میں یوم خواتین پر عورت مارچ کے خلاف مذمتی قرارداد منظور

    کے پی اسمبلی میں یوم خواتین پر عورت مارچ کے خلاف مذمتی قرارداد منظور

    پشاور: خیبر پختون خوا کی اسمبلی میں یوم خواتین پر نکالے جانے والے عورت مارچ کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کے پی اسمبلی نے یوم خواتین پر عورت مارچ کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کر لی، قرارداد حکومت اور اپوزیشن ارکان نے مشترکہ طور پر پیش کی تھی.

    قرارداد میں خواتین کے نعروں کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ خفیہ قوتیں ہمارے خاندانی نظام کو پاش پاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

    منظور کی گئی قرارداد میں کہا گیا کہ سول سوسائٹی کے نام پر کچھ خواتین نے جو نعرے لگائے وہ قابل مذمت ہیں، خواتین مارچ کی آڑ میں فحاشی کی مذمت کرتے ہیں۔

    تفصیل پڑھیں:  یوم خواتین:سینیٹ کا اجلاس آج کرشنا کماری کی سربراہی میں ہورہا ہے

    قرارداد میں متفقہ طور پر مطالبہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت پس پردہ قوتوں کو سامنے لا کر ان کے خلاف کارروائی کرے۔

    یاد رہے کہ آٹھ مارچ کو یوم خواتین پر پاکستانی سینیٹ نے سینیٹر کرشنا کماری کو ایک دن کے لیے چیئر پرسن سینیٹ مقرر کر لیا تھا، پیپلز پارٹی کی سینیٹر نے اس دن سینیٹ کی کارروائی چلائی۔

    یہ بھی پڑھیں:  عورت مارچ، وہ پوسٹر جو’وائرل‘ نہ ہوسکے

    عالمی یوم خواتین پر عورت مارچ سوشل میڈیا پر ایک متنازعہ موضوع بن گیا تھا، بالخصوص چند نہایت متنازع پوسٹرز کی وجہ سے عورت مارچ پر شدید تنقید کی گئی۔

  • کمالیہ:‌ سسرالیوں کے ظلم کی شکار 22 سالہ سعدیہ 10 دن بعد جان کی بازی ہار گئی

    کمالیہ:‌ سسرالیوں کے ظلم کی شکار 22 سالہ سعدیہ 10 دن بعد جان کی بازی ہار گئی

    ٹوبہ ٹیک سنگھ: پنجاب کی ایک تحصیل کمالیہ میں سسرالیوں کے ظلم کی شکار 22 سالہ سعدیہ 10 روز تک موت سے لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے شہر کمالیہ میں بائیس سالہ سعدیہ پر سسرالیوں نے تشدد کر کے شدید زخمی کر دیا تھا، جس کے باعث وہ آج جان کی بازی ہار گئی ہے۔

    سعدیہ کو دس دن قبل اس کے شوہر، دیور اور نند نے پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی تھی، پولیس نے مقدمہ درج کر کے ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔

    کمالیہ کے محلہ بہلول والا کی سعدیہ کا جسم 70 فی صد تک جھلس گیا تھا، جسے تشویش ناک حالت میں الائیڈ اسپتال کے برن یونٹ منتقل کیا گیا، تاہم دس روز تک سعدیہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد دم توڑ گئی۔

    یہ بھی پڑھیں:  لاہور : سسرالیوں نے بہو کو پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی، شوہر گرفتار، مقمہ درج

    لواحقین نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی بیٹی پر اس کے خاوند علی عمران نے اپنے اہل خانہ کے ہم راہ پٹرول چھڑک آگ لگائی۔

    یاد رہے کہ چھ دن قبل بھی لاہور میں سسرالیوں نے مبینہ طور پر بہو کو تیل چھڑک کر جلا دیا تھا، 35 سالہ نسرین کی تین ماہ قبل شہزاد سے شادی ہوئی تھی، گھر میں اکثر جھگڑا رہتا تھا، نسرین کو اس کے شوہر، دیور اور ساس نے آگ لگائی۔

  • سعودی حکام نے 70 ہزار خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس جاری کردئیے

    سعودی حکام نے 70 ہزار خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس جاری کردئیے

    ریاض : سعودی حکام کی جانب سے خواتین کو ڈرائیونگ کی آزادی دینے کے بعد سے ابتک 70 ہزار سعودی خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس جاری کیا جاچکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب میں خواتین کو مختلف ڈرائیونگ سمیت مختلف شعبوں میں محمد بن سلمان کے وژن 2030 تحت دی گئی آزادی کے بعد سے سعودی خواتین مختلف شعبوں میں اپنی صلاحتیوں کا لوہا منوا چکی ہیں۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت خواتین پر عائد ڈرائیونگ کی پانبدی 24 جون 2018 کو ختم کرنے کے بعد سے اب تک تقریباً ستر ہزار خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء کرچکی ہے۔

    عرب میڈیا کہنا ہے کہ سعودی خواتین نے ثابت کردیا کہ وہ بہترین ڈرائیور ہیں اور ان کی طرف سے کی گئی خلاف ورزیوں ابھی تک عوام کی جان کو خطرہ نہیں ہے۔

    محکمہ ٹریفک کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل محمد البسامی نے القاسم یونیورسٹی میں خواتین کے لیے ڈرائیونگ اسکول کی افتتاحی تقریب کے دوران کہا کہ مجھے فخر ہے کہ سعودی مرد و خواتین مملکت کی تعمیر و ترقی کےلیے صبح و شام محنت کررہے ہیں۔

    مزید پڑھیں : عدوا الدخیل سعودی عرب کی پہلی خاتون پائلٹ بن گئیں

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ڈرائیونگ اسکول میں 40 خواتین انسٹرکٹر کو رکھا گیا ہے جو 55 ہزار اسکوائر میٹر پر پھیلے اسکول میں سعودی خواتین کو ڈرائیونگ سکھائیں گی۔

    عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ القاسم یونیورسٹی میں بنایا گیا اسکول خطے میں اپنی نوعیت کا پہلا اور سعودی عرب میں 17 واں اسکول ہے۔

  • خواتین کی تعلیم کے بغیر قوم آگے نہیں بڑھ سکتی‘ شفقت محمود

    خواتین کی تعلیم کے بغیر قوم آگے نہیں بڑھ سکتی‘ شفقت محمود

    اسلام آباد: وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود کا کہنا ہے کہ اسکولوں سے باہر بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود نے فیڈرل گورٹمنٹ کالج میں تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کی تعلیم کے بغیر قوم آگے نہیں بڑھ سکتی۔

    انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں لڑکیوں کے لیے اور اسکول بنائیں، قوم آگے بڑھ رہی ہے مل کرملک کو عظیم ملک بنانا ہے۔

    وفاقی وزیرتعلیم نے کہا کہ اسکولوں سے باہر بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانا ہے، اسکولوں میں یکساں نصاب لانا چاہتے ہیں۔

    یاد رہے کہ رواں سال 9 جنوری کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا تھا کہ ملک میں خواندگی کی شرح 58 فیصد ہے اور یہ 60 سے 58 پر آئی ہے، 2 کروڑ بچے اسکول نہیں جا رہے جو لمحہ فکریہ ہے۔

    2 کروڑ بچے اسکول نہیں جا رہے جو لمحہ فکریہ ہے: وزیر تعلیم

    وفاقی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ غریب پیچھے رہ گیا اور امرا کا طبقہ آگے نکل گیا، ہم نے یکساں نظام تعلیم کی طرف بڑھنا ہے، چاہتے ہیں قوم میں ایک اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔

    شفقت محمود کا کہنا تھا کہ تعلیمی نظام میں یکسانیت نہیں ہوتی تو دنیا کو دیکھنے کا نظریہ مختلف ہوگا، مختلف تعلیمی نظام کی وجہ سے قوم میں ذہن تقسیم ہوگئے، تقسیم ذہنوں سے ایک قوم بننے میں مشکل ہوتی ہے۔

  • خواتین خلا باز تاریخ رقم کرنے کو تیار

    خواتین خلا باز تاریخ رقم کرنے کو تیار

    خلائی تاریخ میں پہلی بار صرف خواتین پر مشتمل کریو خلا میں چہل قدمی یعنی اسپیس واک کرنے جارہا ہے۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے کہا گیا ہے کہ خلائی مشن ایکسپیڈیشن 59 کا حصہ بننے والی دو خواتین خلا باز اینی مک کلین اور کرسٹینا کوچ 29 مارچ کو اسپیس واک کریں گی۔

    زمین سے ان کی معاونت کرسٹین فیکول نامی خاتون خلا باز کریں گی۔ کرسٹین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اس کا اعلان بھی کیا اور اس کا حصہ بننے پر بے حد خوشی کا اظہار کیا۔

    ناسا کے مطابق یہ اسپیس واک 7 گھنٹے طویل ہوگی جس کا آغاز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) سے ہوگا۔

    اینی مک کلین پہلے ہی اسپیس اسٹیشن پر موجود ہیں اور وہ ایکسپیڈیشن 58 کا حصہ بھی ہیں، جبکہ کرسٹینا نے 14 مارچ کو زمین سے اڑان بھری اور خلائی اسٹیشن پر انہیں جوائن کیا، کرسٹینا کا یہ پہلا خلائی سفر بھی ہے۔

    ناسا کے مطابق اسپیس واک اس وقت کی جاتی ہے جب کسی خلائی جہاز کے بیرونی حصے پر کام کرنا ہو، کوئی سائنسی تجربہ کرنا ہو یا کسی نئے خلائی آلے کی کارکردگی جانچنی ہو۔

    اسی طرح خلا میں موجود پرانے سیٹلائٹس یا خلائی جہاز میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو انہیں زمین پر لانے کے بجائے وہیں اس کی مرمت کی جاتی ہے تب بھی خلائی چہل قدمی عمل میں آتی ہے۔

  • مرد کھلاڑیوں کے برابر معاوضے کے لیے خواتین پلیئرز عدالت پہنچ گئیں

    مرد کھلاڑیوں کے برابر معاوضے کے لیے خواتین پلیئرز عدالت پہنچ گئیں

    واشنگٹن: امریکا کی خواتین سوکر ٹیم کی پلیئرز ورلڈ چیمپیئن ہونے کے باوجود اپنے معاوضے میں اضافے کے لیے عدالت پہنچ گئیں۔

    امریکی خواتین سوکر ٹیم نے یو ایس سوکر فیڈریشن پر مقدمہ دائر کرتے ہوئے اپنا معاوضہ مرد سوکر پلیئرز کے برابر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    عدالت میں جمع کروائی گئی درخواست میں 28 خواتین پلیئرز کا کہنا ہے کہ فیڈریشن کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ ’کاروباری حقائق یہ ہیں کہ خواتین مردوں کے برابر معاوضے کی حقدار نہیں ہیں‘۔

    پلیئرز نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے مردوں کی ٹیم کے مقابلے میں زیادہ مقابلے کھیلے اور جیتے ہیں جبکہ ان کی وجہ سے فیڈریشن کے منافع میں بھی اضافہ ہوا۔

    خواتین کا مردوں سے کم معاوضے کا مسئلہ صرف یہیں تک محدود نہیں، انٹرنیشنل فٹبال ایسوسی ایشن فیفا میں بھی اس حوالے سے بدترین صنفی تفریق موجود ہے جہاں مردوں کی 32 ٹیمز کو 40 کروڑ ڈالر ادا کیے جاتے ہیں اس کے برعکس خواتین کی 24 ٹیمز کو صرف 3 کروڑ ڈالر دیے جاتے ہیں۔

    امریکا کی خواتین سوکر ٹیم نے اس سے قبل بھی کئی بار فیڈریشن سے یکساں معاوضوں کا مطالبہ کیا تاہم ہر بار ان کا مطالبہ مسترد کردیا گیا۔

    سنہ 2016 میں کیے جانے والے ایسے ہی ایک مقدمے میں ایک وفاقی جج نے کہا کہ مطالبات پورا نہ ہونے کی صورت میں پلیئرز ہڑتال کا خیال دل سے نکال دیں، اور انہیں سنہ 2021 تک ہڑتال کرنے سے روک دیا گیا۔

    اب حالیہ مقدمے کے بعد ڈیزائن کمپنی ایڈیڈس نے کہا ہے کہ ان کے اسپانسر کیے ہوئے وہ تمام کھلاڑی جو فیفا ویمن ورلڈ کپ 2019 میں اچھی کارکردگی دکھائیں گے انہیں مرد کھلاڑیوں کے برابر بونس دیا جائے گا۔

    خواتین سوکر پلیئرز پرامید ہیں کہ اس بار وہ یہ مقدمہ ضرور جیتیں گی اور اپنا یکساں معاوضے کا حق حاصل کر کے رہیں گی۔