Tag: خواتین

  • سعودیہ میں‌ قید خواتین رضاکاروں کی پہلی مرتبہ عدالت میں پیشی

    سعودیہ میں‌ قید خواتین رضاکاروں کی پہلی مرتبہ عدالت میں پیشی

    ریاض : سعودی حکام نے انسانی حقوق کےلیے سماجی خدمات انجام دینے والے دس خواتین کو ایک سال قید میں رکھنے کے بعد عدالت میں پیش کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب نے انسانی حقوق کی علمبردار متعدد خواتین کو ایک برس قبل سعودی حکومت کے خلاف اور خواتین کی آزادی کےلیے آواز اٹھانے پر گرفتار کیا تھا جن میں سے دس رضاکار خواتین کو گزشتہ روز عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ گرفتار خواتین کو سعودی عرب کی کرمنل کورٹ میں پیش کیا گیا، حکام نے عدالت میں غیر ملکی سفیروں اور صحافیوں کے داخلے پر پابندی لگائی ہوئی تھی تاہم مذکورہ خواتین کے اہلخانہ کو عدالت میں آنے کی اجازت تھی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ کرمنل کورٹ میں پیش کی گئیں خواتین رضاکاروں میں لجین الھذلول اور عزیزہ الیوسف سمیت دس خواتین شامل تھیں۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ کا کہنا ہے کہ مذکورہ خواتین کو طویل عرصے سے قید میں رکھا ہوا تھا لیکن ان پر کوئی مقدمہ چلایا جارہا ہے اور نہ ہی نہیں کسی وکیل تک رسائی کا حق حاصل ہے۔

    خیال رہے کہ کچھ ماہ قبل برطانیہ کی انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب سے متعلق اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ سعودی عرب کے صوبے جدہ کی دھابن جیل میں قید انسانی حقوق کی عملبردار خواتین کو دوران تفتیش جنسی زیادتی، تشدد اور دیگر ہولناک زیادتیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    سعودیہ میں قید خواتین رضاکاروں کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

    ایمنسٹی انٹرنینشل نے اپنی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گرفتار خواتین رضاکاروں کو دوران تفتیش بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور اس قدر کوڑے مارے گئے ہیں کہ متاثرہ خواتین کھڑی ہونے کے بھی قابل نہیں رہیں۔

    جاری رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ تفتیش کاروں نے کم از کم 10 خواتین کو ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور تفتیش کاروں نے جبراً ایک دوسرے کو بوسہ دینے پر مجبور کیا گیا۔

  • وہ عورت جس نے آئن اسٹائن کو عظیم سائنسداں بنایا

    وہ عورت جس نے آئن اسٹائن کو عظیم سائنسداں بنایا

    بیسویں صدی کے سب سے بڑے طبیعات داں آئن اسٹائن کی عظمت ایک مسلمہ حقیقت ہے، جس نے وہ نظریہ اضافت پیش کیا جس پر جدید فزکس کی پوری عمارت کھڑی ہے، تاہم اس کامیابی اور عظمت کے پیچھے حقیقتاً ایک عورت کا ہاتھ ہے جسے دنیا فراموش کر چکی ہے۔

    آئن اسٹائن کی عظمت اور کامیابی کا سہرا اس کی بیوی ملیوا کو جاتا ہے، جو اس وقت سے آئن اسٹائن کے ساتھ تھی جب وہ طالب علم تھا اور خود بھی اپنے اندر چھپے جوہر کو نہیں پہچان پایا تھا۔

    کہا جاتا ہے کہ ملیوا آئن اسٹائن سے کہیں زیادہ ذہین تھی، تاہم اسے آئن اسٹائن جیسی نصف شہرت بھی نہ مل سکی۔

    ملیوا میرک سربیا کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اسے بچپن سے ہی طبیعات اور ریاضی پڑھنے کا شوق تھا۔ ابتدائی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اس کے والد نے اسے سوئٹزر لینڈ کی زیورخ یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے بھیجا اور یہیں اس کی ملاقات آئن اسٹائن سے ہوئی۔

    ملیوا طبیعات کے شعبے میں واحد طالبہ تھی۔ داخلے کے امتحان میں ریاضی میں ملیوا نے آئن اسٹائن سے زیادہ نمبر حاصل کیے تھے۔ یہی نہیں فائنل ایگزام میں بھی اپلائیڈ فزکس کے مضمون میں اس کا اسکور آئن اسٹائن سے کہیں زیادہ تھا۔

    دوران تعلیم ملیوا اور آئن اسٹائن میں محبت کا تعلق قائم ہوچکا تھا اور وہ دونوں شادی کرنا چاہتے تھے تاہم آئن اسٹائن کے والدین اس رشتے کے مخالف تھے۔

    والد کا اعتراض تھا کہ آئن اسٹائن شادی کرنے سے پہلے کوئی ملازمت حاصل کرے جبکہ ان کی والدہ نے ایک نظر میں ملیوا کی حد درجہ ذہانت کو بھانپ لیا اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ شادی کے بعد وہ بہت جلد ان کے بیٹے پر حاوی ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: وہ خوش قسمت شخص جو ابنارمل ہوتے ہوئے دنیا کا عظیم سائنسداں بن گیا

    اس دوران مختلف شہروں میں رہائش کی وجہ سے دونوں کے درمیان خط و کتابت ہوتی رہی جس میں فزکس کی مشکل گتھیاں بھی زیر بحث آتیں۔ ملیوا مشکل سوالات کے اس قدر مدلل جوابات دیتی کہ آئن اسٹائن بھی اس کے سامنے اپنی کم عقلی کا اعتراف کرتا۔

    کچھ عرصے بعد ان دونوں نے مل کر اپنا پہلا تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ جب اس کی اشاعت کا وقت آیا تو ملیوا نے اپنا نام چھپوانے سے انکار کردیا۔ اس کی ایک وجہ اس وقت کی معاشرتی تنگ نظری تھی۔

    دونوں ہی یہ بات جانتے تھے کہ جب لوگوں کو پتہ چلے گا کہ اس مقالے کی مصنف ایک خاتون ہے تو اس کی سائنسی حیثیت صفر ہوجائے گی اور لوگ اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیں گے۔

    دوسری وجہ یہ تھی کہ ملیوا چاہتی تھی کہ اس مقالے کی بدولت آئن اسٹائن کا نام بنے اور انہیں کچھ رقم بھی حاصل ہو تاکہ وہ شادی کرسکیں۔

    ملیوا کا آئن اسٹائن کا ساتھ دینے اور اس کے لیے قربانیاں دینے کا یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک دونوں ساتھ رہے۔ سنہ 1903 میں دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے اور یہاں سے ان دونوں کی نئی زندگی اور فزکس کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

    شادی کے بعد دونوں اپنی شامیں طبیعات کے مشکل اور پیچیدہ سوال حل کرنے میں گزارتے جبکہ رات دیر تک تحقیق و تدوین کا کام کرتے۔ دونوں کے مشترکہ دوستوں کا کہنا ہے کہ آئن اسٹائن کی ہر تحقیق اور مقالے میں انہوں نے ملیوا کو برابر کا حصہ دار دیکھا۔

    بے روزگاری کے دور میں جب آئن اسٹائن کو ایک ضخیم مقالہ نظر ثانی کے لیے پیش کیا گیا تو وہ لگاتار 5 ہفتے تک اس پر کام کرتا رہا اور کام کرنے کے بعد 2 ہفتوں کے لیے بستر پر پڑ گیا۔ اس دوران ملیوا نے آئن اسٹائن کے کام کو دوبارہ دیکھا اور اس میں بے شمار درستگیاں کیں۔

    جب آن اسٹائن کو ایک ادارے میں لیکچر دینے کی ملازمت ملی تو یہ ملیوا ہی تھی جو راتوں کو جاگ کر اگلے دن کے لیکچر کے نوٹس بناتی اور اگلی صبح آئن اسٹائن ان کی مدد سے لیکچر دیتے۔

    جب بھی ملیوا سے سوال پوچھا جاتا کہ جن تھیوریز اور تحقیق کی بنا پر آئن اسٹائن کو صدی کا عظیم سائنسدان قرار دیا جارہا ہے، ان میں ملیوا کا بھی برابر کا حصہ ہے تو وہ کیوں نہیں اپنا نام منظر عام پر لانا چاہتی؟ تو ملیوا کا ایک ہی جواب ہوتا کہ وہ آئن اسٹائن کو کامیاب اور مشہور ہوتا دیکھنا چاہتی ہے اور اسی میں اس کی خوشی پنہاں ہے۔

    مزید پڑھیں: اپنے آپ کو کمزور مت کہو، کیونکہ تم ایک عورت ہو

    ملیوا کی اس جاں نثاری اور خلوص کے باوجود آئن اسٹائن اس سے بے وفائی سے باز نہ رہ سکا اور سنہ 1912 میں ان کی شادی کے صرف 9 برس بعد آئن اسٹائن اپنی ایک کزن ایلسا کے دام الفت میں گرفتار ہوگیا۔

    دو برس بعد ملیوا نے آئن اسٹائن سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا اور واپس زیورخ چلی آئی۔ سنہ 1919 میں دونوں کے درمیان باقاعدہ طلاق کے معاہدے پر دستخط ہوئے، اسی سال آئن اسٹائن نے ایلسا سے شادی بھی کرلی۔

    اس وقت تک آئن اسٹائن کو نوبیل انعام دیے جانے کی باز گشت شروع ہوچکی تھی۔ دونوں کے درمیان طے پایا کہ اگر آئن اسٹائن کو نوبیل انعام ملا تو وہ اس کو نصف بانٹ لیں گے۔

    نوبیل انعام ملنے کے بعد آئن اسٹائن کا ارادہ بدل گیا اور اس نے ملیوا کو خط لکھا کہ انعامی رقم کے حقدار صرف اس کے بیٹے ہوں گے جس پر ملیوا بپھر گئی۔ اس وقت ملیوا شدید بیماریوں اور معاشی تنگ دستی کا شکار تھی لہٰذا اسے رقم کی سخت ضرورت تھی۔

    ملیوا نے کئی پرانے خطوط اور دستاویز آئن اسٹائن کو روانہ کیے اور اسے یاد دلایا کہ اگر ملیوا اور اس کی ذہانت آئن اسٹائن کے ساتھ نہ ہوتی تو وہ کبھی اس مقام تک نہ پہنچ پاتا۔

    جواب میں آئن اسٹائن نے ایک طنزیہ خط لکھتے ہوئے ملیوا کے اس خیال کو احمقانہ کہا۔ علیحدگی کے بعد آئن اسٹائن کے اس رویے کا ملیوا کو مرتے دم تک افسوس رہا، وہ اپنے بیٹے ہینز البرٹ اور والدین کو خطوط لکھتی اور اس بات کا اظہار کرتی تاہم یہ بھی کہتی کہ وہ اس بات کو اپنے تک رکھیں اور آئن اسٹائن کو رسوا نہ کریں۔

    ملیوا کی موت کے بعد ہینز کی بیوی نے ان خطوط کو شائع کرنے کی کوشش کی جو ملیوا نے اپنے بیٹے کو لکھے اور اس میں آئن اسٹائن کی خود غرضی کا ذکر کیا، تاہم آئن اسٹائن کے وکیل کی جانب سے اسے ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔

    مجموعی طور پر ملیوا ایک سادہ عورت تھی جسے شہرت یا نام و نمود کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ اس کے برعکس وہ اپنے محبوب شوہر کو اونچے ترین مقام پر فائز دیکھنا چاہتی تھی۔ اس نے اپنی خداداد صلاحیت اور بے پناہ قابلیت کو بھی شوہر کے لیے استعمال کیا۔

    وہ پہلی انسان تھی جس نے آئن اسٹائن کی ذہانت کو پرکھا باوجود اس کے، کہ وہ خود اس سے کہیں زیادہ ذہین تھی۔ اس نے ہر قدم پر آئن اسٹائن کا ساتھ دیا اور اس کی کامیابیوں کے لیے راہ ہموار کی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر ملیوا نہ ہوتی تو آئن اسٹائن کبھی عظیم سائنس دان نہیں بن سکتا تھا۔

  • خواتین کی عزت کیے بغیر ہم اچھی قوم نہیں بن سکتے، شہریار آفریدی

    خواتین کی عزت کیے بغیر ہم اچھی قوم نہیں بن سکتے، شہریار آفریدی

    اسلام آباد: وزیرمملکت برائے داخلہ شہر یار آفریدی نے کہا ہے کہ خواتین کسی بھی معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں کی عزت کر کے ہی اچھی قوم بنا جاسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرداخلہ شہریارآفریدی نے اسلام آباد پولیس لائن میں منعقد ہونے خواتین کی تقریب میں شرکت کی خطاب کیا۔اُن کا کہنا تھا کہ خواتین کسی بھی معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

    شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ جب بیٹیوں، ماؤں ،بہنوں کی عزت ہوگی تو تب قوم بنے گی، ترقی کیلئے خواتین کی ذمہ داری بہت اہم ہے، خواتین ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی شکل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: یوم خواتین:سینیٹ کا اجلاس آج کرشنا کماری کی سربراہی میں ہورہا ہے

    وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ خواتین کی عزت کے بغیر ہم اچھی قوم نہیں بن سکتے، ہمیں اُن کو برابری کے حقوق دینے ہوں گے اور اُن کی عزت کرنا ہوگی۔

    یاد رہے کہ دنیا بھر میں ہر سال کی طرح امسال بھی 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن جوش و خروش سے منایا جارہا ہے، اس ضمن میں سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے اجلاس کی کارروائی کا آغاز ہوتے ہی خواتین کے کردار کو سراہا اور دن کو یادگار بنانے کے لیے انہوں نے پیپلزپارٹی کی رکن کرشنا کماری کو ایک روز کے لیے اپنی نشست دے دی جس کے بعد انہوں نے اسپیکر کے فرائض انجام دیے۔

    یہ بھی پڑھیں: خواتین کے عالمی دن کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے منسوب کرنے کی قرارداد جمع

    تھر کی تعلق رکھنے والی اور پیپلزپارٹی کی جانب سے رکن بننے والی پہلی ہندو سینیٹر نے چیئرپرسن سینیٹ کی نشست سنبھالنے کے بعد سیشن کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں دن خود کو انتہائی خوش قسمت محسوس کررہی ہوں کیونکہ جو نشست اعزازی طور پر مجھے دی گئی وہ بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں پاکستانی ہونے پر فخر ہے اور یہی ان کی شناخت بھی ہے۔

  • ’اپنے آپ کو کمزور مت کہو، کیونکہ تم ایک عورت ہو‘

    ’اپنے آپ کو کمزور مت کہو، کیونکہ تم ایک عورت ہو‘

    دنیا بھر کی نامور اور مشہور خواتین نہ صرف اپنے کارناموں سے دوسری خواتین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں بلکہ ان کے کہے ہوئے الفاظ بھی دوسروں کی زندگیوں میں امید کی کرن جگاتے ہیں۔

    آج جبکہ دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے تو ہر اہم موقع کی طرح آج بھی گوگل نے اپنا ڈوڈل خواتین کے نام کیا ہے، اور دنیا بھر کی معروف خواتین کے کچھ اقوال پیش کیے ہیں۔

    ان میں سے کچھ خوبصورت اقوال آپ کے لیے بھی پیش کیے جارہے ہیں۔

    فریڈا کوہلو

    فریڈا کوہلو خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی معروف میکسیکن آرٹسٹ ہیں۔ ان کا قول ہے، ’مجھے پیروں کی کیا ضرورت ہے جب میرے پاس اڑنے کے لیے پر موجود ہیں‘۔

    مے جیمسن

    مے جیمیسن طبیعات داں اور خلا میں جانے والی پہلی افریقی نژاد خاتون ہیں۔ آج گوگل نے ان کا یہ قول پیش کیا ہے، ’دوسروں کے محدود تصورات تک محدود مت رہو‘۔

    یوکو اونو

    گلوکار اور سماجی کارکن جان لینن کی اہلیہ اور معروف آرٹسٹ یوکو اونو کہتی ہیں، ’اکیلا دیکھا جانے والا خواب صرف ایک خواب رہتا ہے، لیکن مل کر دیکھا جانے والا خواب حقیقت بن جاتا ہے‘۔

    میری کوم

    معروف بھارتی باکسر میری کوم کہتی ہیں، ’اپنے آپ کو کمزور مت کہو، کیونکہ تم ایک عورت ہو‘۔

    مرینہ سویٹیوا

    روسی شاعرہ مرینہ سویٹیوا کا یہ قول گوگل ڈوڈل کی زینت بنا، ’پر اسی وقت آزادی کی نشانی ہیں جب انہیں اڑنے کے لیے کھولا جائے، علاوہ ازیں پشت پر ٹکے وہ صرف ایک بھاری بوجھ ہیں‘۔

  • خواتین ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا پہلا شکار

    خواتین ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا پہلا شکار

    دنیا بھر میں بدلتا ہوا موسم اور عالمی حدت زمین کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، ایسے میں ان تغیرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں کو ہی سب سے زیادہ نظر انداز کیا جارہا ہے۔

    ایک طویل عرصے سے ماہرین اس بات کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر خواتین ہورہی ہیں، تاہم بدقسمتی سے ان تبدیلیوں سے نمٹنے کے حوالے سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے خواتین کو بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

    تاریخ میں دیکھا جاتا رہا ہے کہ جب بھی کسی خطے میں جنگ ہوتی ہے تو خواتین اس کے بدترین نقصانات سے متاثر ہونے والا پہلا شکار ہوتی ہیں۔

    خواتین سے زیادتی اور ان پر تشدد کو جنگوں میں ایک ہتھیار کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ جنگ کے دوران اور اس کے بعد ایک طویل عرصے تک خواتین مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار رہتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: داعش کے بدترین ظلم کا شکار یزیدی خاتون

    اب جبکہ ہم خود ہی اپنے ماحول کو اپنے ہاتھ سے بگاڑ چکے ہیں تو اس بگاڑ سے بھی خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیر کی وجہ سے جب بھی کوئی آفت آتی ہے جیسے زلزلہ یا سیلاب، تو ایسے میں خواتین حفاظتی اقدامات سے بے خبر ہونے کے باعث خطرے کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔

    ایسے حالات میں خواتین کبھی بھی اکیلے اپنی جان بچانے کی فکر نہیں کرتیں بلکہ وہ اپنے ساتھ بچوں اور دیگر افراد کی بھی جان بچانے کی کوشش میں ہوتی ہیں۔

    دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک میں جہاں گاؤں دیہات پانی کی سہولت سے محروم ہیں، وہاں خواتین ہی گھر کی ضروریات کے لیے دور دراز سے پانی بھر کر لاتی ہیں۔ گھر سے میلوں دور سفر کرنا اور پانی بھر کر لانا ایک اذیت ناک داستان ہے جس کا مرکزی کردار صرف خواتین ہیں۔

    ایسے میں کلائمٹ چینج اور پانی کی عدم دستیابی ان خواتین کی تکلیف میں مزید اضافہ کردے گی۔

    مزید پڑھیں: صدیوں سے صنف نازک کا مقسوم قرار دی گئی مشقت

    اسی طرح کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کیڑے مار زہریلی ادویات سے نہ صرف خود بھی متاثر ہوتی ہیں، بلکہ ایسے میں حاملہ خواتین کے وہ بچے جو ابھی دنیا میں بھی نہیں آئے وہ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

    ایک تحقیق میں کپاس کے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے دودھ میں بھی زہریلی کیڑے مار ادویات کے اثرات پائے گئے جو اگلی نسلوں میں منتقل ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بھی ماحول کے حوالے سے پالیسی سازی اور منصوبہ بندی کی جائے تو اس میں خواتین کو شامل رکھا جائے اور ان کی رائے کو اہمیت دی جائے، اس طرح ہم ان نقصانات کی طرف بھی متوجہ ہوسکیں گے جو نہایت نچلی سطح سے شروع ہوتے ہیں اور جس سے ایک گھریلو خاتون متاثر ہوسکتی ہے۔

    یہ عمل آگے چل کر اس منصوبہ بندی اور پالیسی کو کئی نسلوں تک قابل عمل اور کارآمد بناسکتا ہے۔

  • خواتین معاشرے کا اہم حصہ ہیں‘ سردار رضا

    خواتین معاشرے کا اہم حصہ ہیں‘ سردار رضا

    اسلام آباد: چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان کا کہنا ہے کہ صنفی برابری کی وجہ سے خواتین کومین اسٹریم میں شامل کیا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان نے خواتین کےعالمی دن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے خواتین معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ 2018 جنرل الیکشن میں خواتین کی شرکت خوش آئند ہے، پاکستان 2030 کے ایجنڈے کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔

    چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ صنفی برابری کی وجہ سے خواتین کو مین اسٹریم میں شامل کیا جا رہا ہے، مرد وخواتین کی تعداد میں فرق ختم کرنے کے اقدامات کررہے ہیں۔

    سردار رضا خان نے کہا کہ سول سوسائٹی کے ساتھ صنفی برابری کی تجاویزپرکام کررہے ہیں۔

    چیف الیکشن کمشنر نے مزید کہا کہ خواتین ووٹرزکی رجسٹریشن نادرا، اسٹیک ہولڈر کے بغیر ناممکن ہے، الیکشن کمیشن قوانین اورووٹ سے آگاہی کے لیے کام کررہا ہے۔

    واضح رہے کہ 8 مارچ کو ہرسال پاکستان سمیت دنیا بھرمیں خواتین کاعالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کی اہمیت کو تسلیم کرنا اوران کے حقوق سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے

  • کے الیکٹرک میں خواتین میٹر ریڈرز تعینات

    کے الیکٹرک میں خواتین میٹر ریڈرز تعینات

    کراچی: بجلی کی ترسیل کرنے والے ادارے کے الیکٹرک نے میٹر ریڈنگ کے لیے خواتین کو تعینات کردیا، کے الیکٹرک کا یہ اقدام کم پڑھی لکھی خواتین کے لیے ایک اچھے موقع کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کے الیکٹرک کی جانب سے ٹویٹ کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ ادارے میں پہلی بار خواتین میٹر ریڈر کو رکھا گیا ہے۔ خواتین کا یہ پہلا بیج کراچی کے علاقے لیاری میں اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہا ہے۔

    میٹر ریڈرز کے طور پر کام کرنے والی یہ خواتین متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ ان کی تعلیم بھی واجبی سی ہے، البتہ یہ خواتین کام کر کے اپنے گھر اور معاشرے کے معاشی عمل میں حصہ بننے کا عزم رکھتی ہیں۔

    ایک خاتون کا کہنا ہے کہ پڑھی لکھی لڑکیوں اور خواتین کو آگے آنا چاہیئے اور معاشی عمل میں اپنا ہاتھ بٹانا چاہیئے۔ ایک اور خاتون نے بتایا کہ وہ ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنے گھر اور بچوں کی ذمہ داری بھی سنبھال رہی ہیں۔

    ان تمام خواتین کو نہایت حوصلہ افزا ردعمل موصول ہورہا ہے۔ میٹر ریڈنگ کے لیے یہ جہاں بھی جاتی ہیں ان کے ساتھ بے حد تعاون کیا جاتا ہے جبکہ دفتر کا ماحول بھی اچھا ہے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بھی کے الیکٹرک کے اس اقدام کو پسند کیا جارہا ہے، لوگوں نے کے الیکٹرک کے اس اقدام کی تعریف کی جبکہ کچھ افراد نے مشورہ دیا کہ اونچے عہدوں پر پالیسی سازی کے عمل میں بھی خواتین کو شامل کیا جائے۔

  • سندھ کی جیلوں میں 92خواتین قتل کے سنگین مقدمات  میں قید ہیں

    سندھ کی جیلوں میں 92خواتین قتل کے سنگین مقدمات میں قید ہیں

    کراچی : سندھ کی جیلوں میں92خواتین قتل کے سنگین مقدمات میں قیدہیں اور بچہ جیلوں میں 162قیدی موجودہیں جبکہ اغوابرائےتاوان کےجرم میں 3011قیدیوں کوسزامل چکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کی جیلوں میں قید خواتین و بچوں سے متعلق اعداد و شمار جاری کردیئے گئے ، اعداد و شمار میں بتایا گیا سندھ کی جیلوں میں92 خواتین قتل کے سنگین مقدمات میں قیدہیں۔

    اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ ضلع غربی کی 12 خواتین ملزمان قتل کے مقدمات میں گرفتار ہیں، کراچی و سطی وجنوبی کی 18 خواتین پر قتل کا سنگین الزام ہے اور مختلف جیلوں میں قید ہیں۔

    سندھ کی 23 جیلوں میں 71خواتین قیدیوں پر قتل کے سنگین مقدمات زیر سماعت ہے ، 21 خواتین قیدیوں کو قتل کے جرم میں سزا ہوچکی ہے جبکہ ملیر ضلع سے تعلق رکھنے والی 4 خواتین قتل کے مقدمات میں سزا یافتہ ہیں۔

    اعدادوشمار کے مطابق 16 تا 17 سال کی عمر کے 27 بچے جیل میں قید جبکہ 18 سال تک کے 132 قیدی مختلف الزامات پر جیلوں میں ہیں۔

    مزید پڑھیں : محکمہ جیل خانہ جات کا سندھ میں جیلوں کی ابتر صورتحال کا اعتراف

    سندھ بھرکی بچہ جیلوں میں 162قیدی موجودہیں اور اغوا برائے تاوان کے جرم میں 3011 قیدیوں کو سزا مل چکی ہے۔

    یاد رہے گذشتہ سال نومبر میں محکمہ جیل خانہ جات نے سندھ کی جیلوں سے متعلق رپورٹ جاری کی تھی، جس میں جیلوں کی ابتر صورتحال کا اعتراف کیا گیا تھا، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سینٹرل جیل کراچی کی گنجائش 2400 ہے لیکن اس وقت وہاں 4 ہزار 846 قیدی موجود ہیں جبکہ کراچی کی ملیر جیل میں گنجائش سے 3 ہزار 449 زائد قیدی موجود ہیں۔

  • پاکستانی خواتین میں سرویکل کینسر کی شرح میں اضافہ

    پاکستانی خواتین میں سرویکل کینسر کی شرح میں اضافہ

    لاہور: ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی خواتین میں تولیدی عضو کے مرض سرویکل کینسر میں اضافہ دیکھا جارہا ہے اور اس کو روکنے کے لیے کم عمری کی شادیوں کی روک تھام ضروری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب یونیورسٹی میں ’پاکستان میں سرویکل کینسر کی شرح اور اس سے بچاؤ‘ کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار میں شرکا کو خواتین میں سرویکل کینسر کی شرح، امکان، علامات اور بچاؤ کے حوالے سے معلومات فراہم کی گئیں۔

    سرویکل کینسر خواتین میں تولیدی عضو کا کینسر ہے جس میں سرویکس میں خلیات کی غیر معمولی نشونما ہونے لگتی ہے، یہ خلیات جسم کے دیگر حصوں کے خلیات پر بھی حملہ کرسکتے ہیں۔

    سیمینار میں بتایا گیا کہ پاکستان میں خواتین میں سرویکل کینسر میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ ہر سال 5 لاکھ خواتین میں اس مرض کی تشخیص ہوتی ہے جن میں سے نصف جلد تشخیص اور علاج نہ ہونے کے سبب موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: رحم کے کینسر کی علامات جانیں

    اس مرض کی ابتدائی علامات میں ماہانہ ایام کے دوران غیر معمولی مقدار میں خون آنا، ماہانہ ایام کا زیادہ عرصے تک جاری رہنا، سرویکس میں درد محسوس ہونا اور پیشاب کی بار بار ضرورت محسوس ہونا شامل ہیں۔

    سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے شعبہ برائے سماجی و ثقافتی تعلیم کی سربراہ ڈاکٹر روبینہ ذاکر کا کہنا تھا کہ کم عمری کی شادیاں خواتین میں دیگر مسائل سمیت سرویکل کینسر کا بھی سبب بن سکتی ہیں۔

    انہوں نے زور دیا کہ پاکستان میں اس کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح کو دیکھتے ہوئے کم عمری کی شادیوں اور خواتین میں سگریٹ نوشی کے رجحان میں کمی کرنی ہوگی۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ جلد اور فوری تشخیص اس کینسر کے علاج میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں خواتین صحت مند طرز زندگی اپنا کر اس موذی مرض سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔

  • پنجاب حکومت کا ورکنگ وومن کو سستی اورمعیاری رہائش فراہم کرنے کا فیصلہ

    پنجاب حکومت کا ورکنگ وومن کو سستی اورمعیاری رہائش فراہم کرنے کا فیصلہ

    لاہور: پنجاب حکومت نے ورکنگ وومن کو مزید سہولیا ت فراہم کرنے کے لیے انہیں سستی اور معیاری رہائش یقینی بنانے کا فیصلہ کرلیا، فی الحال 12 اضلاع میں 16 وومن ہاسٹلز فعال ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صوبائی وزیر برائے وومن ڈویلپومنٹ آشفہ ریاض فتیانہ کا کہنا ہے کہ خواتین کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کےلئے ضروری ہے کہ انہیں محفوظ،سستی اور معیاری رہائش فراہم کی جائے۔اس مقصد کے حصول کےلئے حکومت پنجاب ملازمت پیشہ خواتین کےلئے معیاری رہائش کو ہر صورت ممکن بنا رہی ہے۔

    انہوں نے ورکنگ ویمن اتھارٹی کے حوالے سے قانون سازی کے مسودے پر متعلقین کی بحث کے موقع پر ان خیالات کا اظہار کیا۔ گورنمنٹ کے مختلف اداروں بشمول فنانس، ہائر ایجوکیشن، لیبر اینڈ ہیومن ریسورس، سوشل ویلفئیر اور بیت المال سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر اور لوکل گورنمنٹ اینڈکمیونٹی ڈویلپمنٹ کے نمائندگان اور نامور قومی اور بین الاقوامی این جی اوز یو اینویمن آل ویمن پاکستان ایسوسی ایشن، عورت فاونڈیشن، آگاہی، وائٹ رِبن، پنجاب ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹر کے ارکان کے علاوہ پرائیویٹ ہاسٹلز کے مینجرز نے اس اجلاس میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور سفارشات پیش کیں۔

    شرکاءکو 5ورکنگ گروپس میں تقسیم کیا گیا جہاں انہوں نے خواتین کی ضرورت کے ہر سیکٹر سے متعلق اپنی رائے سے آگاہ کیا۔سیکرٹری ویمن ڈویلپمنٹ نے وویمن ہاسٹلز اتھارٹی کے اقدامات کا ذکر کیاا ور کہا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قانون سازی کے مسودے میں بہتری کےلئے کام کیا جائے گا۔

    اتھارٹی کی شکل میں ریگولیٹری فریم ورک کے آغاز سے جاب مارکیٹ میں خواتین کا داخلہ اورنوکری کو برقرار رکھنا آسان ہو جائے گا۔فل الحال12اضلاع میں ڈائریکٹوریٹ آف ویمن ڈویلپمنٹ کے تحت 16ورکنگ ویمن ہاسٹلز، ویمن ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے انتظامی کنٹرول کے تحت کام کر رہے ہیں۔

    صوبائی وزیر آشفہ ریاض فتیانہ نے بطور مہمان خصوصی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے خواتین کی اہمیت سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کی آدھی سے زیادہ آبادی غیر مستحکم ہونے کے ساتھ محرومیوں کا شکار ہو۔ ویمن ہاسٹلز اتھارٹی کے قیام سے ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ کوئی بھی خواتین جو کام کرنے کی خواہش اور عزم رکھتی ہو وہ ناقص رہائشی سہولیات کے باعث اپنی ملازمت نہ چھوڑے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت پنجاب اس بات کو یقینی بنائے گی کہ صوبہ بھر میں تمام نجی و سرکاری ہاسٹلزمیں ملازمت پیشہ خواتین کو محفوظ، سستی اور معیاری رہائش فراہم کی جائے۔

    یو این وومن پنجاب کی سربراہ حفصہ مظہر صدیقی نے شرکاءسے خطاب میں کہا کہ موثر اور پائیدار ترقی کےلئے ضروری ہے کہ عورتوں کے لیے صنفی مساوات ہو اور انہیں مستحکم کیا جائے۔ اس ایجنڈے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یو این ویمن حکومت پنجاب کے تعاون سے ایسا ماحول پیدا کرنے کے عزم پر رواں دواں ہے جہاں خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق فراہم کئے جائیں۔