Tag: خواتین

  • پہلی پاکستانی خاتون قطب شمالی کے سفر پر

    پہلی پاکستانی خاتون قطب شمالی کے سفر پر

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر طیبہ ظفر وہ پہلی پاکستانی خاتون بن گئی ہیں جو قطب شمالی پر کیے جانے والے ایک ریسرچ پروگرام کے لیے منتخب ہوئیں۔

    ڈاکٹر طیبہ ماہر فلکیات ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وہ ہوم وارڈ باؤنڈ پروگرام کے لیے منتخب ہوئیں جس کے تحت انہیں 3 ہفتے انٹارکٹیکا میں گزارنے تھے۔

    اس پروگرام کا مقصد سائنس، ٹیکنالوجی، ریاضی، انجینیئرنگ اور طب کے شعبے سے منسلک دنیا بھر کی خواتین کی صلاحیتوں اور ان کے تجربات میں اضافہ کرنا تھا۔ 26 ممالک سے تعلق رکھنے والی 80 خواتین کی ٹیم میں وہ واحد پاکستانی خاتون تھیں۔

    اپنے پروگرام کے دوران انہوں نے ان مقامات کا دورہ کیا جو موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے متاثر ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر طیبہ نے پینگوئن کی کالونیاں، وہیل اور گلیشیئرز کا بھی مشاہدہ کیا جبکہ برف پر کشتی کا سفر بھی کیا۔

    ڈاکٹر طیبہ کہتی ہیں کہ یہ سفر ان کے لیے ایک خوشگوار تجربہ تھا جس نے ان کی صلاحیت اور کام کرنے کی لگن میں اضافہ کیا۔

    وہ بتاتی ہیں کہ انٹارکٹیکا میں قیام کے دوران ہم بیمار بھی ہوئے، ’چونکہ ہم اس ماحول کے عادی نہیں تھے لہٰذا ہمیں اس سے مطابقت کرنے میں تھوڑی مشکل پیش آئی‘۔

    ڈاکٹر طیبہ فزکس میں ماسٹرز کرچکی ہیں جبکہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتی بھی رہی ہیں۔ سنہ 2007 میں انہیں کوپن ہیگن نیل بوہر انسٹیٹیوٹ کے ڈارک کوسمولوجی سینٹر میں پی ایچ ڈی کے لیے داخلہ ملا۔

    وہ بتاتی ہیں کہ انہیں بچپن سے فلکیات کا شوق تھا تاہم اسکول میں اس سے متعلق کوئی مضمون نہیں تھا، انہوں نے فلکیات اور ستارہ شناسی کے بارے میں بے شمار کتابیں خرید کر اپنے علم میں اضافہ کیا۔

    ڈاکٹر طیبہ کہتی ہیں کہ ملک میں سائنس کے شعبے میں لڑکیوں کی تعداد نہایت کم ہے اور فلکیات میں تو بالکل نہیں، ’یہاں کی لڑکیاں بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں لیکن ثقافتی و سماجی پابندیاں ان کے آڑے آجاتی ہیں‘۔

    خود انہیں بھی اپنے پی ایچ ڈی کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت بہت مشکل سے ملی تھی۔

    ڈاکٹر طیبہ کا عزم ہے کہ وہ اس شعبے میں مزید کامیابیاں حاصل کریں تاکہ اپنے ملک کا نام روشن کرسکیں۔

  • انٹارکٹیکا کو پیدل عبور کرنے والی باہمت خواتین

    انٹارکٹیکا کو پیدل عبور کرنے والی باہمت خواتین

    برطانوی فوج سے تعلق رکھنے والی 6 خواتین دنیا کی وہ پہلی خواتین کی ٹیم بن گئی ہیں جنہوں نے برفانی خطے انٹارکٹیکا کو پیدل سفر کر کے عبور کیا۔

    یہ ٹیم برطانوی فوج کی 2 ڈاکٹرز نے کچھ عرصہ قبل سامنے آنے والی ایک تحقیق  کو غلط ثابت کرنے لیے تشکیل دی تھی، تحقیق میں کہا گیا تھا کہ خواتین کا جسم مردوں کے مقابلے میں سخت محنت اور حالات برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

     برطانوی ڈاکٹرز نے اسی تحقیق کو غلط ثابت کرنے کے لیے یہ اسیکنگ ٹیم تشکیل دی جس کے ذمہ انٹارکٹیکا کو پیدل عبور کرنے کا ٹاسک لگایا گیا تھا۔

    ٹیسٹ کے لیے آنے والی برطانوی فوج کی 250 خواتین سپاہیوں میں سے 6 کا انتخاب کیا گیا۔ تمام تیاریوں کے بعد اس ٹیم نے اپنے سامان کے ساتھ انٹارکٹیکا کا سفر شروع کیا۔

    ٹیم ممبران کا کہنا تھا کہ سفر کے آغاز میں ہلکی سی ہوا تھی، تاہم صرف ایک گھنٹے بعد ہی ان کا سامنا انٹارکٹیکا کی 60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی برفانی کاٹ دار ہوا سے تھا، جس کا مقابلہ کرنا بہت سے جاندار مردوں کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔

    ان خواتین نے 62 دن میں پیدل سفر اوراسکینگ کرتے ہوئےانٹارکٹیکا کے  ایک ہزار 56 میل کے رقبے کو عبور کیا۔ اس دوران یہ تیز سرد ہواؤں اور منفی درجہ حرارت سے لڑتی رہیں۔

    ٹیم کی ایک رکن کا کہنا ہے کہ وہاں ہوا اس قدر طوفانی تھی کہ کیمپ لگاتے ہوئے 4 اراکین ٹینٹ کو پکڑے رکھتیں، بقیہ 2 زمین پر اسے نصب کرتیں تب کہیں جا کر کیمپ لگتا۔

    اس دوران ٹیم کو محکمہ موسمیات کی جانب سے موسم سے متعلق ای میلز بھی موصول ہوتی رہیں۔

    ان باحوصلہ خواتین نے مقرر کیے گئے وقت سے قبل ہی فنشنگ لائن عبور کرلی اور یوں یہ انٹارکٹیکا کو عبور کرنے والی خواتین پر مشتمل پہلی ٹیم بن گئیں۔

  • پیدائش سے قبل سرجری کے بعد بچے کو واپس ماں کے رحم میں رکھ دیا گیا

    پیدائش سے قبل سرجری کے بعد بچے کو واپس ماں کے رحم میں رکھ دیا گیا

    ایک نئی زندگی کا اس دنیا میں آنا معمول کا حصہ ہے، لیکن اس عمل سے جڑے بعض اوقات ایسے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جو ایک طرف تو ہمیں دنگ کردیتے ہیں، تو دوسری طرف میڈیکل سائنس کے لیے بھی چیلنج ثابت ہوتے ہیں۔

    لندن کے ڈاکٹرز کو بھی ایسا ہی ایک چیلنج درپیش تھا جس میں انہیں ممکنہ طور پر معذور بچے کا ماں کے رحم سے نکال کر آپریشن کرنا تھا اور پھر اسے واپس ماں کے رحم میں رکھنا تھا۔

    لندن کی رہائشی 25 سالہ بیتھن سمپسن روٹین چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئی تو اسے ایک دلدوز خبر سننے کو ملی۔

    ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اس کا بچہ اسپائینا بفیڈا نامی مرض کا شکار ہوگیا ہے۔

    اس مرض میں ماں کے پیٹ میں موجود بچے میں ریڑھ کی ہڈی درست نشونما نہیں کرپاتی جو آگے چل کر اسے چلنے پھرنے سے معذور بنا سکتی ہے۔

    ڈاکٹر نے بیتھن کو 3 آپشنز دیے، یا تو وہ اپنے حمل کو گرا دے، یا وہ اسے ایسا ہی چلنے دے جو آگے چل کر ممکنہ طور پر ایک معذور بچے کو جنم دے سکتا تھا، یا پھر وہ ایک خطرناک سرجری کے عمل سے گزرے جس کی کامیابی کا امکان بہت کم تھا۔

    بیتھن اور اس کے شوہر نے سرجری کروانے کا فیصلہ کیا۔

    لندن کے گریٹ آرمنڈ اسٹریٹ ہاسپٹل میں کی جانے والی اس سرجری میں بچے کو ماں کے رحم سے نکال کر اس کی سرجری کی گئی جو کامیاب رہی، اس کے بعد اسے واپس ماں کے رحم میں رکھ دیا گیا تاکہ وہ حمل کا وقت پورا کرسکے۔

    یہ عمل کامیابی سے ہمکنار ہوا، جس وقت بچے کو ماں کے رحم سے نکالا گیا اس وقت اس کی عمر 24 ہفتے تھی۔

    سرجری کے بعد بیتھن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپنے عزیز و اقارب کو اس کی اطلاع دی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ اور اس کا بچہ صحیح سلامت ہیں۔

    بیتھن نے کہا کہ انگلینڈ میں اس کیفیت کا شکار 80 فیصد بچوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔ ’گو کہ یہ عمل مشکل ضرور ہے مگر اس کے بعد ایک صحت مند بچے کو جنم دینا دنیا کا خوشگوار ترین احساس ہے‘۔

    برطانیہ میں یہ سرجری اب تک صرف 4 دفعہ انجام دی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے یہ سرجری بہت سے بچوں کی جانیں بچانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

  • آسام کے چائے کے باغات حاملہ خواتین کے لیے خطرناک ترین مقام

    آسام کے چائے کے باغات حاملہ خواتین کے لیے خطرناک ترین مقام

    بھارتی ریاست آسام ایک طرف تو دنیا بھر میں اپنی چائے کی پیداوار کی وجہ سے مشہور ہے، تو دوسری جانب اسے بچوں کی پیدائش کے حوالے سے بھارت کا انتہائی خطرناک مقام بھی قرار دیا جاتا ہے۔

    آسام میں واقع چائے کے باغات میں خواتین کسانوں اور مزدوروں کی بڑی تعداد کام کرتی ہے تاہم ان خواتین کے لیے طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

    ان خواتین میں کئی حاملہ بھی ہوتی ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ناقص طبی سہولیات، غیر غذائیت بخش خوراک اور دن کا طویل عرصہ کام کرنا ان حاملہ خواتین کی ڈلیوری کے لیے نہایت خطرات پیدا کردیتا ہے۔

    آسام میں ہر ایک لاکھ میں سے 237 خواتین زچگی کے وقت موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔

    یہ شرح بھارت کی مجموعی شرح سے بھی زیادہ ہے، بھارت بھر میں ایک لاکھ میں سے 130 خواتین دوران زچگی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔

    آسام میں موجود چائے کے یہ باغات چائے کی نصف ملکی ضرورت پوری کرتے ہیں جبکہ یہ کئی بین الاقوامی چائے کے برانڈز کو بھی چائے فراہم کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں کاشتکار خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بننے پر مجبور

    مالکان یہاں پر کام کرنے والے کسانوں اور مزدوروں کو جائز اجرت اور طبی سہولیات فراہم کرنے کے پابند ہیں تاہم چند ہی مقامات پر کسانوں کو یہ سہولیات میسر ہیں۔

    باغات میں کام کرنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ معمولی سی طبیعت خرابی سے لے کر زچگی تک کے لیے دور و قریب میں کوئی طبی سہولت موجود نہیں۔ ’طبی سہولیات کے نام پر یہاں صرف ایک کان میں ڈالنے والی مشین (اسٹیتھو اسکوپ) اور بلڈ پریشر کا آلہ دستیاب ہوتا ہے‘۔

    ان کے مطابق حاملہ خواتین بھی اپنی استعداد سے بڑھ کر کام کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ روزانہ کا ہدف پورا نہیں ہوگا تو اجرت نہیں ملے گی۔

    انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک سماجی کارکن نے بتایا کہ خواتین حمل کے آخری دنوں تک کام کرتی ہیں، کئی خواتین کے یہاں کھیت میں ہی بچے کی پیدائش ہوجاتی ہے۔

    دوسری جانب بھارتی مقامی حکام کا کہنا ہے کہ اس ریاست کا دور دراز ہونا اور سفر کے لیے مناسب ذرائع نہ ہونا یہاں مختلف سہولیات کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ ہے۔

  • بھارت میں انوکھی شادی جہاں خاتون قاضی نے نکاح پڑھایا

    بھارت میں انوکھی شادی جہاں خاتون قاضی نے نکاح پڑھایا

    بھارت کے شہر ممبئی میں انوکھی شادی منعقد ہوئی جہاں ایک خاتون قاضی نے جوڑے کا نکاح پڑھایا۔ اس اقدام کو بھارت میں نہایت پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔

    ممبئی میں اپنی نئی زندگی کا سفر شروع کرنے والی مایا کا کہنا ہے کہ اس نے ایک بار کہیں پڑھا تھا کہ خاتون بھی قاضی ہوسکتی ہے اور اسلام میں ایسی کوئی ممانعت نہیں، چنانچہ انہوں نے اور ان کے ہونے والے شوہر شمعون نے فیصلہ کیا کہ ان کا نکاح خاتون ہی پڑھائیں گی۔

    مایا بنگالی ہیں جبکہ وہ برطانوی شہریت بھی رکھتی ہیں، تاہم اپنی نئی زندگی کا سفر شروع کرنے کے لیے وہ بھارت آئیں تھی۔

    مایا کا کہنا ہے کہ خاتون قاضی کی تلاش ایک مشکل عمل تھا کیونکہ یہ کوئی عام بات نہیں، بہت کم لوگ اس بات کا علم رکھتے ہیں کہ خاتون بھی قاضی ہوسکتی ہیں۔

    بالآخر مایا کو خاتون قاضی کا پتہ بھارتیہ مسلم مہیلا اندولن (بی ایم ایم اے) کی ویب سائٹ سے ملا۔

    بی ایم ایم اے نے مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، راجھستان، تامل تاڈو، کرناٹک اور اڑیسہ میں 16 خواتین قاضیوں کی ٹریننگ کی ہے اور یہ سب اس پلیٹ فارم کی ویب سائٹ پر رجسٹرڈ ہیں۔

    یوں مایا اور شمعون قاضی حکیمہ تک پہنچے جنہوں نے ان دونوں کا نکاح پڑھایا۔ قاضی حکیمہ کا کہنا ہے کہ وہ اس جوڑے کا نکاح پڑھانے کی خوشی کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتیں۔

    بی ایم ایم اے کی سربراہ نور جہاں صفیہ ناز کہتی ہیں کہ خواتین کا قاضی ہونا ایسا ہی ہے جیسے کسی اور شعبے میں خواتین کا سرگرم ہونا، لیکن ایک عام خیال ہے کہ صرف مرد ہی قاضی ہوسکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ خواتین قاضیوں کے رجحان کو عام کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے شمعون اور مایا جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جو روایتی تصورات سے ہٹ کر زندگی گزارنا چاہیں۔

  • تین سالہ ننھی بیوٹیشن  کا چرچا

    تین سالہ ننھی بیوٹیشن کا چرچا

    بیجنگ: چین کے شہر چنگ ڈو میں تین سالہ لیانگ ژنژن اپنا بیوٹی پارلر چلا رہی ہیں، اُن کی مہارت کو دیکھتے ہوئے دیگر خواتین بھی تیار ہونے کے لیے ننھی بیوٹیشن کے پاس آتی ہیں۔

    چینی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق چین کے شہر چنگ ڈو کے پارلر میں کام کرنے والی تین سالہ بچی ملازم نہیں بلکہ پارلر کی مالک ہے جو مہارت کے ساتھ خواتین کے اسٹائلش بال، فیشل اور میک اپ کرتی ہے۔

    حیران کن طور پر یہ عمر بچوں کے کھیلنے کودنے کی ہوتی ہے مگر تین سالہ بچی وہ کام مہارت کے ساتھ کررہی ہے جس پر عبور حاصل کرنے کے لیے کافی عرصہ لگ جاتا ہے۔

    تین سالہ بچی کی ویڈیو انٹرنیٹ پر شیئر ہوئی تو صارفین نے ننھی بیوٹیشن کو داد دی اور اُس کی مہارت کو دیکھ کر ششدر رہ گئے۔

    مزید پڑھیں: شامی جنگ سے متاثرہ 8 سالہ باہمت بچی

    لیانگ ژن ژن کے والد نے ڈیلی میل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دو ماہ کی عمر میں مجھے اندازہ ہوا کہ بیٹی کو بال سنوارنے اور نت نئے ڈیزائن بنانے کا شوق ہے، جیسے جیسے وہ بڑی ہوئی اُس کے اندر چھپی خداداد صلاحتیں سامنے آئیں جو ہمارے لیے حیران کن تھیں۔

    لیانگ کے والد پیشے کے اعتبار سے حجام کا کام کرتے ہیں اس لیے وہ اُن کے ساتھ اکثر دکان جاتی تھی۔

    یہ بھی پڑھیں: معذور بھائی اور گھر والوں کی مدد کرنے والی 9 سالہ بلند حوصلہ بچی، ویڈیو وائرل

    والد لیانگ کا کہنا تھا کہ ایک روز ژن نے دکان پر آنے والے گاہک کے بال کاٹنے کی فرمائش کی تو میں نے پوچھ کر اجازت دی، جب اُس کے بال کٹے تو ہم سب حیران رہ گئے کیونکہ یہ انداز بہت اچھا تھا۔ لیانگ کے والد کا کہنا تھا کہ ’مجھے امید ہے بیٹی بیوٹیشن کے میدان میں اپنی پہچان بنائے گی، مگر اتنا ضرور ہے کہ ہم کبھی اُس کی تعلیم میں کام کی وجہ سے خلل نہیں آنے دیں گے۔

  • خواتین کو جنسی حملوں سے بچانے والا نیکلس

    خواتین کو جنسی حملوں سے بچانے والا نیکلس

    نئی دہلی: بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے ایک اور حفاظتی ہتھیار متعارف کروا دیا گیا جو بظاہر دیکھنے میں ایک زیور ہے۔

    بھارت میں چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والی ایک کمپنی نے گلے میں پہننے والا ایسا نیکلس تیار کیا ہے جو کسی خطرے کی صورت میں خواتین کو بچا سکتا ہے۔

    خواتین کے روزمرہ استعمال کا یہ زیور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے جو ایک ایپلی کیشن کے ذریعے موبائل فون سے منسلک ہوسکتا ہے۔

    جب بھی خواتین خود کو کسی مشکل میں پائیں گی تو اس نیکلس کو چھونے اور دبانے کی صورت میں ایک الرٹ اس شخص کو چلا جائے گا جس کا نمبر پہلے سے ایپ میں محفوظ کیا جا چکا ہوگا۔

    نیکلس کی ایپ میں 3 نمبرز محفوظ کیے جاسکتے ہیں۔ خطرے کی صورت میں ان افراد کو فوری طور پر ایک پیغام پہنچے گا جس سے انہیں اندازہ ہوگا کہ نیکلس پہننے والا کسی مشکل میں ہے۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    اس نیکلس کو دو بار دبانے پر ایک زوردار الارم بھی بج اٹھے گا جس سے آس پاس کے لوگ متوجہ ہوجائیں گے۔

    نیکلس میں نصب ڈیوائس چارجنگ بیٹری سے کام کرتی ہے جو ایک بار چارج کرنے کے بعد 3 سے 4 دن تک کام کرسکے گی۔

    خواتین کو بچانے والے اس نیکلس کی قیمت ڈھائی ہزار بھارتی روپے سے شروع ہوتی ہے۔

    یاد رہے کہ بھارتی کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق بھارت میں اس وقت خواتین سے زیادتی چوتھا بڑا اور عام جرم بن چکا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2013 میں لگ بھگ 25 ہزار خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

    ہر سال پیش آنے والے زیادتی کے واقعات میں سے صرف 5 سے 6 فیصد ایسے ہیں جو رپورٹ ہو پاتے ہیں۔ ان میں بھی ملزمان آزاد ہوجاتے ہیں اور زیادتی کا شکار متاثرہ لڑکی اور اس کا خاندان انصاف کے حصول میں بری طرح ناکام رہتے ہیں۔

  • سعودیہ میں قید خواتین رضاکاروں کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

    سعودیہ میں قید خواتین رضاکاروں کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

    ریاض/لندن : انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انکشاف کیا کہ سعودی عرب کی جیلوں میں انسانی حقوق کی عملبردار خواتین کو دہشت ناک زیادیتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب سے متعلق اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ریاست سعودی عرب کے صوبے جدہ کی دھابن جیل میں قید انسانی حقوق کی عملبردار خواتین کو دوران تفتیش جنسی زیادتی، تشدد اور دیگر ہولناک زیادتیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    ایمنسٹی انٹرنینشل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ گرفتار خواتین رضاکاروں کو دوران تفتیش بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور اس قدر کوڑے مارے گئے ہیں کہ متاثرہ خواتین کھڑی ہونے کے بھی قابل نہیں رہیں۔

    جمعے کے روز جاری ہونے والی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ تفتیش کاروں نے کم از کم 10 خواتین کو ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور تفتیش کاروں نے جبراً ایک دوسرے کو بوسہ دینے پر مجبور کیا گیا۔

    انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ تفتیش کاروں نے ایک خاتون قیدی سے کہا کہ تمھارے اہل خانہ مرچکے ہیں، جیل حکام کے جھوٹ کے باعث متاثرہ خاتون ایک ماہ تک شدید صدمے میں رہی جبکہ ایک اور خاتون کو کال کوٹری میں بند کرکے بجلی کے جھٹکے دئیے گئے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ گرفتار خواتین میں لجین الھذلول اور عزیزہ الیوسف بھی شامل ہیں جنہیں گزشتہ برس مئی میں خواتین کو ڈرائیورنگ کی اجازت دینے کیلئے اور مردوں کی لازمی سرپرستی کے خلاف مہم چلانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ مذکورہ خواتین کو قید میں رکھا ہوا ہے لیکن سعودی حکام کی جانب سے نہ ان پر کوئی مقدمہ چلایا جارہا ہے اور نہ ہی نہیں کسی وکیل تک رسائی کا حق حاصل ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد برطانوی اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے سعودیہ پر خواتین قیدیوں تک رسائی کےلیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کی نومبر 2018 میں یہ رپورٹ مرتب کی تھی اور دسمبر 2018 میں سعودی حکام سے خواتین قیدیوں تک رسائی کی درخواست کی تھی لیکن انسانی حقوق کی تنظیم کو ابھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

    مزید پڑھیں: اقوام متحدہ جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کرے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

    خیال رہے کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم کی یہ رپورٹ ایسے موقع پر سامنے آئی جب دنیا بھر میں سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے صحافی جمال خاشقجی کے استنبول کے سعودی قونصلیٹ میں لرزہ خیز قتل کی عالمی سطح پر تحقیقات کا مطالبہ ہورہا ہے۔

  • بھارت میں خواتین بائیکرز کے لیے نیا حفاظتی ہتھیار تیار

    بھارت میں خواتین بائیکرز کے لیے نیا حفاظتی ہتھیار تیار

    نئی دہلی: بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے ایک اور حفاظتی ہتھیار متعارف کروا دیا گیا جو کسی خطرے کی صورت میں باآسانی ان کی پہنچ میں ہوگا۔

    بھارت میں خواتین سے زیادتی اور انہیں ہراساں کرنے کے جرائم عروج پر پہنچ چکے ہیں، گزشتہ کئی عرصے سے بھارتی دارالحکوت نئی دہلی کو ریپ کیپیٹل کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں ہر چند منٹ میں ایک لڑکی زیادتی کا نشانہ بنتی ہے۔

    بھارتی کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق بھارت میں اس وقت خواتین سے زیادتی چوتھا بڑا اور عام جرم بن چکا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2013 میں لگ بھگ 25 ہزار خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

    ہر سال پیش آنے والے زیادتی کے واقعات میں سے صرف 5 سے 6 فیصد ایسے ہیں جو رپورٹ ہو پاتے ہیں۔ ان میں بھی ملزمان آزاد ہوجاتے ہیں اور زیادتی کا شکار متاثرہ لڑکی اور اس کا خاندان انصاف کے حصول میں بری طرح ناکام رہتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    گو کہ بھارت میں ان جرائم پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم پولیس سسٹم اور جوڈیشل سسٹم میں خرابی کی وجہ سے صورتحال جوں کی توں ہے اور حکام اس سلسلے میں کوئی بڑی پیشرفت کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔

    انتظامی مشینری کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے بھارتی خواتین انفرادی طور پر حفاظتی اقدامات اٹھانے پر مجبور ہیں جبکہ کئی پرائیوٹ کمپنیوں کی جانب سے بھی خواتین کی حفاظت کے لیے مختلف طریقے متعارف کروائے جا چکے ہیں۔

    حال ہی میں ایک موٹر کمپنی نے خواتین کی اسکوٹی میں پیپر (کالی مرچ) اسپرے متعارف کروایا ہے جو بائیک کے ہینڈل میں نصب ہے۔

    گو کہ کئی خواتین خصوصاً اکیلے سفر کرنے والی خواتین حفاظتی اقدامات کے پیش نظر اپنے ساتھ پیپر اسپرے رکھتی ہیں تاہم کسی ہنگامی صورتحال میں پلک جھپکتے کے ساتھ اس اسپرے کو دسترس میں لینا خاصا مشکل ہوتا ہے۔

    اسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آٹو کمپنی نے اپنی بائیکس کے ہینڈل میں اسپرے نصب کیا ہے تاکہ خطرے کی صورت میں اسے فوری طور پر نکال کر استعمال کیا جاسکے۔

    کمپنی کا کہنا ہے اس ’ہتھیار‘ کا مقصد خواتین کو محفوظ اور خود مختار بنانا ہے تاکہ باہر نکلنے کا خوف انہیں روک نہ سکے اور وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرسکیں۔

  • جبری شادیوں کے خلاف کرغیزستان کی خواتین کا انوکھا فیشن شو

    جبری شادیوں کے خلاف کرغیزستان کی خواتین کا انوکھا فیشن شو

    بشکیک : کرغیزستان میں جبری شادیوں کے خلاف شعور اجاگر کرنے کےلیے متاثرہ خواتین نے انوکھے فیشن شو کا انعقاد کیا۔

    تفصیلات کے مطابق وسطی ایشیاء کی ریاست کرغیزستان میں آج بھی مفتوحہ شادی کی فرسودہ روایت پر عمل کیا جاتا ہے جسے معدوم ہوئے صدیاں گزر گئیں، ۔

    عروسی اغواء یا مفتوحہ شادی کا عمل ایسی فرسودہ روایت ہے، جس کے تحت مرد اس خاتون کو اغواء کرکے شادی کرتا جسے وہ پسند کرتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ کرغیزستان میں جبری شادی پر قانونی پابندی کے باوجود اب بھی مفتوحہ شادی کے افسوس ناک واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، جس کے خلاف کئی افراد سرگرم عمل ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جبری شادیوں کے خلاف کرغیزستان میں ایسے فیشن شو کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں متاثرہ خواتین فرسودہ روایت کے خلاف شعور اجاگر کرنے کیلئے شرکت کرتی ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ کرغیزستان میں ہر پانچ میں سے ایک خاتون کو اغواء کرکے زبردستی ایسے مرد سے بیاہ دیا جاتا ہے جو اس خاتون سے شادی کا خواہاں ہوتا ہے۔

    کرغیزستان کی قانون ساز  اسمبلی میں اس روایت کے خلاف سنہ 2013 میں قانون سازی بھی کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود یہ واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔

    عروسی اغواء کی شکار خاتون نے بتایا کہ ’مجھے کچھ لوگ اغواء کررہے تھے تو میں نے مزاحمت دکھائی لیکن اغواء کاروں میں سے کسی نے میرے پیٹ کو نشانہ بنایا اور زبردستی گاڑی میں دھکیل دیا اور لے جاکر شادی کروادی‘۔

    عروسی اغواء کی ایک اور متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ آج کل کی خواتین کو نئی ایسے رول ماڈلز کی تلاش ہے جو متاثرہ خواتین کو آواز بلند کرنے میں حوصلہ دیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ جبری شادی کی متاثرہ خواتین ملک میں تبدیلی خواتین کی خود مختاری کیلئے پر عزم ہیں۔