Tag: خواتین

  • پاکستان میں صنفی مساوات کی پوزیشن، صدر پاکستان کو تشویش

    پاکستان میں صنفی مساوات کی پوزیشن، صدر پاکستان کو تشویش

    خواتین کے حقوق کے حوالے سے جاری کردہ عالمی فہرست میں پاکستان کی خراب رینکنگ پر صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس سلسلے میں مؤثر اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم (ورلڈ اکنامک فورم) نے گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2018 جاری کردی جس میں پاکستان کو 149 ممالک کی فہرست میں 148 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔

    پاکستان جنوبی ایشیا کے دیگر تمام ممالک میں بھی آخری نمبر پر ہے۔

    سنہ 2006 سے مرتب کی جانے والی اس رپورٹ کا انحصار کسی ملک میں خواتین کو میسر تعلیم اور صحت کی سہولیات، اقتصادی مواقعوں اور سیاسی اختیارات کی فراہمی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی شرح خواندگی 44.3 فیصد ہے جبکہ اس کی نسبت مردوں میں 69.1 فیصد ہے۔ پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی صرف 20.6 فیصد ہے۔

    صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے صدارتی ٹویٹر اکاؤنٹ پر رپورٹ پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے، انہوں نے حکام، مجلس مقننہ، اور عدلیہ سے اس صورتحال کی طرف توجہ دینے کی اپیل کی۔

    فہرست میں پہلے نمبر پر آئس لینڈ ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ صنفی مساوات ہے۔

  • مانع حمل ادویات استعمال کرنے والی خواتین ڈپریشن کا شکار

    مانع حمل ادویات استعمال کرنے والی خواتین ڈپریشن کا شکار

    آج کل کے دور میں مانع حمل ادویات کا استعمال خواتین میں بہت عام ہے، ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مانع حمل ادویات خواتین کے دماغ کے اس حصے کو متاثر کرتی ہیں جہاں سے خوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، نتیجتاً خواتین خوشی کے جذبات سے محروم ہوجاتی ہیں۔

    امریکی ریاست کیلیفورنیا میں چھوٹے پیمانے پر کی جانے والی ایک تحقیق میں ان خواتین کے دماغ کا جائزہ لیا گیا جو مانع حمل ادویات استعمال کرتی تھیں۔

    تحقیق میں انکشاف ہوا کہ یہ ادویات خواتین کے دماغ کے 2 اہم حصوں کی جسامت کو سکیڑ کر ان کے کام کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: رحم کے کینسر کی علامات جانیں

    دماغ کے یہ دونوں حصے جذبات خاص طور پر خوشی کے جذبات کو پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ مانع حمل ادویات کے استعمال سے ان حصوں کی کارکردگی کم ہوگئی یوں خواتین میں ڈپریشن اور ناخوشی کا احساس بڑھ گیا۔

    تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ ادویات دماغ کی مجموعی کارکردگی کو بھی متاثر کرتی ہیں جس کے باعث خواتین کو اپنے روزمرہ کے کام سر انجام دینے میں مشکل کا سامنا پیش آتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق فی الحال چھوٹے پیمانے پر کی گئی ہے لہٰذا اس کے نتائج کو حتمی نہیں کہا جاسکتا، مانع حمل ادویات کے نقصانات اور اثرات کے بارے میں جاننے کے لیے مزید بڑے پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • جسمانی معذوری صلاحیتوں کے اظہار کی محتاج نہیں: باہمت حنا کا عزم

    جسمانی معذوری صلاحیتوں کے اظہار کی محتاج نہیں: باہمت حنا کا عزم

    جسمانی معذوری کسی شخص کو حرکت کرنے سے معذور تو کرسکتی ہے، لیکن اس کے تخیل، اس کی سوچ اور اس کی صلاحیتوں کو محدود نہیں کرسکتی۔ اسی کی عملی مثال 32 سالہ حنا خالد ہیں جو معذوری کے باوجود بہت سے مکمل طور پر صحت مند لوگوں سے زیادہ باہمت اور حوصلہ مند ہیں۔

    حنا ایک نارمل چائلڈ تھیں جن کا بچپن بہت خوبصوت انداز میں گزرا، تاہم ان کی مشکلات کا آغاز 12 سال کی عمر سے ہوا۔ ایک دن انہیں اپنے جسم میں شدید تکلیف کا احساس ہوا، حنا کو ڈاکٹرز کے پاس لے جایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے انہیں کہا کہ ان کے مسلز پر دباؤ پڑ رہا ہے جو جلد ہی ٹھیک ہوجائے گا۔

    حنا اور ان کے والدین پرامید ہو کر گھر آگئے تاہم 2 ہفتوں بعد حنا کا نچلا دھڑ مکمل طور پر مفلوج ہوگیا جس کے بعد وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہوگئیں۔

    ان کی معذوری ڈاکٹرز کے لیے حیران کن تھی۔ ڈاکٹرز نے ان کی ریڑھ کی ہڈی کا ایم آر آئی کیا جس میں انکشاف ہوا کہ ہڈی میں انفیکشن ہوچکا ہے جس کے ناسور نے مسلز کو تباہ کردیا ہے۔

    ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ اس انفیکشن کو دواؤں کے ذریعے ٹیومر میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جس کے 4 سے 5 ماہ کے اندر حنا پرسکون موت مر سکتی ہیں،لیکن اگر مرض کو اسی حالت میں چھوڑ دیا جائے تو انہیں ساری زندگی بستر پر گزارنا ہوگی۔

    مزید پڑھیں: معذوری مجبوری نہیں، ماں کی قربانیوں‌ سے بچہ یونیورسٹی میں‌ داخل

    حنا کے والدین نے اپنی بیٹی کو زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا اور انہیں گھر لے آئے۔

    وہیل چیئر اور بستر تک محدود ہونے کے باوجود حنا نے اپنی تعلیم مکمل کی اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہیل چیئر کی وجہ سے انہیں کوئی نوکری نہ مل سکی تاہم اس سے مایوس ہونے کے بجائے حنا میں حوصلہ پیدا ہوا۔

    حنا نے گھر بیٹھے ہی مختلف کورسز کیے اور اب وہ ایک فوٹو گرافر، بلاگر، گرافک ڈیزائنر، 3 ڈی ویژولائزر ہیں جبکہ ایک جیولری برانڈ کی بھی مالک ہیں۔

    حنا کہتی ہیں کہ جب ہم صلاحیت اور قابلیت کی بات کرتے ہیں تو اسے جسمانی حالت سے جوڑنا نہایت غلط ہے، ’ضروری نہیں کہ دو ہاتھ رکھنے والا ہر شخص مصور ہو، کوئی مصور اگر ہاتھوں سے محروم ہے تو وہ پاؤں سے اپنی صلاحیت کا اظہار کرسکتا ہے‘۔

    وہ کہتی ہیں کہ جب لوگ معذوروں کو کہتے ہیں تم نارمل ہو تو انہیں بہت برا لگتا ہے، ’کیا ہم کسی نارمل شخص کو جا کر کہتے ہیں کہ تم نارمل ہو؟ معذوروں کو نارمل کہنا تو ایک طرح سے انہیں احساس دلانا ہے کہ وہ نارمل نہیں ہیں‘۔

    حنا کہتی ہیں کہ حدود صرف ہمارے دماغ میں ہوتی ہیں، جب ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں تو حدود کوئی معنی نہیں رکھتیں۔

  • شخصیت بوجھیں! دنیا بھر کی متاثر کن خواتین پر مبنی گیم

    شخصیت بوجھیں! دنیا بھر کی متاثر کن خواتین پر مبنی گیم

    ’شخصیت بوجھیں‘ چھوٹے بچوں کے لیے ایک مزیدار کھیل ہوتا ہے جس میں وہ مختلف مشہور شخصیات کے کارناموں اور ان کے اقوال کے ذریعے انہیں پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں، ایک روسی ڈیزائنر نے اسی طرح کے کھیل کو نہایت منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔

    روس کی زوزیا کوزرکا جو خود بھی ایک والدہ ہیں، اپنی بچیوں کی منفرد خطوط پر تربیت کرنا چاہتی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کی بچیاں بچپن ہی سے باہمت اور حوصل مند بنیں۔

    اسی لیے انہوں نے لکڑی سے بنا ہوا ایک انوکھا بورڈ گیم تشکیل دیا جس میں دنیا کی مشہور اور متاثر کن خواتین کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

    28 مشہور خواتین پر مبنی اس بورڈ گیم کو 2 کھلاڑی کھیلتے ہیں جن میں سے ایک دوسرے سے کسی مشہور خاتون کے بارے میں سوالات دریافت کرتا ہے۔

    ان خواتین میں پاکستانی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی اور میکسیکن مصورہ فریدہ کاہلو سمیت ایسی خواتین شامل ہیں جنہوں نے دنیا پر اپنے نقوش ثبت کیے۔

    زوزیا کا کہنا ہے اس بورڈ گیم کے ذریعے وہ ننھی بچیوں کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ وہ کچھ بھی کرسکتی ہیں۔ لڑکی ہونا انہیں کوئی کارنامہ سر انجام دینے سے روک نہیں سکتا۔

    وہ کہتی ہیں کہ ہمارے آس پاس موجود لوگ بچیوں کو وہ نہیں بتاتے جو انہیں بتانا چاہیئے، ’وہ صرف اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ تمہارا لباس بہت خوبصورت ہے، تمہارے بال بہت پیارے ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ تم بہت بہادر ہو، حوصلہ مند ہو اور کوئی بڑا کام کرسکتی ہو‘۔

    تب زوزیا نے ننھی بچیوں کی سوچ کا دھارا تبدیل کرنے کا کام اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کے لیے یہ بورڈ گیم بنا ڈالا۔

    گیم پر ان خواتین کے رنگین پورٹریٹس بنائے گئے ہیں جبکہ ان کے مختصر حالات زندگی، ان کے اہم کارنامے اور اقوال بھی درج ہیں۔

    زوزیا بتاتی ہیں کہ ان کے لیے سب سے مشکل مرحلہ تھا کہ وہ دنیا بھر کی ہزاروں خواتین میں سے صرف 28 کیسے چنیں، ’یہ 28 خواتین میری پسندیدہ ترین خواتین تھیں اور انہوں نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ خواتین ننھی بچیوں کو بھی بے حد متاثر کریں گی‘۔

  • خواتین کے لیے گھر خطرناک قرار، دنیا بھر میں یومیہ 137 خواتین قتل ہونے لگیں

    خواتین کے لیے گھر خطرناک قرار، دنیا بھر میں یومیہ 137 خواتین قتل ہونے لگیں

    نیویارک: اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں یومیہ 137 خواتین کو قتل کردیا جاتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات و جرم (UNODC) کی جانب سے خواتین پر تشدد کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی گئی۔

    رپورٹ میں جاری اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں شوہر یا اہل خانہ کے تشدد و ظلم سے اوسطاً 137 خواتین روزانہ قتل کردی جاتی ہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عورتو ں کو اُن کے گھروں میں ہی قتل کیا جاتا ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2017 میں قتل ہونے والی 87 ہزار خواتین میں سے آدھی سے زائد تعداد کو اُن کےشوہروں یا عزیزوں نے موت کے گھاٹ اتارا، 30 ہزار خواتین کو اُن کے خاوند جبکہ 20 ہزار کو رشتے داروں نے کسی بھی بات پر قتل کیا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان کی پہلی دلت سینیٹر دنیا کی 100 بااثر خواتین میں شامل

    اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’خواتین کے مقابلے میں چار گنا زیادہ مردوں کو بھی قتل کیا جاتا ہے، دنیا بھر میں روزانہ ہونے والی ہر دس ہلاکتوں میں سے 8 واقعات مردوں کو قتل کرنے کے ہوتے ہیں‘۔

    رپورٹ کے مطابق مختلف ممالک کے سرکاری ذرائع سے موصول ہونے والے اعداد و شمار میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ’خواتین اور لڑکیوں کے قتل کی اہم وجہ صنفی امتیاز جبکہ دوسری بڑی وجہ شوہر کی اقربا پروری ہے‘۔

    تیس (30) ہزار خواتین کو اُن کے خاوند جبکہ 20 ہزار کو رشتے داروں نے کسی بھی بات پر قتل کیا

    ادارہ برائے منشیات و جرم کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ’رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ خواتین کے لیے سب سے خطرناک جگہ اُن کا گھر ہے کیونکہ وہاں شوہر یا فیملی ممبران انہیں آسانی سے قتل کرسکتے ہیں‘۔

    یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخواہ میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون تیار

    اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ خواتین کو قتل کرنے کے واقعات افریقا میں پیش آئے، امریکا اس حوالے سے دوسرے جبکہ ایشیاء چوتھے نمبر پر رہا۔ یورپین ممالک میں گزشتہ برس سب سے کم خواتین کو قتل کیا گیا ۔

  • خواتین کی سائبر ہراسمنٹ کے خلاف ہیلپ لائن قائم

    خواتین کی سائبر ہراسمنٹ کے خلاف ہیلپ لائن قائم

    لاہور: صوبہ پنجاب میں سائبر ہراسمنٹ کا نشانہ بننے والی خواتین کے لیے ہیلپ لائن قائم کردی گئی، خواتین انٹرنیٹ کے ذریعے ہراساں کیے جانے کی شکایت 1043 پر درج کروا سکتی ہیں۔

    پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین کے تحت قائم کی جانے والی ہیلپ لائن پر سائبر ہراسمنٹ کی شکایات درج کروائی جاسکتی ہیں۔ خواتین کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ بشمول فیس بک، ٹویٹر، واٹس ایپ اور انسٹا گرام پر ہراساں کرنے والوں کے خلاف فوری قدم اٹھایا جائے گا۔

    کمیشن کا کہنا ہے کہ خواتین کو بذریعہ ویب سائٹ ہراسیت، نجی ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے اور بذریعہ اکاؤنٹ شناخت کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کارروائی کرے گی۔

    ہراساں کرنے والے کو 5 لاکھ روپے جرمانہ اور 6 ماہ قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

    خیال رہے کہ صوبہ پنجاب میں یو این ویمن کے اشتراک سے خواتین کے تحفظ کے لیے اس سے پہلے بھی کئی اقدامات اٹھائے جاچکے ہیں۔

    اس سے قبل پنجاب سیف سٹی انتظامیہ نے ایسی موبائل ایپ بنائی تھی جس کے تحت خواتین اپنے ساتھ ہونے والے ناخوشگوار واقعے کو فوری رپورٹ کر سکیں گی۔

    اس ایپ کے تحت اسے استعمال کرنے والی خاتون جیسے ہی وارننگ سگنل پریس کریں گی، فوراً ہی ڈولفن فورس کے قریبی دستے کو واقعہ اور جائے وقوع کی اطلاع موصول ہوجائے گی اور وہ حرکت میں آجائے گی۔

    ڈولفن فورس کے علاوہ قریبی پولیس اسٹیشن میں اسی کام کے لیے متعین اہلکار اور پولیس رسپانس یونٹ کے اہلکار بھی ان شکایات پر ایکشن لینے کے ذمے دار ہوں گے۔

  • کامیاب خواتین کی جانب سے بہترین کیریئر کے لیے مشورے

    کامیاب خواتین کی جانب سے بہترین کیریئر کے لیے مشورے

    آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں اور خواتین کا کیریئر بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنا مردوں کا کیریئر۔

    امریکی جریدے فورچون نے دنیا بھر کی مشہور خواتین سے کیریئر میں کامیابی کے لیے کچھ مشورے دریافت کیے جو یقیناً ان تمام خواتین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں گے جو اپنے پسندیدہ شعبے میں اپنا نام کمانا چاہتی ہیں۔

    اپنی شخصیت کو پہچانیں

    دنیا کی تمام کامیاب خواتین و مرد اس ایک نقطے پر متفق ہیں کہ کسی کی نقل کرنا کبھی بھی آپ کو کامیاب نہیں بنا سکتا۔ ہر شخص دوسرے شخص سے مختلف ہے لہٰذا جو آپ ہیں وہی رہیں۔ اپنی اچھی عادتوں کو اجاگر کریں اور بری عادتوں پر قابو پانے کی کوشش کریں۔

    معروف انشورنش کمپنی ایٹنا کی صدر کیرن لنچ اس بارے میں اپنا تجربہ بتاتی ہیں، ’جب مجھے ایک بڑے عہدے پر تعینات کیا گیا تو مجھ سے کہا گیا کہ میں گلابی رنگ نہ پہنا کروں کیونکہ یہ نو عمر لڑکیوں کا رنگ ہے۔ میں نے صاف انکار کردیا کہ میرا لباس یا اس کا رنگ میری صلاحیتوں اور اندرونی حوصلے کا تعین نہیں کرسکتا۔ میں نے گلابی لباس پہننا ترک نہیں کیا‘۔

    خوداعتمادی کامیابی کی کنجی

    کامیابی کے لیے خود اعتمادی کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ کبھی کبھی آپ صرف اس لیے موقع کھو دیتے ہیں کونکہ آپ وقت پر اعتماد کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں اور سوال نہیں کر پاتے یا جواب نہیں دے پاتے۔

    اپنے اندر اعتماد پیدا کیجیئے، سوال پوچھیں اور جواب دیں، چاہے سب خاموش ہوں۔

    مزید پڑھیں: خود اعتماد افراد کی 8 عادات

    امریکی ملٹی نیشنل کمپنی ڈیلوئٹ کی سی ای او کیتھی اینجل برٹ اس بارے میں کہتی ہیں، ’اپنا ہاتھ کھڑا کریں، خطرہ مول لیں اور ناکامی سے مت گھبرائیں۔ ناکامی کا خوف کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘۔

    مواقعوں کو خوش آمدید کہیں

    اپنے شعبے میں محدود ہوجانا اور جمود صلاحیتوں اور کامیابی دونوں کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے۔ اپنے آپ کو لچکدار بنائیں، نئے مواقعوں کو خوش آمدید کہیں اور اگر وہ تبدیلیاں مانگتی ہیں تو تبدیل ہونے سے نہ ہچکچائیں۔

    فیس بک کی چیف کو آپریٹنگ آفیسر شیرل سینڈبرگ اس بارے میں کہتی ہیں، ’ہمیشہ نئے موقع کو حاصل کریں، بے شک آپ سمجھتی ہوں کہ آپ اس کے لیے تیار نہیں، لیکن نیا چیلنج قبول کرنے سے مت گھبرائیں‘۔

    زندگی کا توازن برقرار رکھیں

    خاتون ہونا آپ پر دوہری ذمہ داریاں عائد کرتا ہے، اگر آپ پروفیشنل خاتون ہیں تو آپ کو کام اور گھر دونوں کو دیکھنا ہے۔ کامیاب خواتین کا ماننا ہے کہ آپ دونوں کام بیک وقت کر سکتی ہیں، بس اس کے لیے آپ کو زندگی میں توازن لانا ہوگا۔

    معروف چاکلیٹ کمپنی ہارشے کی صدر مشعل بک کہتی ہیں، ’اپنی زندگی کو اپنے لیے بنائیں، نہ کہ اپنا آپ زندگی کے لیے، آپ ایک کامیاب پروفیشنل خاتون بھی ہوسکتی ہیں اور ساتھ ہی ایک بہترین ماں بھی‘۔

    اچھے لوگوں کے درمیان رہیں

    یہ نقطہ حسد سے بچنے کا سبق دیتا ہے۔ کامیاب خواتین کے مطابق اپنے سے بہتر لوگوں سے تعلقات رکھنا آپ کو آگے بڑھنے کی طرف اکساتا ہے۔

    ریٹیل کمپنی وال مارٹ کی چیف کو آپریٹنگ آفیسر جوڈتھ مک کینا کہتی ہیں، ’اگر آپ کسی اونچے عہدے پر ہیں تو اپنے سے زیادہ قابل اور باصلاحیت لوگوں کو رکھنے سے نہ گھبرائیں۔ آپ کی ٹیم کے باصلاحیت ارکان ایک بہترین ٹیم تشکیل دے سکتے ہیں جس سے آپ کو نہ صرف کچھ نیا سیکھنے کا موقع ملے گا بلکہ آپ کی کامیابی کے امکانات میں بھی اضافہ ہوگا‘۔

  • خیبر پختونخواہ میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون تیار

    خیبر پختونخواہ میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون تیار

    پشاور: خیبر پختونخواہ میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون تیار کرلیا گیا جس میں تشدد کرنے والے شوہر کو 30 ہزار روپے جرمانے اور 3 ماہ قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخواہ میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قانون تیار کرلیا گیا۔ مجوزہ بل کے مطابق تشدد کرنے والے شوہر کو 30 ہزار روپے جرمانہ اور3 ماہ قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

    بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ شوہر بیوی کو کام کرنے کی جگہ یا کسی اور جگہ دھمکانے پر سزا کا مرتکب ہوگا، جبکہ بیوی کے رشتہ داروں کو دھمکانے پر بھی سزا ملے گی۔

    بل میں کہا گیا ہے کہ ناچاقی کی صورت میں شوہر کو بیوی کی سلامتی کی ضمانت کا پابند بنایا جائے جبکہ شوہر بیوی اور بچوں کو نان نفقہ اور دیگر اخراجات دینے کا بھی پابند ہوگا۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    بل کے مطابق بیوی کی جانب سے جھوٹا الزام لگانے پر اسے 50 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد ہوگا۔

    خیال رہے اس سے قبل خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں خواتین پر گھریلو تشدد، جنسی ہراسمنٹ یا کم عمری کی شادی کی شکایات درج کروانے کے لیے ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے۔

    زما آواز یعنی ’میری آواز‘ نامی یہ ہیلپ لائن خواتین کو سہولت فراہم کرے گی کہ وہ اپنے یا کسی اور پر ہوتے گھریلو تشدد کی شکایت براہ راست خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں درج کروا سکیں۔

    شکایت کے بعد مقرر کردہ کمیٹی درج کی جانے والی شکایات کا جائزہ لے کر فوری طور پر متعلقہ حکام کو ان پر کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کرے گی۔

  • کاشت کاری کر کے بیٹیوں کو تعلیم دلانے والی باہمت خاتون

    کاشت کاری کر کے بیٹیوں کو تعلیم دلانے والی باہمت خاتون

    بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا والدین کا خواب ہوتا ہے، اور اس کے لیے وہ بہت محنت کرتے ہیں۔ کچھ والدین اپنے بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی تعلیم کی نعمت سے روشناس کروانا چاہتے ہیں اور اردن کی ام بکر الہائمی انہی میں سے ایک ہیں۔

    مغربی اردن میں ایک چھوٹے سے باغ کی مالک یہ خاتون گزشتہ 25 برس سے محنت کر رہی ہیں۔

    ان کی 6 بیٹیاں اور 6 بیٹے ہیں اور یہ سب کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتی ہیں۔

    ہائمی اپنے باغ میں مختلف اقسام کی جڑی بوٹیاں اگاتی ہیں جو مختلف دواؤں میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان جڑی بوٹیوں کو یہ ضرورت مندوں کو مفت میں بھی دے دیتی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں کہ انہیں بہت اچھا لگتا ہے کہ ان کے پودے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔

    25 سال سے کاشت کاری کرنے والی ہائمی نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کرتی رہیں بلکہ انہوں نے اپنے بچوں کو تعلیم بھی دلوائی، یہ بچے اب خود بھی والدین بن چکے ہیں جو کہ برسر روزگار ہوچکے ہیں۔

    گو کہ ہائمی کو اب کام کرنے کی ضرورت نہیں رہی، تاہم یہ باغ ان کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور وہ اب بھی پابندی سے اس میں کام کرتی ہیں۔

    وہ چاہتی ہیں کہ ان کا باغ ایک سیاحتی مقام کی صورت اختیار کر جائے اور ملکی و غیر ملکی باشندے آکر ان کے باغ کا دورہ کریں۔

  • نیپال میں ہندو پجاری کم عمری کی شادیوں کے خلاف ڈٹ گئے

    نیپال میں ہندو پجاری کم عمری کی شادیوں کے خلاف ڈٹ گئے

    کھٹمنڈو: نابالغ اور کم عمر بچیوں کی شادیاں ایک بڑا معاشرتی مسئلہ ہے اور یہ انہیں شمار طبی و نفسیاتی مسائل میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ نیپال میں بھی اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے کچھ ہندو پجاری اپنی مذہبی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے والدین پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنی کم عمر بچیوں کی شادی نہ کریں۔

    نیپال میں کام کرنے والے ایک سماجی ادارے کے مطابق ملک میں 38 سے 50 فیصد لڑکیاں 18 سال کی عمر سے قبل بیاہ دی جاتی ہیں۔ یہ شادیاں لڑکی کے خاندان والوں کی خواہش پر ہوتی ہیں اور کم عمر لڑکیوں کو انتخاب کا کوئی حق نہیں ہوتا۔

    یاد رہے کہ نیپال میں گزشتہ 54 سالوں سے کم عمری کی شادی پر پابندی عائد ہے لیکن دور دراز دیہاتوں کے لوگ اب بھی اپنی لڑکیوں کی شادیاں جلدی کردیتے ہیں۔ یہ ان کی قدیم خاندانی ثقافت و روایات کا حصہ ہے اور ان دور دراز علاقوں میں قانون بھی غیر مؤثر نظر آتا ہے۔

    مزید پڑھیں: افریقی ممالک میں کم عمری کی شادی غیر قانونی قرار

    دوسری جانب طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادی لڑکیوں کو بے شمار طبی مسائل میں مبتلا کردیتی ہے۔ کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں چاہے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تب بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہیں۔

    کم عمری کے حمل میں اکثر اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن سے ان لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    اسی مسئلے کو دیکھتے ہوئے نیپال کے مغربی حصے میں واقع ایک گاؤں میں ہندو مذہبی رہنماؤں اور پجاریوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس برائی کو روکنے کی کوشش کریں گے۔

    ان ہی میں سے ایک پجاری 66 سالہ دیو دت بھٹ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک نو عمر لڑکی کے والدین اس کی شادی کے سلسلے میں مشورہ کرنے کے لیے آئے۔ اس لڑکی کی عمر صرف 16 برس تھی۔

    nepal-3

    دیو دت نے ان پر زور دیا کہ وہ کم از کم اپنی لڑکی کو 20 سال کی عمر تک پہنچنے دیں اس کے بعد اس کی شادی کریں۔

    انہوں نے بتایا کہ اکثر والدین ان کے پاس آکر اپنی لڑکی کی عمر کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں، جس کے بعد وہ اس لڑکی کا پیدائشی ’چینا‘ دیکھتے ہیں جس سے انہیں اس کی صحیح عمر کے بارے میں علم ہو جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    نیپالی زبان میں چینا دراصل ماہرین نجوم کی جانب سے بنایا گیا مستقبل کی پیش گوئی کرتا چارٹ ہے جو نیپالی ثقافت کے مطابق ہر پیدا ہونے والے بچے کا بنایا جاتا ہے۔ اس چارٹ میں درج کی جانے والی معلومات بشمول تاریخ پیدائش اور سنہ بالکل درست ہوتا ہے جس سے کسی کی بھی درست عمر کو چھپایا نہیں جاسکتا۔

    دیو دت نے بتایا کہ وہ اکثر والدین کو یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی لڑکیوں کا رشتہ طے کردیں مگر شادی کو چند سالوں کے لیے مؤخر کردیں۔

    اس کام میں دیو دت اکیلے نہیں ہیں۔ گاؤں میں ان جیسے کئی مذہبی پجاری ہیں جو اس کام میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔