ایک طویل عرصے سے اس بات پر بحث جاری ہے کہ سائنس کے شعبے میں خواتین کی تعداد کم کیوں ہے؟ اس شعبے میں مہارت رکھنے والی خواتین یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے خواتین سائنس سے دور ہیں۔
مائیکرو سافٹ کمپنی کے بانی بل گیٹس کی اہلیہ میلنڈا گیٹس اس بارے میں کہتی ہیں کہ خواتین کے معاملے میں یہ شعبہ دقیانوسیت کا شکار ہے، ’اس شعبے میں خواتین کو عموماً خوش آمدید نہیں کہا جاتا‘۔
میلنڈا گیٹس بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی بانی ہیں جو دنیا بھر میں تعلیم اور صحت کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔
وہ خود کمپیوٹر سائنس، معاشیات اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتی ہیں جبکہ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مائیکرو سافٹ کمپنی میں ایک دہائی تک کام کیا ہے۔
ایک انٹرویو میں میلنڈا نے بتایا کہ انہوں نے وکالت اور طب کے شعبے میں بے تحاشہ خواتین کو دیکھا ہے، لیکن ایس ٹی ای ایم یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور میتھامیٹکس کے شعبوں میں صورتحال مختلف ہے۔
وہ بتاتی ہیں، ’جب میں کالج میں تھی اس وقت لڑکیوں کی سائنس پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، اس وقت خواتین سائنس گریجویٹس کا تناسب 37 فیصد تھا جو اب کم ہو کر 18 فیصد پر آگیا ہے‘۔
میلنڈا اب فلاحی کاموں کے ساتھ سائنس کے شعبوں میں صنفی برابری کے فروغ کے لیے بھی کام کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’ہمیں سائنس کی خواتین پروفیسرز کی بھی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں سائنس پڑھنے کی طرف راغب ہوں، سائنسی مباحثوں اور فیصلوں میں خواتین کی شمولیت بھی ازحد ضروری ہے‘۔
برن : سوئٹزرلینڈ میں صنفی امیتاز کی بنا پر کم تنخواہ ملنے پر 20 ہزار سے زائد افراد پارلیمنٹ ہاوس کے باہر احتجاج کررہے ہیں، مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے ہیں جن پر ’یکساں تنخواہ‘ کے نعرے درج ہیں۔
تفصیلات کے مطابق یورپی ملک سوئٹزرلینڈ میں صنفی امیتاز کی بنیادوں پر تنخواہوں کی ادائیگی کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں صنف نازک نے دارالحکومت برن میں واقع پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے صنفی امیتاز کو ختم کرکے خواتین اور مردوں کو یکساں اجرت دینے کا مطالبہ کیا۔
یورپی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ خواتین کو مردوں سے کم تنخواہ دئیے جانے پر 40 مزدور یونینز کے اراکین نے احتجاجی مارچ میں شرکت جن کی تعداد 20 ہزار سے زائد تھی۔
مزدور یونین ’یونیا‘ کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ’خواتین ملازمین صنفی بنیادوں پر مردوں سے کم تنخواہ ملنے پر نالاں ہیں‘۔
مقامی میڈیا کے مطابق 40 مزدور یونینز نے مشترکا بیان میں کہا کہ ہزاروں ملازمین کا مطالبی ہے کہ قانون ساز افراد ایک جیسی ملازمت کرنے والے افراد کو اجرت کی ادائیگی بھی برابری سے کرے۔
مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے ہاتھوں میں پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر ’یکساں تنخواہ‘ کے نعرے تحریر تھے۔
یورپی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سوئٹزرلینڈ میں سنہ 1981 سے صنفی برابری کا قانون نافذ ہے تاہم اس کے باوجود خواتین کو مردوں سے 20 فیصد کم تنخواہ دی جاتی ہے۔
یونیا کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر کورین اسکارر کا کہنا تھا کہ ’ سوئٹزرلینڈ میں ایک ہی شعبے میں ملازمت کرنے والے مرد و خواتین کا موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ خواتین کو 3 لاکھ سوئس فرانک کا دھوکا دیا جاتا ہے کیونکہ وہ خاتون ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ رواں سال 9 جنوری کو انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کمپنی ’گوگل‘ کے خلاف سابق ملازمین مرد و خواتین نے الگ الگ قانونی مقدمات دائر کرتے ہوئے کمپنی پر امتیازی سلوک کا الزام عائد کیا تھا۔
خواتین کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں ادارے پر خواتین کے مقابلے میں مردوں کو زیادہ تنخواہیں دینے کا الزام عائد گیا تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق گوگل پر خواتین نے ابتدائی طور پر ستمبر 2017 میں مقدمہ دائر کیا تھا۔
کابل: ایک ایسا ملک جہاں خواتین کے گھر سے باہر قدم رکھنے کو ’گناہ‘ سمجھا جاتا ہو، وہاں ایک لڑکی کے گھر سے باہر نکلنے، اس کے میدان تک جانے، وہاں فٹبال کھلینے، اور پھر اسے معیوب خیال نہ کرنے کے جرم کو آپ کیا نام دیں گے؟
آپ چاہے اسے جو بھی کہیں، لیکن افغانستان میں ایسی ہی ایک لڑکی کے لیے ’طوائف‘ کا لفظ استعمال کیا گیا، اور خالدہ پوپل اس لفظ کو سننے کی اس قدر عادی ہوچکی ہیں کہ اب انہیں اس لفظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
خالدہ کو یہ لقب ان کے فٹبال کھیلنے کے جرم کی پاداش میں ملا ہے۔ وہ افغانستان میں 2007 میں تشکیل دی جانے والی پہلی خواتین فٹبال ٹیم کی کپتان ہیں اور فی الحال اپنے ملک سے دور جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔
اپنے بچپن کے بارے میں بتاتے ہوئے خالدہ کہتی ہیں، ’مجھے فٹبال کھیلنے کی تحریک میری والدہ نے دی۔ وہ ایک روشن خیال خاتون تھیں اور انہوں نے ہمیشہ میری غیر نصابی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی‘۔
خالدہ کو کھیلنے کے لیے فٹبال اور جوتوں کی پہلی جوڑی ان کی والدہ نے ہی اپنی جمع پونجی سے خرید کر دی۔
اپنے بچپن میں وہ اپنے خاندان کی دیگر لڑکیوں کے ساتھ گھر کے صحن میں ہی فٹبال کھیلا کرتیں۔ لیکن ابھی وہ گھر سے باہر جا کر بلندیوں کی طرف اڑان بھرنے کا سوچ ہی رہی تھیں کہ افغانستان میں طالبان داخل ہوگئے اور ظلم و جہالت کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔
کھلی فضاؤں میں سانس لینے کی غرض سے خالدہ کچھ عرصہ کے لیے اپنے والدین کے ساتھ سرحد پار کرکے پشاور میں مقیم ہوگئی۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ کب طالبان ان کا ملک چھوڑیں اور وہ واپس جا کر نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کریں۔
وطن واپسی کے بعد، جب دارالحکومت کابل میں طالبان کا زور کچھ کم تھا، خالدہ اور ان کی والدہ نے لڑکیوں کے اسکولوں میں فٹبال اور دیگر کھیلوں کے کلب قائم کرنے کی تحریک شروع کی۔ اسکولوں میں ان کلبز کے قیام کے بعد افغانستان فٹبال فیڈریشن کے صدر سے ملاقات کی گئی اور ان سے خواتین کی فٹبال ٹیم تشکیل دینے کی درخواست کی گئی۔
خوش قسمتی سے اس وقت کے افغانستان فٹبال فیڈریشن کے صدر کریم الدین کریم نے اس تجویز کو قابل عمل سمجھا اور افغانستان کی پہلی خواتین فٹبال ٹیم تشکیل پائی۔
اس ٹیم نے جس میں صرف 4 لڑکیاں موجود تھیں، ابتدا میں مالی مشکلات کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا۔ ٹیم میں شامل کھلاڑی روشن خیال اور مہذب خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں اور انہیں اپنے والدین اور خاندان کی پوری حمایت حاصل تھی۔ کچھ ایسی بھی تھیں جنہیں فٹبال کا شوق تھا لیکن خاندان سے اجازت نہ ملنے کے باعث وہ اپنے گھروں کو چھوڑ آئی تھیں۔
افغانیوں کے لیے اس بات کو تسلیم کرنا ذرا مشکل تھا۔
افغانستان سے طالبان کا کنٹرول ختم ہونے کے باوجود ان کی سوچ لوگوں میں سرائیت کر چکی تھی اور لڑکیوں کا کھیلوں کے شعبہ میں جانا انتہائی برا خیال کیا جاتا تھا۔
خالدہ پوپل بتاتی ہیں، ’فٹبال کیریئر شروع کرنے کے بعد مجھے اپنے اسکول میں شدید تفریق کا سامنا کرنا پڑا۔ میرے استاد مجھے کلاس سے باہر نکال دیتے تھے صرف اس لیے کیونکہ میں فٹبال کھیلتی تھی۔ مجھے اعتراض تھا کہ اگر مرد فٹبال کھیل سکتے ہیں تو ہم خواتین کیوں نہیں‘۔
وہ بتاتی ہیں، ’لوگ ہم پر کچرا اور پتھر پھینکا کرتے تھے کیونکہ ہم فٹبال کھیلتی تھیں‘۔
کچھ عرصہ بعد خالدہ نے فٹبال کو خواتین کی خود مختاری پر آواز بلند کرنے کے لیے علامتی طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔ وہ کہتی ہیں، ’فٹبال میرے لیے خواتین کے ایک بنیادی حق کی حیثیت اختیار کرگیا۔ اگر مرد اس قسم کے چھوٹے چھوٹے فیصلوں میں خود مختار ہیں، کہ انہیں کہاں جانا ہے، کیا بننا ہے، کیا کھیلنا ہے تو خواتین کیوں نہیں‘۔
وہ بتاتی ہیں، ’طالبان کے دور میں افغان خواتین بھول گئیں کہ وہ انسان بھی ہیں۔ کیونکہ معاشرے نے انہیں انسان سمجھنا چھوڑ دیا۔ خواتین پر طالبان کے قوانین کی خلاف ورزی پر سرعام تشدد کیا جاتا تو بھلا کون انسان ایسے سلوک کا حقدار ہے‘۔
سنہ 2011 میں خالدہ نے بے تحاشہ دھمکیوں کے بعد بالآخر افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے خاندان اور زندگی کے درمیان ایک چیز کا انتخاب کیا اور ملک اور خاندان کو مجبوراً چھوڑ دیا۔
اب وہ دنیا بھر میں خواتین کی فٹبال کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ خواتین کی خود مختاری کے لیے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این وومین سمیت کئی اداروں کی رکن بن چکی ہیں اور اپنی جدوجہد کی داستان سنا کر دنیا کو مہمیز کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’میری آواز دنیا کی ان تمام خواتین کے لیے بلند ہوگی جو ظلم و جبر کی چکی میں پس کر اپنے انسان ہونے کی شناخت بھی بھول چکی ہیں۔ میں پہلے انہیں ان کی یہ شناخت واپس دلاؤں گی اس کے بعد ان کی شخصیت کی تعمیر کرنے میں ان کی مدد کروں گی‘۔
سیکولر بھارت کا ایک اور مکروہ چہرہ سامنے آگیا، دارالحکومت کے ریپ کیپیٹل بننے کے بعد اب شوہروں نے اپنی بیویاں بھی کرائے پر دینی شروع کردیں۔
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے ایک گاؤں شیوہ پوری میں لوگ اپنی بیویوں کو صرف 10 روپے کے عوض صاحب حیثیت لوگوں کو کرائے پر دے رہے ہیں۔
یہ لوگ ایسے افراد کو اپنی بیویاں کرائے پر دیتے ہیں جن کی اپنی بیویاں نہ ہوں، یہ باقاعدہ ایک معاہدہ ہوتا ہے جو صرف 10 روپے کے اسٹامپ پیپر پر کیا جاتا ہے۔
معاہدے کی معیاد ختم ہونے کے بعد شوہر کسی اور شخص کو بیوی کرائے پر دینے کا معاہدہ کرتا ہے۔
خیال رہے کہ یہ گھناؤنی حرکت صرف مدھیہ پردیش میں ہی نہیں ہورہی۔ کچھ عرصہ قبل گجرات سے بھی ایک شخص کو گرفتار کیا گیا تھا جس نے اپنی بیوی 8 ہزار روپے ماہانہ کرائے پر ایک امیر شخص کو دے رکھی تھی۔
اس کے علاوہ بھارت میں بیٹیوں کو شادی کے نام پر فروخت کیا جانا بھی عام ہے۔ لوگ اپنی کم عمر بیٹیوں کو 60 یا 70 ہزار روپے کے عوض کسی امیر شخص کو فروخت کر دیتے ہیں۔
لندن: آنجہانی شہزادی لیڈی ڈیانا کو اس دنیا سے گزرے آج 21 برس ہوگئے۔ دنیا بھر کے افراد کے دلوں کی دھڑکن لیڈی ڈیانا صرف 36 سال کی عمر میں ایک کار ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہوگئی تھی۔
شہزادی ڈیانا یکم جولائی 1961 کو برطانوی گاؤں سینڈرینگھم میں پیدا ہوئی۔ ڈیانا بلاواسطہ طور پر برطانیہ کے شاہی خاندان کا ہی حصہ تھی۔ 1981 میں لیڈی ڈیانا کی شادی ولی عہد شہزادہ چارلس سے ہوئی۔
شادی سے قبل ڈیانا ایک اسکول میں پڑھاتی بھی تھی۔
لیڈی ڈیانا اور پرنس چارلس کے ازدواجی تعلقات میں کچھ عرصہ بعد ہی سرد مہری آگئی جس کے بعد لیڈی ڈیانا نے اپنے آپ کو فلاحی کاموں کے لیے وقف کردیا۔ 1996 میں دونوں کی علیحدگی ہوگئی۔
طلاق کے بعد لیڈی ڈیانا نے اپنی زندگی اسی گھر میں گزاری جہاں اس نے پرنس چارلس کے ساتھ شادی کا پہلا سال گزارا تھا۔ یہ گھر ڈیانا کی موت تک اس کا ٹھکانہ رہا۔
ڈیانا ایک پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹر حسنات خان کے تیر نظر کا شکار بھی ہوئی لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
سنہ 1996 میں ڈیانا موجودہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان کی دعوت پر پاکستان آئی جہاں اس نے شوکت خانم کے لیے فنڈ جمع کرنے والی فلاحی تقریب میں شرکت کی۔
ڈیانا کا تعلق مشہور اسٹور چین ’ہیرڈز‘ کے مالک دودی الفائد سے بھی رہا۔ 31 اگست 1997 کو لیڈی ڈیانا اور الفائد پیرس میں کار کے سفر کے دوران جان لیوا حادثے کا شکار ہوگئے اور کروڑوں دلوں کی دھڑکن لیڈی ڈیانا اپنے چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ گئی۔
لیڈی ڈیانا حقیقی معنوں میں ایک شہزادی تھی۔ اس نے ساری زندگی ایک وقار اور تمکنت کے ساتھ گزاری۔ اس کے اندر ایک عام لڑکی تھی جو فطرت اور محبت سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی لیکن بدقسمتی سے وہ شاہی محل کی اونچی دیواروں میں قید تھی۔
اس کے جاننے والوں کے مطابق شاہی محل میں گزارا جانے والا زندگی کا حصہ اس کی زندگی کا تکلیف دہ حصہ تھا۔
آئیے لیڈی ڈیانا کے کچھ خیالات جانتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی اس کے لیے کیا تھی اور وہ اسے کیسے گزارنا چاہتی تھی۔
وہی کرو جو تمہارا دل چاہتا ہے۔
مجھے صرف ڈیانا کے نام سے بلاؤ، شہزادی ڈیانا کے نام سے نہیں۔
محبت کے بغیر زندگی گزارنا دنیا کی سب سے تکلیف دہ بیماری ہے۔
میں اصولوں پر نہیں چلتی، میں دماغ کی نہیں، دل کی سنتی ہوں۔
اگر آپ اس شخص کو ڈھونڈ لیں جس سے آپ محبت کرتے ہیں، تو اسے کبھی نہ جانے دیں۔
ڈیانا کے شوہر شہزادہ چارلس کے تعلقات سابقہ محبوبہ کمیلا پارکر سے بھی رہے۔ یہ تعلق ڈیانا کی زندگی میں بھی برقرار رہا۔ اپنی شادی کے بارے میں ڈیانا کہتی تھی، ’اس شادی میں 2 نہیں 3 افراد آپس میں جڑے تھے، سو یہ تھوڑی سی پرہجوم شادی تھی‘۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بار اس نے کہا تھا، ’میں اس ملک کی ملکہ بننے کے بجائے دلوں کی ملکہ بننا پسند کروں گی‘۔
ڈیانا نے اپنا کہا پورا کیا، وہ برطانیہ کی ملکہ تو نہ بن سکی لیکن دلوں کی ملکہ ضرور بن گئی اور اس کی موت کے کئی سال بعد آج بھی اس کے چاہنے والے اسے یاد کرتے ہیں۔
قاہرہ : مصرکی سب سے اعلیٰ مذہبی اتھارٹی نے کہا ہے کہ جنسی ہراسانی کی کسی طور بھی کوئی توجیہہ پیش نہیں کی جاسکتی، مصر میں زیادہ تر لوگ ہراسانی کا شکار بننے والی خواتین کو ہی اس نوعیت کے واقعات کاقصور وا ر ٹھہراتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق عالم اسلام کی قدیم ترین جامعات میں شمار ہونے والی جامعہ الازہر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ کسی بھی قسم کی جنسی ہراسانی ایک حرام عمل ہے اور یہ گمراہ کن رویہ ہے‘۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جوکوئی بھی اس عمل کا مرتکب ہوگا ، وہ از خود گناہ گار ہوگا۔
پیر کے روز جاری ہونے والے اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنسی ہراسانی کو جرم قرار دینے میں کوئی پس و پیش اور شرائط نہیں ہونی چاہیے۔ خواتین کے رویے اور ان کے لباس کو ہراسانی کا سبب قراردینا غلط فہمی ہے۔ جنسی ہراسانی خواتین پر ، ان کی آزادی اور آبرو پر حملہ ہے۔
یاد رہے کہ سنہ 2017 میں ہونے والے یو این ویمن کی جانب سے کی گئی ایک سروے رپورٹ میں مصر کی 60 فیصد خواتین نے کہا تھا کہ انہیں زندگی میں کبھی نہ کبھی ، جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے ، چاہے وہ اس کی سب سے کمتر قسم کیوں نہ ہو۔
دوسری جانب دو تہائی مردوں اور 84 فیصد خواتین نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ وہ خواتین جو لذتِ گناہ کی دعوت دیتا لباس زیب تن کرتی ہیں، وہ مستحق ہیں کہ انہیں ہراساں کیا جائے‘۔
قاہرہ: دنیا بھر میں جہاں خواتین ہر شعبہ میں آگے بڑھ رہی ہیں اور مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں وہاں خواتین کی حدود کے حوالے سے بحثوں میں بھی شدت آرہی ہے۔
کچھ مخصوص ذہنیت کے حامل گروہ خواتین کی ترقی سے خوفزدہ ہو کر اس یقین کے پیروکار ہیں کہ خواتین کو صرف گھر میں رہنا چاہیئے۔ یا اگر وہ باہر نکلتی ہیں تو صرف کچھ مخصوص کام ہی ایسے ہیں جو خواتین کو انجام دینے چاہئیں۔
کچھ مغربی ممالک میں اس بات پر بھی بحث جاری ہے کہ کام کرنے والی خواتین کی تنخواہیں اتنی ہی ہونی چاہئیں جتنی مردوں کی ہیں۔ یہ امر بھی زیر بحث ہے کہ مختلف اداروں میں فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کو شامل کیوں نہیں کیا جاتا۔
ہالی وڈ اداکارہایما واٹسن اسی سلسے میں ایک مہم ’ہی فار شی‘ کا آغاز کر چکی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ خواتین کی خود مختاری میں مرد سب سے بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک باپ اپنی بیٹی، ایک شوہر اپنی بیوی اور ایک باس ہی اپنی خاتوں ورکر کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرسکتا ہے۔
مصر میں خواتین کا ایسا ہی ایک گروہ بائیک چلا کر مردوں کی خود ساختہ عظمت اور بڑائی کو للکار رہا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک ویڈیو میں یہ خواتین بائیک چلانے کے دوران پیش آنے والے تجربات کے بارے میں بتا رہی ہیں۔
یہ گروپ ہر ہفتہ ایک دن ملک کے مختلف شہروں میں بائیک چلاتا ہے۔ ان کا مقصد صنفی تفریق کو ختم کرنا ہے۔
گروپ میں شامل ایک خاتون کا کہنا ہے، ’مجھے بائیک چلانے میں کوئی عجیب بات نہں لگتی۔ نہ جانے لوگ لڑکیوں کے لیے اسے عجیب کیوں سمجھتے ہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ بائیک وزنی ہوتی ہے اور ایک طاقتور مرد ہی اسے چلا سکتا ہے‘۔
یہ تمام خواتین ہفتہ میں ایک دن کسی ایک جگہ پر جمع ہوتی ہیں اس کے بعد ایک ساتھ اپنا موٹر سائیکل کا سفر شروع کرتی ہیں۔
وہ چاہتی ہیں کہ خواتین اپنے روزمرہ کاموں کے لیے بھی بائیک کا استعمال کریں تاکہ خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ میں پیش آنے والی مشکلات سے بچا جا سکے۔
امریکی خلائی ایجنسی ناسا مریخ پر پہلا پڑاؤ ڈالنے کے لیے تیاریوں میں مصروف ہے۔ ایسے میں ایک 17 سالہ دوشیزہ بھی مریخ پر قدم رکھنے والی پہلی انسان کا اعزاز حاصل کرنے والی ہیں۔
ایلیسا کارسن صرف 17 سال کی ہیں جو اس وقت ناسا میں خلا باز بننے کی تربیت حاصل کر رہی ہیں۔
وہ مریخ پر قدم رکھنے والی پہلی انسان بننا چاہتی تھیں اور ان کے خواب کی تعبیر انہیں اس طرح مل رہی ہے کہ سنہ 2033 میں وہ مریخ پر بھیجے جانے والے اولین انسانی مشن کا حصہ ہوں گی۔
امریکی ریاست لوزیانا سے تعلق رکھنے والی ایلیسا ابتدائی خلائی تربیت مکمل کرنے والی سب سے کم عمر ترین طالبہ ہیں جس کے بعد اب وہ ناسا کا باقاعدہ حصہ ہیں۔
ایلیسا 4 زبانوں یعنی انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی اور چینی زبان میں عبور رکھتی ہیں جبکہ پرتگالی اور ترکی زبان بھی کچھ کچھ جانتی ہیں، اس کے علاوہ روسی زبان کی باقاعدہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
ایلیسا بچپن سے کچھ منفرد کرنا چاہتی تھیں، جب اسے معلوم ہوا کہ انسان چاند کو تسخیر کرچکا ہے لیکن مریخ تاحال ناقابل تسخیر ہے تو مریخ پر جانا ان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب بن گیا۔
وہ بخوبی جانتی ہیں کہ ایک بار مریخ پر جانے کے بعد اس کا زمین پر لوٹنا شاید ممکن نہ ہو، پھر بھی زمین سے تقریباً 40 کروڑ کلومیٹر دور مریخ پر پہنچنے ان کی ضد برقرار ہے۔
ناسا کے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مریخ پر جانے کے سفر کے دوران چاند پر عارضی پڑاؤ ڈالا جاسکتا ہے، لہٰذا چاند گاؤں بنانے کا کام بھی جاری ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
اسلام آباد : الیکشن کمیشن نے صوبوں اور قومی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تفصیلات جاری کر دی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں کا کوٹہ طے کرلیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کی ساڑھے چار فیصدجنرل نشستوں پر ایک خاتون کو سیٹ ملےگی جبکہ ستائیس جنرل نشستوں پر ایک اقلیتی سیٹ ملے گی۔
پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں خواتین کی پچیس مخصوص نشستیں ملنے کا امکان ہے، مسلم لیگ ن کو چودہ، پیپلزپارٹی کو خواتین کی نو مخصوص سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔
https://youtu.be/8AxJhVMDHSw
ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں چار اقلیتی نشستیں ملنے کا امکان ہے جبکہ پنجاب سے پانچ جنرل سیٹوں پر ایک مخصوص نشست ملے گی۔
پی ٹی آئی کو پنجاب اسمبلی کی سینتیس جنرل نشستوں پر ایک اقلیتی سیٹ، سندھ میں ساڑھے چار جنرل نشستوں پر ایک خاتون کو مخصوص سیٹ ملے گی۔
اسی طرح کے پی اسمبلی کی ساڑھے چار نشستوں پر ایک خاتون جبکہ تینتیس جنرل نشستوں پر ایک اقلیتی سیٹ ملے گی۔
بلوچستان اسمبلی کی سترہ جنرل نشستوں پر ایک اقلیت اور ساڑھے چارجنرل سیٹوں پر ایک مخصوص سیٹ ملےگی۔
یاد رہے کہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل الیکشن کمیشن ندیم قاسم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایاکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی آٹھ سوچالیس نشستوں پر انتخابات ہوئے، جن میں سے آٹھ سو بتیس کانتیجہ آگیا ہے۔
جس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کوقومی اسمبلی میں سب سے زیادہ 114 سیٹیں ملی ہیں۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
دیر : ملک بھر میں حق رائے دہی استعمال کرنے کے لئے خواتین کی بڑی تعدادگھروں سے نکلی، دیر کی تاریخ میں پہلی بار خواتین نے اتنی بڑی تعداد میں ووٹ کاسٹ کیا جبکہ صوابی اور پشاور میں خواتین نے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق کراچی سے خیبرتک صنف نازک حق رائے دہی استعمال کرنے کے لئے پر جوش ہیں اور خواتین کی بڑی تعداد گھروں سے نکلی، دیر میں تاریخی تبدیلی آئی اور پہلی بار خواتین نے ووٹ کاسٹ کیا۔
چمن میں سخت پردے میں بھی خواتین ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن پہنچیں جبکہ پشاورمیں خواتین پولنگ بوتھ کھچا کھچ بھرا نظر آیا اور خواتین کی لمبی قطاریں لگی رہیں۔
خواتین کا کہنا تھا کہ ووٹ ڈالنا ہمارا حق ہے۔
سوات میں بھی خوف سے آزاد خواتین نے ووٹ کاسٹ کیا جبکہ صوابی میں ووٹ ڈالنے کے لئے خواتین نے جوق در جوق پولنگ
اسٹیشن کارخ کیا۔
واضح رہے کہ دیر بالا وہ علاقہ ہے، جہاں اس سے قبل عمائدین کی جانب سے گزشتہ انتخابات میں خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنےکی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔
خیال رہے کہ ملک بھر میں عام انتخابات کے لیے پولنگ کا عمل جاری ہے، پولنگ صبح آٹھ بجے سے بلا تعطل شام 6بجے تک جاری رہے گی ، دس کروڑ 59 لاکھ سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
قومی اورصوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کےلیےآزادامیدواروں سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے گیارہ ہزارسےزائد امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔