لاہور : ساہیوال کا ایک گاؤں ایسا بھی ہے، جہاں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں اور گذشتہ 15 سال سے خواتین اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر رہیں۔
تفصیلات کے مطابق ساہیوال کے حلقہ این اے 147 اور پی پی 198 کا علاقہ جہان خان ہے، جہاں خواتین کو گذشتہ 3 الیکشن پیریڈ سے ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت نہیں۔
بتایا گیا ہے گذشتہ 15 سال قبل 2 گروپوں میں قتل و غارت کے بعد علاقے کے بزرگوں نے خواتین کو ووٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ صادر کیا تھا جس پر خواتین اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتی۔
میڈیا میں خبر کے بعد ڈپٹی کمشنر نے علاقے کا دورہ کیا اور علاقے میں ووٹ کی اہمیت اور خواتین کے ووٹ ڈالنے کو یقینی بنانے کیلئے لوگوں ایجوکیٹ کیا۔
سال 2013 کے جنرل الیکشن میں خواتین کے لیے علیحدہ پولنگ بوتھ بھی بنایا گیا تھا اور الیکشن کمیشن کی جانب سے عملہ بھی بھیجا گیا لیکن خواتین نے ووٹ کاسٹ نہیں کیے تھے۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ تمام حلقوں میں دس فیصد خواتین کے ووٹ لازمی ہوں گے، جس حلقہ میں خواتین ووٹوں کی تعداد دس فیصد سے کم ہوئی، اس کے نتائج کالعدم قرار دیئےجائیں گے اور خواتین کو زبردستی روکنےکی شکایت پرکارروائی کی جائے گی۔
واضح رہے ملک بھر میں عام انتخابات کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہے، کل دس کروڑ پچپن لاکھ سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے ۔
قومی اورصوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کےلیےآزادامیدواروں سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کےگیارہ ہزارسےزائد امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے،پولنگ صبح آٹھ بجےسےبلا تعطل شام 6بجے تک جاری رہے گی۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔
پاکستانی طالبات کی بنائی گئی فارمولا ریس کار نے برطانیہ میں منعقد ہونے والے مقابلےمیں پہلی پوزیشن حاصل کرلی۔
صرف طالبات پر مشتمل 15 رکنی یہ ٹیم نیشنل یونیورسٹی آف سائنس و ٹیکنالوجی (نسٹ) اسلام آباد کی ہے جنہوں نے فارمولا مقابلہ کے لیے ایک نشست کی فارمولہ کار تیار کی ہے۔
یہ کار کسی میکینکل انجینیئر کی مدد کے بغیر تیار کی گئی ہے. ٹیم میں شامل تمام 15 لڑکیوں میں کوئی بھی مکینیکل انجینیئر نہیں بلکہ یہ الیکٹریکل انجینیئر، انڈسٹریل ڈیزائنرز اور بزنس مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
یہ کار برطانیہ میں سلور اسٹون سرکٹ کی جانب سے منعقدہ اسٹوڈنٹس فارمولہ مقابلے کے لیے تیار کی گئی جس میں دنیا بھر کے ہونہار طلبا و طالبات حصہ لیتے ہیں۔
پاکستان طالبات کی اس کار کو مقابلے میں پہلی پوزیشن کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
کہا جاتا ہے کہ کسی مقام پر زندگی کا دار ومدار پانی پر ہوتا ہے، جہاں پانی ہوگا وہیں زندگی ہوگی۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو کسی صحرا میں زندگی کا وجود ناممکن نظر آتا ہے۔
تاہم ایسا ہے نہیں، دنیا بھر کے صحراؤں میں لوگ آباد ہیں جو اپنی مختلف ثقافت اور رسوم و رواج کے باعث منفرد تصور کیے جاتے ہیں۔
گو کہ صحراؤں میں ان کی ضرورت کے حساب سے بہت کم پانی میسر ہوتا ہے، لیکن یہ جیسے تیسے اپنی زندگی اور روایات کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔
انہی صحراؤں میں سے ایک سندھ کا صحرائے تھر بھی ہے جو برصغیر کا سب سے بڑا صحرا اور دنیا بھر کے بڑے صحراؤں میں سے ایک ہے۔
تقریباً 16 لاکھ سے زائد افراد کو اپنی وسعت میں سمیٹے صحرائے تھر ایک عرصے سے اپنے مسیحا کا منتظر ہے جو آ کر اس صحرا کو گلشن میں تو تبدیل نہ کرے، البتہ یہاں رہنے والوں کے لیے زندگی ضرور آسان بنا دے۔
مختلف ادوار میں مختلف پارٹیوں کی حکومت کے دوران کوئی ایک بھی حکومت ایسی نہ تھی جو صحرائے تھر کے باشندوں کی زندگی بدل سکتی اور انہیں بنیادی سہولیات فراہم کرسکتی۔
چنانچہ اب تھر کے لوگ اپنی قسمت بدلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے ان بھاری بھرکم سیاسی جماعتوں کے مقابلے کا اعلان کردیا ہے۔
کہتے ہیں کہ جب کوئی عورت اپنے خاندان کو بچانے کے لیے کسی مشکل کے سامنے ڈھال بن کر کھڑی ہوجائے تو وہ عزم وحوصلے کی چٹان بن جاتی ہے اور اس میں اتنی ہمت آجاتی ہے کہ وہ فرعون وقت کو بھی چیلنج کرسکتی ہے۔
تھر کی عورتوں نے بھی ان سیاسی جماعتوں کے مدمقابل آنے کی ہمت کرلی ہے۔ یہ وہ خواتین ہیں جو ایک عرصے سے اپنے خاندانوں اور لوگوں کو ترستی ہوئی زندگی گزارتا دیکھ رہی ہیں۔
یہ خواتین اب آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں اور ان پارٹیوں سے نجات چاہتی ہیں جو صرف ووٹ کے حصول کی حد تک تھر والوں سے مخلص ہیں۔
صحرائے تھر قومی اسمبلی کی 2 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 4 نشستوں پر مشتمل ہے جن میں این اے 221 ڈاہلی نگر پارکر، این اے 222 ڈیپلو اسلام کوٹ، پی ایس 54 ڈاہلی، پی ایس 55 نگر پارکر، پی ایس 56 اسلام کوٹ، اور پی ایس 57 ڈیپلو شامل ہیں۔
قومی اسمبلی کی نشست این اے 222 سے تلسی بالانی، پی ایس 55 سے نازیہ سہراب کھوسو اور پی ایس 56 سے سنیتا پرمار انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
ان خواتین کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے امیدواروں سے ہے۔
نازیہ سہراب کھوسو
نازیہ سہراب کھوسو
نازیہ سہراب کھوسو تھر کے علاقے نگر پارکر حلقہ پی ایس 55 سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔
اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تھر میں زندگی گزارنا ایسا ہے جیسے آپ اس دنیا میں لاوارث ہیں۔ ’لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، اور کوئی پوچھنے تک نہیں آتا‘۔
نازیہ نے بتایا کہ تھر میں موجود اسکولوں میں کئی استاد ایسے ہیں جنہیں وڈیروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ استاد اپنے فرائض تو نہیں نبھا رہے البتہ ہر ماہ تنخواہ ضرور لیتے ہیں۔ ’وڈیروں کی وجہ سے کوئی ان کے خلاف ایکشن نہیں لیتا‘۔
انہوں نے کہا کہ یہاں نہ خواتین کے لیے صحت کے مراکز ہیں، نہ پینے کا پانی، نہ سڑکیں نہ اسکول، ’امیر کے بچے کے لیے سب کچھ ہے، وہ شہر کے اسکول جا کر بھی پڑھ سکتا ہے، غریب کا بچہ کیا کرے‘؟
ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟
اس بارے میں نازیہ نے بتایا کہ گھر سے باہر نکلنے اور الیکشن لڑنے پر انہیں باتیں سننے کو ملیں، ’جب آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو یہ سب سننا ہی پڑتا ہے، ان باتوں پر اگر کان دھرا جائے تو کوئی عورت کچھ نہ کرسکے‘۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے الیکشن میں حصہ لینے سے دیگر خواتین میں بھی حوصلہ پیدا ہوا ہے، ہوسکتا ہے کل مزید کئی خواتین اپنے علاقے کی قسمت بدلنے کے لیے میدان میں اتر آئیں۔
ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے کیا انہیں سیاسی جماعتوں کی جانب سے کسی قسم کے دباؤ کا بھی سامنا ہے؟
اس بارے میں نازیہ نے بتایا کہ انہیں پارٹیوں کی جانب سے پیغام وصول ہوا کہ ہم بڑی بڑی مضبوط جماعتیں ہیں، ہمارے مقابلے میں آپ کیا کرلیں گی؟ بہتر ہے کہ الیکشن لڑنے کا خیال دل سے نکال دیں۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی افراد پر بھی دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ پارٹی کو ووٹ دیں اور اس کے لیے انہیں دھمکیوں اور لالچ دینے کا سلسلہ جاری ہے۔
مستقبل میں نازیہ کے الیکشن جیتنے کی صورت میں کیا اس بات کا امکان ہے کہ وہ کسی پارٹی میں شامل ہوجائیں؟ اس بات کی نازیہ سختی سے نفی کرتی ہیں۔
’بڑی اور پرانی سیاسی جماعتیں جو طویل عرصے سے تھر کے لوگوں کو بے وقوف بنا رہی ہیں ان میں شامل ہونے کا قطعی ارادہ نہیں۔ یہ غریب لوگوں کے حقوق کی جنگ ہے جو یہ لوگ لڑ ہی نہیں سکتے، عام لوگوں کی جنگ عام لوگ ہی لڑیں گے‘۔
سنیتا پرمار
سنیتا پرمار
تھر کے حلقہ پی ایس 56 اسلام کوٹ سے الیکشن میں حصہ لینے والی سنیتا پرمار وہ پہلی ہندو خاتون ہیں جو عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
ان کا تعلق میگھواڑ برادری سے ہے جسے ہندو مذہب میں نچلی ذات سمجھا جاتا ہے۔
سنیتا تھر کی حالت زار کی ذمہ دار پیپلز پارٹی سمیت دیگر حکمران جماعتوں کو قرار دیتی ہیں جو تھر والوں کو صحت اور پانی جیسی بنیادی سہولیات تک فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی گزشتہ 10 سال سے حکومت میں رہی اور اس عرصے کے دوران کبھی گندم کی بوریوں، سلائی مشین اور کبھی بے نظیر انکم سپورٹ کارڈ کے نام پر تھری خواتین کی بے عزتی کی جاتی رہی۔
سنیتا بھی انتخاب جیت کر تھر کے بنیادی مسائل حل کرنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر وہ فتحیاب ہو کر اسمبلی میں پہنچیں تو سب سے پہلے تھر کی خواتین کی صحت اور یہاں کی تعلیم کے حوالے سے بل پیش کریں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ آج تک کسی بھی سیاسی جماعت نے تھر سے کسی خاتون کو الیکشن لڑنے کے لیے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین دیانت دار ہوتی ہیں اور وہ ان پارٹیوں کی کرپشن میں ان کا ساتھ نہیں دیں گی۔
سنیتا کی انتخابی مہم میں ان کے گھر والوں اور ہندو برادری نے ان کا ساتھ دیا اور پیسے جمع کر کے کاغذات نامزدگی کے اخراجات کو پورا کیا۔
تلسی بالانی
تلسی بالانی
تھر کے علاقے ڈیپلو کے حلقہ این اے 222 سے انتخابات میں حصہ لینے والی تلسی بالانی بھی میگھواڑ ذات سے تعلق رکھتی ہیں۔
تلسی کا کہنا ہے کہ تھر میں کئی سیاسی جماعتیں سرگرم ہیں، لیکن ان کی دلچسپی صرف اس حد تک ہے کہ وہ تھر کے باسیوں سے ووٹ لیں اور اس کے بعد اسمبلی میں جا کر بیٹھ جائیں، کوئی بھی تھر اور اس کے لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام نہیں کرتا۔
انہوں نے بتایا کہ بعض پارٹیاں یہاں سے الیکشن میں ایسے افراد کو ٹکٹ دے دیتی ہیں جو تھر سے باہر کے ہیں، انہیں علم ہی نہیں کہ تھر کے کیا مسائل ہیں اور انہیں کیسے حل کرنا چاہیئے۔
تھر کے لوگوں کی بے بس زندگی کو دیکھتے ہوئے ہی تلسی نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ چاہتی ہیں کہ الیکشن جیت کر یہاں کے لوگوں کو کم از کم بنیادی ضروریات فراہم کرسکیں۔
’یہاں نہ ڈاکٹر ہے نہ اسکول ہے، جو چند ایک اسکول موجود ہیں وہاں پر استاد نہیں، اگر ہے بھی تو وہ صرف تنخواہ لیتا ہے، کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ کئی دیہاتوں میں سرے سے اسکول ہی نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ تھر کے لوگ جاگیں اور اپنے حالات کو بدلیں‘۔
تلسی نے بتایا کہ ان کے خاندان میں عورتیں ہر وقت گھونگھٹ اوڑھے رکھتی ہیں اور کسی مرد کے سامنے نہیں آتیں۔
’میں نے باہر نکل کر لوگوں کے پاس جانا اور ان کے مسائل سننا شروع کیا تو ظاہر ہے مجھے پردہ اور گھونگھٹ چھوڑنا پڑا۔ لوگوں نے باتیں بنائیں کہ تم عورت ہو، کیا کرلو گی؟ لیکن کچھ لوگوں نے حوصلہ افزائی بھی کی‘۔
تلسی کا ماننا ہے کہ اگر نیت صاف اور مخلص ہو تو تمام مشکلات کا سامنا کیا جاسکتا ہے، اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مشکلات آہستہ آہستہ آسانیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
اسلام آباد: پاکستان میں رواں ماہ ہونے والے عام انتخابات میں خواجہ سراؤں کو نمائندگی دینے کے لیے ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے انہیں انتخابات کی نگرانی کرنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدام پاکستان میں انتخابات کو مانیٹر کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ٹرسٹ فار ڈیموکریٹک ایجوکیشن اینڈ اکاؤنٹیبلیٹی (ٹی ڈی ای اے) کی جانب سے کیا گیا ہے۔
پراجیکٹ منیجر زاہد عبداللہ کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے کل 375 ممبران الیکشن ڈے کے حوالے سے تمام تر انتخابی عمل کا جائزہ لیں گے جن میں 125 خواجہ سرا، 125 جسمانی طور پر معذور افراد اور 125 خواتین شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ سے 25، 25 ممبران یہ کام سر انجام دیں گے، ان ممبران کو الیکشن ڈے پر آبزرویشن کرنے کی تربیت ٹی ڈی ای اے کی جانب سے فراہم کی جارہی ہے۔
زاہد عبداللہ کے مطابق ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ معذور افراد، خواجہ سرا اور خواتین انتخابات کی نگرانی کریں گے، ان ممبران کو الیکشن کمیشن کی جانب سے کارڈز فراہم کیے جائیں گے تاکہ یہ افراد بذات خود ہر پولنگ اسٹیشن پر جاکر جائزہ لے سکیں۔
یہ ممبران ووٹنگ کے روز صبح آٹھ بجے پولنگ اسٹیشن جائیں گے اور وہاں موجود پریزائیڈنگ افسران کا انٹرویو کریں گے، اس کے علاوہ وہاں خواجہ سراؤں، خواتین اور جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے موجودہ سہولیات کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
بعدازاں تمام ممبران معلومات سے اپنے ادارے کو آگاہ کریں گے جو اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو بتائے گا۔
بندیا رانا جو کہ خود ایک خواجہ سرا ہیں انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ خواجہ سرا اور معذور افراد جنہوں نے سرے سے اہمیت ہی نہیں دی جاتی وہ الیکشن کی مانیٹرنگ کریں گے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔
لاہور: سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی کا کہنا ہے مسلم لیگ ن کو ہارون سلطان سے جان چھڑانی چاہیے۔
تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف کی اہلیہ تہمینہ درانی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹرپراپنے پیغام میں ن لیگی امیدوارہارون سلطان سے ٹکٹ واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔
شہبازشریف کی اہلیہ نے کہا کہ ہارون سلطان مسلم لیگ ن کے لیے بےعزتی کا باعث بنے، انہوں نے پارٹی کی سیاسی پالیسی کے خلاف بیان دیا، ن لیگ کے قائد اورصدرمعاملے کا فوری نوٹس لیں۔
تہمینہ درانی کے مطابق خواتین ن لیگی امیدوارہارون سلطان کو ووٹ نہ دیں، وہ کسی صورت فلاح وبہبود اورترقی کے لیے بہترنہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہارون سلطان عوام کاحقیقی نمائندہ نہیں ہے جوشخص53 فیصدآبادی کوبرابرنہیں سمجھتا اسے نا اہل ہونا چاہیے۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی اہلیہ نے ٹویٹرپر اپنے پیغام میں کہا کہ مسلم لیگ ن کو ہارون سلطان سےجان چھڑانی چاہیے جبکہ عوام ہارون سلطان کے جلسوں پرپابندی اورشکست یقینی بنائیں۔
واضح رہے کہ ہارون سلطان قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 184 مظفرگڑھ سے ن لیگ کے امیدوار ہیں اور انہوں نے خاتون کو ووٹ دینا حرام قرار دیا تھا۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں خواتین کی جیلوں میں ابتر صورتحال سے متعلق کیس میں عدالت کو بتایا گیا کہ 19 سو 55 خواتین جیلوں میں قید ہیں جس میں کم عمر قیدیوں کی تعداد 12 سو 25 ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں خواتین کی جیلوں میں ابتر صورتحال سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
سماعت میں نمائندہ محتسب نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان میں 98 جیلیں ہیں۔ جیلوں میں 56 ہزار سے زائد قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ 78 ہزار 1 سو 60 قیدی جیلوں میں موجود ہیں۔
نمائندہ محتسب کے مطابق سزا یافتہ قیدیوں کی تعداد 25 ہزار 1 سو 95 ہے، 48 ہزار 7 سو 80 قیدیوں کے مقدمات انڈر ٹرائل ہیں۔
نمائندے نے بتایا کہ 19 سو 55 خواتین جیلوں میں قید ہیں، کم عمر قیدیوں کی تعداد 12 سو 25 ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جیلوں میں جرائم پیشہ افراد کے ساتھ خواتین کا رہنا نا مناسب ہے، ’میں نے جیل میں دیکھا بچیاں بھی رہ رہی ہیں، منشیات لینے والی خواتین بھی بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں جیل بنانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ اسلام آباد جیل بنانے کے لیے ابھی تک دیوار ہی کھڑی ہے۔
چیف جسٹس نے جیل اصلاحات سے متعلق رپورٹ پر صوبائی حکومتوں سے 4 دن میں جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 11 جولائی تک ملتوی کردی۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
ریاض : سعودی عرب کے حکام نے خواتین کے لیے نئی ملازمتوں کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد خواتین عدالتوں کے انتظامی معاملات میں بھی خدمات انجام دیں سکے گی۔
تفصیلات کے مطابق شاہ سلمان بن عبد العزیز کے حکم پر ملکی عدالتوں میں پانچ نئی ملازمتوں کا اعلان کیا ہے، جس پر صرف سعودی خواتین فرائض انجام دیں گی۔
سعودی عرب کی وزارت انصاف کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی خواتین عدالتی امور میں سماجی، شرعی اور قانونی محقیقن کے علاوہ انتظامی اور ڈیولپنگ کے معاملات میں بھی خدمات انجام دیں گی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی عرب میں وکلالت کے شعبے میں خواتین کو جاری کیے گئے لائسنس شرح اضافے کے بعد 240 فیصد ہوگئی ہے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب میں صرف 280 خواتین وکیل کی حثیثت سے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی وزارت انصاف کی جانب سے سعودی خواتین میں شعور اجاگر کرنے اور شرعی و قانونی حقوق کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جارہی ہے۔
سعودی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ خواتین میں شعور اجاگر کرنے کے حوالے مختلف نوعیت کے پروگرام بھی ترتیب دیئے گئے تھے، جس کا آخری پروگرام شہزادی نورا یونیورسٹی میں منعقد کیا گیا تھا۔
سعودی عرب کی سماجی خدمات انجام دینے والی تنظیم کی رکن نوف الحمد کا کہنا تھا کہ وزارت انصاف کی جانب سے خواتین کو قانونی آگاہی فراہم کرنے اور خواتین وکلا کی خدمات کے حوالے کیے جانے والے وعدوں کو باخوبی نبھایا ہے۔
نوف الحمد کا کہنا تھا کہ سعودی وزارت انصاف کے خواتین سے متعلق انجام دیے جانے والے امور میں خواتین کے لیے عدالتوں میں علیحدہ ہال کی فراہمی اور فنگر پرنٹ کی سہولت مہیا کرنا نمایاں ہیں۔
ایڈوکیٹ دالیا الدوسری کا عرب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دنیا کے تمام ممالک کی ترقی میں خواتین کا کردار بہت واضح ہے، سعودی عرب میں خواتین وکلا کی تعداد میں پہلے کی نسبت اضافہ ہورہا ہے لہذا خواتین ملکی ترقی میں پہلے سے زیادہ کردار ادا کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزارت انصاف کی جانب سے وکلالت کے شعبے میں خواتین کو بہترین تربیت فراہم کرنا ملک کے لیے خدمات انجام دینے کا ایک موقع ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔
لندن : بھارت دنیا میں خواتین کیلئے سب سےزیادہ غیرمحفوظ ملک قرار دے دیا گیا، خواتین کا استحصال کرنے والوں میں افغانستان دوسرے، شام تیسرے جبکہ پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔
تفصیلات کے مطابق بھارت میں خواتین کا جینا دوبھر کر دیا گیا، گلوبل ایکسپرٹ سروے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت دنیا میں خواتین کیلئے سب سے زیادہ غیرمحفوظ ہے۔
پورٹ کے مطابق خواتین پرتشدد اور حراساں کیے جانے والے ممالک کی فہرست میں بھارت پہلے نمبرپرہے، جہاں خواتین کا استحصال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے،جہاں خواتین کو ذہنی ، جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کم عمر بچیوں کے استحصال میں بھی بھارت سب سے آگے ہیں جبکہ مذہبی جنونیت میں مبتلا انتہا پسند دیگرمذاہب کی خواتین کو نشانہ بنانے سے بھی نہیں چوکتے۔
افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے، جہاں خواتین اوربچیوں کی خرید وفروخت عام ہے۔
اس فہرست میں خواتین پر تشدد کے حوالے سے شام تیسرا، صومالیہ چوتھا اور سعودی عرب پانچواں جبکہ پاکستان کا چھٹا خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔
خواتین کے لیے خطرناک ممالک میں سرفہرست 10 ممالک میں واحد مغربی ملک امریکا بھی شامل ہیں، جو دسویں نمبر پر ہے۔
غیر ملکی میڈیا کو موصول پولیس ڈیٹا کے مطابق دہلی میں ہر 2 گھنٹے کے اندر ایک خاتون کو اغوا کیا جاتا ہے، رواں سال جون 15 تک شہر بھر میں 1ہزار 802 اغوا کے کیسز رجسٹرڈ کئے گئے۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 2007 سے 2016 کے دوران بھارت میں خواتین سے جنسی واقعات میں 83 فیصد اضافہ ہوا ہے، جہاں ہر گھنٹے میں جنسی زیادتی کے 4 کیسز ہوتے ہیں۔
خیال رہے کہ حالیہ دنوں بھارت میں ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات سنہ 2012 میں طالبہ کے ساتھ ہونے والے گینگ ریپ کے بعد سب سے بڑے واقعے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں جنسی زیادتی کی شکار خواتین میں بچوں کی تعداد چالیس فیصد ہے۔ خواتین کے غیر محفوظ ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو ہزار سولہ میں ریپ کے 40 ہزار کیسز درج کیے گئے اور مودی کے دور حکومت میں ریپ کے واقعات میں ساٹھ فیصد اضافہ ہوا۔
واضح رہے 2012 میں دارالحکومت نئی دہلی میں ایک طالبہ کو چلتی بس میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، بعدازاں طالبہ دوران علاج دم توڑ گئی تھی۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
کراچی: معروف پاکستانی گلوکار اور اداکار علی ظفر نے میشا شفیع پر ایک ارب روپے ہتک عزت کا دعویٰ دائر کردیا۔
تفصیلات کے مطابق گلوکار علی ظفر کے وکیل نے میشا شفیع کے خلاف لاہور سیشن کوٹ میں ایک ارب روپے ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ میرے مؤکل پر ہراسگی کا جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگایا گیا‘۔
وکیل کا کہنا تھا کہ میشا شفیع نے سستی شہرت کے لیے علی ظفر پر ہراساں کرنے کے الزامات لگائے اور لیگل نوٹس کے باوجود معافی نہیں مانگی لہذا عدالت سے استدعا ہے کہ وہ خاتون گلوکارہ کو 1 ارب ہرجانہ ادا کرنے کا حکم جاری کرے۔
واضح رہے کہ رواں برس اپریل میں گلوکارہ میشا شفیع نے علی ظفر پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ علی ظفر نے انہیں ایک زائد بار جنسی طور پر ہراساں کیا ہے۔
علی ظفر نے ان الزامات پر میشا شفیع کو قانونی نوٹس بھیجا تھا جس کے مطابق میشا شفیع ان پر لگائے گئے الزامات واپس لیں ورنہ وہ ان پر 100 کروڑ ہرجانے کا دعویٰ دائر کردیں گے۔
میشا شفیع کے وکیل بیرسٹرمحمد احمد پنسوٹا نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں نوٹس موصول ہوگیا ہے ہم جائزہ لے رہے ہیں، میشا کی جانب سے علی ظفر پر لگائے گئے تمام الزامات سچ پر مبنی ہے۔
تہران: ایران کی حکومت نے فٹبال ٹیم کی پہلے میچ میں کامیابی کے بعد خواتین کو بڑا تحفہ دینے کا اعلان کردیا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق ایران اور اسپین کے مابین 20 جون کی رات ساڑھے دس بجے کھیلے جانے والے میچ کو دیکھنے کے لیے آزادی اسٹیڈیم میں خصوصی انتظامات کیے جائیں گے۔
ایران میں 1979 کو آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا کہ خواتین بھی اسٹیڈیم جاکر میچ دیکھ سکیں گی، انتظامیہ کی جانب سے گراؤنڈ میں بڑی اسکرین نصب کی جائے گی جبکہ ایک لاکھ شرکاء کے بیٹھنے کے لیے بھی انتظامات کیے جائیں گے۔
صوبائی حکومت نے یہ فیصلہ پہلے میچ میں فتح کے بعد کیا، فیفا ورلڈ کپ کا آغاز ہونے کے دوسرے روز ایران اور مراکش کی ٹیمیں مدمقابل تھیں جس میں تہران نے 1 گول سے مقابلہ اپنے نام کیا تھا۔
ٹیم کی کامیابی کے بعد ایران کے مختلف علاقوں میں فٹبال کے مداح گلیوں میں نکل گئے تھے اور انہوں نے فتح پر خوب جشن منایا تھا، حیران کُن طور پر اس میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل تھی جو اپنی ٹیم کی جیت پر خوشی سے نہال نظر آرہی تھی۔
مقامی انتظامیہ کی جانب سے پہلے میچ کے لیے اسٹیڈیم میں اسکرین لگانے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم بعد میں مذہبی جماعتوں کی تنقید کے بعد حکومت نے اسے واپس لے لیا تھا جس کے بعد سینیما گھروں میں بڑی تعداد میں شائقین نے مقابلہ دیکھا تھا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق بدھ 20 جون کو ہونے والے میچ کو دیکھنے کے لیے ایک لاکھ افراد کی آمد متوقع ہے جس کے لیے سیکیورٹی کے بھی خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔
ایران میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی رکن پارلیمنٹ طیبیہ سیوشی کا کہنا ہے کہ ’حکومت کی جانب سے یہ اعلان خوش آئند ہے اور امکان ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ اب ہمارے یہاں پالیسی تبدیل ہونے جارہی ہے’ْ
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔