Tag: خواتین

  • جاپان میں خواتین کو حاملہ ہونے کے لیے اپنی ’باری‘ کا انتظار

    جاپان میں خواتین کو حاملہ ہونے کے لیے اپنی ’باری‘ کا انتظار

    ٹوکیو: 35 سالہ سایاکو جاپان کی رہائشی ہے جو ملازمت پیشہ ہونے کے ساتھ ساتھ شادی شدہ اور ایک بچے کی ماں بھی ہے۔ وہ اور اس کا شوہر اپنے خاندان میں اضافہ چاہتے ہیں تاہم سایاکو کے باس نے سختی سے منع کیا ہے کہ فی الحال وہ حاملہ ہونے کا خیال دل سے نکال دے کیوں کہ ابھی اس کی ’باری‘ نہیں ہے۔

    جاپان میں ملازمت پیشہ خواتین کو حاملہ ہونے کے لیے باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور یہ نیا رجحان ہے جو جاپان میں فروغ پا رہا ہے جس سے جاپان میں شرح پیدائش میں خاصی حد تک کمی واقع ہوگئی ہے۔

    ویسے تو جاپانی دفاتر اور ادارے دنیا بھر کے اداروں کی طرح حاملہ خواتین کو میٹرنٹی تعطیلات فراہم کر رہے ہیں تاہم ان کا خیال ہے کہ اگر ایک وقت میں کئی حاملہ خواتین تعطیلات پر ہوں گی تو دفتر کے دیگر ملازمین پر کام کے بوجھ میں اضافہ ہوگا۔

    چنانچہ انہوں نے خواتین ملازمین کو مجبور کرنا شروع کردیا ہے کہ وہ باری باری حاملہ ہوں۔

    جاپان میں یہ ایک غیر رسمی اصول بن گیا ہے کہ حاملہ ہوجانے والی خواتین ملازمت سے ہاتھ دھو سکتی ہیں لہٰذا باسز کی مرضی سے ’اپنی باری پر‘ حاملہ ہونا ہی بہتر ہے۔

    مزید پڑھیں: برطانوی کمپنیاں حاملہ خواتین کو بوجھ سمجھتی ہیں

    رواں برس کے آغاز میں یہ غیر رسمی اصول اس وقت اخباروں کی ہیڈ لائن بن گیا جب ایک جوڑے کو اپنی باری کے علاوہ حمل ٹہرانے پر خاتون کے باس سے معافی مانگنی پڑی۔

    دوسری جانب 35 سالہ سایاکو بھی 2 برس سے حمل کے لیے گائنا کولوجسٹ سے رابطے میں تھیں تاہم 2 سال بعد ان کے باس نے کہا کہ ان کی باری ختم ہوچکی ہے اور اب ان کے حاملہ ہونے کی صورت میں وہ ملازمت سے ہاتھ دھو سکتی ہیں۔

    سایاکو کے باس کا کہنا ہے کہ اس وقت دفتر میں موجود ایک اور خاتون ملازم حاملہ ہونے کی زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ان کی شادی کو کئی برس گزر چکے ہیں اور تاحال وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں۔

    سایاکو کا کہنا تھا کہ اگر وہ اسی دفتر میں رہتیں تو نئے بچے کی پیدائش پر خوشی منانے کے بجائے خود کو مجرم محسوس کرتیں چنانچہ انہوں نے اس ملازمت کو خیرباد کہہ دینا ہی بہتر سمجھا۔

    جاپان کی ایک ماہر سماجیات کا کہنا ہے کہ ماں بن جانے والی خواتین سے امتیازی سلوک کرنا عام رویہ بن چکا ہے۔ جاپان کے ایک قانون کے تحت نئی ماؤں کے کام کرنے کے گھنٹے کم ہوجاتے ہیں تاہم یہ تخفیف صرف ایک گھنٹہ تک ہی محدود ہے۔

    صرف ایک گھنٹے کی تخفیف اور چند میٹرنٹی تعطیلات کے عوض خواتین ملازمین سے نہایت متعصبانہ رویہ برتا جاتا ہے اور مالکان اور باسز مزید کوئی رعایت دینے پر تیار نہیں ہوتے۔

    ماہر سماجیات کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال خواتین کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے جبکہ وہ ملازمت اور گھر کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اسپین کی خواتین اکثریت پر مشتمل کابینہ

    اسپین کی خواتین اکثریت پر مشتمل کابینہ

    میڈرڈ: اسپین کے نئے وزیر اعظم پیڈرو سانشیز کی کابینہ نے حلف اٹھا لیا ہے جس میں اکثریت خواتین کی ہے جو اہم وزارتوں پر فائز ہیں۔

    اسپین میں گزشتہ دنوں 6 سال تک حکومت کرنے والی پارٹی ’پارتیدو پاپولر‘ کے وزیر اعظم ماریانو راجوئے کے خلاف سوشلسٹ پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری پیڈرو سانشیز نے پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد پیش تھی۔

    تحریک عدم اعتماد 350 رکنی ایوان میں سے 180 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئی جس کے بعد پیڈرو سانشیز کو نیا وزیر اعظم منتخب کرلیا گیا۔

    نئے وزیر اعظم کی 17 رکنی کابینہ نے بھی حلف اٹھا لیا جس میں 11 خواتین شامل ہیں۔ ان خواتین کو دفاع اور معیشت جیسی اہم وزارتوں کے ساتھ دیگر وزارتوں کا عہدہ سونپا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی

    نئی کابینہ کی حلف برداری کے بعد اسپین کابینہ میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی سب سے زیادہ اکثریت رکھنے والی یورپی حکومت بن گئی ہے۔

    خیال رہے کہ اسپین کے نئے وزیر اعظم کا تعلق سوشلسٹ پارٹی سے ہے جس نے پہلی بار اسپین میں مقیم پاکستانی نژاد محمد اقبال چوہدری کو رکن قومی اسمبلی اور حافظ عبد الرزاق صادق کو رکن صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا تھا۔

    گو کہ دونوں امیدواروں نے انتخابات میں شکست کھائی لیکن انتخابات میں ان کی شرکت سے اسپین میں مقیم غیر ملکی خصوصاً پاکستانی کمیونٹی کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خطرناک چٹان پر یوگا کرنے والی حیرت انگیز خاتون

    خطرناک چٹان پر یوگا کرنے والی حیرت انگیز خاتون

    اونچی نیچی بلند و بالا خطرناک چٹانوں و پہاڑیوں پر چڑھنا نہایت دل گردے کا کام ہے جو جنون کی حد تک شوق رکھنے والے افراد ہی سر انجام دے سکتے ہیں۔

    تاہم ایسی چٹان پر پہنچ کر خطرناک پوز کے ساتھ یوگا کی ورزش کرنا اس سے بھی زیادہ بہادری کا عمل ہے۔

    چینی صوبے ہنان میں ایک خاتون یوگی نے بھی بلند ترین چٹان کی چوٹی پر یوگا کر کے سب کو دنگ کردیا۔

    سطح سمندر سے 22 سو میٹر بلند لاؤجن نامی اس پہاڑ کو تاؤ مذہب میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس پہاڑ کو تاؤ مذہب کے بانی سے منسوب کیا جاتا ہے جو ایک معروف چینی فلسفی تھے۔

    روایات کے مطابق وہ اس پہاڑ کی غیر ہموار چوٹی پر بیٹھ کر مراقبہ کیا کرتے تھے۔

    چین میں اس پہاڑ کا دورہ کرنا مذہبی عقیدت کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے، تاہم اس چینی خاتون یوگی نے اس اونچی نیچی غیر ہموار چٹان پر یوگا کے مشکل پوز انجام دے کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔

    ان کی تصاویر دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ابھی ان کا توازن بگڑے گا اور یہ نیچے گر پڑیں گی۔

    ذرا دل تھام کر ان کی تصاویر دیکھیں۔

    یاد رہے کہ چین میں یوگا صرف ایک جسمانی ورزش ہی نہیں بلکہ اسے مذہبی رسومات کا حصہ اور روح کی بالیدگی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • قدیم قبیلہ جہاں نسل در نسل خواتین کی حکومت تھی

    قدیم قبیلہ جہاں نسل در نسل خواتین کی حکومت تھی

    جدید دور میں کئی ممالک میں حکمرانی کا منصب خواتین کے پاس ہے، تاہم جب بات نسل در نسل حکمرانی کی ہو، تو ایسے میں اقتدار باپ سے بیٹے کو منتقل ہوتا ہے اور خاندان کی شناخت بھی باپ کے نام سے ہی ہوتی ہے۔

    تاہم آج سے کئی صدیاں قبل ایک قبیلہ ایسا بھی تھا جہاں حکمرانی عورت کے ہاتھ میں ہوا کرتی تھی اور نسل در نسل خواتین کو ہی منتقل ہوتی تھی۔

    شمالی امریکی ملک میکسیکو میں ایک ایسے قبیلے کے آثار دریافت ہوئے ہیں جو نظام مادر پر مشتمل تھا اور وہاں کی حکمرانی خواتین کے ہاتھ میں تھی۔

    اب سے تقریباً ایک ہزار سال موجود یہ قبیلہ پتھر کے گھروں میں رہا کرتا تھا اور ہر گھر میں بے شمار کمرے ہوا کرتے تھے۔ چاکوان نامی یہ قبیلہ 800 سے 1130 عیسوی کے درمیان موجود تھا۔

    کھنڈرات سے ملنے والی انسانی باقیات کے تجزیے کے بعد ماہرین کو علم ہوا کہ یہاں حکمرانی کا منصب خواتین کے پاس تھا جو ماں سے بیٹی اور بعد ازاں اس کی بیٹی کو منتقل ہوتا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کھنڈرات سے کسی قسم کا تحریری مواد نہیں مل سکا اس لیے ان کے بارے میں زیادہ تر معلومات اندھیرے میں ہیں۔

    ماہرین آثار قدیمہ نے اس قبیلے کو اپنی ابتدائی شکل میں مکمل طور پر مستحکم نظام پر مشتمل معاشرہ قرار دیا ہے۔

    مزید پڑھیں: خواتین کے نام سے چلنے والا شجرہ نسب


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دوران حمل پھلوں کا استعمال بچے کی دماغی صحت کے لیے فائدہ مند

    دوران حمل پھلوں کا استعمال بچے کی دماغی صحت کے لیے فائدہ مند

    اوٹاوہ: کینیڈا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ خواتین جو دوران حمل پھلوں کا استعمال زیادہ کرتی ہیں ان کے بچے زیادہ ذہنی استعداد کے حامل ہوتے ہیں۔

    یہ تحقیق کینیڈا کی یونیورسٹی آف البرٹا میں کی گئی۔ تحقیق میں 688 بچوں کو شامل کیا گیا اور ان کے خاندان کی آمدنی اور والدین کی تعلیم کا ڈیٹا حاصل کیا گیا۔

    ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا کہ جن ماؤں نے دوران حمل اپنی غذاؤں میں پھلوں کا استعمال زیادہ رکھا تھا ان کے بچے کا آئی کیول لیول دیگر بچوں کی نسبت بلند تھا۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ جن بچوں کی پیدائش دیر سے ہوتی ہے اور انہیں ماؤں کے شکم میں زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا وہ بچے دیگر بچوں کی نسبت زیادہ صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔

    ان کے مطابق دوران حمل ماؤں کا پھل کھانا بچوں کے لیے اتنا ہی فائدہ مند ہے کہ اگر وہ ایک ہفتہ قبل بھی دنیا میں آجائیں تب بھی انہیں وہی فوائد حاصل ہوں گے جو ماں کے شکم میں مقررہ وقت گزارنے والے بچوں کو حاصل ہوتے ہیں۔

    تاہم ماہرین نے حاملہ ماؤں کو پھلوں کی زیادہ مقدار لینے سے منع کیا۔ پھلوں میں فرکٹوز موجود ہوتا ہے جو ذیابیطس اور وزن میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • افغان خاتون پیمانہ اسد دوسری کوشش میں برطانوی کونسلر کا انتخاب جیت گئیں

    افغان خاتون پیمانہ اسد دوسری کوشش میں برطانوی کونسلر کا انتخاب جیت گئیں

    لندن: افغان خاتون پیمانہ اسد اللہ نے دوسری کوشش میں برطانوی کونسلر کا انتخاب جیت لیا، وہ روزیتھ کے علاقے سے کونسلر منتخب ہوئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق تین مئی 2018 کے ہارو الیکشن میں سات امیدواروں کے درمیان تین سیٹوں کے لیے مقابلہ تھا جن میں لیبر پارٹی کی طرف سے پیمانہ اسد بائیس فیصد ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئیں۔

    2014 کے انتخابات میں انھوں نے نو فیصد ووٹ حاصل کیے تھے اور ناکام رہی تھیں۔ پیمانہ کا کہنا تھا کہ یہ کام یابی میرے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔

    نو منتخب برطانوی کونسلر نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان سے قبل افغانستان سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی فرد برطانیہ کے کسی پبلک آفس کا عہدے دار نہیں بنا۔ خیال رہے کہ پیمانہ اسد افغانستان کے سب سے بڑے شہر اور دارالحکومت کابل میں پیدا ہوئیں، اور برطانیہ کے سب سے بڑے شہر لندن میں پرورش پائی۔

    کنگز کالج لندن سے آرٹس میں ماسٹر کرنے والی افغان تارک وطن خاتون کا کہنا ہے کہ ان کا بہترین دوست خدا ہے جس کے ساتھ وہ خیالوں میں باتیں کرتی رہتی ہیں اور اپنے ملک افغانستان کے ساتھ انھیں عشق ہے۔

    پیمانہ اسد نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کے انتخاب سے ثابت ہوگیا ہے کہ برطانیہ میں مقیم افغان کمیونٹی بھی یہاں کی سیاست میں سرگرم ہو سکتی ہے، اس سے برطانیہ میں جمہوری اقدار کا مستحکم ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔

    غیر قانونی قید خانوں میں افغان خواتین کی دردناک حالت زار


    غیر ملکیوں سے برطانوی باشندوں کی دن بہ دن بڑھتی نفرت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انتہائی دائیں بازو کے نظریات برطانیہ کی مرکزی سیاست کا حصہ بن رہے ہیں لیکن سول سوسائٹی، سیاستدانوں اور ٹریڈ یونینز میں نفرت کے اس بیانیے کے خلاف مزاحمت بھی پائی جاتی ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ وہ چھ زبانیں بول سکتی ہیں جن میں دری، پشتو، اردو، ہندی، فارسی اور انگریزی شامل ہیں۔ اردو کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں انھیں زیادہ مہارت حاصل نہیں ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • فیصل آباد: ن لیگ کےیوسی وائس چیئرمین کا خواتین پروحشیانہ تشدد

    فیصل آباد: ن لیگ کےیوسی وائس چیئرمین کا خواتین پروحشیانہ تشدد

    فیصل آباد : صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں مسلم لیگ ن کے یوسی وائس چیئرمین نے خواتین کو سرعام وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور گھرپرقبضہ کرنے کی کوشش کی۔

    تفصیلات کے مطابق سٹی کونسل کے وائس چیئرمین ملک عرفان نے فیصل آباد کی ریلوے کالونی میں مسلح ساتھیوں کے ہمراہ گھرپر قبضہ کرنے کی کوشش کی اورسامان اٹھا کرگلی میں پھینک دیا۔

    مسلم لیگ ن کے وائس چیئرمین نے خواتین کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ موقع پرموجود پولیس اہلکاروں نے نہ اسے گرفتار کیا اور نہ ہی روکنے کی کوشش کی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ملک عرفان سمیت 32 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے 27 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تاہم ن لیگ کے وائس چیئرمین نے 11 مئی تک عبوری ضمانت کرا رکھی ہے۔

    خیال رہے کہ واقعے کے بعد کی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ موقع پرپہنچنے والی پولیس ملک عرفان کو حراست میں لے کر تھانے کے بجائے پروٹوکول میں گھر پہنچا رہی ہے۔


    لاہور: شادی میں جدید اسلحہ سے ہوائی فائرنگ‘ پولیس خاموش تماشائی

    یاد رہے کہ گزشتہ سال 16 اکتوبر کو ن لیگی ایم این اے سہیل بٹ کے چھوٹے بھائی زوہیب بٹ اور اس کے گن مینوں کی جانب سے مناواں میں شادی کی تقریب میں جدید اسلحے سے اندھا دھند ہوائی فائرنگ کی گئی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خواتین یاد رکھیں، بھارت آپ کا مقبرہ بھی بن سکتا ہے

    خواتین یاد رکھیں، بھارت آپ کا مقبرہ بھی بن سکتا ہے

    استنبول : مقبوضہ کشمیر بھی ننھی آصفہ پردرندگی کے افسوسناک واقعے پر دنیا بھرمیں بھارت کی جگ ہنسائی ہورہی ہے ، استنبول ائیرپورٹ پر شہریوں نے  ننھی آصفہ کو انصاف دلانے کیلئے  ٹی شرٹس پہن کر احتجاج کیا، جس میں پیغام دیا گیا کہ  اپنی خواتین کو بھارت بھیجنے سے پہلے ہوشیار ہو جائیں، خواتین یاد رکھیں، بھارت آپ کا مقبرہ بھی بن سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق معصوم آصفہ سے درندگی کےبعد پوری دنیا میں بھارت کے خلاف آواز اٹھنا شروع ہوگئیں، استنبول ائیرپورٹ پرنوجوانوں نے ٹی شرٹس پہن کر احتجاج کیا ، ٹی شرٹس پر مختلف عبارتیں درج تھیں، جس میں خواتین کو بھارت جانے سے خبردار کیا گیا۔

    ٹی شرٹس پر درج عبارتوں میں لکھا تھا کہ بھول کر بھی بھارت نہ جانا، بھارت میں گائے کی عزت ہے، خواتین بے عزت ہیں، اپنی خواتین کو بھارت بھیجنے سے پہلے ہوشیار ہو جائیں۔

    ایک اور عبارت میں پیغام دیا کہ خواتین یاد رکھیں، بھارت آپ کا مقبرہ بھی بن سکتا ہے، کوئی شرم ہوتی ہےکوئی حیا ہوتی ہے۔

    دوسری جانب پچاس سابق بیوروکیٹس نے وزیراعظم نریندرمودی کو شرم دلانے کیلئے خط بھی لکھ دیا، جس میں کہا گیا کہ بھارتی حکومت اپنی ذمے داری ادا کرنے میں مکمل ناکام ہوگئی ہے۔

    خط میں لکھا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آصفہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد بھارتی حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔

    پچاس سابق بیوروکیٹس نے مطالبہ کیا کہ واقعے کی فوری طوپر پر اعلیٰ سطح کی تحقیقات کرائیں، آل پارٹیز کانفرنس بلائیں، ہر صورت میں آصف کو انصاف دلائیں۔

    واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں چرواہے کی بیٹی آصفہ بانو کو جنوری میں مویشی چرانے گئی تھی، جسے سات ہندوپولیس اہلکاروں نے اغواکیا اور مندرمیں قید کرکے چار روز تک زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بے دردی سے قتل کرکے جھاڑیوں میں پھینک دیا تھا۔

    واقعے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ملزمان کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کر زور پکڑ گیا جبکہ پوری دنیا بھارت سے مطالبہ کررہی ہے کہ آصفہ بانوکوانصاف دو۔

    آصفہ بانو کے والدین نے پولیس اورانتظامیہ کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ آٹھ سالہ معصوم بچی نے ان کا کیا بگاڑا تھا ۔

    بالی وُڈ اداکار انوشکا شرما ، پریانکا چوپڑا ، نواز الدین صدیقی ،زائرہ وسیم اور دیگر نے مجرموں کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • ایک ماں کا اپنی بیٹی کی تربیت کا انوکھا انداز

    ایک ماں کا اپنی بیٹی کی تربیت کا انوکھا انداز

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کے اس دنیا میں آتے ہی اس کی تربیت کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ وہ جو کچھ اپنے آس پاس دیکھتا اور سنتا ہے وہ اس کی شخصیت اور کردار پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔

    بہت بچپن میں پیش آنے والے واقعات بھی بچوں کے لاشعور میں بیٹھ جاتے ہیں جو عمر کے کسی نہ کسی حصہ میں ظاہر ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر آپ اپنے بچے کی کسی خاص خطوط پر تربیت کرنا چاہتے ہیں تو اسے بچپن ہی سے اس چیز سے روشناس کروائیں۔

    مزید پڑھیں: بچوں کو کند ذہن بنانے والی وجہ

    مثال کے طور پر اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ بڑا ہو کر فٹبالر بنے، تو اسے بہت چھوٹی عمر سے ہی سے ہی فٹبال کھیلنا سکھائیں، خود بھی اس کے سامنے کھیلیں، ٹی وی پر فٹبال میچ دکھتے ہوئے اس اپنے ساتھ بٹھائیں۔

    اسی طرح اگر آپ اپنے بچے کو مطالعہ کی عادت ڈلوانا چاہتے ہیں تو اسے بچپن سے ہی باتصویر کتابوں سے روشناس کروائیں۔

    یہ ایک نہایت آزمودہ طریقہ ہے۔ اگر آپ دنیا کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات سر انجام دینے والے افراد کے بچپن میں جھانکیں گے تو وہ اپنے بچپن سے ہی اس میدان سے آشنا ملیں گے جس میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا جادو دکھایا۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی تربیت میں یہ غلطیاں مت کریں

    اکثر شاعر، ادیب یا مصوروں نے اپنے بچپن میں خاندان کے کسی فرد کو کتابوں یا رنگوں سے الجھے ہوئے پایا اور ان کی ملکیت کتابوں اور رنگوں سے کھیلا۔ یہی وہ عادت ہے جو کسی حد تک بچے کے فطری میلان کی بھی تشکیل کرتی ہے۔

    امریکا میں رہائشی ایک ماں میگھن ایلڈرکن بھی انہی خطوط پر اپنی ننھی بیٹی کی تربیت کرنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی بڑی ہو کر ایک مضبوط عورت بنے جس پر معاشرہ فخر کرسکے۔

    بچپن سے ہی تربیت کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے اپنی بیٹی کے اسکول کے لنچ باکس میں ایک خاص قسم کا نیپکن رکھنا شروع کردیا۔

    مزید پڑھیں: بچوں کی ذہانت والدہ سے ملنے والی میراث

    یہ نیپکن کوئی معمولی نیپکن نہیں تھا، بلکہ اس پر میگھن تاریخ پر اثر انداز ہونے والی کسی مشہور خاتون کی تصویر بناتی اور ان کا کوئی قول لکھتی جو شخصیت اور کردار کی تعمیر اور زندگی کو حوصلے سے بسر کرنے سے متعلق ہوتا۔

    میگھن چونکہ ایک ادارے میں اسی تخلیقی کام سے منسلک ہیں لہٰذا ان کے لیے روزانہ ایک ڈرائنگ بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔

    وہ بتاتی ہیں کہ ان کی بیٹی ہر روز بے تابی سے لنچ ٹائم کا انتظار کرتی ہے کہ کب وہ لنچ باکس کھولے اور نیپکن پر لکھا قول پڑھے۔ اس قول سے صرف اسے ہی نہیں بلکہ اس کے دوستوں کو بھی دلچسپی ہے اور وہ ہر روز شوق سے اسے پڑھتے ہیں۔

    میگھن ہر روز کسی مشہور خاتون سیاستدان، ادیبہ، مصورہ، اداکارہ یا سماجی کارکن کا ایک قول اپنی بیٹی کو دیتی ہیں اور انہیں یقین ہے کہ ان کی بیٹی کا شمار بھی ایک دن انہی خواتین میں ہوگا جو اپنے ملکوں کے لیے باعث افتخار بنیں۔


    4

    انہوں نے اپنی بیٹی کو ملالہ یوسفزئی سے بھی روشناس کروایا جس کا قول ہے، ’ہم اپنی آواز کی اہمیت اس وقت جانتے ہیں جب ہم خاموش کروا دیے جاتے ہیں‘۔

    مزید پڑھیں: نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے 12 سنہری افکار


    7

    امریکی خاتون اول مشل اوباما کا قول، ’آپ کوئی فیصلہ خوف کی بنیاد پر، یا اس بنیاد پر نہیں کر سکتے کہ آگے کیا ہوگا‘۔


    2

    امریکا کی سابق سیکریٹری خارجہ میڈیلین البرائٹ کا قول، ’مجھے اپنی آواز کو مستحکم بنانے میں ایک طویل عرصہ لگا ہے، اور اب میں خاموش نہیں ہوں گی‘۔


    6

    بیسویں صدی کی میکسیکو سے تعلق رکھنے والی مصورہ فریڈا کاہلو کا قول، ’مجھے پیروں کی کیا ضرورت ہے جب میرے پاس اڑنے کے لیے پر موجود ہیں‘۔


    1

    مشہور امریکی مصنفہ لوئیسا مے کا قول، ’میں طوفانوں سے خوفزدہ نہیں ہوں، کیونکہ اس سے میں سیکھ رہی ہوں کہ کشتی کو کیسے چلایا جاتا ہے‘۔


    5

    برطانوی مصنفہ میری شیلی کا قول، ’میں بے خوف ہوں، اس لیے طاقتور ہوں‘۔


    8

    ہالی ووڈ فلم سیریز ہیری پوٹر کی کردار ہرمائنی کا قول، ’میں دنیا میں کچھ اچھا کرنا چاہتی ہوں‘۔


    خلا میں جانے والی پہلی افریقی خاتون مے جیمیسن کا قول، ’دوسرے لوگوں کے محدود خیالات کی مناسبت سے خود کومحدود مت کریں‘۔


    3

    امریکی اداکارہ لوسی بال کا قول، ’میں ان کاموں پر پچھتانا پسند کروں گی جو میں نے انجام دیے بجائے ان کاموں کے جن کا مجھے پچھتاوا ہو کہ میں نے کیوں نہ کیے‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • غیر قانونی قید خانوں میں افغان خواتین کی دردناک حالت زار

    غیر قانونی قید خانوں میں افغان خواتین کی دردناک حالت زار

    افغانستان جیسے ملک میں جہاں شاید خواتین سانس بھی اپنے مردوں سے پوچھ کر لیتی ہوں گی، کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ وہاں خواتین جرائم میں بھی ملوث ہوسکتی ہیں؟ اور آپ کے خیال میں ایسی خواتین کو کیا سزا دی جاتی ہے؟

    افغانستان میں کسی بھی قسم کے جرم میں ملوث خاتون کو بطور سزا کسی قبائلی سردار کے گھر بھیج دیا جاتا ہے، جہاں وہ اس کے گھر والوں کی بلا معاوضہ خدمت کرتی ہے۔ یہی نہیں، گھر کے مردوں کی جانب سے کیا جانے والا جنسی و جسمانی تشدد بھی ان کی ’سزا‘ کا حصہ ہوتا ہے۔

    ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں مجرم قرار دی جانے والی 95 فیصد لڑکیاں اور 50 فیصد خواتین اخلاقی جرائم میں ملوث ہوتی ہیں۔ خواتین کے بنیادی حقوق سلب کرنے والے ان ’اخلاقی جرائم‘ کی کیا تعریف پیش کرتے ہیں؟ آئیے آپ بھی جانیں۔

    وہ خواتین جو گھر سے بھاگ جائیں، جو زنا میں ملوث پائی جائیں، یا جو شادی شدہ ہوتے ہوئے کسی دوسرے مرد سے تعلقات رکھیں، اخلاقی مجرم قرار پاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    ان ہی اخلاقی جرائم میں ملوث ایک عورت فوزیہ بھی ہے جس نے اپنے نگرانوں کو رسوائی سے بچانے کے لیے اپنا نام غلط بتایا۔

    افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے پکتیکا کی رہائشی فوزیہ کو گھر سے بھاگنے اور زنا میں ملوث پائے جانے کے جرم میں سزا یافتہ قرار دیا گیا ہے۔ اسے مقامی عدالت نے جیل بھیجنے کا حکم دیا۔

    مگر بہت جلد اسے علم ہوا کہ اسے حکومت کی جانب سے طے کردہ 18 ماہ کی سزا نہیں ملے گی، نہ ہی اسے سرکاری جیل میں بھیجا جائے گا۔ اس کے برعکس اسے ایک قبائلی سردار کے گھر بھیجا جائے گا جہاں اس کی حیثیت ایک غلام جیسی ہوگی۔

    قید کا آغاز ہونے کے بعد فوزیہ کی زندگی کا ایک درد ناک سفر شروع ہوا۔ فوزیہ کے لیے منتخب کیے گئے قبائلی سردار نے اسے اپنے گھر سے متصل ایک جھونپڑی میں قید کردیا۔ روز صبح اس قید خانے کا دروازہ کھولا جاتا ہے جس کے بعد فوزیہ سردار کے گھر کے کام کرتی ہے، صفائی کرتی ہے، اور کپڑے دھوتی ہے۔

    سورج غروب ہونے کے بعد اسے واپس اس کے قید خانے میں بھیج دیا جاتا ہے۔

    دبیز پردے سے اپنے چہرے کو چھپائے فوزیہ شاید خوف کے مارے یہ تو نہ بتا سکی کہ اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے یا نہیں، تاہم وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کا راز کھول گئی۔

    مزید پڑھیں: داعش کے ظلم کا شکار عراقی خاتون اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر

    وہ بتاتی ہے، ’مجھے جانوروں کی طرح رکھا گیا ہے اور مجھ سے زرخرید غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے‘۔

    وہ کہتی ہے، ’میری دعا ہے کہ جو کچھ میں نے قید کے دوران سہا ہے اور سہہ رہی ہوں، وہ کبھی کوئی اور عورت نہ سہے‘۔

    اسے سب سے زیادہ دکھ اپنے خاندان سے جدائی کا ہے، ’یہ کوئی عام قید خانہ نہیں جہاں کبھی کبھار آپ کی والدہ یا بہن آپ سے ملنے آسکیں، یا وہ آپ کے لیے کچھ لے کر آئیں۔ مجھے یہاں نہ صرف اپنے گھر والوں بلکہ ساری دنیا سے الگ تھلگ کردیا گیا ہے اور یہ میرے لیے بہت وحشت ناک بات ہے‘۔

    فوزیہ کا کیس صوبائی عدالت میں زیر سماعت ہے، اور اس سے قبل بھی انہیں جیل بھیجے جانے کا فیصلہ سنایا جا چکا ہے، اس کے باوجود انہیں قبائلی سردار بھیجنے کی وجہ کیا ہے؟


    سزا کے لیے ’غیر معمولی‘ قید خانے کیوں؟

    افغانستان کے طول و عرض پر واقع جیلیں گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ہیں جو عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے پہلے کی تنقید کی زد میں ہیں۔

    افغانستان کے ڈائریکٹر برائے جیل خانہ جات عالم کوہستانی کے مطابق حکومت کی جانب سے قائم باقاعدہ جیلوں میں صرف 850 کے قریب خواتین موجود ہیں جو اخلاقی جرائم، منشیات کے استعمال یا قتل میں ملوث ہیں۔

    ان میں وہ خواتین شامل نہیں جو غیر قانونی طریقہ سے قیدی بنائی گئی ہیں۔ ان میں ہزاروں خواتین شامل ہیں جو ملک بھر میں مختلف مقامات پر قید ہیں۔

    afghan-2

    دراصل افغان حکومت کی جانب سے طے کردہ قوانین اور سزائیں عموماً خواتین پر لاگو نہیں کی جاتیں، اور مقامی کونسلوں یا گاؤں کے سربراہ ہی مجرم خواتین کی سزا کا تعین کرتے ہیں۔ البتہ حکومت اپنے قوانین اور عدالتی نظام کو قبائلی علاقوں میں بھی نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

    امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق سے متعلق تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان کا رسمی قانونی نظام دیہی اور قبائلی علاقوں میں غیر مؤثر ہے اور یہاں یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

    یہاں ہونے والے تنازعوں کو نمٹانے کے لیے علاقہ کے معززین بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے ایسی سزائیں ایجاد کرلی ہیں جو افغانستان کے قوانین سے بالکل علیحدہ اور بعض اوقات متصادم ہیں۔

    پکتیکا میں کام کرنے والی ایک سماجی کارکن زلمے خروٹ کا کہنا ہے کہ قید کی جانے والی ان خواتین کو بدترین جنسی و جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان سے غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ دراصل ان کی حیثیت گھر کے سربراہ کی جائیداد جیسی ہے۔

    دوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں صرف خواتین کے لیے مخصوص جیلیں یا قید خانے کم ہیں۔ افغان صوبہ پکتیکا میں جس کی سرحدیں پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بھی ملتی ہیں، خواتین کو رکھنے کے لیے کوئی جیل یا مناسب قید خانہ موجود نہیں۔

    مزید پڑھیں: مہاجر شامی خواتین کا بدترین استحصال جاری

    افغانستان کے صوبائی محکمہ برائے امور خواتین کی سربراہ بی بی حوا خوشیوال نے اس بارے میں بتایا کہ وہ کئی خواتین مجرموں کو قبائلی سرداروں یا خواتین پولیس اہلکاروں کے گھر بھیجتے ہیں۔ ’ہم مانتے ہیں کہ یہ قانونی نہیں، لیکن جگہ کی کمی کی وجہ سے ہم مجبور ہیں‘۔

    انہوں نے بتایا کہ انہیں قبائلی سرداروں کی جانب سے خطوط بھیجے جاتے ہیں کہ وہ ان مجرم خواتین کو ان کے گھر بھیجیں۔ وہ یقین دہانی کرواتے ہیں کہ ان کے گھر میں خواتین سے کوئی ظالمانہ سلوک نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اکثر سردار اپنی بات سے پھر جاتے ہیں اور ان کے گھر جانے والی خواتین کا بری طرح استحصال ہوتا ہے۔

    بی بی حوا کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس صرف 16 خواتین مجرموں کے کیس مقامی و صوبائی عدالتوں میں بھیجے گئے۔ ان کے علاوہ ایسے درجنوں مقدمات، جو خواتین کے خلاف قائم کیے گئے، قبائلی سرداروں نے بالا ہی بالا خود ہی طے کر لیے۔ ان مقدمات میں خواتین مرکزی ملزم تھیں یا بطور سہولت کار ملوث تھیں۔

    اس بارے میں افغان ڈائریکٹر برائے جیل خانہ جات عالم کوہستانی کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی پوری کوشش کرتی ہے کہ ایسی خواتین جو کسی قسم کے مقدمات میں قبائلی سرداروں کے گھر قید ہیں، انہیں قانونی معاونت فراہم کی جائے۔ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ خواتین کے مقدمات کی وقت پر سماعت کی جائے (اگر ان کے سرپرست اس کی اجازت دیں)، اور سزا ملنے کی صورت میں ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہونے دی جائے۔


    کیا تمام خواتین اس صورتحال کا شکار ہیں؟

    افغانستان میں غیر قانونی طور پر قید کی گئی تمام خواتین کو اس صورتحال کا سامنا نہیں۔ کچھ خواتین کو قانونی معاونت بھی میسر آجاتی ہے، تاہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین کی تعداد بہت کم ہیں۔

    خواتین قیدیوں کی اکثریت ایسی ہے جو دوران قید بری طرح استحصال کا شکار ہوتی ہیں اور بعض دفعہ ان کی قید کی مدت مقرر کردہ مدت سے بھی تجاوز کردی جاتی ہے۔


    قبائلی سرداروں کا کیا کہنا ہے؟

    اس بارے میں جب ایک قبائلی سردار خلیل زردان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اسے اپنے قبیلے کے لیے ایک قابل فخر عمل قرار دیا۔ اپنی رائفل سے کھیلتے ہوئے اس نے کہا، ’میرا نہیں خیال کہ خواتین قیدیوں کو اپنے گھر میں رکھنے میں کوئی قباحت ہے۔ میرے گھر میں کبھی کسی خاتون قیدی کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا گیا‘۔

    سردار زردان کے گھر میں خواتین کے لیے باقاعدہ جیل قائم ہے اور اس کی دوسری بیوی اس کے گھر میں چلائی جانے والی جیل کی نگران ہے۔ سردار کا کہنا تھا، ’جب کسی عورت کو سزا یافتہ قرار دیا جاتا ہے تو پولیس چیف مجھے فون کر کے کہتا ہے کہ اگر میرے گھر میں جگہ ہے تو میں اس عورت کو اپنے گھر میں رکھ لوں‘۔ ’یہ کام میں اپنے قبیلے کی عزت کے لیے کرتا ہوں، میرے قبیلے کو جب اور جتنی ضرورت ہوگی، میں اتنی عورتیں اپنے گھر میں رکھ سکتا ہوں‘۔

    افغانستان میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں اور اداروں کا مشترکہ مشن یہ ہے کہ یہاں سب سے پہلے خواتین کو ان کے بنیادی حقوق واپس دلوائے جائیں۔ دیگر سہولیات کی بات بعد میں آتی ہے۔

    افغانستان کی فٹبال کی پہلی خواتین ٹیم کی کپتان خالدہ پوپل زئی اس بارے میں کہتی ہیں، ’افغانستان سے طالبان کا کنٹرول ختم ہوگیا ہے لیکن ان کی سوچ لوگوں میں سرائیت کر چکی ہے۔ یہ سوچ خواتین کو ان کے بنیادی حقوق بھی دینے سے روک دیتی ہے اور لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خواتین کو جانور سے بھی بدتر کوئی مخلوق سمجھیں‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔