Tag: خواتین

  • صدر ٹرمپ پر 17 خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات

    صدر ٹرمپ پر 17 خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات

    واشنگٹن : آج کل امریکہ میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے معاملے پر جہاں ہالی ووڈ کے پروڈیوسرز اور اداکاروں کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہیں صدر ٹرمپ پر بھی 17 خواتین نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام لگا کر ان کیلئے نئی مشکل کھڑی کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روسی گٹھ جوڑ کی تحقیقات سمیت اس وقت کئی تنازعوں میں پھنسے نظر آتے ہیں تاہم خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات نے نئی مشکل کھڑی کر دی ہے۔

    امریکہ بھر سے 17 خواتین نے صدر ٹرمپ پر مختلف نوعیت کے الزامات عائد کئے گئے ہیں جبکہ ان الزامات کی گونج اب کانگریس میں بھی سنائی دے رہی ہے۔

    کانگریس کی خواتین ارکان نے تمام الزامات کی کانگریس میں تحقیقات کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    صدر ٹرمپ پر الزامات عائد کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ خواتین کو ہراساں کرنے والا شخص وائٹ ہاؤس میں نہیں بیٹھ سکتا۔

    دوسری جانب صدر ٹرمپ ہمیشہ سے ہی ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔

    خیال رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں خواتین کو ہراساں کرنے کے الزامات پر کئی کانگریس مین، سینیٹرز اور کارپوریٹ سیکٹرز کے اعلی افسران عہدے سے مستعفی ہوچکے ہیں تاہم صدر ٹرمپ کو اب تک ان الزامات سے کوئی فرق پڑتا نہیں دکھائی دے رہا۔


    مزید پڑھیں : خواتین کیخلاف نازیبا ریمارکس، ڈونلڈ ٹرمپ نے معافی مانگ لی


    واضح رہے کہ امریکی اخبار نے حال ہی میں2005 میں بنائی گئی ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ویڈیو جاری کی تھی، جس میں انہیں خواتین کے بارے میں نازیبا ریمارکس دیتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا، آڈیو کلپ میں ٹرمپ ٹی وی میزبان بلی بش کیساتھ خواتین سے متعلق غیراخلاقی گفتگو کررہے تھے۔

    جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے  ویڈیو میں خواتین سے متعلق نازیبا ریمارکس دینے  پر معافی مانگی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • صدر ٹرمپ پر 17 خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات

    صدر ٹرمپ پر 17 خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات

    واشنگٹن : آج کل امریکہ میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے معاملے پر جہاں ہالی ووڈ کے پروڈیوسرز اور اداکاروں کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہیں صدر ٹرمپ پر بھی 17 خواتین نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام لگا کر ان کیلئے نئی مشکل کھڑی کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روسی گٹھ جوڑ کی تحقیقات سمیت اس وقت کئی تنازعوں میں پھنسے نظر آتے ہیں تاہم خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات نے نئی مشکل کھڑی کر دی ہے۔

    امریکہ بھر سے 17 خواتین نے صدر ٹرمپ پر مختلف نوعیت کے الزامات عائد کئے گئے ہیں جبکہ ان الزامات کی گونج اب کانگریس میں بھی سنائی دے رہی ہے۔

    کانگریس کی خواتین ارکان نے تمام الزامات کی کانگریس میں تحقیقات کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    صدر ٹرمپ پر الزامات عائد کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ خواتین کو ہراساں کرنے والا شخص وائٹ ہاؤس میں نہیں بیٹھ سکتا۔

    دوسری جانب صدر ٹرمپ ہمیشہ سے ہی ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔

    خیال رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں خواتین کو ہراساں کرنے کے الزامات پر کئی کانگریس مین، سینیٹرز اور کارپوریٹ سیکٹرز کے اعلی افسران عہدے سے مستعفی ہوچکے ہیں تاہم صدر ٹرمپ کو اب تک ان الزامات سے کوئی فرق پڑتا نہیں دکھائی دے رہا۔


    مزید پڑھیں : خواتین کیخلاف نازیبا ریمارکس، ڈونلڈ ٹرمپ نے معافی مانگ لی


    واضح رہے کہ امریکی اخبار نے حال ہی میں2005 میں بنائی گئی ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ویڈیو جاری کی تھی، جس میں انہیں خواتین کے بارے میں نازیبا ریمارکس دیتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا، آڈیو کلپ میں ٹرمپ ٹی وی میزبان بلی بش کیساتھ خواتین سے متعلق غیراخلاقی گفتگو کررہے تھے۔

    جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے  ویڈیو میں خواتین سے متعلق نازیبا ریمارکس دینے  پر معافی مانگی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مدینہ منورہ میں خواتین پر مشتمل پہلی بلدیاتی کونسل کا قیام

    مدینہ منورہ میں خواتین پر مشتمل پہلی بلدیاتی کونسل کا قیام

    ریاض : بلدیاتی حکومت مدینہ منورہ نے خواتین کی خود مختار شہری کونسل کے قیام کا اعلان کریا ہے جو صرف خواتین کے لیے مختص ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق بلدیہ مدینہ منورہ نے یہ قدم ویژن 2030 کے بااختیار خواتین کے ہدف کے حصول کے لیے اُٹھایا گیا جو کہ قومی تبدیلی کے پروگرام 2020 کا بھی حصہ ہے۔

    اس کونسل کو بااختیار بنانے کے لیے خواتین کو ٹریفک لائسنس اورعمارتوں کے اجازت نامے، خواتین کی سرگرمیوں کے لیے نگرانی اور خواتین کو درکار دوسری کوئی بھی خدمات مہیا کرنے جیسے اقدامات کی ذمہ داری خاتون کونسل کے سپرد کی گئی ہے۔

    اس حوالے سے مدینہ ریجن کے سیکرٹری محمد العامری کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خواتین پر مشتمل اس کونسل کے قیام کی تجویز ان کی استعداد اور مسابقت کی صلاحیت کے پیش نظر رکھی گئی تھی جو سہولت کار، پیدا وار میں اضافے، رفتار اور استعداد کو بڑھانے کے لیے پُل کا کام کرے گی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ دیہی امور کے وزیر عبد اللطیف بن عبدالملک الشیخ نے خواتین پر مشتمل بلدیاتی کونسل کے قیام کے لیے کلیدی کردار ادا کیا جس کا دائرہ کار دیگر بڑے صوبوں تک پھیلایا جائے گا اور وہاں بھی اسی طرز کی کونسل تشکیل دی جائے گی۔

    سعودی عرب وژن 2030 کے تحت اپنی قدیم روایات کے برخلاف ایسے انقلابی اقدام اُٹھا رہا ہے جس سے ایک روشن خیال اور جدید سعودیہ عرب کا تاثر ابھر کر سامنے آرہا ہے اور بالخصوص خواتین کو سماج کا مفید حصہ بنانے کے لیے اہم اقدامات کیے جارہے ہیں۔

  • کینیڈا میں خواتین کے نقاب پر پابندی کا قانون معطل

    کینیڈا میں خواتین کے نقاب پر پابندی کا قانون معطل

    ٹورنٹو : کینیڈا میں خواتین کے نقاب پر پابندی کا قانون معطل کردیا گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق کینیڈا کی عدالت نے خواتین کے نقاب پر پابندی کا قانون معطل کرنے کا حکم دیدیا، جج بابک بارین نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اس قانون سے متعلق واضح گائیڈ لائنز سامنے آنے تک یہ قانون معطل رہے گا۔

    کیوبک حکومت نے اس قانون کا دفاع کرتے ہوئے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ اس قانون میں مسلمان خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں برتا گیا بلکہ اس قانون میں سیکیورٹی، شناخت اور کمیونیکیشن کی اہمیت کو مدِنظر رکھا گیا ہے۔


    مزید پڑھیں : کینیڈا کے صوبے کیوبک میں خواتین کے نقاب پہننے پرپابندی


    واضح رہے کہ رواں برس اکتوبر میں کینیڈا کے صوبے کیوبک کی حکومت نے خواتین کے نقاب پر پابندی کا بل منظور کیا تھا ، بل کے تحت خواتین پر حکومتی سروسزحاصل کرنے یا فراہم کرنے کے لئے برقع یانقاب پہننے پر پابندی عائد ہوگی۔

    قانون کے تحت بیوروکرٹس، پولیس اہلکاروں، اساتذہ، بس ڈرائیوروں، عوامی اسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں اور نرسوں سب کو کام کے دوران اپنا چہرہ دکھانا ہوگا۔

    کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کیوبک میں نقاب کی پابندی کا قانون منظور ہونے پر درعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بتانا حکومتوں کا کام نہیں کہ خواتین کیا پہنے اور کیا نہیں، میں ہمیشہ کینیڈین شہریوں کے حقوق اور آزادی کے لئے کھڑے رہوں گا۔

    واضح رہے کہ فرانس، آسٹریا، بیلجیئم، ڈنمارک، روس، اسپین، سوئٹزرلینڈ اور ترکی میں پہلے ہی عوامی مقامات پر نقاب پہننے پر پابندی ہے جبکہ نیدرلینڈز میں بھی نقاب پر پابندی کا قانون زیرغور ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خواتین پر تشدد معمول کی بات، مگر کیا کبھی متاثرہ خواتین کے بارے میں سوچا گیا؟

    خواتین پر تشدد معمول کی بات، مگر کیا کبھی متاثرہ خواتین کے بارے میں سوچا گیا؟

    دنیا بھر میں آج خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 80 فیصد خواتین اور دنیا بھر میں ہر 3 میں سے 1 خاتون زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں تشدد کا نشانہ بننے والی ہر 3 میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں جسمانی، جنسی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف صنف کی بنیاد پر اس سے روا رکھا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنا، ان پر جسمانی تشدد کرنا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا، جنسی طور پر ہراساں کرنا، بدکلامی کرنا، اور ایسا رویہ اختیار کرنا جو صنفی تفریق کو ظاہر کرے تشدد کی اقسام ہیں اور یہ نہ صرف خواتین بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہیں۔

    اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اس میں چند مزید اقسام، جیسے غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی، (جس کے واقعات ملک بھر میں عام ہیں) اور خواتین کو تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں سالانہ سینکڑوں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے لیکن ایسے واقعات بہت کم منظر عام پر آ پاتے ہیں۔

    خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فاونڈیشن کے مطابق سنہ 2013 میں ملک بھر سے خواتین کے خلاف تشدد کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 7 ہزار 8 سو 52 ہے۔

    پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق سنہ 2014 میں 39 فیصد شادی شدہ خواتین جن کی عمریں 15 سے 39 برس کے درمیان تھی، گھریلو تشدد کا شکار ہوئیں۔

    کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں 1 ہزار سے زائد خواتین قتل ریکارڈ پر آئے جو غیرت کے نام پر کیے گئے۔

    دوسری جانب ایدھی سینٹر کے ترجمان کے مطابق صرف سنہ 2015 میں گزشتہ 5 برسوں کے مقابلے میں تشدد کا شکار ہوکر یا اس سے بچ کر پناہ لینے کے لیے آنے والی خواتین میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔

    تشدد کا شکار خواتین کی حالت زار

    ہر سال کی طرح اس سال بھی اقوام متحدہ کے تحت آج کے روز سے 16 روزہ مہم کا آغاز کردیا گیا ہے جس کے دوران خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی طور پر آگاہی و شعور اجاگر کیا جائے گا۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ مستقل تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کئی نفسیاتی عارضوں و پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    تشدد ان کی جسمانی صحت کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوتا ہے اور وہ بلڈ پریشر اور امراض قلب سے لے کر ایڈز جیسے جان لیوا امراض تک کا آسان ہدف بن جاتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: گھریلو تشدد کے خلاف آگاہی کے لیے بنگلہ دیشی اشتہار

    دوسری جانب ذہنی و جسمانی تشدد خواتین کی شخصیت اور صلاحیتوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور انہیں ہمہ وقت خوف، احساس کمتری اور کم اعتمادی کا شکار بنا دیتا ہے جبکہ ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو بھی ختم کردیتا ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ان تنازعوں اور جنگوں کے خواتین پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں اور وہ مردوں یا بچوں سے کہیں زیادہ جنسی و جسمانی تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔

    تشدد واقعی ایک معمولی مسئلہ؟

    تشدد کا شکار ہونے والی خواتین پر ہونے والے مندرجہ بالا ہولناک اثرات دیکھتے ہوئے یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ایک معمولی یا عام مسئلہ ہے۔ مگر بدقسمتی سے نصف سے زائد دنیا میں اسے واقعی عام مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق یہ سوچ تشدد سے زیادہ خطرناک ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد ایک نہایت عام بات اور ہر دوسرے گھر کا مسئلہ سمجھی جاتی ہے جسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: صدیوں سے صنف نازک کا مقسوم قرار دی گئی مشقت

    خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    مزید یہ کہ انہیں یہ احساس بھی نہیں ہو پاتا کہ انہیں لاحق کئی بیماریوں، نفسیاتی پیچیدگیوں اور شخصیت میں موجود خامیوں کا ذمہ دار یہی تشدد ہے جو عموماً ان کے شوہر، باپ یا بھائی کی جانب سے ان پر کیا جاتا ہے۔

    تشدد سے کیسے بچا جائے؟

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین پر تشدد کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کی ضرورت ہے۔

    تشدد ہونے سے پہلے اسے روکا جائے۔

    ایک بار تشدد ہونے کے بعد اسے دوبارہ ہونے سے روکا جائے۔

    قوانین، پالیسیوں، دیکھ بھال اور مدد کے ذریعے خواتین کو اس مسئلے سے تحفظ دلایا جائے۔

  • صدیوں سے صنف نازک کا مقسوم قرار دی گئی مشقت

    صدیوں سے صنف نازک کا مقسوم قرار دی گئی مشقت

    بارش، ساون، برکھا رت، برسات، آنسو، اردو ادب کا جزو لازم ہیں، لیکن یہ آب یعنی پانی صرف اردو ادب کا ہی نہیں بلکہ زندگی کا بھی جزو لازم ہے کہ جہاں پانی ہے وہاں حیات ہے۔

    خدا کی اس وسیع و عریض کائنات میں زمین اب تک کا وہ واحد معلوم سیارہ ہے جہاں پانی موجود ہے، اور پانی ہی کی وجہ سے حیات بھی موجود ہے۔ اب تک سائنس دانوں نے جتنے بھی سیارے دریافت کیے ان میں اب تک حیات نہ دیکھی جاسکی، ہاں البتہ جہاں پانی کے آثار ملے وہاں صرف ایک امکان ظاہر کیا گیا کہ یہاں حیات موجود ہوسکتی ہے۔

    گویا ہماری زندگی دولت، شہرت، ملازمت اور کامیابی سے بھی زیادہ پانی کی مرہون منت ہے اور حضرت انسان کی عقل دیکھیں کہ پانی کو اس قدر بے دردی سے لٹا رہا ہے کہ دنیا بھر میں موجود پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، گویا انسان خود اپنے ہاتھوں اپنی موت بلا رہا ہے۔

    روز بروز نئی نئی سامنے آتی تحقیقی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان جو سنہ 1990 کے بعد سے آبی قلت کا شکار ہونا شروع ہوا ہے تو بہت جلد وہ وقت بھی آنے والا ہے جب پاکستان خشک سالی کا شکار ہوجائے گا، اور یہ وقت زیادہ دور بھی نہیں، صرف 8 برس بعد یعنی سنہ 2025 میں۔

    گویا اب ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال ہے کہ پانی کا مستقبل کیا ہے؟ اور چونکہ ہماری زندگی پانی کے بغیر ممکن نہیں تو ہمارا اور ہماری زندگیوں کا مستقبل کیا ہوگا؟؟

    یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ پاکستان کو اس مقام پر لانے کی وجہ عرصہ دراز سے حکومتی غفلت ہے جو اگر چاہتیں تو ابتدا سے ہی ڈیمز یا دیگر ذخائر کی صورت میں پانی کو ذخیرہ کر کے رکھ سکتی تھیں۔ پاکستان کوئی بارش یا مون سون کی کمی کا شکار ملک نہیں۔ یہاں بے شمار آبی ذخائر بھی موجود ہیں (جو بدقسمتی سے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں) جبکہ ہر سال ہونے والی بارشیں سیلاب بن کر ہمارے نصف انفرا اسٹرکچر کو تباہ کرجاتی ہیں۔

    لہٰذا آج ہم آپ کو ایک ایسے مقام پر لیے جارہے ہیں جہاں بظاہر حکومت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی، اور جب وہاں حکومت نہیں تو حکومتی غفلت بھی نہیں۔ چنانچہ چند مخیر حضرات اور سماجی اداروں کی بدولت اس مقام پر قلت آب کا مسئلہ خاصی حد تک نہ صرف حل ہوچکا ہے، بلکہ ترقی یافتہ شہروں کے لیے بھی ایک مثال ہے کہ جب دلوں میں احساس اور انسانیت سے محبت زندہ ہو تو کس طرح آنے والے کل کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔

    سندھ کا پیاسا کوہستان

    کوہستان کا نام سنتے ہی ذہن میں صوبہ خیبر پختونخواہ کا ضلع کوہستان در آتا ہے جو آبی ذخائر، قدرتی وسائل، اور خوبصورت فطری نظاروں سے بھرپور ایک حسین مقام ہے۔ جہاں جانے کے بعد خیال آتا ہے، ’گر فردوس بریں بہ روئے زمیں است، ہمیں است ہمیں و ہمیں است‘۔

    لیکن جس کوہستان کی ہم بات کر رہے ہیں وہ صوبہ سندھ کا ایک پیاسا اور بنیادی ضروریات سے محروم گاؤں ہے جہاں وقت ابھی بھی 19 ویں صدی میں ٹہرا ہوا ہے۔

    صوبائی حلقہ بندی میں پی ایس 85 ٹھٹہ 2 کے درمیان کہیں موجود یہ گاؤں پیپلز پارٹی کی رہنما سسی پلیجو کے حلقہ انتخاب میں آتا ہے مگر گمان یہی ہے کہ سندھ سے پہلی بار انتخابات سے براہ راست فاتح بن کر اسمبلی پہنچنے والی پہلی خاتون سسی پلیجو نے شاید اس گاؤں میں قدم بھی نہ رکھا ہو۔

    ٹھٹہ کی طرف جاتے ہوئے ایک کچا راستہ آپ کو اس صحرا نما گاؤں کی طرف لے جاتا ہے جس کا نام کوہستان ہے۔ جابجا اڑتی خاک سے اٹا ہوا یہ کوہستان اس کوہستان سے بالکل مختلف ہے جہاں کوہ (پہاڑ) ہیں، پانی ہے، ہریالی ہے اور خوشی ہے۔ اس کوہستان میں چہار سو ریت ہے، ویرانی ہے، غربت ہے اور شاید ناامیدی بھی۔

    گو کہ اب یہاں حالات پہلے سے نسبتاً بہتر ہیں، لیکن ہم آپ کو اس زندگی کی ایک جھلک ضرور دکھائیں گے جو یہاں پانی کی ’آمد‘ سے پہلے تھی۔

    صنف نازک کے نازک کاندھوں پر بھاری بوجھ

    جس طرح خالق کائنات نے زندگی کو جنم دینے کی ذمہ داری ہر صورت عورت کو دے رکھی ہے اور چاہے کچھ بھی ہوجائے مرد اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانا تو دور اس کا حصہ بھی نہیں بن سکتا، اسی طرح خواتین پر ایک اور خود ساختہ ذمہ داری عائد ہے جو زمین کے خداؤں نے اس پر لازمی قرار دے رکھی ہے۔ اور وہ ذمہ داری ہے پانی بھر کر لانا، چاہے اس کے لیے کتنا ہی طویل سفر کیوں نہ کرنا پڑے۔

    اندرون سندھ میں رہنے اور وہاں کے حالات سے واقفیت رکھنے والوں کو یقیناً علم ہوگا کہ سندھ کے گاؤں دیہات میں پانی بھر کر لانا عورتوں کی ذمہ داری ہے، اور یہ ذمہ داری ایسی ہے جس سے فرار کسی صورت ممکن نہیں۔ چاہے کوئی بیمار ہو، کمزور ہو یا حاملہ ہو، اسے ہر صورت پانی بھرنے جانا ہے۔

    حتیٰ کہ بعض حاملہ عورتیں پانی بھرنے کے اس سفر کے دوران بچوں کو جنم دیتی ہیں اور تھوڑی دیر کے وقفے کے بعد پھر سے ہمت باندھ کر اپنا سفر شروع کرتی ہیں اور اب جب وہ پانی کے مٹکے لے کر گھر پہنچتی ہیں تو ان کے ہاتھ میں ایک نومولود بچہ بھی ہوتا ہے۔ آخر کو دونوں ’ذمہ داریاں‘ عورت کی ہی ہیں اور ہر صورت اسی کو نبھانی ہیں۔

    مرد اس ذمہ داری سے تو آزاد ہیں ہی، ساتھ ہی خواتین کو یہ خیال چھو کر بھی نہیں گزرتا کہ مرد بھی کبھی اس مشقت میں ان کا ہاتھ بٹا لیا کریں۔ یعنی وہی بات کہ جب ازل سے لکھا گیا کہ بچہ پیدا کرنا عورت کا کام ہے تو یہ کام کسی مرد سے کیسے کہا جاسکتا ہے، تو یہ ذمہ داری بھی ازل سے عورت پر عائد ہے کہ پانی بھر کر لانا ہے تو اسی نے لانا ہے، ورنہ مرد گھر میں فارغ بھی ہوں گے تو بھی اس کام کے لیے نہیں جائیں گے۔

    یہ سفر دن میں ایک بار نہیں ہوتا۔ اسے کم از کم دن میں 3 بار انجام دینا پڑتا ہے تاکہ اہل خانہ کی پانی کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ جب چھوٹی بچیاں کچھ وزن اٹھانے کے قابل ہوجاتی ہیں تو انہیں بھی ایک چھوٹا سا برتن پکڑا کر ہم سفر بنا لیا جاتا ہے کہ چلو کم از کم اپنے حصے کا پانی ہی بھر کر لے آئیں گی۔

    سروں پر پانی کے وزنی مٹکے اور ڈرم بھر کر لانے سے خواتین کی جو حالت ہے وہ تو جسمانی ساخت سے عیاں ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی انہیں کئی سنگین طبی مسائل لاحق ہوجاتے ہیں جیسے ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کا اپنی جگہ سے کھسک جانا، ہڈیوں جوڑوں اور پٹھوں کا درد، وزن میں کمی، قوت مدافعت میں کمی۔

    ایسے گاؤں دیہاتوں میں خال ہی کوئی عورت خوبصورت بالوں کی مالکہ نظر آئے گی کیونکہ روز اول سے لکھی اس مشقت نے ان کے بالوں کی قربانی لے لی ہے اور بہت کم عمری میں ان کے بال جھڑنا شروع جاتے ہیں۔

    یہ صورتحال کم و بیش سندھ کے ہر اس گاؤں میں نظر آئے گی جہاں آبی ذخائر کی کمی ہے۔

    ضلع ٹھٹھہ کا علاقہ کوہستان بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہاں بھی عورتوں کو چند مٹکے پانی بھرنے کے لیے 3 سے 5 کلو میٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے اور دور دور واقع عارضی ندی نالوں سے پانی بھر کر لانا پڑتا ہے۔ یہ کام دن میں کم از کم 3 بار انجام دیا جاتا ہے۔

    جب وہاں موجود بچیوں کی ڈھیر ساری تعداد کو دیکھ کر سوال کیا گیا کہ کیا یہ بچیاں اسکول نہیں پڑھنے جاتیں؟ تو ان کے والدین کا جواب تھا، ’وقت نہیں ہے جی۔ پڑھنے جائیں گی تو پانی کون بھر کر لائے گا‘۔

    والدین خاص طور پر مردوں کی اکثریت اپنی بچیوں کو پڑھانا چاہتی ہے لیکن وہ ایک سماجی ذمہ داری جو ان کی لڑکیوں اور عورتوں پر عائد کردی گئی ہے وہ خود بھی اس کے آگے مجبور ہیں۔ انہوں نے اپنے نانا، دادا کے خاندان میں کسی مرد کو اپنی عورت کے ساتھ جا کر پانی بھرتے نہیں دیکھا، چنانچہ وہ اس خیال کو بھی معیوب سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی عورتوں کے ساتھ جا کر پانی بھریں۔

    اپنی خاندانی روایت کی پیروی کرتے ہوئے انہوں نے اپنی نئی نسل کو بھی یہ نہیں سکھایا کہ وہ اپنی ماؤں بہنوں اور بیویوں کے ساتھ جا کر پانی بھریں، البتہ ان کے خیالات میں اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے، ’وقت بدل رہا ہے، ہمارے لڑکوں کو اگر خود ہی احساس ہوجائے اور وہ اس مشقت میں اپنی ماں بہنوں کا ہاتھ بٹانے لگیں تو ہم بھلا کیوں روکیں گے‘۔

    اپنے نہ جانے کی وہ ایک تاویل یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ اگر ہم پانی بھرنے جائیں تو کام دھندے پر کون جائے گا۔ تاہم ان کی یہ تاویل قابل قبول نہیں تھی کیونکہ اکثر گھروں میں مرد بے روزگار فراغت سے بیٹھے ہوئے تھے یا جابجا سجی ہوئی مردوں کی محفلیں بتارہی تھیں کہ انہیں غم روزگار سے کوئی واسطہ نہیں۔

    تبدیلی کیسے آئی؟

    کہتے ہیں جس کا زمین پر کوئی نہیں ہوتا اس کا خدا ہوتا ہے۔ یہاں حکومتی غفلت بھی ان لوگوں کے لیے ایک رحمت ثابت ہوئی کہ اگر یہاں حکومتی افراد آ بھی جاتے تو بھی وعدے اور تسلیاں دلاسے دے کر چلے جاتے، کام کبھی نہیں ہونا تھا۔ اس کی مثال گاؤں میں 8 برس قبل لگایا گیا وہ آر او پلانٹ ہے جو تاحال فعال نہ ہوسکا۔

    خیر خدا نے ان پیاسوں پر نظر کرم کی اور ایک سماجی تنظیم کو ان کی مدد کا وسیلہ بنایا جو کسی طرح یہاں آ پہنچی۔

    انڈس ارتھ ٹرسٹ نامی اس تنظیم نے بین الاقوامی مشروب ساز کمپنی کے تعاون سے ’واٹر فار وومین‘ یعنی ’پانی ۔ خواتین کے لیے‘ کے نام سے ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا۔

    جب انہوں نے اس کام کا آغاز کیا تو خود وہاں کے لوگوں اور سوشل میڈیا پر بھی ان سے سوال کیا گیا کہ صرف خواتین کے لیے ہی پانی کیوں؟ کیا مردوں کو پانی کی ضرورت نہیں؟ اور ادارے کا جواب تھا، کہ جب پانی بھر کر لانا صرف خواتین ہی کی ذمہ داری ہے تو پھر پانی تک رسائی کے لیے کیا جانے والا کام بھی خواتین ہی کے لیے ہوگا۔

    کوہستان میں پانی کا ذریعہ وہ دور دراز واقع تالاب تھے جو بارشوں کے موقع پر بھر جاتے۔ تاہم گرمیوں کی تیز چلچلاتی دھوپ ان تالابوں کو بہت جلد خشک کردیتی۔

    مذکورہ تنظیم نے کوہستان کے 34 گاؤں میں پانی کی فراہمی کا کام کرنے کی ٹھانی۔

    منصوبے کے تحت سب سے پہلے بارش کے پانی کو طویل المدتی بنیادوں پر ذخیرہ کرنے پر کام شروع کیا گیا۔ اس کے لیے کوہستان میں موجود 18 بڑے تالابوں کو گہرا کیا گیا تاکہ ان میں زیادہ سے زیادہ بارش کا پانی محفوظ ہوسکے۔

    بعد ازاں پانی جمع ہوجانے والے راستوں پر مزید 10 ریزروائرز یا ذخیرہ گاہ بنائے گئے۔ ان ذخیرہ گاہوں کو 30 فٹ تک گہرا کیا گیا ہے۔

    اس کے بعد جب مون سون کا موسم آیا اور بارشیں شروع ہوئیں تو کوہستان کی سرحد پر واقع کیرتھر کی پہاڑیوں سے پانی بہہ کر ان ذخیرہ گاہوں میں جمع ہونے لگا اور ایک وقت آیا کہ تمام ذخائر پانی سے لبا لب بھر گئے۔

    بعد ازاں ان ذخائر کے کناروں پر ہینڈ پمپس بھی لگا دیے گئے تاکہ جب پانی کی سطح نیچی ہوجائے تو خواتین کو پانی بھرنے میں مشکل کا سامنا نہ ہو۔

    انڈس ارتھ اب دیہاتوں کے قریب 20 کے قریب کنویں تعمیر کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے تاکہ خواتین کو پانی کے حصول کے لیے میلوں کا سفر نہ طے کرنا پڑے۔

    اس تمام عمل سے اب کوہستان پانی کے معاملے میں خود کفیل ہوگیا ہے جہاں سارا سال پانی دستیاب رہے گا۔ اس پانی سے مستفید ہونے والے 34 دیہاتوں کے 15 ہزار افراد پانی کی فراوانی سے نہایت خوش ہیں اور اب اپنے علاقے میں شجر کاری اور زراعت کا آغاز بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس صحرائی علاقے کے بنجر پن اور خشکی کو کم کیا جاسکے۔

    خواتین کے لیے ایک اور سہولت

    جب انڈس ارتھ ٹرسٹ نے یہاں کام کرنا شروع کیا تو دیگر مخیر افراد کی نظروں میں بھی یہ گاؤں بالآخر آ ہی گیا۔ ایسے ہی ایک مخیر شخص کے تعاون سے یہاں خواتین کی سہولت کے لیے ایک اور شے متعارف کروادی گئی۔

    یہ واٹر وہیلز تھے یعنی پانی کے گیلن جو باآسانی کھینچ کر لائے جاسکتے تھے۔ گاؤں والوں کو بڑی تعداد میں ان کی فراہمی کے بعد اب خواتین کا سروں پر پانی بھر کر لانے کا مسئلہ بھی خاصا حل ہوچکا ہے۔

    عام مٹکوں یا ڈرموں میں ایک سے 2 لیٹر پانی کے برعکس اس واٹر وہیل میں 40 لیٹر تک پانی بھرا جاسکتا ہے جو ایک گھر کی پورے دن کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔ گویا خواتین کو دن میں کئی بار سفر کرنے کی اذیت سے بھی نجات مل گئی ہے۔


    یہ سفر جو ایک اداسی اور نا امیدی کا سفر تھا اپنے اختتام پر امید کی بھرپور روشن کرن میں تبدیل ہوچکا تھا۔ گاؤں والوں کے چمکتے چہرے بتا رہے تھے کہ ان کی زندگیاں کس قدر تبدیل ہوچکی ہیں۔ اب یقیناً وہ اپنی بچیوں کو پڑھنے بھی بھیج سکتے ہیں، اور اپنا وقت بچا کر دیگر صحت مند سرگرمیوں میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔

    گو کہ ان گاؤں والوں کی مدد کے لیے اللہ نے کسی اور کو سیلہ بنا کر بھیجا، لیکن ہم تمام تر وسائل کے ہوتے ہوئے اسے اپنے لیے ایک مثال بھی سمجھ سکتے ہیں جس کے بعد کوئی امکان نہیں رہے گا کہ ہماری بارشوں کا پانی سیلاب بنے، ضائع ہو، اور پھر ہم خشک سالی کا شکار ہوجائیں۔

  • جہیز ایک لعنت ہے۔۔ مگر؟

    جہیز ایک لعنت ہے۔۔ مگر؟

    برصغیر پاک و ہند میں تقریباً ہر عورت نے اپنی نوجوانی میں اپنی بزرگ خواتین سے ایک جملہ ضرور سنا ہوگا، ’جو عورت سسرال میں جتنا زیادہ اور بھاری بھرکم جہیز لے کر جاتی ہے، وہ اتنی ہی زیادہ عزت سے رہتی ہے‘۔

    پرانے زمانوں کی لڑکیاں جب شادی ہو کر گئیں تو انہیں بذات خود اس بات کا تجربہ بھی ہوگیا۔ اس کے بعد اسی سوچ کو انہوں نے اپنی اگلی نسلوں میں بھی منتقل کرنا شروع کیا۔

    پھر اکیسویں صدی آئی۔ 90 کی دہائی تک پیدا ہونے والوں نے یہ جملہ اپنے بچپن میں ضرور سنا ہوگا تاہم پھر وقت بدلتا گیا، تعلیم سے واقعتاً لوگوں نے شعور بھی حاصل کرنا شروع کردیا۔

    پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہم نے سنا، کہ جہیز ایک لعنت ہے اور اس سلسلے میں خاص طور پر لڑکوں اور ان کے اہل خانہ کے تصور کو بدلنے کا سلسلہ چل نکلا کہ بغیر جہیز کے بھی آپ اپنا بیٹا بیاہ سکتے ہیں، آخر اس کی شادی کر رہے ہیں، اسے بھاری بھرکم جہیز کے عوض فروخت تو نہیں کر رہے۔

    گوکہ صورتحال اب پہلی جیسی بدترین اور بدنما تو نہیں رہی، تاہم کم تعلیم یافتہ علاقوں میں آج اکیسویں صدی میں بھی یہ حال ہے کہ غریب والدین جہیز دینے کی استطاعت نہ رکھنے کے باعث اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کر پاتے۔

    تاہم چند روز قبل پیشہ ورانہ مصروفیات کے سلسلے میں ایک دورے کے دوران یہ لعنت ایک لازمی رسم کی طرح رائج دیکھنے میں آئی جس نے سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا چند ہزار روپوں کی بے جان اشیا انسانی زندگیوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے؟

    مزید پڑھیں: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    کراچی سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر نوری آباد سے قبل واقع ایک علاقہ کوہستان، (جی ہاں ایک کوہستان سندھ میں بھی واقع ہے) دور تک پھیلے صحرا پر مشتمل ایک علاقہ ہے، جہاں سورج اپنی بھرپور تپش کے ساتھ نہایت ہی نامہرباں معلوم ہوتا ہے جب تک کہ آپ کو سر کے اوپر کوئی سایہ دار جگہ میسر نہیں آجاتی۔

    سندھ کے دیگر صحرائی علاقوں کی طرح اس صحرا میں بھی لوگ آباد ہیں۔ دور دور واقع چھوٹے چھوٹے گاؤں اور کمیونٹیز کی صورت میں، اور بنیادی سہولیات سے بالکل محروم لوگ، جن کی حالت زار دیکھ کر انسانیت پر سے بھروسہ اٹھنے لگتا ہے۔

    اس علاقے میں 34 کے قریب گاؤں آباد ہیں جن میں سے ایک گاؤں کا نام حاجی شفیع محمد ہے۔ گاؤں والوں نے مہمانوں کے لیے ایک پکا تعمیر کردہ گھر مختص کر رکھا ہے جو پورے گاؤں کا سب سے اعلیٰ تعمیر کردہ مکان تھا۔ خواتین سے بات چیت ہوئی تو وہی اذیت ناک صورتحال سامنے آئی کہ نہ پانی ہے، نہ بجلی، نہ طبی امداد دینے کے نام پر کوئی چھوٹی موٹی ڈسپنسری یا ڈاکٹر۔

    ان خواتین کی زندگیوں کا سب سے بڑا مقصد دور دراز علاقوں میں واقع پانی کے ذخیروں سے گھر کی ضروریات کے لیے پانی بھر کر لانا تھا۔ 3 سے 5 کلو میٹر تک جانا اور پانی کو بڑے بڑے ڈرموں یا برتنوں میں اٹھا کر پھر واپس لانا، اور یہ کام کم از کم دن میں 3 بار انجام دیا جاتا ہے تاکہ گھر والوں کی پانی کی ضروریات پوری ہوسکیں۔

    اندرون سندھ کے علاقوں کے دورے کرنے والے یا وہاں کی رواج و ثقافت کو سمجھنے والے جانتے ہوں گے کہ گھر کی ضروریات کے لیے پانی بھر کر لانا صرف خواتین کی ذمہ داری ہے، اور یہ ذمہ داری ایسی ہی لازمی ہے جیسے بچے پیدا کرنے کا کام مرد کسی صورت نہیں کرسکتا، صرف عورت کر سکتی ہے تو پانی بھر کر لانا بھی صرف عورت کا ہی کام ہے۔

    مرد گھر میں بے کار بھی بیٹھا ہوگا تو کبھی اس طویل سفر میں عورت کی مدد نہیں کرے گا کیونکہ اسے صدیوں سے یہی بتایا گیا ہے کہ پانی بھر کر لانا صرف عورت کی ذمہ داری ہے۔

    ان علاقوں کی کئی بچیاں پڑھنا چاہتی ہیں، لیکن وہ بھی اپنی ماؤں کے ساتھ پانی کے ڈول بھر بھر کر لاتی ہیں۔ خود ان کی مائیں حتیٰ کہ باپ اور بھائی بھی ان کی اس خواہش سے واقف ہیں لیکن ان کے سامنے سب سے بڑی مجبوری ہے کہ اگر بچیاں اسکول گئیں تو پانی کون بھر کر لائے گا۔ چھوٹی بچیاں ساتھ جا کر کم از کم اپنے حصے کا پانی تو بھر کر لے ہی آتی ہیں۔

    ابھی اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی کہ نظر مکان کی دیوار سے ساتھ لگے بڑے سے ڈھیر پر جا ٹکی۔ چادر میں چھپائے گئے اس ڈھیر سے کچھ چمکتی ہوئی اشیا باہر جھانکتی دکھائی رہی تھیں۔

    دریافت کرنے پر خواتین نے اس ڈھیر پر سے چادر ہٹا دی۔ یہ ڈھیر سینکڑوں کی تعداد میں خوبصورت کڑھے ہوئے تکیوں، رلیوں (سندھ کی روایتی اوڑھنے والی چیز)، بالوں کی آرائشی اشیا، دیدہ زیب کشیدہ کاری سے مزین شیشوں اور دیواروں پر آویزاں کرنے کے لیے خوش رنگ روایتی کڑھائی سے تیار کی گئی اشیا پر مشتمل تھا۔

    ان عورتوں کے پاس ایسا شاندار ہنر موجود ہے، اگر انہیں شہر تک رسائی دی جائے تو ان کی بنائی یہ اشیا ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوسکتی ہیں تاہم جب اس بارے میں ان سے دریافت کیا گیا تو تمام خواتین نے ٹکا سا جواب دے دیا، ’نہیں یہ بیچنے کے لیے نہیں بنائیں‘۔

    تو پھر اس چمکتے ڈھیر کو بنانے اور جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ بظاہر کوئی گھر ایسا نظر نہیں آرہا تھا جہاں اس قسم کی دیدہ زیب اشیا عام استعمال ہوتی دکھائی دے رہی ہوں۔

    دریافت کرنے پر علم ہوا کہ یہ تمام سامان لڑکیوں کے جہیز کے لیے بنایا جاتا ہے۔

    شاد بی بی نامی ایک خاتون نے کچھ تکیے دکھاتے ہوئے بتایا کہ انہیں بنانے پر 5 ہزار روپے کی لاگت آئی ہے۔ ’یہ پیسہ تو ہم اس وقت سے جوڑنا شروع کردیتے ہیں کہ جب ہمارے گھر لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ ہم اسے دے ہی کیا سکتے ہیں زندگی بھر، لیکن کم از کم اس کی شادی میں یہ خوبصورت اور قیمتی سامان پر مشتمل تھوڑا بہت جہیز دینا تو ضروری ہے‘۔

    گویا ایک جھونپڑی سے دوسری جھونپڑی تک رخصت ہونے والی بیٹی اپنے جہیز میں یہ قیمتی کڑھے ہوئے تکیے اور آرائشی اشیا وغیرہ اپنے ساتھ جہیز میں لے کر آتی ہے۔ مزید کچھ دینے کی استطاعت نہ تو اس کے گھر والوں میں ہے اور نہ اس کے ہونے والے شوہر کی جھونپڑی میں اتنی جگہ کہ وہ شہری جہیز یعنی ٹی وی، فریج، اے سی وغیرہ کی ڈیمانڈ کرسکے یا انہیں رکھ سکے۔

    یہ جہیز شادی کے بعد بمشکل 1 سے 2 ہفتے تک دلہن کو خوشی فراہم کرتا ہے جب اس کی ساس تمام گاؤں والوں کو جمع کر کے انہیں دکھاتی ہے کہ ’ہماری نوہنہ (بہو) یہ جہیز لائی ہے‘۔ نفاست اور خوبصورتی سے کڑھے ان تکیوں اور رلیوں پر کبھی داد و تحسین دی جاتی ہے کبھی اس میں بھی خامیاں نکالی جاتی ہیں۔

    دو ہفتے تک دلہن کو اس کی زندگی میں نئی تبدیلی ہونے کا احساس دلاتی یہ اشیا بالآخر اس وقت اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہیں جب دلہن پہلے کی طرح اپنے سر پر بڑے بڑے برتن اٹھائے پانی بھرنے کے سفر پر نکلتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ پہلے وہ اپنی ماں بہنوں کے ساتھ جاتی تھی، اب اپنی ساس اور نندوں کے ساتھ جاتی ہے۔

    اس کی پیدائش کے وقت سے جمع کیے جانے والے پیسوں اور ان سے بنائی گئی یہ قیمتی اشیا خراب ہونے سے بچانے کے لیے انہیں جھونپڑی کے ایک کونے میں ایک ڈھیر کی صورت رکھ دیا جاتا ہے اور اسے گرد و غبار سے بچانے کے لیے اس پر چادر ڈھانپ دی جاتی ہے۔

    ہمارے شہروں میں دیا جانے والا جہیز کم از کم استعمال تو ہوتا ہے۔ یہ جہیز تو زندگی بھر یوں ہی رکھا رہتا ہے کیونکہ بدنصیب عورتوں کو اتنی مہلت ہی نہیں ملتی کہ وہ اسے استعمال کرسکیں۔

    ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد دن میں 3 بار پانی بھر کر لانا ہے اور دن کے آخر میں جب وہ رات کو تھک کر بیٹھتی ہیں تو ان میں اتنی بھی ہمت نہیں ہوتی کہ اتنی محنت اور ماؤں کی چاہت سے بنائے گئے جہیز کو چادر ہٹا کر ایک نظر دیکھ لیں، اور خوش ہولیں۔

    اور ہاں یہ جہیز نسل در نسل منتقل نہیں ہوتا، بلکہ ہر نئی بیٹی پیدا ہونے پر اس کے والدین پھر سے پیسہ جوڑنا اور یہ اشیا بنانا شروع کردیتے ہیں تاکہ وہ اپنی بیٹی کو بھی باعزت طریقے سے رخصت کرسکیں۔

    نسل در نسل سے بیٹی کو تعلیم دینے کے بجائے اسے بے مقصد اور ناقابل استعمال جہیز دینے والے ان بے بسوں کی زندگی شاید اس وقت بدل جائے جب انہیں پانی بھرنے کے طویل سفر کی مشقت سے چھٹکارہ مل جائے، لیکن وہ وقت کب آئے گا، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

  • می ٹو: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں؟

    می ٹو: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں؟

    چند دن قبل ہالی ووڈ کے معروف فلم پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن پر بالی ووڈ کی کئی اداکاروں نے یکے بعد دیگرے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا جس نے ہالی ووڈ انڈسٹری سمیت دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا۔

    معروف ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی سمیت اب تک ہالی ووڈ کی 20 سے زائد اداکارؤں نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ جب وہ اپنے کیرئیر کے ابتدائی دور میں تھیں تب ہاروی نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی، 2 اداکاراؤں نے ہاروی پر ریپ کا الزام بھی لگایا۔

    اداکاراؤں کے ان الزامات کے بعد امریکا اور برطانیہ کے تمام تحقیقاتی ادارے متحرک ہوگئے اور ہاروی وائنسٹن کے خلاف تحقیقات شروع کردی گئیں۔

    ہاروی نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر ایک فلم ساز ادارہ ’میرا مکس فلمز‘ بنایا تھا، اس ادارے نے ہاروی سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا، جبکہ اس کے نام پر بنے دوسرے ادارے ’دی وائنسٹن‘ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے بھی اسے برطرف کر دیا ہے۔

    یہی نہیں بلکہ آسکر اور بافٹا ایوارڈز کی تنظیموں نے بھی اپنی جیوری سے ہاروی کی رکنیت معطل کر دی ہے۔

    جنسی ہراسمنٹ کا معاملہ سامنے آنے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ کا آغاز ہوگیا جس کے تحت دنیا بھر کی خواتین نے آواز اٹھائی کہ وہ زندگی میں کس مرحلے پر جنسی ہراسمنٹ کا نشانہ بنیں۔

    یہ ہیش ٹیگ پڑوسی ملک بھارت میں بھی بے حد مقبول ہوا اور بھارتی اداکارہ ودیا بالن اور ریچا چڈھا سمیت متعدد خواتین نے اس معاملے پر آواز اٹھائی کہ انہیں کس عمر میں، کن حالات میں اور کس طرح جنسی ہراسمنٹ کا نشانہ بنایا گیا۔

    تاہم پاکستان میں اس مہم کو اتنی پذیرائی نہ مل سکی۔ ابھی یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ آسکر ایوارڈ یافتہ فلمساز شرمین عبید چنائے کی کچھ متنازعہ ٹوئٹس نے معاملے کو ایک اور رنگ دے دیا اور ہراسمنٹ کا لفظ ہر مرد و خواتین کے منہ سے طنزیہ و مزاحیہ انداز میں سنا جانے لگا جس نے اس معاملے کی حساسیت کو کم کردیا۔

    اس سلسلے میں اے آر وائی نیوز نے مختلف شعبہ جات کی چند خواتین سے رابطہ کیا اور ان سے ان کے کیریئر میں ہونے والے جنسی ہراسمنٹ کے تجربات کے بارے میں پوچھا۔

    عافیہ سلام ۔ صحافی / سماجی کارکن

    مختلف سماجی اداروں سے منسلک عافیہ سلام اس بارے میں کہتی ہیں کہ پاکستان میں دراصل جنسی ہراسمنٹ کا مطلب غلط لیا جاتا ہے۔ ’جب آپ خود کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو لوگ انتہا پر پہنچ کر سوچتے ہیں کہ آپ کے ساتھ جسمانی طور چھیڑ چھاڑ یا زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہے‘۔

    شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستانی خواتین کی اکثریت نے اس معاملے میں اپنی آواز اٹھانے سے گریز کیا۔ بقول عافیہ سلام کے، جب انہوں نے ’می ٹو‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کیا تو ان کی اپنی بیٹی نے پریشان ہو کر ان سے پوچھا، ’یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ کیا واقعی آپ کے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہے‘۔

    تب عافیہ نے ہراسمنٹ کی صحیح لفظوں میں تعریف بیان کرتے ہوئے کہا کہ جنسی ہراساں کرنے کا مطلب جنسی زیادتی نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’جنسی ہراسمنٹ اور جنسی حملہ دو الگ چیزیں ہیں، جنسی حملہ کرنا تشدد کے زمرے میں آتا ہے جبکہ جنسی طور پر ہراساں ہونا ایک عام بات ہے اور بدقسمتی سے شاید ہی کوئی پاکستانی عورت اس ہراسمنٹ سے محفوظ رہی ہو‘۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    عافیہ سلام کا کہنا ہے کہ ہر وہ شے جو آپ کو عدم تحفظ کا احساس دے، ہراسمنٹ ہے۔ ’اب یہ ہراسمنٹ خواتین کی طرف سے خواتین کے لیے، اور مردوں کی طرف سے مردوں کے لیے بھی ہوسکتی ہے، لیکن جب جنس مخالف کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ جنسی ہراسمنٹ کہلاتی ہے‘۔

    انہوں نے اپنے تجربات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ عمر کے اس حصے میں جب زندگی اپنی تمام تر آسائشوں سے بھرپور سے ہے، ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔ ’نوجوانی میں کالج، یونیورسٹی کے لیے بسوں میں لٹک کر بھی سفر کیا ہے، بس اسٹاپ پر کھڑے ہو کر بسوں کا انتظار بھی کیا ہے، اس وقت اندازہ ہوتا تھا کہ عورت ہونا کتنا مشکل ہے‘۔

    باہر نکلنے والی خواتین کو گھورے جانا بھی نہایت پریشان کرتا ہے۔ اس بارے میں عافیہ کا کہنا تھا، ’خواتین کو گھورنے کے لیے تو شکل و صورت، اور عمر کی کوئی قید نہیں۔ پاکستان میں شعوری یا لا شعوری طور پر خواتین کو گھورے جانا بدقسمتی سے ایک نہایت عام بات بن چکی ہے، لیکن جو اس گھورنے کی ہراسمنٹ کا شکار ہورہی ہوتی ہیں کوئی ان سے جا کر پوچھے، ایسے وقت میں دل چاہتا ہے کہ انسان کہیں کسی کمرے میں چھپ کر بیٹھ جائے اور کبھی باہر نہ نکلے‘۔

    خواتین کو گھورنا ہماری عادت ہے

    صوبہ پنجاب، اقوام متحدہ برائے خواتین (یو این ویمن) کے تعاون سے مختلف شہروں کے عوامی مقامات کو خواتین کے لیے زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں چند روز قبل پنجاب حکومت اور یو این وومین کا ایک ایونٹ منعقد ہوا جس میں اس سلسلے میں کی جانے والی کوشوں کے بارے میں حاضرین کو آگاہ کیا گیا۔

    تقریب کے دوران پنجاب کمیشن آن دا اسٹیٹس آف وومین کی چیئرمین فوزیہ وقار نے بتایا، ’ایک بار ایک نو عمر لڑکا مجھے گھور رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ تم آخر دیکھ کیا رہے ہو؟ تو اس نے جواب دیا، کچھ خاص نہیں، بس خواتین کو گھورنا ہماری عادت ہے‘۔

    گویا یہ کام نا چاہتے ہوئے لاشعوری طور پر سرزد ہوتا ہے جو خواتین کا باہر نکلنا عذاب بنا دیتا ہے۔

    حتیٰ کہ سعودی عرب جیسے ملک میں بھی جہاں خواتین کے بغیر برقعہ اور نقاب کے باہر نکلنے پر پابندی ہے، وہاں بھی لوگ برقع میں ملبوس خواتین کو گھورنے سے باز نہیں آتے۔ کسی انگریز نے اس صورتحال کا مشاہدہ کیا تو اسے بی ایم او ۔ بلیک موونگ آبجیکٹ کا نام دے ڈالا۔

    مرد کا ساتھ ہونا ضروری

    عافیہ سلام نے کہا کہ آج کی اکیسویں صدی میں بھی بعض اوقات آپ کو باہر نکلنے کے لیے کسی مرد کا ساتھ چاہیئے ہوتا ہے چاہے وہ آپ کا 10 سالہ بھائی ہی کیوں نہ ہو۔

    انہوں نے کہا، ’اکثر لڑکیاں فلم دیکھنے کے لیے جاتے ہوئے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے جاتی ہیں تاکہ وہ اس سیٹ پر بیٹھے جس کے دوسری طرف کوئی مرد موجود ہو۔ راشن لینے جارہے ہیں تو دکان داروں کی غیر ضروری چھیڑ چھاڑ اور گفتگو سے بچنے کے لیے بھی کسی مرد کا ساتھ ضروری ہے‘۔

    ان کے مطابق وہ تمام حالات جو آپ کو مردوں کی موجودگی میں غیر آرام دہ، غیر محفوظ اور ذہنی طور پر پریشان کرے، ہراسمنٹ کے زمرے میں آتی ہے۔ ’چاہے وہ خاتون کی موجودگی میں مردوں کی آپس میں معنی خیز گفتگو ہو، خاتون سے براہ راست ذو معنی گفتگو ہو، بلا سبب دیکھنا ہو یا بغیر کسی ضرورت کے بات کرنا ہو۔ یہ ہراسمنٹ کا ابتدائی مرحلہ ہے‘۔

    دیگر مرحلوں میں دفاتر میں خواتین کے کاموں میں بلا وجہ مین میخ نکالنا، کسی ذمہ داری کے لیے مردوں کو صرف اس لیے ترجیح دینا کہ ’خواتین کیا کرسکتی ہیں‘، میٹنگز میں خواتین کی بات نہ سننا، اور اس کے بعد براہ راست خاتون کی ذات کو نشانہ بنانا، برا بھلا کہنا، خواتین کو کمتر محسوس کروانا آجاتے ہیں۔

    مزید دیگر مرحلوں میں خواتین ملازمین کا استحصال کرنا، ان کی سہولیات جیسے تنخواہ، تعطیلات وغیرہ میں خلل ڈالنا، انہیں جان بوجھ کر دیر تک دفتر میں بٹھائے رکھنا شامل ہے۔

    عافیہ کا کہنا تھا کہ پہلے کے زمانے اور تھے، پہلے جب دو دوست یا دو بھائی آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کا انداز گفتگو اور الفاظ الگ ہوتے ہیں، لیکن اسی وقت ان کے بیچ کوئی خاتون یا ان کی بہن آجاتی تو ان کا انداز گفتگو بالکل مختلف اور تمیز دار ہوجاتا تھا، ’مگر اب یہ صورتحال خال ہی نظر آتی ہے‘۔

    عافیہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب نئی نسل میں لڑکا اور لڑکی میں کوئی تخصیص ہی نہیں رہی، اکثر لڑکیاں بھی اپنے مرد دوستوں یا کولیگز کے ساتھ نامناسب انداز گفتگو اور گالیوں سے بھرپور خراب زبان میں گفتگو کرتی ہیں اور پھر آگے چل کر یہی عادت جنسی ہراسمنٹ کے زمرے میں جا پہنچتی ہے۔

     مرد بھی ہراسمنٹ کا شکار

    عافیہ کا کہنا تھا کہ ہراسمنٹ کی یہ صورتحال صرف خواتین یا لڑکیوں کے ساتھ ہی پیش نہیں آتی بلکہ کم عمر لڑکے بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ ’اپنے ملازمین، بڑے کزنز، استادوں کی طرف سے لڑکوں کو ہراس کیا جانا بھی عام بات ہے جو ان پر منفی ذہنی اثرات مرتب کرتا ہے جو تاعمر ان کے ساتھ رہتے ہیں‘۔

    ان کے مطابق ’خواتین تو پھر اس معاملے میں کسی سے مدد لے سکتی ہیں، لڑکے بیچارے تو شرمندگی کے مارے کسی کو بتا ہی نہیں سکتے۔ وہ ساری عمر نہیں بتا پاتے کہ ان کے ساتھ بچپن میں ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا ہے‘۔

    ڈاکٹر آزادی فتح ۔ استاد

    یونیورسٹی میں باشعور طلبہ و طالبات کو پڑھاتے ہوئے ایک خاتون استاد کو کس قسم کی ہراسمنٹ کا سامنا ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر آزادی فتح کہتی ہیں کہ اپنے کولیگز کی طرف سے بہت کم ایسی شکایات ہوتی ہیں، تاہم نوجوان طلبا کی جانب سے بے حد ہراسمنٹ کا سامنا ہوتا ہے۔

    ڈاکٹر آزادی جامعہ کراچی اور وفاقی اردو یونیورسٹی میں بطور لیکچرر اپنی ذمہ داریاں انجام دے چکی ہیں۔

    ان کے مطابق طالب علموں کی جانب سے بعض اوقات جملے کسے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت زیادہ پیش آتی ہے جب کوئی طالبہ حال ہی میں اپنی تعلیم مکمل کر کے اسی یونیورسٹی میں بطور معلمہ اپنے فرائض انجام دینے لگتی ہے۔ اب اسے ان لڑکوں کو پڑھانا ہے جو صرف ایک سال قبل تک اس کے کلاس فیلوز یا جونیئرز تھے، تو ایسی صورت میں وہ اپنے ساتھ ہونے والی ہراسمنٹ کو درگزر کرنا ہی بہتر سمجھتی ہے۔

    ڈاکٹر آزادی نے بتایا کہ سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے سبب اب استاد اور طالب علم کا تعلق صرف درسگاہ تک محدود نہیں رہا، ’اب سوشل میڈیا پر آپ کے طلبا بھی آپ کے دوست ہیں جو آپ کی تصاویر پر کمنٹس کرتے ہیں اور بعد ازاں اسے کلاس میں بھی بتاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ طالب علم میسجز کر کے پرسنل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ چیز استاد اور مذکورہ شاگرد کے درمیان ایک لکیر کھینچ دیتی ہے اور اب وہ معلمہ اس شاگرد کے ساتھ خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ عدم تحفظ کا یہ احساس آپ کو خواتین کولیگز کی جانب سے بھی ہوتا ہے جب وہ دیکھتی ہیں کہ آپ پراعتماد ہیں، اور مرد و خواتین کولیگز سے ایک ہی لہجے میں بات کر رہی ہیں، ایسے میں دیگر کولیگز کا کہنا ہوتا ہے، ’کیا بات ہے بہت ہنس ہنس کر باتیں ہورہی ہیں‘۔

    ڈاکٹر آزادی کے مطابق یہ رویہ آپ کو ذہنی طور پر بے سکون کردیتا ہے اور اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طرح سے انجام نہیں دے پاتے۔

    ڈاکٹر سارہ خرم ۔ ڈاکٹر

    اس بارے میں جب ہم نے طب کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر سارہ خرم سے بات کی انہوں نے طب کے شعبے میں موجود کئی اخلاقی اصول و قوانین کے بارے میں بتایا۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ جب ایک مریض ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے آتا ہے تو وہ اس کو اپنی تمام تفصیلات دے دیتا ہے۔

    ان کے مطابق ’ایسے کئی کیسز ہوچکے ہیں جب میڈیکل پروفیشنلز نے ان معلومات کا غلط استعمال کیا۔ یہ ہراسمنٹ کے زمرے میں آتا ہے‘۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا ہے کہ جب مریض اپنی بیماری و دیگر تمام تفصیلات اپنے طبی ماہر کو بتاتا ہے کہ تو وہ معلومات اس کے پاس امانت ہوتی ہیں۔ مریض اپنے ڈاکٹر کو ان تمام محسوسات و کیفیات سے آگاہ کردیتا ہے جو وہ عموماً کسی سے نہیں کہتا۔ ’اب ڈاکٹر کو مریض کے نجی معاملات پر اخلاقی دسترس حاصل ہوجاتی ہے اور اخلاقیات کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ان معلومات کو اپنے پاس راز ہی رکھے‘۔

    اسی طرح انہوں نے کہا کہ جب کوئی خاتون کسی مرد ڈاکٹر یا مرد کسی خاتون ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے آتے ہیں تو ڈاکٹر کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں صرف ڈاکٹر ہی بن کر چیک کرے، مرد یا عورت بن کر نہیں۔ یہ اصول اس وقت بے حد ضروری ہے جب آپ مریض کے جسم کو چیک کر رہے ہیں۔

    بینش گل ۔ ایئر ہوسٹس

    اس حوالے سے جب ایک فضائی میزبان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنی ایئرلائن کی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں ذاتی طور پر جنسی ہراسمنٹ کا تجربہ ہوچکا ہے۔

    ان کے مطابق ایک معاملے کے سلسلے میں انہیں کسی غلطی کا ذمہ دار ٹہرایا گیا تو ان سے اچھوتوں کی طرح برتاؤ کیا جانے لگا۔ دفتر میں کئی مقامات پر ان کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی جبکہ معاملہ اتنا بڑا بھی نہیں تھا۔

    بینش نے بتایا کہ اس شعبے میں آنے والی بعض خواتین ضروت مند بھی ہوتی ہیں جو بحالت مجبوری کام کر رہی ہوتی ہیں۔ ایسے خواتین عملے کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے ان کے ساتھ مرد عملے کی جانب سے بدسلوکی، اور بدزبانی عام ہے۔

    زینب مواز ۔ مصورہ

    زینب مواز ایک مصورہ ہیں اور مختلف اداروں سے آرٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے پاکستان کے مشہور آرٹ کالج میں تدریسی فرائض بھی انجام دیے۔

    اپنے تجربات کے بارے میں وہ بتاتی ہیں کہ اس پیشے میں طاقت کا استعمال عام ہے۔ ’بطور ٹیچر مجھ پر دباؤ ڈالا جاتا تھا کہ با اثر افراد کے بچوں کو امتحانات میں پاس کروں۔ اس طرح سے ان طلبا کا حق مارا جاتا تھا جو واقعی قابل ہوتے تھے‘۔

    زینب کہتی ہیں کہ ہمارے پاس زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں خواتین کو ہراسمنٹ کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو۔ وہ ہراسمنٹ سینئرز، جونیئرز اور کولیگز کسی کی بھی جانب سے ہوسکتی ہے۔


    مذکورہ بالا تمام خواتین کی متفقہ رائے تھی کہ ہراسمنٹ اب ایسا موضوع نہیں رہا جس سے آنکھیں چرا لی جائیں۔ اس موضوع پر بات کرنے اور اس سے تحفظ کے بارے میں سوچنے کی ازحد ضرورت ہے۔

  • سعودی عرب میں خواتین کی اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے پرپابندی ختم

    سعودی عرب میں خواتین کی اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے پرپابندی ختم

    ریاض: سعودی عرب نے پہلی بار خواتین کو اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے کی اجازت دی ہے، خواتین آئندہ سال سے اسٹیڈیم میں میچ دیکھ سکیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے تین بڑے شہروں ریاض، جدہ اور دمام میں خواتین کو آئندہ سال سے اہل خانہ کے ساتھ اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے کی اجازت ہوگی۔

    سعودی عرب میں کھیلوں کے مقابلے منعقد کرنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ تین اسٹیڈیم میں تیاریاں کی جائیں گی تاکہ خواتین اہل خانہ کے ہمراہ میچ دیکھ سکیں اوراسٹیڈیم میں ریسٹورینٹ، کیفے اور مانیٹراسکرین لگائی جائیں گی۔

    خیال رہے کہ سعودی عرب میں ہونے والی یہ اصلاحات ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اقتصادی تبدیلیوں کے وژن 2030 کے تحت جاری ہیں۔


    سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت مل گئی


    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان نے فرمان جاری کرتے ہوئے خواتین کو ملک میں پہلی بار گاڑی چلانے کی اجازت دی تھی۔


    سعودی عرب: سرکاری ٹی وی پر میوزیکل کنسرٹ نشر


    واضح رہے کہ رواں ماہ 5 اکتوبر کو سعودی حکومت نے روشن خیالی میں ایک اور قدم آگے بڑھاتے ہوئے سرکاری چینل پر میوزک کنسرٹ نشر کیا تھا۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں ۔

  • بھارتی نوجوان کا منیبہ مزاری کو انوکھا خراج تحسین

    بھارتی نوجوان کا منیبہ مزاری کو انوکھا خراج تحسین

    معروف مصورہ اور اقوام متحدہ پاکستان کی خیر سگالی سفیر منیبہ مزاری ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ معذوری کے باوجود بلند اور قد آور شخصیت کی مالک اس خوبصورت فنکارہ نے جہاں دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کیا وہیں وہ ایک بھارتی لڑکے کی زندگی بھی تبدیل کرنے کا باعث بن گئیں۔

    گو کہ انہیں روز ہی ایسے پیغامات موصول ہوتے ہیں جن میں مختلف پریشانیوں کا شکار لوگ انہیں بتاتے ہیں کہ منیبہ کی جدوجہد نے انہیں بہت متاثر کیا اور انہوں نے نئے حوصلے سے اپنی زندگی کا نئے سرے سے آغاز کیا۔

    تاہم ایک بھارتی نوجوان نے نہایت انوکھے انداز میں منیبہ کو خراج تحسین پیش کیا۔

    بھارتی ریاست تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے اپنی اسکوٹی پر منیبہ کی تصویر چپساں کی اور منیبہ کو پیغام بھیجا کہ آپ کی کہانی سننے اور ویڈیو دیکھنے کے بعد میری زندگی بالکل تبدیل ہوگئی ہے۔

    اس نے اعتراف کیا کہ منیبہ کے حوصلہ افزا الفاظ نے اس کی ہمت بندھائی اور اس نے خود سے محبت شروع کردی۔

    جواب میں منیبہ نے نوجوان کے لیے بے حد خوشی، محبت اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔

    یاد رہے کہ منیبہ مزاری مصورہ اور سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایشیا کی وہ پہلی خاتون ٹی وی میزبان ہیں جنہوں نے پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے پروگرام کی میزبانی کی۔

    وہ رواں برس برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی 100 متاثر کن خواتین کی فہرست میں بھی اپنی جگہ بنا چکی ہیں جبکہ سنہ 2015 میں اقوام متحدہ پاکستان نے انہیں اپنا خیر سگالی سفیر بھی مقرر کیا۔

    منیبہ ایک قدامت پسند بلوچ گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور صرف 18 برس کی عمر ان کی شادی کردی گئی۔ 9 سال قبل ایک ٹریفک حادثے میں وہ اپنی دونوں ٹانگوں سے معذور ہونے کا باعث وہیل چیئر تک محدود ہوگئیں اور اسی باعث ان کے شوہر نے بھی ان سے علیحدگی اختیار کرلی۔

    تاہم منیبہ نے اپنے عزم اور حوصلے سے نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیا اور معذوری کو اپنی راہ کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔