Tag: خواتین

  • تھرکول منصوبے میں مصروف عمل تھر کی پہلی خاتون انجینئر

    تھرکول منصوبے میں مصروف عمل تھر کی پہلی خاتون انجینئر

    تھر پارکر: صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں کوئلہ سے بجلی بنانے کے سب سے بڑے تھر کول پروجیکٹ میں ایک خاتون انجینئر بھی شامل ہیں، تاہم اس انجینیئر کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ تھر سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔

    ابھی تھر کول منصوبے میں تھر کے علاقے اسلام کوٹ میں خواتین نے ہیوی ڈمپرز چلا کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہی تھا کہ تھر سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون انجینئر کرن سدھوانی بھی منظر عام پر آگئیں جو تھرکول منصوبے کی تعمیراتی ٹیم کا حصہ ہیں۔

    مزید پڑھیں: تھری خواتین نے ہیوی ڈمپر چلانا شروع کر دیا

    کرن تھر کی پہلی خاتون انجینئر ہیں جنہوں نے مہران یونیورسٹی سے اپنی انجینیئرنگ کی تعلیم مکمل کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے تھر کول منصوبے میں ملازمت کے لیے درخواست دی تو وہ بہت زیادہ خوفزدہ تھیں کیونکہ اس کے لیے انہیں بے شمار ٹیسٹوں سے گزرنا تھا۔ تاہم ایک کے بعد ایک وہ مختلف مرحلوں میں کامیاب ہوتی گئیں اور تھر کول ٹیم کا حصہ بن گئیں۔

    فی الوقت وہ اس منصوبے میں کام کرنے والی واحد خاتون ہیں۔

    کرن کا کہنا تھا کہ جب انہیں ملازمت مل گئی تو ان کے والد نے انہیں اس علاقے میں رہائش کی اجازت دینے کے لیے صاف انکار کردیا جو تھر کول کی ٹیم اور کارکنان کے لیے مختص کیا گیا تھا۔

    انہوں نے اسے کہا کہ اسے روز سفر کر کے ملازمت پر جانا اور شام میں واپس گھر آنا ہوگا۔

    تاہم کرن وہاں رہ کر کان کنی اور دیگر تمام کاموں کو دیکھنا اور سیکھنا چاہتی تھی۔ بعد ازاں کرن کے والد نے اس جگہ کا دورہ بھی کیا اور وہاں کا محفوظ ماحول دیکھ کر وہ کرن کو وہاں بھیجنے کے لیے رضا مند ہوگئے۔

    کرن کہتی ہے، ’لڑکیاں صرف استاد نہیں بن سکتیں، وہ مشکل شعبوں میں بھی جا سکتی ہیں اور وہاں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہیں‘۔

    جب تھر میں خواتین ٹرک ڈرائیورز کو منتخب کیا جارہا تھا تب کرن نے مختلف علاقوں میں جا کر کئی خواتین سے ملاقات کی تھی اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے گھر اور علاقے کی خوشحالی کے لیے اس معاشی عمل کا حصہ بنیں۔

    مزید پڑھیں: صحرا کے آسماں کی خدا خیر کرے اب

    انہوں نے بتایا، ’لیکن بہت سی خواتین پہلے ہی اس کے لیے پرجوش تھیں۔ ان میں سے کچھ ایسی تھیں جنہیں کوئی معاشی تنگی نہیں تھی، تاہم وہ باہر نکل کر کام کرنا چاہتی تھیں اور خود کو منوانا چاہتی تھیں‘۔

    کرن کو موسیقی سننا اور کتابیں پڑھنا بے حد پسند ہے، اس کے علاوہ وہ ٹیبل ٹینس کھیلنے کی بھی شوقین ہے۔

    کرن سدھوانی مستقبل میں مزید ایسے کام کرنا چاہتی ہے جس سے اس کے علاقے تھر میں خوشحالی آئے اور وہاں کے لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہوں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خواتین کا آئی بروز بنوانا اور بال کٹوانا حرام ہے، متفقہ فتویٰ جاری

    خواتین کا آئی بروز بنوانا اور بال کٹوانا حرام ہے، متفقہ فتویٰ جاری

    نئی دہلی: بھارت میں موجود دارالعلوم دیوبند نے خواتین کے بیوٹی پارلر جانے، بال کٹوانے اور آئی بروز بنوانے کو حرام قرار دیتے ہوئے فتویٰ جاری کردیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق شہری نے دارالعلوم دیو بند میں ایک مسئلہ پوچھا کہ اُس کی اہلیہ بیوٹی پارلر جانے، آئی بروز بنوانے اور بال کٹوانے کی خواہش رکھتی ہے اس ضمن میں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا جائے۔

    دار الافتاء کے مفتیانِ کرام نے سوال کے جواب میں فتویٰ جاری کیا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خواتین کے بیوٹی پارلر جانے اور بال کٹوانے کی بالکل اجازت نہیں ہے اور نہ ہی بھنویں بنوانا اسلامی فعل ہے۔

    دارالافتاء کے مفتی مولانا صادق قاسم نے کہا کہ قرآن اور احادیث میں کہیں یہ تعلیمات نہیں دی گئیں کہ خواتین بے پردہ ہوکر باہر نکلیں اور بیوٹی پارلر سے بناؤ سنگھار کرکے نامحرم کے سامنے آئیں۔

    انہوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے آج کافی بڑی تعداد میں نوجوان لڑکیاں بناؤ سنگھار کے چکر میں اپنے بال چھوٹے کرواتی اور آئی بروز بنواتی ہیں جو کہ بالکل غلط ہے، اسلام میں اس کی کوئی اجازت نہیں ہے۔

    مفتی صادق کا کہنا ہے کہ جس طرح خواتین پر اسلام نے پابندیاں عائد کی ہیں بالکل اسی طرح مردوں کوبھی سخت احکامات دیے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ اسلام مردوں کے داڑھی کٹوانے کی اجازت نہیں دیتا۔

    دارالعلوم سے جاری فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو نامحرم یا اجنبی شخص کو متاثر کرنے کے لیے بناؤ سنگھار کی اسلام بالکل اجازت نہیں دیتا تاہم آئی بروز وہ شوہر کو متاثر کرنے کے لیے بھی نہیں بنا سکتیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق دارلعلوم کے فتویٰ پر حنبلی، شافعی، مالکی اور حنفی مفتیانِ کے بھی دستخط موجود ہیں۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • مردوں سے دوری لمبی عمر کا راز: 109 سالہ خاتون کا دعویٰ

    مردوں سے دوری لمبی عمر کا راز: 109 سالہ خاتون کا دعویٰ

    دنیا بھر میں مختلف جان لیوا امراض کے پھیلاؤ اور قدرتی آفات کے باوجود ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اپنی عمر کی سینچری مکمل کرچکے ہوں۔ اب ایسی ہی ایک اور 109 سالہ خاتون منظر عام پر آئی ہیں اور انہوں نے اپنی طویل عمر کا راز بتا کر سب کو حیران کردیا۔

    اسکاٹ لینڈ کی 109 سالہ جیسی گیلن جیسے ہی منظر عام پر آئیں تو میڈیا ان کی لمبی عمر کا راز جاننے کے لیے ان کی طرف دوڑ پڑا، اور ان کے جواب نے سب کو حیران کردیا۔

    ان کے مطابق ان کی طویل عمر کے 2 بنیادی راز ہیں۔ ایک ہر صبح گرم دلیے کا پیالہ، اور دوسرا مردوں سے مکمل دوری۔

    جیسی کا کہنا تھا کہ مرد جس قدر اہمیت رکھتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ وہ پریشانیوں کا سبب بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ساری عمر مردوں سے دور رہیں۔

    جیسی نے 13 سال کی عمر میں اپنا گھر چھوڑ دیا تھا۔ اسکاٹ لینڈ کے ایک گاؤں کی رہائشی جیسی نے اپنی نوجوانی کا زیادہ تر حصہ گائیوں کا دودھ دوہتے ہوئے گزارا۔

    مزید پڑھیں: لمبی عمر کے لیے کون سی غذا کھانی چاہیئے؟

    وہ محنت پر یقین رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’میں اس عمر میں بھی محنت کرتی ہوں اور بہت کم چھٹیاں لینا پسند کرتی ہوں‘۔

    جیسی اب بھی باقاعدگی سے ورزش کرتی ہیں اور چرچ جا کر عبادت بھی کرتی ہیں۔

    مردوں کے بارے میں ان کے مزید خیالات ہیں، ’میں نے کبھی شادی نہیں کی، کبھی کسی مرد پر بھروسہ نہیں کیا، صرف اپنے آپ پر بھروسہ کیا اور یہی میری طویل عمر کا راز ہے‘۔

    یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل اٹلی سے تعلق رکھنے والی 116 سالہ ایما مورنو نے بھی ایک انٹرویو میں اپنی طویل العمری کا راز کچھ اسی نوعیت کا بتایا تھا۔

    ایما کے مطابق اپنی نوجوانی میں انہوں نے ایک شادی کی تھی لیکن وہ اس شادی سے خوش نہ رہ سکیں۔ جس کے بعد انہوں نے اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرلی اور اس کے بعد سے تنہا زندگی گزار رہی ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان کی طویل زندگی کی وجوہات صبح جلدی اٹھنا اور تجرد کی زندگی گزارنا بھی ہے۔

    جیسی کے آس پاس رہنے والے لوگ ان کے ہمت و حوصلے، اور اس طویل العمری میں بھی ان کی فعال زندگی پر انہیں حیران کن خاتون قرار دیتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی: پاکستان افریقی ممالک سے بھی بدتر پوزیشن پر

    پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی: پاکستان افریقی ممالک سے بھی بدتر پوزیشن پر

    جیسے جیسے زمانہ آگے کی جانب بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے پرانے ادوار کے خیالات و عقائد اور تصورات میں بھی تبدیلی آتی جارہی ہے۔

    ایک وقت تھا کہ گھروں سے باہر نکل کر کام کرنے والی خواتین کو حیرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ تاہم اب وقت بدل گیا ہے۔ اب خواتین ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔

    ایسا ہی کچھ حال سیاست کا بھی ہے۔

    اگر آپ پرانے ادوار میں چلنے والی سیاسی تحریکوں کی تصاویر دیکھیں تو ان میں خال ہی کوئی خاتون نظر آئے گی، تاہم خواتین اب سیاست میں بھی فعال کردار ادا کر رہی ہیں اور فی الحال دنیا کے کئی ممالک کی سربراہی خاتون صدر یا وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہی ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا پر حکمرانی کی دوڑ میں خواتین مردوں سے آگے

    سیاست میں خواتین کے اسی کردار کی جانچ کے لیے عالمی اقتصادی فورم نے ایک فہرست مرتب کی جس میں جائزہ لیا گیا ہے کہ کس ملک کی پارلیمنٹ میں خواتین کی کتنی تعداد موجود ہے۔

    فہرست میں حیرت انگیز طور پر امریکا، برطانیہ یا کسی دوسرے یورپی ملک کے مقابلے میں افریقی ممالک کے ایوانوں میں خواتین نمائندگان کی زیادہ تعداد دیکھنے میں آئی۔

    اس فہرست میں افریقی ملک روانڈا سرفہرست رہا جس کی پارلیمنٹ میں خواتین ارکان اسمبلی کی شرح 63.8 فیصد ہے۔

    بدقسمتی سے عالمی اقتصادی فورم کی مذکورہ فہرست میں صف اول کے 10 ممالک میں کوئی ایشیائی ملک شامل نہیں۔

    اس بارے میں دنیا بھر کی پارلیمان اور ایوانوں کا ریکارڈ مرتب کرنے والے ادارے انٹر پارلیمنٹری یونین کی ویب سائٹ کا جائزہ لیا گیا تو پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد کے حوالے سے موجود فہرست میں پاکستان 89 ویں نمبر پر نظر آیا۔

    مذکورہ فہرست کے مطابق پاکستانی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی صرف 20.6 فیصد ہے۔ یعنی 342 نشستوں پر مشتمل پارلیمان میں صرف 70 خواتین موجود ہیں جو ملک بھر کی 10 کروڑ 13 لاکھ سے زائد (مردم شماری کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق) خواتین کی نمائندگی کر رہی ہیں۔

    اس معاملے میں افغانستان جیسا قدامت پسند ملک بھی ہم سے آگے ہے جو 27.7 فیصد خواتین اراکین پارلیمان کے ساتھ 53 ویں نمبر پر موجود ہے۔

    افغان پارلیمان

    فہرست میں پڑوسی ملک بھارت 147 ویں نمبر پر موجود ہے جس کی 542 نشستوں پر مشتمل لوک سبھا میں صرف 64 خواتین موجود ہیں۔

    صنفی ماہرین کا کہنا ہے کہ پالیسی سازی کے عمل اور قومی اداروں میں خواتین کی شمولیت اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ ملک کی ان خواتین کی نمائندگی کرسکیں جو کمزور اور بے سہارا ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہیلری کلنٹن کی شکست کی وجہ خواتین سے نفرت؟

    کسی ملک میں خواتین کو کیا مسائل درپیش ہیں، اور ان سے کیسے نمٹنا ہے، یہ ایک ایسی خاتون سے بہتر کون جانتا ہوگا جو نہ صرف اپنی انتخابی مہم کے دوران ان خواتین سے جا کر ملی ہو اور ان کے مسائل سنے ہوں، بلکہ خود بھی اسی معاشرے کی پروردہ اور انہی مسائل کا شکار ہو۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • تیونس میں خواتین پر تشدد کے خلاف تاریخی قانون منظور

    تیونس میں خواتین پر تشدد کے خلاف تاریخی قانون منظور

    شمالی افریقی ملک تیونس میں خواتین پر تشدد کے خلاف تاریخی قانون منظور کرلیا گیا جس کی مہم ایک عرصے سے چلائی جارہی تھی۔

    تیونس کی 217 رکنی پارلیمنٹ میں اس قانون کی حمایت میں 146 ووٹ ڈالے گئے جس کے بعد اس قانون کو منظور کرلیا گیا۔

    قانون کی منظوری کے بعد وزیر برائے صنفی امور نزیہہ لبادی کا کہنا تھا کہ ایک تیونسی خاتون ہونے کی حیثیت سے مجھے فخر ہے کہ اس قانون کو منظور کرلیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: گھریلو تشدد پر بنایا گیا متاثر کن اشتہار

    مذکورہ قانون میں خواتین پر تشدد کی جدید اور وسیع تر تعریف کو استعمال کیا گیا ہے۔ قانون کے تحت خواتین کے خلاف معاشی، جنسی، سیاسی اور نفسیاتی تشدد کو بھی صنفی تشدد کی قسم قرار دے کر قابل گرفت عمل قرار دیا گیا ہے۔

    اس قانون کے تحت تشدد کا شکار خواتین کو قانونی، سماجی اور نفسیاتی معاونت بھی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرسکیں۔

    نئے قانون کی منظوری کے بعد اس سے قبل رائج کثرت ازدواج کا قانون بھی کالعدم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کا رجحان فروغ پارہا تھا۔

    مزید پڑھیں: افریقی ممالک میں کم عمری کی شادی غیر قانونی قرار

    حالیہ قانون میں شادی کے لیے دونوں فریقین کی رضامندی اور طلاق کے لیے باقاعدہ قانونی طریقہ کار اپنانا ضروری قرار دے دیا گیا ہے۔

    تیونس میں مذکورہ قانون کی منظوری کے لیے سول سوسائٹی و دیگر اداروں کی جانب سے ایک عرصے سے مہم چلائی جارہی تھی۔ قانون سازی کے لیے تیونسی پارلیمنٹ نے عالمی اداروں اور اقوام متحدہ سے بھی مدد لی جس کے بعد مذکورہ قانون کی منظوری عمل میں لائی گئی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • افغانستان میں پتلی تماشوں کے ذریعے خواتین کی تعلیم کے فروغ کی کوشش

    افغانستان میں پتلی تماشوں کے ذریعے خواتین کی تعلیم کے فروغ کی کوشش

    آپ کو سیسم اسٹریٹ نامی امریکی ٹی وی شو تو ضرور یاد ہوگا جس میں پیش کیے جانے والے مختلف پتلے مختلف کرداروں کی صورت میں مزے مزے کی باتیں کرتے تھے۔

    اب ایسا ہی ایک ٹی وی شو افغانستان میں بھی پیش کیا جارہا ہے جس کے ذریعے ملک میں خواتین کی تعلیم اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    افغان سیسم اسٹریٹ میں نارنجی رنگ کا زیرک نامی پتلا اپنی بڑی بہن کا بے حد خیال رکھتا ہے جو تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

    گزشتہ سال سے شروع کیے جانے والے اس شو کو نہ صرف افغانستان بلکہ دنیا بھر میں بے حد مقبولیت مل رہی ہے۔

    شو میں ایک چھوٹی بچی زری کو مرکزی کردار بنایا گیا ہے جو تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ اب اس میں اس کے چھوٹے بھائی 4 سال کے زیرک کو بھی شامل کیا گیا ہے اپنی بڑی بہن سے بے حد متاثر ہے اور اس کی طرح تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔

    دونوں کردار افغانستان کے روایتی پہناووں میں ملبوس ہیں۔

    افغانستان کے ٹولو ٹی وی، جہاں سے یہ پروگرام نشر کیا جاتا ہے، کے سربراہ مسعود سنجر کا کہنا ہے کہ یہ پتلے چھوٹے بچوں کی ذہن سازی کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے کہ وہ اپنی بہنوں سے محبت کریں اور تعلیم حاصل کرنے کو برا نہ سمجھیں۔

    ان کی ٹیم نے پروگرام سے متعلق ایک سروے کیا جس سے پتہ چلا کہ وہ بچے اور والدین جن کے پاس ٹی وی کی سہولت موجود ہے، ان کی 80 فیصد تعداد اس پروگرام کو نہایت شوق سے دیکھتی ہے۔

    سنجر کے مطابق یہ پتلے بچوں کو اس بات کا شعور دیں گے کہ وہ عام افغان روایات کے برعکس خواتین اور ان کی تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں۔

    سماجی رویوں میں تبدیلی

    اس ٹی وی شو کے مرکزی خیال میں اہم مقصد کے ساتھ ساتھ اس کی باریکیوں میں بھی اصلاح کا پہلو رکھا گیا ہے۔

    پروگرام کا مرکزی کردار زیرک جو ایک چھوٹا سا بچہ ہے، چشمے کا استعمال کرتا ہے۔ شو کی پروڈیوسر وجیہہ سیدی کے مطابق اس کی بھی ایک وجہ ہے۔ افغان معاشرے میں چھوٹے بچوں کا چشمہ پہننا ایک شرمندگی کی بات سمجھی جاتی ہے۔

    وجیہہ کے مطابق اس شو کے ذریعے وہ اس رویے کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور بتانا چاہتی ہیں کہ چشمہ پہننا ایک عام بات ہے۔

    افغان معاشرے میں تبدیلی لانے کا عزم لیے یہ شو صرف ٹی وی پر ہی نہیں بلکہ ریڈیو پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔

    علاوہ ازیں شو کی ٹیم نے ایک موبائل تھیٹر بھی تشکیل دیا ہے جو افغانستان کے دور دراز دیہاتوں میں جا کر وہاں کے بچوں کو یہ پتلی تماشہ دکھاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نابینا خواتین پر مشتمل آرکسٹرا

    نابینا خواتین پر مشتمل آرکسٹرا

    زندگی میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ اور ہمت موجود ہو تو ناممکن کام کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ مصر کی نابینا خواتین پر مشتمل آرکسٹرا نے اس کی عملی مثال پیش کردی۔

    مختلف آلات موسیقی کو سرور آمیز دھنوں پر بجانا کوئی آسان کام نہیں، اور اس کے لیے شوق، محنت اور طویل ریاضت درکار ہوتی ہے۔ یہ سوچنا محال ہے کہ ان آلات کو بغیر دیکھے اس طرح بجایا جائے کہ سننے والے سحر زدہ رہ جائیں۔

    لیکن مصر کی نابینا خواتین نے یہ ناممکن کام بھی کر دکھایا۔

    مصر کا النور والعمل (روشنی اور امید) نامی یہ آرکسٹرا 44 نابینا خواتین پر مشتمل ہے۔ یہ تمام خواتین فن و موسیقی کی نہایت دلدادہ ہیں تبھی اپنی معذوری کو پچھاڑ کر اپنے شوق کی تکمیل کر رہی ہیں۔

    نابینا خواتین پر مشتمل یہ آرکسٹرا ہر طرح کی دھنیں بجانے پر مہارت رکھتا ہے۔

    مزید پڑھیں: خواتین سازندوں پر مشتمل افغان آرکسٹرا کی پرفارمنس

    یہ موسیقار خواتین بریل سسٹم پر میوزک نوٹس پڑھ کر انہیں یاد کرتی ہیں، پھر انتہائی مہارت اور خوبصورتی سے آلات موسیقی پر اپنی انگلیوں کا ایسا جادو بکھیرتی ہیں کہ سننے اور دیکھنے والے مبہوت رہ جاتے ہیں۔

    آرکسٹرا میں شامل 5 خواتین جزوی طور پر نابینا ہیں اور صرف سایوں کو دیکھ سکتی ہیں۔ بقیہ تمام موسیقار خواتین دیکھنے سے بالکل محروم ہیں۔

    دنیا کا منفرد ترین یہ آرکسٹرا اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں سفر کر کے اپنے فن کا مظاہرہ کرچکا ہے جہاں ان کے ہمت و حوصلے کی بے تحاشہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

    اس آرکسٹرا کو مصر کا معجزہ بھی کہا جاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خیبر پختونخواہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتون ایس ایچ او تعینات

    خیبر پختونخواہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتون ایس ایچ او تعینات

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتون سب انسپکٹر رضوانہ حمید کو پشاور سرکل میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) تعینات کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور پولیس نے سب انسپکٹر رضوانہ حمید کو پولیس اسٹیشن گلبرگ کی ایس ایچ او تعینات کردیا۔ رضوانہ حمید گزشتہ 3 برسوں سے ویمن پولیس اسٹیشن میں تعینات ہیں۔

    رضوانہ حمید کا کہنا ہے کہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹنا ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اضافی عہدے کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور یہ ذمہ داریاں نئی نہیں ہیں۔

    مزید پڑھیں: بم ڈسپوزل یونٹ کی پہلی خاتون اہلکار

    خیال رہے کہ سب انسپکٹر رضوانہ حمید نے سنہ 1996 میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس میں شمولیت اختیار کی تھیں اور وہ اس دوران محکمہ پولیس میں مختلف عہدوں پر فائز رہیں۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل سنہ 2014 میں ایڈیشنل آئی جی سندھ کے احکامات پر غزالہ سید کو بطور ایس ایچ او کلفٹن تھانہ تعینات کیا گیا تھا جو کراچی کی تاریخ کی پہلی خاتون ایس ایچ او تھیں۔

    مزید پڑھیں: لاہور میں 19 سال بعد خاتون ایس ایچ اوتعینات

    دو ماہ قبل لاہور میں بھی 17 سال بعد خاتون پولیس فسر غزالہ شریف کو ایس ایچ او تعینات کیا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • انٹرویو میں مردوں کی نسبت خواتین امیدواروں سے زیادہ کڑے سوالات

    انٹرویو میں مردوں کی نسبت خواتین امیدواروں سے زیادہ کڑے سوالات

    ملازمت کے لیے انٹرویو دینے جانا مرد و خواتین سب کے لیے ایک پریشان کن مرحلہ ہوتا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرویو میں خواتین امیدواروں کو مردوں سے زیادہ کڑے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    جرنل آف سوشل سائنسز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جب خواتین ملازمت کے لیے انٹریو دینے جاتی ہیں تو دوران انٹرویو انہیں مردوں کی نسبت بار بار ٹوکا جاتا ہے جبکہ ان سے سوالات بھی اس طرح پوچھے جاتے ہیں جیسے ان سے جرح کی جا رہی ہو۔

    تحقیق کے مطابق یہ رویہ اس وقت زیادہ ہوسکتا ہے جب انٹرویو لینے والا پینل مردوں پر مشتمل ہو۔

    مزید پڑھیں: ملازمت کے لیے دیے جانے والے انٹرویو غیر ضروری؟

    ماہرین عمرانیات کی جانب سے کی گئی اس تحقیق میں کہا گیا کہ اگر کسی بڑے ادارے میں کسی اعلیٰ عہدے کے لیے، لیے جانے والے انٹرویو میں کسی خاتون کو ان کی متاثر کن سی وی اور عملی میدان میں کامیابیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شارٹ لسٹ بھی کیا جاتا ہے تب بھی انہی اپنے سے کم صلاحیت کے مرد امیدواروں سے سخت مقابلہ درپیش ہوتا ہے۔

    امریکا کی 2 اہم یونیورسٹیوں میں کی جانے والی اس تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ انٹرویو کے دوران خواتین امیدواروں کے جوابات سے مطمئن نہ ہوتے ہوئے انہیں بار بار اپنی صلاحیت اور ذہانت ثابت کرنے کے لیے کہا گیا جس سے وہ انٹرویو کے دوران کنفیوژن کا شکار ہوگئیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرویو کے دوران روا رکھے جانے والا یہی رویہ اس وقت زیادہ تر شعبوں میں مردوں کی اجارہ داری کی وجہ ہے۔

    مزید پڑھیں: پیشہ ورانہ زندگی میں اپنائے جانے والے آداب

    ان کے مطابق یہ صورتحال صرف انٹرویو کے دوران ہی نظر نہیں آتی۔ عام زندگی میں بھی جب مرد کسی دفتری معاملے پر کسی خاتون سے گفتگو کررہے ہوں تو وہ مردوں سے گفتگو کے مقابلے میں خواتین کی بات زیادہ کاٹتے ہیں اور درمیان میں بول اٹھتے ہیں۔

    علاوہ ازیں مرد خود آپس میں ایک دوسرے کی بات اسی وقت کاٹتے ہیں جب وہ ایک دوسرے کی کہی گئی باتوں کی تصدیق کرنا چاہ رہے ہوں۔

    تحقیق میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ تعلیمی میدان میں مردوں سے بہتر کارکردگی دکھانے کے باوجود خواتین عملی میدان میں مردوں سے پیچھے نظر آتی ہیں جس کی وجہ ان کے لیے مواقعوں میں کمی اور ساتھی مردوں کی جانب سے صنفی امتیاز کا برتا جانا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • شامی فوج میں پہلی خاتون بریگیڈیئر جنرل کا تقرر

    شامی فوج میں پہلی خاتون بریگیڈیئر جنرل کا تقرر

    دمشق: شامی فوج میں پہلی بار بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر ایک خاتون کو تعینات کردیا گیا۔ وہ پہلی خاتون ہیں جو فوج کے اس اعلیٰ عہدے تک پہنچی ہیں۔

    نبل مدحت بدر نامی یہ فوجی افسر شام کے شہر تارتوس سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس سے قبل شامی فوج میں خواتین کی شمولیت اور مختلف عہدوں پر ان کی ترقی کوئی نئی بات نہیں تاہم اس عہدے تک پہنچنے والی مدحت پہلی خاتون ہیں۔

    شام کی فوج میں اس وقت کئی خواتین ہیں جو ملک میں جاری جنگ میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں اور داعش کے خلاف برسر پیکار ہیں۔

    صرف ایک شام ہی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں داعش کے عفریت سے لڑنے کے لیے صرف مرد ہی نہیں بلکہ بچے اور خواتین بھی میدان میں آچکے ہیں۔

    مزید پڑھیں: داعش کے خلاف برسر پیکار برقع پوش افغان خواتین

    ان میں سے کچھ خواتین نے باقاعدہ فوج میں شمولیت اختیار کی ہے جبکہ زیادہ تر گھریلو عام خواتین ہیں جو تربیت حاصل کرنے کے بعد اب اپنے علاقے اور اہل خانہ کی حفاظت پر کمر بستہ ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔