Tag: خواتین

  • جرمنی میں خواتین کےنقاب پہننے پرپابندی

    جرمنی میں خواتین کےنقاب پہننے پرپابندی

    برلن: جرمنی میں سرکاری ملازم خواتین پردوران ملازمت نقاب پہننے پرپابندی کا قانون منظور کرلیاگیا۔

    تفصیلات کےمطابق جرمنی کےایوان زیریں میں منظور کیے گئےبل کے تحت سرکاری ملازم خواتین پر ملازمت کےدوران چہرے پرمکمل نقاب پہننے پرپابندی ہوگی۔

    جرمن وزیرداخلہ تھوماس دی مےئیزیر کا کہناہے کہ اس اقدام سے یہ واصخ ہو جائے گا کہ جرمنی میں دیگر ثقافتوں کے لیےرواداری کس حد تک جائے گی۔

    جرمنی کے حکمران اتحاد کے ایک بیان کے مطابق مذہبی یا نظریاتی بنیادوں پر چہرے کا مکمل پردہ کرنا دراصل سرکاری عہدیداروں کے غیرجانبدارانہ حلیے کے خلاف ہے۔

    اس قانون میں سیکورٹی چیک کی خاطر پردہ کرنے والی مسلم خواتین کو متعلقہ حکام کو اپنا چہرہ بھی دکھانا ہو گا۔

    خیال رہے کہ حال ہی میں جرمنی کے ایک ٹاک شو کےدوران نقاب پوش خاتون کو مدعو کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔

    دوسری جانب جرمنی اور ہمسایہ ملک فرانس میں دائیں بازو کی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ عوامی مقامات پر نقاب پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔

    یاد رہے کہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نےگزشتہ سال دسمبر میں کہا تھا کہ جہاں قانونی طور پر ممکن ہو سکے وہاں پر چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی لگا دی جائے۔


    سوئٹزرلینڈ میں عوامی مقامات پر مسلمان خواتین کے نقاب کرنے پر پابندی


    واضح رہےکہ فرانس،آسٹریا،بیلجیئم،ڈنمارک،روس،اسپین،سوئٹزرلینڈ اور ترکی میں پہلے ہی چند خصوصی مقامات پر نقاب پہننے پر پابندی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

  • ابوظہبی: تبدیلی جنس کے لیے دو خواتین عدالت پہنچ گئیں

    ابوظہبی: تبدیلی جنس کے لیے دو خواتین عدالت پہنچ گئیں

    ابو ظہبی : متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی دو لڑکیاں تبدیلی جنس کے لیے آپریشن کرانے کی اجازت حاصل کرنے عدالت پہنچ گئیں۔

    خلیج ٹائمزکے مطابق 22 اور 23 سالہ دو لڑکیوں نے اپنی جنس تبدیل کرانے کے لیے ابو ظہبی کی وفاقی عدالت سے رجوع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ طبی معائنے اور تمام میڈیکل ٹیسٹ تجویز کرتے ہیں کہ تبدیلی جنس کا آپریشن کروانا ناگزیر ہوگیا ہے۔

    دونوں لڑکیوں نے وفاقی عدالت میں معروف قانون دان علی المنصوری کے توسط سے درخواست دائر کی ہے جس میں تبدیلی جنس کے آپریشن کی اجازت دینے کی استدعا کی گئی ہے اور سرکاری دستاویزات میں ناموں کی تبدیلی کی بھی اپیل کی گئی ہے۔

    مردوں جیسی آواز، چال اور جسمانی ساخت کے باعث آپریشن ضروری ہے

    لڑکیوں کے وکیل المنصوری کا کہنا ہے کہ مردوں جیسی آواز، چال اور جسمانی ساخت کے باعث یہ دونوں لڑکیاں یورپ جا کر اپنا آپریشن کروانا چاہتی ہیں جس کے لیے میڈیکل بورڈ کے معائنے سمیت تمام ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں جن کی روشنی میں یہ آپریشن کیا جائے گا۔

    میڈیکل بورڈ آپریشن تجویز کرچکا، وکیل

    وکیل علی المنصوری نے مزید کہا کہ میری موکلان کو جنس کی تبدیلی کا آپریشن ماہر ڈاکٹرز کے بورڈ نے ہارمونز کی غیر تناسب ہونے کی وجہ سے تجویز کیا ہے جو کہ ان لڑکیوں میں مثبت نفسیاتی تبدیلیوں کا باعث بھی بنے گا۔

    کم عمری سے ہی محسوس ہوتا تھا کہ ہم لڑکیاں نہیں مرد ہیں

    لڑکیوں نے موقف اختیار کیا کہ کم عمری سے ہی ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ ہم لڑکیاں نہیں بلکہ مرد ہیں اور ایسا لگتا تھا جیسے لڑکی کے جسم میں لڑکے کی روح آ گئی ہو جس کے باعث اب تک کی عمر بے چینی ، گھبراہٹ اور پریشانی میں گزری ہے اور جیسے جیسے بلوغت قریب آتی گئی ویسے ویسے یہ احساس گہرا ہوتا گیا اس لیے یہ مشکل قدم اٹھایا ہے۔

    لڑکیوں کا کہنا تھا کہ ہماری خواہش ہے کہ تبدیلی جنس کے آپریشن کے بعد ہمیں ملنے والی زندگی میں نئی شناخت بھی ملے اور ماضی کا ہر لمحہ و تعارف قصہ پارینہ بن جائے اس لیے عدالت سے آپریشن کی اجازت کے ساتھ ساتھ ناموں کی تبدیلی کی بھی اجازت مانگی ہے تا کہ ہمارے تعلیمی اور دیگر سرکاری دستاویزات میں ہمیں نئے نام سے جانا جائے۔

  • ہیلری کلنٹن کی شکست کی وجہ خواتین سے نفرت؟

    ہیلری کلنٹن کی شکست کی وجہ خواتین سے نفرت؟

    نیویارک: سابق امریکی سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن کا کہنا ہے گزشتہ برس ان کی انتخابی مہم کو ناکام بنانے میں اس رویے کا بہت بڑا ہاتھ تھا جس میں خواتین کو نفرت اور تعصب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

    سنہ 2016 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد پہلی بار دیے جانے والے انٹرویو میں ہیلری کلنٹن نے اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکی ابھی تک ایک خاتون کو بطور صدر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

    انہوں نے کہا، ’پہلی خاتون صدر کا تصور بہت سے افراد کے لیے ایک پرجوش اور خوش کن تصور ہوگا، لیکن زیادہ تر افراد اس سے خوفزدہ تھے‘۔

    hilary-2

    نیویارک میں جاری وومین ان دا ورلڈ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’امریکی صدارتی انتخاب میں خواتین سے نفرت کے رویے نے اہم کردار ادا کیا، اور ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا‘۔

    ہیلری کا کہنا تھا کہ وہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کس طرح ایسی پالیسیاں بنا رہی ہے جو ہزاروں لوگوں پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ یہ پالیسیاں خصوصاً دنیا بھر کی خواتین کے حقوق کے لیے خطرہ ہیں۔

    انہوں نے کہا، ’خواتین کو تعصب اور نفرت کا نشانہ بنانے کا رجحان جو آج کل جاری ہے، اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کسی کے سیاسی ایجنڈے میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتا۔ یہ صرف ذاتی عمل ہے۔ ہم جتنا خواتین کی حمایت کریں گے اتنا ہی جمہوریت مضبوط ہوگی‘۔

    مزید پڑھیں: وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق

    سابق خاتون اول کا کہنا تھا کہ ان کا مزید کسی انتخاب لینے کا کوئی ارادہ نہیں تاہم وہ ایک کتاب لکھنے جارہی ہیں جس میں وہ ان محرکات پر روشنی ڈالیں گی جن کے باعث وہ امریکا کی پہلی خاتون صدر بننے سے رہ گئیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’یہ کتاب ان 6 کروڑ سے زائد افراد کے لیے لکھی جارہی ہے جنہوں نے مجھے ووٹ دیا‘۔

    ہیلری کلنٹن امریکی خاتون اول رہنے کے ساتھ اوباما انتظامیہ میں سیکریٹری خارجہ بھی رہ چکی ہیں۔ وہ اس سے قبل بھی بارک اوباما کے مدمقابل بطور صدارتی امیدوار کھڑے ہونے کا ارادہ رکھتی تھیں تاہم اس وقت ڈیمو کریٹک پارٹی نے اوباما کو اپنا امیدوار منتخب کیا۔

    مزید پڑھیں: امریکا کی فیشن ایبل خواتین اول

    گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں ہیلری کلنٹن ایک بار پھر ٹرمپ سے شکست کھا گئیں اور ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 45 ویں صدر منتخب ہوگئے۔

  • بغداد کی سڑکوں پر سائیکل چلاتی لڑکیاں

    بغداد کی سڑکوں پر سائیکل چلاتی لڑکیاں

    بغداد: جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس، کھلے بالوں کو ہوا میں لہراتی اس لڑکی کا نام مرینہ جابر ہے، مگر بغداد کے لوگ اسے سائیکل سوار لڑکی کے نام سے جانتے ہیں۔

    ایک آرٹ پروجیکٹ کے تحت مرینہ کا سڑکوں پر سائیکل سواری کرنا پہلے سوشل میڈیا پر موضوع بحث اور تنقید و تضحیک کا نشانہ بنا، بعد ازاں یہ ایک سماجی تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔

    iraq-3

    اب بغداد میں ہر صبح بے شمار لڑکیاں سائیکلوں کے ساتھ جمع ہوتی ہیں، اور سائیکل پر پورے شہر میں گشت کرتی ہیں۔

    لڑکیوں کا سائیکل چلانا معیوب

    عراق کے کسی حد تک قدامت پسند معاشرے میں دارالحکومت بغداد میں بھی لڑکیوں کا سائیکل چلانا معیوب خیال کیا جاتا ہے۔ سائیکل پر سفر کرنے والی خواتین آس پاس کے تمام افراد کی مرکز نگاہ بن جاتی ہیں جو انہیں کسی عجوبے کی طرح دیکھتے ہیں۔

    مرینہ کہتی ہے، ’یہ صرف ایک سائیکل ہے، اور کچھ نہیں۔ اسے ہوا بنانے کے بجائے عام چیزوں کی طرح دیکھنا چاہیئے‘۔

    iraq-2

    وہ اپنے ہم وطنوں سے پوچھتی ہے، ’کیا معاشرے نے کچھ مخصوص کاموں کو کرنے کا حق ہم (خواتین) سے چھین لیا ہے؟ یا انہوں نے اسے اس لیے رد کردیا ہے کیونکہ ہم نے ایک طویل عرصے سے انہیں کرنا چھوڑ دیا ہے‘؟

    مرینہ بتاتی ہے کہ کئی عشروں قبل ان کی دادی اور والدہ نے ان سڑکوں پر سائیکل چلائی ہے۔ ’جب اس وقت اسے معیوب خیال نہیں کیا گیا، پھر اب کیوں‘؟

    خواتین کی خود مختاری کا استعارہ

    جلد مرینہ ملک بھر میں خواتین کے لیے ایک مثال بن گئیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہیں ملک بھر سے لاتعداد پیغامات موصول ہوئے جو زیادہ تر لڑکیوں اور خواتین کے تھے۔ یہ خواتین اپنی مرضی سے اپنی زندگی جینا چاہتی تھیں مگر معاشرے کے خود ساختہ مروجہ اصولوں کو توڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتی تھیں۔

    مرینہ کی سرخ سائیکل اب ایک استعارہ بن چکی ہے جسے آرٹ کی متعدد نمائشوں میں بھی رکھا جا چکا ہے۔

    وہ کہتی ہے، ’عراق میں سائیکل چلانا کوئی جرم نہیں ہے۔ دراصل ہم جنگ کی وجہ سے بہت سی چیزوں کو بھول گئے ہیں۔ ہمیں اگر کچھ یاد ہے تو صرف موت‘۔

    داعش کے خلاف کھلی للکار

    دارالحکومت بغداد سے 400 کلومیٹر دور داعش کے زیر قبضہ علاقہ موصل میں مرینہ کی ہم آواز جمانا ممتاز تھیں جو پیشے کے لحاظ سے ایک صحافی ہیں۔

    انہوں نے مرینہ کے اقدام کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اپنی سائیکل چلاتی ہوئی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی۔

    iraq-4

    جمانا کے شہر موصل کے ایک تہائی سے زائد علاقے پر شدت پسند تنظیم داعش کا قبض ہے۔ بقول ان کے انہوں نے موصل میں سائیکل چلا کر داعش کے شدت پسند نظریات اور خیالات کو اعلانیہ للکارا ہے اور یہ ان کی شدت پسندی کے خلاف اعلان جنگ ہے۔

    وہ کہتی ہیں، ’صرف داعش ہی نہیں عراق کے بے شمار عام افراد بھی سمجھتے ہیں کہ خواتین کو اپنی مرضی کا کوئی قدم اٹھانے کا حق نہیں ہے‘۔

    مزید پڑھیں: اسلام آباد سے خنجراب تک کا سفر سائیکل پر

    وہ کہتی ہیں کہ انہیں اور مرینہ کو بے شمار ایسے الفاظ سننے پڑتے ہیں جن میں ناگواری، ناپسندیدگی اور ان کے لیے نفرت کا اظہار ہوتا ہے۔

    لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو انہیں سائیکل چلاتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ معمر افراد بھی ہیں جو انہیں دیکھ کر کہتے ہیں، ’آہ! یہ وہ بغداد ہے جسے ہم کبھی دیکھتے تھے‘۔

    iraq-5

    مرینہ کا کہنا ہے کہ کئی افراد نے انہیں پیشکش کی کہ وہ ان کے ساتھ شامل لڑکیوں کو سائیکلیں فراہم کرنا چاہتے ہیں۔

    جمانا اور مرینہ کا عزم ہے، ’ہم چاہتے ہیں کہ لڑکیاں اب خوفزدہ نہ ہوں۔ ہم مل اس حقیقت کو تبدیل کردیں گے جہاں صرف جنگ، موت اور تعصب ہے‘۔

  • موصل میں اتحادی طیاروں کی بمباری‘ 230افراد ہلاک

    موصل میں اتحادی طیاروں کی بمباری‘ 230افراد ہلاک

    موصل : عراق کےشہر موصل میں اتحادی طیاروں کی بمباری نتیجے میں 230افراد ہلاک جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کےمطابق موصل کے مغربی علاقے الجدیدہ میں ایک بلڈنگ پر اتحادی طیاروں کی جانب سے بمباری کی گئی جس میں 130افراد جان کی بازی ہارگئے جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے۔

    4

    اتحادی طیاروں کی جانب سےموصل کےمغربی حصے میں دو گھروں پر شدید بم باری کی گئی۔ جس کے نتیجے میں تقریبا 100 افراد ہلاک ہوگئےجن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔

    عرب ٹی وی کے مطابق امدادی ٹیمیں ملبے کے نیچے سے لاشوں کو نکالنے کی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔اتحادی طیاروں کی جانب سےمغربی موصل میں فضائی بمباری داعش کے ساتھ لڑائی کےنتیجے میں کی گئی ہے۔

    3


    مزید پڑھیں:عراقی فورسز نے موصل یونیورسٹی کا کنٹرول سنبھال لیا


    خیال رہےکہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مغربی موصل میں چار لاکھ افراد محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

    2


    مزید پڑھیں:موصل آپریشن : اجتماعی قبرسے40افراد کی لاشیں برآمد


    یاد رہےکہ عراقی فوج نےگزشتہ ماہ 19 فروری کومغربی موصل کو آزاد کرانے کے لیےآپریشن کا آغاز کیاتھاجس میں اسے امریکہ کے زیر قیادت بین الاقوامی اتحاد کی مدد حاصل ہے۔

    واضح رہےکہ عراقی فوج نے گزشتہ سال اکتوبر میں داعش کے خلاف موصل میں فیصلہ کن آپریشن کا اعلان کیاتھا۔

    1

  • خواتین کے بغیر، خواتین کے لیے بنائی جانے والی کونسل

    خواتین کے بغیر، خواتین کے لیے بنائی جانے والی کونسل

    ریاض: جب ہم کسی مخصوص طبقے یا جنس کی بہتری اور فلاح و بہبود کی بات کرتے ہیں، تو ضروری ہوتا ہے کہ اس طبقے یا جنس کے نمائندہ افراد کو ہر قدم پر ساتھ رکھا جائے تاکہ ان کے حالات سے درست واقفیت حاصل ہوسکے۔

    تاہم سعودی عرب میں جب لڑکیوں کے لیے ایک کونسل بنائی گئی تو اس میں لڑکیوں ہی کی شمولیت کو قطعی غیر ضروری سمجھا گیا اور مردوں نے خود ہی کونسل کے قیام اور اس کے اغراض و مقاصد طے کر ڈالے۔

    یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب سعودی عرب کے صوبے القاسم میں لڑکیوں کی کونسل کی پہلی میٹنگ منعقد کی گئی۔ میٹنگ کی جاری کی جانے والی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اسٹیج پر 13 مرد حضرات براجمان ہیں اور بظاہر مقررین یا ناظرین میں کوئی بھی خاتون یا لڑکی موجود نہیں۔

    saudi-arab-2

    ایک سعودی اخبار کا کہنا ہے کہ خواتین ایک دوسرے کمرے میں موجود تھیں جو ہال میں ہونے والی کارروائی سے بذریعہ ویڈیو لنک منسلک تھیں۔

    تصاویر کے سوشل میڈیا پر آنے کی دیر تھی کہ سعودی ریاست اور حکمرانوں کے خلاف تنقید کا طوفان امڈ آیا۔

    قاسم گرلز نامی یہ کونسل صوبے کے گورنر شہزادہ فیصل بن مشعال بن سعود نے قائم کی ہے اور اس کے قیام کے وقت ان کا کہنا تھا، ’القاسم صوبے میں ہم خواتین کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور ہم ان کے کام کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں‘۔

    کونسل کی سربراہ شہزادے کی اہلیہ عبیر بنت سلیمان ہیں اور وہ بھی تصاویر میں موجود نہیں۔

    یاد رہے کہ سعودی عرب میں سرپرستی نظام نافذ ہے جس کے تحت خواتین اپنے گھر کے مردوں کے بغیر نہ تو سفر کر سکتی ہیں، نہ ہی ان کی اجازت کے بغیر شادی کر سکتی ہیں اور نہ انہیں ان کی اجازت کے بغیر کام کرنے کی اجازت ہے۔

    بعض اوقات وہ سخت بیماری کی حالت میں بھی صرف اس لیے بھی طبی سہولیات حاصل کرنے سے محروم ہوجاتی ہیں کیونکہ انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لیے کوئی مرد دستیاب نہیں ہوتا۔

    سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں خواتین کے گاڑی چلانے پر بھی پابندی عائد ہے۔

    مزید پڑھیں: میں اپنی سرپرست خود ہوں، سعودی خواتین کا احتجاج

    میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے گورنر کا کہنا تھا کہ خواتین ہمارے معاشرے کا نصف حصہ ہیں، تاہم ان کی ہدایت پر جاری کی گئی تصاویر اس کی نفی کرتی نظر آتی ہیں۔

    البتہ اب ماہرین کا کہنا ہے کہ اقتصادی گراوٹ اور معاشی بحران کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب کو اپنے بہت سے سخت قوانین کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ سعودی عرب کی ترقی کے لیے تشکیل دیا جانے والا ایجنڈا وژن 2030 کے تحت ملک میں کام کرنے والی خواتین کا حصہ 22 فیصد سے بڑھا کر 30 فیصد کیا جانا ضروری ہے۔

    کچھ عرصہ قبل سعودی عرب میں دو اہم کاروباری فیصلہ ساز عہدوں پر بھی خواتین کا تقرر کیا گیا ہے جس کے بعد سے امید کی جارہی ہے کہ ملک میں خواتین کے لیے حالات میں کچھ بہتری آئے گی۔

    اس سے قبل شاہی خاندان کے بے باک رکن اور ریاست میں خواتین کے حقوق اور خود مختاری کے حامی شہزادہ ولید بن طلال نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو ڈرائیونگ سے محروم کرنا ایسا ہی ہے جیسے انہیں ان کے بنیادی حق سے محروم کردیا جائے۔

  • شادی خواتین سے زیادہ مردوں کے لیے فائدہ مند

    شادی خواتین سے زیادہ مردوں کے لیے فائدہ مند

    یوں تو تنہا زندگی گزارنے کی نسبت ازدواجی رشتے میں بندھنا بہت سے طبی مسائل اور ذہنی و نفسیاتی پیچیدگیوں سے چھٹکارہ دلا سکتا ہے، تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ شادی خواتین کی نسبت مردوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔

    یونیورسٹی کالج لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق غیر شادی شدہ مرد، غیر شادی شدہ خواتین کی نسبت زیادہ طبی مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    couple-2

    اس تحقیق کے لیے انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور ویلز کے 10 ہزار سے زائد افراد کا تجزیہ کیا گیا۔ ماہرین نے دیکھا کہ غیر شادی شدہ یا طلاق یافتہ مرد دل کے امراض کا زیادہ شکار بنے۔ اس کی نسبت سنگل خواتین میں یہ شرح بہت کم دیکھی گئی۔

    ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ دونوں کے رویوں اور مزاج کا فرق ہے۔

    خواتین عموماً دوست بناتی ہیں اور ان سے گفت وشنید کرتی رہتی ہیں۔ وہ اپنی زندگی میں موجود تمام مسائل اور محرومیوں کا تذکرہ ایک دوسرے سے کرتی رہتی ہیں جس کے باعث وہ دماغی طور پر پرسکون رہتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: خوش و خرم جوڑوں کی کچھ عادات

    مزید پڑھیں: ناخوشگوار ازدواجی زندگی بیویوں میں بیماریوں کا سبب

    اس کے برعکس مرد حضرات کم دوست بناتے ہیں، یا وہ دوستوں سے اپنی ذاتی باتیں اور خیالات و احساسات شیئر نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ مختلف طبی امراض اور ذہنی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    اس سے قبل بھی کئی تحقیقوں میں ثابت کیا جا چکا ہے کہ ایک خوشگوار ازدواجی تعلق نہ صرف ذہنی و نفسیاتی الجھنوں سے بچاتا ہے بلکہ صحت پر بھی مفید اثرات مرتب کرتا ہے۔

    couple-3

    یونیورسٹی آف یارک کے ماہرین کی ایک تحقیق سے پتہ چلا تھا کہ معاشرے میں تنہا رہنے والے افراد میں امراض قلب اور فالج کے خطرے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ غیر متحرک زندگی اور ذہنی تناؤ سے لوگوں میں فالج اور دل کی بیماریوں کا امکان بڑھ جاتا ہے لیکن سماجی تنہائی لوگوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔

  • پارلیمنٹ میں خواتین ارکان کی کارکردگی قابل ستائش ہے ‘ اسپیکرقومی اسمبلی

    پارلیمنٹ میں خواتین ارکان کی کارکردگی قابل ستائش ہے ‘ اسپیکرقومی اسمبلی

    اسلام آباد : اسپیکرقومی اسمبلی سردارایازصادق کا کہناہےکہ خواتین کونظام میں شامل نہ کرنے سےمعیاری جمہوریت،معاشی استحکام،صحت مندانہ معاشرے اور پائیدار امن کونقصان پہنچتاہے۔

    انٹرنیشنل ویمن پارلیمنٹری کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں ایاز صادق نے کہا کہ مجھے یہ جان کر خوشی ہو ئی ہےکہ ایشیاء،افریقہ،یورپ اور آسٹریلیاکےبراعظموں کے16ممالک کےمندوبین خواتین اس کانفرانس میں شریک ہیں۔

    اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہےکہ پاکستان کی پارلیمنٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے وہ دنیا بھر میں پہلی پارلیمنٹ ہے جس نے ایس ڈی جی پر پہلا پارلیمانی سیکرٹریٹ قائم کرتے ہوئے پارلیمانی حکمت عملی کے اپنے ویژن میں بین الاقوامی ترقی کا ایجنڈا شامل کیا ہے۔

    ایازصادق نےکہاکہ میرے لیے ویمن پارلیمنٹری کا کس کی جانب سے منعقد ہ انٹر نیشنل ویمن پارلیمنٹری کا نفرنس کے افتتاحی اجلاس میں شرکت انتہائی باعث مسرت ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ کی اسلام آباد میں موجودگی باوقار امن اور مل جل کر ترقی کرنے کی مشترکہ خواہش کی عکاسی کرتی ہے۔

    مزید پڑھیں:خواتین کوبااختیاربنانےکےلیےویمن کاکس کا کرداراہم ہے‘مریم نواز

    انہوں نےکہاکہ ایوان میں میر ے تجربے نے مجھے بتایا کہ اگر خواتین اراکین پارلیمان، قانون سازی کے عمل میں سرگرمی کا مظاہرہ کرتی ہیں تو ایوان عوام کی خوشحالی اور بلخصوص انسانی ترقی پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے۔

    ایاز صادق نے کہا کہ اُن وزارتیں کی کارکردگی قابل ستائش ہے جن کی سربراہی خواتین اراکین پارلیمان کر رہی ہیں۔انہوں نےکہاکہ خواتین پارلیمانی سیکرٹریز ارکین پارلیمان کے سوالوں کا ایوان میں جواب دینے کے لیے زیادہ بہتر تیار ی کر کے آتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری پارلیمان میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی خواتین پر مشتمل خواتین کے پارلیمانی کاکس کی بدستور موجودگی اور اس کا فروغ اس ضمن میں نہایت موثر ثابت ہواہے۔

    اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اس مفید پلیٹ فارم کی بدولت پارلیمان نے حال ہی میں متفقہ طور پر بالترتیب امتناع زنابالجبر اور غیرت کے بام پر قتل کی روک تھام کے بل منظور کیے ہیں۔

    واضح رہےکہ ایازصادق نے کہا کہ پائیدار ترقی کے مقاصد کے لیے بین الاقوامی عزم ہمیں یاددلاتا ہے کہ صحت مند اور تعلیم یافتہ قوم کے لیے جہالت سے مقابلہ کرنے کا راستہ خواتین کی رہنمائی اور خواتین کی مرکزیت کی حامل پالیسی سے نکلتا ہے۔

  • خواتین کوبااختیاربنانےکےلیےویمن کاکس کا کرداراہم ہے‘مریم نواز

    خواتین کوبااختیاربنانےکےلیےویمن کاکس کا کرداراہم ہے‘مریم نواز

    اسلام آباد: مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کاکہناہےکہ خواتین کو بااختیار بنانے کےلیے ویمن کاکس کا کردار اہم ہے۔

    تفصیلات کےمطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ویمن پارلیمانی کاکس کے زیراہتمام تین روزہ بین الااقوامی کانفرنس میں پاکستان سمیت بارہ ممالک کی پارلیمنٹیرین شریک ہیں۔کانفرنس کی تھیم’بی بولڈ فار چینج‘ہے۔

    ویمن پارلیمانی کاکس کےزیراہتمام 3 روزہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتےہوئےمریم نواز نےکہاکہ دنیا کی نامور کمپنیوں میں خواتین مرکزی کردار ادا کررہی ہیں۔

    مسلم لیگ ن کےرہنما مریم نوازکاکہناتھاکہ دنیا میں خواتین کا کردار کبھی آسان نہیں رہا۔انہوں نےکہاکہ دنیا کی نامور کمپنیوں میں خواتین مرکزی کردار ادا کررہی ہیں۔

    مریم نوازکا کہناتھاکہ پاکستان میں خواتین کو جمہوریت میں مساوی مواقع حاصل ہیں۔انہوں نےکہاکہ خواتین کو غربت اور خوف کی فضاسے نکالنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

    وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ میری والدہ میرے لیے مشعل راہ ہیں۔انہوں نےکہاکہ ملالہ یوسفزئی،شرمین عبیدچنائے،خاتون پائلٹ مریم ہمارا فخر ہیں۔

    واضح رہےکہ مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے ویمن پارلیمانی کاکس کےانعقاد پرمنتظمین کومبارکباد پیش کی۔

  • چترال کے لوگ گندا پانی پینے پر مجبور

    چترال کے لوگ گندا پانی پینے پر مجبور

    چترال: صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چترال میں بالائی علاقے وادی شالی کے لوگ دریا کا گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ چترال کی خواتین 1 ہزار فٹ نیچے سے یہ پانی مٹکوں میں بھر کر واپس اوپر اپنے گھروں میں لے جانے پر مجبور ہیں۔

    بالائی علاقے وادی شالی میں جو آرکاری روڈ پر واقع ہے اور چترال سے 50 کلومیٹر دور ہے، میں گزشتہ ماہ شدید برف باری ہوئی۔ مختلف مقامات پر برفانی تودے گرنے کی وجہ سے پینے کی پانی کی پائپ لائن کو بھی نقصان پہنچا۔ کئی مقامات پر پانی جم گیا جبکہ اکثر مقامات پر پانی کی پائپ لائن موجود ہی نہیں ہے۔

    چترال کے لوگ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی کارکردگی نہایت شاکی ہیں جو کروڑوں روپے تو خرچ کرتے ہیں مگر لوگوں کو سہولیات دینے سے قاصر ہیں۔

    women-2

    مقامی افراد کا کہنا ہے کہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے ارباب اختیار نے حد با اثر ہیں۔ ان کے خلاف ابھی تک نہ تو نیب نے کارروائی کی اور نہ انسداد رشوت ستانی ان کے خلاف حرکت میں آیا۔

    شالی گاؤں کی رہائشی زرینہ بی بی کا کہنا ہے کہ ان کے گھروں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں اس لیے وہ دریائے آرکاری کا گندہ پانی روزانہ مٹکوں میں بھر کر، سروں پر رکھ کر چڑھائی چڑھ کر اپنے گھروں کو لے کر جاتی ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ان کے مکانات سڑک اور دریا سے ایک ہزار سے 1500 فٹ اونچائی پر واقع ہیں مگر وہ اس مشقت کے لیے مجبور ہیں اور اب یہ ان کا معمول بن چکا ہے۔

    بی بی آمنہ بھی انہی خواتین میں سے ایک ہیں جو صبح سویرے، دوپہر اور شام کو تین بار دریائے آرکاری سے پانی بھر کر لاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دریا کا پانی آلودہ اور گندا ہے اور اس سے ان کے بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں مگر وہ سب یہی پانی پینے پر مجبور ہیں۔

    مزید پڑھیں: آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی خطرات کا شکار

    یاد رہے کہ دیہی علاقوں میں ضروریات زندگی کے لیے دور دراز سے پانی بھر کر لانا معمولات زندگی میں شامل ہے اور یہ ایک ایسی جبری مشقت ہے جو خواتین کے فرائض کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔

    سندھ کے دیہاتوں میں کام کرنے والے سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ صرف خواتین پر لاگو ہونے والی یہ ایک ایسی لازمی مشقت ہے جو تا عمر جاری رہتی ہے۔ مرد چاہے گھر میں ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں وہ یہ کام نہیں کرتے بقول ان کے یہ ان کا کام نہیں، عورتوں کا کام ہے اور اسے ہر صورت وہی کریں گی۔

    کارکنان کے مطابق بعض حاملہ عورتیں تو پانی بھرنے کے لیے جاتے ہوئے راستے میں بچے تک پیدا کرتی ہیں اور اس کی نال کاٹ کر اسے گلے میں لٹکا کر پھر سے پانی بھرنے کے سفر پر روانہ ہوجاتی ہیں۔

    women-1

    بی بی آمنہ کا کہنا تھا کہ وادی میں کوئی اسپتال بھی نہں ہے اور جب ان کے بچے اس آلودہ پانی پینے سے بیمار پڑتے ہیں تو ان کو چارپائی پر ڈال کر دوسرے قصبے میں یا چترال کے اسپتال لے کر جاتے ہیں۔ طویل راستے کے باعث اکثر بچے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔

    بی بی آمنہ سمیت چترال کے دیگر افراد نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجنئیرنگ کے خلاف تحقیقات کی جائے کہ ان کی چترال میں کتنی واٹر سپلائی اسکیمیں کامیاب ہوئی ہیں اور کتنی اسکیمیں جعلی یا ناکام ہیں۔

    انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ پینے کے صاف پانی کے ساتھ ساتھ ان کو صحت کی سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔