Tag: خواتین

  • بولنے میں مشکلات کا شکار بچوں کے لیے جدید تھراپی

    بولنے میں مشکلات کا شکار بچوں کے لیے جدید تھراپی

    پاکستان میں بولنے کے دوران مشکلات کا شکار بچوں کی مدد کے لیے بولو ٹیک نامی اسپیچ تھراپی پلیٹ فارم تیار کرلیا گیا۔ یہ پلیٹ فارم دو نوجوان طالبات نے تیار کیا ہے۔

    کراچی کی ایک نجی جامعہ میں زیر تعلیم دو طالبات شانزہ خان اور رباب کا تعلیمی مقاصد کے لیے بنایا جانے والے یہ پلیٹ فارم ان بچوں اور بڑوں کے لیے امید کی کرن ہے جو بولنے میں مشکل کا شکار ہوتے ہیں۔

    لفظوں کو ان کے صحیح مخرج یا تلفظ سے ادا نہ کر پانا ایک بیماری ہے جسے ڈیسرتھریا کہا جاتا ہے۔ یہ بیماری اس وقت سامنے آتی ہے جب گفتگو میں مدد دینے والے خلیات تباہ ہوجائیں۔

    مزید پڑھیں: لوگ ہکلاتے کیوں ہیں؟

    خلیات کی خرابی کا یہ عمل دماغ یا اعصاب کو نقصان پہنچنے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ بعض اوقات یہ مرض پیدائشی ہوتا ہے اگر پیدائش کے وقت کسی پیچیدگی کے باعث بچے کے دماغ کو کوئی نقصان پہنچ جائے۔

    اسی طرح کسی خطرناک حادثے، فالج، شدید دل کے دورے، سر یا گردن کو لگنے والی خطرناک چوٹ کی صورت میں بھی دماغ کو نقصان پہنچتا ہے جس سے بولنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے۔

    بولو ٹیک نامی یہ پلیٹ فارم جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بچوں اور بڑوں کو اسپیچ تھراپی میں مدد دیتا ہے اور وہ بہتر طور پر جان سکتے ہیں کہ کس لفظ کو کس طرح ادا کیا جانا چاہیئے۔

    اسے تیار کرنے والی طالبات کا کہنا ہے کہ یہ پلیٹ فارم بچوں کو اردو زبان بہتر کرنے میں مدد دے گا۔

    اس پلیٹ فارم کے ذریعے گو کہ مریض افراد کو صحت یابی کے لیے کئی ماہ یا کئی سال درکار ہوں گے، لیکن اس کے نتائج عام انداز سے کی جانے والی تھراپی سے بہتر ہوں گے۔

  • اسلام آباد خواتین کے لیے غیر محفوظ، وزیر داخلہ کا اعتراف

    اسلام آباد خواتین کے لیے غیر محفوظ، وزیر داخلہ کا اعتراف

    اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اعتراف کیا ہے کہ وفاقی دار الحکومت میں خواتین محفوظ نہیں۔ ان کے مطابق اسلام آباد میں ایک سال میں خواتین سے زیادتی کے واقعات میں 160 فیصد اضافہ ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر داخلہ چوہدری نثار نے تحریری جواب جمع کروایا جس میں بتایا گیا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک سال کے دوران زنا بالجبر کے واقعات میں 160 فیصد اضافہ ہوگیا۔

    جواب میں کہا گیا کہ ایک سال میں زیادتی کے 39 واقعات ہوئے۔ 2015 میں زیادتی کے واقعات کی تعداد 15 تھی۔

    وزیر داخلہ کے مطابق 2016 میں اغوا سمیت ڈکیتی کی کارروائیوں میں کمی ہوئی لیکن اقدام قتل جیسی سنگین واردات میں 10 فیصد اضافہ ہوا۔

    اجلاس میں صوبہ وار گرفتار کیے گئے دہشت گردوں کی تفصیلات بھی پیش کی گئیں۔ وفاقی وزیر نے ایک اور سنگین اعتراف کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ مفروردہشت گردوں کی تعداد کا تعین ناممکن ہے۔

    یاد رہے کہ پاکستانی کمیشن برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں خواتین کے خلاف جرائم بشمول تشدد و زیادتی کے واقعات رپورٹ ہونے کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ ہوچکا ہے۔

    کمیشن کے مطابق سنہ 2004 سے 2016 تک 7 ہزار 7 سو 34 خواتین کو جنسی تشدد یا زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

    وزارت انسانی حقوق کی جانب سے جاری کردہ ایک اور رپورٹ کے مطابق صرف جنوری 2012 سے ستمبر 2015 کے عرصے کے دوران 344 اجتماعی یا انفرادی زیادتی کے واقعات پیش آئے۔

    اس سے قبل سنہ 2014 میں زیادتی کے واقعات میں 49 فیصد اضافہ دیکھا گیا، اور عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹس میں یہ لرزہ خیز انکشاف ہوا کہ 2014 میں ہر روز چار پاکستانی خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

  • باہر نکلنے والی خواتین کو کیسا سلوک سہنا پڑتا ہے؟

    باہر نکلنے والی خواتین کو کیسا سلوک سہنا پڑتا ہے؟

    خواتین کو گھروں سے باہر تنگ کیا جانا اور اس موضوع پر گفتگو کرنا شاید ہمارے معاشرے کا ایک عام معمول بن چکا ہے۔ گھر سے باہر راہگیروں کی جانب سے چھیڑ چھاڑ، آوازیں کسنا، ٹکرا کر گزرنا اور گھورنا وہ تجربات ہیں جن سے پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کی ہر باہر نکلنے والی لڑکی کو گزرنا پڑتا ہے۔

    کچھ مرد خواتین کو تنگ کرنے والے افراد کو برا سمجھتے ہیں اور خود بھی ایسی حرکتوں سے پرہیز کرتے ہیں، لیکن اگر انہیں حقیقت میں کبھی اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جائے جس سے روزانہ خواتین گزرتی ہیں تو یقیناً ان کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو میں اسی صورتحال کو پیش کرنے کے لیے ایک منفرد تجربہ کیا گیا۔ تجربے کے تحت معروف اداکار ثاقب سمیر کو برقع پہنا کر ایک دن گھر سے باہر گزارنے کے لیے کہا گیا۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    اس ایک دن میں ثاقب کو جو تجربات ہوئے وہ انہیں بے حال کردینے کے لیے کافی تھے۔

    سب سے پہلے وہ بس اسٹاپ پر بس کا انتظار کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ چند منٹوں بعد ہی وہاں سے گزرنے والے راہگیروں نے ان کا کھڑا ہونا محال کردیا۔ رکشے والے اور بائیک والے رک رک کر انہیں اشارے کرنے لگے۔

    بعد میں جب وہ بس میں بیٹھے تب ان کے سامنے ایک اور شخص آ کر بیٹھ گیا جو گٹکا تھوکنے کے بہانے سے ان کی کھڑکی کے پاس آ کر ان کے قریب ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ بعد ازاں اس شخص نے ان کے کاندھے کو چھو کر سیٹ پر بیٹھنے کا اشارہ بھی کیا۔

    اس کے بعد جب ثاقب ایک مارکیٹ میں گئے تو دکان دار نے مختلف بہانوں سے ان کا ہاتھ چھونے کی کوشش کی۔ اس دوران کئی افراد ان سے ٹکرا کر بھی گزرے۔

    مزید پڑھیں: عالمی یوم خواتین پر سب سے ایماندارانہ پیغام

    دن کے اختتام پر بالآخر جب ثاقب نے اپنا برقع اتارا تو وہ پسینے میں شرابور اور سخت بے حال تھے۔ ان کی حالت اس قدر ابتر تھی کہ وہ کچھ بولنے سے بھی قاصر تھے۔

    انہوں نے کہا، ’میں خود مرد ہوں، لیکن اس وقت مجھے مردوں پر شدید غصہ آرہا ہے‘۔

    ثاقب کا کہنا ہے کہ اس تجربے کے دوران بعض اوقات تو انہیں اس قدر شدید غصہ آیا کہ ان کا دل چاہا کہ وہ برقع اتار پھینکیں اور سامنے موجود شخص کی لاتوں اور گھونسوں سے تواضع کردیں، لیکن مصلحتاً وہ خاموش رہے۔

    ثاقب کی حالت کو دیکھتے ہوئے یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ خواتین کو چھیڑنے والے مردوں کے ساتھ بھی یہی تجربہ کیا جائے، شاید اسی طرح انہیں اپنے گھناؤنے افعال کا احساس ہوسکے اور وہ باز آجائیں۔

  • گھریلو تشدد کی شکایت براہ راست پختونخواہ اسمبلی میں

    گھریلو تشدد کی شکایت براہ راست پختونخواہ اسمبلی میں

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی میں خواتین پر گھریلو تشدد، جنسی ہراسمنٹ یا کم عمری کی شادی کی شکایات درج کروانے کے لیے ہیلپ لائن قائم کردی گئی۔

    زما آواز یعنی ’میری آواز‘ نامی یہ ہیلپ لائن خواتین کو سہولت فراہم کرے گی کہ وہ اپنے یا کسی اور پر ہوتے گھریلو تشدد کی شکایت براہ راست خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں درج کروا سکیں۔

    یہ ہیلپ لائن 9212026-091 اسمبلی کے خواتین پارلیمانی کاکس (ڈبلیو پی سی) نے یو ایس ایڈ کے اشتراک سے قائم کی ہے اور یہ ڈبلیو پی سی کے دفتر سے ہی آپریٹ کی جائے گی۔ خیبر پختونخواہ کی خواتین صبح 9 سے شام 5 بجے تک ٹیلی فون کے ذریعہ یہاں اپنی شکایات درج کروا سکیں گی۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    ڈبلیو پی سی کی ایک مقرر کردہ کمیٹی درج کی جانے والی شکایات کا جائزہ لے کر فوری طور پر متعلقہ حکام کو ان پر کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کرے گی۔

    منصوبے میں شامل پختونخواہ کی خواتین ارکان اسمبلی کا کہنا ہے کہ اس ہیلپ لائن کے ذریعے نہ صرف خواتین اپنے اوپر ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف شکایات درج کروا سکیں گی، بلکہ وہ اسمبلی میں بیٹھے قانون سازوں کو مشورے اور تجاویز بھی دے سکیں گی کہ خواتین کی فلاح کے لیے مزید کیا اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔

    اس ہیلپ لائن کے ذریعہ قانونی مدد کی طلبگار خواتین کو وکلا کی خدمات بھی فراہم کی جاسکیں گی۔

    مزید پڑھیں: آئی ڈی پی خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار

    صوبہ خیبر پختونخواہ میں خواتین کو گھر سے باہر جنسی ہراسمنٹ اور چھیڑ چھاڑ کے واقعات سے بچانے کے لیے علیحدہ بس سروس کا منصوبہ بھی زیر تکمیل ہے۔

    منصوبے کے تحت خیبر پختونخواہ کے 3 ضلعوں پشاور، مردان اور ایبٹ آباد میں خواتین کے لیے علیحدہ بس سروس شروع کی جائے گی۔ صوبائی شعبہ ٹرانسپورٹ کے نمائندگان کے مطابق یہ منصوبہ صوبے میں شروع کیے جانے والے ماس ٹرانزٹ سسٹم کا حصہ ہے۔

  • وہیل چیئر پر بیٹھی ماڈل نے دنیا کو دنگ کردیا

    وہیل چیئر پر بیٹھی ماڈل نے دنیا کو دنگ کردیا

    دنیا بھر میں ماڈلنگ کے رجحانات بدلتے رہتے ہیں، کبھی جسامت اور کبھی رنگت کا تنوع ماڈلنگ کا معیار ہوتا ہے۔ لیکن ماڈلنگ کے لیے ماڈل کو جسمانی طور پر مکمل اور صحت مند ہونا ضروری ہے، البتہ یوکرین کی معذور ماڈل نے اس تصور کو بھی اپنی وہیل چیئر کے پہیوں تلے کچل دیا۔

    یوکرین کے دارالحکومت کیو میں منعقدہ ایک فیشن شو میں الیگزینڈرا کیوٹس نامی اس معذور ماڈل کی کیٹ واک نہ صرف اس کے خواب کی تکمیل ہے، بلکہ دنیا بھر میں معذور افراد کے لیے امید کی ایک روشن کرن بھی ہے۔

    model-4

    model-8

    اس فیشن شو میں الیگزینڈرا کو بانس کے ایک تخت پر رکھ کر لایا گیا جسے 4 افراد نے تھاما ہوا تھا۔ الیگزینڈرا اب دنیا کی وہ پہلی ماڈل بن گئی ہے جس نے جسمانی طور پر معذور ہونے کے باوجود ایک بڑے فیشن شو میں کیٹ واک کی۔

    تئیس سالہ الیگزینڈرا پیدائشی طور پر معذور تھی تاہم جب سے اس پر ماڈلنگ کے شعبہ کو اپنانے کی دھن سوار ہوئی، اسے امید تھی کہ اس کا خواب ضرور پورا ہوگا اور وہ کیٹ واک کرنے میں کامیاب ہوگی۔

    model-3

    البتہ خواب سے تکمیل تک کا سفر آسان نہیں تھا۔ الیگزینڈرا نے لاتعداد ماڈلنگ ایجنسیوں کو خطوط روانہ کر کے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے الیگزینڈرا کے حسن کی تعریف تو کی، تاہم وہ اسے بطور ماڈل پیش کرنے کا رسک لینے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔

    الیگزینڈرا یوکرین کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے جہاں اس کے اہل خانہ اسے خصوصی سہولیات دینے سے قاصر تھے۔ اس نے ایک عام اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں اس کے والد یا دادا اسے کاندھوں پر اٹھا کر اس کی کلاس تک چھوڑ کر آتے تھے۔

    model-7

    اس وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہے، ’ہاں وہ سب بے حد مشکل تھا، مگر وہ اس لیے مشکل تھا کیونکہ مجھے وہ خصوصی مراعات میسر نہیں تھیں جو کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں معذوروں کو دی جاتی ہیں‘۔

    بہت عرصہ قبل الیگزینڈرا کی ملاقات اتفاقاً ایک فوٹو گرافر سے ہوئی تھی جو اس کی کچھ تصاویر بنانا چاہتا تھا۔ جب تصاویر بن کر آئیں تو اپنی معذوری سے قطع نظر الیگزینڈرا بالکل ایک خوبصورت ماڈل کی طرح سامنے آئی۔ وہیں سے الیگزینڈرا کو ماڈل بننے کا خیال آیا۔

    model-6

    اس نے فیشن کی دنیا پر نظر دوڑائی کہ شاید کہیں کوئی مرد یا خاتون ماڈل نظر آئے جس نے معذوری کو شکست دے کر ریمپ پر واک کی ہو۔ تب اس کی نظر سے سنہ 1999 میں ہونے والا ایک فیشن شو گزرا جس میں ایمی مولنز نامی ایک پیرالمپک ایتھلیٹ نے ریمپ پر واک کی تھی اور وہ اپنی مصنوعی ٹانگوں کی نمائش کرنے میں ذرا بھی نہ شرمائی۔

    وہ الیگزینڈرا کے لیے امید کی ایک کرن تھی۔ ’مجھے خیال آیا کہ جب آج سے کئی برس پہلے یہ ہوچکا ہے، تو آج کی ترقی یافتہ دنیا وہیل چیئر پر بیٹھی ایک ماڈل کو کیوں نہیں قبول کر سکتی‘۔

    اس کے بعد جب ایک اطالوی کمپنی نے معذوری کا شکار افراد کا فیشن شو منعقد کروانے کا سوچا تو الیگزینڈرا سمجھ گئی کہ اس کی منزل قریب آگئی ہے۔

    model-2

    model-5

    الیگزینڈرا اب نہ صرف ایک ابھرتی ہوئی ماڈل ہے، بلکہ وہ اپنے شہر کے میئر کی مشیر بھی بن چکی ہے جو شہر میں معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہی ہے۔

    دنیا کے لیے اس کا پیغام ہے، ’کچھ کر دکھانا، آگے بڑھنا اور ترقی کرنا ہمیشہ، ہر کسی کے لیے ممکن ہے۔ اہم چیز ان لوگوں کو سازگار ماحول فراہم کرنا ہے جن کے اندر خداد صلاحتیں چھپی ہوئی ہیں‘۔

  • ترکی میں خواتین فوجی افسران کےاسکارف لینےپرپابندی ختم

    ترکی میں خواتین فوجی افسران کےاسکارف لینےپرپابندی ختم

    انقرہ : ترک حکومت نےخواتین فوجی افسران پراسلامی اسکارف پہننے کی تاریخی پابندی کوختم کردیا۔یہ پابندی 1980 کی دہائی میں عائد کی گئی تھی۔

    تفصیلات کےمطابق ترک وزارتِ دفاع کےاحکامات کےبعد ترک فوج میں خواتین فوجی افسران پراسلامی اسکارف پہننے کی پابندی کوختم کردیاگیا۔

    مقامی میڈیا کےمطابق خاتون افسران اپنی کیپ یا بیرٹ کے نیچے اسکارف پہن سکتی ہیں تاہم اس کا رنگ یونیفارم کے رنگ جیسا ہونا چاہیے جبکہ اسکارف پہننے کی صورت میں چہرہ چھپنا نہیں چاہیے۔

    خیال رہےکہ ترکی کی حکمراں جماعت کی جانب سے طویل عرصے سے خواتین کے اسکارف پر عائد پابندی ختم کیےجانےکامطالبہ کیاجاتارہا ہے۔

    یاد رہےکہ ترکی میں 1980 کی دہائی میں عوامی اداروں میں خواتین کے لیے سر پراسکارف لینے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ تاہم اب ترکی میں صدر رجب طیب اردوگان یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ پابندی ماضی کی تنگ نظری کی وجہ سےتھی۔

    واضح رہےکہ ترکی کا قانون سیکولر ہےیعنی سنہ 1920 سے اب تک سرکاری طور پر ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ملک کی اکثریتی آبادی سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

  • سعودی عرب: اہم کاروباری اداروں کی سربراہی خواتین کے سپرد

    سعودی عرب: اہم کاروباری اداروں کی سربراہی خواتین کے سپرد

    ریاض: سعودی عرب میں دو اہم کاروباری اداروں کے سربراہ کی حیثیت سے خواتین کا تقرر کردیا گیا۔

    سعودی عرب کے ایک بڑے بینک نے اپنے چیف ایگزیکٹو کے طور پر رانیہ محمود نشر کو تعینات کیا ہے۔ سامبا فنانشنل گروپ کا کہنا ہے کہ رانیہ محمود اس شعبے میں 20 سال کا تجربہ رکھتی ہیں اور وہ اس عہدے کی اہل ہیں۔

    سامبا کے مطابق رانیہ وہ پہلی سعودی خاتون ہیں جنہیں ایک معتبر امریکی ادارے نے اینٹی منی لانڈرنگ کی ماہر قرار دیا تھا۔

    مذکورہ بینک کا یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب چند روز قبل سعودی اسٹاک ایکسچینج بھی اپنے بورڈ کے چیئرمین کے لیے سارہ السہیمی کا تقرر کر چکا ہے۔

    مزید پڑھیں: میں اپنی سرپرست خود ہوں، سعودی خواتین کا احتجاج

    ماہر اقتصادیات سارہ السہیمی بھی اس سے قبل ایک بینک کی سربراہ رہ چکی ہیں۔ وہ 2014 میں اس عہدے پر تعینات ہونے والی پہلی سعودی خاتون تھیں۔

    سعودی عرب کے معاشرے میں گو کہ خواتین کے لیے بے حد حدود و قیود ہیں تاہم حالیہ معاشی بحران کی وجہ سے سعودی عرب اب اپنی افرادی قوت اور معیشت میں زیادہ سے زیادہ خواتین کی شمولیت چاہتا ہے۔

    سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں خواتین کے گاڑی چلانے پر بھی پابندی عائد ہے۔

    کچھ عرصہ قبل سعودی شہزادے ولید بن طلال نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو ڈرائیونگ سے محروم کرنا ایسا ہی ہے جیسے انہیں ان کے بنیادی حق سے محروم کردیا جائے۔

  • داعش کے خلاف صف آرا 2 باہمت خواتین

    داعش کے خلاف صف آرا 2 باہمت خواتین

    گزشتہ چند سالوں سے داعش نامی عفریت نے دنیا کو خوف و دہشت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ خوفناکی و بربریت کی اعلیٰ مثال قائم کرنے والی اس دہشت گرد اور سفاک تنظیم نے اپنے غیر انسانی اور ظالمانہ سلوک سے اس دور کی یاد دلا دی ہے جب کسی مخصوص طبقے کے انسانوں کی حیثیت جانوروں سے بھی بدتر تھی۔

    خود کو دولت اسلامیہ فی العراق والشام کہلوانے والی، اور اسلام کا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹنے والی یہ دہشت گرد تنظیم اپنے مخالفوں بشمول بچوں اور عورتوں کے ساتھ انتہائی سفاک سلوک کر رہی ہے۔ قیدیوں کو زندہ جلا دینا، انہیں ذبح کردینا، حملہ کرنے والے مقام پر لوگوں کو بے دردی سے قتل کردینا ان کا عام وطیرہ ہے۔

    خود کو اسلام کا محافظ کہنے والے یہ جنگجو عورتوں کے ساتھ اس سے بھی بھیانک اور درد ناک سلوک روا رکھتے ہیں۔

    عورتوں کو اغوا کر کے دور قدیم کی طرح ان کی خرید و فروخت، ان کے ساتھ جنگجوؤں کی اجتماعی زیادتی کے واقعات، انہیں اپنی نسل بڑھانے کے لیے استعمال کرنا اور ایک کے بعد دوسرے گروہ کو فروخت کردینا، اور حکم نہ ماننے والی خواتین کو زندہ جلا دینا یا انہیں ذبح کردینے کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں۔

    اس ظالم گروہ کے ظلم کا سب سے زیادہ شکار عراق کی یزیدی قبیلے کی خواتین ہوئی ہیں۔

    سنہ 2014 میں داعش نے عراق کے اقلیتی یزیدی قبیلے کو کافر قرار دے کر عراقی شہر سنجار کے قریب ان کے اکثریتی علاقے پر حملہ کیا اور ہزاروں یزیدیوں کو قتل کردیا۔

    داعش کے جنگجو ہزاروں یزیدی خواتین کو اغوا کر کے اپنے ساتھ موصل لے گئے جہاں ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور انہیں شدید جسمانی و جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

    انہی میں سے ایک خاتون نادیہ مراد طحہٰ ہے جو خوش قسمتی سے داعش کی قید سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئی، اور اب داعش کے خلاف نہایت ہمت اور حوصلے سے ڈٹ کر کھڑی ہے۔

    اقلیتوں کے تحفظ کی علامت ۔ نادیہ مراد طحہٰ

    نادیہ نے اپنی واپسی کے بعد اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں شریک ہو کر اپنی قید کے دنوں کی درد ناک داستان سنائی جس نے وہاں موجود ہر شخص کو رونے پر مجبور کردیا۔

    nadia-1

    وہ بتاتی ہیں، ’جب داعش نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہم سے کہا کہ ہم مسلمان ہوجائیں۔ جب ہم نے انکار کردیا تو انہوں نے عورتوں اور بچوں کو مردوں سے علیحدہ کردیا‘۔

    نادیہ بتاتی ہیں کہ اس کے بعد داعش نے تمام مردوں کو ذبح کیا۔ وہ سب اپنے باپ، بھائی، بیٹوں اور شوہروں کو ذبح ہوتے دیکھتی رہیں اور چیختی رہیں۔ اس کے بعد داعش کے جنگجوؤں نے عورتوں کو اپنے اپنے لیے منتخب کرلیا۔

    وہ کہتی ہیں، ’مجھ سے ایک خوفناک اور پر ہیبت شخص نے شادی کرنے کو کہا۔ میں نے انکار کیا تو اس نے زبردستی مجھ سے شادی کی‘۔ بعد ازاں نادیہ کو کئی جنگجوؤں نے بے شمار روز تک بدترین جسمانی تشدد اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

    نادیہ اپنے دردناک دنوں کی داستان سناتے ہوئے بتاتی ہے، ’وہاں قید لڑکیوں کے لیے قانون تھا کہ جس لڑکی کے پاس سے موبائل فون برآمد ہوگا اسے 5 دفعہ زیادتی کا نشانہ بنایا جائے گا۔ کئی لڑکیوں اور عورتوں نے اس ذلت اور اذیت سے بچنے کے لیے اپنی شہ رگ کاٹ کر خودکشی کرلی۔ جب جنگجو ان لڑکیوں کی لاشیں دریافت کرتے، تو وہ بقیہ لڑکیوں کو اس عمل سے باز رکھنے کے لیے مردہ لاشوں تک کی بے حرمتی کیا کرتے‘۔

    مزید پڑھیں: افغان خواتین کی غیر قانونی قید ۔ غیر انسانی مظالم کی دردناک داستان

    نادیہ بتاتی ہے کہ اس نے ایک دو بار داعش کی قید سے فرار کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوگئی اور داعش کے سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا۔ انہوں نے اسے برہنہ کر کے ایک کمرے میں بند کردیا تاکہ وہ دوبار بھاگنے کی کوشش نہ کرے۔

    تاہم اپنی فرار کی ایک اور کوشش میں وہ کامیاب ہوگئی اور داعش کے چنگل سے نکل بھاگی۔

    وہ کہتی ہیں، ’میں خوش قسمت ہوں کہ وہاں سے نکل آئی۔ مگر وہاں میری جیسی ہزاروں لڑکیاں ہیں جنہیں بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملا اور وہ تاحال داعش کی قید میں ہیں‘۔

    نادیہ اپنی واپسی کے بعد سے مستقل مطالبہ کر رہی ہیں کہ 2014 میں ان کے گاؤں پر ہونے والے داعش کے حملہ کو یزیدیوں کا قتل عام قرار دیا جائے، داعش کی قید میں موجود خواتین کو آزاد کروایا جائے اور داعش کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے جس میں انہیں شکست ہو، اور اس کے بعد داعشی جنگجؤں کو جنگی مجرم قرار دے انہیں عالمی عدالت میں پیش کیا جائے۔

    گزشتہ برس نادیہ کو اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر بھی مقرر کیا گیا جس کے بعد اب وہ دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کا شکار، خاص طور پر مہاجر لڑکیوں اور خواتین کی حالت زار کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کریں گی۔

    nadia-2

    نادیہ کو یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی جانب سے سخاروف پرائز سے بھی نوازا گیا۔

    سخاروف انعام برائے آزادی اظہار ایک روسی سائنسدان آندرے سخاروف کی یاد میں دیا جانے والا انعام ہے جو ان افراد کو دیا جاتا ہے جنہوں نے آزادی اظہار، انسانی حقوق کی بالادستی اور تشدد کے خاتمے کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کردیا اور نتیجہ میں انہیں حکمران طبقوں یا حکومت کی جانب سے سختیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

    nadia-3

    نادیہ کو امید ہے کہ داعش کے ظلم کا شکار یزیدی ایک دن اپنی آنکھوں سے اپنے مجرمان کو عالمی عدالت برائے انصاف میں کھڑا ہوا دیکھیں گے، ’وہاں انہیں ان کے انسانیت سوز جرائم کی سزا ملے گی‘۔

    داعش کے خلاف مضبوط آواز ۔ امل کلونی

    معروف ہالی ووڈ اداکار جارج کلونی کی اہلیہ اور انسانی حقوق کی وکیل امل کلونی اس جنگ میں نادیہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ وہ داعش کے ہاتھوں پامالی اور تشدد کا شکار ہونے والی یزیدی خواتین کا کیس لڑ رہی ہیں۔

    amal

    نادیہ اور امل مل کر مختلف بین الاقوامی فورمز پر عالمی رہنماؤں کو داعش کے خلاف فیصلہ کن اقدامات اٹھانے پر زور دے رہی ہیں۔

    امل جب پہلی بار اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں نادیہ اور دیگر یزیدی خواتین کا کیس لے کر پیش ہوئیں تو انہوں نے کہا، ’مجھے کہنا چاہیئے تھا کہ اس اجلاس میں گفتگو کرنا میرے لیے بہت اعزاز کی بات اور قابل فخر لمحہ ہے، لیکن افسوس میں ایسا نہیں کہہ سکتی‘۔

    انہوں نے کہا تھا، ’ایک انسان ہونے کے ناطے، اور ایک عورت ہونے کے ناطے میں اپنے آپ سے شرمندہ ہوں، کہ میری ہی جیسی عورتوں کو بدترین ظلم کا نشانہ بنایا گیا اور ہم ان کے لیے کچھ نہیں کر سکے‘۔

    داعش کے خلاف عالمی عدالت برائے انصاف میں چارہ جوئی کرنے کا خیال بھی امل کا ہی تھا، ’اگر یہ عدالت وقت کی سب سے دہشت گرد اور خطرناک تنظیم کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی، تو یہ کس لیے وجود میں لائی گئی ہے‘؟

    nadia-4

    امل چونکہ ایک معروف شخصیت ہیں لہٰذا وہ اپنی اس مقبولیت کو کام میں لاتے ہوئے نہ صرف عالمی میڈیا کو داعش کے ظلم کی طرف متوجہ کر رہی ہیں، بلکہ مختلف عالمی رہنماؤں کو بھی داعش کے ظلم سے آگاہ کر رہی ہیں۔

    نادیہ مراد طحہٰ اور امل کلونی اقلیتوں کی جدوجہد، ان کے حقوق اور خواتین پر ظلم کے خلاف ایک علامت بن چکی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ بہت جلد اذیت ناک ظلم کا شکار یزیدی خواتین انصاف پانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔

  • خواتین ڈاکٹرز مرد ڈاکٹروں سے بہتر؟

    خواتین ڈاکٹرز مرد ڈاکٹروں سے بہتر؟

    آپ جب بھی کسی بیماری کا علاج کروانے جاتے ہیں تو خواتین ڈاکٹرز کو ترجیح دیتے ہیں یا مرد ڈاکٹرز کو؟ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مرد ڈاکٹرز آپ کا زیادہ بہتر علاج کر سکیں گے تو آپ کو فوراً اس غلط فہمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

    امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق خواتین ڈاکٹرز مرد ڈاکٹرز کی نسبت مریضوں کی زیادہ بہتر نگہداشت اور خیال کر سکتی ہیں۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ خواتین ڈاکٹرز خصوصاً مریض بزرگوں کا نہ صرف بہتر علاج کرتی ہیں بلکہ ان کا خیال بھی رکھتی ہیں۔

    خواتین ڈاکٹرز کے زیر علاج رہنے والے بزرگ افراد کے مرنے کی شرح کم دیکھی گئی جبکہ ان کے دوبارہ اسی بیماری کی وجہ سے پلٹ کر آنے کا امکان بھی کم ریکارڈ کیا گیا۔

    doctor-2

    یہ تحقیق دراصل طب کے شعبے میں مرد اور خواتین ڈاکٹرز کی تنخواہوں اور دیگر سہولیات کا فرق دیکھنے کے لیے کی گئی۔ تحقیق میں دیکھا گیا ترقی یافتہ ممالک میں خواتین ڈاکٹرز کی تنخواہیں و مراعات مرد ڈاکٹرز کے مقابلے میں کم ہیں۔

    امریکا میں کیے جانے والے تحقیقی سروے میں مرد و خواتین کو ملنے والی سہولیات کا جائزہ بھی لیا گیا جن کی مقدار برابر تھی البتہ تنخواہ میں 50 ہزار ڈالر کا فرق دیکھا گیا۔

    تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر اشیش جھا کا کہنا ہے کہ طب کے شعبہ میں خواتین ڈاکٹرز کی کم تنخواہیں طب کے معیار کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔

    ان کے مطابق حالیہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ کسی ملک کی صحت کی سہولیات کو بہترین بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔

    ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ایک اور پروفیسر انوپم جینا نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’سروے کے بعد اس بات کی ضرورت ہے کہ طبی شعبہ میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے اور مرد و خواتین کے درمیان تفریق کو ختم کیا جائے‘۔

  • خواتین کی یادداشت مردوں سے بہتر

    خواتین کی یادداشت مردوں سے بہتر

    کیا آپ کو لگتا ہے کہ مرد عورتوں کی نسبت زیادہ ذہین، چالاک اور سمجھدار ہوتے ہیں؟ ایک عام خیال ہے کہ خواتین کی عقل ’آدھی‘ ہوتی ہے اور زیادہ تر افراد اپنے فیصلوں میں خواتین کی شمولیت سے پرہیز کرتے ہیں۔

    اگر آپ کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے تو ہو سکتا ہے یہ جان کر آپ کو شدید دھچکہ لگے کہ سائنس نے آپ کی اس غلط فہمی کو دور کردیا ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک ریسرچ سے ثابت ہوا کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں بہترین یادداشت کی حامل ہوتی ہیں۔ تحقیق کے لیے کیے جانے یادداشت سے متعلق ٹیسٹوں میں خواتین نے تمام مردوں کو بری طرح فیل کردیا۔

    مزید پڑھیں: یادداشت میں بہتری لانے کے لیے یہ اشیا کھائیں

    نارتھ امریکن مینوپاز سوسائٹی کے جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق خواتین مینوپاز کی عمر یعنی تقریباً 50 سال کی عمر سے قبل بہترین یادداشت کی حامل ہوتی ہیں۔ وہ تمام چیزوں کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ یاد رکھتی ہیں اور کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ماضی کے واقعات کو مدنظر رکھتی ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ خواتین کی یادداشت میں بھی خرابی واقع ہوتی جاتی ہے۔ اس خرابی کا آغاز 45 سال کی عمر کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: چہل قدمی بہترین یادداشت کا سبب

    طبی ماہرین کے مطابق بڑھتی عمر کے ساتھ خواتین میں یادداشت سے متعلق امراض جیسے ڈیمینشیا وغیرہ کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ خواتین میں ڈیمینشیا اور یادداشت کی خرابی میں مبتلا ہونے کا امکان مردوں سے زیادہ ہوتا ہے۔

    اعداد و شمار کے مطابق بڑھاپے میں ہر 6 میں سے 1 خاتون ڈیمینشیا یا الزائمر کا شکار ہوسکتی ہے جبکہ مردوں میں یہ شرح 11 میں سے صرف ایک شخص کی ہے۔