Tag: خواتین

  • خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    جس طرح دنیا کا کوئی شعبہ اب خواتین کی کامیاب شمولیت سے مبرا نہیں، اسی طرح خواتین خلا میں بھی اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ چکی ہیں۔ آج اکیسویں صدی میں جب کئی پسماندہ ممالک میں خواتین اپنے بنیادی حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں، ترقی یافتہ ممالک کی خواتین خلا تک کو تسخیر کر چکی ہیں۔

    امریکا کا خلائی ادارہ ناسا اپنے خلائی مشنز میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی اولیت دیتا ہے۔ ناسا نے آج سے 38 سال قبل اپنے ادارے میں خواتین کے ایک گروپ کو ملازمت دی جن میں سے ایک نے بعد ازاں خلا میں جانے والی پہلی امریکی خاتون کا اعزاز اپنے نام کیا۔

    روس اس سے پہلے ہی بازی لے جا چکا تھا۔ 60 کی دہائی میں جب روس اور امریکا خلا کو تسخیر کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں تھے، تب روس نے ویلینٹینا ٹریشکووا کو خلا میں بھیج کر پہلی خاتون خلا باز بھیجنے کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔

    دنیا کی پہلی خاتون خلا باز

    ڈاکٹر ویلینٹینا نے جب خلا کی طرف اپنا پہلا سفر کیا اس وقت وہ صرف 26 برس کی تھیں۔ انہوں نے 3 دن خلا میں گزارے اور اس دوران 48 مرتبہ زمین کے گرد چکر لگایا۔

    ان کا خلائی جہاز ووسٹوک 6 ایک منظم خلائی پروگرام کا حصہ تھا جس کے تحت خلا کی مختلف تصاویر اور معلومات حاصل کی گئیں۔

    پہلی امریکی خاتون خلا باز

    ویلینٹینا کے خلا میں سفر کے 20 برس بعد سنہ 1983 میں امریکا کی سیلی رائڈ نے خلا میں سفر کر کے پہلی امریکی خاتون خلا باز ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔

    ان کا سفر اس لیے بھی منفرد رہا کہ ویلینٹینا کے برعکس انہوں نے خلائی جہاز سے باہر نکل خلا کی فضا میں چہل قدمی بھی کی جسے اسپیس واک کا نام دیا جاتا ہے۔

    پہلی افریقی خاتون خلا باز

    سنہ 1992 میں مے جیمیسن نامی افریقی نژاد خاتون خلا میں جانے والی پہلی افریقی خاتون بن گئیں۔

    مے نے 8 دن خلا میں گزارے۔

    پہلی ایشیائی خاتون خلا باز

    کسی ایشیائی ملک سے کسی خاتون کا پہلی بار خلا میں جانے کا اعزاز سنہ 1994 میں جاپان نے اپنے نام کیا۔ پہلی ایشیائی اور جاپانی خاتون خلا باز چکائی مکائی تھیں جنہوں نے خلا میں 23 دن گزارے۔

    وہ اس سے قبل طب کے شعبہ سے وابستہ تھیں اور کارڈیو ویسکیولر سرجری کی تعلیم مکمل کر چکی تھیں۔

    پہلی خاتون خلائی پائلٹ

    اس سے قبل خلا میں جانے والی تمام خواتین نے خلائی جہاز کے اندر مختلف تکنیکی و تحقیقاتی امور انجام دیے تھے تاہم سنہ 1995 میں ایلن کولنز وہ پہلی خاتون بن گئیں جنہوں نے پہلا خلائی جہاز اڑانے کا اعزاز اپنے نام کیا۔

    وہ اس سے قبل امریکی فضائیہ میں بھی بطور پائلٹ اپنی خدمات سر انجام دے چکی تھیں۔

    پہلی بھارتی خاتون خلا باز

    کلپنا چاولہ خلا میں جانے والی پہلی بھارتی خاتون ہیں۔ وہ سنہ 1997 میں پہلی بار ناسا کے خلائی مشن کے ساتھ خلا میں گئیں۔

    سنہ 2003 میں جب وہ اپنے دوسرے خلائی سفر کے لیے روانہ ہوئیں تو ان کا خلائی جہاز تکنیکی پیچیدگی کا شکار ہوگیا۔ اس خرابی کو بر وقت ٹھیک نہ کیا جاسکا نتیجتاً واپسی میں جیسے ہی ان کا خلائی جہاز زمین کی حدود میں داخل ہوا اس میں آگ بھڑک اٹھی اور کلپنا سمیت اس میں موجود ساتوں خلا باز مارے گئے۔

    خلا میں جانے کے بعد خواتین پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟

    خواتین کو خلا میں بھیجنے سے قبل اس بات پر کافی عرصہ تک بحث جاری رہی کہ خلا میں جانے کے بعد ان پر کیا جسمانی و نفسیاتی اثرات مرتب ہوں گے۔ سنہ 1963 میں جب ووسٹوک 6 کو لانچ کیا گیا جو پہلی بار کسی خاتون کو خلا میں لے کر جارہا تھا، تب اس میں جسمانی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی آلات نصب تھے۔

    پہلی خاتون خلا باز ڈاکٹر ویلینٹینا کی واپسی کے بعد دیکھا گیا کہ خلا میں خواتین پر کم و بیش وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو مردوں پر ہوتے ہیں۔ خلا میں کشش ثقل کی غیر موجودگی کا عادی ہونے کے بعد زمین پر واپسی کے بعد بھی خلا بازوں کو توازن برقرار رکھنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے جبکہ ان کے وزن میں بھی کمی ہوجاتی ہے۔

    علاوہ ازیں عارضی طور پر ان کے خون کے سرخ خلیات بننے میں کمی واقع ہوجاتی ہے (جو وقت گزرنے کے ساتھ معمول کے مطابق ہوجاتی ہے)، نظر کی کمزوری یا کسی چیز پر نظر مرکوز کرنے میں مشکل اور سونے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔

    مزید پڑھیں: مریخ پر ایک سال گزارنے کے بعد کیا ہوگا؟

    ماہرین کے مطابق خواتین کے ساتھ ایک اور پیچیدگی یہ پیش آسکتی ہے کہ ماہواری کے ایام میں کشش ثقل نہ ہونے کے باعث خون جسم سے باہر کے بجائے اندر کی طرف بہنے لگے۔ گو کہ ایسا واقعہ آج تک کسی خاتون خلا باز کے ساتھ پیش نہیں آیا تاہم یہ عمل جسم کے اندرونی اعضا کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔

    اب تک خلا میں جانے والی خواتین نے خلائی سفر سے قبل عارضی طور پر اپنی ماہواری ایام کو ختم کرنے کو ترجیح دی اور طبی ماہرین کے مطابق اس میں کسی نقصان کا اندیشہ نہیں۔

    ایک اور پہلو خلا میں حاملہ خواتین کے سفر کا ہے۔ سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ خلائی جہاز اور اس تمام عمل میں موجود تابکار لہریں حاملہ خواتین کے بچوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں لہٰذا ان کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین خلا باز حمل کے دوران کسی خلائی سفر کا حصہ نہ بنیں۔

  • لاہور: خواتین کا تین رکنی ڈکیت گینگ گرفتار، اسلحہ برآمد

    لاہور: خواتین کا تین رکنی ڈکیت گینگ گرفتار، اسلحہ برآمد

    لاہور : پنجاب میں کرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے،لاہور پولیس نے جرائم کی وارداتوں میں ملوث 3 خواتین کو گرفتار کرلیا، گرفتار شدگان سے اسلحہ،موبائل فون،نقدی اور دیگر اشیاءبرآمد ہوئی ہیں۔ سی ٹی ڈی نے ملتان سے دو دہشت گرد گرفتار کرلئے۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب بھر میں اسٹریٹ کرائم کا جن بوتل سے باہر آگیا مرد تو مرد خواتین بھی اس میدان میں اپنا لوہا منوانے آگئیں، مردوں کے بعد خواتین گینگ بھی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔

    لاہور موچی گیٹ پولیس نے نوسرباز خواتین کا تین رکنی گینگ گرفتار کرلیا ریشم، کرن اورجیا لوگوں کو موبائل فون اور نقدی سے محروم کردیتی ہیں۔

    سی ٹی ڈی نے ملتان میں کارروائی کرکے دو دہشت گرد گرفتار کرلئے جن کا تعلق کالعدم تنظیم سے بتایا جاتا ہے۔ ملزمان کے قبضے سے بارودی مواد بھی برآمد کرلیا گیا۔

    ملتان میں چور مٹھائی کی دکان کا تالا توڑ کر تین لاکھ کی نقدی لے اڑے۔ فوٹیج میں چہرے واضح ہونے کے باوجود ملزم پکڑے نہ جاسکے۔ اٹک کے نجی بینک میں ڈکیتی پڑگئی۔

    پانچ مسلح ڈاکو عملے کو یرغمال بناکر چھ لاکھ روپے لوٹ کر فرار ہوگئے۔ ڈاکوؤں کی فائرنگ سے سیکیورٹی گارڈ جاں بحق اورایک دوسراشخص زخمی ہوگیا۔

  • خواتین کے لیے صحت مند تفریح کا مرکز ویمن ڈھابہ

    خواتین کے لیے صحت مند تفریح کا مرکز ویمن ڈھابہ

    کراچی: دنیا بھر میں خواتین کی 49 فیصد سے بھی زائد آبادی اس بات کی متقاضی ہے کہ انہیں بھی وہ تمام سہولیات و مواقع دیے جائیں جو ان کی صنف مخالف کو حاصل ہیں۔

    جن معاشروں نے خواتین کی اہمیت کو مانتے ہوئے انہیں یکساں مواقع فراہم کیے، ان معاشروں نے اس کا دگنا منافع حاصل کیا۔ انسان کی اس زمین پر آمد سے لے کر جدید دور تک انہی معاشروں نے ترقی کی جن کی خواتین نے وقت کے حساب سے گھروں کے اندر رہتے ہوئے یا باہر نکل کر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔

    پاکستان بھی اب ان ممالک میں شامل ہے جہاں کی خواتین کو کسی حد تک اپنی صلاحیتوں کے اظہار کی آزادی حاصل ہے، لیکن یہ آزادی صرف بڑے شہروں، اور ان شہروں کے بھی ترقی یافتہ علاقوں کو حاصل ہے۔

    پاکستان کے غیر ترقی یافتہ علاقوں، شہروں اور دیہاتوں میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔

    یہاں خواتین کو وہ ماحول و آزادی میسر نہیں جو بڑے شہروں اور ترقی یافتہ علاقوں کی خواتین کو حاصل ہے۔ ترقی یافتہ علاقوں کی خواتین تعلیم بھی حاصل کرتی ہیں، عملی زندگی میں بھی آگے بڑھتی ہیں، اور انہیں تفریح کے بھی تمام مواقع و سہولیات حاصل ہیں۔ لیکن اسی شہر کے پسماندہ علاقوں کی خواتین ان تمام سہولیات سے محروم ہیں۔

    خواتین کی اسی محرومی کو مدنظر رکھتے ہوئے کراچی کے نہایت ہی پسماندہ اور تمام سہولیات سے عاری علاقے ماڑی پور میں ایک ایسا ڈھابہ قائم کیا گیا ہے جو صرف اور صرف خواتین کے لیے ہے۔

    پاکستان میں ڈھابوں پر خواتین کی موجودگی کا تصور کچھ عرصہ قبل سامنے آیا جب پوش علاقوں کی خواتین نے ڈھابوں پر بیٹھ کر اس جگہ سے صرف مردوں کے لیے مخصوص ہونے کا لیبل ہٹا دیا۔ سوشل میڈیا پر شروع کی جانے ’گرلز ایٹ ڈھابہ‘ نامی یہ تحریک خواتین کی خود مختاری کی طرف ایک قدم تھا۔

    لیکن جس ڈھابے کی ہم بات کر رہے ہیں، وہ ان خواتین کے لیے ہے جو اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں، کجا کہ وہ خود مختاری کا مطالبہ کریں۔

    کراچی میں ویمن ڈولپمنٹ فاؤنڈیشن نامی ایک تنظیم کی جانب سے قائم کیا گیا یہ ڈھابہ ماڑی پور میں ان خواتین کا مرکز بن چکا ہے جنہیں یا تو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی، یا گھر سے باہر نکلنے کے لیے ان کے ساتھ کسی مرد کی موجودگی لازم ہے، یا پھر وہ خواتین جنہیں کچھ آزادی تو میسر ہے، لیکن ان کے لیے پورے علاقے میں کوئی تفریحی مرکز نہیں۔

    دراصل اس طرف کبھی توجہ ہی نہیں دی گئی کہ گھروں میں رہنے والی خواتین کو بھی ذہنی سکون و تفریح کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

    ڈھابے پر آنے والی ایک خاتون بختیار کہتی ہیں، ’یہ ڈھابہ ہمیں تفریح کا موقع تو فراہم کرتا ہے، لیکن اس ڈھابے سے اپنائیت کا احساس اس لیے بھی ہوتا ہے کہ یہ صرف ہمارے لیے قائم کیا گیا ہے۔ کسی نے تو ہمیں بھی کچھ سمجھا، اور ہمارے بارے میں سوچا۔ کسی کو تو خیال آیا کہ عورتوں کو بھی تفریح کی ضرورت ہے‘۔

    ڈھابے پر آنے والی بختیار

    ویمن ڈھابے یا خواتین ڈھابے پر چائے اور کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ ساتھ لوڈو اور کیرم بھی رکھا گیا ہے جسے کھیل کر خواتین اپنے فرصت کے لمحات کو گزارتی ہیں۔

    اپنی نوعیت کا یہ منفرد ڈھابہ نہ صرف ان خواتین کو صحت مند تفریح فراہم کر رہا ہے، بلکہ یہاں خواتین کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی مل رہا ہے۔

    مذکورہ خاتون بختیار بھی سلائی کڑھائی میں ماہر ہیں، اور ڈھابے پر بیٹھ کر وہ وہاں موجود کئی لڑکیوں کو سلائی کڑھائی کے پیچ و خم بھی سکھاتی ہیں۔

    ان خواتین کی انفرادی کوششوں کے علاوہ ڈھابے کی انتظامیہ کی جانب سے بھی ایسی صحت مند سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں جن سے ان خواتین کی تعلیم و تربیت کا سامان بھی ہوجاتا ہے، جیسے دستاویزی فلمیں دکھانا، کسی کتاب کا مطالعہ، یا انہیں ہنر مند بنانے والی کسی سرگرمی کی کلاسیں وغیرہ۔

    ویمن ڈولپمنٹ فاؤنڈیشن کی صدر صبیحہ شاہ نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس ڈھابے کو قائم کرنے کا مقصد ان خواتین کو سکون کے چند لمحات فراہم کرنا ہیں جو کوئی تفریحی سرگرمی نہ ہونے کے باعث ایک گھٹن زدہ زندگی گزار رہی تھیں۔ ’گھروں میں کام کاج اور اپنے گھر والوں کے آرام کا خیال رکھنے کے بعد ان خواتین کو بھی ضرورت تھی کہ ان کی تفریح طبع یا ذہنی سکون کے لیے کوئی مقام ہو جہاں وہ جا سکیں‘۔

    وہ بتاتی ہیں کہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ماڑی پور میں بھی حالات بہت تبدیل ہوگئے ہیں۔ ’اب لڑکیاں اسکول بھی جاتی ہیں، اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد اگر چاہیں تو چھوٹی موٹی ملازمت بھی کر سکتی ہیں، جس کا تصور بھی صرف چند سال پہلے تک ناممکن تھا‘۔

    ڈھابے کی روح رواں صبیحہ شاہ

    صبیحہ اور ان کی ٹیم نے ڈھابے کے ساتھ ریڈنگ کارنر بھی قائم کیا ہے جہاں اسکول کے بچے اور بچیاں نہ صرف مطالعہ کر سکتے ہیں بلکہ وہاں موجود کمپیوٹر اور مفت انٹرنیٹ کی سہولت سے وہ ترقی یافتہ دنیا سے بھی جڑ سکتے ہیں۔

    علاقے کے افراد کیا اپنی خواتین کو وہاں آنے کی اجازت دیتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے صبیحہ نے بتایا کہ اس مختصر عرصے میں انہوں نے علاقے کے لوگوں پر اپنا اعتماد قائم کیا ہے۔ ’اس ڈھابے پر آنے کے بعد خواتین کو ذہنی طور پر سکون حاصل ہوا جس کے بعد ان کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی آئی۔ یہی نہیں بلکہ خواتین نے سلائی کڑھائی سمیت کئی مثبت سرگرمیاں شروع کیں جس سے ان کے گھروں کی معیشت کو بھی فائدہ پہنچا‘۔

    ان کے مطابق جب مردوں نے یہ مثبت تبدیلیاں دیکھیں تو وہ جان گئے کہ یہ ڈھابہ واقعتاً خواتین کی بہبود کے لیے نیک نیتی سے قائم کیا گیا ہے لہٰذا وہ بخوشی اپنی عورتوں کو یہاں آنے کی اجازت دیتے ہیں۔

    ڈھابے پر آنے والی خواتین کا ماننا ہے کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ اس ڈھابے کی صورت میں انہیں ایک تفریحی سرگرمی میسر آگئی ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ شہر کے دیگر پسماندہ علاقوں میں بھی ایسے مراکز قائم کیے جائیں تاکہ کم تعلیم یافتہ خواتین کو بھی تفریح کا حق حاصل ہوسکے۔

  • خواتین سازندوں پر مشتمل افغان آرکسٹرا کی پرفارمنس

    خواتین سازندوں پر مشتمل افغان آرکسٹرا کی پرفارمنس

    ڈیوس: اس بار عالمی اقتصادی فورم میں جہاں آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی ہدایت کار شرمین عبید چنائے نے ایک اجلاس میں خطاب کیا اور یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی فنکارہ بن گئیں، وہیں اس فورم میں ایک اور تاریخ رقم ہوگئی۔

    اس بار اجلاس میں شریک سربراہان مملکت اور مہمانوں کی تفریح طبع کے لیے افغانستان کے ایسے آرکسٹرا نے اپنی پرفارمنس پیش کی جو مکمل طور پر خواتین سازندوں پر مشتمل ہے۔

    زہرا ۔ تاریخ کا منفرد آرکسٹرا

    زہرا نامی اس آرکسٹرا میں شامل تمام فنکاراؤں کی عمریں 13 سے 20 سال کے درمیان ہیں۔ ان میں سے کچھ فنکارائیں افغان یتیم خانوں میں پل کر جوان ہوئی ہیں جبکہ کچھ نہایت غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔

    6

    9

    یہ منفرد اور افغانستان کا پہلا خواتین آرکسٹرا جمعے کے روز بھی اجلاس کے اختتامی کنسرٹ میں 3000 کے قریب مختلف اداروں کے سربراہان اور سربراہان مملکت کے سامنے اپنی پرفارمنس پیش کرے گا۔

    یہ آرکسٹرا افغانی موسیقار ڈاکٹر احمد سرمست کی کوششوں کا ثمر ہے جو افغانستان میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میوزک کے بانی ہیں۔

    3

    ڈاکٹر سرمست کو اندازہ ہے کہ اس کام کو انجام دے کر انہوں نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ ان لڑکیوں کے لیے بھی بے شمار خطرات کھڑے کر لیے ہیں۔

    سنہ 1996 سے 2001 میں طالبان کے دور میں تو موسیقی قطعی ممنوع تھی۔ تاہم ان کے بعد بھی افغانستان کے قدامت پسند معاشرے میں موسیقی، اور وہ بھی خواتین کی شمولیت کے ساتھ نہایت ناپسندیدہ ہے۔

    5

    اس سے قبل بھی ڈاکٹر سرمست ایک خودکش حملے میں بال بال بچے تھے جب سنہ 2014 میں کابل میں فرانسیسیوں کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسکول میں منعقدہ شو کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

    یہی نہیں، اپنے شوق کی تکمیل کی پاداش میں اس آرکسٹرا کی لڑکیوں اور ان کے استاد کو مستقل دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔

    آرکسٹرا کی اراکین ۔ حوصلے کی داستان

    آرکسٹرا کی سربراہی نگین خپلواک نامی موسیقارہ کے ہاتھ میں ہے جو کنڑ سے تعلق رکھتی ہے۔ ڈیوس میں مختلف سربراہان مملکت کو اپنے فن سے مسحور اور حوصلے سے انگشت بدنداں کردینے کے بعد، جب یہ واپس اپنے گھر پہنچے گی تو اپنی ببیسویں سالگرہ منائے گی۔

    نگین کہتی ہے، ’موسیقی افغان لڑکیوں کے لیے ایک شجر ممنوع ہے۔ یہاں باپ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے لیے اسکول نہیں بھیجتے، کجا کہ موسیقی کی تعلیم کے لیے موسیقی کے ادارے میں بھیجنا، قطعی ناممکن ہے۔ ان کے نزدیک عورتوں کا واحد مقام گھر ہے‘۔

    8

    لیکن نگین کا اس مقام تک پہنچنا اس کے خاندان کا مرہون منت ہے۔ اس کے والد اور والدہ نے اس کے شوق کی خاطر پورے خاندان سے لڑائی مول لی اور اس کا ساتھ دیا۔ ’میری دادی نے میرے باپ سے کہا تھا، اگر تم نے اپنی بیٹی کو موسیقی کے اسکول بھیجا، تو تم میرے بیٹے نہیں رہو گے‘۔

    اس کے بعد نگین کے خاندان نے اپنا آبائی علاقہ کنڑ چھوڑ کر کابل میں رہائش اختیار کرلی۔

    وہ بتاتی ہے کہ اس کے ایک انکل نے اسے دھمکی دی تھی، ’میں نے تمہیں جہاں بھی دیکھا، میں تمہیں قتل کردوں گا۔ تم ہمارے لیے باعث شرم ہو۔‘

    وہ کہتی ہے کہ گو کہ دارالحکومت کابل میں نوکریاں نہیں ہیں، زندگی بہت مشکل ہے، ’مگر زندگی تو ہے‘۔

    مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    نگین کا مقصد تعلیم حاصل کرنا ہے اور اس کے لیے وہ بیرون ملک جانا چاہتی ہے۔ اس کے بعد وہ وطن واپس آکر قومی سطح پر قائم کردہ کسی آرکسٹرا کی سربراہی کرنا چاہتی ہے۔

    آرکسٹرا میں شامل 18 سالہ وائلن نواز ظریفہ ادیبہ اس سے قبل نیویارک میں بھی پرفارم کر چکی ہے۔ وہ کہتی ہے، ’افغان ہونا اور افغانستان میں رہنا خطرناک ترین عمل ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ اگلا دھماکہ کب اور کہاں ہوگا، کیا پتہ وہ وہیں ہو جہاں پر آپ موجود ہیں‘۔

    2

    ظریفہ کی والدہ، جو خود کبھی اسکول نہیں گئیں، لیکن وہ وقت اور نئی نسل کے بدلتے رجحانات کو بھانپنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔

    انہوں نے اپنی بیٹی کو بخوشی اس کے شوق کے تکمیل کی اجازت دے دی۔ ’اب یہ میری نسل پر منحصر ہے کہ ہم اپنے ملک کے لیے کیا کرتے ہیں۔ لیکن تبدیلی لانے کے لیے بہت عرصہ درکار ہے۔ کم از کم یہ پوری ایک نسل‘۔

    ظریفہ کی پسندیدہ شخصیت امریکی خاتون اول مشل اوباما ہیں۔ ’میں جب انہیں گفتگو کرتے ہوئے سنتی ہوں تو مجھے اپنے عورت ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے‘۔

    ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں یہ آرکسٹرا ایک منفرد تاریخ رقم کرنے جارہا ہے۔ آرکسٹرا میں وائلن، پیانو اور افغانستان کے روایتی آلات موسیقی بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر سرمست کا ماننا ہے کہ، ’افغانستان کی پہچان کلاشنکوف، راکٹ اور خودکش حملے نہیں، بلکہ یہ لڑکیاں اور ان کا فن ہے‘۔

  • خواتین کو ہراساں کرنے کی شکایات کے سدباب کے لیے موبائل ایپ تیار

    خواتین کو ہراساں کرنے کی شکایات کے سدباب کے لیے موبائل ایپ تیار

    لاہور: خواتین کو ہراساں کرنے کی شکایات کے ازالے کے لیے اب جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ پنجاب سیف سٹی انتظامیہ نے ایسی موبائل ایپ بنا لی ہے جو ایسے واقعات کے خلاف اقدامات کرنے میں مدد دے گی۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کے اشتراک سے پنجاب سیف سٹی انتظامیہ نے ایک موبائل ایپ بنائی ہے جس کے تحت خواتین اپنے ساتھ ہونے والے ناخوشگوار واقعے کو فوری رپورٹ کر سکیں گی۔

    اس ایپ کے تحت اسے استعمال کرنے والی خاتون جیسے ہی وارننگ سگنل پریس کریں گی، فوراً ہی ڈولفن فورس کے قریبی دستے کو واقعہ اور جائے وقوع کی اطلاع موصول ہوجائے گی اور وہ حرکت میں آجائے گی۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    ڈولفن فورس کے علاوہ قریبی پولیس اسٹیشن میں اسی کام کے لیے متعین اہلکار اور پولیس رسپانس یونٹ کے اہلکار بھی ان شکایات پر ایکشن لینے کے ذمے دار ہوں گے۔

    اینڈرائیڈ فون کے لیے بنائی جانے والی اس ایپ میں موصول ہونے والی شکایت کے ازالے کے لیے اسے سیف سٹی پراجیکٹ کے ساتھ اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔

    پنجاب سیف سٹی انتظامیہ کے چیف آپریٹنگ آفیسر اکبر ناصر خان کا کہنا ہے کہ یہ ایپ نہ صرف 24 گھنٹے فعال رہے گی بلکہ اسے انٹرنیٹ کا کنکشن نہ ہونے کی صورت میں بھی بآسانی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: خواتین پر تشدد کے خلاف آگاہی ۔ مینار پاکستان نارنجی رنگ سے روشن

    پنجاب کمیشن آن دا اسٹیٹس آف ویمن کی چیئر پرسن فوزیہ وقار کے مطابق اس ایپ کے ذریعہ خواتین صوبے میں اپنے (خواتین کے) متعلق قوانین سے بھی آگاہی و معلومات حاصل کرسکتی ہیں۔

    اس منصوبے کا پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر آج افتتاح کردیا جائے گا۔

  • پہلی بار ماں بننے والی خواتین کے دماغ میں تبدیلی

    پہلی بار ماں بننے والی خواتین کے دماغ میں تبدیلی

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلی بار ماں بننا خواتین کے دماغ کے خلیات کو تبدیل کردیتا ہے اور وہ قدرتی طور پر اپنے بچوں کے متعلق سوچنے لگتی ہیں۔

    نیچر نیورو سائنس نامی جریدے میں چھپنے والے تحقیقی مضمون کے مطابق پہلی بار حاملہ ہونے والی خواتین کے دماغ کے خلیات و افعال میں تبدیلی آتی ہے جس کے بعد وہ گزشتہ زندگی سے مختلف سوچنے لگتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق پہلی بار حمل ہونے کے بعد خواتین کے دماغ میں موجود سرمئی رنگ کے مادے (گرے میٹر) میں کمی آنے لگتی ہے۔ دماغ کا یہ حصہ دیکھنے، سننے، یادداشت، جذبات، بولنے، خود پر قابو پانے اور فیصلہ سازی میں کردار ادا کرتا ہے۔

    woman-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب اس سرمئی حصہ میں کمی یا زیادتی ہوتی ہے تو سوچنے کا انداز بدل جاتا ہے۔

    سائنسی و طبی ماہرین نے اس کے لیے ایسی خواتین کا دماغی اسکین کیا جو پہلی بار ماں بننے والی تھیں۔ 5 سال تک جاری رہنے والی اس تحقیق کے لیے خواتین کے حاملہ ہونے سے قبل، حمل کے دوران، اور بچے کی پیدائش کے بعد بار بار دماغ کا اسکین کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان عادات سے پرہیز ضروری ہے

    مضمون میں بتایا گیا کہ جذبات میں تبدیلی کے بعد مائیں اپنے بچوں کو اپنی زندگی کا اہم حصہ خیال کرنے لگتی ہیں اور ان کی سوچوں کا دائرہ کار اپنے بچے کے گرد گھومنے لگتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دماغ میں یہ تبدیلی دیرپا ہوتی ہے اور کافی عرصہ تک موجود رہتی ہے۔

    مضمون کے مطابق اسی قسم کا دماغی اسکین ان افراد کا بھی کیا گیا جو پہلی بار باپ بننے والے تھے، تاہم باپ بننے سے قبل یا بعد میں ان کے دماغ میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔

  • سال 2016: دنیا پر انمٹ نقوش مرتب کرنے والی خواتین

    سال 2016: دنیا پر انمٹ نقوش مرتب کرنے والی خواتین

    دنیا کا کوئی بھی شعبہ ہو، خواتین کی شمولیت کے بغیر ادھورا ہے۔ آج اکیسویں صدی میں یہ بات ایک حقیقت بن چکی ہے جب ہمیں ایسے شعبوں میں بھی خواتین نظر آتی ہیں جنہیں اس سے پہلے صرف مردوں کے لیے ہی مخصوص سمجھا جاتا تھا۔

    سال 2016 میں کئی پاکستانی خواتین نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ ترقی یافتہ شہروں سے لے کر پسماندہ اور روایت پسند علاقوں تک کئی خواتین اپنے عزم و حوصلے کے سبب دنیا کی نظروں کا مرکز بنیں اور یہ پیغام دیا کہ وقت بدل رہا ہے، خواتین کی اہمیت کو تسلیم نہ کرنے والوں کو اب اپنا ذہن بدلنا ہوگا۔

    آئیے دیکھتے ہیں کہ اس سال کن خواتین نے پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کیا۔


    حوصلے اور انتھک جدوجہد کی مثال پاکستانی خواتین

    پاکستانی نژاد خاتون نرگس ماولہ والا نے اس وقت پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کردیا جب انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ خلا میں کشش ثقل کی لہروں کی نشاندہی کرنے کا کارنامہ انجام دے ڈالا۔

    فروری کی ایک روشن صبح پاکستان کی پہلی آسکر ایوارڈ یافتہ شخصیت شرمین عبید چنائے دوسرا آسکر ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوگئیں۔ ان کی ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم ’آ گرل ان دی ریور ۔ پرائس آف فورگیونیس‘ غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر بنائی گئی جس نے پاکستانی قوانین پر بھی واضح اثرات مرتب کیے۔

    ساؤتھ ایشین گیمز 2016 میں دو پاکستانی لڑکیاں رخسانہ اور صوفیہ پاکستان کے لیے باکسنگ کے میدان میں میڈلز جیتنے والی اولین خواتین بن گئیں۔

    اپریل میں پاک نیوی کی تاریخ میں پہلی بار بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ذکیہ جمالی پاکستان نیوی کی پہلی کمیشن آفیسر بن گئیں۔

    اسی ماہ سوات سے تعلق رکھنے والی تبسم عدنان کو خواتین کے حقوق کے لیے انتھک جدوجہد پر کولمبیا میں نیلسن منڈیلا ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    پاکستان کی پہلی خاتون شوٹر مناہل سہیل نے ریو اولمپکس 2016 میں حصہ لیا۔

    کوئٹہ کے اسلامیہ گرلز کالج میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ نورینہ شاہ نے اس وقت ملک بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی جب علم فلکیات پر اپنے مطالعے اور تجزیے کے باعث اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور دنیا بھر کے ماہرین فلکیات نے ان کی مہارت کو سراہا۔

    اگست میں ہونے والے ریو اولمپکس کے مقابلوں میں پاکستانی نژاد مادیہ غفور نے یوں تو نیدر لینڈز کی نمائندگی کی، تاہم وہ اولمپک مقابلوں میں شریک ہونے والی پہلی بلوچ خاتون کھلاڑی تھی۔

    اگست میں ہی 2 پائلٹ بہنوں مریم مسعود اور ارم مسعود نے بطور کو پائلٹ بیک وقت 777 بوئنگ طیارے اڑا کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔

    ستمبر میں پاکستانی طالبہ شوانہ شاہ کو امریکا میں محمد علی ہیومنٹیرین ایوارڈ سے نوازا گیا۔ شوانہ شاہ سنہ 2012 سے معاشرے کی پسماندہ خواتین کی بحالی، ان پر تشدد اور جنسی ہراسمنٹ کے خلاف کام کر رہی ہیں۔

    اسی ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہلی دفعہ منعقد کیے جانے والے گلوبل گولز ایوارڈز میں ایک پاکستانی ادارے ’ڈاکٹ ۔ ہرز‘ نے بہترین اور کامیاب کوشش کا ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔ یہ ادارہ پسماندہ علاقوں کی خواتین کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    پاکستانی خاتون ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا۔ اس عہدے کی دوڑ میں کل 6 امیدواروں میں صرف 2 خواتین شامل تھیں جن میں سے ایک ڈاکٹر ثانیہ نشتر تھیں۔

    اکتوبر میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات سے تعلق رکھنے والی نویں جماعت کی طالبہ حدیقہ بشیر کو ایشیائی لڑکیوں کے حقوق کی سفیر کا ایوارڈ دیا گیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی لڑکی ہیں۔

    چودہ سال قبل اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی مختاراں مائی اس وقت ایک بار پھر سب کی توجہ کا مرکز بن گئیں جب فیشن پاکستان ویک 2016 میں انہوں نے ریمپ پر واک کی۔ اس اقدام کا مقصد نہ صرف خواتین کو بااختیار بنانے کے اقدام کی حمایت کرنا تھا، بلکہ لوگوں کی توجہ ریپ جیسے گھناؤنے جرم کی طرف دلانا بھی تھا۔

    نومبر میں پاکستان کی ڈیجیٹل حقوق فاؤنڈیشن کی بانی نگہت داد کو ہالینڈ حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کے ٹیولپ ایوارڈ 2016 سے نوازا گیا۔

    اسی ماہ سوات سے تعلق رکھنے والی دو لڑکیوں گلالئی اسمعٰیل اور صبا اسمعٰیل کے قائم کردہ سماجی ادارے ’اویئر گرلز‘ کو سابق فرانسیسی صدر سے منسوب شیراک پرائز سے نوازا گیا۔ اویئر گرلز گزشتہ 14 سال سے پختونخواہ میں خواتین کی تعلیم وصحت کے لیے سرگرم عمل ہے۔

    دسمبر میں رافعہ قسیم بیگ بم ڈسپوزل یونٹ کا حصہ بننے والی پہلی پاکستانی اور ایشیائی خاتون بن گئیں۔ وہ اس سے قبل خیبر پختونخوا کی پولیس فورس میں خدمات انجام دے رہی تھیں۔


    ایک اہم سنگ میل

    پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے لیے سب سے اہم اقدام 7 اکتوبر 2016 کو اٹھایا گیا جب پارلیمنٹ میں غیرت کے نام پر قتل اور زنا بالجبر کے واقعات کی روک تھام کا بل منظور کرلیا گیا۔

    ترمیمی بل کے مطابق غیرت کے نام پر قتل فساد فی الارض تصور ہوگا اور صلح یا معافی کے باوجود 25 سال سزائے قید ہوگی۔

    بل میں عصمت دری کے مقدمات میں ملزم کا ڈی این اے ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا جبکہ متاثرہ خاتون کی شناخت کسی بھی سطح پر ظاہر نہ کرنے کی شق شامل کی گئی۔


    عالمی سیاست میں خواتین کا کردار

    دنیا بھر میں جہاں کئی شعبوں میں خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، وہیں شعبہ سیاست میں بھی خواتین کی تعداد میں اضافہ نظر آیا اور کئی اہم سیاسی عہدوں پر خواتین کی تقرری عمل میں آئی۔

    مئی میں جرمنی کی ایک ریاستی اسمبلی میں پہلی بار اسپیکر کے عہدے کے لیے مسلمان خاتون مہتریم آراس کو منتخب کیا گیا۔

    اسی ماہ تائیوان میں پہلی خاتون صدر سائی انگ ون کی حکومت کا آغاز ہوا۔

    جون میں ورجینیا راگی روم کی تاریخ میں ڈھائی سو سال بعد خاتون میئر منتخب ہوئیں۔

    جولائی میں تھریسا مے نے برطانوی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ آئرن لیڈی کہلائی جانے والی مارگریٹ تھیچر کے بعد وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی دوسری خاتون ہیں۔

    اگست میں ٹوکیو کی عوام نے اپنی پہلی خاتون گورنر یوریکو کوئیکے کا انتخاب کیا۔ اس سے قبل وہ ملک کی پہلی خاتون وزیر دفاع بھی رہ چکی تھیں۔

    امریکا میں رواں برس ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے سابق خاتون اول اور سابق سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن بھی میدان میں کھڑی ہوئیں، لیکن قسمت نے اس بار بھی ان کا ساتھ نہ دیا۔

    وہ اس سے قبل سنہ 2008 میں بھی بارک اوباما کے مدمقابل بطور صدارتی امیدوار کھڑی ہوئی تھیں۔ گو کہ وہ امریکا کی پہلی خاتون صدارتی امیدوار تو نہ تھیں، تاہم اگر وہ صدر منتخب ہوجاتیں، جس کے امکانات بہت زیادہ تھے، تو وہ امریکا کی پہلی خاتون صدر کہلاتیں۔

    صومالیہ میں سال کے آخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے ایک خاتون فڈومو ڈیب بھی امیدوار ہیں۔ اگر وہ صدر منتخب ہوگئیں تو صومالیہ کی پہلی خاتون صدر کہلائی جائیں گی۔


    دیگر اہم واقعات

    ریو اولمپکس 2016 میں امریکی ایتھلیٹ ابتہاج محمد وہ پہلی امریکی مسلمان خاتون بنیں جنہوں نے باحجاب ہو کر کھیلوں میں شرکت کی۔ ریو 2016 میں انہوں نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔

    بھارت میں تیزاب گردی کا شکار ریشما قریشی نے نیویارک فیشن ویک میں ریمپ پر واک کر کے یہ پیغام دیا کہ تیزاب سے مسخ ہوجانے والے چہروں کو بھی زندگی جینے کا حق ہے۔

    داعش کی خوفناک قید سے جان بچا کر بھاگ آنے والی کرد خاتون 23 سالہ نادیہ مراد طحہٰ کو اقوام متحدہ کا خیر سگالی سفیر مقرر کیا گیا اور انہیں یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی جانب سے سخاروف انعام سے نوازا گیا۔

    بھارت کی مشہور درگاہ حاجی علی میں خواتین کے داخلے پر عائد پابندی 4 سال بعد ختم کردی گئی۔

    سعودی شہزادے ولید بن طلال نے مطالبہ کیا کہ سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر ایک طویل عرصے سے عائد پابندی کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔

    امریکا کی کیسنڈرا ڈی پیکول نامی سیاح نے دنیا کے تمام ممالک کی سیاحت کرنے والی واحد خاتون کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔

  • افغان فضائیہ کی پہلی خاتون پائلٹ پناہ کی تلاش میں

    افغان فضائیہ کی پہلی خاتون پائلٹ پناہ کی تلاش میں

    کابل: کسی ملک کی فوج میں خواتین کی شمولیت، ان کا صف اول کے محاذ کے لیے تیار رہنا اور خطرناک جنگی طیارے اڑانا آج کل ایک عام بات بن چکی ہے۔ خواتین کے لیے دور اب پہلے جیسا نہیں رہا، اب وہ ہر اس شعبے میں نظر آرہی ہیں جو پہلے صرف مردوں کے لیے ہی مخصوص سمجھا جاتا ہے۔

    البتہ کسی قدامت پسند معاشرے میں کسی خاتون کا اس مقام تک جانا یقیناً ایک مشکل مرحلہ نظر آتا ہے، لیکن نیلوفر رحمانی ایسی ہی ایک افغان خاتون ہیں جو تمام مشکلات کو سر کر کے بالآخر افغان فضائیہ کی پہلی خاتون پائلٹ بننے کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔

    afghan-2

    چند سال قبل جب افغانستان میں طالبان کا قبضہ تھا، تب تو ان کا یہاں تک پہنچنا بالکل ہی ناممکن تھا، لیکن ان کے جانے کے بعد بھی حالات اتنے آسان نہیں ہیں۔ ایک قدامت پسند معاشرے کے لیے ایک عورت کو اس مقام پر دیکھنا بڑا دل گردے کا کام ہے۔

    بقول خالدہ پوپل، ’افغانستان سے طالبان کا کنٹرول ختم ہونے کے باوجود ان کی سوچ لوگوں میں سرائیت کر چکی ہے اور لڑکیوں کا مختلف شعبوں میں جانا انتہائی برا خیال کیا جاتا ہے‘۔

    خالدہ افغانستان کی پہلی ویمن فٹبال ٹیم کی کپتان ہیں اور قتل کی دھمکیاں موصول ہونے کے بعد فی الحال افغانستان سے باہر رہائش پذیر ہیں۔ اب وہ دنیا بھر میں خواتین کی خود مختاری کے لیے کام کر رہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: افغانستان کی خالدہ پوپل ۔ عزم و ہمت کی روشن مثال

    خالدہ کی طرح نیلوفر رحمانی کو بھی افغانستان میں بے شمار دھمکیاں موصول ہوئیں جس کے بعد مجبور ہو کر انہوں نے امریکا میں سیاسی پناہ کی درخواست دے دی ہے۔

    ایک امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’افغانستان میں کچھ بھی نہیں بدلا، خواتین کے لیے حالات ویسے ہی ہیں۔ اگر تبدیلی آئی ہے تو صرف اتنی کہ حالات پہلے سے بدتر ہوگئے ہیں‘۔

    مزید پڑھیں: افغان خواتین کی غیر قانونی قید ۔ غیر انسانی مظالم کی دردناک داستان

    نیلوفر نے سنہ 2013 میں ہرات کے شندند ایئر بیس سے گریجویشن مکمل کی۔ اس وقت وہ اپنے ملک کے لیے خدمت انجام دینے کا عزم رکھتی تھیں، تاہم انسانی فطرت کے عین مطابق اب وہ اپنی زندگی کو پہلی فوقیت دیتی ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ان کے لیے حالات ٹھیک نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف انہوں نے امریکا میں رہائش کے لیے درخواست دے دی ہے، بلکہ وہ امریکی فوج میں شامل ہو کر اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں۔

    انہوں نے اپنی 15 ماہ کی تربیت بھی امریکی ریاست ٹیکسس سے حاصل کی ہے۔

    afghan-5

    afghan-4

    afghan-6

    سنہ 2015 میں نیلوفر اس وقت پہلی بار خبروں کی زینت بنی تھیں جب انہوں نے افغان فضائیہ کا پہلا طیارہ اڑا کر افغانستان کی پہلی خاتون پائلٹ بننے کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ اسی سال انہیں واشنگٹن میں سال کی باہمت ترین خاتون کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    نیلوفر رحمانی ان افغان لڑکیوں کے لیے ایک مثال ہیں جو اپنی خداداد صلاحیتوں کا استعمال کرنا چاہتی ہیں، اور کچھ کر گزرنا چاہتی ہیں، لیکن اس کے لیے وہ معاشرے کی قدامت پسند روایتوں کو توڑنے کی ہمت نہیں رکھتیں۔ وہ روایتیں، جو بقول خالدہ پوپل خواتین کے لیے زیادہ سخت اور بے لچک ہیں۔

  • خواتین کو مردوں کی نسبت زیادہ نیند کی ضرورت

    خواتین کو مردوں کی نسبت زیادہ نیند کی ضرورت

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر شخص کے بارے میں یہ سوچنا کہ اس کے لیے 8 گھنٹوں کی نیند کافی ہے، ایک نہایت غلط تصور ہے۔ خواتین کو مردوں کی نسبت زیادہ نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق خواتین کو مردوں کے سونے کی مدت سے 20 منٹ زیادہ نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ خواتین کے دماغ کی ساخت اور اس کے بیک وقت سر انجام دیے جانے والے مختلف افعال ہیں۔

    مزید پڑھیں: خواتین بے چینی کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟

    انہوں نے بتایا کہ خواتین کے دماغ کو مردوں کے دماغ کی نسبت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ ان کے دماغ کا ہر حصہ ایک ہی وقت میں مختلف کام سر انجام دے رہا ہوتا ہے۔ یہ ایک عام اصول ہے کہ جو چیز زیادہ استعمال میں ہو اور سخت محنت کرے اسے آرام کی ضرورت بھی زیادہ ہوتی ہے۔

    آپ نے اپنے گھر میں موجود خواتین خانہ کو بھی دیکھا ہوگا کہ وہ ایک وقت میں کئی کام کر رہی ہوتی ہیں اور ان کا دماغ مختلف جگہوں پر منسلک ہوتا ہے۔ گھر میں موجود تمام افراد کی مختلف ضروریات کو پورا کرنا، کچن کے کام، گھر کے دیگر حصوں کے کام، گھر میں آنے والے مختلف افراد جیسے کام والی، دودھ والے اور سبزی والے سے نمٹنا یہ سب کام وہ ایک وقت میں انجام دے رہی ہوتی ہیں۔

    women-2

    یہ صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے جب خاتون خانہ ملازمت پیشہ بھی ہوں۔ ایسے میں وہ گھر اور دفتر کے دس جھمیلوں سے بیک وقت برسر پیکار ہوتی ہیں۔

    دوسری جانب مرد ایک وقت میں ایک ہی کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ سائنسی تحقیق میں یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ مردوں کے دماغ میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ بیک وقت کئی میدانوں میں اتر سکیں۔ وہ ایک وقت میں کسی ایک چیز یا کسی ایک ہی کام پر توجہ مرکوز رکھ سکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: مثبت سوچ کی حامل خواتین کی عمر لمبی

    اسی طرح خواتین کے دماغ میں جمع ہونے والی معلومات کی مقدار بھی مردوں کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ ہے۔ یعنی ایک مرد اگر ایک چیز کو یاد رکھ سکتا ہے تو اسی وقت میں ایک خاتون 5 چیزوں کو یاد رکھ سکتی ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ دن کے اختتام پر خواتین کا دماغ اتنے بہت سے کام کر کے تھک جاتا ہے اور اسے مردوں کے مقابلے میں زیادہ آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔

  • ژوب کی خواتین زچگی کے آپریشن مرد ڈاکٹرز سے کروانے پر مجبور

    ژوب کی خواتین زچگی کے آپریشن مرد ڈاکٹرز سے کروانے پر مجبور

    کوئٹہ: بلوچستان کے ضلع ژوب کے ڈی ایچ کیو اسپتال میں گائنا کالوجسٹ نہ ہونے کے باعث خواتین زچگی کے پیچیدہ آپریشن مرد ڈاکٹرز سے کروانے پر مجبور ہیں جس کے باعث انہیں شدید نفسیاتی و سماجی مسائل کا سامنا ہے۔

    پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کاؤنسل پی ایم ڈی سی کے مطابق ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی والے صوبے بلوچستان میں 2 ہزار 6 سو 77 مرد جبکہ صرف 18 سو خواتین ڈاکٹرز موجود ہیں یعنی 3 ہزار افراد کو صرف ایک ڈاکٹر میسر ہے۔

    بلوچستان کے دوسرے بڑے ضلع ژوب کی آبادی ساڑھے 4 لاکھ سے زائد ہے۔ ژوب ہمیشہ سے مختلف شعبہ جات میں زبوں حالی کا شکار ہے جس میں صحت عامہ کا شعبہ بھی شامل ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی بائیک ایمبولینس

    ژوب کے واحد زنانہ اسپتال میں ماہر خاتون ڈاکٹر یا گائنا کالوجسٹ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین مرد ڈاکٹروں سے زچگی کے پیچیدہ کیسز کے آپریشن کروانے پر مجبور ہیں۔

    یہ صورتحال یہاں کے مرد و خواتین کے لیے سخت الجھن کا باعث ہے۔ قبائلی علاقہ ہونے کے باعث یہاں خواتین کے لیے روایتی پردہ دار ماحول ہے۔ اس صورتحال میں زچگی کے کیسز بگڑ جانے کے بعد ان کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ اور ان کے اہل خانہ مرد ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کریں۔

    دوسری جانب بلوچستان کے وزیر صحت رحمت صالح بلوچ کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت کو درپیش مسائل ورثے میں ملے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے وزارت سنبھالی اس وقت صرف 5 ضلعی اسپتالوں میں گائنا کالوجسٹ تھے۔ اب 24 اسپتالوں میں تعینات ہیں لیکن ژوب کا ضلعی اسپتال تاحال محروم ہے۔

    انہوں نے یقین دلایا کہ خواتین کی مشکلات کے پیش نظر بہت جلد ڈی ایچ کیو اسپتال میں گائنا کالوجسٹ کی تعیناتی عمل میں لائی جائے گی۔

    مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ شہریوں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے تاہم اس شعبہ میں وہ حکومتی اقدامات سے مایوس نظر آتے ہیں۔