Tag: خواتین

  • پوری دنیا کی سیاحت کا عزم لیے امریکی سیاح کراچی پہنچ گئیں

    پوری دنیا کی سیاحت کا عزم لیے امریکی سیاح کراچی پہنچ گئیں

    کراچی: دنیا کے تمام ممالک کی سیاحت کا عزم لیے امریکی سیاح کیسنڈرا ڈی پیکول پاکستان کی سیاحت کے لیے کراچی پہنچ گئیں جہاں انہوں نے میئر وسیم اختر سے ملاقات کی۔

    امریکا کی کیسنڈرا ڈی پیکول دنیا کی پہلی باقاعدہ سب سے زیادہ سیاحت کرنے والی خاتون، کم عمر ترین امریکی سیاح اور دنیا میں سب سے تیز رفتار سیاحت کرنے کا اعزاز اپنے نام کرچکی ہیں۔

    تین سال قبل اس غیر معمولی سفر کا آغاز کرنے والی کیسنڈرا اب تک 193 ممالک کا سفر کر چکی ہیں اور بہت جلد وہ دنیا کے تمام ممالک کا سفر کرنے کا انوکھا ترین عالمی ریکارڈ حاصل کرلیں گی۔

    ایکسپیڈیشن 196 کے نام سے جانے والے اس سفر کے آغاز کے کچھ عرصہ بعد ہی کیسنڈرا کو عالمی ادارہ برائے امن بذریعہ سفر نے اپنا اعزازی سفیر بھی مقرر کردیا جس کے بعد اب وہ دنیا بھر میں امن اور محبت کا پیغام لے کر جاتی ہیں۔

    اس سفر میں کیسنڈرا کو مختلف بین الاقوامی کمپنیوں اور تجارتی اداروں کا مالی تعاون حاصل ہے۔

    گزشتہ روز وہ پاکستان کی سیاحت کے لیے کراچی پہنچیں جہاں انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ میئر کراچی وسیم اختر سے بھی ملاقات کی۔

    cassie-4

    cassie-3

    cassie-2

    اپنے اگلے مرحلے میں وہ لاہور اور اسلام آباد بھی جائیں گی۔ پاکستان کے ویزے کے حصول کے لیے انہیں تقریباً 4 ماہ کا انتظار کرنا پڑا اور جب انہیں ویزا ملا تو ان کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔

    The hospitality I’ve received so far in #Pakistan and specifically #Karachi has been astounding! From being offered a random, free upgrade to business class on @gulfair to being graced with the amazing hospitality of the crew and entering the cockpit and meeting the Pilot (the Captain knew about my Expedition before I even told him!), speaking to the students at the Institute of Business Administration, meeting the Mayor of Karachi, Mr. Wasim Akhtar, for the planting of the Cedrus Deodara tree (the National Tree of Pakistan) , coming back to my beautiful (sponsored) hotel and seeing my story and Mission on the front page of Traveller International, and finally, meeting with @rotaryinternational tonight! So incredibly humbling. Also, just comes to show (for those who think I’m not seeing anything in the countries I visit and that 2-5 days isn’t enough) that it’s all about time management and maximizing every moment of your time to make the most with what you have. But same applies to everything else in life, doesn’t it? My time here in Pakistan has just begun and has been one of the many wonderfully educational and culturally enriching experiences on #Expedition196. Don’t judge a book by its color or a country by the media. Much love ❤️ #peacethroughtourism • • • ✨Snapchat @ cassiedepecol To view all videos from today including the tree planting and meeting with the Mayor, head to Facebook.com/expedition196 ✨

    A photo posted by ᶜᴬˢˢᴵᴱ ᴰᴱ ᴾᴱᶜᴼᴸ| ᴼᶠᶠᴵᶜᴵᴬᴸ ᴾᴬᴳᴱ (@expedition_196) on

    ان کے سفر کی کچھ تصاویر دیکھیئے۔

    Let’s Talk Money: Part II Still, so many questions coming in about getting sponsored. "I want a sponsor”, "I want sponsors to pay for my travels”, etc. • • • Let me be frank, finding sponsors is not easy, in fact for me, besides the visas, keeping a steady cash flow was the most difficult aspect of this Expedition. About 8 months in, I was really struggling and had to keep taking breaks to come home to be proactive in reaching out to potential companies again. And we’re not taking 10-20, we’re taking 500-1,000. Sorry to disappoint, but companies will not give you their money just for you to "travel”. It’s essential that you have a purpose, a Mission, and an end result to make them see the value in contributing to your project, even if that project includes travels. To be honest, I had already traveled to 25 countries on my own with my own money where I backpacked and worked along the way to maximize the $2k that I saved the summer prior, and made it work. This trip for me wasn’t about seeing the world and enjoying myself, I needed it to be WAY more than that if I was to dispel all of my energy taking this huge risk. I consider myself a salesperson. I offer these companies something that benefits their business and in return, they provide my company with cash/goods/services. • • • Once you’ve found your: A) Passion B) Purpose C) Mission and D) Have committed yourself to your vision Here are some tips as to finding funding for your project (any project, but let’s use travel in this case)… • Develop your brand/company into something marketable (read books, do your research, craft your business plan) • Get a non-profit or two to back you up, endorse you, even fund your venture • Find a mentor • Make business cards • Network. Find conferences, professional events, use LinkedIn, etc. Make friends with the people within your industry and develop proper connections • Create a proposal, sponsorship deck and short pitch • Develop an Excel spreadsheet of all the companies that resonate with your values • Find their emails and, • Pitch your proposal/deck — Hopefully these tips will get you one step closer towards achieving your travel/career goals.

    A photo posted by ᶜᴬˢˢᴵᴱ ᴰᴱ ᴾᴱᶜᴼᴸ| ᴼᶠᶠᴵᶜᴵᴬᴸ ᴾᴬᴳᴱ (@expedition_196) on

    Just talked about my (potential) newest project for YOU on Snapchat (@cassiedepecol) which would involve mentoring you guys through online webinars, Skype sessions, etc. that would further your potential with following your dreams in regards to entrepreneurial development (and travel). Is this something you guys would be interested in? No worries if not, but if so, comment below and let me know! Also what specific types of things you’d want me to cover (sponsors, trip planning, business plans, etc). If I see a serious interest then I’ll start working to have it scheduled for you guys in the new year, I’ll need a minimum of 1,000 of you guys (youth, students, dreamers and doers) to want to sign up! There’d probably be a small monthly fee since you guys would be the first to see the documentary and be exposed to the new book, as well as tons of inside tips to finding sponsors and investors, but not too much, I promise, since I know most of you are students and I’ve been there too . Looking forward to reading your comments!! Thanks!! ❤️

    A photo posted by ᶜᴬˢˢᴵᴱ ᴰᴱ ᴾᴱᶜᴼᴸ| ᴼᶠᶠᴵᶜᴵᴬᴸ ᴾᴬᴳᴱ (@expedition_196) on

    PC: @supermattwilliams Sponsors: @landrover @landroverusa #landrover #landroverdiscovery #EagleCreek Location: #Malibu, CA

    A photo posted by ᶜᴬˢˢᴵᴱ ᴰᴱ ᴾᴱᶜᴼᴸ| ᴼᶠᶠᴵᶜᴵᴬᴸ ᴾᴬᴳᴱ (@expedition_196) on

    You need to spend time crawling alone through shadows to truly appreciate what it is to stand in the sun. – Shaun Hick

    A photo posted by ᶜᴬˢˢᴵᴱ ᴰᴱ ᴾᴱᶜᴼᴸ| ᴼᶠᶠᴵᶜᴵᴬᴸ ᴾᴬᴳᴱ (@expedition_196) on

    Being aired tonight at 19:30 on MBC Mauritius! #expedition196

    A photo posted by ᶜᴬˢˢᴵᴱ ᴰᴱ ᴾᴱᶜᴼᴸ| ᴼᶠᶠᴵᶜᴵᴬᴸ ᴾᴬᴳᴱ (@expedition_196) on

    I don’t know what’s better, the moon or the company… • • • #NikonD750 #tripod #sandbar #SonevaFushi #Sponsored #Expedition196 #thebestmemories

    A photo posted by ᶜᴬˢˢᴵᴱ ᴰᴱ ᴾᴱᶜᴼᴸ| ᴼᶠᶠᴵᶜᴵᴬᴸ ᴾᴬᴳᴱ (@expedition_196) on

  • خیبر پختونخواہ میں خواتین کے لیے علیحدہ بس سروس

    خیبر پختونخواہ میں خواتین کے لیے علیحدہ بس سروس

    اسلام آباد: اقوام متحدہ اور جاپانی سفارت خانے نے خیبر پختونخواہ میں خواتین کے لیے خصوصی ٹرانسپورٹ کے منصوبے پر باہمی اشتراک سے کام شروع کرنے کے لیے متعلقہ دستاویزات پر دستخط کردیے ہیں۔

    دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں اکنامک افیئرز ڈویژن، کمیشن برائے منصوبہ بندی پاکستان، خیبر پختونخوا کے شعبہ ٹرانسپورٹ اور پاکستان میں تعینات اقوام متحدہ کے مختلف نمائندگان نے شرکت کی۔

    مزید پڑھیں: خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی ختم کی جائے، سعودی شہزادے کا مطالبہ

    صوبے بھر میں چلائی جانے والی یہ بسیں صرف خواتین کے لیے مختص ہوں گی۔

    یہ منصوبہ اقوام متحدہ کے پروجیکٹ سروسز ادارے یو این او پی ایس، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین اور خیبر پختونخواہ کے شعبہ ٹرانسپورٹ کے اشتراک سے شروع کیا جارہا ہے جبکہ اس کے لیے مالی معاونت جاپانی حکومت کی جانب سےفراہم کی جائے گی۔

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں تعینات اقوام متحدہ کے کو آرڈینیٹر نیل بنہی نے بتایا کہ ٹرانسپورٹ سروس برائے خواتین کا مقصد خواتین کو محفوظ اور آرام دہ سفری سہولیات فراہم کرنا ہے۔ ’اس اقدام سے انہیں گھر سے باہر ہراسمنٹ اور چھیڑ چھاڑ کے واقعات سے بچایا جاسکے گا‘۔

    یو این او پی ایس کے پاکستان میں تعینات نمائندہ محمد حیدر رضا کا کہنا تھا کہ مخلوط سفری سہولیات میں کام کرنے والی خواتین اور طالبات کو مرد مسافروں، بس ڈرائیوروں اور کنڈکٹرز کی جانب سے ںامناسب رویے کا سامنا ہوتا ہے جبکہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کی شرح بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں زیادہ ہے۔

    مزید پڑھیں: عوامی مقامات پر خواتین کی ہراسمنٹ سے بچاؤ کے لیے اہم اقدام

    انہوں نے کہا کہ خواتین کے لیے شروع کیے جانے والے اس منصوبے میں شرکت یو این او پی ایس کے لیے اعزاز کی بات ہے۔

    خیبر پختونخواہ کے شعبہ ٹرانسپورٹ کے نمائندگان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ خیبر پختونخواہ میں شروع کیے جانے والے ماس ٹرانزٹ سسٹم کا حصہ ہے۔ ’ہمیں خوشی ہے کہ ہم خواتین کو علیحدہ اور محفوظ سفری سہولیات فراہم کرنے کے قابل ہوسکیں گے‘۔

    منصوبے کے تحت خیبر پختونخواہ کے 3 ضلعوں پشاور، مردان اور ایبٹ آباد میں بس سروس شروع کی جائے گی۔

  • مثبت سوچ کی حامل خواتین کی عمر لمبی

    مثبت سوچ کی حامل خواتین کی عمر لمبی

    آپ زندگی کے مختلف معاملات کو کیسے دیکھتی ہیں؟ کیا آپ بقول محاورہ آدھا بھرا گلاس دیکھنے کی عادی ہیں؟ یا پھر آپ کو گلاس آدھا خالی نظر آتا ہے؟ اگر آپ گلاس کو آدھا خالی سمجھتی ہیں تو پھر آپ کو اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ آپ کی جلد موت کا سبب بن سکتے ہیں۔

    امریکی شہر بوسٹن میں کیے جانے والے ایک تحقیقی سروے سے ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا کہ وہ خواتین جو زندگی کے تمام مسائل و معاملات میں پر امید رہتی ہیں اور مثبت سوچ رکھتی ہیں، وہ لمبی زندگی جیتی ہیں۔

    ماہرین نے اس کے لیے 70 ہزار خواتین کا 8 سال کا ڈیٹا جمع کیا۔ نتائج سے انہیں معلوم ہوا کہ مثبت سوچ کی حامل خواتین میں کینسر، امراض قلب، فالج اور مختلف اقسام کے انفیکشن اور ان کے باعث موت کا خطرہ کم پایا گیا۔

    woman-2

    ریسرچ میں شامل ایک پروفیسر کیٹلین ہیگر کا کہنا ہے کہ زندگی کا روشن رخ دیکھنے والے مرد و خواتین اپنا طرز زندگی بھی مثبت اور صحت مندانہ رکھتے ہیں۔ وہ ورزش کرتے ہیں، نیند پوری کرتے ہیں اور متوازن غذائیں کھاتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ پر امیدی اور مایوس نہ ہونے کی عادت ہمارے جسمانی نظام پر خوشگوار اثر ڈالتی ہے اور جسم کو مختلف بے قاعدگیوں میں مبتلا ہونے سے روکتی ہے۔

    ماہرین نے تحقیقی نتائج کو مزید واضح کرتے ہوئے بتایا کہ مثبت سوچ کی حامل خواتین میں کینسر سے موت کا خطرہ 16 فیصد، امراض قلب سے 38 فیصد، فالج سے 39 فیصد اور کسی قسم کے انفیکشن کے باعث موت کا خطرہ 52 فیصد کم ہوتا ہے، بہ نسبت ان خواتین کے جو ناامید اور منفی سوچ رکھتی ہیں۔

    woman-3

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ منفیت پرستی اور منفی سوچ گو کہ بیماریوں میں مبتلا نہیں کرتی لیکن یہ ہماری صحت پر برے اثرات ضرور مرتب کرتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ ضروری ہے کہ ہم مثبت اختتام والی فلمیں اور ڈرامے دیکھیں، مثبت سوچ رکھنے والے افراد سے تعلق رکھیں اور ہر صورت حالات کا روشن رخ دیکھیں۔

  • بم ڈسپوزل یونٹ کی پہلی خاتون اہلکار

    بم ڈسپوزل یونٹ کی پہلی خاتون اہلکار

    پشاور: خیبر پختونخوا کی پولیس فورس میں شامل خاتون اہلکار رافعہ قسیم بیگ بم ڈسپوزل یونٹ کا حصہ بن گئیں۔ وہ اس یونٹ کا حصہ بننے والی پہلی پاکستانی اور ایشیائی خاتون ہیں۔

    پشاور سے تعلق رکھنے والی رافعہ نے 7 سال قبل محکمہ پولیس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں تسلسل سے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے بھی ان کے عزم کو متزلزل نہیں کیا اور وہ اپنے شعبہ میں آگے بڑھتی چلی گئیں۔

    مزید پڑھیں: قطر میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے سرگرم راحت منظور

    بی ڈی یو کا حصہ بننے سے قبل رافعہ کو مرد اہلکاروں کے ہمراہ نوشہرہ کے اسکول آف ایکسپلوسو ہینڈلنگ میں بموں کی اقسام، شناخت اور ناکارہ بنانے کی تربیت دی گئی۔

    bdu-2

    رافعہ کی پروفیشنل ٹریننگ ابھی جاری ہے اور وہ 15 روز بعد بم ڈسپوزل کا کام باقاعدہ شروع کریں گی۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے رافعہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ ایشیا کی تاریخ تبدیل کردیں گی۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان ان کا گھر ہے اور اپنے گھر کی حفاظت کے لیے وہ اپنے خون کا آخری قطرہ بہانے سے بھی گریز نہیں کریں گی۔

    مزید پڑھیں: پاکستانی سماجی تنظیم کے لیے اعلیٰ فرانسیسی اعزاز

    رافعہ کا عزم ہے کہ وہ ملک بھر کی خواتین کے لیے ایک مثال قائم کریں کہ خواتین کمزور نہیں ہوتیں بلکہ وہ اس قدر باہمت ہوتی ہیں کہ بم اور بارود بھی ان کے سامنے کھلونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    وہ چاہتی ہیں کہ اپنی شاندار کارکردگی سے وہ دنیا بھر میں اپنے ملک اور محکمہ پولیس کا مثبت تاثر اجاگر کریں۔

  • بھارت میں کاشتکار خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بننے پر مجبور

    بھارت میں کاشتکار خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بننے پر مجبور

    نئی دہلی: بھارت سمیت کئی ایشیائی ممالک کے دیہاتوں میں خواتین کا کھیتوں میں کام کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی یہ عورتیں مردوں ہی کی طرح سرد و گرم برادشت کرتی اور ان ہی کے جیسی یکساں محنت کرتی ہیں۔

    لیکن ان خواتین کاشتکاروں کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جسے کوئی نہیں جانتا، یا جانتا بھی ہے تو اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔

    بھارت میں گنے کے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین اپنے اہلخانہ کو پالنے کے لیے نہ صرف ان کھیتوں کو جسمانی مشقت اور اپنا خون پسینہ دیتی ہیں، بلکہ زمینداروں کو اپنی قیمتی متاع حیات یعنی عزت بھی دینے پر مجبور ہیں۔

    india-4

    اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب ممبئی میں خواتین کے لیے کام کرنے والی کچھ تنظیمیں ان خواتین کاشتکاروں کی حالت زار کا جائزہ لینے کے لیے پہنچیں۔

    کھیتوں میں کام کرتی یہ خواتین اپنی رضا مندی سے زمینداروں اور اپنے نگرانوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتی ہیں، لیکن اس ’رضا مندی‘ کے لیے انہیں مجبور کیا جاتا ہے، کبھی تشدد کی صورت اور کبھی معاشی احسانات کے عوض۔

    مشکل در مشکل

    بھارتی ریاست مغربی مہاراشٹر میں بھی گنے کے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کاشتکاروں کے لیے اپنے مالکوں اور نگرانوں کی جانب سے جنسی زیادتی اور تشدد ایک عام سی بات ہے۔

    بھیودے بھی انہی خواتین میں سے ایک ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایسے ہی ایک زبردستی جسمانی تعلق کے بعد جب وہ حاملہ ہوئیں تو یہ کوئی آسان حمل نہیں تھا۔ انہیں شدید طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا جو ان کے نومولود بچے کی موت پر منتج ہوا۔

    india-3

    ڈاکٹر نے انہیں ہسٹرریکٹمی یعنی اپنی بچہ دانی نکلوانے کا مشورہ دیا تاکہ مستقبل میں مزید ایسی تکالیف سے بچا جاسکے۔

    اور ایسا مشورہ پانے والی بھیودے پہلی عورت نہیں تھی۔ کھیتوں میں زمینداروں کی ہوس کا نشانہ بنتی تقریباً ہر عورت کو یا تو اپنے خاندان والوں کی جانب سے اس عمل کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، یا پھر وہ خود ہی اس عمل سے گزرتی ہے تاکہ اپنی زندگی کو کسی حد تک آسان بنا سکے۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    دراصل کھیتوں میں ان خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات اس قدر عام، اور تسلسل کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں کہ انہیں بار بار حمل سے بچنے کے لیے یہی ایک آخری حل نظر آتا ہے۔

    یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بغیر وقفوں کے مستقل کام کرسکیں اور اپنے خاندانوں کا پیٹ پال سکیں۔

    ان خواتین کا سروے کرنے والی ممبئی کی ایک تنظیم کے رکن نیرجا بھٹنا گر کا کہنا ہے کہ یہ ایک ناقابل بیان قسم کا تشدد ہے۔ ’یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے کہ آپ کسی کو اس کے جسم کے کسی حصہ سے اس لیے محروم کردیں، تاکہ وہ ایسی معیشت میں اپنا کردار ادا کرسکے جو اسے ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں پہنچا رہی‘۔

    خواتین مجبور کیوں ہیں؟

    بھارت دنیا کا دوسرا بڑا چینی پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اس کاروبار کے لیے بھارت کے طول و عرض پر بے شمار گنے کے کھیت ہیں جن میں کام کرنے کے لیے اس قدر افرادی قوت کی ضرورت ہے کہ نہ صرف مرد، بلکہ خواتین اور بچوں کو بھی اس مشقت میں ڈالا جاتا ہے۔

    گنے کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے عموماً میاں بیوی کو رکھا جاتا ہے۔ ان جوڑوں کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں جو رضا کارانہ طور پر اپنے ماں باپ کا ہاتھ بٹاتے ہیں تاہم معاوضے میں ان کا کوئی حصہ نہیں رکھا جاتا۔

    چونکہ ان کھیتوں میں کام کرنے کے لیے صرف جوڑوں کو ہی رکھا جاتا ہے لہٰذا کاشت کاری سے وابستہ خاندان اپنی لڑکیوں کی شادی اس عمر سے پہلے ہی کردیتے ہیں جو حکومت نے قانونی طور پر طے کر رکھی ہے یعنی 18 سال۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں دنیا کی ترقی کے لیے خطرہ

    کھیتوں میں فصل کی کٹائی نومبر سے مئی تک جاری رہتی ہے۔ اس دوران خواتین و بچے قابل استعمال اور ناقابل استعمال گنے کو علیحدہ کرتے ہیں اور یہ عمل صبح 4 بجے شروع ہوجاتا ہے جو بغیر کسی وقفے کے دوپہر ڈھلنے تک جاری رہتا ہے۔

    اس کے بعد یہ ان گٹھوں کو اپنی پیٹھ پر ڈھو کر بیل گاڑیوں میں رکھتے ہیں جو انہیں کھینچ کر فیکٹری میں لے جاتے ہیں جہاں انہیں چینی میں تبدیل کرنے کا کام شروع ہوتا ہے۔

    یہ مدت کاشت کاروں کے سال بھر کے روزگار کی مدت ہوتی ہے چنانچہ یہ دوسرے گاؤں دیہاتوں سے بھی عارضی ہجرت کر کے کھیتوں میں آبستے ہیں۔ اس دوران نہ تو انہیں جسم کی صفائی یا دیگر ضروریات کے لیے پانی میسر ہوتا ہے، نہ بجلی اور نہ ہی باقاعدہ بیت الخلا قائم کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔

    معاوضے کے لیے انہیں درمیان میں موجود ایک شخص سے واسطہ پڑتا ہے۔ 5 سے 6 ماہ کی اس مشقت کے ان سے 50 یا 60 ہزار روپے طے کیے جاتے ہیں، تاہم دینے کے وقت ان کی کچھ رقم روک لی جاتی ہے تاکہ اگلے سال یہ دوبارہ لوٹ کر آئیں۔

    خواتین دہری اذیت میں

    یہ ایک عام صورتحال ہے، تاہم خواتین اس سے کہیں زیادہ مشکلات کا شکار ہیں جن میں سرفہرست ان سے زیادتی، ہراساں کرنے اور نگرانوں کی جانب سے تشدد کے واقعات شامل ہیں۔

    کام کے دوران اگر کوئی کم عمر لڑکی، زبردستی کے تعلق یا کچھ عرصہ قبل ہوئی شادی کے نتیجے میں حاملہ ہوجائے تو سخت محنت اور جسمانی مشقت کے باعث حمل ضائع ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان عادات سے پرہیز ضروری ہے

    بار بار کی جنسی زیادتی کے باعث حمل سے بچنے کے لیے نہ صرف انہیں ہسٹرریکٹمی کا مشورہ دیا جاتا ہے، بلکہ ان کے مردوں کو بھی نس بندی کروانے پر زور دیا جاتا ہے تاکہ یہ خواتین حاملہ ہوئے بغیر زیادہ سے زیادہ کام کرسکیں۔

    سماجی رکن بھٹنا گر نے بتایا کہ انہوں نے اس سلسلے میں کچھ ڈاکٹرز سے بات کی جو ان کاشت کار خواتین کی ہسٹرریکٹمی کا عمل انجام دیتے ہیں۔ اس کام کے لیے وہ کم از کم 35 ہزار روپے فیس طلب کرتے ہیں اور یہ ان غریب اور بدحال خاندانوں کو مزید قرض میں دھنسا دیتا ہے۔

    india-5

    وہ کہتے ہیں، ’اس عمل کے لیے عورتوں کو خاندان والوں کی جانب سے مجبور کیا جاتا ہے تاہم آپ خاندان کو الزام نہیں دے سکتے۔ وہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کھیتوں میں ان کی عورتوں کے ساتھ کیا حالات پیش آئیں گے اور وہ کسی صورت ان کا تحفظ نہیں کر سکتے۔ لیکن انہیں زندگی گزارنے کے لیے کام کرنا ہے لہٰذا وہ مجبور ہیں‘۔

    دوسری جانب خواتین لاعلم ہیں کہ اس سرجری کے بعد بغیر آرام کیے سخت محنت کرنے کا ان کے جسم پر کیا نقصان ہوگا، نہ ہی وہ یہ جانتی ہیں کہ کم عمری میں ہی یہ عمل ان کے جسم پر آگے چل کر کیا خطرناک اثرات مرتب کرے گا۔

    مزید پڑھیں: ہر 3 میں سے ایک عورت تشدد کا شکار

    سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ جدید دور کی غلامی کی بدترین مثال ہے اور خواتین اس کا زیادہ شکار ہیں۔

    زمینداروں اور فیکٹری مالکان کی ہٹ دھرمی

    گنا فیکٹریوں کے مالکان اور کارکنان نے اس بات سے انکار کیا کہ کھیتوں میں ایسی کوئی صورتحال موجود ہے۔

    مہاراشٹر کو آپریٹو شوگر فیکٹریز فیڈریشن کے وائس چیئرمین کا کہنا ہے کہ ان کے علم میں ایسا کوئی واقعہ نہیں، نہ انہوں نے کبھی ایسا کچھ سنا۔ ’اگر یہ خواتین ایسی شکایت کرتی ہیں، یا وہ اپنے معاوضوں سے خوش نہیں، تو وہ وہاں کام کرنے آتی ہی کیوں ہیں‘۔

    ممبئی میں خواتین کے لیے سرگرم عمل ایک غیر ملکی تنظیم کی رکن افلیویا اگنز کا کہنا ہے کہ گو کہ جبری مشقت اور بدسلوکی کے خلاف بھارت میں قوانین موجود ہیں لیکن یہ تمام کاشت کار نچلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ اپنی اونچی ذات کے مالکوں سے خوفزدہ ہیں لہٰذا وہ کوئی قدم اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ کارکنان متحد ہو کر آواز اٹھائیں تو انہیں کچھ تحفظ مل سکے، لیکن کھیتوں کے مالکان ایسے واقعات کو ہی ماننے سے انکاری ہیں۔ کئی شوگر ملیں سیاستدانوں کی ہیں یا ان ملوں کے مالکان ان سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’ان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ وہ واپس اسی کام پر جانے پر مجبور ہیں جہاں ان کے ساتھ نہایت غیر انسانی اور بدترین سلوک کیا جاتا ہے‘۔

  • خواتین پر تشدد کے خلاف آگاہی: مینار پاکستان نارنجی رنگ سے روشن

    خواتین پر تشدد کے خلاف آگاہی: مینار پاکستان نارنجی رنگ سے روشن

    لاہور: خواتین پر تشدد اور صنفی امتیاز کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کے لیے مینار پاکستان نارنجی رنگ سے نہلا دیا گیا۔ یہ رنگ خواتین کے حقوق کی طرف توجہ دلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے آگاہی دینے کی سولہ روزہ مہم ’اورنج دا ورلڈ‘ جاری ہے۔ یہ رنگ خواتین کے حقوق اور ان کے تحفظ کو ظاہر کرنے کے لیے علامتی طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

    اس مہم کا آغاز گزشتہ ماہ 25 نومبر کو (خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن) سے ہوگیا۔ اس سلسلے میں دنیا بھر میں مختلف افراد اور اداروں نے یہ رنگ پہن کر اور مختلف عمارتوں کو اس رنگ میں رنگ کر خواتین پر تشدد کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔

    لاہور میں بھی اس سلسلے میں ایک آگاہی ریلی کا انعقاد کیا گیا جس کے اختتام پر مینار پاکستان کو نارنجی روشنیوں سے روشن کردیا گیا۔

    minar-4

    minar-3

    minar-2

    اس موقع پر پنجاب کی وزیر برائے بہبود خواتین حمیدہ وحید الدین نے بھی شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت خواتین پر تشدد کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ صوبائی محکمہ برائے بہبود خواتین نے ’ہر ٹاک 2016‘ کے نام سے ایک مہم کا آغاز بھی کیا ہے جس کے تحت صوبے بھر میں قومی ترقی اور خوشحالی کے لیے خواتین کے کردار کو اجاگر کرنے کے لیے آگاہی فراہم کی جارہی ہے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ 

    صوبائی وزیر کے مطابق اس مہم میں اقوام متحدہ کا اداہ برائے خواتین یو این وومین بھی ان کے ہم قدم ہے۔

    واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی رواں برس خواتین کو گھریلو تشدد سے بچانے کے لیے بل بھی منظور کر چکی ہے جس میں خواتین پر تشدد کرنے والے افراد کے لیے سخت سزائیں رکھی گئی ہیں۔

    رواں سال اکتوبر میں قومی اسمبلی میں بھی غیرت کے نام پر خواتین کے قتل اور انسداد عصمت دری کے خلاف بل منظور کرلیا گیا ہے جس کے تحت ان جرائم میں ملوث افراد کے لیے سخت سزائیں طے کرلی گئی ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں کسی نہ کسی قسم کے جسمانی، جنسی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف صنف کی بنیاد پر اس سے روا رکھا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہمت ہے تو آگے بڑھو، میں ناقابل شکست ہوں

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ ان میں ایڈز کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

  • ناخوشگوار ازدواجی زندگی بیویوں میں خطرناک بیماریوں کا سبب

    ناخوشگوار ازدواجی زندگی بیویوں میں خطرناک بیماریوں کا سبب

    واشنگٹن: ایک ناخوشگوار ازدواجی زندگی دونوں فریقین کو کئی طبی مسائل میں مبتلا کرسکتی ہے، لیکن ماہرین نے منتبہ کیا ہے کہ اس کا زیادہ اثر خواتین پر پڑتا ہے اور وہ مردوں کی نسبت زیادہ طبی خطرات کا شکار ہوتی ہیں۔

    حال ہی میں امریکی ماہرین نفسیات کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ چونکہ خواتین مردوں کی نسبت زیادہ حساس ہوتی ہیں اور وہ معمولی باتوں کو شدت سے محسوس کرتی ہیں لہٰذا ازدواجی زندگی میں آنے والی پریشانیاں اور ذہنی دباؤ ان کو طبی و نفسیاتی خطرات کا آسان شکار بنا دیتی ہے۔

    مزید پڑھیں: خوش و خرم جوڑوں کی کچھ عادات

    ماہرین نے اس تحقیق کے لیے 226 ایسے جوڑوں کا جائزہ لیا جو اوسطاً 20 برس سے ازدواجی رشتے میں بندھے ہوئے تھے۔

    ماہرین نے دیکھا کہ جن جوڑوں میں ناراضگی، غصہ، لڑائی جھگڑے، اور نوک جھونک کا تناسب زیادہ تھا ان جوڑوں میں بیویاں خوف یا افسردگی کا شکار تھیں جو آگے چل کر ان میں امراض قلب، ہائی بلڈ پریشر اور ڈپریشن کا سبب بن سکتا تھا۔

    ماہرین نے بڑی عمر کی ایسی خواتین کو دل کے امراض، فالج، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کا مریض بھی پایا جو ایک طویل عرصہ سے ناخوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہی تھیں۔

    اس کے برعکس وہ جوڑے جو ایک دوسرے کی رفاقت میں مطمئن اور خوش تھے ان میں بیماریاں کم تھیں جبکہ ان میں قبل از وقت موت کا خطرہ بھی کم دیکھا گیا۔

    مزید پڑھیں: خوش و خرم شادی شدہ جوڑوں میں دل کے امراض کم

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک تناؤ بھری زندگی کا منفی اثر دونوں فریقین پر پڑتا ہے لیکن مرد باہر کی مصروفیات اور چیزوں کو نظر انداز کردینے کی عادت کے سبب کم خطرات کا شکار ہوتے ہیں۔

    تاہم ماہرین نے متنبہ کیا کہ طویل عرصہ تک لڑائی جھگڑوں والی اور غیر مطمئن زندگی گزارنا تمام افراد کو مختلف اقسام کی طبی و نفسیاتی پیچیدگیوں میں مبتلا کر سکتی ہے۔

  • خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی ختم کی جائے، سعودی شہزادے کا مطالبہ

    خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی ختم کی جائے، سعودی شہزادے کا مطالبہ

    ریاض: سعودی شہزادے ولید بن طلال نے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔

    ولید بن طلال نے اپنے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا، ’اس بحث کو ختم ہوجانا چاہیئے۔ اب وقت ہے کہ خواتین ڈرائیونگ کریں‘۔

    واضح رہے کہ سعودی عرب میں سنہ 1990 سے خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی عائد ہے۔ یہ پابندی قانون کا حصہ نہیں تاہم معاشرتی اور تہذیبی طور پر سعودی عرب میں اس عمل کی اجازت نہیں ہے۔

    لیکن اب اس پابندی کے خلاف صرف سعودی خواتین ہی نہیں بلکہ مردوں نے بھی آواز اٹھانا شروع کردی ہے۔ سعودی عرب میں اس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور متعدد مرد و خواتین مظاہرین کو پولیس کی جانب سے جرمانوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

    saudi-1

    خواتین کی ڈرائیونگ کے حامی ان ہی میں سے ایک شہزادہ ولید بن طلال بھی ہیں جنہیں شاہی خاندان کا ایک بے باک رکن سمجھا جاتا ہے۔ ان کے پاس کوئی سیاسی عہدہ تو نہیں تاہم وہ شاہی خاندان کے کاروباری معاملات دیکھتے ہیں۔

    وہ سعودی عرب میں سماجی خدمات میں بھی مصروف ہیں اور وہ ریاست میں خواتین کے حقوق اور خود مختاری کے حامی ہیں۔

    مزید پڑھیں: سعودی بلدیاتی انتخابات: خواتین امیدواروں کی پہلی بار شرکت

    ان کے ٹوئٹ کے بعد ان کے دفتر سے باقاعدہ طور پر ان کا بیان بھی جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو ڈرائیونگ سے محروم کرنا ایسا ہی ہے جیسے ان کے بنیادی حق سے انہیں محروم کردیا جائے۔ انہیں تعلیم حاصل کرنے سے روکا جائے یا ان کی انفرادی شخصیت ان سے چھیننے کی کوشش کی جائے۔

    شہزادے کا کہنا ہے، ’یہ ایک روایتی معاشرے کے غیر منصفانہ قوانین ہیں، اور یہ مذہب کے طے کردہ قوانین سے بھی زیادہ سخت ہیں کیونکہ مذہب میں ایسی کوئی پابندی نہیں ملتی‘۔

    talal

    بیان میں اس پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ خواتین ڈرائیونگ پر پابندی کی وجہ سے پرائیوٹ ڈرائیور کو رکھنے یا ٹیکسی بلانے پر مجبور ہیں جو انفرادی طور پر کسی گھر کی معیشت پر ایک بوجھ ہے۔

    علاوہ ازیں اگر گھر کے مرد بھی خواتین کو کہیں لانے لے جانے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں تو اس کے لیے انہیں دفاتر سے چھٹی لینی پڑتی ہے جس سے ملازمین کے کام کرنے کی صلاحیت اور مجموعی پیداوار پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: موسیقی کے لیے سعودی عرب چھوڑ کر پاکستان آنے والی گلوکارہ

    ولید بن طلال کا کہنا تھا کہ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا معاشرتی ضرورت ہے اور اس سے کہیں زیادہ یہ موجودہ معاشی حالات کا تقاضا ہے۔

    یاد رہے کہ سعودی عرب میں تیل سے حاصل ہونے والے عالمی زرمبادلہ میں 51 فیصد کمی آئی ہے اور یہ پچھلے دو سال کے مقابلے میں نصف ہوگیا ہے۔ اس کے باعث سعودی حکومت نے کئی ترقیاتی منصوبوں پر کام روک دیا ہے، اور پانی اور بجلی سمیت کئی سہولیات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔

  • پاکستان میں 80 فیصد خواتین تشدد کا شکار

    پاکستان میں 80 فیصد خواتین تشدد کا شکار

    دنیا بھر میں آج خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 80 فیصد خواتین زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک عورت کو اپنی زندگی میں جسمانی، جنسی یا ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف صنف کی بنیاد پر اس سے روا رکھا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنا، ان پر جسمانی تشدد کرنا، جنسی زیادتی کا نشانہ بنانا یا جنسی طور پر ہراساں کرنا اور ایسا رویہ اختیار کرنا جو صنفی تفریق کو ظاہر کرے تشدد کی اقسام ہیں اور یہ نہ صرف خواتین بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    پاکستان ماہرین نے اس میں چند مزید اقسام، جیسے غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی، (جس کے واقعات ملک بھر میں عام ہیں) اور تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کو بھی شامل کیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں سالانہ سینکڑوں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے لیکن ایسے واقعات بہت کم منظر عام پر آ پاتے ہیں۔ پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق سال 2015 میں 1 ہزار سے زائد قتل ریکارڈ پر آئے جو غیرت کے نام پر کیے گئے۔

    تاہم رواں سال اکتوبر میں قومی اسمبلی میں غیرت کے نام پر قتل اور انسداد عصمت دری کے خلاف بل منظور کرلیا گیا ہے جس کے تحت ان جرائم میں ملوث افراد کے لیے سخت سزائیں طے کرلی گئی ہیں۔

    تشدد سے زیادہ تشویش ناک بات

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس تشدد کو ایک معمول کا عمل سمجھا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد ایک عام بات ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ ان میں ایڈز کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ان تنازعوں اور جنگوں کے خواتین پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں اور وہ مردوں یا بچوں سے کہیں زیادہ جنسی و جسمانی تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔

    خواتین پر تشدد کے خلاف عالمی طور پر آگاہی و شعور اجاگر کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے تحت ایک 16 روزہ مہم کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔ اس مہم کے تناظر میں چند روز قبل پاکستانی مشہور شخصیات نے بھی ایک متاثر کن ویڈیو جاری کی۔

  • پاکستانی سماجی تنظیم کے لیے اعلیٰ فرانسیسی اعزاز

    پاکستانی سماجی تنظیم کے لیے اعلیٰ فرانسیسی اعزاز

    پیرس: صوبہ خیبر پختونخواہ میں خواتین کی تعلیم اور صحت کے لیے سرگرم عمل تنظیم اویئر گرلز کو فرانس میں شیراک پرائز سے نوازا گیا۔ یہ انعام ان اداروں یا افراد کو دیا جاتا ہے جو تنازعات کا شکار علاقوں میں اپنی جانوں پر کھیل کر قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

    فرانس کے سابق صدر جیکس شیراک کے نام سے منسوب یہ پرائز رواں برس پاکستانی تنظیم اویئر گرلز اور ایک موسیقار طائفے پونٹینیما کوئر کو دیا گیا۔ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے گلوکاروں پر مشتمل یہ طائفہ بوسنیا ہرزگوینیا میں تمام طبقوں کی روایتی موسیقی کو پیش کرتا ہے۔

    دوسری جانب اویئر گرلز خیبر پختونخواہ میں خواتین کے لیے مصروف عمل ہے۔ اس کی منفرد بات اس تنظیم کا صرف لڑکیوں اور خواتین پر مشتمل ہونا ہے اور اس میں کوئی مرد شامل نہیں۔ فیصلہ سازی سے لے کر نچلی سطح کے کارکنان تک، اویئر گرلز کے صوبے میں موجود نیٹ ورک میں صرف لڑکیاں اور خواتین ہیں۔

    یہ تنظیم گزشتہ 14 سال سے پختونخواہ میں خواتین کی صحت و تعلیم پر کام کر رہی ہے اور معاشی خود مختاری کے عمل میں ان کی مدد کر رہی ہے۔

    تقریب میں فرانسیسی صدر فرانسس اولاندے نے بھی شرکت کی اور قیام امن کے لیے دونوں اداروں کی خدمات کو سراہا۔

    اویئر گرلز کی بانی گلالئی اسمعٰیل نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں اپنے اس سفر کا احوال بتایا۔

    سنہ 2002 میں جب اس ادارے نے عالمی یوم خواتین کے دن سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو اس وقت گلالئی کی عمر صرف 16 سال تھی۔

    گلالئی کو اس سے قبل بھی کئی اعزازات مل چکے ہیں جن میں ڈیموکریسی ایوارڈ 2013 بھی شامل ہے۔ انہیں 30 سال سے کم عمر 30 رہنما نوجوانوں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا جبکہ پاکستان میں برطانوی ہائی کمیشن نے انہیں ’تبدیلی کا استعارہ‘ قرار دیا۔

    اپنے سفر کے آغاز کے بارے میں بتاتے ہوئے گلالئی نے کہا کہ خیبر پختونخواہ کی قدامت پسند معاشرتی روایات نے، جس میں عورت کو ثانوی حیثیت حاصل ہے، انہیں ایسا پلیٹ فارم تشکیل دینے کی طرف متوجہ کیا جو خواتین کے لیے کام کر سکے۔ ’یہاں پر سب کچھ مردوں کے مزاج کے حساب سے ہوتا ہے۔ گھر کے مرد چاہیں گے تو اس گھر کی خواتین پڑھ سکیں گی اور کوئی کام کرسکیں گی۔ لیکن اگر مرد نہیں چاہیں گے تو عورتوں کو ان کی مرضی کے مطابق چلنا ہوگا‘۔

    گلالئی کا کہنا ہے کہ یہاں کے معاشرے میں، اور اس جیسے دنیا کے دیگر کئی معاشروں میں تعلیم بنیادی حق نہیں، ایک سہولت ہے جو صرف قسمت سے مل سکتی ہے۔

    وہ بتاتی ہیں کہ اس ادارے کے لیے ان کے عزم کو پختہ ان کی کزن کے ساتھ ہونے والے واقعہ نے کیا۔ ان کی ایک کزن جو ان کے ساتھ اسکول میں زیر تعلیم تھی، اسے پائلٹ بننے کا بہت شوق تھا۔ ’اس کے عزائم بہت بلند تھے اور وہ آسمان کو چھونا چاہتی تھی لیکن میٹرک میں جانے سے قبل ہی اس کی شادی کردی گئی‘۔

    گلالئی نے بتایا کہ جس شخص سے اس کی شادی کی گئی، وہ نہ صرف عمر میں اس سے دگنا تھا بلکہ شادی کے بعد وہ ایک تشدد پسند شخص ثابت ہوا جس نے بیوی کو حقیقی معنوں میں پاؤں کی جوتی سمجھا۔

    گلالئی کے مطابق اس واقعہ نے انہیں بہت دکھ پہنچایا اور انہوں نے سنجیدگی سے پختونخواہ کی لڑکیوں کے لیے ایسا ادارہ قائم کرنے کے لیے کام شروع کردیا جو انہیں ان کے بنیادی حقوق دلوا سکے۔

    خواتین پر زیادتیاں ایک معمول کی بات

    گلالئی نے بتایا کہ خواتین کے بنیادی حقوق ان سے چھن جانے سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ خواتین ان زیادتیوں کو اپنی زندگی کا حصہ تسلیم کر چکی ہیں۔ بقول گلالئی، وہ ان تمام زیادتیوں کی اس قدر عادی ہوچکی ہیں کہ اسے بدلنے کی خواہش تک نہیں رکھتیں۔

    وہ بتاتی ہیں، ’میری کزن کی شادی کردی گئی جس کے باعث وہ اپنی تعلیم بھی نہ مکمل کر سکی۔ جبکہ اس کے بھائی تاحال زیر تعلیم ہیں اور وہ جو پڑھنا چاہتے ہیں انہیں پڑھنے دیا جارہا ہے۔ یہ ہماری طرف ایک عام بات ہے‘۔

    گلالئی نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے ادارے کا آغاز کیا تو سب سے پہلے لڑکیوں کو اس بات کا شعور دلانا شروع کیا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو زیادتی سمجھیں اور اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔

    غیر ملکی ایجنٹ

    گلالئی نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے ادارے کا آغاز کیا تو حسب روایت ان کے بارے میں اس قسم کی باتیں پھیلائی گئیں کہ یہ غیر ملکی ایجنٹ ہیں، اور بیرونی عناصر کی معاونت سے پاکستانی ثقافت کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔ ’لیکن اب آہستہ آہستہ لوگوں کو ہماری نیک نیتی کا یقین ہوگیا ہے۔ اب لوگ ہمارے بارے میں خود کہتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ کی اقدار و ثقافت کے اندر رہتے ہوئے ہم نے کام کیا اور کبھی اخلاقی حدود سے تجاوز نہیں کیا‘۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کے ادارے کی مقبولیت کا ایک سبب اس کے ارکان کا صرف لڑکیوں پر مشتمل ہونا بھی تھا۔ ’بے شمار لڑکیوں نے اسی لیے ہمارے ساتھ شمولیت اختیار کی کہ انہیں اپنے گھروں سے کام کرنے کی مشروط اجازت تھی کہ وہ مردوں سے میل جول نہیں رکھیں گی۔ اسی وجہ سے وہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال نہیں کر پارہی تھیں۔ اویئر گرلز کے پلیٹ فارم سے انہیں موقع مل سکا کہ وہ کام کرسکیں‘۔

    گلالئی کے مطابق خیبر پختونخواہ کی روایات تو اب بھی برقرار ہیں تاہم خیالات میں بتدریج تبدیلی آرہی ہے۔ کئی والدین نے گلالئی سے رابطہ کیا جن کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بچیوں کو اس ادارے کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہ معاشرے کا ایک کار آمد حصہ بن سکیں۔

    یہی نہیں، گلالئی اور ان کی ٹیم جب مخلوط ( کو ایجوکیشن) اسکولوں میں ٹریننگ دینے کے لیے جاتی ہے تو اسکول کی انتظامیہ اصرار کرتی ہے کہ صرف لڑکیوں کو ہی نہیں لڑکوں کو بھی آگاہی دی جائے، تاکہ یہ آگے چل کر اپنے گھر کی خواتین کو خود مختار بنائیں۔

    گلالئی اور ان کی ٹیم کے کام کا دائرہ کار مختلف اسکولوں اور کمیونٹیز میں پھیلا ہوا ہے جہاں یہ کچھ لڑکیوں یا خواتین کو منتخب کر کے ٹریننگ دیتی ہیں۔ وہ لڑکی یا عورت بعد ازاں مزید 10 لڑکیوں کو سکھانے کی پابند ہوتی ہے۔

    خود مختاری کا مطلب بے راہ روی نہیں

    گلالئی نے بتایا کہ خواتین کی خود مختاری کا مطلب یہ نہیں کہ وہ باہر جائیں۔ ایسی خواتین جو غربت کا شکار ہیں، معاشی طور پر خود مختار ہو کر اپنے خاندان کا کارآمد حصہ بن سکتی ہیں۔ ’ہمارے ادارے نے خواتین کو معاشی امداد دینے کے بجائے انہیں خود مختار بنایا۔ انہیں سکھایا کہ کس طرح مختلف کام کر کے وہ معاشی خود مختاری حاصل کرسکتی ہیں‘۔

    انہوں نے بتایا کہ ان خواتین کو نہ صرف خود مختار بلکہ با اعتماد بھی بنایا گیا جس کے بعد اپنے مسائل کے حل کے لیے انہوں نے ضلعی حکومت سے خود رابطہ کیا اور اپنے مسائل ان کے سامنے رکھے۔

    گلالئی کا ماننا ہے کہ خواتین اور نوجوان، معاشرے کا وہ حصہ ہیں جو معاشروں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کا ادارہ بھی انہی دو طبقوں کو رہنمائی اور حتیٰ الامکان مدد فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔