Tag: خواتین

  • ہمت ہے تو آگے بڑھو، میں ناقابل شکست ہوں!!

    ہمت ہے تو آگے بڑھو، میں ناقابل شکست ہوں!!

    کچھ عرصہ قبل اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے حقوق نسواں بل میں ’بیویوں پر ہلکا پھلکا تشدد‘ کی شق شامل کرنے کی سفارش کی گئی جس کے بعد پاکستانی خواتین نے اس سفارش کو نہایت سنجیدگی سے لیا اور مردوں کو ’دعوت‘ دینی شروع کردی کہ وہ ان پر ہلکا پھلکا تشدد کریں۔

    پنجاب اسمبلی میں حقوق نسواں بل منظور ہونے کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کو مسترد کرتے ہوئے اپنی سفارشات پیش کی تھیں جس میں شامل شوہروں کی جانب سے بیویوں پر ہلکا پھلکا تشدد کرنے کی اجازت دینے کی شق سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنی۔

    اس شق پر نہ صرف خواتین بلکہ عقل رکھنے والے مرد بھی چیخ اٹھے جن کا اصل مقصد کونسل کو یہ باور کروانا تھا کہ بیوی انسان ہے، کوئی ملکیت میں رکھا جانور نہیں جسے سدھارنے کے لیے اس قسم کی تجاویز پیش کی جائیں۔

    مزید پڑھیں: عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    اس شق کے بعد ملک بھر میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا جس میں لاکھوں لوگوں نے اس شق کی مخالفت میں آواز اٹھائی جبکہ کئی ایسے بھی تھے جنہوں نے اس کی حمایت کی۔

    حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین پاکستان نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں ملک کی مشہور خواتین مردوں کو ’بیٹ کرنے‘ کا چیلنج دے رہی ہیں۔

    بظاہر تو یوں لگ رہا ہے کہ یہ خواتین مردوں کو خود پر ہاتھ اٹھانے کا چیلنج دے رہی ہیں، لیکن غور سے دیکھا جائے تو یہ چیلنج دراصل اس کام کو کر دکھانے کا ہے جو ان خواتین نے سرانجام دیا۔

    ویڈیو میں ایتھلیٹ نسیم حمید مردوں کو ’پیروں سے ہرانے‘ کا چیلنج دے رہی ہیں۔ نسیم حمید کو سنہ 2010 میں ڈھاکہ میں ہونے والی 100 میٹر کی ریس جیتنے پر ایشیا کی تیز ترین خاتون ہونے کا اعزاز ملا تھا۔

    معروف گلوکارہ میشا شفیع مردوں کو اپنی آواز سے جبکہ معروف صحافی اور براڈ کاسٹر ثنا بچہ اپنے الفاظ سے شکست دینے کا چیلنج دے کر اس پہلو کی طرف توجہ دلوا رہی ہیں تشدد صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ زبان سے بھی ہوتا ہے۔

    ثمینہ خیال بیگ کی دعوت ہے کہ مرد انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر مات دے کر دکھائیں۔ ثمینہ بیگ پہلی پاکستانی اور کم عمر ترین مسلمان خاتون ہیں جو دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر چکی ہیں۔

    یہی نہیں وہ دنیا کے ساتوں براعظموں کی بلند ترین چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔

    ویڈیو میں ثروت گیلانی، مومنہ مستحسن اور آمنہ شیخ بھی شامل ہیں جو مردوں کو للکار رہی ہیں کہ اگر تم وہ کرسکتے ہو جو ہم نے کیا تو کر کے دکھاؤ۔

    یہ ویڈیو دراصل اقوام متحدہ کی اس 16 روزہ مہم کے تناظر میں جاری کی گئی ہے جو دنیا بھر میں خواتین پر جنسی و جسمانی تشدد کے خاتمے اور اس کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کے لیے چلائی جارہی ہے۔

    اقوام متحدہ پاکستان کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو کے ذریعہ نہ صرف خواتین پر مردوں کی جانب سے ذہنی و جسمانی تشدد کے خلاف آگاہی دی گئی بلکہ ان خواتین کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا ہے جنہوں نے اپنے شعبوں میں حیرت انگیز کمالات دکھائے اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی امتیاز کی غلط تشریح

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک عورت زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس تشدد کو ایک معمولی عمل سمجھا جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ ان میں ایڈز کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    ماہرین کے مطابق ان تنازعوں اور جنگوں کے خواتین پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں اور وہ مردوں یا بچوں سے کہیں زیادہ جنسی و جسمانی تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔

    اقوام متحدہ پاکستان کی جاری کی گئی ویڈیو میں ایک حاملہ خاتون کو بھی دکھایا گیا ہے جو مردوں کو یہ بتانے کی کوشش ہے کہ ایک زندگی کو اس دنیا میں لانا سب سے زیادہ طاقت اور جرات کا کام ہے جس کا کوئی مرد تصور بھی نہیں کرسکتا۔

    ویڈیو میں شامل تمام خواتین کی دعوت ہے کہ، ’اگر ہمت ہے تو آگے بڑھو، کیونکہ میں تمہیں بتانے کی منتظر ہوں کہ میں ناقابل شکست ہوں‘۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد کا رجحان ایک ’وبائی‘ صورت اختیار کر رہا ہے اور دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

  • خواتین پر تشدد کے خاتمے کی کوشش اہم ذمہ داری: نکول کڈمین

    خواتین پر تشدد کے خاتمے کی کوشش اہم ذمہ داری: نکول کڈمین

    نیویارک: اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین نے خواتین پر تشدد کے خلاف اقدامات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر ہالی ووڈ اداکارہ اور اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر نکول کڈمین نے بھی شرکت کی۔

    یو این وومین کی جانب سے منعقد کی گئی اس تقریب کا مقصد دراصل خواتین پر تشدد کے خلاف پچھلے 20 سال سے جاری اقدامات کو خراج تحسین پیش کرنا تھا۔ تقریب کا شریک میزبان ادارہ یو این ٹرسٹ فنڈ تھا جس نے شرکا پر زور دیا کہ وہ خواتین پر تشدد کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ مالی تعاون کریں۔

    تقریب میں فلم ’دا آورز‘ میں بہترین اداکاری پر آسکر ایوارڈ جیتنے والی اداکارہ نکول کڈمین نے بھی شرکت کی۔ نکول اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر بھی ہیں جو دنیا بھر میں صنفی تشدد کے خاتمے کے لیے کام کر رہی ہیں۔

    دائیں ۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی اہلیہ، بائیں ۔ یو این وومین کی سربراہ

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 10 سال قبل اقوام متحدہ کی جانب سے سفیر مقرر ہونے کے بعد انہوں نے پہلا دورہ کوسوو کا کیا تھا۔ ’وہاں میں ایسی لڑکیوں اور خواتین سے ملی جنہوں نے بدترین تشدد کا سامنا کیا تھا لیکن وہ سروائیو کرنے میں کامیاب رہیں‘۔

    انہوں نے بتایا کہ جنگ زدہ علاقوں میں جنسی زیادتی اور تشدد کا شکار ہونے والی خواتین شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگئیں تاہم اقوام متحدہ نے ان ذہنی صحت اور سماجی رتبے کی کی بحالی کے لیے بہت کام کیا۔

    نکول کڈمین نے ان خواتین سے ملاقات کو اپنی زندگی بدلنے والا تجربہ قرار دیا۔ ’میں سمجھتی ہوں کے اقوام متحدہ کی سفیر کی حیثیت سے یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں لڑکیوں اور خواتین پر تشدد کے خاتمے کے خلاف اقدامات میں حصہ لوں‘۔

    مزید پڑھیں: عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے

    واضح رہے کہ عالمی اندازوں کے مطابق ہر 3 میں سے ایک عورت زندگی بھر میں کسی نہ کسی قسم کے جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس تشدد کو ایک معمولی عمل سمجھا جاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ترقی پذیر اور کم تعلیم یافتہ ممالک، شہروں اور معاشروں میں گھریلو تشدد ایک عام بات ہے۔ خود خواتین بھی اس کو اپنی زندگی اور قسمت کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں اور اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی بسر کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    اقوام متحدہ کے مطابق خواتین پر تشدد ان میں جسمانی، دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ ان میں ایڈز کا شکار ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ خطرے کی زد میں وہ خواتین ہیں جو تنازعوں اور جنگ زدہ ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔

    مزید پڑھیں: شامی خواتین کا بدترین استحصال جاری

    ماہرین کے مطابق ان تنازعوں اور جنگوں کے خواتین پر ناقابل تلافی نقصانات پہنچتے ہیں اور وہ مردوں یا بچوں سے کہیں زیادہ جنسی و جسمانی تشدد اور زیادتیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔

  • ہجرت اور جدائی کا دکھ

    ہجرت اور جدائی کا دکھ

    جان بچانے کے لیے ہجرت کرنا تو ایک معلوم عمل ہے، یا روزگار میں اضافے کے لیے دوسرے شہروں میں جانا بھی ایک معمولی بات ہے۔ لیکن ایسی ہجرت کہ اپنے پیاروں کو پیچھے چھوڑ دیا جائے اور پلٹ کر ان کی خبر نہ لی جائے، ایک انسانی المیہ ہی کہلائے گا۔

    ایسے ہی ایک انسانی المیے کا شکار وسطی ایشیا کا ملک تاجکستان بھی ہے جہاں لاکھوں خواتین اپنے شوہروں کے ہوتے ہوئے بھی بے سہارا ہیں اور بے بسی و پسماندگی کی زندگی گزار رہی ہیں۔

    مہاجر کیمپ کی خواتین کا معاشی خوشحالی کا سفر *

    وسط ایشیا کا سب سے چھوٹا ملک تاجکستان سوویت یونین سے علیحدگی کے بعد سے ہی غربت کا شکار اور بلند ترین بے روزگاری کی شرح والا ملک ہے۔

    صرف 8 لاکھ اور 74 ہزار سے کچھ ہی زائد آبادی والے اس ملک کی بیشتر آبادی تاجکستان سے باہر رہائش پذیر ہے۔ مختلف ممالک میں رہنے اور کام کرنے والے یہ افراد مجموعی طور پر ایک کثیر رقم ملک میں بھیجتے ہیں جو تاجکستان کی جی ڈی پی کا 47 فیصد حصہ بنتا ہے۔

    tajik-5

    اس وقت دنیا بھر میں آباد تاجکوں کی 90 فیصد آبادی روس میں مقیم ہے۔ پوری دنیا میں موجود تاجک، تاجکستان کی کل مرادنہ آبادی کا ایک تہائی فیصد ہیں اور ان کی عمریں 20 سے 39 سال کے قریب ہیں۔

    گویا تاجکستان میں اب صرف خواتین ہیں، بچے اور بوڑھے جو اگر اس قابل نہیں کہ اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ سکیں تو نہایت ہی قابل رحم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    دنیا بھر میں چونکہ تاجک مزدوروں کی خدمات نہایت ارزاں ہیں لہٰذا بیرون ملک ان کا بری طرح استحصال کیا جاتا ہے۔ ان کی تنخواہ اس قابل نہیں ہوتی کہ یہ اسے گھر والوں کو بھیج سکیں، یا اگر بھیجتے بھی ہیں تو وہ نہایت قلیل ہوتی ہے۔

    چھٹی لے کر گھر آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، چنانچہ ان مزدوروں کے اہلخانہ خاص طور پر بیوی اور بچے باپ اور شوہر کے ہوتے ہوئے بھی بے سہارا اور تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی *

    انہی میں سے ایک خاتون تشبکووا بھی ہیں جن کا شوہر انہیں چھوڑ کر روس جاچکا ہے، اور انہیں قطعی اس کی امید نہیں کہ وہ اسے دوبارہ دیکھ بھی سکیں گی۔

    وہ بتاتی ہیں، ’10 سال قبل ہم نے محبت کی شادی کی تھی۔ صرف ایک سال بعد میرا شوہر مجھے چھوڑ کر انجانے سفر پر روانہ ہوگیا جس کے بعد سے وہ اب تک پلٹ کر نہیں آیا‘۔

    تشبکووا نے یہ عرصہ نہایت پریشانی میں گزارا۔ زندگی گزارنے کا کوئی آسرا ان کے پاس نہیں تھا۔ اس پر شوہر کی جدائی کا غم اور دوبارہ نہ ملنے کی اذیت بقول ان کے، انہیں کھا رہی تھی۔

    خواتین بے چینی کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟ *

    تشبکووا شدید ڈپریشن کا شکار تھیں اور زیادہ تر وقت اپنے گھر میں ہی گزارتیں جہاں کئی کئی وقت کا فاقہ ان کے ساتھ ہوتا۔

    اور صرف ایک تشبکووا ہی نہیں، ان جیسی لاکھوں خواتین تھیں جو اسی صورتحال کا شکار تھیں۔ عالمی اداروں کے مطابق ڈھائی لاکھ کے قریب خاندان اور خواتین اپنے مردوں کے باہر جانے کے بعد بے سہارا تھیں اور خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھیں۔

    عورت کے اندرونی کرب کے عکاس فن پارے *

    پھر ان خواتین کے لیے اقوام متحدہ کی مدد غیبی امداد کی صورت آئی۔

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے خواتین یو این وومین نے، جو دنیا بھر میں مشکلات کا شکار خواتین کو آسانیاں فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے، ان تاجک خواتین کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کا بیڑا اٹھایا۔

    تاجکستان کی روایات کی بدولت یہ خواتین نہ تو زیادہ خواندہ تھیں، نہ ہی ہنر مند اور نہ ہی اس قدر بااعتماد کہ باہر جا کر حالات کا مقابلہ کرسکتیں۔ یو این وومین نے تاجک معاشروں کی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان خواتین کو ہنرمند بنانے کا کام شروع کیا۔

    سنہ 2014 میں شروع کیے گئے بحالی پروگرام کے تحت خواتین کو روایتی تاجک دستکاری کا کام سکھایا گیا۔ آہستہ آہستہ خواتین کی نفسیاتی کیفیات میں بھی تبدیلی آتی گئی اور انہوں نے زندگی سے لڑنے کا حوصلہ پیدا کر ہی لیا۔

    tajik-2

    tajik-4

    یو این وومین کی معاونت سے ان ہنر مند خواتین نے اپنے تیار شدہ ملبوسات، کھلونوِں، کمبلوں، میز پوش، اور دیگر اشیا کو قریبی شہروں اور قصبوں میں لے جا کر بیچنا شروع کیا۔

    ان اشیا کے خریدار زیادہ تر مختلف ممالک سے آئے سیاح ہوتے ہیں جو روایتی تاجک کڑھائی کے ان نمونوں کو بصد شوق خریدتے ہیں اور بطور یادگار اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔

    گہرے رنگوں سے سجے جنگی ہتھیار *

    یو این وومین کی جانب سے تاجکستان میں تعینات معاونت کار زرینہ یوروکوا نے بتایا کہ تاجک حکومت کو علم ہی نہیں تھا کہ روزگار کے لیے ہجرت کرنے والوں کے خاندان بدترین حالات کا شکار ہیں۔ ’جب ہم نے اس طرف ان کی توجہ دلائی تو حکومت نے بھی ان کے لیے کام شروع کیا اور اب ہجرت کرنے والوں کے خاندانوں کو مفت طبی، قانونی اور دیگر سماجی سہولیات فراہم ہیں‘۔

    تشبکووا اور ان جیسی لاکھوں خواتین اب ایک نارمل اور باعزت زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے لیے کماتی ہیں بلکہ دیگر خواتین کا ہمت اور حوصلہ بھی بڑھاتی ہیں تاکہ وہ بھی زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ سکیں۔

    tajik-3

    تشبکووا بتاتی ہیں، ’یہ ماضی کی باتیں ہیں جب ہم تنہائی اور ڈپریشن کا شکار تھے۔ اب ہم اپنے معاشرے کا نہایت کارآمد حصہ ہیں اور حکومت سمیت کسی پر بوجھ نہیں‘۔

  • عوامی مقامات پر خواتین کی ہراسمنٹ سے بچاؤ کے لیے اہم اقدام

    عوامی مقامات پر خواتین کی ہراسمنٹ سے بچاؤ کے لیے اہم اقدام

    دنیا بھر میں خواتین پر جنسی حملوں اور عوامی مقامات پر ان کے ساتھ ہراسمنٹ کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس نے خواتین اور ان کی بہبود کے لیے کام کرنے والے افراد اور اداروں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    عالمی اداروں کی جانب سے جاری کی جانے والی متعدد رپورٹس کے مطابق دنیا میں ہر 3 میں سے ایک خاتون کو کسی نہ کسی قسم کی ہراسمنٹ کا سامنا ہے جو صرف جنس کی بنیاد پر اس سے کی جاتی ہے۔ ان میں گھورنے سے لے کر خطرناک جنسی حملوں تک کے واقعات شامل ہیں اور اس میں ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ ممالک کی کوئی قید نہیں۔

    harrasment

    دنیا بھر میں ان واقعات پر قابو پانے کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بھارت میں پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین سے چھیڑ چھاڑ کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر بسوں میں پینک بٹن نصب کرنے کا منصوبہ شروع کیا گیا۔

    خواتین پر حملوں سے تحفظ کے لیے ’پینک‘ بٹن *

    یہ پینک بٹن بس میں دروازے کے اوپر لگایا جائے گا جسے دباتے ہی قریبی پولیس اسٹیشن میں ایک ہنگامی پیغام جائے گا اور اس کے بعد پولیس بس میں نصب کیمرے کی براہ راست فوٹیج دیکھ سکے گی۔

    تاہم ان اقدامات کی ایک بہترین مثال جنوبی امریکی ملک ایکواڈور کے دارالحوکمت کیٹو میں دیکھی گئی جہاں شہری ترقیاتی کے لیے ’کیٹو سیف سٹی پروگرام‘ کا آغاز کیا گیا اور اس میں سرفہرست شہر کو خواتین کے لیے محفوط بنانے کا ہدف رکھا گیا۔

    اس منصوبے کے آغاز سے قبل اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین کی جانب سے ایک سروے کیا گیا تھا جس میں دیکھا گیا کہ 12 ماہ کے دوران شہر کی 68 فیصد خواتین نے عوامی مقامات پر کسی نہ کسی قسم کی ہراسمنٹ کا سامنا کیا۔

    quito-3

    یو این وومین نے اس کے بعد شہری حکومت، خواتین کے لیے سرگرم عمل متعدد اداروں، اور دیگر متعلقہ شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک بڑے منصوبے پر کام شروع کیا۔

    جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر *

    اس منصوبے کے تحت شہر میں جابجا رضا کارانہ خدمات انجام دینے والی خواتین کو تعینات کیا گیا۔ ان خواتین کو باقاعدہ اتھارٹی دی گئی جس کے بعد یہ خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات کا سدباب کرنے کے لیے اہم طاقت بن گئیں۔

    رضاکارانہ خدمات انجام دینے والی ان اہلکاروں کو اس قسم کے واقعات کی اطلاع بھی دی جا سکتی ہے جس کے بعد سنگین نوعیت کے کیسز میں یہ پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کو اطلاع دینے کی مجاز ہوں گی۔

    کیٹو کے میئر ماریشیو روڈز کا کہنا ہے کہ شہر کو خواتین کے لیے محفوظ بنانا ان کی پہلی ترجیح ہے۔ اس ضمن میں شہری حکومت کے تحت 4 شعبوں میں کام کا آغاز کیا گیا ہے۔ سڑکوں کو خواتین کے لیے محفوظ بنانا، گھریلو تشدد کے واقعات کا سدباب، آفات اور خطرات میں خواتین کو سہولیات کی فراہمی، اور تمام شعبوں میں خواتین کی شراکت داری۔

    quito-2

    انہوں نے بتایا کہ کیٹو کے سیف سٹی منصوبے کے تحت اس بات کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے کہ کن مقامات پر خواتین کو ہراسمنٹ کے واقعات کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے ان مقامات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے انہیں محفوط بنانے کے لیے اقدامات کیے جیسے وہاں روشنیاں نصب کی گئیں اور وہاں کا ماحول بہتر بنایا گیا۔

    زیادتی کا شکار مختاراں مائی کی ریمپ پر واک *

    ایکواڈور میں یو این وومین کی نمائندہ مونی پیزانی کا کہنا ہے کہ خواتین کو ہراسمنٹ اور تشدد کے واقعات اور اس کے سدباب کے لیے آگاہی فراہم کرنے کی از حد ضرورت ہے تاکہ وہ اسے عام سی بات سمجھ کر اسے اپنی زندگی کا حصہ نہ سمجھیں۔

    ماہرین نے کیٹو میں شروع کیے جانے والے اس منصوبے کو بے حد سراہا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے تمام شہروں میں اس قسم کے منصوبے شروع کیے جانے چاہئیں۔

  • دنیا کے تمام ممالک کی سیر کرنے والی واحد خاتون

    دنیا کے تمام ممالک کی سیر کرنے والی واحد خاتون

    ہم میں سے بہت سے افراد سیر و سیاحت کے شوقین ہوتے ہیں۔ ایسے افراد جب سیاحوں سے ملتے ہیں، جو دنیا بھر میں گھومتے پھرتے ہیں تو وہ ان سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور ان کے لیے رشک کے جذبات محسوس کرتے ہیں۔

    سیاحت کا شوقین ایک عام شخص زیادہ سے زیادہ 15 سے 20 ممالک کا سفر کرتا ہے۔ بہت زیادہ شوقین 30 یا اس سے زیادہ ممالک کا سفر کرتا ہے۔ کوئی انتہائی سرپھرا ہوگا تو وہ سب چھوڑ چھاڑ کر اپنی زندگی سیاحت میں گزار دے گا اور 100 ممالک کا سفر کرلے گا۔

    مزید پڑھیں: مختلف ممالک کی سیر کے دوران ان چیزوں کا خیال رکھیں

    لیکن کیا کوئی شخص ایسا بھی ہوسکتا ہے جو پوری دنیا کے 196 ممالک کا سفر کرلے؟

    یہ ایک افسانوی اور حیرت انگیز بات ہوگی لیکن دنیا میں ایک شخص ایسا موجود ہے اور وہ ایک خاتون ہیں۔

    امریکا کی کسینڈرا ڈی پیکول دنیا کی پہلی باقاعدہ سب سے زیادہ سیاحت کرنے والی خاتون، کم عمر ترین امریکی سیاح اور دنیا میں سب سے تیز رفتار سیاحت کرنے کا اعزاز اپنے نام کرچکی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے انوکھے ترین ریستوران

    صرف 25 سال کی عمر میں اب تک انہوں نے 181 ممالک کا دورہ کرلیا ہے جس کے بعد وہ مندرجہ بالا تمام اعزازات اپنے نام کرچکی ہیں، اور اب اگر وہ بقیہ 15 ممالک کا بھی دورہ کرلیں گی تو دنیا کے تمام ممالک کا سفر کرنے کا عالمی ریکارڈ اپنے نام کرلیں گی۔

    کسینڈرا کے شوق کو دیکھتے ہوئے عالمی ادارہ برائے امن بذریعہ سفر نے انہیں اپنا اعزازی سفیر مقرر کردیا ہے جس کے بعد اب وہ دنیا بھر میں امن اور محبت کا پیغام لے کر جاتی ہیں۔ وہ اپنے اس سفر کو ایکسپیڈیشن 196 کا نام دیتی ہیں۔

    ہم ان کے تمام سفر کی تصاویر تو نہیں پیش کر سکتے، تاہم کچھ تصاویر سے آپ ان کے اس حیرت انگیز اور غیر معمولی سفر کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

    travel-2

    travel-3

    7

    6

    5

    4

    3

    2

    1

    8

  • امریکا اب تک خاتون صدر سے محروم کیوں؟

    امریکا اب تک خاتون صدر سے محروم کیوں؟

    امریکی صدارتی انتخابات اب چند ہی گھنٹوں کی دوری پر ہیں۔ اس بار صدارتی انتخاب کے لیے ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ مدمقابل ہیں۔

    ہیلری کلنٹن سابق صدر بل کلنٹن کی اہلیہ اور سابق وزیر خارجہ بھی رہ چکی ہیں۔ ان کا سیاسی اور امور حکومت کا تجربہ نہایت وسیع ہے لہٰذا ان کے جیتنے کے امکانات بھی خاصے روشن ہیں۔

    حالیہ انتخابات میں اگر وہ جیت جاتی ہیں تو وہ امریکا کی پہلی خاتون صدر ہوں گی۔

    مزید پڑھیں: امریکا کی فیشن ایبل خواتین اوّل

    لیکن ہیلری کلنٹن واحد خاتون صدارتی امیدوار نہیں ہیں۔ امریکا کی طویل جمہوری تاریخ میں کئی خواتین صدارتی انتخابات میں کھڑی ہوئیں، لیکن یا تو وہ پارٹی کی جانب سے نامزدگی حاصل کرنے میں ناکام رہیں، یا پھر حتمی مرحلے میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

    اس ضمن میں ہمیں سب سے پہلا نام ایکول رائٹس پارٹی کی وکٹوریہ ووڈ ہل کا ملتا ہے جو سنہ 1872 کے انتخابات میں بطور صدارتی امیدوار کھڑی ہوئیں۔ تاہم مطلوبہ ووٹس نہ ملنے کے باعث وہ پارٹی کی جانب سے نامزدگی نہ حاصل کر سکیں۔

    یہاں ان خواتین امیدواروں کے بارے میں بتایا جارہا ہے جو امریکی امور حکومت کو چلانے کا عزم لیے میدان میں اتریں لیکن ناکام رہیں۔

    :گریسی ایلن

    6

    سنہ 1940 میں امریکا کی سرپرائز پارٹی نے گریسی ایلن کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا لیکن وہ صرف 42 ہزار ووٹ حاصل کرسکیں۔

    :لنڈا جینز

    9

    سنہ 1972 میں لنڈا جینز کو سوشلسٹ ورکرز پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا۔

    :مارگریٹ رائٹ

    سنہ 1976 میں امریکا کی پیپلز پارٹی نے مارگریٹ رائٹ کو بطور صدارتی امیدوار منتخب کیا لیکن انہوں نے جمی کارٹر سے شکست کھائی۔

    :ایلن میک کرومیک

    5

    سنہ 1980 میں امریکا کی رائٹ ٹو لائف پارٹی نے ایلن میک کرومیک کو اپنے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد کیا تاہم وہ بری طرح شکست سے دو چار ہوئیں۔

    :سونیا جانسن

    8

    سنہ 1984 میں سٹیزن پارٹی نے سونیا جانسن کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا۔

    :لینورا فلنائی

    3

    سنہ 1988 میں نیو الائنس پارٹی کی جانب سے لینورا فلنائی صدارتی انتخابات میں کھڑی ہوئیں تاہم انہیں جارج بش سینئر سے شکست کھانی پڑی۔

    سنہ 1992 میں نیو الائنس پارٹی نے لینورا فلنائی کو دوبارہ اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا اور ایک بار پھر انہوں نے بل کلنٹن سے شکست کھائی۔

    :سنتھیا مک کینی

    4

    سنہ 2008 میں گرین پارٹی نے سنتھیا مک کینی کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا لیکن اس سال انتخابات میں امریکی تاریخ بدل گئی اور پہلی بار ایک سیاہ فام صدر بارک اوباما صدر منتخب ہوکر وائٹ ہاؤس جا پہنچا۔

    :روزینے بار

    سنہ 2012 میں ہی صدر اوباما کے دوسرے دور حکومت سے قبل پیس اینڈ فریڈم پارٹی کی جانب سے روزینے بار ان کے مدمقابل آئیں لیکن چونکہ صدر اوباما کا وائٹ ہاؤس میں ابھی قیام باقی تھا لہٰذا انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

    :جل اسٹین

    2

    سنہ 2012 میں ہی گرین پارٹی نے بھی جل اسٹین کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا لیکن وہ بھی شکست سے دو چار ہوئیں۔

    :ہیلری کلنٹن

    1

    ہیلری کلنٹن نے 2008 میں صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑے ہونے کی کوشش کی تاہم وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نامزدگی حاصل نہ کرسکیں۔ اس کے بعد وہ صدر اوباما کی ٹیم کا حصہ بن گئیں۔ حالیہ الیکشن میں وہ ایک بار پھر صدارتی امیدوار ہیں اور یہ واضح ہونے میں ابھی کچھ وقت ہے کہ اس بار اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھے گا۔

  • شمشال میں پہلی بار خواتین کے فٹبال ٹورنامنٹ کا انعقاد

    شمشال میں پہلی بار خواتین کے فٹبال ٹورنامنٹ کا انعقاد

    ہنزہ: گلگت بلتستان کے ایک بلند گاؤں شمشال میں پہلی بار خواتین کے فٹبال ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا گیا۔ ٹورنامنٹ کا انعقاد شاہ شمس اسپورٹس کلب کی جانب سے کیا گیا ہے۔

    سطح سمندر سے 31 ہزار میٹر بلند یہ گاؤں شمشال ضلع ہنزہ کی گوجال تحصیل میں واقع ہے اور اپنی خوبصورتی کے باعث سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے۔

    shimshal-2

    یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں کھیل کے شعبہ میں خواتین کو شامل کیا گیا ہے۔ اس سے قبل مایہ ناز کوہ پیما ثمینہ بیگ بھی بلند برفانی چوٹیوں پر اپنے عزم و ہمت کے جھنڈے گاڑ چکی ہیں۔

    ثمینہ خیال بیگ پہلی پاکستانی اور کم عمر ترین مسلمان خاتون ہیں جو دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر چکی ہیں۔ یہی نہیں وہ دنیا کے ساتوں براعظموں کی بلند ترین چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔

    shimshal-3

    اس سفر میں قدم قدم پر ثمینہ کو اپنے اہل خانہ اور خاص طور پر بھائی مرزا علی بیگ کی حمایت حاصل رہی جو بعض مہمات پر خود بھی ان کے ساتھ رہے۔

    فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل *

    ثمینہ بیگ اور مرزا علی نے شمشال میں ہونے والے خواتین کے پہلے فٹبال ٹورنامنٹ پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور ان کا ارادہ ہے کہ وہ بہت جلد وہاں جا کر خواتین کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھائیں گے۔

    اس موقع پر اپنے پیغام میں مرزا علی نے کہا کہ ایک مرد ہونے کی حیثیت سے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی خواتین کو خود مختار اور صنفی برابری کو یقینی بنائیں۔

    shimshal-4

    انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں صںفی برابری کا ہدف بھی شامل ہے اور اس قسم کے ٹورنامنٹ کے انعقاد سے ہم اس ہدف کی تکمیل کی جانب ایک قدم بڑھائیں گے۔

    ٹورنامنٹ میں 12 سے 22 سال کی خواتین نے حصہ لیا۔ منتظمین کے مطابق ٹورنامنٹ کا اعلان ہونے کے بعد نوجوان لڑکوں کی ایک بڑی تعداد ان کے پاس آئی جو اپنی بہنوں کو اس ٹورنامنٹ میں حصہ لیتے دیکھنے کے خواہش مند تھے۔

  • کیا ایک عورت دنیا کو بچا سکتی ہے؟

    کیا ایک عورت دنیا کو بچا سکتی ہے؟

    دنیا کو بچانے کے لیے ایسے کردار کا تصور تو بہت پرانا ہے جو عموماً مرد ہوتا ہے اور سپر ہیرو کی خصوصیات رکھتا ہے، لیکن کیا کبھی کوئی عورت بھی دنیا کو بچا سکتی ہے؟

    اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو یقیناً آپ کی غلط فہمی ’ونڈر وومن‘ کے اس نئے ٹریلر کو دیکھ کر دور ہوجائے گی جس میں ایک عورت دنیا کو بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔

    سپر وومن یا ونڈر وومن کا آئیڈیا سب سے پہلے سنہ 1941 میں سامنے آیا جب ایک امریکی کامک سیریز میں ایک خاتون کو جادوئی اور ماورائی قوتوں کا حامل دکھایا گیا۔

    wonder-woman-1

    امریکی پرچم سے مشابہہ لباس میں ملبوس اس ونڈر وومن نے نہ صرف اس وقت خواتین کے بارے میں قائم تصورات کو کسی حد تک تبدیل کیا بلکہ اس کی تخلیق خواتین کی خود مختاری کی طرف ایک اہم قدم تھی۔

    اس کامک کردار کو اب بڑے پردے پر ’ونڈر وومن‘ کے نام سے پیش کیا جارہا ہے جس کا ایک اور ٹریلر جاری کردیا گیا ہے۔

    پیٹی جینکنز کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں مرکزی کردار گیل گیڈٹ نبھا رہی ہیں جو اس سے قبل مشہور فلم فرنچائز ’فاسٹ اینڈ فیورس‘ کے کئی حصوں میں بھی جلوہ گر ہوچکی ہیں۔

    woman-4

    ان کے مدمقابل ’اسٹار ٹریک‘ سے شہرت پانے والے کرس پائن بھی اہم کردار ادا کر ہے ہیں۔

    فلم کی کہانی دور دراز جزیرے میں پرورش پانے والی عورت ڈیانا کی ہے جس کی ملاقات اتفاقاً اسٹیو (کرس پائن) سے ہوتی ہے۔ اسٹیو جہاز کریش ہونے کے باعث اس جزیرے تک پہنچتا ہے۔

    chris

    اس کے بعد وہ ڈیانا کو اپنے ساتھ اپنے ملک لے جاتا ہے اور یہیں سے فلم اور ڈیانا کی زندگی کا نیا رخ شروع ہوتا ہے۔

    ڈیانا کو پتہ چلتا ہے کہ دنیا ایک ہولناک جنگ کا شکار ہونے والی ہے جس کے بعد وہ دنیا کو بچانے والے افراد کی پہلی صف میں جا کھڑی ہوتی ہے اور اپنی صلاحیتوں سے سب کو دنگ کردیتی ہے۔

    woman-7

    woman-8

    ٹریلر میں وہ کئی بار اپنی حیرت انگیز صلاحیتوں کے باعث اسٹیو اور اپنے آس پاس موجود لوگوں کی جانیں بچاتی نظر آتی ہے۔

    woman-6

    women-5

    اسی طرح اسے ایک تہذیب یافتہ معاشرے کی ایک روایتی عورت کا روپ اختیار کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

    woman-3

    فلم کے ٹریلر میں خواتین کی غیر معمولی صلاحیتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بظاہر دھان پان نظر آنے والی عورت اپنی زمین اور اپنے پیاروں کو بچانے کے لیے جان کی بازی بھی لگا سکتی ہے اور ایسے میں وہ ایسا غیر مرئی صلاحیتوں کا حامل کردار بھی بن سکتی ہے جس تک پہنچنے کے لیے مرد کو کئی نسلوں تک محنت کرنی پڑے۔

    فلم ’ونڈر وومن‘ اگلے برس جون میں سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کردی جائے گی۔

  • ایما واٹسن کی مطالعے کی ترغیب

    ایما واٹسن کی مطالعے کی ترغیب

    مشہور فلم سیریز ہیری پوٹر میں ہرمائنی کے کردار سے شہرت پانے والی ہالی ووڈ اداکارہ ایما واٹسن آج کل ایک منفرد مہم پر ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو مطالعہ کی ترغیب دینے کے لیے لندن کے ٹیوب اسٹیشن کے مختلف مقامات پر کتابیں چھپا دیں تاکہ لوگ انہیں ڈھونڈ کر پڑھیں۔

    کتاب ’چھپانے‘ کی یہ انوکھی ترکیب مشہور گیم ’پوکیمون گو‘ کے بعد سامنے آئی جس میں کھیل کھیلنے والوں کو مختلف مقامات پر پوکیمون نامی کارٹون کریکٹر کو ڈھونڈنا ہوتا ہے۔

    اس کھیل کی طرز پر برسلز میں ایک اسکول پرنسپل نے کتاب کی تلاش پر مشتمل ایک کھیل کا آغاز کیا جس میں وہ کسی مقام پر کوئی کتاب چھپا دیتے اور اس کے بعد اپنے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر اشارتاً بتاتے کہ وہ کتاب کہاں ہوسکتی ہے۔

    کتاب ڈھونڈنے والے کو اسے پڑھنے کے بعد کہیں اور چھپانا پڑتا ہے جس کے بعد مزید کئی افراد اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔

    کچھ اسی کسی قسم کی مہم پر آج کل ایما واٹسن بھی ہیں اور اس کا آغاز انہوں نے لندن کے ٹیوب اسٹیشن سے کیا جہاں مختلف مقامات پر انہوں نے کئی کتابیں رکھیں۔

    @booksontheunderground @oursharedshelf #Mom&Me&Mom

    A video posted by Emma Watson (@emmawatson) on

    رکھی جانے والی کتابیں مشہور امریکی شاعرہ مایا اینجلو کی کتاب ’مام اینڈ می اینڈ مام‘ کے نسخے ہیں جو تقریباً 100 کی تعداد میں کئی جگہوں پر چھوڑے گئے ہیں۔

    @oursharedshelf’s Nov & Dec book is #Mom&Me&Mom by Maya Angelou

    A photo posted by Emma Watson (@emmawatson) on

    ایما واٹسن نے کتاب کے ساتھ ایک نوٹ بھی رکھا جس میں انہوں نے بتایا کہ یہ کتاب بہت محبت اور توجہ کے ساتھ رکھی گئی ہے۔

    emma-2

    ایما واٹسن رواں سال کے آغاز میں ایک آن لائن ’فیمنسٹ بک کلب‘ بھی قائم کرچکی ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر بھی ہیں اور دنیا بھر میں خواتین کی خود مختاری کے لیے ’ہی فار شی‘ نامی مہم چلا رہی ہیں۔

    اس مہم کے تحت خواتین کی خود مختاری اور ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے مردوں کو اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔

    ایما واٹسن نے اپنے قائم کردہ بک کلب میں بھی ایسی ہی کتابیں رکھی ہیں جو صنفی برابری کے حوالے سے شعور دیتی ہیں۔ ان کی کتاب تلاش کرنے کی مہم بھی اسی بک کلب کا حصہ ہے۔

  • بنی گالہ جانے کی کوشش کرتی تحریک انصاف کی خواتین کارکن گرفتار

    بنی گالہ جانے کی کوشش کرتی تحریک انصاف کی خواتین کارکن گرفتار

    اسلام آباد: تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاری کے بعد اسلام آباد پولیس نے خواتین کو بھی نہ چھوڑا اور مزاحمت کرنے والی خواتین کو برے طریقے سے گھسیٹ کر گرفتار کرلیا گیا۔

    تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے گھر جانے والے کارکنان پر پولیس بری طرح ٹوٹ پڑی۔ پہلے سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کیا گیا اس کے بعد خواتین پولیس اہلکاروں کا بھی کریک ڈاؤن شروع ہوگیا اور انہوں نے خواتین کارکنان کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔

    بنی گالہ جانے کی کوشش کرتی ہوئی تحریک انصاف کی ایک با ہمت کارکن پولیس کے نرغے میں پھنس گئی۔ ہاتھ نہ لگانے کی وارننگ دی تو خواتین پولیس اہلکار نہتی کارکن پر جھپٹ پڑیں۔

    تحریک انصاف کی کارکن کو گھسیٹتے ہوئے پولیس وین کی جانب لے جایا گیا۔ پولیس وین کے دروازے پر بھرپور مزاحمت ہوئی جس کے بعد مرد اہلکاروں کے قریب آنے پر خاتون چلا اٹھیں تاہم خواتین اہلکاروں نے انہیں گھسیٹ کر پولیس وین میں ڈال دیا۔

    اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیری مزاری کو بھی بنی گالہ جاتے ہوئے روکنے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے شدید مزاحمت کی اور گاڑی سے اتر کر بیریئر ہٹانے کی کوشش کی، جس کے بعد پولیس نے بالآخر انہیں بنی گالہ جانے دے دیا۔

    تھوڑی دیر قبل قومی اسمبلی کے رکن عارف علوی اور رہنما عمران اسماعیل کو بھی بنی گالہ جانے سے روکنے کی کوشش میں پولیس نے گرفتار کرلیا۔ دونوں رہنماؤں کو وین میں ڈال کر تھانہ سیکریٹرٹ منتقل کردیا گیا۔

    تاہم کچھ دیر بعد ہی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تحریک انصاف کے دونوں رہنماؤں کی گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔