Tag: خواتین

  • یورپ میں مقیم مسلمانوں کو نفرت انگیز رویوں سے کیسے بچایا جائے؟

    یورپ میں مقیم مسلمانوں کو نفرت انگیز رویوں سے کیسے بچایا جائے؟

    دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک منفی پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے جس کے مطابق مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھا جارہا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں یورپ میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی جس کے بعد دنیا نے عام مسلمانوں اور شدت پسندوں کو ایک صف میں کھڑا کردیا۔

    ان حملوں کے بعد یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوگیا اور وہاں برسوں سے رہنے والے مسلمانوں کو اپنے آس پاس کے افراد کی جانب سے نفرت انگیز یا تضحیک آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بعض واقعات میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

    تاہم اب بھی ایسے افراد موجود ہیں جو تمام مسلمانوں کو اس سے منسلک کرنا غلط سمجھتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ شدت پسندی کو مذہب سے جوڑنا غلط ہے اور چند لوگوں کے مفادات کی خاطر کیے جانے والے قتل و غارت کی ذمہ داری پوری دنیا میں آباد مسلمانوں پر ڈالنا دانش مندانہ اقدام نہیں۔

    یورپ میں جہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات میں اضافہ ہوا وہیں ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے جب غیر مسلم افراد ہی مسلمانوں کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوئے اور انہیں اپنے لوگوں کے نفرت آمیز رویوں سے بچایا۔

    مزید پڑھیں: پوپ فرانسس کی مسلمان خواتین کے حجاب کی حمایت

    ایسا ہی ایک قدم پیرس سے تعلق رکھنے والی آرٹسٹ میرل نے اٹھایا اور اس نے لوگوں کے لیے ایک رہنما کتابچہ تیار کیا کہ اگر وہ کسی شخص کو کسی مسلمان خاتون کو ہراساں کرتے دیکھیں تو انہیں کیا کرنا چاہیئے۔

    اس رہنما کتابچے کی تیاری کا خیال انہیں اپنے آس پاس بڑھتے اسلامو فوبیا کو دیکھ کر آیا۔ وہ کہتی ہیں، ’یورپ میں حملوں کے بعد میں نے دیکھا کہ بسوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں مسلمان خواتین کا سفر کرنا محال ہوگیا۔ انہیں مسافروں کی گھورتی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا۔ بعض مسافر ان سے بحث بھی کرتے اور انہیں برا بھلا کہتے‘۔

    وہ کہتی ہیں کہ اس ساری صورتحال سے کم از کم چند غیر مسلم افراد ایسے ضرور تھے جو الجھن کا شکار ہوتے اور وہ اس مسلمان کی مدد کرنا چاہتے لیکن وہ خود کو بے بس پاتے۔

    انہوں نے سوچا کہ وہ ان چند اچھے افراد کو شعور دے سکیں کہ ایسی صورتحال میں انہیں کیا کرنا چاہیئے۔ یہی سوچ ان کے اس رہنما کتابچے کی تخلیق کا سبب بنی۔

    اس کتابچے میں انہوں نے 4 طریقے بتائے۔

    :ابتدائی قدم

    سب سے پہلے اگر آپ کسی مسلمان خاتون کو دیکھیں اور اس کے آس پاس کوئی ایسا شخص دیکھیں جو غلط ارادے سے اس کی طرف بڑھ رہا ہو، وہ اسے ہراساں کرنا چاہتا ہو، تو آپ اس خاتون کے ساتھ بیٹھ جائیں اور ان سے گفتگو شروع کردیں۔

    :گفتگو کا موضوع

    گفتگو کا موضوع مذہبی نہ ہو۔ یہ کوئی بھی عام سا موضوع ہوسکتا ہے جیسے موسم، فلم یا سیاسی حالات پر گفتگو۔

    :لاتعلقی ظاہر کریں

    اپنے آپ کو لاتعلق ظاہر کریں۔ نہ ہی اس خاتون کو یہ احساس ہونے دیں کہ آپ نے اس کے لیے کوئی خطرہ محسوس کیا ہے۔ نہ ہی ممکنہ حملہ آور کو احساس ہونے دیں کہ آپ نے اسے دیکھ لیا ہے اور اس کے عزائم سے واقف ہوگئے ہیں۔

    :بحفاظت پہنچنے میں مدد دیں

    گفتگو کو جاری رکھیں یہاں تک حملہ آور وہاں سے چلا جائے۔ اس کے بعد مسلمان خاتون کو بحفاظت وہاں تک پہنچنے میں مدد دیں جہاں وہ جانا چاہتی ہیں۔

    islamophobia-2

    میرل دو مزید چیزوں کی وضاحت کرتی ہیں، ’ایسی صورتحال میں لازمی طور پر 2 کام کریں۔ پہلا ممکنہ حملہ آور کو بالکل نظر انداز کریں۔ اس سے کسی بھی قسم کی گفتگو یا آئی کانٹیکٹ نہ رکھیں‘۔ ’دوسرا ممکنہ حملے کا نشانہ بننے والی خاتون کی خواہش کا احترام کریں۔ اگر وہ چاہتی ہے کہ آپ چلے جائیں تو حملہ آور کے وہاں سے جانے کے بعد آپ بھی وہ جگہ چھوڑ دیں۔ اگر وہ چاہتی ہے کہ آپ اس کے ساتھ رہیں تو سفر کے اختتام تک اس کے ساتھ رہیں‘۔

    میرل کا کہنا ہے، ’اگر آج آپ کسی اجنبی مسلمان کی مدد کریں گی اور اسے مشکل سے بچائیں گی، تو کبھی کسی دوسرے مقام پر کوئی اور اجنبی مسلمان آپ کے کسی پیارے کو بھی کسی مشکل سے بچا سکتا ہے‘۔

  • پاکستان میں صنفی امتیاز کی غلط تشریح

    پاکستان میں صنفی امتیاز کی غلط تشریح

    عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جاری کی جانے والی صنفی امتیاز کے ممالک کی فہرست میں پاکستان آخر سے دوسرے نمبر پر ہے۔ فہرست میں شامل 145 ممالک میں پاکستان کا نمبر 144واں ہے۔ ملک میں مختلف افراد اور ادارے صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں اور ہم نے ایسی ہی ایک نوجوان خاتون عروج اشرف اعوان سے جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں صنفی امتیاز کی وجہ آخر کیا ہے؟

    خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ جب تک خواتین تعلیم حاصل نہیں کریں گی، انہیں اپنے بنیادی حقوق کا علم نہیں ہوگا اور وہ اپنے لیے کیے جانے ہر فیصلے کو، چاہے وہ ان کے لیے درست ہو یا نہ ہو، آرام سے قبول کرلیں گی۔

    دوسری وجہ خواتین کا معاشی طور پر خود کفیل نہ ہونا ہے۔ معاشی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے اکثریت کے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں اور وہ لامحالہ اپنے سرپرستوں کے فیصلوں کو ماننے پر مجبور ہوتی ہیں۔

    تاہم عروج اشرف اعوان کا ماننا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ’صنفی امتیاز‘ کی تشریح غلط کی جاتی ہے۔

    وہ اس کی وضاحت کچھ یوں کرتی ہیں، ’صنفی امتیاز کا تعین چار چیزوں پر کیا جاتا ہے۔ معاشی عمل میں شرکت، تعلیمی مواقع، سیاسی خود مختاری، اور طبی سہولیات‘۔

    اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی عروج اشرف وہ واحد پاکستانی نوجوان ہیں جو بین الاقوامی مہم ’ہی فار شی‘ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین کے تحت شروع کی جانے والی اس مہم ’ہی فار شی‘ کا آغاز ہالی ووڈ اداکارہ ایما واٹسن نے کیا اور اس کا مقصد خواتین کی خود مختاری اور بنیادی حقوق کی فراہمی میں مردوں کے کردار کو آگے لانا ہے۔

    مزید پڑھیں: وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق سے کیسے چھٹکارہ پایا گیا؟

    چند دن قبل اس مہم کے دو سال پورے ہونے کے موقع پر نیویارک کے میوزیم آف ماڈرن آرٹس میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں اقوام متحدہ کے نمائندگان سمیت جاپان کے وزیر اعظم شنزو ایبے، اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی شرکت کی۔

    عروج نے اس تقریب میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے متاثر کن خیالات کا اظہار کیا۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عروج کا کہنا تھا کہ معاشی عمل میں شرکت سے مراد اچھی ملازمتوں کے یکساں مواقع، یکساں تنخواہیں، اور اداروں میں رہتے ہوئے مختلف مواقع حاصل کرنے کا یکساں امکان ہے۔ تعلیم چاہے ابتدائی ہو، ثانوی یا اعلیٰ تعلیم، مرد و خواتین دونوں کے لیے اس کو حاصل کرنے کے یکساں مواقع ہوں۔ فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی بامعنی شمولیت، اور مردوں کو حاصل تمام طبی سہولیات کی خواتین کو بھی یکساں فراہمی دراصل صنفی برابری کی نشانی ہے۔

    عروج کا تعلق ایک آرمی خاندان سے ہے۔ وہ ان خوش نصیب لڑکیوں میں سے ایک ہیں جنہیں بچپن سے ہی وہی اہمیت و مواقع حاصل ہوئے جو ان کے بھائیوں کو ملے۔ انہیں اس صنفی امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس کا آغاز سب سے پہلے لڑکیوں کے اپنے گھر سے ہوتا ہے۔

    البتہ اپنی یونیورسٹی میں ان کا جنسی متعصبانہ رویے سے ضرور واسطہ رہا۔ انہوں نے لاہور کی ایک مشہور انجینیئرنگ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی جہاں 20 لڑکوں کے مقابلے میں ایک لڑکی زیر تعلیم تھی۔

    ہی فار شی کی تقریب میں عروج نے بتایا، ’میرے کلاس فیلوز مجھے کہا کرتے تھے، لڑکیوں کو اچھے گریڈز ان کی کارکردگی و ذہانت کی بنیاد پر نہیں ملتے، بلکہ اس بنیاد پر ملتے ہیں کہ انہوں نے کتنا میک اپ کیا ہوا ہے‘۔

    عروج کا خیال تھا کہ ایک پڑھے لکھے ماحول کا حصہ ہونے کے باوجود انہیں ایسی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو ایک مڈل کلاس عام لڑکی کو کیا کیا نہ سننا پڑتا ہوگا۔

    یہی وہ خیال تھا جس نے انہیں صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔

    دوران تعلیم انہوں نے اپنی ساتھی طلبا کے ساتھ مل کر لڑکیوں کے لیے ایک سوسائٹی ’زمل‘ تشکیل دی جس کا مقصد صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے آگاہی پیدا کرنا تھا۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق کو للکارتی مصر کی خواتین بائیکرز

    گزشتہ برس عالمی یوم خواتین کےموقع پر زمل نے لڑکوں کی ایک تنظیم ’خاردار‘ کے ساتھ مل کر ہی فار شی مہم کا پاکستان میں آغاز کیا۔ ’ایز برادر وی اسٹینڈ‘ کے نعرے کے ساتھ خاردار نامی تنظیم کا مقصد کم و بیش یہی تھا کہ خواتین کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے مرد قدم بڑھائیں۔

    عروج بتاتی ہیں، ’اس مہم کے تحت ہم نے صنفی امتیاز کے خاتمے کی آگاہی کے لیے پوسٹرز تقسیم کیے اور بینرز لگائے۔ ہمارا مقصد تھا کہ ہم لوگوں کو بتائیں کہ وہ کون سے رویے ہیں جو صنفی امتیاز کا سبب بنتے ہیں‘۔

    لیکن حسب توقع، لوگوں کو اس سے اختلاف تھا۔ عروج اور اس کے ساتھیوں کو دھمکیاں ملنی شروع ہوگئیں۔ ان کے لگائے گئے بینرز پھاڑ دیے گئے۔ کچھ لوگوں نے یونیورسٹی انتظامیہ سے شکایت کی کہ اس قسم کی سرگرمیاں تعلیمی اداروں کے لیے مناسب نہیں۔ بدقسمتی سے یونیورسٹی انتظامیہ نے کسی تنازعہ سے بچنے کے لیے عروج اور اس کی ٹیم کو اپنی مہم بند کرنے کا حکم دیا۔

    لیکن یہ چیز ان لوگوں کو ان کے مقصد سے نہ ہٹا سکی۔

    عروج نے بتایا کہ لوگ اس سے پوچھتے تھے، ’تم ایک بہترین زندگی گزار رہی ہو، ایک اچھے تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہی ہو، پھر تم کس امتیاز کی بات کرتی ہو‘؟ اور عروج کا جواب تھا، ’بات صرف میری نہیں، ہر اس لڑکی کی ہے جسے اپنے حقوق کے لیے بولنے کی اجازت نہیں‘۔

    انہوں نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ خواتین کی معاشی خود مختاری اور تعلیم دونوں ہی ان کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ ’معاشی طور پر خوشحال خواتین اپنی صحت سے متعلق مسائل کا حل نکال سکتی ہیں۔ جبکہ تعلیم انہیں قومی سیاست میں باعمل بنانے میں مدد گار ثابت ہوگی‘۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    عروج کا ماننا ہے کہ خود مختار اور باعمل خواتین مستحکم معاشرے کی تشکیل اور اس کے امن میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہیں اور نئی نسل کی بہترین تربیت کر کے انہیں معاشرے کا کارآمد حصہ بنا سکتی ہیں۔

    عروج، ان کی ٹیم اور زمل کے بانی ارکان کو صنفی امتیاز کے خلاف آواز اٹھانے پر گزشتہ برس ’ہی فار شی ہیرو ۔ گلوبل ایوارڈ‘ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

    وہ کون سا قدم ہے جو پاکستان میں صنفی امتیاز کا خاتمہ کرسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے عروج نے بتایا کہ آگاہی اور تعلیم دو بنیادی چیزیں ہیں۔ ’لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کو یکساں مواقع دینے سے ان کی مذہبی و معاشی اقدار کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ صنفی امتیاز کا خاتمہ نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے‘۔

    مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    عروج کا کہنا تھا، ’اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے خواتین کو ان کے بنیادی حقوق دیے جسے ہم دوسرے لفظوں میں ان کی خود مختاری بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس سے قبل خواتین کی حیثیت مردوں کے لیے ایک مفتوحہ شے جیسی تھی۔ عزت کے ساتھ تمام بنیادی حقوق، اور یکساں مواقعوں کی فراہمی اسلام ہی نے عورت کو فراہم کیے‘۔

    عروج بتاتی ہیں کہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو سے ملنا ان کی زندگی کا یادگار لمحہ تھا۔ ’جسٹن ٹروڈو موجودہ دور کے وہ واحد لیڈر ہیں جو حقوق نسواں کے حامی اور علمبردار ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں‘۔

    نیویارک میں ہونے والی اس تقریب میں عروج کی تقریر کو بے حد سراہا گیا اور شنزو ایبے اور جسٹن ٹروڈو سمیت حاضرین نے کھڑے ہو کر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

    عروج کا عزم ہے کہ وہ اس مہم کو پاکستان میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھائیں گی۔ ’ملک بھر سے اب تک 6 ہزار افراد (مرد) اس مہم میں شامل ہو کر اپنے آس پاس کی خواتین کو خود مختار بنانے کا عزم کر چکے ہیں‘۔

    عروج کی متاثر کن تقریر کے بعد پاکستان اب ہی فار شی کے پلیٹ فارم پر توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ عروج اب اپنے آپ کو اس مقصد کے لیے پوری طرح وقف کر چکی ہیں اور ان کا ارادہ ہے کہ وہ اس مہم کا دائرہ ملک بھر میں وسیع کریں گی۔

  • ہیلری کلنٹن کا خفیہ ہتھیار: پاکستان سے تعلق رکھنے والی مسلمان ہما عابدین

    ہیلری کلنٹن کا خفیہ ہتھیار: پاکستان سے تعلق رکھنے والی مسلمان ہما عابدین

    واشنگٹن: امریکا کے صدارتی انتخابات اگلے ماہ منعقد ہونے والے ہیں اور امریکی عوام کی اکثریت سمیت دنیا بھر کے امن پسند افراد ڈیمو کریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کے صدر بننے کے خواہش مند ہیں۔

    اب تک کے سروے اور رپورٹس کے مطابق ہیلری کلنٹن کو ڈونلڈ ٹرمپ پر برتری بھی حاصل ہے۔ ہیلری کلنٹن کی ٹیم میں جہاں بے شمار باصلاحیت اور ذہین افراد شامل ہیں وہیں ایک خاتون ایسی بھی ہیں جو اپنی بہترین صلاحیتوں کے باوجود صرف اس لیے ناقدین کی نظروں میں کھٹکتی ہیں کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔

    huma-5

    جی ہاں، امریکا کی ممکنہ آئندہ صدر کی ٹیم میں شامل خاتون ہما محمود عابدین نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ ان کا تعلق پاکستان سے بھی ہے۔ ہما ایک طویل عرصہ سے مختلف امریکی سرکاری عہدوں پر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

    ہما کے والد سید زین العابدین ایک بھارتی مصنف ہیں جبکہ والدہ صالحہ محمود عابدین پاکستانی ہیں جو امریکہ جانے کے بعد مختلف اخبارات و رسائل سے وابستہ رہیں۔

    مزید پڑھیں: صومالیہ کی پہلی خاتون صدارتی امیدوار

    ہما کی پیدائش امریکی ریاست مشی گن میں ہوئی تاہم دو سال کی عمر میں وہ اپنے والدین کے ساتھ جدہ چلی گئیں جہاں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ امریکا واپس آگئیں اور مختلف تعلیمی اداروں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

    ہما کی پہلی جاب وائٹ ہاؤس میں تھی۔ انہوں نے 1996 میں وائٹ ہاؤس میں انٹرن شپ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا جہاں انہیں اس وقت کی خاتون اول ہیلری کلنٹن کی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ یہیں سے ہیلری نے ان میں چھپی صلاحیتوں کو پہچانا اور ہما کو مستقلاً اپنی ٹیم میں شامل کرلیا۔

    huma-4

    اس کے بعد سے ہیلری نے جب بھی کسی سیاسی عہدہ کے لیے جدوجہد کی، چاہے وہ سینیٹر کا انتخاب ہو، 2007 میں صدارتی امیدوار کے لیے نامزدگی کی مہم ہو یا موجودہ صدارتی انتخاب کے لیے چلائی جانے والی مہم، ہر ناکام اور کامیاب سفر میں ہما ان کے ساتھ رہیں۔ سنہ 2007 میں ایک مشہور صحافی ربیکا جانسن نے ہما کو ’ہیلری کا خفیہ ہتھیار‘ کا نام دیا۔

    اوباما کے پہلے دور صدارت کے دوران جب ہیلری کلنٹن سیکریٹری خارجہ رہیں، ہما اس وقت ان کی ڈپٹی چیف آف اسٹاف رہیں۔ یہ عہدہ اس سے قبل کسی کے پاس نہیں تھا اور ہما کے لیے یہ خصوصی طور پر تخلیق کیا گیا۔

    صرف یہی نہیں ہما کو خصوصی رعایت دی گئی کہ وہ دارالحکومت واشنگٹن میں رہنے کے بجائے نیویارک میں اپنے گھر میں رہ کر بھی کام کرسکتی ہیں تاکہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکیں۔

    ہما پر نہ صرف ہیلری کلنٹن بلکہ بل کلنٹن بھی بے حد اعتماد کرتے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہما کلنٹن فاؤنڈیشن کا بھی حصہ ہیں جس کا سرکاری امور سے کوئی تعلق نہیں۔

    huma-3

    ہیلری کے دیگر رفقا کا کہنا ہے کہ ہما ایک ذہین اور نہایت باصلاحیت خاتون ہیں۔ جب ہیلری سیکریٹری خارجہ تھیں تب وہ مشرق وسطیٰ کے معاملات پر ہما سے مشورے لیا کرتیں۔ ہما کو مشرق وسطیٰ کے معاملات پر گہری نظر تھی اور وہ نہایت دور اندیش تجزیے پیش کیا کرتی تھیں۔

    تقریباً اپنی تمام عمر امریکا میں گزارنے کے باوجود ہما اپنے بنیادی تشخص کو نہیں بھولیں۔ وائٹ ہاؤس میں انٹرن شپ کے دوران وہ ’جرنل آف مسلم مائنرٹی افیئرز‘ نامی رسالے کی نائب مدیر بھی رہیں جس میں امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کے مسائل و موضوعات کو پیش کیا جاتا تھا۔

    سنہ 2012 میں کانگریس کے چند ری پبلکن اراکین نے الزام عائد کیا کہ ہما کا ایک بھائی بھی ہے جس کی شناخت کو دنیا سے چھپایا گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کا تعلق مختلف شدت پسند تنظیموں سے ہے اور ایسے شخص کی بہن کا اہم سرکاری عہدوں پر تعینات رہنا امریکی سلامتی کے لیے سخت خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔

    تاہم اس الزام کو کانگریس کی اکثریت اور امریکی عوام نے مکمل طور پر مسترد کردیا۔

    huma-2

    ہما ہندی، اردو اور عربی زبان پر عبور رکھتی ہیں۔ انہوں نے ایک کانگریسی رکن انتھونی وینر سے شادی کی جس سے ان کا بیٹا بھی ہے تاہم 6 سال بعد انہوں نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی۔

    پاکستانی اور دنیا بھر کی خواتین کے لیے عزم و ہمت کی روشن مثال ہما کہتی ہیں، ’میں اپنے مقام سے خوش ہوں۔ میں نہ صرف تاریخ میں ذرا سی جگہ حاصل کرنے میں کامیاب رہوں گی، بلکہ اس مقام پر رہ کر میں لوگوں کی مدد بھی کرسکتی ہوں‘۔

  • وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق سے کیسے چھٹکارہ پایا گیا؟

    وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق سے کیسے چھٹکارہ پایا گیا؟

    دنیا میں خواتین کی آبادی لگ بھگ مردوں کے برابر ہو چکی ہے، اس کے باوجود آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی خواتین کو صنفی تفریق کا سامنا ہے۔ غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں یہ عدم مساوات خواتین کے خلاف بڑے بڑے سنگین جرائم کا سبب ہے اور انہیں روکنے میں حکومتیں اور عدالتیں بھی ناکام ہیں۔

    ترقی یافتہ ممالک میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پائی جاتی ہے۔ یہاں خواتین کو جان کا تحفظ تو حاصل ہے لیکن عملی میدان میں انہیں وہ مواقع حاصل نہیں جو مردوں کو حاصل ہیں یا یوں کہہ لیں کہ مردوں کے مقابلے میں انہیں کم باصلاحیت خیال کیا جاتا ہے۔

    ایک عام مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر دفاتر میں مختلف چیلنجنگ ٹاسک کے لیے پہلے مرد ملازمین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ خواتین کی باری اس وقت آتی ہے جب کم از کم 2 سے 3 مرد ملازمین اس کام کو کرنے سے انکار کرچکے ہوں۔

    اسی طرح دفاتر میں خواتین کے آئیڈیاز اور تجاویز کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس موقع پر بعض مرد ملازمین ان کی تجاویز کو اپنی طرف سے پیش کر کے مالکان سے داد وصول کرلیتے ہیں اور اس آئیڈیے کی خالق خاتون حیران پریشان رہ جاتی ہے۔

    یہی نہیں اکثر شعبوں میں خواتین تنخواہوں اور دیگر سہولیات کے معاملے میں بھی مردوں کی ہم صلاحیت ہونے کے باوجود ان سے پیچھے ہیں۔

    اقوام متحدہ خواتین (یو این وومین) مختلف حکومتوں پر زور دے رہی ہے کہ کام کرنے والی خواتین کی تنخواہیں اتنی ہی ہونی چاہئیں جتنی مردوں کی ہیں۔ یہ مہم ہالی ووڈ اداکارہ ایما واٹسن کی سربراہی میں چلائی جارہی ہے۔

    کام کرنے کی جگہوں پر خواتین مساوات کیسے حاصل کرسکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ خواتین ہی ایک دوسرے کو ان کے حقوق دلا سکتی ہیں۔ اگر دفاتر میں کسی خاتون کے ساتھ صنفی تفریق کا مظاہرہ کیا جارہا ہے تو خواتین ایک دوسرے کی حمایت کرکے اور آپس میں متحد ہو کر اس رویے کے خلاف آواز اٹھا سکتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: فرانس کی خاتون وزرا کا شوقین مزاج مرد سیاست دانوں کے خلاف محاذ

    تاہم اس کی ایک عمدہ مثال وائٹ ہاؤس میں دیکھنے میں آئی۔

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ امریکا جیسے ملک میں بھی صںفی تفریق پائی جاتی ہے جہاں اس کا تصور بھی محال لگتا ہے۔ مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ امریکی صدارتی محل یعنی وائٹ ہاؤس تک میں خواتین ملازمین صنفی تفریق کا شکار ہیں۔

    وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک خاتون جولیٹ ایلپرن نے ایک غیر ملکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ کس طرح وہاں موجود خواتین نے صنفی تفریق کا مقابلہ کیا۔ ان کے مطابق صدر اوباما کے دور صدارت سے قبل وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق اپنے عروج پر تھی۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    وہ بتاتی ہیں، ’وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک تہائی سے زائد عملہ مردوں پر مشتمل تھا۔ خواتین جب میٹنگز میں اپنی تجاویز پیش کرتیں تو انہیں نظر انداز کردیا جاتا۔ وہ جب بات کرنے کی کوشش کرتیں تو ان کی بات کو کاٹ دیا جاتا۔ اکثر اوقات خواتین کی جانب سے پیش کیے گئے آئیڈیاز کو نظر انداز کردیا گیا اور تھوڑی دیر بعد کسی مرد نے انہیں اپنا آئیڈیا بنا کر پیش کردیا جس کے بعد میٹنگ روم تالیوں سے گونج اٹھتا‘۔

    جولیٹ کے مطابق اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے وائٹ ہاؤس کی تمام خواتین نے ایک حکمت عملی ترتیب دی اور اس پر عمل کرنا شروع کیا۔ میٹنگ میں جب کوئی خاتون کوئی مشورہ یا تجویز پیش کرتیں تو دیگر تمام خواتین اپنی باری پر اس نکتہ کو بار بار دہراتیں اور اس خاتون کا نام لیتیں جنہوں نے یہ نکتہ پیش کیا ہوتا۔

    اس سے میٹنگ میں موجود مرد عہدیداران نے مجبوراً ان کی بات پر توجہ دینی شروع کردی۔ خواتین کی اس حکمت عملی سے یہ فائدہ بھی ہوا کہ مردوں نے ان کے آئیڈیاز کو چرا کر انہیں اپنے نام سے پیش کرنا چھوڑ دیا۔

    جولیٹ کا کہنا تھا، ’آہستہ آہستہ چیزیں تبدیل ہونا شروع ہوگئیں۔ اس صورتحال کو صدر اوباما نے بھی محسوس کرلیا اور وہ مرد عہدیداران کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ اہمیت دینے لگے‘۔

    خیال رہے کہ امریکی میڈیا کے مطابق صدر باراک اوباما وہ پہلے صدر ہیں جو صنفی مساوات کے قائل ہیں۔ ان کی انتظامیہ کو امریکی تاریخ کی سب سے متنوع انتظامیہ کہا جاتا ہے جس میں خواتین اور سیاہ فام افراد شامل ہیں اور یہ افراد اعلیٰ عہدوں پر بھی تعینات ہیں۔

     مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    جولیٹ بتاتی ہیں کہ جب صدر اوباما کا دوسرا دور صدارت شروع ہوا تو خواتین کو بھی مردوں کے برابر اہمیت دی جانے لگی اور میٹنگز کے دوران مرد و خواتین دونوں کو بولنے کا یکساں وقت دیا جانے لگا۔

    جولیٹ کے مطابق یہ تکنیک ہر جگہ استعمال کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اپنی شناخت منوانے کے لیے خواتین کو خود متحد ہونا پڑے گا اور جب تک وہ آپس میں متحد ہو کر اپنے جائز حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھائیں گی، تب تک ہمیں اکیسویں صدی میں بھی صنفی تفریق کا سامنا کرنا پڑے گا۔

  • پناہ گزین کیمپ کی خواتین کا معاشی خوشحالی کا سفر

    پناہ گزین کیمپ کی خواتین کا معاشی خوشحالی کا سفر

    ہجرت ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو عشروں سے بسا ہوا اس کا گھر اور پچھلی زندگی چھوڑ کر ایک نئی زندگی شروع کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اگر آگے آنے والی زندگی بہتر ہو تو یقیناً پچھلی جگہ سے ہجرت کرنا بہتر ہے۔ لیکن اگر آگے صرف تکلیف ہو، بے سروسامانی ہو، مصائب ہوں، اور پریشانی ہو تو کوئی شخص، چاہے وہ کیسی ہی بدحال زندگی کیوں نہ گزار رہا ہو اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہتا۔

    لیکن زندگی بہرحال ہر چیز سے بالاتر ہے۔ جب پرسکون گھر کے اطراف میں آگ کے شعلے گر رہے ہوں اور ہر وقت جان جانے کا دھڑکا لگا ہو تو مجبوراً ہجرت کرنی ہی پڑتی ہے۔

    پناہ گزین بچوں کے خواب *

    دنیا بھر کے مختلف ممالک میں جاری جنگوں اور خانہ جنگیوں کے باعث اس وقت دنیا کی ایک بڑی آبادی ہجرت پر مجبور ہوچکی ہے۔ یہ لوگ مختلف ممالک میں مہاجرین کے کیمپوں میں حسرت و یاس اور بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ نہ ان کے پاس مناسب غذا ہے، نہ رہائش، اور نہ تعلیم و صحت جیسی بنیادی ضروریات۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطاق اس وقت دنیا بھر میں 60 ملین افراد اپنے گھروں سے زبردستی بے دخل کردیے گئے ہیں۔ یہ انسانی تمدن کی تاریخ میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان کیمپوں میں خواتین بھی ابتر حالت میں موجد ہیں۔

    اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ برائے مہاجرین ان پناہ گزینوں کی امداد کے لیے کوشاں ہے تاہم کروڑوں افراد کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے وسائل بھی ناکافی ہیں۔

    اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خواتین یو این وومین ان مہاجر کیمپوں میں موجود خواتین کی حالت زار کو سدھارنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ یہ ادارہ چاہتا ہے کہ یہ خواتین ان کیمپوں میں رہتے ہوئے ہی محدود وسائل کے اندر معاشی طور پر خود مختار اور ہنر مند ہوجائیں تاکہ یہ اپنی اور اپنی خاندانوں کی زندگی میں کچھ بہتری لا سکیں۔

    اسی طرح کا ایک پروگرام افریقی ملک کیمرون کے گاڈو مہاجر کیمپ میں شروع کیا گیا جہاں پڑوسی ملک، مرکزی جمہوریہ افریقہ سے ہجرت کر کے آنے والی خاندان پناہ گزین ہیں۔

    مرکزی جمہوریہ افریقہ اس وقت خانہ جنگی کا شکار ہے اور ملک کی 20 فیصد آبادی اپنی زندگیاں بچانے کے لیے ہجرت پر مجبور ہے۔ یو این وومین نے ان کیمپوں میں موجود خواتین کی معاشی و سماجی بہتری کے لیے بحالی کے پروگرام شروع کیے ہیں جن کے تحت اب تک 6250 خواتین مستفید ہوچکی ہیں۔ یہ خواتین غربت، صحت کے مسائل، صنفی امتیاز اور جنسی تشدد کا شکار تھیں۔

    یو این وومین کی ایک رپورٹ میں ان میں سے کچھ خواتین کی کہانی بیان کی گئی جو اقوام متحدہ کی مدد کے بعد اب ایک بہتر زندگی گزار رہی ہیں۔

    1
    حوا

    مرکزی جمہوریہ افریقہ کی 23 سالہ حوا 8 ماہ کی حاملہ تھی جب خانہ جنگی میں اس کا شوہر، باپ اور بھائی مارے گئے اور ماں لاپتہ ہوگئی۔ حوا مشکل وقت کو جھیلنے کے لیے بالکل تنہا رہ گئی۔ وہ ایک مہاجر گروہ کے ساتھ سرحد پار کر کے کیمرون آگئی اور یہاں اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔

    2

    یو این وومین سے تربیت لینے کے بعد اب حوا ان کیمپوں میں ہی خشک مچھلی اور خشک میوہ جات فروخت کرتی ہے۔ اس کا بیٹا ایک کپڑے کی مدد سے اس کی پشت پر بندھا ہوتا ہے جبکہ ایک پڑوسی لڑکا اس کے سامان کا ٹھیلا گھسیٹتا ہوا اس کے ساتھ چلتا ہے۔

    4
    اردو فدیماتو

    اردو فدیماتو کیمپ میں رہنے والی 12 ہزار خواتین کی نمائندہ ہیں اور وہ یو این وومین کی کئی میٹنگز میں شریک ہو کر کیمپ کے مسائل بیان کرچکی ہیں۔ جنگ کے دوران اس کے 15 میں سے 8 بچے مارے گئے جبکہ شوہر لاپتہ ہوگیا تھا۔

    وہ کہتی ہیں، ’ایک خاتون لیڈر کی حیثیت سے سب سے بڑا مسئلہ مجھے والدین کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں۔ مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو گھر پر ہی رکھتے ہیں اور انہیں صرف قرآن کی تعلیم دیتے ہیں‘۔

    ان کا کہنا ہے، ’یہاں رہنے والی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی سخت ضرورت ہے تا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں‘۔

    5
    یایا دیا آدما

    یایا دیا آدما خانہ جنگی کے دوران اپنے 5 بچوں کے ساتھ کیمرون آگئیں۔ اب یہاں یو این وومین کے زیر نگرانی انہوں نے کپڑوں کی سلائی کا کام سیکھ کر اپنا کام شروع کردیا ہے۔ وہ ہر روز تقریباً 1 سے 2 ہزار افریقی فرانک کما لیتی ہیں۔

    یایا مزید 3 خواتین کو بھی یہ ہنر سکھا رہی ہیں تاکہ وہ بھی ان کی طرح خود مختار ہوسکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔

    6
    اوسینا حمادو

    اوسینا حمادو مہاجر کیمپ میں کھانے پینے کا ایک ڈھابہ چلاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’یو این وومین نے مجھے اس کی تربیت دی اور مالی معاونت فراہم کی۔ میں نے اس رقم سے سرمایہ کاری کی اور اب اپنے کاروبار کی بدولت میں اپنے گھر کی مالک ہوں‘۔

    7
    نینی داؤدا

    نینی داؤدا بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں جو کھانے پینے کا عارضی مرکز چلا رہی ہیں۔

    اپنے شوہر کے جنگ میں مارے جانے کے بعد وہ 5 بچوں کے ساتھ کیمرون آئیں اور اب اپنے کاروبار کی بدولت اپنے بچوں کو تعلیم بھی دلوا رہی ہیں۔ ان کی بیٹی سلاماتو بھی ان کے اس کام میں ان کی معاون ہے۔

    8

    کیمرون کے مہاجر کیمپ کی رہائشی یہ خواتین گو کہ اپنے گھروں یاد کرتی ہیں مگر وہ اپنی موجودہ زندگی بدلنے کی خواہاں بھی ہیں اور اس کے لیے سخت جدوجہد کر رہی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ایک دن وہ ضرور اپنے گھروں کو لوٹیں گی اور ایک نئی زندگی شروع کریں گی۔

  • داعش کے ظلم کا شکار عراقی خاتون اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر مقرر

    داعش کے ظلم کا شکار عراقی خاتون اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر مقرر

    نیویارک: داعش کے ہاتھوں اغوا ہونے اور بعد ازاں اپنی جان بچا کر واپس آنے والی عراقی خاتون نادیہ مراد طحہٰ کو اقوام متحدہ نے اپنا خیر سگالی سفیر مقرر کردیا ہے۔

    عراق کے اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ نادیہ ایک عرصے سے داعش کے مظالم کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ 2014 میں ان کے گاؤں پر ہونے والے داعش کے حملہ کو یزیدیوں کا قتل عام قرار دیا جائے۔

    nadia-2

    واضح رہے کہ داعش نے عراق کے یزیدی قبیلے کو کافر قرار دے کر 2014 میں عراقی شہر سنجار کے قریب ان کے اکثریتی علاقہ پر حملہ کیا اور ہزاروں یزیدیوں کو قتل کردیا۔ داعش کے جنگجو سینکڑوں ہزاروں یزیدی خواتین کو اغوا کر کے اپنے ساتھ موصل لے گئے جہاں ان کے ساتھ نہ صرف اجتماعی زیادتی کی گئی بلکہ وہاں ان کی حیثیت ان جنگجؤوں کے لیے جنسی غلام کی ہے۔

    اغوا ہونے والی خواتین میں ایک نادیہ بھی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ داعش کے جنگجؤں نے ان کے ساتھ کئی بار اجتماعی زیادتی کی جبکہ انہیں کئی بار ایک سے دوسرے گروہ کے ہاتھوں بیچا اور خریدا گیا۔

    nadia-4

    وہ اس سے قبل بھی اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک ہو کر اپنی کہانی سنا چکی ہیں جس نے وہاں موجود افراد کو رونے پر مجبور کردیا۔ ’میں خوش قسمت ہوں کہ وہاں سے نکل آئی۔ مگر وہاں میری جیسی ہزاروں لڑکیاں ہیں جنہیں بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملا اور وہ تاحال داعش کی قید میں ہیں‘۔

    ایک رپورٹ کے مطابق داعش کی قید میں 3200 لڑکیاں موجود ہیں۔ نادیہ کا کہنا ہے کہ یہ خواتین داعش کے جنگجوؤں کے لیے جنسی غلام کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے عالمی طاقتوں سے انہیں آزاد کروانے کا مطالبہ کیا۔

    مزید پڑھیں: داعش نے 19 یزیدی خواتین کو زندہ جلا دیا

    وہ کہتی ہیں، ’مجھے خوف اس بات کا ہے کہ جب ہم داعش کو شکست دے دیں گے تب داعش کے جنگجو اپنی داڑھی منڈوا کر، کلین شیو ہو کر سڑکوں پر ایسے پھریں گے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں‘۔

    ان کا کہنا ہے، ’مجھے امید ہے کہ داعش کے ظلم کا شکار یزیدی ایک دن اپنی آنکھوں سے اپنے مجرمان کو عالمی عدالت برائے جرائم میں کھڑا ہوا دیکھیں گے جہاں انہیں ان کے انسانیت سوز جرائم کی سزا ملے گی‘۔

    اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر مقرر ہونے کے بعد اب نادیہ دنیا بھر میں انسانی اسمگلنگ کا شکار، خاص طور پر مہاجر لڑکیوں اور خواتین کی حالت زار کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کریں گی۔

    مزید پڑھیں: مہاجر شامی خواتین کا بدترین استحصال جاری

    اس سے قبل لندن کی مشہور وکیل برائے انسانی حقوق اور ہالی ووڈ اداکار جارج کلونی کی اہلیہ امل کلونی عالمی عدالت برائے جرائم میں داعش کے یزیدی خواتین پر مظالم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کرچکی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’بحیثیت انسان مجھے شرمندگی ہے کہ ہم ان کی مدد کے لیے اٹھنے والی درد ناک صداؤں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ داعش کو ہر صورت اپنے بھیانک جرائم کا حساب دینا ہوگا‘۔

    nadia-3

    یاد رہے کہ اگلے ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس منعقد ہونے جارہا ہے جس میں عراق اور برطانیہ عالمی طاقتوں سے داعش کو اس کے جرائم کی سزا دلوانے کا مطالبہ کریں گے۔ اجلاس میں امل کلونی اور نادیہ مراد طحہٰ بھی شرکت کریں گی۔

    دوسری جانب ہالی ووڈ اداکارہ اور اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی برائے مہاجرین انجلینا جولی بھی اجلاس میں شرکت کریں گی۔ انہوں نے حال ہی میں اردن کے دارالحکومت عمان سے 100 کلومیٹر دور صحرائی علاقہ میں قائم ازراق مہاجر کیمپ کا دورہ کیا تھا۔

  • وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے سے قبل مشل اوباما کی سرگرمیاں

    وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے سے قبل مشل اوباما کی سرگرمیاں

    واشنگٹن: امریکی خاتون اول مشل اوباما آج کل وائٹ ہاؤس میں اختتامی دن گزار رہی ہیں۔ رخصت ہونے سے قبل انہوں نے امریکی صدر کے ساتھ ایک فیشن میگزین کے لیے فوٹو شوٹ کروایا۔

    بارک اوباما کے دور صدارت کے دوران ان کی اہلیہ مشل اوباما بھی خاصی سرگرم رہیں۔ انہوں نے ترقی پذیر ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خاص طور پر کام کیا۔

    اس مقصد کے لیے انہوں نے ’لیٹ گرلز لرن‘ نامی منصوبے کا آغاز کیا۔ اس کے تحت پاکستان، افغانستان، اردن اور کئی افریقی ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکولوں کی تعمیر اور دیگر تعلیمی منصوبوں کا آغاز کیا گیا۔ ان منصوبوں کے لیے امریکی بجٹ کی ایک خطیر رقم مختص کی گئی۔

    مشل اوباما نے ہالی ووڈ اداکارہ میرل اسٹریپ اور بالی ووڈ اداکارہ فریدہ پنٹو کے ہمراہ لائبیریا اور مراکش میں بھی تعلیمی منصوبوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے شعور و آگاہی کی مہم چلائی۔

    michelle-2

    مشل اوباما کی سربراہی میں چلنے والا ایک اور منصوبہ ’مائی برادرز کیپر‘ ہے۔ اس کے تحت امریکا میں آباد سیاہ فام نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی استعداد میں اضافہ کے لیے کام کیا گیا تاکہ وہ اپنی کمیونٹی اور امریکی معاشرے کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔

    حال ہی امریکی خاتون اول نے 2 میگزینز کے لیے فوٹ شوٹ کروایا ہے۔ ایک میں وہ امریکی صدر بارک اوباما کے ساتھ موجود ہیں جبکہ دوسرے میں وہ اکیلی میگزین کے سرورق پر جلوہ گر ہیں۔

    m5

    دونوں فوٹو شوٹس میں وہ اپنے منفرد سادہ اسٹائل میں نظر آرہی ہیں۔

    اس بارے میں مشل اوباما کا کہنا ہے، ’میں فیشن ٹرینڈز کی پاسداری نہیں کرسکتی۔ میں کوئی نوعمر لڑکی نہیں بلکہ نوعمر لڑکیوں کی ماں ہوں۔ میرے لیے خوبصورت لگنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ میں اپنی بیٹیوں اور امریکا کی تمام نوجوان لڑکیوں کے لیے رول ماڈل بنوں‘۔

    مشل اوباما اپنی ہر تقریر میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے، انہیں محنت کرنے، آگے بڑھنے اور وقت ضائع کرنے والے فیشن ٹرینڈز کے پیچھے نہ بھاگنے کی تلقین کرتی ہیں۔

    اس سے قبل ایک تقریب میں وہ امریکی لڑکیوں کو لڑکوں سے دور رہنے اور اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز رکھنے کی ہدایت بھی کر چکی ہیں۔

    ان کا کہنا تھا، ’اس عمر میں کوئی لڑکا اس قابل نہیں جو آپ کو آپ کی تعلیم سے بھٹکا دے۔ اگر آپ کی عمر میں، میں اس بارے میں سوچتی تو میری شادی امریکی صدر سے نہ ہوئی ہوتی‘۔

  • عالمی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی لاہور کی مسیحی کھلاڑی

    عالمی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی لاہور کی مسیحی کھلاڑی

    لاہور: مضافاتی علاقوں کی تنگ گلیوں، چھوٹے گھروں میں رہنے والوں کے خواب اونچے تو ضرور ہوسکتے ہیں، مگر ان میں چند ایک ہی ایسے ہوتے ہیں جن کی قسمت کا ستارہ چمکتا ہے اور وہ عروج پر پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

    بلند مقاصد پر نظر رکھنے والے قسمت کی اس تبدیلی سے بے نیاز صرف اپنی محنت پر یقین رکھتے ہیں اور یہ سوچ کر اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن ان کی قسمت کا ستارہ ضرور چمکے گا۔ لاہور کی رہائشی ٹوئنکل سہیل اور سونیا عظمت بھی اسی بات پر یقین رکھتی ہیں۔

    t4

    خواتین کی پاور لفٹنگ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی یہ دونوں خواتین مسیحی برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ گزشتہ برس ٹوئنکل نے پہلی بار ویٹ لفٹنگ میں پاکستانی خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے ایشین بنچ پریس چیمپئن شپ کے جونیئر ایونٹ میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔

    اس ایونٹ میں اگلے ہی دن ان کی ٹیم میٹ سونیا نے پاکستان کے لیے دوسرا سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ یوں دونوں خواتین پاکستانی کھیلوں کی تاریخ میں منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔

    اسی ایونٹ میں ایک اور پاکستانی ویٹ لفٹنگ کی کھلاڑی شازیہ کنول نے بھی پاکستان کے لیے تیسرا گولڈ میڈل جیتا۔

    t5

    ان خواتین کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے انہیں اگلے سال امریکی ریاست فلوریڈا میں ہونے والی ورلڈ پاور لفٹنگ چیمپئن شپ میں بھی بھیجا جارہا ہے۔

    ٹوئنکل نے اپنے کیریئر کا اغاز ایک سائیکلسٹ کی حیثیت سے کیا، لیکن ورزش کے دوران ان کے کوچز نے ان کی صلاحیتوں کی نشاندہی کی اور انہیں پاور لفٹنگ کی طرف جانے کا مشورہ دیا۔

    t3

    سونیا کے والد اپنے خاندان سے الگ رہتے ہیں اور والدہ مختلف نوکریاں کر کے زندگی کی گاڑی کھینچ رہی ہیں۔ سونیا کی والدہ اپنی بیٹی کی صلاحیتوں پر بے حد فخر کرتی ہیں اور انہیں یقین ہے کہ ایک دن پاکستان ان کی بیٹی کے نام سے جانا جائے گا۔

    t8

    سونیا اور ٹوئنکل کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پہلی اقلیتی خواتین نہیں ہیں۔ اس سے قبل ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی ایک اور کھلاڑی شیتل آصف بھی عالمی مقابلوں میں شرکت کر چکی ہیں۔

    سونیا اور ٹوئنکل کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے والی ان کی دوست حرا ارشد بھی اپنی دوستوں کی کامیابی پر خوش ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’ان دونوں کی کامیابی نہ صرف میسحی برادری بلکہ پورے ملک کی خواتین کے لیے ایک مثال ہے۔ ان کی کامیابی تمام پاکستانی لڑکیوں کو مہمیز کرے گی کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرلیں‘۔

    t2

    t9

    سونیا اور ٹوئنکل کو اپنی صلاحیتوں اور جدوجہد پر پورا بھروسہ ہے اور انہیں یقین ہے کہ ایک دن وہ اپنے خوابوں کی تعبیر ضرور حاصل کریں گی۔ پاکستانی لڑکیوں کے لیے ان کا پیغام ہے، ’آؤ، آگے بڑھو اور پاکستان کو عروج کی نئی بلندیوں پر لے جاؤ‘۔

  • داعش کی خواتین کے برقع پہننے پر پابندی عائد

    داعش کی خواتین کے برقع پہننے پر پابندی عائد

    بغداد: شدت پسند تنظیم داعش نے عراق کے شمالی علاقوں میں خواتین کے برقع پہننے پر پابندی عائد کردی ہے۔ پابندی برقع میں ملبوس خواتین کے داعش جنگجوؤں پر حملہ کے بعد لگائی گئی ہے۔

    اس سے قبل کئی واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں خواتین کو پردہ نہ کرنے پر داعش جنگجوؤں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں کوڑے مارے۔ تاہم اب داعش نے شمالی عراق کے بعض حصوں میں خواتین کے برقع پہننے پر پابندی عائد کردی ہے۔

    داعش نے اپنے زیر قبضہ علاقہ موصل میں قائم سیکیورٹی سینٹرز میں برقع میں ملبوس خواتین کے داخلہ پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔

    یہ پابندی ایک برقع پوش خاتون کے حملہ کے بعد لگائی گئی ہے جس میں خاتون نے چیک پوسٹ کے قریب کھڑے جنگجوؤں پر پستول سے فائرنگ کردی۔ حملہ میں داعش کے 2 جنگجو مارے گئے۔ ایک اور حملہ موصل میں داعش کے ایک جنگجو پر ہوا تاہم وہ بچ نکلا۔

    ذرائع کے مطابق یہ حملے داعش کے لیے نہایت غیر متوقع اور حیرت انگیز ہیں۔ داعش نے ایسے ہی دیگر حملوں کی وارننگ جاری کرتے ہوئے اپنے پیروکاروں کو برقع پوش خواتین سے محتاط رہنے کی بھی ہدایت کی ہے۔

    داعش نے 19 یزیدی خواتین کو زندہ جلا دیا *

    واضح رہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک عراق اور شام کے مختلف حصوں پر داعش کے قبضے کے بعد خواتین کا بری طرح استحصال جاری ہے۔ داعش ہزاروں خواتین کو اغوا کر کے انہیں اپنی نسل میں اضافے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

    ان خواتین کی حیثیت جنسی غلاموں کی ہے جو ان جنگجوؤں کے ہاتھوں کئی کئی بار اجتماعی زیادتی اور بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بن چکی ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق داعش نے اب تک 7 ہزار خواتین کو اغوا کر کے انہیں غلام بنایا ہے جن میں سے زیادہ تر عراق کے یزیدی قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔

  • صومالیہ کی پہلی خاتون صدارتی امیدوار

    صومالیہ کی پہلی خاتون صدارتی امیدوار

    موغا دیشو: افریقی ملک صومالیہ میں رواں برس صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ ان انتخابات میں ایک خاتون فڈومو ڈیب بھی امیدوار ہیں۔ اگر وہ صدر منتخب ہوگئیں تو صومالیہ کی پہلی خاتون صدر کہلائی جائیں گی۔

    فڈومو صومالیہ کے ایک خاندان سے تعلق رکھتی ہیں تاہم ان کی پیدائش کینیا میں ہوئی۔ ان کے والد ایک ٹرک ڈرائیور تھے۔ 1989 میں جب کینیا اور صومالیہ کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی تو اس خاندان کو کینیا سے ڈی پورٹ کردیا گیا اور وہ واپس صومالیہ جا کر رہنے پر مجبور ہوگئے۔

    somali-3

    اس وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’میں اس وقت کو کبھی نہیں بھول نہیں سکتی۔ ذلت، بے بسی اور دوسرے درجہ کا شہری ہونے کا احساس جو مجھے ساری عمر یاد رہے گا‘۔

    اس کے بعد جب صومالیہ میں خانہ جنگی شروع ہوگئی تو بالآخر اس خاندان نے ہجرت کی اور وہ فن لینڈ میں آ بسے۔

    فڈومو 14 برس کی عمر تک صرف پڑھ سکتی تھیں لیکن انہوں نے فن لینڈ میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ اب ان کے پاس ہارورڈ یونیورسٹی سمیت مختلف یونیورسٹیوں سے حاصل کردہ 3 ڈگریاں ہیں۔

    حالات بہتر ہونے کے بعد انہوں نے صومالیہ جانا شروع کردیا۔ انہوں نے وہاں اقوام متحدہ کے لیے بھی کام کیا اور اب وہ صدارتی انتخاب کی امیدوار ہیں۔

    فڈومو اب شادی شدہ ہیں اور ان کے 4 بچے بھی ہیں لیکن وطن سے محبت کی خاطر وہ اپنے بچوں کو فن لینڈ میں ہی چھوڑ کر واپس اپنے ملک جا رہی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’مجھے نہیں پتہ کہ واپس آؤں گی یا نہیں۔ لیکن میں نے اپنے بچوں سے کہہ رکھا ہے کہ اگر میں واپس نہ آؤں تو وہ اپنی تعلیم مکمل کریں اور اپنی مقاصد کی تکمیل کریں‘۔

    فڈومو کو قتل کی دھمکیاں بھی دی جاچکی ہیں لیکن وہ اپنے عزم پر ڈٹی ہوئی ہیں اور اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    ان کی جدوجہد کو دیگر افریقی ممالک میں بھی پذیرائی مل رہی ہے اور یوگنڈا اور کینیا وغیرہ کے لوگ بھی چاہتے ہیں کہ صومالیہ اپنی پہلی خاتون صدر منتخب کرے۔