Tag: خواتین

  • بھارت میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی بائیک ایمبولینس

    بھارت میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی بائیک ایمبولینس

    نئی دہلی: بھارت کے صوبے اتر پردیش میں ایک گاؤں نارائن پور میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی بائیک ایمبولینس تیار کی گئی ہیں جس کے بعد حاملہ خواتین کی بحفاظت اسپتال روانگی آسان ہوگئی ہے۔

    نارائن پور اتر پردیش کا ایک غیر ترقی یافتہ گاؤں ہے جو جنگل اور اونچے نیچے راستوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہاں طبی سہولیات اور اسپتال موجود نہیں جس کے باعث کسی بیماری کی صورت میں مریض کو قریب واقع شہر منتقل کرنا پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: مودی کی حاملہ خواتین کے مفت علاج کی ہدایت

    گاؤں میں حاملہ خواتین کی زچگی کے لیے اسپتال منتقلی ایک بڑا مسئلہ تھی کیونکہ سواری کے نام پر گاؤں والوں کے پاس صرف موٹر سائیکلیں تھیں۔

    india-bike-3

    ان موٹر سائیکلوں کو ان اونچے نیچے راستوں پر لے جانے سے حاملہ خواتین کو سخت مشکل اور تکلیف سے گزرنا پڑتا تھا جس کا حل گاؤں والوں نے یوں نکالا کہ بائیک پر ایمبولینس میں استعمال کیا جانے والا بیڈ نصب کر کے ایک بائیک ایمبولینس تشکیل دے دی گئی۔

    مزید پڑھیں: کوریا کی بسوں میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی الارم نصب

    اس بائیک ایمبولینس کے ذریعے اس گاؤں کی حاملہ خواتین کی زندگی آسان ہوگئی ہے۔

    گاؤں والوں کی اس کاوش کا اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف نے بھی اعتراف کیا اور اسے خواتین اور چھوٹے بچوں کی زندگی بچانے والا عمل قرار دیا۔

    india-bike-4

    یہ منصوبہ ایک غیر سرکاری تنظیم نے گاؤں والوں کی مدد سے شروع کیا ہے۔ کچھ افراد نے اس مقصد کے لیے رضا کارانہ طور پر اپنی موٹر سائیکلیں فراہم کیں۔ تنظیم کے ایک عہدیدار کے مطابق ایک موٹر سائیکل کو ایمبولینس میں تبدیل کرنے پر 1 لاکھ 70 ہزار کے قریب خرچہ آتا ہے۔

    اس بائیک ایمبولینس میں ایک بیڈ اور پردے آویزاں کیے گئے ہیں اور اس کے باعث حاملہ خواتین اور چھوٹے بچوں کو فوری طور پر اسپتال منتقل کرنے میں آسانی ہوگئی ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندر کنارے واقع گاؤں، غربت اور خواتین

    تنظیم کے مطابق یہ منصوبہ کامیابی سے جاری ہے اور وہ اسے بھارت کے دیگر دیہاتوں تک پھیلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

  • ٹوکیو کی ماحول دوست پہلی خاتون گورنر

    ٹوکیو کی ماحول دوست پہلی خاتون گورنر

    ٹوکیو: جاپانی دارالحکومت ٹوکیو کی عوام نے اپنی پہلی خاتون گورنر کا انتخاب کرلیا۔ یوریکو کوئیکے ایک سابق ٹی وی اینکر ہیں جبکہ وہ وزیر برائے دفاع بھی رہ چکی ہیں۔

    یوریکو تحفظ ماحول کی ایک سرگرم کارکن بھی ہیں۔ وہ ٹوکیو کی پہلی خاتون گورنر ہیں جبکہ بطور وزیر دفاع بھی وہ پہلی خاتون ہیں جو اس عہدے پر فائز رہیں۔

    tokyo-2

    یوریکو نے وزیر اعظم شنزو ایبے کے حمایت یافتہ امیدوار ہیرویا ماسودا کو شکست دے کر فتح حاصل کی۔ انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا اور 2.9 ووٹ حاصل کیے۔

    واضح رہے کہ ان کی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج 2020 کے ٹوکیو اولمپکس کی تیاریاں ہوں گی جو کہ پہلے ہی تاخیر کا شکار ہیں۔ اولمپکس کی تیاریوں کے اخراجات میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث شنزو ایبے اور ان کی حکومت سخت تنقید کی زد میں ہے۔

    اہم عہدوں کی دوڑ میں خواتین نے مردوں کو پیچھے چھوڑ دیا *

    یوریکو 2003 سے 2005 کے دوران جاپان کی وزیر ماحولیات بھی رہ چکی ہیں اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران حامیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ سبز کپڑے اور بینڈز پہن کر تحفظ ماحول کے لیے اپنی حمایت ظاہر کریں۔

    اپنے دور حکومت میں انہوں نے کئی ماحول دوست اقدامات متعارف کروائے جس میں سب سے اہم ’کیوٹو پروٹوکول‘ کی تکمیل کے لیے کاربن ٹیکس کا نفاذ تھا۔

    tokyo-3

    کیوٹو پروٹوکول 1997 میں اقوام متحدہ کی جانب سے متعارف کروایا جانے والا ایک معاہدہ تھا جس کے تحت وہ ممالک جو کاربن کے اخراج میں حصہ دار ہیں، ان غریب ممالک کو ہرجانہ ادا کریں گے جو ان کاربن گیسوں کی وجہ سے نقصانات اٹھا رہے ہیں۔

    یوریکو کا متعارف کروایا جانے والا کاربن ٹیکس مختلف اقسام کے فیول کے استعمال پر لاگو کیا گیا تھا جو بڑی بڑی فیکٹریوں اور صنعتوں کو ادا کرنا تھا۔

    برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون *

    سال 2005 میں یوریکو نے ایک پروگرام بھی شروع کیا جس کے تحت دفاتر میں کام کرنے والے مرد ملازمین سے کہا گیا کہ وہ گرمیوں میں کوٹ پہننے سے گریز کریں تاکہ ایئر کنڈیشنرز کا استعمال کم ہوسکے۔

    یوریکو نے عوام پر ماحول کے لیے نقصان دہ پلاسٹگ بیگز کی جگہ ’فروشکی‘ استعمال کرنے پر زور دیا۔ فروشکی روایتی جاپانی کپڑے کے تھیلے ہیں جو مختلف چیزیں لانے اور لے جانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

    tokyo-4

    نو منتخب گورنر یوریکو نے قاہرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے اور وہ روانی کے ساتھ عربی زبان بول سکتی ہیں۔ ان کا عزم ہے کہ وہ ٹوکیو میں خواتین دوست پالیسیاں متعارف کروائیں گی۔

  • انسانی اسمگلنگ کے خلاف آگاہی کا دن: شامی خواتین کا بدترین استحصال جاری

    انسانی اسمگلنگ کے خلاف آگاہی کا دن: شامی خواتین کا بدترین استحصال جاری

    نیویارک: ہیومن رائٹس واچ کے مطابق قوانین پر کمزور عمل درآمد کے باعث لبنان میں شامی خواتین کی اسمگلنگ میں اضافہ ہورہا ہے۔

    انسانی اسمگلنگ کے خلاف تحفظ کے عالمی دن کے موقع پر ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق شام میں جاری جنگ کے باعث شامی خواتین کو بے شمار خطرات کا سامنا ہے جن میں سرفہرست ان کی اسمگلنگ اور جنسی مقاصد کے لیے استعمال ہے۔

    syria-3

    شام کے پڑوسی ملک لبنان میں بھی شامی خواتین کی بڑی تعداد کو اسمگل کر کے لایا جاچکا ہے۔ رواں برس مارچ کے مہینے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے لبنان کے بدنام علاقوں سے 75 شامی خواتین کو بازیاب کیا جو اسمگل کر کے لائی گئی تھیں اور زبردستی جنسی مقاصد کے لیے استعمال کی جارہی تھیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق لبنان میں بڑے بڑے جرائم پیشہ گروہ اور افراد اس جرم میں ملوث ہیں۔ 2015 اور 2016 میں لبنان میں صرف 30 افراد کو گرفتار کیا گیا جو انسانی اسمگلنگ میں ملوث تھے۔

    داعش نے 19 یزیدی خواتین کو زندہ جلا دیا *

    حکام کے مطابق شام میں جنگ شروع ہونے سے قبل بھی لبنان میں شامی خواتین کی اسمگلنگ جاری تھی لیکن جنگ کے بعد اس میں تیزی سے اضافہ ہوگیا ہے۔ جرائم پیشہ افراد اس مقصد کے لیے بچوں کو بھی اغوا کر لیتے ہیں۔

    لبنان کا ایک علاقہ شیز موریس جو اس جرم کی پناہ گاہ ہے کو کئی بار بند بھی کیا گیا، لیکن حکام کی ملی بھگت سے دوبارہ کھول لیا گیا۔

    syria-4

    واضح رہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک عراق اور شام کے مختلف حصوں پر داعش کے قبضے کے بعد خواتین کا بری طرح استحصال جاری ہے۔ داعش ہزاروں خواتین کو اغوا کر کے انہیں اپنی نسل میں اضافے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

    ان خواتین کی حیثیت جنسی غلاموں کی ہے جو ان جنگجوؤں کے ہاتھوں کئی کئی بار اجتماعی زیادتی اور بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بن چکی ہیں۔

    انسانی حقوق کی وکیل امل کلونی یزیدی خواتین کا کیس لڑیں گی *

    اقوام متحدہ کے مطابق داعش نے اب تک 7 ہزار خواتین کو اغوا کر کے انہیں غلام بنایا ہے جن میں سے زیادہ تر عراق کے یزیدی قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔

  • سمندر کنارے پیاسا گاؤں اور غربت کا عفریت

    سمندر کنارے پیاسا گاؤں اور غربت کا عفریت

    دنیا کے باشعور افراد کا ماننا ہے کہ دنیا کی ترقی کے لیے تمام آبادی کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ دنیا کی نصف آبادی تو گھر بیٹھے، اور پھر ہم یہ توقع بھی کریں کہ دنیا جلد ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گی۔ دراصل یہاں ’نصف آبادی‘ خواتین کی طرف اشارہ ہے جو نصف اب سے کچھ سال پہلے تک تھیں، اب ان کی تعداد مردوں سے دگنی ہوچکی ہے۔

    اکیسویں صدی کے دور میں اب یہ محاورہ پرانا ہوچکا ہے، ’ایک کمانے والا اور دس کھانے والے‘۔ جدید دور میں وہی گھرانہ یا قوم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے جس میں کم از کم 8 ’کمانے والے‘ موجود ہیں، اور خواتین بھی اس میں شامل ہیں۔

    حمیدہ خاتون بھی اس بات پر یقین رکھتی ہیں مگر ان کی کم علمی ان کے پیروں کی زنجیر ہے۔

    حمیدہ خاتون سومار گوٹھ کی رہائشی ہیں جو کیماڑی سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ساحلی گاؤں ہے۔ سمندر کنارے واقع، 83 گھروں پر مشتمل اس گاؤں کے مردوں کا پیشہ تو مچھلی پکڑنا ہے البتہ خواتین صرف گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی ہیں اور گاؤں کی معیشت میں ان کا کوئی کردار نہیں۔

    حمیدہ بی بی اور ان کی رشتہ دار خاتون زیتون

    گاؤں دیہاتوں میں عموماً خواتین مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔ کچھ دیہاتوں میں پانی کی سہولت نہ ہونے باعث وہ میلوں دور پیدل چل کر جاتی ہیں اور پانی بھر کر لاتی ہیں۔ لیکن سومار گوٹھ ان تمام دیہاتوں سے نسبتاً ’جدید‘ گاؤں ہے۔ یہاں باتھ روم بھی ہیں، اور پائپوں سے متصل نلکے بھی، جن میں ہفتے میں چند دن پانی آہی جاتا ہے۔ اس گاؤں کا اصل مسئلہ غربت ہے۔

    کبھی یہاں آباد گاؤں والے بہت خوشحال ہوا کرتے تھے۔ سمندر میں مچھلیوں کی بہتات ہوا کرتی تھی۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ بہت کچھ تبدیل ہونے لگا۔ شہری آبادی نے جہاں سمندروں کو آلودہ کر کے لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا، وہیں سمندری حیات بھی اس سے محفوظ نہ رہی۔ فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے فضلے نے کمزور سمندری حیات کا تو وجود ختم کردیا، جو ذرا سخت جان تھیں، وہ یہ وار سہہ گئیں لیکن اس قابل نہ رہیں کہ کسی انسان کی خوارک بن سکتیں۔

    حمیدہ خاتون کے مطابق جب حالات بہتر تھے تو ’مندی‘ کے دن بھی آسانی سے گزر جاتے تھے۔

    کشتیاں گاؤں والوں کا واحد ذریعہ روزگار ہیں

    یہ ’مندی‘ دراصل ان 4 مہینوں میں آتی ہے جن دنوں سمندر کی لہریں بلند ہوتی ہیں اور مچھیرے سمندر میں نہیں جا پاتے۔ مچھیروں کی کشتیاں کمزور ہیں اور سمندر کی تیز، چیختی چنگھاڑتی لہروں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ چنانچہ یہ 4 مہینے مچھیرے تقریباً گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس دوران وہ اپنے جالوں اور کشتیوں کی مرمت کرتے ہیں۔

    خواتین معاشی عمل کا حصہ کیسے؟

    حمیدہ خاتون بتاتی ہیں کہ جب حالات اچھے تھے تب تو تصور ہی نہیں تھا کہ عورتیں کچھ کمانے کی کوشش کریں۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں اور مرد بھی مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ خواتین کو باہر جانے کی اجازت دیں۔

    لیکن خواتین کے پاس نہ ہی تو تعلیم ہے، نہ کوئی ہنر۔ کچھ خواتین نے شہروں میں جا کر قسمت آزمائی کی تو انہیں گھروں میں صفائی کرنے کا کام مل گیا۔ لیکن شہر میں رہائش، کھانا پینا اور ہفتے میں ایک بار گاؤں آنے جانے کے اخراجات اتنے تھے کہ وہ اپنی تنخواہ سے گھر والوں کو کچھ نہ دے پاتیں یوں انہوں نے واپس گاؤں آنے میں ہی عافیت جانی۔

    حمیدہ خاتون کی ایک اور رشتہ دار نوجوان خاتون زیتون نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ جب گاؤں میں پولیو مہم شروع ہوتی ہے تو انتظامیہ کو خواتین رضا کاروں کی تلاش ہوتی ہے۔ تب وہ اس موقع کو حاصل کرتی ہیں اور گھر گھر جا کر پولیو پلانے کا کام سر انجام دیتی ہیں۔ 3 یا 4 دن تک جاری اس پولیو مہم میں حصہ لینے کے انہیں 2 ہزار روپے ملتے ہیں۔

    ہر گاؤں کی طرح یہاں بھی بچے وافر تعداد میں تھے۔ میں نے سوال کیا کہ، جب لوگوں کو اپنی غربت کا احساس ہے، اور وہ اسے ختم کرنا چاہتے ہیں، تو وہ اتنی تعداد میں بچے کیوں پیدا کرتے ہیں؟

    میرا سوال سن کر حمیدہ بی بی اور زیتون ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگیں۔ شاید انہوں نے اس پہلو پر سوچا ہی نہیں تھا۔ بعد میں حمیدہ بی بی نے دھیمی آواز میں کہا، ’کیا کریں مرد سنتے ہی نہیں ہیں‘۔

    حمیدہ بی بی کا شوہر شکار کے دوران کشتی میں گر پڑا تھا جس کی وجہ سے اسے کمر میں شدید چوٹ آئی۔ اب وہ کوئی کام کرنے سے محروم ہے اور پچھلے ایک سال سے گھر میں ہے۔ حمیدہ بی بی نے بعد ازاں درخت کی چھاؤں میں بیٹھے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا، ’وہ میرا شوہر ہے۔ ایک سال سے گھر پر پڑا ہے۔ بچے پیدا کرنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ہے‘۔ یہ کہہ کر وہ ڈوپٹے کے پلو میں منہ چھپا کر ہنسنے لگی۔

    گاؤں کے بچے گرین کریسنٹ نامی تنظیم کی جانب سے قائم کردہ ایک اسکول میں پڑھنے جاتے ہیں۔ اسکول میں صرف 50 یا 100 روپے (پڑھنے والے کی مالی استعداد کے مطابق) فیس وصول کی جاتی ہے۔ دو کمروں پر مشتمل صاف ستھرا اسکول حقیقی معنوں میں گاؤں کے بچوں کو علم کے زیور سے آراستہ کر رہا ہے۔

    گاؤں میں واقع مڈل اسکول

    لیکن یہ اسکول صرف مڈل تک ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کوئی اور تعلیمی ادارہ نہیں۔ گاؤں والے اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ بچوں کو پڑھنے کے لیے کہیں اور بھیج سکیں، یوں بچے تعلیم حاصل کرنے اور ان کے والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے کی حسرت دل میں دبائے بیٹھے ہیں۔

    حمیدہ خاتون نے اپنی بیٹی سے بھی ملوایا۔ ’اس نے اس سال اسکول میں سب سے زیادہ نمبر لیے ہیں‘۔ حمیدہ بی بی نے فخر سے بتایا۔

    ان کے 3 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں اور حمیدہ بی بی کے مطابق سب ہی کو پڑھنے کا بے حد شوق ہے۔

    مسائل کیا ہیں؟

    سمندر کنارے واقع اس گاؤں میں پینے کی پانی کی شدید قلت ہے۔ گاؤں میں نلکے تو موجود ہیں لیکن ان میں پانی نہیں۔ یہاں ایک آر او پلانٹ لگایا گیا ہے اور گاؤں والے اس کا پانی خرید کر پیتے ہیں۔

    اسی طرح بجلی کا بھی مسئلہ ہے جو کم و بیش ہر پاکستانی کا مسئلہ ہے۔ گاؤں میں 18 سے 22 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، یوں اس گاؤں اور ان دیگر پسماندہ دیہاتوں میں کوئی فرق نہیں رہتا جہاں سورج ڈھلتے ہی اندھیرے کا راج ہوتا ہے۔

    جس وقت ہم وہاں گئے ہمیں ماڑی پور روڈ سے آنے کے بجائے دوسرے متبادل اور لمبے راستے سے آنا پڑا کیونکہ ماڑی پور روڈ پر مختلف دیہاتوں کے لوگ بجلی کی بندش کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے اور سڑک بند تھی۔

    گاؤں میں بجلی کے تار تو ہیں مگر بجلی نہیں

    میں نے اس سے قبل جتنے بھی دیہاتوں کا دورہ کیا تھا وہاں باتھ رومز کی عدم دستیابی پائی تھی جو خواتین کے لیے ایک بڑا مسئلہ تھی۔ اس بارے میں جب دریافت کیا تو پتہ چلا کہ تقریباً ہر گھر میں ایک ٹوٹا پھوٹا باتھ روم ضرور موجود ہے جسے سن کر مجھے خوشی ہوئی۔ ان میں سے کچھ باتھ رومز ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے بنوائے گئے ہیں۔

    البتہ حمیدہ بی بی نے یہ بتا کر میری خوشی ماند کردی کہ ان کے اپنے گھر کا باتھ روم اس قدر ٹوٹ چکا تھا کہ وہ قابل استعمال نہیں رہا تھا، اور اس ضرورت کے لیے وہ اپنے والد کے گھر آتی تھیں جو ان کے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا۔ باتھ روم کی از سر نو تعمیر میں وہی غربت حائل تھی۔

    غربت کا عفریت

    گاؤں کی معاشی حالت کے بارے میں بتاتے ہوئے حمیدہ بی بی نے بتایا کہ سمندری آلودگی کی وجہ سے ویسے ہی سمندر میں مچھلیاں کم ہیں۔ اوپر سے سمندر کی پابندی کے 4 ماہ مشکل ترین بن جاتے ہیں۔ بعض دفعہ گاؤں والے مچھلی پکڑنے کے لیے سمندر میں بہت آگے تک چلے جاتے جہاں تعینات کوسٹ گارڈز انہیں پکڑ لیتے ہیں۔

    ’ایک دفعہ انہوں نے سب کو بہت برا مارا‘۔ حمیدہ خاتون نے بتایا۔ ’انہوں نے ہنٹر کا استعمال کیا اور میرے شوہر سمیت کئی لوگوں کو مرغا بھی بنادیا۔ میرا بیٹا زخموں کی وجہ سے 2 دن تک اٹھ نہیں پایا‘۔

    حمیدہ بی بی کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جان بوجھ کر قانون شکنی نہیں کرتے۔ شدید بھوک اور غربت انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ مچھلی کا شکار کرنے والے خود ایک عرصہ سے مچھلی کھانے کے لیے ترس رہے ہیں کیونکہ جو بھی مچھلی ہاتھ آتی ہے وہ بیچ دی جاتی ہے۔

    یہاں شکار کی ہوئی مچھلی کو 20 سے 30 روپے کلو میں بیچا جاتا ہے۔ یہ خریداری ان سے ’بروکرز‘ کرتے ہیں جو شہر جا کر یہی مچھلی 300 سے 400 روپے میں بیچتے ہیں۔

    وہ خود کیوں نہیں اس مچھلی کو شہر لے جا کر بیچتے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حمیدہ بی بی نے بتایا کہ شہر جانے کے لیے سواری کا بندوبست کرنا، وہاں آنا اور پھر جانا اس قدر مہنگا اور تھکن طلب کام ہے کہ جو دگنی قیمت وہ شہر جا کر کمائیں گے وہ آنے اور جانے کے کرایوں کی ہی نذر ہوجائے گی۔ ’شہر کوئی نہیں جانا چاہتا‘۔

    شکار کے مہینوں میں بھی شکار پر جانا اتنا آسان نہیں۔ غربت کی وجہ سے بعض خاندان کشتی نہیں خرید پاتے۔ یوں 2 یا 3 گھر مل کر ایک کشتی خریدتے ہیں اور جو بھی مچھلی ہاتھ آتی ہے اس میں تمام گھروں کا حصہ ہوتا ہے۔

    پابندی کے مہینوں میں گاؤں والے آس پاس کے دیہاتوں میں محنت مزدوری کرتے ہیں لیکن چونکہ وہ اس کے عادی نہیں لہٰذا یہ ان کے لیے ایک مشکل کام ہے۔ حمیدہ خاتون کا بیٹا بھی سائن بورڈز کی پینٹنگ کا کام کرتا ہے تاہم کم علم ہونے کی وجہ سے اسے زیادہ کام نہیں ملتا۔

    شکار کے لیے استعمال ہونے والے جال

    جن دنوں مرد شکار پر نہیں جاتے ان دنوں وہ گھر پر رہ کر اپنے جالوں کی مرمت بھی کرتے ہیں۔ خواتین ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں تاہم یہ ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ جالوں کی بنائی میں رسی، ڈوری اور نائیلون استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے خواتین کے ہاتھ کٹ جاتے ہیں اور ان پر چھالے پڑجاتے ہیں۔

    جال تیاری کے مراحل میں

    حمیدہ بی بی نے بتایا کہ کچھ مخیر حضرات کبھی کبھار راشن دینے کے لیے آتے ہیں لیکن وہ آ کر گاؤں کے وڈیرے سے ملتے ہیں اور اس کے توسط سے گاؤں والوں کو جو راشن ملتا ہے وہ سب کے لیے ناکافی ہوتا ہے۔

    واضح رہے کہ سومار گوٹھ قومی اسمبلی کے حلقہ 239 میں آتا ہے جو پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کا حلقہ ہے۔ وہ 2008 کے الیکشن میں یہاں سے فتح یاب ہو کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ قادر پٹیل الیکشن کے بعد تو کیا آتے، وہ تو کبھی ووٹ مانگنے بھی یہاں نہیں آئے۔

    ان کی جانب سے کچھ لوگ آ کر گاؤں کے وڈیرے سے ملتے ہیں، اور پھر وڈیرے کے حکم پر گاؤں والوں کو قادر پٹیل کو ہی ووٹ دینا پڑتا ہے۔

    گاؤں والے ’کلائمٹ چینج‘ سے واقف ہیں

    دنیا بھر کے ماہرین ابھی تک لوگوں کو یقین دلانے کی کوششوں میں ہیں کہ دنیا کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کے باعث کس قدر خطرات کا شکار ہے اور ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ دنیا کے لیے دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوگا، تاہم دنیا ابھی تک شش و پنج میں مبتلا ہے۔

    البتہ سومار گوٹھ کے رہنے والے ’کلائمٹ چینج‘ کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ وہ براہ راست اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ حمیدہ بی بی نے بتایا کہ سمندر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور زمین ختم ہو رہی ہے۔

    منہ زور سمندر 4 ماہ تک گاؤں والوں کو فاقے کرنے پر مجبور کردیتا ہے

    گاؤں کے پہلے سرے پر واقع جامع مسجد کبھی گاؤں کے آخری سرے پر قائم تھی۔ لیکن سمندر آگے آتا گیا جس کی وجہ سے گاؤں والوں کو اپنی رہائش پیچھے منتقل کرنی پڑی یوں پورا گاؤں اب کئی فٹ پیچھے چلا گیا ہے۔ گھروں کو دور منتقل کرنے کی وجہ سیلاب بھی تھے۔ سیلاب کے وقت سب سے آگے گھروں کو زیادہ نقصان پہنچتا تھا چنانچہ گاؤں والے سمندر سے دور چلے گئے۔

    تاہم گاؤں والوں کے گھر اب بھی غیر محفوظ ہیں۔ سیلاب کے دنوں میں انہیں اپنے گھر بار چھوڑ کر کہیں اور جانا پڑتا ہے جبکہ تیز بارش میں بھی وہ اپنے گھروں میں نہیں بیٹھ سکتے۔ ’کچے گھر بارش سے کیسے بچا سکتے ہیں‘۔

    گاؤں میں سمندر کنارے اب صرف مسجد ہے جس کی بیرونی دیوار لہروں کے ساتھ مستقل تصادم کے باعث مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہے۔

    حمیدہ خاتون کو شہر والوں کی صنعتی ترقی سے بھی شکوہ ہے۔ ’یہ اپنی فیکٹریوں سے زہر والا پانی چھوڑ دیتے ہیں جس سے مچھلیاں مرجاتی ہیں، جو زندہ ہوتی ہیں وہ بیمار ہوتی ہیں، ان کو ہم کھا نہیں سکتے‘۔

    مداوا کیا ہے؟

    گاؤں میں سرگرم عمل ایک فلاحی تنظیم ’کاریتاس‘ حقیقی معنوں میں گاؤں کے لوگوں کا سہارا ہے۔ بقول حمیدہ بی بی کے مذکورہ تنظیم کے علاوہ انہیں کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ ’ادھر نثار مورائی آیا، سنیعہ ناز (رکن سندھ اسمبلی) آئی، آکر دلاسے دیے، کیا کچھ بھی نہیں‘۔

    جب میں نے انہیں بتایا کہ فشرمین کو آپریٹو سوسائٹی کے سابق چیئرمین نثار مورائی آج کل جیل میں ہیں تو حمیدہ بی بی کی آنکھوں میں حیرت امڈ آئی، ’نثار مورائی کو پکڑ لیا؟ چلو اچھا ہی ہوا‘۔

    تنظیم کے کوآرڈینیٹر منشا نور کے مطابق خواتین کو صرف، شیمپو اور بلیچ بنانے کی ٹریننگ دی گئی ہے تاکہ وہ گاؤں کی معیشت میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ مچھلی کے جال بھی اکثر گھروں میں کاریتاس ہی کے فراہم کردہ ہیں۔ ایک جال مشترکہ طور پر 2 یا 3 گھروں کی ملکیت ہوتا ہے۔

    گاؤں میں سرگرم عمل تنظیم ’کاریتاس‘ کے کوآرڈینیٹر منشا نور

    انہوں نے مقامی آبادی کو مون سون کے حوالے سے بھی آگہی دی ہے جبکہ انفارمیشن شیئرنگ کا ایک سسٹم بھی قائم کیا گیا تاکہ سیلاب آنے کی صورت میں لوگ پہلے سے تیار رہیں۔

    پانی کے مسئلے کے حل کے لیے مستقبل قریب میں یہ پانی ذخیرہ کرنے کے ٹینکس بنوانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ ہینڈ پمپس اس لیے کارآمد نہیں کیونکہ زیر زمین تمام پانی سمندر کی وجہ سے نمکین ہے۔

    حمیدہ بی بی کی رشتہ دار خاتون زیتون نے مجھے بتایا کہ اسے سلائی کڑھائی کا شوق ہے اور اپنے اس شوق سے وہ پیسہ بھی کمانا چاہتی ہے۔ ’ہم نے کاریتاس والوں سے کہا ہے کہ وہ ہمیں سلائی کا کام بھی سکھائیں‘۔

    خواتین کیسے گزارا کرتی ہیں؟

    اس سفر کا حاصل سفر ثمینہ محمد علی سے ملاقات رہی۔ ثمینہ مڈل پاس اور گاؤں کی لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں۔ وہ یہیں کی رہائشی ہیں اور ان کی ذہانت کی بدولت حکومت کی جانب سے انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

    ثمینہ محمد علی

    انہوں نے بتایا کہ وہ گاؤں والوں کی کھانسی اور بخار جیسی بیماریوں کا علاج کردیتی ہیں جبکہ پولیو مہم کے دوران وہ گھر گھر جا کر پولیو پلانے کا کام بھی انجام دیتی ہیں۔

    انہیں ادویات صوبائی محکمہ صحت کی جانب سے بھجوائی جاتی ہیں مگر اکثر اوقات اس میں تاخیر ہوجاتی ہے اور وہ خود ہی ماڑی پور جا کر اپنے پیسوں سے دوائیں خرید لاتی ہیں۔

    اس سے قبل حمیدہ بی بی بتا چکی تھیں کہ گاؤں میں کوئی باقاعدہ اسپتال نہیں، اور خواتین کی زچگی کے لیے پورے گاؤں میں صرف ایک دائی موجود ہے۔ نارمل ڈلیوری گھر پر ہی ہوجاتی ہے البتہ کسی پیچیدگی کی صورت میں شہر جانا پڑتا ہے۔ قریب ترین شہر ماڑی پور ہے جہاں کا زیب النسا اسپتال ان گاؤں والوں کا سہارا ہے۔

    کئی بار ایسا بھی ہوا کہ گاڑی کا بندوبست کرنے میں اتنی دیر لگی کہ اسپتال جاتے ہوئے راستے میں ہی بچے کی ولادت ہوگئی۔

    اس حوالے سے ثمینہ نے بتایا کہ کئی بار حکومت کی جانب سے انہیں ٹریننگ دینے کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے منع کردیا۔ ’میری ہمت نہیں ہوتی اتنا بڑا کام کرنے کی، اس لیے میں نے منع کردیا‘۔

    البتہ ضرورت کے وقت ثمینہ گاؤں میں موجود دائی زرینہ کی مدد ضرور کرتی ہیں۔ ان کا گھر ایک چھوٹی سی ڈسپنسری معلوم ہوتا ہے جہاں انہوں نے ویٹ مشین بھی رکھی ہوئی ہے۔ وہ بچوں اور خواتین کا وزن کرتی ہیں اور حمل کے دوران خواتین کو مشورے بھی دیتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس خاندانی منصوبہ بندی کا سامان بھی ہے۔ کیا لوگوں کو اس کی ضرورت ہوتی بھی ہے؟ اس سوال پر انہوں نے بتایا کہ گاؤں کے کئی لوگ انہیں استعمال کرتے ہیں۔ ’لوگوں کو شعور ہے اس بارے میں‘۔

    یہی نہیں سال میں اگر کوئی خصوصی مہم جیسے انسداد ڈینگی یا انسداد خسرہ مہم چلائی جاتی ہے تو گاؤں والے بھرپور تعاون کرتے ہیں۔

    رخصت ہوتے وقت ثمینہ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں کسی حکومت کے محکمہ سے آئی ہوں؟ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں اے آر وائی نیوز کی نمائندہ ہوں تو ان کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ انہوں نے جوش سے بتایا، ’ہم بہت شوق سے اے آر وائی دیکھتے ہیں‘۔

    بعد ازاں جب ان کے گھر کی ایک خاتون نے میرے متعلق دریافت کیا تو ثمینہ نے انہیں بتایا، ’اماں یہ آے آر وائی سے آئی ہیں۔ اپنا اے آر وائی، جو ہم روز دیکھتے ہیں‘۔

    غالباً گاؤں والوں کی واحد تفریح اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامے ہی تھے۔

    سندھ کے بے شمار دیہاتوں کی طرح سومار گوٹھ بھی ایک محروم گاؤں ہے۔ سندھ میں لاتعداد گاؤں ایسے بھی ہیں جو بنیادی سہولتوں سے اس حد تک محروم ہیں کہ وہاں جا کر آپ خود کو پندرہویں صدی میں محسوس کرتے ہیں۔ اس بات پر یقین کرنا ذرا مشکل ہے کہ یہ گاؤں ترقی کر کے جلد جدید دنیا کے ساتھ آ کھڑا ہوگا لیکن گاؤں والوں کے دل خوش فہم کو امیدیں باقی ہیں، اور یہی ان کے جینے کا سہارا ہیں۔

  • مصری خواتین شوہروں کی پٹائی میں سرفہرست

    مصری خواتین شوہروں کی پٹائی میں سرفہرست

    قاہرہ: حال ہی میں جاری کیے جانے والے اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ مصری خواتین دنیا میں سب سے زیادہ ہتھ چھٹ اور اپنے شوہروں کی پٹائی کرنے کے لیے دنیا میں سرفہرست ہیں۔

    یہ اعداد و شمار سرکاری طور پر جاری کیے گئے ہیں جس کے مطابق خاندانی قوانین کی عدالت نے اس بات کی تصدیق کی 28 فیصد مصری خواتین اپنے شوہروں کو پٹائی کرتی ہیں۔

    خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے بیوی کی خوشی زیادہ ضروری ہے، تحقیق *

    رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ مصری خواتین اپنے شوہروں پر تشدد کے لیے جوتے، تیز دھار ہتھیار، بیلٹ اور سوئیاں استعمال کرتی ہیں۔ بعض خواتین اپنے شوہروں کو نشہ آور دوائیں بھی استعمال کرواتی ہیں تاکہ پٹائی کے وقت وہ مدافعت کے قابل نہ رہیں۔

    اس سے قبل عالمی طور پر جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں 23 فیصد، برطانیہ میں 17 فیصد، اور بھارت میں 11 فیصد خواتین آزادانہ اپنے شوہروں کو تشدد کا نشانہ بناتی ہیں۔

    صنفی تفریق کو للکارتی مصر کی خواتین بائیکرز *

    رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان اعداد و شمار کے باوجود مصری خواتین کی ایک بڑی تعداد گھریلو، جسمانی، نفسیاتی اور جنسی تشدد کا شکار ہیں جبکہ گھر سے باہر انہیں صنفی تفریق کا بھی سامنا ہے۔ ان خواتین کی شرح 47 فیصد ہے۔

    مصر میں کئی ادارے خواتین کو مختلف اقسام کے تشدد سے بچانے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔

  • امریکہ میں پہلی مرتبہ خاتون صدارتی امیدوار نامزد

    امریکہ میں پہلی مرتبہ خاتون صدارتی امیدوار نامزد

    فلا ڈلفیا: سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی اکثریتی جماعت کی جانب سے بطور خاتون صدر نامزدگی کا اعزاز حاصل کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق ہیلری کلنٹن نے ریاست پنسلوینیا کےشہرفلا ڈلفیا میں منعقد ہونے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے کنوینشن کے دوران ہونے والی ووٹنگ کے نتیجے میں 2382 ووٹ حاصل کیے۔

    مزید پڑھیں: واشنگٹن : برنی سینڈرزہیلری کلنٹن کی حمایت میں دستبردار

    برنی سینڈرز جنہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کے لیے ہیلری کلنٹن کی حمایت کا اعلان کیا تھا انہوں نے جماعت کے اتحاد کی علامت کے طور پراسٹیج پر آکر ہیلری کی نامزدگی کا اعلان کیا۔

    ہیلری کلنٹن امریکا میں کسی بڑی سیاسی جماعت کی جانب سےصدارتی امیدوار نامزد کی جانےوالی پہلی خاتون ہیں،رواں برس نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اب ان کا مقابلہ ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے ہوگا.

    مزید پڑھیں: واشنگٹن: ہیلری کلنٹن کا نائب صدر کے امیدوار کے لیے ٹم کین کا انتخاب

    یاد رہے کہ اس سے قبل ہیلری کلنٹن نے ریاست ورجینیا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ٹم کین کو اپنا نائب صدارتی امیدوار منتخب کیا تھا۔

     اٹھاون سالہ ٹم کین معتدل رہنما ہیں اور ہیلری نے انھیں ایسے امیدواروں پر ترجیح دی ہے جن کا جھکاؤ بائیں بازو کی جانب زیادہ ہے۔ ٹم کین اسقاط حمل کے خلاف ہیں اور وہ آزادانہ تجارت کے معاہدوں کے حامی ہیں۔

    واضح رہے کہ امریکی نائب صدر کے لیے ہیلری کلنٹن کی جانب سے نامزد کین ہسپانوی زبان روانی سے بولتے ہیں اور وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف انتخابی مہم کے دوران ہسپانوی امریکی ووٹروں کی حمایت حاصل کر سکتے ہیں۔

  • خواتین کے لیے مروجہ اصولوں کو للکارتی، ناچتی گاتی بے باک چانی

    خواتین کے لیے مروجہ اصولوں کو للکارتی، ناچتی گاتی بے باک چانی

    بالی ووڈ کی میگا بجٹ فلم ’موہن جو دڑو‘ کا ایک اور گانا جاری کردیا گیا۔ اس سے قبل جاری کیے جانے والے 2 گانوں کے برعکس اس گانے کی شوٹنگ آؤٹ ڈور کی گئی ہے اور اس میں موہن جودڑو کے گلی کوچوں کو فلمایا گیا ہے۔

    گانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلم کے تخلیق کار دریائے سندھ کی قدیم تہذیب، موہن جودڑو کے زمانے اور اس کے ماحول کی بہترین عکاسی کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

    8

    گانا ’سرسریا‘ ریتھک روشن اور پوجا ہیج پر فلمایا گیا ہے جس میں وہ دونوں موہن جودڑو کی گلیوں اور بازاروں میں عالم سرخوشی میں گنگناتے گھوم رہے ہیں۔

    گانے میں پس منظر میں چند ہی خواتین دکھائی دیں جس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اس زمانے میں خواتین کا باہر نکل کر گھومنا پھرنا زیادہ عام نہیں تھا اس کے باوجود فلم کی ہیروئن چانی بے باکانہ انداز میں ناچتی گاتی نظر آرہی ہے۔

    اس بات کی تصدیق ریتھک روشن نے بھی اپنی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کی، ’چانی کو نہیں لگتا کہ اسے خواتین کے لیے مخصوص امتیازی اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیئے‘۔

    ساتھ ہی انہوں نے گانا ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا، ’دیکھیئے کس طرح وہ ان اصولوں سے آزاد ہے‘۔

    گانے کا آغاز اجنبی زبان کے الفاظ سے ہوتا ہے جو موہن جودڑو سے ملنے والی لکھائی کے نمونوں کی طرح تاحال نامعلوم ہے۔

    فلم میں استعمال کی جانے والی زبان کے بارے میں ڈائریکٹر اشوتوش گواریکر ایک بھارتی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتا چکے ہیں کہ انہوں نے ہندی اور سندھی زبان کو ملا کر مکالمے لکھوائے ہیں۔ ’دونوں زبانوں کے ملاپ سے بننے والے مکالمے فلم بینوں کے لیے سمجھنا مشکل نہیں ہوں گے‘۔

    1

    فلم کے اسکرپٹ کے مطابق چانی مہا پجاری کی بیٹی ہے اور اس سے قبل جاری کیے جانے والے گانوں اور ٹریلر میں اسے اپنے سر پر مخصوص تاج یا زیورات اور ایک خاص طبقے کے لیے مخصوص لباس میں ہی دیکھا گیا۔

    تاہم اس گانے میں وہ ایک عام سی لڑکی کی طرح سادہ سا لباس پہنے ہوئے ہے جبکہ اس کے سر پر بھی کوئی امتیازی زیور نہیں۔

    5

    موہن جودڑو کے لوگوں کا ذریعہ معاش تجارت تھا۔ گانے میں شہر کے بیچوں بیچ واقع ایک بازار دکھایا گیا ہے جہاں قدیم طرز پر تعمیر شدہ مختلف دکانوں پر غذائی اجناس، جانوروں کا چارہ، ہاتھی دھات اور دیگر دھاتوں سے بنے مجسمے اور دیگر آرائشی اشیا موجود ہیں۔

    6

    ایک موقع پر موسیقی کے آلات فروخت کرنے والی ایک دکان بھی دکھائی گئی۔

    4

    گانے میں موہن جودڑو کی پہچان اس کی خاص گلیاں بھی دکھائی گئی ہیں جو پکی اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔

    7

    گانے میں رنگ ریز اور مٹی سے بنائے جانے والے برتن بھی دکھائے گئے ہیں۔

    2

    اس گانے کے بول جاوید اختر نے لکھے ہیں جبکہ موسیقی اے آر رحمٰن نے دے دی ہے۔ گانے کو سشوت سنگھ اور ساشا تریپتی نے گایا ہے۔

    مجموعی طور پر یہ گانا ایک اچھی کوشش ہے تاہم ٹریلر کی طرح اسے بھی تعریف اور تنقید دونوں کا سامنا ہے۔

    اس سے قبل فلم کے 2 گانے ’تو ہے‘ اور ٹائٹل سانگ ’موہن جودڑو‘ جاری کیا جاچکا ہے۔

  • دیہی خواتین کو با اختیار بنانے کیلئے سولربی بی پراجیکٹ کا افتتاح

    دیہی خواتین کو با اختیار بنانے کیلئے سولربی بی پراجیکٹ کا افتتاح

    اسلام آباد : خواتین کو تجارت اور کاروبار کے فروغ کیلئے سولر بی بی منصوبے کا آغاز کردیا گیا ہے جس کیلئے متعدد اداروں نے تعاون فراہم کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ویمن چیمبر کی بانی صدرثمینہ فاضل نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی خواتین پر مشتمل ہے، جنہیں ترقی دئیے بغیر ملکی ترقی نا ممکن ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ خواتین کی اکثریت دیہات میں رہتی ہے جو بجلی کی عدم موجودگی یا لوڈشیڈنگ کی وجہ سے غروب آفتاب کے بعد کام کرنے سے قاصر ہوتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ حل کرکے انہیں با اختیار بنانے اور ان کا معیار زندگی بہتر بنانے کیلئے متعدد اداروں نے مل کر سولر بی بی پراجیکٹ کا آغاز کیا ہے۔

    ثمینہ فاضل کا کہنا تھا کہ مذکورہ پروجیکٹ سے دیہی خواتین کی زندگیوں میں انقلاب آ جائے گا، شمسی توانائی سے چلنے والے لیمپوں کی مدد سے خواتین مغرب کے بعد بھی کام کر سکیں گی جبکہ کاشتکار فجر سے قبل کھیتوں میں پانی لگانے کا کام بھی با آسانی کر سکیں گے۔

    اس پروجیکٹ سے بیوہ خواتین کو بھی بہت فائدہ ہو گا جو اپنے گھرانے کا پورا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہیں۔

     

  • سیکنڈ ایئر کی طالبہ علم فلکیات کی ستارہ

    سیکنڈ ایئر کی طالبہ علم فلکیات کی ستارہ

    کوئٹہ : اسلامی گرلز کالج میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ نورینہ شاہ نے علم فلکیات پر اپنے مطالعے اور تجزیے سے پوری دنیا کو حیران کردیا ہے،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت دنیا بھر کے ماہرین فلکیات نے پاکستانی طالبہ کے فن اور مہارت کو سراہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نورینہ شاہ کوئٹہ کے اسلامیہ گرلز کالج میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ ہیں وہ فلکیات میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں اورماہرین فلکیات کی کتابوں کا مطالعہ اس طالبہ کا واحد مشغلہ ہے،علم فلکیات کے مستقل مطالعے اور مشاہدے سے نورینہ نے اس مضبون میں حیرت انگیز مہارت حاصل کر لی ہے۔

    نورینہ شاہ علم فلکیات کے حوالے سے اپنے خیالات،تجزیے اور مشاہدے کو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹیوٹر پر پیش کرتی رہتی تھی ،ان کی پوسٹوں نے بہت سے بین الاقوامی ماہرین کو اپنی طرف متوجہ کیا جن میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون بھی شامل ہیں یوں کم سن طالبہ کی فلکیات میں مہارت کو بین الاقوامی طور پر سراہا جانے لگا۔

    نورینی شاہ بلوقچستان کہ ایک پسنماندہ علاقے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں عام طور پر خواتین کی تعلیم کو معیوب سمجھاجاتا ہے اور اسکول جانے والی طالبات شدت پسندوں کی جانب سے دھمکیوں اور خوف و ہراس کا سامنا رہتا ہے اس کے باوجود کم سن طالبہ کی علم محبت اُن کے والد کی مرہون منت ہے، نورینہ کے والد کوئٹہ کے سول اسپتال میں بہ طور اسٹور کیپر فراءض انجام دے رہے ہیں ،نورینہ کے والد نے کہا کہ میری بچی باصلاحیت ہے تاہم میں اس کے اعلیٰ تعلیم کے اخراجات اُٹھانے سے قاصر ہوں تا ہم اگر وسائل ہوں تو بچی کو اعلی تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک بھیجوانے سے گریز نہیں کروں گا۔

    دنیا بھر میں مشہور ہونے کے بعد پاکستان میں بھی نورینہ شاہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے فخر ہے کہ اقوامِ متحدہ نے میرے کام کو سراہا”،انہوں نے بتایا کہ علم فلکیات کا شوق انہیں آٹھویں جماعت سے ہوا اور جلد ہی انہوں نے ستاروں، سیاروں، اور چاند کی تصویریں لینے کے نت نئے ڈھنگ سیکھ لیے جسے ٹیوٹر پر اپ لوڈ کرتی رہیں جہاں سے ماہرین فلکیات طالبہ کی مہارت سے روشناس ہوئے۔

    نورینہ کے مطابق ان کے گھر والوں نے علم فلکیات سے دلچسپی پر روک ٹوک کے بجائے حوصلہ افرائی کی،تاہم نورینہ نے اس امر پر غم کا اظہار کیا کہ اسکول کی سطح پر علم فلکیات پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی لہذا فلکیات پر ریسرچ کے لیے صرف انٹرنیٹ ہی ایک ذریعہ تھا،اگر سوشل میڈیا کے استعمال کرنا نہیں جاتی تو مجے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔

    عالمی سطح پر نورینہ کو پذیرائی اس وقت حاصل ہوئی جب برطانیہ کے ایک رسالے (Eduzine Global) نے پہلی مرتبی اُن کا انٹرویو چھاپا یہ رسالہ کم وسائل رکھنے والے باصلاحیت نوجوانوں کے کاموں کی سراہتا اور اور عوام تک پہنچاتا ہے یہ رسالہ ایسے خصوصی نوجوان جو پیدائشی طور کسی معذوری کا شکار ہوتے ہیں کی صلاحیتوں سے بھی دنیا کو روشناس کراتا ہے۔

    Norina-Post

    اپنی رویات کو برقرار رکھتے ہوئے میگزین نے نورینہ شاہ کی صلاحیتوں کو نہ صرف پوری دنیا میں روشناس کروایا بلکہ انہیں جنوبی ایشیا کی نوجوان سفیر کا اعزاز بخشا اور اپنی ویب سائیٹ پر طالبہ کو روشن ستارہ کے خطاب سے نوازا۔

    نورینہ شاہ کی صلاحیتوں کا اعتراف اس سے قبل 2014 میں اسی میگزین کے (Global ACE Young Achiever Awards) میں دوسرے نمبر پر آئی تھیں اس کامیابی پر نہ صرف انہیں ایک سرٹیفیکیٹ اور ایک دور بین کا انعام دیا گیا تھا بلکہ میگزین میں ان کے متعلق ایک آرٹیکل بھی شائع کیا گیا تھا۔

  • بھارت میں خاتون سیاسی کارکن کی خودکشی

    بھارت میں خاتون سیاسی کارکن کی خودکشی

    نئی دہلی: بھارت میں عام آدمی پارٹی کی ایک خاتون کارکن نے خودکشی کرلی۔ خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ خاتون کو ایک پارٹی کارکن کی جانب سے مبینہ طور پر جنسی ہراساں کیا گیا جس سے دل برداشتہ ہو کر انہوں نے خودکشی کی۔

    یہ واقعہ دہلی کے علاقے نیرالہ میں پیش آیا۔ خاتون اس سے قبل پارٹی کے ایک کارکن رمیش ودھوا کے خلاف شکایت درج کرواچکی تھیں کہ اس نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا ہے۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے رمیش کو حراست میں لیا تھا تاہم بعد ازاں ضمانت پر رہا کردیا۔

    بھارتی اداکارہ پوجا مشرا اجتماعی زیادتی کا شکار *

    خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ رمیش کے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد خاتون شدید ڈپریشن کا شکار تھیں۔ مبینہ ملزم کو ایک رکن قانون ساز اسمبلی کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔

    بی جے پی کے علاقائی صدر ستیش اپادھائے کا دعویٰ ہے کہ خاتون نے مذکورہ کارکن کے خلاف عام آدمی پارٹی کے سینئر کارکنان کو شکایت کی تھی لیکن انہوں نے اسے نظر انداز کردیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور ملزم کی پشت پناہی کرنے والا مقامی ایم ایل اے شرد چوہان خاتون کی موت ذمہ دار ہیں۔

    بھارت کی پہلی خاتون ٹیکسی ڈرائیور پراسرار طور پر ہلاک *

    عام آدمی پارٹی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے موت پر سیاست قرار دیتے ہوئے اسے شرمناک عمل قرار دیا۔ پارٹی کے ترجمان دیپک بجپال نے کہا کہ پولیس کو درج کروائی گئی شکایت میں کسی ایم ایل اے کا ذکر نہیں جبکہ خاتون کو ہراساں کرنے والے شخص کا عام آدمی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ مذکورہ خاتون نے زہریلی دوا پی اور بعد ازاں لوک نائیک اسپتال میں طبی امداد کے دوران چل بسی۔