Tag: خواتین

  • کوریا کی بسوں میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی الارم نصب

    کوریا کی بسوں میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی الارم نصب

    سیئول: کوریا کے شہر بوسن میں انڈر گراؤنڈ ٹرینوں میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی الارم نصب کردیے گئے جن کا مقصد مسافروں کو باخبر کرنا ہے تاکہ وہ ان کے لیے اپنی جگہیں چھوڑ دیں۔

    یہ اقدام خواتین کے تحفظ کے لیے چلائی جانے والی ’پنک لائٹ مہم‘ کا حصہ ہے۔ اس کے تحت 500 خواتین کو ایک بلو ٹوتھ سینسر ڈیوائس دی گئی ہے جو انڈر گراؤنڈ ٹرین میں داخل ہوتے ہی اس الارم سے کنیکٹ ہوجائے گی اور ٹرین میں نصب الارم میں گلابی رنگ روشن ہوجائے گا۔

    korea-3

    مہم کی کارکن ایلی گبسن کا کہنا ہے کہ بعض خواتین عوامی جگہوں پر اپنے آپ کو حاملہ ظاہر کرنے سے شرماتی ہیں لہٰذا وہ بسوں میں بیٹھے مسافروں سے درخواست نہیں کر سکتیں کہ ان کے لیے جگہ چھوڑ دی جائے۔

    خواتین پر حملوں سے تحفظ کے لیے ’پینک‘ بٹن *

    اس الارم کی تنصیب کے بعد جیسے ہی کوئی حاملہ خاتون بس یا ٹرین میں داخل ہوگی الارم میں گلابی رنگ روشن ہوجائے گا اور آس پاس بیٹھے مسافروں کو خبر ہوجائے گی کہ ان کے سامنے کھڑی خاتون حاملہ ہے۔

    یہ گلابی رنگ اس وقت تک روشن رہے گا جب تک وہ خاتون بیٹھ نہیں جاتی۔ خاتون کے بیٹھتے ہی یہ لائٹ بجھ جائے گی۔

    korea-2

    خواتین کو فراہم کیے جانے والے سینسر 6 ماہ تک قابل استعمال ہوں گے تاہم یہ واٹر پروف نہیں ہیں۔

    بوسن کی میئر سو بنگ سو نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ حاملہ خواتین کو اضافی سہولیات ملنی ضروری ہیں اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ شہر میں موجود عام افراد کی سہولیات کو بھی آسانی سے استعمال کرسکیں۔

    مودی کی حاملہ خواتین کے مفت علاج کی ہدایت *

    اس سے قبل کئی حاملہ خواتین شکایت کر چکی ہیں کہ حمل کے ابتدائی دنوں میں لوگ انہیں حاملہ ماننے سے انکار کردیتے ہیں اور ان کے لیے اپنی جگہ نہیں چھوڑتے جس کے باعث کئی بار پبلک ٹرانسپورٹ میں ناخوشگوار صورتحال پیش آچکی ہے۔

    korea-4

    ایسی ہی صورتحال سے بچنے کے لیے لندن میں بھی حاملہ خواتین کو نیلے رنگ کے بیجز دیے گئے تھے جن پر ’بے بی آن بورڈ‘ درج تھا اور انہیں ہدایت کی گئی کہ وہ باہر نکلتے ہوئے ان بیجز کو استعمال کریں۔

  • ڈزنی شہزادیاں صنفی تفریق کو فروغ دینے کا باعث

    ڈزنی شہزادیاں صنفی تفریق کو فروغ دینے کا باعث

    واشنگٹن: امریکی ریاست اوٹاہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ڈزنی کی کارٹون کریکٹرز والی شہزادیاں بچوں میں صنفی تفریق کے حوالے سے مخصوص تصورات پیدا کر رہی ہیں جنیں آج کے دور میں دقیانوسی کہا جاسکتا ہے۔

    یہ تحقیق ایک آن لائن جریدے ’چائلڈ ڈویلپمنٹ‘ میں شائع ہوئی۔ تحقیق میں گھریلو زندگی کے متعلق معلومات کے پروفیسرز نے حصہ لیا۔

    d1

    تحقیق سے پتہ چلا کہ ڈزنی شہزادیوں کی کارٹون دیکھنے والے یا ان کی گڑیوں سے کھیلنے والوں بچوں میں مخصوص تصورات جگہ بنالیتے ہیں جو آگے چل کر ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

    مثال کے طور پر جب لڑکے ان گڑیوں سے کھیلتے یا ان کے کارٹون دیکھتے ہیں تو ان کا اس بات پر راسخ یقین ہوجاتا ہے کہ کھانے پینے کے برتن، اور گڑیاں وغیرہ صرف لڑکیوں سے تعلق رکھتی ہیں۔

    d3

    جبکہ لڑکیوں میں اعتماد کی کمی ہوجاتی ہے اور وہ خود بخود ہی یہ ماننے لگتی ہیں کہ وہ کچھ نہیں کر سکتیں، سائنس یا میتھ نہیں پڑھ سکتیں، یا لڑکوں کی طرح نئے تجربات نہیں کر سکتیں۔

    ماہرین نے کم عمری میں ہی پیدا ہوجانے والے ان تصورات کو خطرناک قرار دیا۔

    d4

    اوٹاہ کی بریگھم ینگ یونیورسٹی کی پروفیسر سارہ کوئین نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’آج کے دور میں جبکہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں اور خواتین کے حقوق کے لیے ہم مردوں کو ان کے تصورات بدلنے پر زور دے رہے ہیں، یہ کارٹون کریکٹرز ایک خطرناک رخ کی نشاندہی کر رہے ہیں‘۔

    d5

    انہوں نے بتایا کہ اس طرح کے تصورات مستقبل میں خواتین کی خود مختاری کے لیے مشکلات پید اکرسکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف خواتین متاثر ہوں گی بلکہ وہ مرد بھی متاثر ہوں گے جو ایسے تصورات رکھتے ہیں، کیونکہ یہ خیالات ان کی سوچ کو محدود کردیں گے اور ان کی اپنی ترقی کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوں گے۔

    d2

    پروفیسر سارہ کے مطابق لڑکیاں بچپن میں ان کرداروں کو اپنا رول ماڈل ماننے لگتی ہیں اور یہ آگے چل کر ان کی ترقی و خود مختاری کو نقصان پہنچائے گا۔

  • دنیا پر حکمرانی کی دوڑ میں خواتین مردوں سے آگے

    دنیا پر حکمرانی کی دوڑ میں خواتین مردوں سے آگے

    کراچی : افریقا ہو یا امریکا،برطانیہ ہو یا یورپی ممالک خواتین اہم عہدوں کی دوڑمیں مردوں کو پیچھے چھوڑتی جارہی ہیں۔

    دنیا کے بڑے ممالک پرخواتین کی حکمرانی چلے گی، مارگیٹ تھیچر کے بعد تھريسامے برطانيہ کی دوسری خاتون وزیراعظم بن گئیں،اور وہ بڑے پیمانے پراپنی کابینہ میں خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر دیکھنا چاہیں گی۔

    uk-1

    امریکا پر حکمرانی کیلئے ہیلری کلنٹن مضبوط امیدوار ہیں اور ہلیری کلنٹن کے منتخب ہونے کی صورت میں امریکہ ان 60 ممالک میں شامل ہوجائے گا ، جہاں خواتین اس منصب پر فائز رہ چکی ہے۔

    haliry

    اقوام متحدہ کی آئندہ جنرل سيکرٹری کے عہدے کیلئے کڑا مقابلہ چھ خواتین کے درمیان ہے، خواتین امیدواروں کا تعلق بلغاریہ، کروشیا، مولدووا اور نیوزی لینڈ سے ہے، امید کی جارہی ہے کہ اقوام متحدہ کي آئندہ جنرل سيکرٹری بھی ايک خاتون ہی ہوں۔

    un

    آرینہ بوکووا جن کا تعلق بلغاریہ سے ہے اور وہ بلغاریہ کے اقوام متحدہ کی ثقافتی تنظیم یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل ہے، ویسنا پیوزک  کروشیا کی سابق وزیر خارجہ تھی، ناتالیا گھرمن مولدووا کی نائب وزیراعظم رہ چکی ہے اور وزیر برائے اتحاد یورپی ممالک ہیں، ہیلن کلارک نیوزی لینڈ کی سابق وزیر اعظم رہ چکی ہے۔

    دنیا بھر کے اہم سرکاری عہدوں پر بھی خواتین فائز ہیں، جس میں آئی ایم یف کی سربراہ کرسٹین لگارڈ اور جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکل کا نام شامل ہے۔

    mercle

    افریقا میں تین ممالک کی سربراہ خواتین ہیں۔

    ایشیا میں بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکمرانی ہے، حسینہ واجد تیسری مرتبہ وزیراعظم بنیں۔

    hasieena

    benezir

    بھارت میں اندرا گاندھی اور پاکستان میں بے نظیر بھٹو ملکی سربراہ کی حیثیت سے اپنانام تاریخ میں لکھواچکیں۔

  • امریکا میں خواتین ڈاکٹرز کی تنخواہ مرد ڈاکٹرز سے کم

    امریکا میں خواتین ڈاکٹرز کی تنخواہ مرد ڈاکٹرز سے کم

    میامی: ایک سروے کے مطابق امریکا میں مرد ڈاکٹرز کے برابر قابلیت رکھنے والی خواتین ڈاکٹرز کو کم تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں۔

    جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے کیے جانے والے سروے میں 12 ریاستوں کے 24 سرکاری طبی اداروں میں کام کرنے والے طبی ماہرین کی تنخواہوں کا موازنہ کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر

    مجموعی طور پر 10 ہزار سے زائد طبی ماہرین کا ڈیٹا جمع کیا گیا۔

    سروے سے حاصل ہونے والے نتائج سے معلوم ہوا کہ مرد طبی ماہرین کی تنخواہ سالانہ ڈھائی لاکھ ڈالر سے زائد تھی جبکہ خواتین کی 2 لاکھ کے قریب تھی۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق کو للکارتی مصر کی خواتین بائیکرز

    سروے میں مرد و خواتین کو ملنے والی سہولیات کا جائزہ بھی لیا گیا جن کی مقدار برابر تھی البتہ تنخواہ میں 50 ہزار ڈالر کا فرق دیکھا گیا۔

    سروے کے سربراہ ہارورڈ میڈیکل اسکول کے پروفیسر انوپم جینا نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’سروے کے بعد اس بات کی ضرورت ہے کہ طبی شعبہ میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے اور مرد و خواتین کے بیچ تفریق کو ختم کیا جائے‘۔

    مزید پڑھیں: گاؤں کی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    دوسری جانب ایک اور سروے میں دیکھا گیا کہ خواتین پروفیسرز مرد پروفیسرز سے صرف ایک فیصد زیادہ کماتی ہیں اور دونوں کی تنخواہوں میں 2 سے 4 ہزار ڈالر سالانہ کا فرق ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں خواتین دوست زراعتی آلات بنانے کا فیصلہ

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ خواتین (یو این وومین) مختلف حکومتوں پر زور دے رہی ہے کہ کام کرنے والی خواتین کی تنخواہیں اتنی ہی ہونی چاہئیں جتنی مردوں کی ہیں۔ یہ مہم ہالی ووڈ اداکارہ ایما واٹسن کی سربراہی میں چلائی جارہی ہے۔

  • افریقی ممالک میں کم عمری کی شادی غیر قانونی قرار

    افریقی ممالک میں کم عمری کی شادی غیر قانونی قرار

    افریقی ممالک گیمبیا اور تنزانیہ میں کم عمری کی شادی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔

    گیمبیا کے صدر یحییٰ جامع نے پابندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص 20 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی کرتا ہوا پایا گیا اسے 20 سال کے لیے جیل بھیج دیا جائے گا۔

    africa-3

    دوسری جانب تنزانیہ کی سپریم کورٹ نے تاریخی قانون کو نافذ کرتے ہوئے اسے 18 سال سے کم عمر لڑکے اور لڑکیوں دونوں کے لیے غیر قانونی قرار دیا۔

    واضح رہے گیمبیا میں کم عمری کی شادیوں کا تناسب 30 جبکہ تنزانیہ میں 37 فیصد ہے۔ تنزانیہ میں اس سے قبل اگر والدین چاہتے تو وہ اپنی 14 سالہ بیٹی کی شادی کر سکتے تھے۔ لڑکوں کے لیے یہ عمر 18 سال تھی۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    گیمبیا کے صدر نے اس قانون کا اعلان عید الفطر کے موقع پر ہونے والی تقریب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون شکنی میں جو والدین اور نکاح خواں ملوث ہوں گے انہیں بھی سزا دی جائے گی۔ انہوں نے تنبیہہ کی کہ اگر کوئی اس قانون کو غیر سنجیدگی سے لے رہا ہے تو وہ کل ہی اس کو توڑ دے، اور پھر دیکھے کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔

    africa-2
    گیمبیا کے صدر یحییٰ جامع

    خواتین کے حقوق اور تعلیم کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اس قانون کا خیر مقدم کیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ مقامی کمیونٹیز کو آگاہی دی جائے تاکہ وہ اس فعل سے خود بچیں۔

    ایسی ہی ایک تنظیم وومینز ایجنڈا کی کارکن استو جینگ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’والدین کو سزائیں دینا مناسب قدم نہیں۔ یہ آگے چل کر بغاوت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے مقامی لوگوں کو اس کے بارے تعلیم و آگاہی دی جائے تاکہ وہ اپنی بیٹیوں کے بہتر مستقبل کے لیے یہ فیصلہ نہ کریں‘۔

    گیمبیا کے صدر اس سے قبل بھی لڑکیوں کی ’جینیٹل میوٹیلیشن‘ کے عمل پر پابندی لگا چکے ہیں جس میں لڑکیوں کے جنسی اعضا کو مسخ کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے اس فعل کو اپنانے والوں کے لیے 3 سال سزا بھی مقرر کی تھی۔ انہوں نے اسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔

    بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 15 ملین شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔


  • نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے 12 سنہری افکار

    نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے 12 سنہری افکار

    یہ 9 اکتوبر 2012 کا ایک روشن دن تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس روشن دن کی روشنی آگے چل کر تاریکی کا شکار کئی لڑکیوں کی زندگی کو منور کردے گی۔ چند نقاب پوش، ہاتھوں میں ہتھیار اٹھائے افراد نے لڑکیوں کی ایک اسکول وین کو روکا، اور اندر جھانک کر اپنے مطلوبہ ہدف کا پوچھا۔ ہدف نے خود اپنا ’تعارف‘ کروایا، جس کے بعد بندوق سے ایک گولی چلی اور ’ہدف‘ کے چہرے اور کندھے کو خون کر گئی۔

    نقاب پوشوں کو امید تھی کہ ان کا مقصد پورا ہوجائے گا اور وہ اندھیرے میں چمکنے والی اس ننھی کرن سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے، لیکن ہوا اس کے برعکس اور روشنی کی کرن خون کے رنگ سے فزوں تر ہو کر پوری دنیا کو منور کرتی چلی گئی۔

    وہ نقاب پوش ’طالبان‘ تھے، اور ان کا ’ہدف‘ وہ لڑکی تھی گولی کھا کر جس کا عزم اور پختہ ہوگیا، اسے ہم اور آپ پاکستان کی دوسری اور دنیا کی کم ترین نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے نام سے جانتے ہیں۔

    سوات میں پیدا ہونے والی ملالہ نے اس وقت بھی اسکول جانا نہیں چھوڑا جب طالبان لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگا چکے تھے۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہے، ’ہم خوفزدہ ضرور تھے، لیکن ہمارا عزم اتنا مضبوط تھا کہ خوف اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا‘۔

    4

    وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی خوفناکی اور اس کے بعد خود پر گزرنے والی اذیت کو بھولی نہیں ہے۔ ’چنانچہ وہ کہتی ہے، ’ہمیں اپنی بلند آواز کی اہمیت صرف اسی وقت پتہ چلتی ہے، جب ہمیں خاموش کردیا جاتا ہے‘۔

    یہ سب اچانک نہیں ہوا تھا۔ وہ سوات کی ان چند لڑکیوں میں شامل تھی جو اسکول جارہی تھیں اور انہیں مستقل طالبان کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔

    اس نے ایک بار بتایا، ’جب مجھے طالبان کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں تو میں سوچتی تھی کہ اگر طالبان سچ مچ مجھے مارنے آگئے تو میں کیا کروں گی؟ میں نے سوچا کہ میں اپنا جوتا اٹھا کر اس کے سر پر دے ماروں گی۔ پھر مجھے خیال آیا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو پھر مجھ میں اور اس میں فرق ہی کیا رہ جائے گا۔ ہمیں اپنے لیے ضرور لڑنا چاہیئے لیکن مسلح ہو کر نہیں بلکہ تعلیم کو ہتھیار بنا کر‘۔

    3

    میں نےسوچا کہ میں اپنے ’قاتل‘ کوبتاؤں گی کہ تعلیم کتنی ضروری ہےاور یہ تمہارےبچوں کوبھی حاصل کرنی چاہیئے۔ اب تم جوچاہومیرےساتھ کرو۔

    اس سب کے باوجود اسے اپنے حملہ آوروں سے کوئی بغض نہیں۔ شاید اس لیے کہ اسی حملے نے پوری دنیا کو اس کی طرف متوجہ کیا اور وہ لڑکیوں کے لیے ایک روشن مثال بن گئی۔ وہ کہتی ہے، ’میں طالبان سے بدلہ نہیں لینا چاہتی۔ میں ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کو پڑھانا چاہتی ہوں‘۔

    ملالہ کی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے تعلیم کا پھیلاؤ۔ افریقہ کے پسماندہ اور مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ علاقوں میں بھی وہ یہی پیغام لے گئی۔ ’ایک بچہ، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم دنیا کو تبدیل کرسکتا ہے‘۔

    وہ مانتی ہے کہ قلم اور کتاب دنیا کے بہترین ہتھیار ہیں اور ان کی بدولت آپ ہر جنگ میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

    5

    وہ کہتی ہے، ’میں نہیں چاہتی کہ لوگ مجھے ایسے یاد رکھیں، ’وہ لڑکی جس نے طالبان سے گولی کھائی‘، میں چاہتی ہوں لوگ مجھے یاد رکھیں، ’وہ لڑکی جس نے تعلیم کے لیے جنگ لڑی‘۔ یہی میرا مقصد ہے جس کے لیے اپنی تمام زندگی صرف کرنا چاہتی ہوں‘۔

    پاکستان میں ایک مخصوص گروہ ملالہ کو متنازعہ بنا چکا ہے۔ اسے غیر ملکی ایجنٹ، غدار اور نجانے کیا کیا قرار دیا چکا ہے۔ وہ اپنے ہی ملک میں اپنے خلاف چلنے والی مہم سے واقف ہے اور اس کی وجہ بھی جانتی ہے، ’پاکستان میں لوگ عورتوں کی آزادی کا مطلب سمجھتے ہیں کہ وہ خود سر ہوجائیں گی۔ اپنے والد، بھائی یا شوہر کی بات نہیں مانیں گی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جب ہم اپنے لیے آزادی کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے لیے خود فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تعلیم حاصل کرنے یا کام کرنے کے لیے آزاد ہونا چاہتے ہیں‘۔

    مرد سمجھتے ہیں کہ پیسہ کمانااور حکم چلانا طاقت ہے۔ اصل طاقت خواتین کےپاس ہے جو سارا دن اہل خانہ کا خیال رکھتی ہیں اور بچوں کو جنم دیتی ہیں۔

    بیرون ملک رہتے ہوئے بھی وہ اپنے ملک کے حالات و مسائل سے واقف ہے۔ اس بارے میں ملالہ کہتی ہے، ’پاکستان کے تمام مسائل کی بنیاد تعلیم کی کمی ہے۔ لوگوں کی کم علمی سے فائدہ اٹھا کر سیاستدان انہیں بیوقوف بناتے ہیں اور اسی وجہ سے کرپٹ حکمران دوبارہ منتخب ہوجاتے ہیں‘۔

    طالبان کے حملہ میں شدید زخمی ہونے کے باعث اس کا چہرہ خراب ہوگیا ہے۔ اب سوات کی گل مکئی کا چہرہ پتھرایا ہوا سا رہتا ہے اور اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ہوتا۔ ’میں اپنی والدہ سے کہتی ہوں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں پہلے جیسی خوبصورت نہیں رہی، میں ملالہ ہی رہوں گی۔ میں اس سے پہلے اس بات کا بہت خیال رکھتی تھی کہ میں کیسی لگ رہی ہوں، میرے بال کیسے لگ رہے ہیں لیکن اب مجھے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ جب آپ موت کا سامنا کرتے ہیں تو بہت کچھ بدل جاتا ہے‘۔

    اہم یہ نہیں کہ میں مسکرا نہیں سکتی یا میں ٹھیک سے آنکھ نہیں جھپک سکتی، اہم یہ ہے کہ خدا نے میری زندگی مجھے واپس لوٹائی۔

    7

    وہ بتاتی ہے، ’میرے والد نے اپنے دفتر کے باہر ابراہم لنکن کے اس خط کی نقل فریم کروا کر آویزاں کی ہوئی ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کی استاد کو لکھا تھا۔ یہ خط پشتو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس میں ابراہم لنکن کہتا ہے، ’میرے بیٹے کو کتابیں ضرور پڑھاؤ، لیکن اسے کچھ وقت دو تاکہ یہ بلند آسمانوں میں پرندوں کی پرواز پر غور کرسکے، سورج کی روشنی میں کھلتے پھولوں پر دھیان دے، اور سبزے کی سحر انگیزی کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اسے سکھاؤ کہ ناکام ہوجانا زیادہ معتبر ہے بجائے اس کے کہ کسی کو دھوکہ دیا جائے‘۔

    اپنے گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ملالہ بتاتی ہے، ’میں اپنے بچپن میں خدا سے دعا کرتی تھی کہ وہ مجھے 2 انچ مزید لمبا کردے۔ اس نے میری دعا یوں قبول کرلی کہ مجھے اتنا بلند کردیا کہ میں خود بھی اپنے آپ تک نہیں پہنچ سکتی‘۔

    وہ بتاتی ہے، ’جب ہم سوات میں تھے تو میری والدہ مجھے کہتی تھیں، ’اپنا چہرہ ٹھیک سے چھپاؤ، لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں‘۔ اور میں ان سے کہتی تھی، ’اس سے کیا فرق پڑتا ہے، میں بھی تو انہیں دیکھ رہی ہوں‘۔

    2

    لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ملالہ کا مشن جاری ہے۔ رواں برس ملالہ ڈے پر اس کا پیغام ’یس آل گرلز‘ ہے۔ اپنے ادارے کے ساتھ مل کر وہ پوری دنیا کو یاد دلانا چاہتی ہے کہ لڑکیوں کی 12 سال کی مفت تعلیم ہر حکومت کی ذمہ داری ہے۔

    وہ لڑکیوں کے لیے پیغام دیتی ہے، ’ہزاروں کتابیں پڑھو اور خود کو علم کی دولت سے مالا مال کرلو۔ قلم اور کتاب ہی وہ ہتھیار ہیں جن سے شدت پسندی کو شکست دی جاسکتی ہے‘۔

  • عالمی یوم آبادی: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    عالمی یوم آبادی: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    آج دنیا بھر میں یوم آبادی منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 1989 سے اقوام متحدہ کی جانب سے کیا گیا جس کا مقصد دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے متعلق مسائل کے حوالے سے شعور پیدا کرنا تھا۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر کی آبادی اس وقت 7.4 بلین ہے جبکہ 2100 تک یہ 11.2 بلین ہوجائے گی۔ آبادی کے لحاظ سے چین اور بھارت دنیا کے دو بڑے ممالک ہیں۔ ان دونوں ممالک کی آبادی ایک، ایک ارب سے زائد ہے اور یہ دنیا کی کل آبادی کا 37 فیصد حصہ ہے۔

    pd-3

    بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں، خوراک، انفرا اسٹرکچر اور دیگر مسائل ہنگامی طور پر حل طلب ہیں۔

    رواں برس یہ دن ’کم عمر لڑکیوں کا خیال رکھنے‘ کے عنوان کے تحت منایا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق کم عمری کی شادی دنیا میں آبادی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

    pd-4

    رواں برس کی تھیم خواتین کے حوالے سے 2 مقاصد پر مشتمل ہے، ایک کم عمری کی شادی۔ دوسرا خواتین کی آبادی میں اضافہ اور ان کی صحت و تعلیم سے متعلق خطرناک مسائل جو دنیا کی ترقی پر اثر انداز ہوں گے۔

    بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 15 ملین شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔

    کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں چاہے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تب بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہیں۔ کم عمری کے باعث بعض اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن سے ان لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    یو این ایف پی اے کی جانب سے جاری کیا جانے والا چارٹ

     

    چونکہ کم عمری کی شادی زیادہ تر ترقی پذیر، جنگ زدہ علاقوں اور ممالک، اور گاؤں دیہاتوں میں انجام پاتی ہیں اور یہاں طبی سہولیات کا ویسے ہی فقدان ہوتا ہے لہٰذا ماں اور بچے دونوں کو طبی مسائل کا سامنا ہوتا جو آگے چل کر کئی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔

    اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ یو این ایف پی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر باباتندے کے مطابق خواتین کی کم عمری کی شادی سے نمٹنے کا واحد حل یہ ہے کہ انہیں تعلیم دی جائے اور خود مختار کیا جائے۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں 62 ملین لڑکیاں ایسی ہیں جو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ تعلیم سے محرومی کے باعث انہیں اپنی صحت، اور دیگر حقوق سے متعلق آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ڈاکٹر باباتندے کے مطابق، ’حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کا بنیادی حق انہیں دلائے تاکہ انہیں اپنے حقوق اور اپنے خطرات سے آگاہی ہو‘۔

    وہ کہتے ہیں، ’لڑکیوں کی خود مختاری آج کے دور میں اتنی ہی اہم ہے جتنا مردوں کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا اور کسی کے لیے بوجھ نہ بننا‘۔

     

    یونیسکو کے پروگرام ’ایجوکیشن فار آل‘ کی جانب سے جاری کیا جانے والا چارٹ

     

    دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کہتی ہیں، ’میں دنیا کی ان 66 ملین لڑکیوں میں سے ایک ہوں جنہیں تعلیم حاصل کرنے سے روکا گیا‘۔

    ملالہ یوسفزئی سوات کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتی ہیں اور تعلیم حاصل کرنے کی پاداش میں انہیں طالبان کے حملہ کا نشانہ بننا پڑا۔ اب وہ دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کر رہی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’اگر ہم دنیا کی آدھی آبادی کو پسماندہ چھوڑ دیں گے تو ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے‘۔ وہ لڑکیوں کے لیے پیغام دیتی ہیں، ’بے شک تم ایک لڑکی ہو، اور دنیا سوچتی ہے کہ تم کوئی کام نہیں کر سکتیں، تب بھی تم امید کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑو‘۔


     

  • عید پر دلکش نظر آنے کے طریقے

    عید پر دلکش نظر آنے کے طریقے

    عید کا موقع ہے، گھر میں مہمان بھی آئیں گے۔ آپ کی کوشش ہوگی کہ اپنے گھر والوں اور مہمانوں کو مزیدار پکوان بنا کر کھلائیں۔

    لیکن اپنے آپ کو بالکل مت بھولیں۔ عید کے دن اپنے لیے بھی وقت نکالیں۔ سارا دن چولہے کے سامنے گزارنے کے بعد بھی آپ تازہ دم لگ سکتی ہیں اور اس کے لیے آپ کو مندرجہ ذیل طریقوں سے اپنا خیال رکھنا ہوگا۔

    :قدرتی اشیا کا استعمال

    9

    اپنی جلد پر کیمیکلز لگانے کے بجائے زیادہ سے زیادہ قدرتی چیزوں کا استعمال کریں۔ آپ کے کچن میں موجود چیزیں آپ کی جلد کے لیے بہترین ہیں۔ عید کی تیاری کرنے کے ساتھ کچھ وقت اپنے لیے بھی نکالیں اور قدرتی اشیا سے اپنی جلد کی حفاظت کریں۔

    :سبزی اور پھلوں کا استعمال

    10

    عید پر دعوتوں میں مرغن غذائیں کھانے میں آتی ہیں۔ ایسے موقع پر آپ اپنی بھوک سے کم کھائیں اور پھلوں کا استعمال بڑھا دیں۔ زیادہ پانی اور رات کو سونے سے قبل دودھ پینا بھی مرغن غذاؤں کی تیزابیت کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ عید کے چوتھے دن مزیدار سبزی یا دال کی ڈش بنائیں۔

    :میک اپ ضرور اتاریں

    1

    دعوتوں میں جانے یا مہمانوں کی دعوت کرتے ہوئے آپ میک اپ ضرور استعمال کرتی ہوں گی لیکن رات سونے سے پہلے اسے ضرور صاف کریں۔ رات کو میک اپ صاف کیے بغیر سونا جلد کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچاتا ہے۔

    :ورزش کریں

    2

    ورزش کو اپنی زندگی کا معمول بنالیں۔ عید کی مصروفیات میں تمام کام نمٹانے کے بعد رات کو 15 منٹ کھلی ہوا میں چہل قدمی ضرور کریں۔

    ان طریقوں پر عمل کر کے آپ ایک بہترین عید گزار سکتی ہیں۔

  • فلپائن کی خاتون نائب صدر کی حلف برداری

    فلپائن کی خاتون نائب صدر کی حلف برداری

    منیلا: فلپائن کی نئی خاتون نائب صدر نے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا۔ ان کا عہد ہے کہ اپنے دور حکومت میں وہ بھوک کے خاتمے، صحت، تعلیم اور دیہی ترقی کے لیے کام کریں گی۔

    لینی روبریدو فلپائن کی 14ویں اور دوسری خاتون نائب صدر ہیں۔ انہوں نے اپنے حریف سابق ڈکٹیٹر فرڈیننڈ مارکوس کے بیٹے کو معمولی فرق سے شکست دی۔

    روبریدو کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دور حکومت میں بھوک کے خاتمے، صحت اور تعلیم کے لیے کام کریں گی جبکہ دیہی ترقی ان کا خاص ہدف ہے۔ ان کا ارادہ ہے کہ وہ عہدہ صدارت میں اپنے دفتر کو مختلف دیہاتوں میں لے کر جائیں گی۔ کچھہ عرصہ وہ تمام چھوٹے چھوٹے گاؤں میں گزاریں گی تاکہ وہاں ہونے والی ترقیاتی سرگرمیوں کا خود معائنہ کر سکیں۔

    روبریدو کا موجودہ دفتر بھی منیلا کے مضافات میں کوئزن کے علاقہ میں واقع ہے جو ایک شہر کا ایک ترقی پذیر حصہ ہے۔ روبریدو نے اپنے عہدے کا حلف اسی دفتر میں اٹھایا۔

  • انڈونیشیا میں رمضان کے روزے رکھنے والی عیسائی خاتون

    انڈونیشیا میں رمضان کے روزے رکھنے والی عیسائی خاتون

    جکارتہ: انڈونیشیا کے دارالحکومت میں ایک عیسائی خاتون نے مذہبی ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مسلمان ساتھیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر روزے رکھنے شروع کردیے۔

    زوزونا چیک ریپبلک سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ حصول تعلیم کے لیے انڈونیشیا میں مقیم ہیں۔

    j3

    اپنے مسلمان ساتھیوں کی طرح وہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کھانے پینے سے دور رہتی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’میرے لیے روزہ رکھنا زیادہ مشکل اس لیے ہے کیونکہ اس کے پیچھے میرا کوئی مذہبی یا روحانی مقصد نہیں ہے‘۔

    ان کے مطابق سارا دن بغیر کھائے تو گزارا ہوجاتا ہے لیکن پیاس بہت لگتی ہے۔

    وہ کہتی ہیں کہ روزے رکھنے سے انہیں ایک فائدہ ضرور ہوا اور وہ یہ کہ انہوں نے خود پر قابو پانا اور نظم و ضبط سیکھا۔

    j2

    زوزونا اپنے مسلمان ساتھیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر روزے رکھ رہی ہیں۔