Tag: خواتین

  • بھارت میں خواتین دوست زراعتی آلات بنانے کا فیصلہ

    بھارت میں خواتین دوست زراعتی آلات بنانے کا فیصلہ

    نئی دہلی: بھارت میں حکومت ایسے زراعتی آلات بنانے پر غور کر رہی ہے جو استعمال میں ہلکے پھلکے ہوں اور خواتین خاص طور پر اسے بہ آسانی استعمال کرسکیں۔

    یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ بہتر ذرائع آمدنی کی تلاش میں مرد شہر چلے جاتے ہیں اور خواتین گاؤں میں رہتی ہیں۔ دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ انہیں فصل کی دیکھ بھال اور کاشت کاری بھی کرنی ہوتی ہے۔

    گاؤں کی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی *

    یونین منسٹری برائے زراعت کے جوائنٹ سیکریٹری آر بی سنہا نے اس بارے میں بتایا، ’کلائمٹ چینج کی وجہ سے قحط اور دیگر قدرتی آفات کے باعث زراعت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ مرد بہتر طور پر کمانے کے لیے شہر چلے جاتے ہیں پیچھے ان کی عورتیں رہ جاتی ہیں۔

    وہ زراعت کے بھاری بھرکم آلات استعمال نہیں کر سکتیں جس کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں کمی آجاتی ہے۔

    india-women-2

    انہوں نے بتایا کہ کلائمٹ چینج، ملک کی آبادی میں اضافہ اور خوراک کی کمی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے خواتین کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ معاشی میدان میں مردوں کے ساتھ کھڑی ہوسکیں۔

    کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر *

    سنہا کے مطابق بھارتی کونسل برائے زراعتی ریسرچ نے اس حوالے سے کام شروع کردیا ہے۔ وہ خواتین دوست زراعتی آلات بنانے کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں جو نہ صرف خواتین بلکہ چھوٹے کاشتکاروں کے لیے بھی فائدہ مند ہوں گے۔

    سنہا نے یہ بھی بتایا کہ حکومت ان خواتین دوست آلات پر سبسڈی بھی فراہم کرے گی۔

    قدرتی آفات میں جان بچانے والا کیپسول تیار *

    عالمی ادارہ برائے تحفظ پہاڑ آئی سی موڈ کے مطابق ہمالیائی علاقے میں لوگوں کی اکثریت دیہی علاقوں میں آباد ہے اور ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ زراعت ہے۔ کلائمٹ چینج، آبادی میں اضافے، دیہاتوں سے شروں کی طرف ہجرت اور دیگر معاشرتی عوامل سے زراعت پر منفی اثر پڑا ہے۔

  • بھارت کی پہلی خاتون ٹیکسی ڈرائیور پراسرار طور پر ہلاک

    بھارت کی پہلی خاتون ٹیکسی ڈرائیور پراسرار طور پر ہلاک

    بنگلورو: بھارت کی پہلی خاتون ٹیکسی ڈرائیور اپنے گھر میں پراسرار طور پر مردہ پائی گئی۔

    ویرتھ بھارتی کے مالک مکان نے ان کی لاش کو دریافت کیا۔ ان کے مطابق بھارتی کی ٹیکسی کئی دن سے کھڑی تھی مگر بھارتی انہیں کہیں نظر نہیں آئی۔ جب انہوں نے اس کے گھر کی کھڑکی سے جھانکا تو انہیں بھارتی چھت سے لٹکتی ہوئی دکھائی دی۔

    مالک مکان شنکر سنگھ نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر بھارتی کو مردہ قرار دے کر اس کی لاش کو تحویل میں لے لیا۔

    چھوٹے سے قصبہ کی رہائشی جو چاند کو چھونے جارہی ہے *

    پولیس کے مطابق بھارتی کے گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا، جبکہ گھر میں کوئی ایسا کاغذ نہیں ملا جسے خودکشی سے پہلے لکھا جانے والا نوٹ قرار دیا جاسکے۔ پولیس نے خودکشی کا کیس درج کرلیا تاہم دیگر مشکوک صورتحال کے حوالے سے بھی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

    ویرتھ بھارتی، بھارت کی پہلی خاتون ٹیکسی ڈرائیور تھیں جو بھارتی کیب کمپنی ’ابر‘ میں ملازمت کر رہی تھیں۔ وہ آندھرا پردیش کے ایک گاؤں سے آئی تھیں اور یہاں کرائے کے مکان میں اکیلی رہ رہی تھیں۔

  • ورجینیا راگی روم کی پہلی خاتون میئر منتخب

    ورجینیا راگی روم کی پہلی خاتون میئر منتخب

    روم : فائیواسٹارموومنٹ کی امیدوار ورجینیا راگی روم کی تاریخ میں دو سو پچاس سالوں بعد خاتون میئر منتخب ہوگئیں۔

    تفصیلات کے مطابق اٹلی میں ہونے والے میئر شب کے انتخابات میں اٹلی کے وزیراعظم اورڈیموکریٹک پارٹی کےسیکرٹری ماتیورینزی کو بڑا دھچکا،فائیواسٹارموومنٹ کے امیدوار ورجینیا راگی روم کی پہلی خاتون میئر بن گئیں۔

    اتوار کے روز سٹی ہال میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار رابرٹو کو فائیواسٹارموومنٹ کی امیدوار ورجینیا راگی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا تاہم 37سالہ ورجینیا نے دو تہائی ووٹوں کی اکثریت سے حکمران جماعت کے امیدوار کو روم کے میئرشپ کے انتخابات میں شکست دی دی۔

    فائیواسٹار موومنٹ کی امیدوار اور روم کی نو منتخب میئر کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ ایک نئے دور کا آغاز ہورہاہے،انہوں نے کہا کہ ہم شہری اداروں میں شفافیت لانے کے لیے کام کریں گے۔

    یاد رہے کہ اٹلی کے بڑے شہروں میں ہونےوالےانتخابات سےمتعلق تجزیہ کاروں کی رائےتھی کہ میئر شپ کے لیے انتخابات وزیراعظم اورڈیموکریٹک پارٹی کےسیکرٹری ماتیورینزی کےلیےامتحان سےکم نہیں ہوں گے۔

    واضح رہے کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف فائیواسٹار موومنٹ نےانتخابی مہم میں غریب افراد کے لیے بنیادی انکم سپورٹ اور یوروزون سے انخلا کے لیے ریفرنڈم کا وعدہ کیا تھا۔

  • پروین رحمٰن اور سبین محمود کے نام سے شاہراہیں منسوب

    پروین رحمٰن اور سبین محمود کے نام سے شاہراہیں منسوب

    کراچی : کے ایم سی کے ڈائریکٹر جنرل آف ٹیکنیکل سروس نے شہر قائد کی تین شاہراوں کے نام اہم شخصیات سے منسوب کر کے نام تبدیل کرنے کی منظوری دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق کورنگی گودام چورنگی کاٹی (8000 تا 1000 اور 3000 تا 5000) سڑک کو سماجی رہنما سبین محمود کے نام سے منسوب کردیا گیا ہے۔

    باغ ابن قاسم سے ملحقہ سڑک ( شاہراہ فردوسی سے مرین پرومینیڈ تک ) کی شاہراہ کو پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان سے منسوب کردیا گیا ہے تاہم لیاری ٹاؤن سے ملحقہ سڑک اٹمارم پریتم داس سے ٹینری روڈ تک کی شاہراہ کو سلطان محمد قاضی کا نام دے دیا گیا ہے۔

    sabeen-post

    واضح رہے معروف سماجی رہنما اور ٹی ٹو ایف کی ڈائریکٹر سبین محمود کو 24 اپریل 2015 کو کراچی میں ڈیفنس فیز ٹو میں اپنے دفتر سے واپسی پر دہشت گردوں کی جانب سے فائرنگ کر کے شدید زخمی کردیا تھا۔

    مزید پڑھیں : آخرکیسے ایک آئی بی اے گرایجویٹ سبین محمود کوقتل کرسکتا ہے؟

    فائرنگ کے وقت مقتولہ اپنی والدہ کے ہمراہ اپنے دفتر سے گھر جارہی تھیں، سبین کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئی تھیں۔

    دوسری جانب اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کو سائٹ ایریا میں نامعلوم ملزمان کی جانب سے فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں : پروین رحمان قتل کیس کا مرکزی ملزم رحیم سواتی گرفتار

     واضح رہے سبین محمود قتل میں ملوث سعد عزیز کو آرمی کورٹ کی جانب سے پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے جبکہ پروین رحمان کے قتل میں ملوث قاتل رحیم سواتی نے بھی دوران تفتیش اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہے۔
  • ہالی وڈ اداکارہ این ہیتھ وے اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر مقرر

    ہالی وڈ اداکارہ این ہیتھ وے اقوام متحدہ کی خیر سگالی سفیر مقرر

    مشہور ہالی وڈ اداکارہ این ہیتھ وے کو اقوام متحدہ (خواتین) کی خیر سگالی سفیر مقرر کردیا گیا ہے۔ وہ نکول کڈمین اور ایما واٹسن کے بعد تیسری ہالی وڈ اداکارہ بن گئی ہیں جو اقوام متحدہ کے ساتھ خواتین کے حقوق کے لیے کام کریں گی۔

    فلم ’لیس مزر ایبل‘ میں معاون اداکارہ کے طور پر آسکر ایوارڈ جیتنے والی این ہیتھ وے خواتین کے حقوق کے لیے کام کریں گی۔ ہالی وڈ اداکارہ ایما واٹسن اور نکول کڈمین کے علاوہ تھائی لینڈ کی شہزادی بھی اس مشن میں ان کے ساتھ شامل ہیں۔

    این ہیتھ وے کا شعبہ ’کام کے دوران ماؤں کو دی جانے والی سہولیات‘ کا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فمزلے مالمبو کے مطابق یو این وومن آفسز میں خواتین کے ساتھ صنفی امتیاز کے خلاف کام کر رہی ہے اور این کی تقرری اسی مقصد کی ایک کڑی ہے۔

    اس موقع پر این نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس تقرری پر بہت فخر محسوس کر رہی ہیں اور صنفی امتیاز کے خاتمے پر کام کرنے کے لیے پرجوش ہیں۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ مختلف مقاصد کی تشہیر اور فروغ کے لیے مختلف اداکار و اداکاراؤں اور دیگر شعبوں کی مشہور شخصیات کو اپنا خیر سگالی سفیر مقرر کر چکا ہے۔

    اس سے قبل ایما واٹسن بھی یو این وومن کے ساتھ صنفی برابری کے لیے ’ہی فار شی یا خواتین کے لیے مرد‘ مہم کا آغاز کر چکی ہیں۔ نکول کڈمین یو این وومین کے ساتھ مل کر خواتین پر تشدد کے خلاف کام کر رہی ہیں۔

    جیمز بونڈ کا کردار ادا کرنے والے اداکار ڈینیئل کریگ بارودی سرنگوں کے نقصانات سے بچاؤ، جبکہ آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو کلائمٹ چینج کے خلاف اقوام متحدہ کے خیر سگالی سفیر ہیں۔

    مشہور اداکارہ انجلینا جولی بھی جنگ زدہ علاقوں میں جنسی تشدد کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر ہیں۔

    این ہیتھ وے اس سے قبل بھی ایک ادارے کے ساتھ ترقی پذیر ممالک میں لڑکیوں کی خود مختاری پر کام کر چکی ہیں جبکہ انہوں نے جنسی تشدد کے خلاف آگاہی کے لیے کینیا کا سفر بھی کیا تھا۔

    انہوں نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی جانب سے بنائی جانے والی ڈاکومنٹری ’گرل رائزنگ‘ میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا۔

  • بائیک پر ایسا سفر جس نے زندگی بدل دی

    بائیک پر ایسا سفر جس نے زندگی بدل دی

    اس نے اپنی ماں سے پوچھا، ’وہ کیا چیز تھی جو ابو ساری زندگی کرنا چاہتے تھے پر نہ کر سکے؟‘ اس کی ماں نے اسے جو بتایا اس نے وہی کیا، اور پھر وہ پاکستان کی ایک پہچان بن گئی۔

    لاہور کی 21 سالہ زینت عرفان ایک ایسے سفر پر نکلی جس نے اس کی زندگی بدل دی۔ اپنے والد کا ادھورا خواب پورا کرنے کے لیے اس نے موٹر سائیکل اٹھائی اور دنیا کے سفر پر چل پڑی۔ اس کے والد کی یہی خواہش تھی جسے وہ پورا نہ کرسکے۔ موٹر سائیکل پر دنیا کا سفر۔۔

    zeenat-1

    زینت نے ایک ہفتے میں بائیک پر 500 میل کا سفر طے کیا۔ اس کا سفر اپنے آبائی علاقے سے شروع ہوا جو کشمیر کی پہاڑیوں تک چلا۔

    اپنے اس سفر کے بارے میں زینت بتاتی ہے، ’کئی بار میرا جسم تھک گیا، اس وقت میں نے خود سے کہا کہ مجھے اور آگے جانا ہے، اور آگے، ورنہ مجھے یہ سفر ادھورا چھوڑ کر واپس جانا پڑے گا‘۔

    zeenat-2

    ایک ایسے ملک میں جہاں ایک طرف تو صرف مردوں کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے عورتوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح درندہ صفت لوگوں کے آگے ڈال دیا جاتا ہو، وہاں زینت اور اس جیسی خواتین کبھی بائیک چلا کر اور کبھی پہاڑوں کی چوٹیاں سر کر کے مردانگی کی اس خود ساختہ عظمت کو للکار رہی ہیں۔

    رنگوں سے نئے جہان تشکیل دینے والی مصورات کے فن پارے *

    وہ کہتی ہے، ’میرا خیال ہے بائیک چلانے سے صنف کا کوئی تعلق نہیں۔ صنف کسی کے مقاصد کا تعین نہیں کر سکتی‘۔

    زینت نے اپنے بھائی کے ساتھ بھی 200 میل کا سفر طے کیا۔ وہ اپنے بھائی کی مشکور ہیں کہ اس نے ہی انہیں بائیک چلانا سکھائی۔

    zeenat-3

    اس سفر کی وجہ سے زینت کو خصوصاً آن لائن تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لوگوں نے انہیں کہا کہ انہیں بائیک نہیں چلانی چاہیئے کیونکہ ایک عورت کے لیے یہ شرم کا مقام ہے۔ کچھ نے ان کی مسلمان ہونے پر انگلیاں اٹھائیں۔ لیکن کوئی چیز زینت کو اس کے مقصد سے روک نہیں سکی۔

    زینت کا کہنا ہے کہ یہ سفر درحقیقت انہوں نے اپنے والد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنی والد کی یادوں کے ساتھ یہ سفر ان کے روحانی اطمینان کا باعث بھی بنا۔

  • انسانی حقوق کی وکیل امل کلونی یزیدی خواتین کا کیس لڑیں گی

    انسانی حقوق کی وکیل امل کلونی یزیدی خواتین کا کیس لڑیں گی

    انسانی حقوق کی وکیل اور معروف ہالی وڈ اداکار جارج کلونی کی اہلیہ امل کلونی شام کی یزیدی خواتین کا کیس لڑیں گی۔ یہ خواتین عراق میں دہشت گرد تنظیم داعش کے جنگجؤوں کی جانب سے جنسی غلامی، اجتماعی زیادتی اور نسل کشی کا نشانہ بنیں۔

    امل کلونی کی لا فرم کے مطابق امل عالمی عدالت برائے جرائم میں داعش کے  یزیدی خواتین پر مظالم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گی۔

    مزید پڑھیں: داعش نے 19 یزیدی خواتین کو زندہ جلا دیا

    امل کا کہنا ہے کہ داعش کی جانب سے ہزاروں یزیدیوں کو قتل کیا گیا جبکہ ہزاروں یزیدی خواتین کو غلام بنا لیا گیا۔ ان خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات بھی پیش آئے جبکہ یہ واقعات تاحال جاری ہیں لیکن مجرموں کے خلاف کوئی کچھ نہیں کر سکا۔

    amal-2

    داعش نے عراق کے یزیدی قبیلے کو کافر قرار دے کر 2014 میں ان کے شہر پر حملہ کیا اور ہزاروں یزیدیوں کو قتل کردیا۔ داعش کے جنگجو سینکڑوں ہزاروں یزیدی خواتین کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے جہاں ان کے ساتھ نہ صرف اجتماعی زیادتی کی گئی بلکہ وہاں ان کی حیثیت ان جنگجؤوں کے لیے جنسی غلام کی ہے۔ داعش کے خوف کی وجہ سے اب تک 4 لاکھ سے زائد یزیدی اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔

    isis-2

    یزیدیوں پر مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والی سماجی کارکن نادیہ مراد طحہٰ ایک عرصے سے ان مظالم کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

    طحہٰ خود بھی یزیدی ہیں اور داعش کے ان کے گاؤں پر حملے کے دوران انہیں بھی اغوا کرلیا گیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ داعشی جنگجو انہیں عراق کے شہر موصل لے گئے جہاں داعش کا قبضہ ہے۔ وہاں انہیں کئی بار زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ ان پر جسمانی تشدد بھی کیا گیا۔ طحہٰ 3 ماہ داعش کی قید میں رہنے کے بعد کسی طرح وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئیں۔

    طحہٰ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے سامنے عالمی اداروں سے ان مظالم کے خلاف اقدامات کرنے کی اپیل بھی کر چکی ہیں۔

    nadia

    اقوام متحدہ کے مطابق داعش نے اب تک 7 ہزار خواتین کو اغوا کر کے انہیں غلام بنایا ہے جن میں سے زیادہ تر یزیدی قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔

    چند روز قبل داعش نے موصل میں 19 یزیدی خواتین کو زندہ جلا دیا تھا۔ ان خواتین نے داعشی جنگجوؤں سے جنسی تعلق قائم کرنے سے انکار کیا تھا جس پر جنگجوؤں نے انہیں لوہے کے پنجروں میں بند کر کے زندہ جلا دیا۔

  • داعش نے 19 یزیدی خواتین کو زندہ جلا دیا

    داعش نے 19 یزیدی خواتین کو زندہ جلا دیا

    بغداد: شدت پسند تنظیم داعش کے زیر قبضہ علاقہ موصل میں 19 یزیدی خواتین کو زندہ جلا دیا گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ان خواتین نے داعشی جنگجوؤں سے جنسی تعلق قائم کرنے سے انکار کیا تھا جس پر جنگجوؤں نے انہیں لوہے کے پنجروں میں بند کر کے زندہ جلا دیا۔

    عینی شاہدین کے مطابق ان خواتین کو سرعام جلایا گیا اور سینکڑوں لوگ وہاں کھڑے دیکھتے رہے۔ کوئی انہیں بچانے کے لیے کچھ نہ کر سکا۔

    isis-2

    واضح رہے کہ اگست 2014 میں داعش نے شمال مغربی عراق کے شہر سنجار پر حملہ کیا تھا جہاں یزیدیوں کی اکثریت آباد تھی۔ علاقے پر قبضہ کے بعد 1800 یزیدی خواتین داعش کی قید میں آگئی تھیں۔ داعش نے عراق و شام کے مختلف علاقوں سے درجنوں خواتین کو اغوا بھی کیا ہے۔ علاوہ ازیں دنیا بھر سے کئی خواتین داعش میں شمولیت کے لیے شام جا چکی ہیں۔

    ان سب خواتین کی حیثیت داعش کے لیے جنسی غلام کی ہے اور ان میں سے کئی خواتین جنگجوؤں کی جانب سے اجتماعی زیادتی کا سامنا بھی کر چکی ہیں۔

  • ہندوستان کی عظیم تخت نشین خاتون ۔ رضیہ سلطان

    ہندوستان کی عظیم تخت نشین خاتون ۔ رضیہ سلطان

    عورت کو یوں تو کم عقل کہا جاتا ہے۔ اس کا جائیداد میں حصہ بھی کم ہے، اس کی گواہی بھی آدھی ہے، جبکہ اسے کمزور بنا کر مرد کو اس کا محافظ بنایا گیا ہے۔ لیکن اس حقیقت کا کیا کیجیئے کہ یہی محافظ مرد اسی کم عقل عورت کے ہاتھوں مات کھا کر کبھی تخت و تاج کو ٹھوکر مار دیتا ہے، کبھی اپنے ہوش و حواس گنوا بیٹھتا ہے۔

    انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ ہشتم نے اپنے عشق کو حاصل کرنے کے لیے تاج و تخت کو ٹھکرا دیا۔ انگلستان کا ہی ہنری اپنی پسند کی شادی کرنے لگا تو پوپ اور سلطنت میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے۔ بہادر رومی جرنیل جولیس سیزر مصر کی شہزادی قلو پطرہ کی زلف کا اسیر ہوا اور روم کی ساری دولت اس کے قدموں میں ڈھیر کردی۔ کہا جاتا تھا کہ سیزر کے فیصلوں کے پیچھے قلوپطرہ کی عقل کار فرما تھی۔ روس کی ملکہ کیتھرائن نے ترکی کے عظیم عثمانی حکمرانوں کو شکست دے ان سے تاریخی معاہدہ کوچک طے کیا۔

    روس کی ملکہ کیتھرائن

    ذرا آگے چل کر ہندوستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو مغلوں میں اکبر کے ہوش سنبھالنے سے قبل عنان حکومت اس کی ماں حمیدہ بانو بیگم کے ہاتھ میں رہی۔ یہ دور زنانی حکومت کا دور کہلایا۔ ملکہ نور جہاں سے کون نہ واقف ہوگا۔ حسین اور ذہین نورجہاں جہانگیر کواپنے اشاروں پرنچایا کرتی اورسلطنت مغلیہ ان دنوں عملاً نور جہاں کے احکامات سے چلا کرتی۔ اس سے قبل جہانگیر اپنے عہد ولی عہدی میں انار کلی نامی ایک مغنیہ کی زلفوں کے اسیر ہوکر مغل اعظم جلال الدین اکبر سے دو بدو جنگ بھی کرچکے تھے۔

    نور جہاں اور جہانگیر ۔ ایک مصور کی نظر سے

    کتنی ہی خواتین ایسی ہیں جنہوں نے اپنی عقل و ہمت سے تاریخ میں اپنا نام امر کرلیا۔ رضیہ سلطان بھی ایسی ہی ایک حکمران تھی۔

    رضیہ کو ’رضیہ سلطانہ‘ پکارا جانا سخت ناپسند تھا۔ وہ کہا کرتی تھی کہ ’سلطانہ‘ کا مطلب سلطان کی بیوی ہے۔ میں کسی سلطان کی بیوی نہیں بلکہ خود سلطان ہوں لہٰذا مجھے رضیہ ’سلطان‘ کہا جائے۔

    صد حیف کہ ایسی جاہ و حشم والی سلطان آج پرانی دلی میں ایک بے نام قبر میں دفن ہے اور اسکے برابر موجود قبر کا کوئی نام ونشان بھی نہیں۔

    اے آروائی نیوزکے پروگرام ’ادراک‘ کے میزبان فواد خان جب وہاں گئے تو انہیں اداسی، تنہائی اور خاموشی کے سوا وہاں کچھ نہ ملا۔

    انہوں نے سائیکل رکشے پر پرانی دلی کی گلیوں کا دورہ کیا۔ آئیے ہم بھی ان کے ہمراہ ماضی کے جھروکوں میں چلتے ہیں۔

    دلی سے دہلی تک

    بھارت کا دارالحکومت دہلی شاید دنیا کی تاریخ کا واحد شہر ہے جو 17 بار اجڑنے کے بعد بھی ہر بار دوبارہ بس گیا۔ غالب و میر جیسے شاعروں کی رہائش کا اعزاز رکھنے والا دلی حضرت عیسیٰ کے دور سے بھی 6 صدی قبل بسایا جا چکا تھا۔

    مغل شہنشاہ جہانگیر نے اس کی تعمیر نو کی جس کے بعد اس کا نام شاہجہاں آباد پڑگیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کا پرانا نام تو لوٹ آیا لیکن جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس شہر میں جو اضافہ کیا گیا اس نے دلی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا، نئی دہلی اور پرانی دہلی۔

    دلی کا سفر کرنے والے اکثر افراد اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ دلی اور لاہور کی کئی عمارتوں کا طرز تعمیر ایک جیسا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عمارتیں مغل بادشاہ شاہجہاں نے تعمیر کروائی تھیں جو تاریخ میں اپنی تعمیرات ہی کے حوالے سے مشہور ہے۔ محبت کی عظیم نشانی اور طرز تعمیر کا شاہکار تاج محل بھی شاہجہاں کا تعمیر کردہ ہے جو اس نے اپنی محبوب بیوی ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔

    آئیے اب پرانی دلی چلتے ہیں۔ گو کہ ہمیں کسی سواری کی ضرورت نہیں مگر فواد خان کو نئی دلی جانے کے لیے سائیکل رکشہ پر سفر کرنا پڑا۔

    پرانی دلی میں داخل ہونے کے لیے کئی دروازے ہیں جن میں سے ایک راستہ ترکمان گیٹ کہلاتا ہے۔ ایسے ہی جیسے اندرون لاہور میں داخلے کے کئی دروازے ہیں۔

    کراچی کا کھارادر ہو، پرانا لاہور ہو یا پرانی دلی، آپ کو ایک سا منظر دکھائی دے گا۔ احاطوں سے باہر نکلی دکانیں، تنگ گلیاں، پتھارے دار، پرانی عمارتیں، جو سر پر گرتی محسوس ہوتی ہیں۔ پرانی دلی میں الگ چیز ہتھ گاڑی میں سامان کھینچتے مزدور بھی نظر آئیں گے۔

    آپ کو بالی وڈ کی فلم دلی 6 یاد ہوگی جس میں سونم کپور اور ابھیشک بچن نے کام کیا تھا۔ دلی 6 دراصل دلی کا پوسٹل کوڈ ہے۔

    مرزا غالب کی حویلی بھی یہیں پرانی دلی میں ہے۔ محلہ بلی ماراں کی گلی قاسم جان میں غالب کی حویلی موجود ہے۔ گو حویلی تو زمانے کی دست برد کے باعث اپنی شان کھو چکی ہے لیکن اس کے دو کمرے بھارتی حکومت کی مہربانی سے اچھی حالت میں ہیں اور دنیا بھر سے غالب اور اس کی شاعری کے دیوانے یہاں آکر غالب کو تلاشتے ہیں۔

    غالب کی حویلی تو پرانی دلی کے باسیوں کے لیے ایک جانا پہچانا مقام ہے، لیکن وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ اپنے وقت کی حکمران رضیہ سلطان کس مقام پر آسودہ خاک ہے۔ کئی لوگوں سے پوچھنے پر بمشکل کوئی ایک شخص آپ کو صحیح سمت بتا سکے گا۔ لیکن رضیہ سلطان کے مقبرے میں فاتحہ پڑھنے سے پہلے ایک نظر اس کے عروج پر بھی ڈالتے ہیں۔

    ہندوستان کی عظیم تخت نشین عورت ۔ رضیہ سلطان

    دہلی کا پہلا مسلمان بادشاہ سلطان الدین ایبک کا ایک غلام التمش جو اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے صوبہ بہار کا صوبیدار تھا اور بعد ازاں تخت دہلی پر بیٹھا، بلند حوصلہ رضیہ سلطان کا باپ تھا۔ التمش کے ماضی کی وجہ سے یہ خاندان، خاندان غلاماں کہلایا۔ التمش نے بچپن ہی سے اپنی بیٹی میں چھپی صلاحیتوں کو پہچان لیا اور عام شہزادیوں کی طرح تعلیم حاصل کرنے کے بجائے اسے جنگی تربیت اور انتظام سلطنت کی تربیت دی۔ جب اس کی اولادیں بڑی ہوگئیں اور جانشینی کا مسئلہ اٹھا تو التمش نے اپنی بیٹی کو جانشین مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔

    یہ فیصلہ اس نے اپنے بیٹوں کی نا اہلی کی وجہ سے کیا۔ اس کے اس فیصلہ کی اس کے امرا نے بھی مخالفت کی۔ التمش کی موت کے بعد اس کے ایک بیٹے رکن الدین فیروز نے رضیہ کو نظر بند کر کے خود تخت سنبھال لیا اور جلد ہی اپنے جلد باز فیصلوں اور ناقص حکمت عملیوں کے باعث امرا کی حمایت کھو بیٹھا۔ تب امرا کو بھی التمش کے دور رس فیصلہ کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور جب رضیہ اپنے تخت کو واپس حاصل کرنے کے لیے نکلی تو دربار کے امرا، فوج اور عام عوام نے بھی اس کا ساتھ دیا۔

    رضیہ مردانہ لباس پہن کر تخت پر بیٹھا کرتی۔ یہی نہیں بلکہ وہ بذات خود جنگوں میں شریک ہوکر مردانہ وار لڑتی تھی جس کو دیکھ کر اس کی فوج کے حوصلے بھی بلند ہوجاتے تھے۔ اپنے دور حکومت میں اس نے بے شمار دانشمندانہ فیصلے کیے، عوامی بہبود کے کئی منصوبے شروع کیے اور درباری سازشوں کا ایسی ذہانت سے مقابلہ کیا کہ وہ عوام کی پسندیدہ حکمران بن گئی۔

    اس نے بھٹنڈہ کے حکمران ملک اختیار التونیہ سے شادی کی۔ اس کی شادی کے بارے میں مؤرخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مؤرخین کے مطابق اس نے اپنے بھائیوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اس سے شادی کی۔ بعض کے مطابق وہ التونیہ کی بغاوت کچلنے نکلی لیکن اس کی فوج نے اس سے غداری کی۔ رضیہ کو شکست ہوئی اور اسے قیدی کی حیثیت سے التونیہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ التونیہ پہلے ہی اس کے تیر نظر کا گھائل تھا۔ اس نے رضیہ سے شادی کرلی۔

    شادی کے بعد رضیہ نے اپنا کھویا ہوا تخت دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے وہ اور التونیہ بھٹندہ کی فوج لے کر دہلی کی طرف چلے۔ اس عرصے میں رضیہ کا بھائی معز الدین تخت پر بیٹھ چکا تھا۔ اس جنگ میں رضیہ کو شکست ہوئی۔

    اس کی موت کے بارے میں بھی متضاد معلومات ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ معز الدین نے شکست کے بعد ان دونوں کو قتل کروادیا، بعض کے مطابق اس جنگ میں التونیہ مارا گیا لیکن رضیہ جان بچا کر بھاگ نکلی اور ایک ویرانے میں ایک ڈاکو کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھی۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ دونوں کے ساتھ پیش آیا اور شکست کے بعد دونوں جائے پناہ کی تلاش میں بھٹکتے پھر رہے تھے کہ ایک دیہاتی لٹیرے نے انہیں لوٹنے کے بعد قتل کردیا۔

    وجہ موت جو بھی ہو، بہرحال یہ موت ایک عظیم حکمران کے شایان شان نہ تھی۔

    رضیہ کی زندگی کا ایک کردار اس کا حبشی غلام یاقوت بھی تھا۔ وہ التمش کے زمانے سے رضیہ کی حفاظت پر معمور تھا۔ کہا جاتا ہے کہ رضیہ اس کے عشق میں مبتلا تھی۔ سلطان بننے کے بعد اس نے اسے ایک اونچا عہدہ دے کر دربار کے کئی امرا سے بلند کردیا تھا جسے سخت ناپسند کیا گیا۔ درباری سازشیوں نے اس غلام کے حوالے سے رضیہ کی کردار کشی بھی کی۔ یہ غلام ملک التونیہ کے خلاف بغاوت میں مارا گیا۔

    مؤرخین کے مطابق رضیہ کے زوال کی وجہ اس غلام پر حد سے بڑھی ہوئی عنایتیں تھیں جنہوں نے امرا کو اس سے بدظن کردیا اور عوام میں بھی رضیہ کی ساکھ خراب کردی۔

    رضیہ سلطان کی قبر پرانی دلی میں موجود ہے۔ اس کی قبر کے برابر میں ایک اور قبر موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس کی سوتیلی بہن کی ہے۔ ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں بے نام قبر میں وہ عورت دفن ہے جس کا نام سن کر کبھی باغی بغاوت سے باز آجاتے تھے۔

    اس کے مقبرے کے احاطے میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے جو ویران ہی رہتی ہے۔

    یہاں کا سناٹا، ویرانی، اداسی اور وحشت دیکھنے والوں کے لیے سبق ہے کہ اقتدار کسی کا نہیں رہتا، موت ہر شخص کو آئے گی، اور کوئی چاہے کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو، وقت کی دھول میں مٹ جائے گا۔

  • ٹھٹھہ: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    ٹھٹھہ: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    کراچی سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ٹھٹھہ کا شہر گھارو ہے۔ اس مسافت میں بے شمار چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں جن میں سے ایک، 370 لوگوں کی آبادی پر مشتمل گاؤں اسحٰق محمد جوکھیو بھی ہے۔ ان دو شہروں کے بیچ میں واقع اس گاؤں میں جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کئی صدیوں پیچھے آگئے ہیں۔

    پاکستان کے ہر پسماندہ گاؤں کی طرح یہاں نہ پانی ہے نہ بجلی، نہ ڈاکٹر نہ اسپتال۔ معمولی بیماریوں کا شکار مریض شہر کے ڈاکٹر تک پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ گاؤں میں اسکول کے نام پر ایک بغیر چھت والی بوسیدہ سی عمارت نظرآئی۔ اندرجھانکنے پرعلم ہوا کہ یہ گاؤں کے آوارہ کتوں کی پناہ گاہ ہے۔

    یہاں موجود بیشتر گاؤں تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور جان کر حیرت ہوتی ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی یہاں کے زیادہ ترباسیوں کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش اپنی زندگی میں ایک بار بجلی کا چمکتا ہوا بلب دیکھنا ہے۔

    یہاں کی عورتوں کے مسائل بھی الامان ہیں۔ سر شام جب مہمانوں کو چائے پیش کی گئی تو گاؤں کے تمام مردوں نے تو ان کا ساتھ دیا لیکن خواتین چائے سے دور ہی رہیں۔ ’ہم شام کے بعد چائے یا پانی نہیں پیتے۔‘ پوچھنے پر جواب ملا۔ مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ ان کے گاؤں یا خاندان کی کسی قدیم روایت کا حصہ ہے جو صرف خواتین پر لاگو ہوتا ہے لیکن غربت سے کملائے ہوئے چہرے کے اگلے جملے نے میرے خیال کی نفی کردی۔ ’ہم رات کو رفع حاجت کو باہر نہیں جاسکتے۔ اندھیرا ہوتا ہے اور گاؤں میں بجلی نہیں ہے۔ رات کو اکثر سانپ یا کوئی کیڑا مکوڑا کاٹ لیتا ہے اوریوں رات کو رفع حاجت کے لیے جانے کی پاداش میں صبح تک وہ عورت اللہ کو پیاری ہوچکی ہوتی ہے‘۔

    اب میرا رخ خواتین کی طرف تھا۔ ’میری ایک بہن کو کوئی بیماری تھی۔ وہ سارا دن، ساری رات درد سے تڑپتی رہتی۔‘ایک نو عمر لڑکی نے اپنے چھوٹے بھائی کو گود میں سنبھالتے ہوئے بتایا۔ ’پیسہ جوڑ کر اور سواری کا بندوبست کر کے اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو اس نے بتایا کہ اسے گردوں کی بیماری ہے‘۔


    پنتیس سالہ خورشیدہ کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں جوش تھا۔ ’ہماری زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس پر نیٹ بھی چلتا ہے۔ بجلی کی بدولت اب ہم رات میں بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہینڈ پمپ کی سہولت بھی آچکی ہے۔ اب ہمیں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے کنویں تک آنے جانے کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر اور مشقت طے نہیں کرنی پڑتی‘۔


    دراصل گاؤں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں۔ مرد و خواتین رفع حاجت کے لیے کھلی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ خواتین ظاہر ہے سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈھلنے کے بعد جب سناٹا ہوتا ہے دو وقت ہی جا سکتی ہیں۔

    مجھے بھارت یاد آیا۔ پچھلے دنوں جب بھارت میں خواتین پر مجرمانہ حملوں میں اچانک ہی اضافہ ہوگیا، اور ان میں زیادہ تر واقعات گاؤں دیہاتوں میں رونما ہونے لگے تو صحافی رپورٹ لائے کہ زیادہ تر مجرمانہ حملے انہی دو وقتوں میں ہوتے ہیں جب خواتین رفع حاجت کے لیے باہر نکلتی ہیں۔ کیونکہ اس وقت سناٹا ہوتا ہے اور مجرمانہ ذہنیت کے لوگ گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک اکیلی عورت بھلا ایسے دو یا تین افراد کا کیا بگاڑ سکتی ہے جن پر شیطان سوار ہو اور وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوں۔

    اس کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر دیہاتوں میں باتھ رومز تعمیر کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ نہ صرف سماجی اداروں بلکہ حکومت نے بھی اس طرف توجہ دی لیکن اب بھی بہرحال وہ اپنے مقصد کے حصول سے خاصے دور ہیں۔

    ہم واپس اسی گاؤں کی طرف چلتے ہیں۔ باتھ رومز کی عدم دستیابی کے سبب خواتین میں گردوں کے امراض عام ہیں۔

    گاؤں اسحٰق محمد جوکھیو کا دورہ دراصل چند صحافیوں کو ایک تنظیم کی جانب سے کروایا گیا تھا جو ان گاؤں دیہاتوں میں شمسی بجلی کے پینلز لگانے، گھروں میں ہینڈ پمپ لگوانے اور گاؤں والوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کے لیے مدد اور سہولیات فراہم کرتی ہے۔ گو کہ گاؤں اور اس کے باشندوں کی حالت زار کو دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید ان کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کئی صدیاں درکار ہوں گی لیکن اس تنظیم اور اس جیسی کئی تنظیموں اور اداروں کی معمولی کاوشوں سے بھی گاؤں والوں کی زندگی میں انقلاب آرہا تھا۔

    یہیں میری ملاقات خورشیدہ سے ہوئی۔ 35 سالہ خورشیدہ کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں جوش تھا اور جب وہ گفتگو کر رہی تھی تو اپنے پر اعتماد انداز کی بدولت وہاں موجود لوگوں اور کیمروں کی نگاہوں کا مرکز بن گئی۔ ’ہماری زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس پر نیٹ بھی چلتا ہے۔ بجلی کی بدولت اب ہم رات میں بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہینڈ پمپ کی سہولت بھی آچکی ہے۔ اب ہمیں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے کنویں تک آنے جانے کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر اور مشقت طے نہیں کرنی پڑتی‘۔

    چونکہ ذہانت اور صلاحیت کسی کی میراث نہیں لہذاٰ یہاں بھی غربت کے پردے تلے ذہانت بکھری پڑی تھی جو حالات بہتر ہونے کے بعد ابھر کر سامنے آرہی تھی۔ خورشیدہ بھی ایسی ہی عورت تھی جو اب اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کا بھرپور استعمال کر رہی تھی۔

    تمام مرد و خواتین صحافیوں کے سامنے وہ اعتماد سے بتا رہی تھی۔ ’ہم پہلے گھر کے کام بھی کرتے تھے جس میں سب سے بڑا اور مشکل کام پانی بھر کر لانا ہوتا تھا۔ گاؤں کا کنواں بہت دور ہے اور سردی ہو یا گرمی، چاہے ہم حالت مرگ میں کیوں نہ ہوں اس کام کے لیے ہمیں میلوں کا سفر طے کر کے ضرور جانا پڑتا تھا۔ گھر کے کاموں کے بعد ہم اپنا سلائی کڑھائی کا کام کرتے تھے جس سے معمولی ہی سہی مگر اضافی آمدنی ہوجاتی تھی۔ یہ سارے کام ہمیں دن کے اجالے میں کرنے پڑتے تھے۔ اندھیرا ہونے کے بعد ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے سوائے دعائیں مانگنے کے کہ اندھیرے میں کوئی جان لیوا کیڑا نہ کاٹ لے‘۔

    میں نے اس زندگی کا تصور کیا جو سورج ڈھلنے سے پہلے شروع ہوجاتی تھی اور سورج ڈھلتے ہی ختم۔ بیچ میں گھپ اندھیرا تھا، وحشت تھی، سناٹا اور خوف۔ مجھے خیال آیا کہ ہر صبح کا سورج دیکھ کر گاؤں والے سوچتے ہوں گے کہ ان کی زندگی کا ایک اور سورج طلوع ہوا اور سورج کے ساتھ ان کی زندگی میں بھی روشنی آئی۔ ورنہ کوئی بھروسہ نہیں اندھیرے میں زندگی ہے بھی یا نہیں۔

    خورشیدہ کی بات جاری تھی۔ ’ جب سے ہمارے گھر میں بجلی آئی ہے ہم رات میں بھی کام کرتے ہیں۔ اجالے کی خوشی الگ ہے۔ گھروں میں بھی اب ہینڈ پمپ ہیں چنانچہ پانی بھرنے کی مشقت سے بھی جان چھوٹ گئی۔ جو وقت بچتا ہے اس میں ہم اپنا سلائی کڑھائی کا کام کرتے ہیں جس سے گھر کی آمدنی میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے اور ہماری زندگیوں میں بھی خوشحالی آئی ہے‘۔

    بعد میں خورشیدہ نے بتایا کہ اس نے اپنی کمائی سے ایک موبائل فون بھی خریدا جس سے اب وہ انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے۔ اس انٹرنیٹ کی بدولت وہ اپنے ہنر کو نئے تقاضوں اور فیشن کے مطابق ڈھال چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے رابطے بھی وسیع کر لیے ہیں اور چند ہی دن میں وہ اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے ملبوسات بیرون ملک بھی فروخت کرنے والی ہے۔

     میں نے اپنا اکاؤنٹ بھی کھلوا لیا ہے شہر کے بینک میں۔‘خورشیدہ کی آواز میں آنے والے اچھے وقت کی امید تھی۔ ’گاؤں میں بہت ساری لڑکیاں میرے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ جنہیں سلائی کڑھائی نہیں آتی ہم انہیں بھی سکھا رہے ہیں اور بہت جلد ایک مکان خرید کر ہم باقاعدہ اپنا ڈسپلے سینٹر بھی قائم کریں گے‘۔

    واپسی کے سفر میں ہمارے ساتھ موجود صحافی عافیہ سلام نے بتایا کہ گاؤں کی عورتوں کے لیے پانی بھر کر لانا ایک ایسی لازمی مشقت ہے جو تا عمر جاری رہتی ہے۔ مرد چاہے گھر میں ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں وہ یہ کام نہیں کرتے بقول ان کے یہ ان کا کام نہیں، عورتوں کا کام ہے اور اسے ہر صورت وہی کریں گی۔ بعض حاملہ عورتیں تو راستے میں بچے تک پیدا کرتی ہیں اور اس کی نال کاٹ کر اسے گلے میں لٹکا کر پھر سے پانی بھرنے کے سفر پر روانہ ہوجاتی ہیں۔

    مجھے خیال آیا کہ دنیا کا کوئی بھی مسئلہ ہو، غربت ہو، جہالت ہو، کوئی قدرتی آفت ہو، یا جنگ ہو ہر صورت میں خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ جنگوں میں خواتین کے ریپ کو ایک ہتھیار کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پرانے دور کے ظالم و جابر بادشاہوں اور قبائلی رسم و رواج کا دور ہو یا جدید دور کی پیداوار داعش اور بوکو حرام ہو، خواتین کو ’سیکس سلیوز‘ (جسے ہم جنسی غلام کہہ سکتے ہیں) کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا رہا۔

    جنگوں میں مردوں کو تو قتل کیا جا سکتا ہے یا زخمی ہونے کی صورت میں وہ اپاہج ہوسکتے ہیں۔ لیکن عورتوں کے خلاف جنسی جرائم انہیں جسمانی، نفسیاتی اور معاشرتی طور پر بری طرح متاثر کرتے ہیں اور ان کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کسی عورت پر پڑنے والے برے اثرات اس کے پورے خاندان کو متاثر کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جنگ کے بعد جب امن مذاکرات ہوتے ہیں تو اسی صنف کی شمولیت کو انتہائی غیر اہم سمجھا جاتا ہے جو ان جنگوں سے سب زیادہ متاثر ہوتی ہے۔