Tag: خواتین

  • سعودی عرب: صنعتی شعبے میں خواتین کی تعداد میں اضافہ

    سعودی عرب: صنعتی شعبے میں خواتین کی تعداد میں اضافہ

    ریاض: سعودی عرب میں صنعتی شعبے میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، 3 سال کے دوران صنعتی شعبوں میں خواتین ملازمین کی تعداد میں 93 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی وزارت صنعت و معدنیات نے کہا ہے کہ 2022 کے اختتام تک صنعتی شعبے میں سعودی خواتین کی تعداد 63 ہزار 892 تک پہنچ گئی ہے۔

    2019 کے آخر میں ان کی تعداد 33 ہزار تھی، صنعتی شعبے میں 93 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

    وزارت صنعت و معدنیات نے ایک بیان میں صنعتی شعبے میں خواتین کے لیے کام کا ماحول مزید بہتر بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

    وزارت کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران صنعتی شعبے میں کام کرنے والی خواتین نے اپنی اہلیت منوائی ہے، انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ ہر شعبے میں کامیابی حاصل کر
    سکتی ہیں۔

    وزارت کے مطابق وژن 2030 کے اہداف کی تکمیل کے لیے صنعتی شعبے میں خواتین کی مؤثر شراکت کو مزید بڑھایا جائے گا۔

    یہ بھی کہا گیا کہ صنعتی شعبے میں کام کرنے والی سعودی خواتین سب سے زیادہ ریاض ریجن میں ہیں جہاں ان کی تعداد 28 ہزار 170 ہے، مکہ ریجن میں ان کی تعداد 15 ہزار 621 اور مشرقی ریجن میں 10 ہزار 911 ہے۔

  • ایرانی خواتین اپنے ہی ملک میں دوسرے درجے کے شہریوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور

    ایرانی خواتین اپنے ہی ملک میں دوسرے درجے کے شہریوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور

    تہران: ایران میں خواتین اپنے حقوق کی پامالی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایران میں خواتین کی حیثیت دوسرے درجے کے شہریوں جیسی ہے۔

    اردو نیوز کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔

    یہ رپورٹ 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر شائع کی گئی ہے جس میں ایرانی حکومت کی جانب سے ملک میں مختلف گروپوں کے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں تفصیل دی گئی ہے۔

    مصنف جاوید رحمٰن کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسانی حقوق کی حامی خواتین، لڑکیاں، اقلیتیں، مصنفین، صحافی اور دہری شہریت کے حامل افراد حکومت کے نشانے پر ہیں۔

    انہیں بدسلوکی، تشدد، نظر بندی، ہراسگی، جبری اعتراف جرم سمیت سزائے موت جیسی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    اس رپورٹ میں لڑکیوں کی شادی کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال صرف 6 ماہ کے دوران ایران میں 16 ہزار سے زائد ایسی شادیاں ہوئیں جن میں لڑکیوں کی عمر 10 سے 14 سال کے درمیان ہے۔

    اس حوالے سے بات کرتے ہوئے جاوید رحمٰن کا کہنا تھا کہ آج ایران میں جب خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو ان میں سب سے سنگین مسئلہ بچیوں کی شادی کا ہے، شادی کے لیے قانون کے مطابق موجودہ عمر ناقابل قبول ہے۔

    جاوید رحمٰن نے ایرانی صحافیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایرانی حکومت کی جانب سے کرونا وائرس کے بارے میں رپورٹ کرنے والے صحافیوں اور مصنفین کے مسلسل نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے پریشان ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ جو ماہرین، صحت سے متعلق انتظامات کے بارے میں سوالات کرتے ہیں انہیں بھی اکثر قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا یا ملازمت سے محروم ہونا پڑتا ہے۔

    ایران جانے کے لیے جاوید رحمٰن کی درخواستیں کئی مرتبہ مسترد ہونے کے بعد انہوں نے سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا سے جمع کردہ تمام ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے یہ رپورٹ مرتب کی ہے۔

    اس رپورٹ میں انہوں نے زیادتیوں کا نشانہ بننے والےافراد کے ساتھ ساتھ ان کے اہل خانہ اور وکیلوں کے انٹرویوز بھی شامل کیے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے ایرانی کوششوں کی راہ میں بین الاقوامی پابندیاں رکاوٹ تھیں، تاہم ایرانی حکومت پر تنقید بھی کی گئی کہ ناکافی اقدامات کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہوا۔

    بعض عہدیداروں نے ان قوانین کی پابندی نہ کرنے والی خواتین کے خلاف حملوں کی حوصلہ افزائی کی اور دیگر طریقوں سے ان کے تحفظ کو خطرہ قرار دیا۔

    انہوں نے کہا کہ یہاں پولیس، باسج ملیشیا اور چوکس اخلاقیات پولیس پردے کے قوانین کا نفاذ ممکن بناتی ہے، اکثر خواتین پر تشدد بھی ہوتا ہے، اس میں تیزاب سے حملہ اور قتل بھی شامل ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران میں کس طرح صنفی امتیاز برتا جاتا ہے، شادی، طلاق، روزگار اور ثقافت سمیت قانون اور روزمرہ زندگی میں خواتین کو دوسرے درجے کی شہری سمجھا جاتا ہے۔

    انہوں نے ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایران امتیازی قوانین کو منسوخ کرے اور خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنونشن کی توثیق کرے، واضح رہے کہ ایران ان چند ریاستوں میں سے ایک ہے جنہوں نے اس کنونشن پر دستخط نہیں کیے۔

  • خواتین کی یونیورسٹی تعلیم پر پابندی کا فیصلہ درست ہے، طالبان

    کابل: طالبان کے نائب ترجمان بلال کریمی نے افغانستان میں یونیورسٹی میں خواتین کی تعلیم پر پابندی کے فیصلے کو درست قرار دیا ہے۔

    عرب ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بلال کریمی نے کہا کہ طالبان نے خواتین کو وہ حقوق دیے ہیں جو ماضی میں انہیں حاصل نہیں تھے۔

    یاد رہے افعانستان کی وزارت اعلیٰ تعلیم کی جانب سے تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کو بھیجے گئے خط کے مطابق طالبان نے گزشتہ ماہ افغانستان میں خواتین کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    طالبان کے اس فیصلے پر عالمی برادری کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تو رد عمل میں طالبان کے اعلی تعلیم کے وزیر ندا محمد ندیم نے اپنے بیانات میں کہا تھا کہ اگر وہ ہم پر ایٹم بم بھی گرا دیں تو بھی ہم اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

  • مختلف قسم کے جوتے خواتین کی شخصیت کے بارے میں کیا بتاتے ہیں؟

    کہتے ہیں کہ کسی انسان کا لباس، اور لباس کا رنگ اس انسان کے مزاج اور اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

    مدھم اور ہلکے رنگ پہننے والے عادتاً خود بھی دھیمے مزاج کے ہوتے ہیں اور سکون سے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، لیکن شوخ رنگ پہننے والے زندگی میں مہم جوئی چاہتے ہیں اور خطرات سے کھیلنا چاہتے ہیں۔

    لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ صرف لباس ہی نہیں، جوتے بھی کسی انسان کی شخصیت کا علم دیتے ہیں۔

    جوتے پہنتے ہوئے عموماً کوشش کی جاتی ہے کہ وہ آرام دہ ہوں، بعض افراد جوتوں کا انتخاب لباس کی میچنگ یا فیشن کی مناسبت سے کرتے ہیں، اور یہیں جوتے ان کی شخصیت کے آئینہ دار بن جاتے ہیں۔

    چونکہ خواتین کے جوتے وسیع ورائٹی کے ساتھ دستیاب ہوتے ہیں، لہٰذا آج آپ کو بتایا جارہا ہے کہ مختلف قسم کے جوتے پہننے کی عادی خواتین کس مزاج کی حامل ہوتی ہیں۔

    ہائی ہیلز

    ہائی ہیلز پسند کرنے اور اکثر انہیں پہننے والی خواتین قائدانہ صلاحیت کی حامل ہوتی ہیں اور کسی بھی مشکل صورتحال میں فوراً حالات اپنے ہاتھ میں کر کے انہیں قابو کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔

    ہائی ہیلز اعتماد کی نشانی ہیں لہٰذا انہیں پہننے والی خواتین نہایت پراعتماد اور کسی سے نہ متاثر ہونے والی ہوتی ہیں۔

    جوتے

    رننگ شوز یا جوتے پہننے کی عادی خواتین زندگی میں مقصدیت کی حامل ہوتی ہیں۔ یہ چیلنجز سے لطف اندوز ہوتی ہیں اور ملٹی ٹاسکنگ کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

    جوتے پہننا دراصل اسی کی نشانی ہے کہ بھاگ دوڑ کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہ ہو۔

    ایسی خواتین نہ صرف نظم و ضبط کی عادی ہوتی ہیں بلکہ لوگوں سے میل جول بھی بہت پسند کرتی ہیں۔

    فلیٹ چپل

    فلیٹ یا چپٹے جوتے / چپل پہننے والی خواتین پس منظر میں رہنا پسند کرتی ہیں، یہ بہت محنتی اور ذہین ہوتی ہیں لیکن یہ لائم لائٹ میں آنا پسند نہیں کرتیں۔

    یہ کسی بھی کام کو بہترین طریقے سے مکمل کرتی ہیں لیکن چاہتی ہیں کہ اس کا کریڈٹ انہیں نہ دیا جائے اور وہ سب کا موضوع گفتگو نہ بنیں۔

    فلپ فلاپ چپل

    فلپ فلاپ یا جسے دو پٹی والی چپل بھی کہا جاتا ہے، بے حد آرام دہ ہوتی ہیں اور انہیں پسند کرنے اور اکثر پہننے والی خواتین بھی آرام طلب ہوتی ہیں۔

    وہ زندگی میں ’جیسا چل رہا ہے چلنے دو‘ کے فلسفے پر عمل کرتی ہیں اور آنے والے کل کی فکر سے آزاد رہتی ہیں۔

    وہ معاشرے کے کسی بھی دباؤ یا فیشن ٹرینڈز کو بھی خاطر میں نہیں لاتیں اور وہی پہننا پسند کرتی ہیں جس میں وہ آرام دہ محسوس کریں۔

    پمپ شوز

    پمپس پہننے والی خواتین حاکمانہ مزاج کی حامل ہوتی ہیں لیکن وہ سب کا خیال رکھتی ہیں، یہ خواتین کسی پر انحصار کرنا پسند نہیں کرتیں۔

    پمپ پہنے والی خواتین کو صحت مند مقابلے بازی اور بااختیار رہنا بے حد پسند ہوتا ہے۔

  • مشرق وسطیٰ میں ایک ہفتے کے دوران خواتین کے بہیمانہ قتل کے واقعات

    مشرق وسطیٰ میں ایک ہفتے کے دوران خواتین کے بہیمانہ قتل کے واقعات

    اومان / قاہرہ / ابو ظہبی: گزشتہ ہفتے کے دوران عرب ممالک میں 3 خواتین کے بہیمانہ قتل کے واقعات پیش آئے جس نے عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، تینوں واقعات کے ملزمان گرفتار یا ہلاک ہوچکے ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے اردن، مصر اور متحدہ عرب امارات میں ہونے والے اندوہناک واقعات میں خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔

    اقوام متحدہ میں صنفی مساوات کا شعبہ جو خواتین کو بااختیار بناتا ہے، اس طرح کے قتل کو فیمیسائڈ کہتا ہے۔ گزشتہ دنوں مصر کی منصورہ یونیورسٹی کی طالبہ نائرہ اشرف کو دن دہاڑے سر عام چھرا گھونپ کر ماردیا گیا۔

    قتل کی وجہ شادی کی تجویز سے انکار تھا، راہ گیروں نے حملہ آور کو گرفتار کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔

    ایک اور واقعے میں اردن کے شہر عمان کی یونیورسٹی کے کیمپس میں گزشتہ دنوں 18 سالہ طالبہ ایمان الرشید کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

    اسی طرح شارجہ میں ہونے والے ایسے ہی اندوہناک واقعے میں ایک شوہر ملوث نکلا جس نے بیوی سے جھگڑنے کے بعد اس پر 16 وار کیے تھے۔

    خاتون کی رہائش گاہ کی پارکنگ سے سی سی ٹی وی فوٹیج میں قاتل کو اپنی کار میں خاتون پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ بعد میں قاتل شوہر کو سمندر کے کنارے سے گرفتار کر لیا گیا۔

    عرب دنیا صرف ایک ہفتے کے دوران 3 خواتین کے بہیمانہ قتل کی خبروں سے ہل گئی تھی، مصر کی طالبہ نائرہ اشرف کے قاتل نے دعویٰ کیا کہ اس کی دوست مختلف چیزیں حاصل کرنے کے لیے مجھے استعمال کرتی تھی، جب میں نے شادی کی تجویز دی تو اس نے مسترد کر دی۔

    اردن میں بھی حکام نے زرقا کے شمال میں واقع قصبے میں قاتل کا سراغ لگا لیا اور اسے گرفتار کرنے کی کوشش میں پولیس نے اسے ہتھیار ڈالنے کا کہا تو قاتل نے خود کو گولی مار لی۔

    سعودی دارالحکومت ریاض کی امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی میں سماجیات کے پروفیسر ابراہیم الزبین نے ایسے افسوسناک واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جو کسی ایک خطے یا معاشرے سے مخصوص نہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ایسے جرائم کی تہہ تک پہنچنے سے پتہ چلتا ہے کہ خاص طور پر خواتین کے خلاف فقط صنفی بنیاد پر ہونے والے جرائم قدامت پسند اور کم آمدنی والے طبقوں میں زیادہ عام ہیں۔

  • سعودی عرب کے صحرا میں رہنے والی یہ خاتون کون ہیں؟

    سعودی عرب کے صحرا میں رہنے والی یہ خاتون کون ہیں؟

    تبوک: سعودی عرب میں ایک خاتون 35 برس سے صحرا میں رہائش پذیر ہیں، ان کے طرز زندگی نے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔

    ایک خلیجی چینل کے پروگرام ’سیدتی‘ میں ایک سعودی خاتون قسمہ العطوی کی صحرائی زندگی کے بارے میں رپورٹ پیش کی گئی ہے، جس میں بتایا گیا کہ خاتون 35 برس قبل شہر سے تبوک کے صحرا میں منتقل ہو گئی تھیں، کیوں کہ شہر کی مصنوعی زندگی سے دور ایک حقیقی زندگی جینا چاہتی تھیں۔

    قسمہ العطوی نے بتایا کہ حقیقی زندگی تو صحرا کی ہے، نئی نسل اس کا لطف اٹھائے، کھانے پینے، رہنے سہنے اور گزر بسر کے تمام انتظامات خود کر کے زندگی گزارنے کا جو مزہ ہے وہ شہری زندگی میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

    سعودی خاتون کا کہنا ہے کہ صحرا میں رہ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حقیقی آزادی والی زندگی یہی ہے، ذہنی سکون بھی ملتا ہے، صحرا میں کھانے پینے کا لطف شہروں کے کھانے پینے سے بے حد مختلف ہے۔

    قسمہ العطوی نے کہا کہ یہاں زیر استعمال تمام اشیا ان کی اپنی تیار کی ہوئی ہیں، اون وہ خود تیار کرتی ہیں، العطوی نے کہا ‘یہ ہنر میں نے اپنی ماں، دادی اور نانی سے سیکھا ہے۔’

    سعودی خاتون کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے، جس میں صحرا کی زندگی میں استعمال ہونے والی اشیا بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

    العطوی نے بتایا کہ وہ تمام کام اپنی مرضی سے کرتی ہیں، بکریوں کو چرانا، خیمہ تیار کرنا، نصب کرنا یہ سب کچھ وہ خود اور شوقیہ کرتی ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ صحرا کی اس زندگی میں اپنا سارا کام خود کر کے انھیں بہت اچھا لگتا ہے۔

  • افغانستان: عورتیں‌ کتنے دن تفریحی پارک جا سکیں گی؟

    افغانستان: عورتیں‌ کتنے دن تفریحی پارک جا سکیں گی؟

    کابل: افغان طالبان نے خواتین کے لیے تفریحی پارکوں میں جانے کے الگ دن مقرر کر دیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق طالبان نے افغانستان کی حکومت سنبھالنے کے بعد سے صنفی علیحدگی اور خواتین سے متعلق کئی سخت قوانین نافذ کیے ہیں۔

    چند دن قبل طالبان انتظامیہ نے تفریحی پارکوں سے متعلق بھی ہدایات جاری کر دی ہیں، جس کے مطابق مردوں اور خواتین کے ایک ہی دن تفریحی پارکوں میں جانے پر پابندی ہوگی۔

    افغان میڈیا کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مرد اور عورتیں ایک ہی دن پارکوں میں نہیں جا سکیں گے، مردوں کو بدھ سے ہفتے تک تفریحی پارکوں میں جانے کی اجازت ہوگی، جب کہ خواتین ہفتے کے باقی دنوں میں یعنی اتوار، پیر اور منگل کو پارکس جا سکیں گی۔

    واضح رہے کہ حال ہی میں کابل ایئر پورٹ پر بغیر محرم کے سفر کرنے والی درجنوں خواتین کو فلائٹ میں سوار ہونے سے روک دیا گیا تھا، طالبان نے بغیر محرم سفر کرنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔

    یاد رہے کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ امارت اسلامیہ کے مجاہدین کو تفریحی پارکوں میں ہتھیاروں، فوجی وردیوں اور گاڑیوں کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، نیز وہ تفریحی پارکوں کے تمام قواعد و ضوابط پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔

  • تیز قدموں سے چہل قدمی خواتین کے لیے حیرت انگیز فائدے کا سبب

    تیز قدموں سے چہل قدمی خواتین کے لیے حیرت انگیز فائدے کا سبب

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ تیز قدموں سے چہل قدمی کرنا خواتین میں ہارٹ فیلیئر کے خطرات کو ایک تہائی حصے تک کم کر دیتا ہے۔

    برطانیہ میں ہر سال 60 ہزار ہارٹ فیلیئر کے کیسز ہوتے ہیں اور طویل المدت صورتحال روزمرہ کی سرگرمیاں شدید متاثر کر دیتی ہے کیوں کہ یہ تھکان اور سانس میں کمی کا سبب بنتی ہے۔

    اب ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ مخصوص ایام کے بعد وہ خواتین جو زیادہ تیز چلتی ہیں ان میں ایسی صورتحال سے دوچار ہونے کے امکانات اتنے ہی کم ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے 50 سے 79 برس کی عمر کے درمیان 25 ہزار سے زائد ان خواتین کا جائزہ لیا، جن کے متعلق تقریباً 17 برس تک تحقیق کی گئی تھی۔

    اس دورانیے میں 14 سو 55 خواتین کو ہارٹ فیلیئر کا سامنا ہوا جس کا مطلب ہے کہ دل جسم میں باقاعدگی سے خون نہیں پھینک سکتا تھا۔

    ان خواتین نے ایک سوالنامہ پر کیا جس میں ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ عمومی طور پر اوسطاً 2 میل فی گھنٹہ سے کم کی رفتار سے چلتی ہیں، یا دو سے تین میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں یا اس سے تیز 3 سے زیادہ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں۔

    وہ خواتین جو عمومی رفتار سے زیادہ تیز چلتی تھیں ان میں ہارٹ فیلیئر کے امکانات 34 فیصد کم تھے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ وہ خواتین جو مخصوص ایام کے بعد سست رفتار کے بجائے متوسط رفتار سے چلتی تھیں ان میں ہارٹ فیلیئر ہونے کے امکانات 27 فیصد کم تھے۔

  • خواتین کا ایک روزہ کاروباری میلہ

    خواتین کا ایک روزہ کاروباری میلہ

    لاہور کے الحمرا آرٹس کونسل میں ایک روزہ خواتین کاروباری میلے کا انعقاد کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں خواتین کا ایک روزہ کاروباری میلہ منعقد کیا گیا، جس میں لاہور کالج کی طالبات، کنیئرڈ کالج اور جی سی یو کے زیر اہتمام مباحثے کا مقابلہ کیا گیا۔

    تقریب میں نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار، سیکریٹری این سی ایس ڈبلیو عارف انور بلوچ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ نے شرکت کی۔

    نیلوفر بختیار کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خلاف 16 دن کی مہم چلائی جا رہی ہے، اس سلسلے میں مقامی سماجی اداراہ بھی سلسلہ وار تقریبات کا انعقاد کر رہا ہے۔

    انھوں نے کہا نیشنل کمیشن کا مقصد خواتین کے خلاف تشدد اور گھریلو تشدد کی روک تھام اور مقابلہ کرنے کے قانون کی تعمیل میں تشدد کے مقدمات کا جواب دینے کے لیے مقامی حکام کی صلاحیت کو مضبوط کرنا ہے۔

    چیئرپرسن اے پی ڈبلیو اے اور ممبر این سی ایس ڈبلیو روحی سید نے اپنے خیر مقدمی نوٹ میں ایک مطالعاتی دورے اور ایک بین الاقوامی سیمینار کے ذریعے سرکاری عہدے داروں کے درمیان خواتین کے خلاف تشدد بشمول جنسی تشدد کے کیسز کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کی ضرورت کے بارے میں بیداری بڑھانے پر زور دیا۔

    تقریب کے آخر میں طالبات کو نقدی انعامات اور سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا۔

  • خواتین میں لانگ کووڈ زیادہ نقصان دہ ہوسکتا ہے

    خواتین میں لانگ کووڈ زیادہ نقصان دہ ہوسکتا ہے

    ایک نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والی خواتین کی جسمانی کارکردگی بیماری سے پہلے کی طرح بحال نہ ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    امریکا کی انڈیانا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کرونا وائرس کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد بنیادوں پر علامات کا سامنا کرنے والی خواتین ممکنہ طور پر ماضی کی طرح ورزش نہیں کرسکیں گی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کچھ خواتین نے کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی کو رپورٹ کیا، جس سے جسمانی سرگرمیوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والی خواتین میں دل اور پھیپھڑوں کے مسائل کی علامات کا تسلسل سانس لینے میں دشواری یا جوڑوں اور مسلز میں تکلیف کا باعث بنتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق مردوں میں کووڈ 19 کی سنگین پیچیدگیوں اور موت کی شرح زیادہ ہے مگر یہ پہلی بار ہے جب ایسے شواہد دریافت ہوئے جن کے مطابق بیماری کے بعد خواتین کو زیادہ جدوجہد کا سامنا ہوتا ہے۔

    سابقہ تحقیقی رپورٹس میں بھی بتایا گیا تھا کہ کووڈ کو شکست دینے کے بعد ہر 3 میں سے ایک خاتون کو طویل المعیاد علامات کے علاج کے لیے ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑا۔

    اس نئی تحقیق میں لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والی خواتین کو 6 منٹ تک چہل قدمی کرنے کا کہا گیا اور پھر دیکھا گیا کہ ایسا کرنے کے بعد ان کی دل کی دھڑکن کب تک معمول پر آتی ہے۔

    اس ٹیسٹ سے قبل ماہرین نے تمام رضا کاروں کی آرام کے وقت دھڑکن کی رفتار، بلڈ پریشر، خون میں آکسیجن کی مقدار اور سانس لینے میں دشواری کی جانچ پڑتال کم از کم 10 منٹ تک بیٹھے رہنے کے بعد کی تھی۔

    ٹیسٹ کے دوران خواتین کو ہر ممکن تیزرفتاری سے چہل قدمی کی ہدایت کی گئی تھی اور ٹیسٹ کے فوری بعد دھڑکن کی رفتار، خون میں آکسیجن کی مقدار، سانس لینے میں دشواری اور دیگر عناصر کا ایک بار پھر جائزہ لیا گیا۔

    پھیپھڑوں کی کسی بڑی بیماری، امراض قلب کی تاریخ یا تمباکو نوشی کرنے والی خواتین کو اس تجربے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

    نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین کا ماننا ہے کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والی خواتین کے لیے بحالی نو پروگرام کی ضرورت ہے، جس میں ان کے پھیپھڑوں کی کارکردگی کو دوبارہ بحال کرنے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔

    ان کا کہنا تھا کہ بالخصوص درمیانی عمر کی مریض خواتین کے لیے یہ بہت ضروری ہے کیونکہ عمر بڑھنے سے خواتین میں پھیپھڑوں کی بے قاعدگیوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ عمر بڑھنے سے خواتین میں جسمانی معذوری کا خطرہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔