Tag: خواجہ احمد عباس

  • خواجہ احمد عباس:‌ لائبریری ایڈیشن کا پیپر بیک!

    خواجہ احمد عباس:‌ لائبریری ایڈیشن کا پیپر بیک!

    ہندوستانی افسانہ نگار، ادیب، فلمی ہدایت کار اور صحافی خواجہ احمد عباس کو اردو ادب اور فلم کی دنیا میں‌ بے مثال شہرت اور نام و کام یابی ملی جن کی شخصیت، فن و کمال کا تذکرہ اپنے وقت کے بڑے بڑے اہلِ‌ قلم نے کیا ہے۔

    یہ خواجہ احمد عباس کے شخصی خاکے سے چند پارے ہیں جس کے مصنّف خود ہندوستان میں‌ ادبی اور فلمی دنیا کی معروف شخصیت رہے ہیں۔ یہ راجندر سنگھ بیدی ہیں جنھوں نے اپنے ممدوح کو ان الفاظ میں یاد کیا ہے:

    زندگی میں کم ہی آدمی آپ نے ایسے دیکھے ہوں گے جن کی شکل پیدایش سے لے کر آخر دم تک ایک ہی سی رہی ہو جس کی وجہ سے وہ بہت سے جرائم نہیں کر سکتے۔

    میں نے عباس صاحب کو ان کے بچپن میں تو نہیں دیکھا لیکن اپنے فزیالوجی کے محدود علم کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت بھی عباس صاحب اپنے اس لائبریری ایڈیشن کا پیپر بیک ہوں گے۔ اور کچھ نہیں تو پچھلے پچیس برس سے تو میں ان کا منہ دیکھ رہا ہوں۔ جہاں ذہنی طور پر ان کا قد بڑھا ہے، جسمانی طور پر آپ وہی کے وہی ہیں۔ چہرے پر جس فہم و فراست کے نشان پہلے تھے، وہی اب بھی ہیں۔ ویسے ہی نگاہ اچٹ کر سامنے والے پہ پڑتی ہے۔ وہی مونچھوں کی ہلکی سی تحریر جس کے نیچے پتلے سے ہونٹ جو خفگی یا کھسیانے لمحوں میں کچھ اس طرح سے ہلتے ہیں کہ انہیں پھڑپھڑانا کہا جا سکتا ہے اور نہ بھینچنا۔ ان کی ہنسی بے ساختہ ہے مگر ریشمی، جسے استعمال کرتے ہوئے وہ ایکا ایکی رک جاتے ہیں۔ معتبر آدمی کو زیادہ ہنسنا نہیں چاہیے! سَر پر کے بال پہلے ڈھائی تھے، اب دو رہ گئے ہیں۔ اس کے باوجود سکھوں کے خلاف نہیں۔ بلکہ کئی دفعہ میں نے انہیں کسی سکھ کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے پایا ہے۔

    لباس میں سادگی ہے اور استغنا کا فن بھی۔ ان کی عام نشست و برخاست کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ زندگی میں تاکید تکلفات پر نہیں، کچھ اور ضروری باتوں پر ہے، جس میں ادب، صحافت، فلم، سیاست اور دوسری بیسیوں قسم کی سماجی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ دنیا کے موجودہ سیاسی نظام میں اگر انہیں اسرائیل اور متحدہ عرب جمہوریہ کے درمیان چننے کا حق دیا جائے تو وہ یقیناً عرب جمہوریہ کو چنیں گے۔ صدر جمال عبدالناصر کی پیروی کریں گے لیکن شکل ہمیشہ اسرائیل کے بین گورین سے ملے گی۔

    میں نے عباس صاحب کو پہلی بار لاہور میں دیکھا جہاں وہ اپنے صحافی دوست ساٹھے کے ساتھ کوئی فلم بنانے کے سلسلے میں آئے تھے۔ یہ دونوں دوست انڈین پیپلز تھیٹر کی تحریک کا حصہ تھے، جس کے ایک جلسے میں، میں عباس صاحب کو دیکھنے چلا گیا۔ ان دنوں لاہور کے لارنس باغ میں ایک نیا اوپن ایئر تھیٹر قائم ہوا تھا جہاں خوب ہی ہنگامہ تھا۔ معلوم ہوتا تھا کمبھ نہیں تو اردھ کمبھی ضرور ہے۔ چنانچہ عباس صاحب کو دیکھنے کے سلسلے میں مجھے خوب دھکے پڑے۔ خیر، دھکوں کی بات چھوڑیے، وہ تو زندگی کا حصہ ہیں۔ ہم سب دھکے کھاتے ہیں۔ کبھی مل کر اور کبھی الگ الگ۔ ایک بار پہلے بھی جب لاہور کے بریڈ لا ہال میں مہا کوی ٹیگور کو دیکھنے گیا تھا تو اس سے بھی برا سلوک ہوا۔ بھگدڑ میں سیکڑوں پیروں کے نیچے دَلا گیا۔ جب بھی میں نے یہی سوچا تھا کہ کیا بڑے آدمی کو دیکھنے کے لیے خود چھوٹا ہونا ضروری ہے؟

    اس جلسے میں عباس صاحب ایک ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ اس لیے نہیں کہ باقی کے فضول اور بے کار قسم کے مرد تھے۔ ان میں عورتیں بھی تھیں اور عباس صاحب سب سے ملتے اور سب سے باتیں کرتے پھر رہے تھے، جسے صحافت کی زبان میں کہا جاتا ہے، ’’اور وہ آزادانہ مہمانوں میں گھومتے اور ان سے ملتے جلتے رہے۔‘‘

    ایسا معلوم ہوتا تھا عباس صاحب کسی کا دل توڑنا نہیں چاہتے۔ ایسا کریں گے تو ان کا اپنا دل ٹوٹ جائے گا۔ اس عمل میں انہیں کتنا ہی بولنا، کتنا ہی وقت ضائع کرنا پڑا۔ وہ اس بات کو بھول ہی گئے اور آج تک بالعموم بھولے ہوئے ہیں کہ جب تک وہ کسی کا دل نہیں توڑیں گے، بات کیسے بنے گی؟ (دل ’’بدست آور‘‘ کہ حج اکبر است!)

  • ”آوارہ“ جس نے رومانیہ کی گلوکارہ کو نرگیتا بنا دیا

    ”آوارہ“ جس نے رومانیہ کی گلوکارہ کو نرگیتا بنا دیا

    ”آوارہ“ راج کپور اور نرگس دت کی وہ فلم ہے جس نے بالی وڈ کی تاریخ میں مقبولیت کا ریکارڈ بنایا۔ صرف 1954ء میں‌ اس فلم کے 6 کروڑ سے زائد ٹکٹ خریدے گئے تھے۔ آوارہ کا اسکرپٹ خواجہ احمد عباس نے لکھا تھا جو اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار، فلمی ہدایت کار اور نام ور صحافی تھے۔

    اس فلم کا اپنی اوّلین نمائش کے بعد اس قدر شہرہ ہوا کہ دوسرے ممالک میں بھی پردے پر سجائی گئی۔ اس کے گانے ہندوستان میں تو مقبول ہوئے ہی جب یہ فلم رومانیہ پہنچی تو وہاں بھی فلم بہت پسند کی گئی اور اس کے گانوں کی دھوم مچ گئی۔ اگرچہ فلم راج کپور کے گرد گھومتی ہے لیکن فلم کا ستون نرگس کی اداکاری ہے۔

    1951ء اور دہائیوں تک اس فلم کے گانے نوجوانوں کی زبان پر تھے جب کہ رومانیہ میں اس فلم کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ تیس برس بعد بھی اس کا ایک گیت وہاں کی پاپ سِنگر نے نئے انداز سے گایا۔ اس نے اپنا نام بھی فلم کی اداکارہ نرگس دت سے متاثر ہوکر نرگیتا رکھا تھا۔ اس مغنیہ کو بھارتی وزیرِاعظم اندرا گاندھی نے مدعو کیا اور اس سے یہ گیت سنا۔ انھوں نے نرگیتا کو ایک ساڑھی بھی تحفے میں دی تھی۔ بعد میں 1981 میں اندرا گاندھی نے رومانیہ کا دورہ کیا تو وہاں نرگیتا نے وہی ساڑھی پہن کر حاضرین کے سامنے آوارہ کے گیت پیش کیے تھے۔

    فلم آوارہ کی کہانی میں ایک جج کا بیٹا دکھایا گیا ہے جو اپنی بیوی کو ایک بات پر گھر سے نکال دیتا ہے۔ وہ اس جج کے بیٹے کو لے کر کسی غریب لوگوں کی بستی میں قیام کرتی ہے، بچّہ وہاں بدمعاش قسم لوگوں اور غنڈوں کے درمیان بڑا ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ رہتے ہوئے جج کا بیٹا بھی آوارہ بن جاتا ہے اور ایک روز اپنے باپ کے سامنے آجاتا ہے۔

    یہ فلم پاکستان ہی نہیں ایشیا اور افریقی ممالک میں بھی دیکھی گئی۔ آوارہ کی کہانی نے سوویت یونین کے علاوہ عرب ممالک میں بھی ناظرین کو متاثر کیا۔

    اس فلم کے مقبول ترین گیت کے بول تھے؛

    آوارہ ہوں…..آوارہ ہوں

    یا گردش میں ہوں
    آسمان کا تارہ ہوں

    آوارہ ہوں…..آوارہ ہوں

    گھر بار نہیں سنسار نہیں

    مجھ سے کسی کو پیار نہیں…

  • "خواجہ صاحب کیا نہیں تھے؟”

    "خواجہ صاحب کیا نہیں تھے؟”

    خواجہ صاحب کیا نہیں تھے؟ ادیب، صحافی، مقرر، فلم ساز، سوشل ورکر اور نہ جانے کیا کیا۔ بس شاعر نہیں تھے۔ قانون کی ڈگری بھی ان کی جیب میں پڑی تھی۔ لیکن وہ وکیل بھی نہیں تھے۔

    شاعری کی ہوتی تو زندگی کی آدھی سے زیادہ راتیں مشاعروں کی نذر ہو جاتیں۔ اور وکالت کی ہوتی تو دن کے سولہ اٹھارہ گھنٹے موکلوں کی صحبتِ ناجنس میں گزر جاتے۔ (محنتانہ بھی وہ وصول کر پاتے یا نہیں ٹھیک سے نہیں کہا جا سکتا)۔ اپنے خلاف فیصلے الگ سننے پڑتے۔ نجی زندگی میں ممکن ہے خواجہ صاحب کے کوئی اصول نہ ہوں اور اگر ہوں گے تو بھی ان میں لچک (شاخِ گُل والی لچک نہیں) کی گنجائش ہو گی۔

    لیکن جہاں تک ان کے بیرونِ خانہ زندگی کا تعلق ہے انہوں نے اپنی ایک ڈگر بنا لی تھی، وہ اسی راستے پر چلتے رہے۔ کبھی مڑ کر نہیں دیکھا کہ کوئی ساتھ چل رہا ہے یا نہیں۔ شاید انہوں نے سوچا ہی نہیں کہ زندگی اور سفر میں "ساتھ” بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اتنا سخت تجرد شاید ہی کسی نے برتا ہوگا۔ قولاً بھی اور فعلاً بھی۔

    اپنے اصول کے پکے تھے۔ فلمیں بھی بنائیں۔ تو اس بات کا خیال رکھا کہ کوئی فلم باکس آفس پر ہٹ نہ ہو جائے۔

    عوام کے آدمی تھے، لیکن اپنی فلموں میں کبھی عوام کے "بلند ذوق” کو پیشِ نظر نہیں رکھا۔ میرا ان سے پہلا رابطہ فلم ہی کی بدولت ہوا۔ وہ اس طرح کہ خواجہ صاحب 1963ء کے ارد گرد اپنی فلم۔ غالباً "شہر اور سپنا” بنا رہے تھے۔ اور اس میں ایک شاٹ ایمپلائمنٹ ایکسچینج کا بھی تھا۔ میں محکمۂ لیبر میں معمور تھا (یوں سمجھیے کہ محکمۂ لیبر مجھ سے معمور تھا) اور اس زمانے میں یہ ایمپلائمنٹ ایکسچینج اسی محکمے کے تحت (انتظامی طور پر) تھا۔ خواجہ صاحب نے کرشن جی کی زبانی مجھ سے کہلوایا کہ میں اس شاٹ کے لیے سرکاری اجازت حاصل کروں۔ شاید خود بھی آفس آگئے تھے۔ بعد میں اپنے اسسٹنٹ (اطہر فاروقی) کے ذریعے کاغذات بھی بھجوائے۔ یہ اجازت انہیں مل گئی اور جہاں تک مجھے یاد ہے ان سے کوئی رقم وصول نہیں کی گئی۔ ( یہ شاٹ تو ایمپلائمنٹ ایکسچینج کا ایک اشتہار ہو گیا۔)

    مصروف تو سبھی ہوتے ہیں کیوں کہ بمبئی شہر ہے ہی مصروف لوگوں کا شہر، لیکن خواجہ صاحب بے حد مصروف آدمی تھے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے لیے مصروفیتیں پیدا کرتے تھے۔ بامبے کرانیکل سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ اور آخر دم تک اس کمبل سے اپنا رشتہ نباہا۔ لکھتے بھی تو "آخری صفحہ” تھے انگریزی میں الگ اردو میں الگ۔

    خواجہ صاحب کا ذہن اتنا زرخیز تھا کہ انہیں لکھنے کے لیے کسی موضوع کی تلاش نہیں کرنی پڑتی تھی۔ صرف قلم اٹھانا پڑتا تھا۔ وہ شاید ہی تقریبوں اور دعوتوں میں جاتے ہوں گے، ٹھیک ہی کرتے تھے ورنہ وہاں جاکر بھی وہ کاغذ قلم لے کر لکھنے بیٹھ جاتے۔ یوں تو سارا ملک ان کا دوست ہوگا، لیکن بمبئی میں بھی انہوں نے اپنے آپ کو دو چار گھروں تک محدود رکھا۔ یہ بات مجھے اس لیے یاد رہی کہ بیدی صاحب کی تو شکایت ہی رہی کہ وہ کبھی ان کے گھر جاتے۔

    لیکن ایسا نہیں ہے کہ خواجہ صاحب کسی تقریب میں جاتے ہی نہیں تھے۔ جاتے ضرور تھے، لیکن انتظارِ ساغر کھینچنے کا کام وہ نہیں کر سکتے تھے۔ (یوں بھی ساغر سے ان کا تعلق تھا بھی کہاں) اور شادی بیاہ کی تقاریب میں تقریب تو کم ہوتی ہے انتظار ہی زیادہ ہوتا ہے۔

    کئی سال پہلے (20 سال تو ہو ہی گئے ہوں گے) وہ گورنمنٹ کالونی باندرہ میں اپنے کسی اسسٹنٹ کے یہاں ایک تقریب میں شریک ہوئے۔ جو وقت بتایا گیا تھا اس سے بھی کوئی پندرہ منٹ پہلے پہنچے (اس کی کیا ضرورت تھی؟) وہاں ان کی حیرانی، پریشانی، اضطراب، بے چینی قابلِ دید تھی۔ اس محفل میں ان کا شناسا صرف میں تھا۔ اور تو اور جنہوں نے انہیں بلایا تھا وہ خود عدم موجود تھے۔ خواجہ صاحب نے بڑی رحم طلب نظروں سے مجھے دیکھا اور ایک لفافہ میرے حوالے کرتے ہوئے تاکید کی کہ یہ میں ان کے میزبان کے حوالے کر دوں، عجلت میں تھے، لیکن اس کے باوجود دو تین مرتبہ پوچھا کہ آپ دے دیں گے نا۔

    حالانکہ وہ لفافہ میں نے ملفوف الیہ کو پہنچا دیا تھا۔ لیکن شاید خواجہ صاحب تک رسید نہیں پہنچی۔ اس کا انہیں اتنا صدمہ ہوا کہ وہ پھر کسی ایسی تقریب میں شریک ہی نہیں ہوئے۔

    خواجہ صاحب کے متعلق بمبئی میں یہ بھی مشہور تھا کہ روس میں ان کی اتنی کتابیں چھپی اور فروخت ہوئی ہیں کہ وہ ہندوستان میں تو نہیں لیکن روس میں بے حد متمول آدمی ہیں۔ (روس سے یہاں سب کچھ آ سکتا ہے لیکن کتابوں کی رائلٹی کی رقم نہیں آسکتی) یہ بھی کہا جاتا تھا کہ روس میں اگر عزّت و آبرو کے ساتھ گھومنا پھرنا ہے تو خواجہ صاحب کی چِھٹی لے کر جاؤ۔ اور دیکھو کہ تمہاری کتنی قدر و منزلت ہوتی ہے۔ یہ خبریں یقیناً خواجہ صاحب تک بھی پہنچتی ہی ہوں گی۔ اس بارے میں ان کا کیا رد عمل تھا کسی کو پتہ نہیں چلا کیوں کہ خواجہ صاحب ردِعمل کے نہیں عمل کے آدمی تھے۔

    خواجہ صاحب کو اس بات کا احساس تھا کہ ان کی ‘ہمہ جہتی’ نے ان کا کوئی مخصوص امیج نہیں بننے دیا۔ فلم سازوں کی محفل میں انہیں ادیب کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ صحافیوں کے یہاں وہ ایک اچھے ہدایت کار مشہور تھے اور ادیبوں نے انہیں ایک اعلٰی درجے کا جرنلسٹ مانا۔ اس کا وہ لطف بھی اٹھاتے تھے۔ لطف تو انہوں نے کھانے میں بھی بہت اٹھایا۔ دور دور سے آنے والے لوگ انہیں بہت دولت مند سمجھتے تھے، ان کے گھر پر جاتے، اپنی جیب کے کٹ جانے کی داستان نہایت درد انگیز انداز میں سناتے اور بمبئی سے کلکتہ جانے کا کرایہ طلب کرتے اور خواجہ صاحب خود کہیں سے قرض حاصل کر کے اس شخص کو کلکتہ بھیجتے۔

    (یہ پارے "آئی جو ان کی یاد” کے عنوان سے یوسف ناظم کے تحریر کردہ خاکے سے لیے گئے ہیں جو انھوں نے اردو کے معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نویس، فلمی ہدایت کار اور صحافی خواجہ احمد عباس پر لکھا تھا)

  • علم و ادب میں‌ ممتاز خواجہ احمد عبّاس کا یومِ‌ وفات

    علم و ادب میں‌ ممتاز خواجہ احمد عبّاس کا یومِ‌ وفات

    یکم جون 1987ء کو ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار، ناول اور ڈراما نویس، صحافی اور فلم ساز خواجہ احمد عبّاس وفات پاگئے تھے۔ ان کی عمر 72 برس تھی۔

    خواجہ احمد عباس 7 جون 1914ء میں پانی پت ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی۔ علم و ادب سے لگاؤ اور لکھنے پڑھنے کا شوق میدانِ صحافت میں لے آیا۔ اپنی کہانیوں اور افسانوں‌ کی بدولت ہم عصروں‌ میں پہچان بناتے چلے گئے اور پھر ناول نگاری، ڈراما نویسی، سفرناموں، خاکہ نگاری اور آپ بیتی تک نہایت کام یابی سے علمی و ادبی سفر جاری رہا۔ اسی عرصے میں فلم سازی کی طرف مائل ہوئے۔ متعدد فلموں‌ کی کہانیاں‌ لکھیں‌ اور ان کے ہدایت کار بھی رہے۔

    خواجہ احمد عباس نے اردو، ہندی اور انگریزی زبانوں‌ میں کئی مضامین بھی تحریر کیے۔ انھوں نے اپنے بارے میں‌ ایک جگہ لکھا:

    ادیب اور تنقید نگار کہتے ہیں میں ایک اخبارچی ہوں، جرنلسٹ کہتے ہیں کہ میں ایک فلم والا ہوں، فلم والے کہتے ہیں کہ میں ایک سیاسی پروپیگنڈٹسٹ ہوں، سیاست داں کہتے ہیں کہ میں کمیونسٹ ہوں، کمیونسٹ کہتے ہیں کہ میں بورژوا ہوں۔ سچ یہ ہے کہ مجھے خود نہیں معلوم کہ میں کیا ہوں۔

    ان کی چند کتابوں میں سرفہرست میں کون ہوں؟، دیا جلے ساری رات، ایک لڑکی، اگر مجھ سے ملنا ہے، انقلاب کے نام شامل ہیں۔ خواجہ احمد عبّاس کے افسانوی مجموعے زعفران کے پھول، پاؤں میں پھول، اندھیرا اجالا، کہتے ہیں جس کو عشق اور ڈرامے زبیدہ، یہ امرت ہے، چودہ گولیاں، انقلاب کے نام سے شایع ہوئے۔

    وہ ایک نہایت باصلاحیت، قابل اور غیر معمولی تعلیم یافتہ شخص تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں ادب سے لے کر فلم سازی تک جہاں‌ اپنے تخلیقی وفور کو ثابت کیا، وہیں سماج کے مختلف پہلوؤں اور کم زوریوں پر بھی ان کی نظر رہی اور وہ اس پر لکھتے رہے۔ انھیں سماجی دانش ور بھی کہا جاسکتا ہے۔

    فلمی دنیا میں‌ وہ بڑے اداروں سے وابستہ رہے اور بڑے پردے کی متعدد تنظیموں کے عہدے دار اور رکن بھی رہے۔ خواجہ احمد عباس کی فلمیں عوام میں مقبول تو نہیں ہوئیں، لیکن انھیں‌ ناقدین نے اعلٰی درجے کی کاوش قرار دیا اور انھوں‌ نے اپنی فلموں کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح کے اعزازات اپنے نام کیے۔

  • برطانوی حکومت کے حق میں ہندوستانی طلبہ کی ذہن سازی کیسے کی جاتی تھی؟

    برطانوی حکومت کے حق میں ہندوستانی طلبہ کی ذہن سازی کیسے کی جاتی تھی؟

    انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا راج برقرار رکھنے کے لیے جہاں من مانے اصولوں اور قوانین کا سہارا لیا، وہیں ہندوستانیوں کی حمایت اور وفاداریاں سمیٹنے کی کوشش بھی کی اور لوگوں کو یہ باور کرایا کہ برطانیہ اس خطّے اور مقامی لوگوں کی ترقی و خوش حالی چاہتا ہے جس کا ثبوت مختلف سرکاری اسکیمیں اور ترقیاتی کام ہیں۔

    کہتے ہیں اس زمانے میں عام لوگوں اور اسکولوں کے طلبہ کی "برکاتِ حکومتِ انگلشیہ” کے تحت لٹریچر سے ذہن سازی کی جاتی تھی۔ اس ضمن میں برطانوی راج کے فوائد و ثمرات سے متعلق سوالات ہوتے اور درست جواب دینے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ اس حوالے سے اردو کے مشہور و معروف افسانہ اور ناول نگار، فلمی ہدایت کار اور صحافی خواجہ احمد عباس کی آپ بیتی ‘‘جزیرہ نہیں ہوں میں‘‘ سے یہ اقتباس لائقِ مطالعہ ہے۔

    خواجہ احمد عباس نے ایسے ہی ایک واقعے کو یوں رقم کیا ہے:

    ”مجھ سے آگے والے لڑکے سے انسپکٹر صاحب نے کہا، ”تم بتاؤ برطانوی راج کی رحمتیں کون کون سی ہیں؟“

    جواب پہلے سے ہمیں زبانی یاد کرایا جاچکا تھا اور ہم کو وہی دہرانا تھا۔ ”برطانوی حکومت نے ہندوستان کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ سڑکیں بنوائی ہیں، ریلوے، ڈاک خانے، اسکول، اسپتال….“

    لڑکا کچھ ایسا ذہین نہیں تھا۔ اردو بولتے بولتے بھی اکھڑ گیا۔ انگریزی تو ہمارے اساتذہ تک کو نہیں آتی تھی۔

    ”جناب انسپکٹر صاحب، برطانوی حکومت نے ہمارے لیے بنائیں سڑکیں، ریلیں، ڈاک خانے….“ اس سے آگے کی فہرست وہ بھول گیا اور خاموش ہوگیا۔

    ”اور… اور؟“ انسپکٹر نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پوچھا۔ اس کو امید تھی کہ لڑکا کہے گا شفا خانے، کتب خانے وغیرہ وغیرہ۔

    ”اور کون بتا سکتا ہے؟“ انسپکٹر نے پوچھا۔ میں نے فوراً اپنا ہاتھ اٹھا دیا۔

    یہ واقعہ ہمارے شہر میں مہاتما گاندھی کی آمد کے فوراً بعد کا ہے اور مجھ کو معلوم تھا کہ ان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ مجھ کو صرف ایک ہی اور ”خانہ“ معلوم تھا، جو لڑکا بتانا بھول گیا تھا۔

    ”ہاں؟“ انسپکٹر صاحب نے میری طرف رُخ کیا۔ میں جماعت میں سب سے چھوٹا تھا۔ انھوں نے مسکرا کر میرا حوصلہ بڑھاتے ہوئے پہلے والے لڑکے کے الفاظ دہرائے۔ ”ریلیں، سڑکیں، ڈاک خانے….؟“

    میں نے بہ آوازِ بلند فاتحانہ انداز سے کہا۔ ”قید خانے۔“

    میرا اشارہ ان قید خانوں کی طرف تھا جن میں مہاتما گاندھی، علی برادران اور ان کے بہت سے پیرو کاروں کو بند کر کے رکھا گیا تھا۔

    میرے جواب پر انسپکٹر صاحب خوش نہیں ہوئے۔ حالاں کہ میں مطمئن تھا کہ قید خانے اور ڈاک خانے ہم صوت تھے۔