Tag: خواجہ حارث

  • فلیگ شپ ریفرنس: خواجہ حارث کی تفتیشی افسر پرجرح

    فلیگ شپ ریفرنس: خواجہ حارث کی تفتیشی افسر پرجرح

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف احتساب عدالت میں پیشی کے بعد روانہ ہوگئے، جبکہ ان کے وکیل خواجہ حارث نے تفتیشی افسر محمد کامران پر جرح کی۔

    تفتیشی افسر محمد کامران نے عدالت کو بتایا کہ ایم ایل اے کے جواب میں لینڈ رجسٹری کی کاپی ظاہر شاہ سے لی تھی، لینڈ رجسٹری میں ظاہر نمبر دو الگ الگ پراپرٹیزکی تھیں۔

    وکیل صفائی خواجہ حارث نے گزشتہ سماعت کے دوران تفتیشی افسرمحمد کامران پر جرح مکمل کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

    دوسری جانب فلیگ شپ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کو بیان کے لیے آج سوال نامہ دیا جانے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں حتمی دلائل منگل کو دیے جائیں گے۔

    نوازشریف کی آج حاضری سےاستثنیٰ کی درخواست منظور


    یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر نوازشریف کے وکیل کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ کلثوم نوازکے لیے فاتحہ خوانی، دعائیہ تقریب رکھی ہے، آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی جائے۔ معزز جج نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظورکی تھی۔

  • نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ ڈی جی نیب نے7نومبر کو ہی معاملہ نیب ہیڈ کوارٹر ز بھیجا، مجاز اتھارٹی کی منظوری 8 نومبر کو موصول ہوئی۔

    استغاثہ کے گواہ محمد کامران نے کہا کہ نئی دستاویزات پیش کرنے پرمجاز اتھارٹی کی منظوری کا خط موجود ہے۔

    معزز جج ارشد ملک نے خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ غیرضروری باتیں نہ لکھوائیں، جو سمجھ میں آگیا کافی ہے، اہم اورمتعلقہ باتیں لکھوائیں۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ ایم ایل اے سے متعلق میں نے متعلقہ افراد کے بیان ریکارڈ نہیں کیے، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ نے 21 اگست2017 خط کی کاپی ڈی جی نیب لاہورکوبھیجی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ میں نے ایکریڈیشن خط کی کاپی ڈپٹی ڈائریکٹرامورخارجہ اورڈی جی نیب کوبھیجی، خواجہ حارث نے کہا کہ جن لوگوں کویہ خط بھیجے گئے وہ اب بھی نیب کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

    محمد کامران نے کہا کہ جی وہ لوگ ابھی بھی نیب کے ساتھ کام کر رہے ہیں، نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا یہ درست ہے 21 اگست2017 کے خط میں دیگرخطوط کا حوالہ نہیں ہے۔

    تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ درست ہے دیگر خطوط کا حوالہ نہیں البتہ ایم ایل اے کا ریفرنس نمبر موجود ہے۔

    معزز جج ارشد ملک اور خواجہ حارث میں مکالمہ


    احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ میاں نوازشریف کا بیان آج ہی قلمبند کرلیتے ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کل نوازشریف کا بیان قلمبند کرنا شروع کردیتے ہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ سوالات پیچیدہ ہیں لیکن ہمیں اس پراعتراض نہیں، بیان کے لیے تمام ریکارڈ دیکھنا پڑرہا ہے، کل تک کا وقت دیں۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کا 342 کا بیان کل قلمبند کیا جائے گا۔

    محمد کامران نے سماعت کے دوران کہا کہ نیب کی تحقیقات کا اپنا طریقہ کاراور ایس او پی ہوتا ہے، تحقیقاتی ٹیم تفتیشی افسر، کیس افسر اور لیگل کنسلٹنٹ پرمشتمل ہوتی ہے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں تحقیقاتی ٹیم مجازاتھارٹی کی جانب سے بنائی گئی، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ اس ریفرنس کی تحقیقاتی ٹیم میں کون کون شامل تھا۔

    تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ میں اس ریفرنس کا تفتیشی تھا، نذیرجونیجو کیس افسر تھے، ریفرنس میں لیگل کنسلٹنٹ محمد عرفان تھے۔

    محمد کامران نے کہا کہ ریفرنس دائرکرنے کے بعد تفتیش میں نئی پراپرٹیزسے متعلق پتہ لگایا، حسن اور حسین نوازکوبیرون ملک ایڈریس پرکال اپ نوٹس نہیں بھجوایا۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ حسن اورحسین نوازکا بیرون ملک پتہ معلوم تھا، حسن نوازنے2007 میں برطانوی شہریت حاصل کی جبکہ حسین نواز2000 سے پاکستان میں رہائش پذیرنہیں ہیں۔

    تفتیشی افسر نے بتایا کہ جےآئی ٹی رپورٹ سے پتہ چلا دونوں پاکستان کےغیرمستقل شہری ہیں، کال اپ نوٹسزمیں نے تیارکیے، کال اپ نوٹسزپرحسن اور حسین نوازکے بیرون ملک ایڈریس نہیں لکھے۔

    احتساب عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے آغاز پر معزز جج نے خواجہ حارث سے استفسار کیا تھا کہ نواز شریف اپنا 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے تیار ہیں؟۔

    خواجہ حارث نے جواب دیا تھا کہ جی نہیں، نوازشریف آج بیان کے لیے تیار نہیں ہیں۔

    نوازشریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہمارے پچھلے بیان پرکچھ اعتراضات ہیں وہ ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں، جج ارشد ملک نے کہا تھا کہ اعتراضات اگر لکھے ہوئے ہیں تو دے دیں۔

    احتساب عدالت کے جج نے کہا تھا کہ اعتراضات علیحدہ سے لکھوا کرحصہ بنا لیتے ہیں، خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ دو تین چیزیں ہیں وہ لکھوا دیتے ہیں۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس پرسماعت پیرتک ملتوی

    احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس پرسماعت پیرتک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے نوازشریف کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی جوعدالت نے منظور کرلی۔

    عدالت میں سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے کہا کہ حسن نواز نے 2001 سے یو کے میں مستقل سکونت حاصل کی۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ حسن نوازنے جےآئی ٹی کو بتایا وہ یوکے کم عمری میں چلے گئے تھے، حسن نوازنے بتایا تعلیم کے بعد بزنس شروع کیا اور وہیں رہے۔

    واجد ضیاء نے بتایا کہ درست ہے فلیگ شپ کے قیام کے وقت حسن نواز کی عمر 25 سال تھی، حسن نوازنے بتایا انہوں نے وکیل کرنے کی اتھارٹی دی۔

    احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس کے تفتیشی افسر کو پیرکے روز طلب کرلیا، خواجہ حارث نے کہا کہ پیرکوجرح جلدی مکمل کرلوں گا۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ حسن نوازنے بتایا حسن، حسین نوازکے نام سے پیش اتھارٹی لیٹرنہیں دیکھے، حسن نوازنے بتایا فلیگ شپ اوردیگر12کمپنیاں ایک ہی دورمیں بنیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ حسن نوازنے بتایا ان کا کاروبار جائیداد کی خرید اوربہتربنا کرفروخت کرنا تھا، حسن نوازنے بتایا کوئنٹ پیڈنگٹن کےعلاوہ دیگرکمپنیاں منافع کما رہی تھیں۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی کے مشاہدے کے مطابق حسن نوازکی یہ بات درست نہیں تھی۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت پیر تک کے لیے ملتوی کردی۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی

    نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت پیرتک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت جج محمد ارشد ملک نے کی۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پرمعاون وکیل نے بتایا کہ خواجہ حارث سپریم کورٹ میں مصروف ہیں جبکہ استغاثہ کی جانب سے بتایا گیا کہ نیب کے پراسیکیوٹر بھی سپریم کورٹ میں ہیں۔

    استغاثہ نے کہا کہ العزیزیہ میں شواہد مکمل ہونے سے متعلق بیان وہی دیں گے۔

    معاون وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کا بیان خواجہ حارث کی موجودگی میں ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت پیرتک ملتوی ہوگئی۔

    احتساب عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹرنے نواز شریف کا بیان قلمبند کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابق وزیراعظم کا بیان قلمبند کرنے کے لیے تاریخ مقرر کی جائے۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کی طرف سے ملزم کا بیان قلمبند کرنے کی استدعا کی مخالفت کی گئی تھی۔

    احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کوآج طلب کیا ہے اور استغاثہ العزیزیہ ریفرنس میں آج حتمی شواہد مکمل ہونے سے متعلق آگاہ کرے گا۔

    العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس: تمام 22 گواہوں کے بیانات مکمل

    یاد رہے کہ دوروز قبل احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت میں تمام 22 گواہوں کے بیانات مکمل ہوگئے تھے۔ نواز شریف کے وکیل نے چھٹے روز تفتیشی افسر پر جرح مکمل کی تھی۔

  • نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت

    نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت جج محمد ارشد ملک کررہے ہیں۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے سماعت کے آغاز پرسوال کیا کہ کسی گواہ نے کہا نوازشریف نے باہرسے ملنے والی رقوم ظاہرنہیں کیں؟۔

    نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا کیس ہی نہیں ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے بتانا ہے بے نامی کی بات نہیں ہے سب ظاہرکیا گیا ہے جس پرنیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ آپ بحث برائے بحث کررہے ہیں۔

    احتساب عدالت نے ریمارکس دیے کہ نیب تفتیشی جواب لکھوا دیں، تفتیشی افسر نے کہا کہ میں نے کسی کا بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا۔

    محبوب عالم نے کہا کہ میں نے قطری شہزادے حماد بن جاسم کوشامل تفتیش نہیں کیا۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روزخواجہ حارث نے سابق وزیراعظم کی آج کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی تھی جسے عدالت نے منظور کرلیا تھا۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ کیا کسی گواہ نے بتایا نواز شریف نے رقوم بھیجیں جس پر استغاثہ کے گواہ نے جواب دیا تھا کہ نہیں کسی گواہ نے نہیں بتایا۔

    نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا تھا کہ کیا 1999سے 2013 تک نوازشریف سرکاری عہدے پررہے؟ تفتیشی افسر نے جواب دیا تھا کہ 1999سے2013 تک نوازشریف سرکاری عہدے پرنہیں رہے۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ کوئی ایسا اکاؤنٹ ملا جس سے نوازشریف نے بیٹوں کورقم بھیجی ہو؟ جس پر استغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ نہیں ایسا کوئی اکاؤنٹ سامنے نہیں آیا۔

    واضح رہے کہ العزیزیہ ریفرنس میں تمام گواہوں کے بیانات مکمل ہوچکے ہیں اورتفتیشی افسر پرجرح جاری ہے جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں جے آئی ٹی سربراہ اور تفتیشی افسر کا بیان قلمبند ہونا باقی ہے۔

  • احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت 4 اکتوبر تک ملتوی

    احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت 4 اکتوبر تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت 4 اکتوبر تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کے وکیل خواجہ حارث احتساب عدالت میں پیش نہ ہوئے۔

    خواجہ حارث کے معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ خواجہ صاحب کی طبعیت خراب ہے، معزز جج نے کہا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ ملزم اپنی مرضی سے آئے۔

    نیب کے وکیل نے کہا کہ نواز شریف نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی دائر نہیں کی، یہ مرضی سے عدالت کو چلانا چاہتے ہیں۔

    خواجہ حارث کے معاون وکیل نے کہا کہ جس طرح کے الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں وہ نہیں کرنا چاہتا، نیب کے وکیل نے کہا کہ معاون وکیل کی موجودگی میں گواہ کا بیان قلمبند کیا جائے۔

    احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ 5منٹ میں معلوم کر کے بتائیں ورنہ نوازشریف کے وارنٹ جاری کیے جائیں گے۔

    معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف سے بات ہوئی ان کا کہنا ہے کہ وہ الجھن کا شکارتھے، الجھن کی وجہ سے تاریخوں پرحاضرنہیں ہو سکے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کہا کہ نوازشریف کا الجھنا بنتا ہے، باقی وکلابھی کیا الجھن کا شکار ہوگئے تھے۔

    معاون وکیل نے کہا کہ خواجہ حارث کل بھی پیش نہیں سکیں گے ان کی طبیعت خراب ہے، معزز جج نے کہا کہ خواجہ حارث کو کیسے پتا کہ وہ 2 دن بیمار رہیں گے۔

    خواجہ حارث کے معاون وکیل منور دوگل نے نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی جسے عدالت نے منظور کرلیا۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت 4 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

  • کل تک کلثوم نوازکی صحت کےلیےدعا کررہےتھے، آج ان کی مغفرت کےلیےدعا کررہے ہیں‘ نواز شریف

    کل تک کلثوم نوازکی صحت کےلیےدعا کررہےتھے، آج ان کی مغفرت کےلیےدعا کررہے ہیں‘ نواز شریف

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کیس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کو آج سخت سیکیورٹی میں اڈیالہ جیل سے احتساب عدالت لایا گیا۔

    سماعت سے پہلے بیگم کلثوم نواز کی مغفرت کے لیے دعا کی گئی۔ دعا کے دوران سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہوگئے۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ امید ہے ہائی کورٹ میں دلائل مکمل ہو جائیں گے، کل کیس زیر سماعت ہونے کے باعث دلائل مکمل نہ ہوسکے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ امید ہے ہم ہائی کورٹ میں دلائل مکمل کر لیں گے۔

    معزز جج محمد ارشد ملک نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    بعدازاں احتساب عدالت کے باہرصحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ کل تک کلثوم نوازکی صحت کے لیے دعا کر رہے تھے، آج ان کی مغفرت کے لیے دعا کر رہے ہے۔

    خواجہ حارث نے گزشتہ سماعت پرواجد ضیاء سے سوال کیا تھا کہ وہ آرڈر کہاں ہے جس میں والیم 10سیل یا پیک نہ کرنے کا حکم ہے جس پرنیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا تھا کہ والیم 10کے حصول کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دینی چاہیے تھی۔

    جے آئی ٹی کے والیم 10 سے متعلق سوال پرنیب پراسیکیوٹرکا اعتراض

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اس سے متعلق خواجہ حارث گواہ واجد ضیاء سے سوالات نہیں کرسکتے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب کاپیاں دی گئی تھیں تب والیم 10 کے لیے درخواست دیتے۔

    نوازشریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ میں ابھی درخواست دے دیتا ہوں، میں نے بے معنی اور بے تکے سوال نہیں پوچھنے۔ ان کا کہنا تھا کہ والیم 10 سے متعلق 3 سے 4 سوال اورپوچھوں گا۔

  • العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی

    العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرجرح کی۔

    خواجہ حارث نے سماعت کے دوران سوال کیا کہ کیا جے آئی ٹی نے آڈٹ بیورو کے کسی حکام سے رابطے کی کوشش کی؟ جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ آلڈرآڈٹ رپورٹ ان اسٹیٹمنٹ کی بنیاد پر ہے جن کا آڈٹ بیورونے نہیں کیا۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ حسین نواز سے متعلق آڈٹ رپورٹ مالی سال 2010 سے 2014 تک کی ہے، جس شخص نے رپورٹ تیارکی اس کا نام اوردیگرتفصیل رپورٹ میں درج ہے۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کب آپریشنل ہوئی جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ ریکارڈ دیکھ کرجواب دے سکتا ہوں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ جواب دینے کے لیے سی ایم اے اورحسین نوازکا بیان دیکھنا پڑے گا۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں متفرق درخواست جمع کرائی گئی تھی جس کے مطابق اایچ ایم ای 2006 کے آغازمیں قائم ہوئی۔

    نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ جے آئی ٹی کی تفتیش کے مطابق ایچ ایم ای کب قائم ہوئی؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی نے اس حوالے سے ایم ایل اے لکھا تھا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ الدار آڈٹ رپورٹ ایچ ایم ای کے 15-2010 کے اکاؤنٹس پرمبنی ہے، ایچ ایم ای کے آڈیٹڈ اکاؤنٹس کی تفصیلات مانگنا ضروری نہیں سمجھا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ سعودی حکام کو31 مئی 2017 کوصرف ایک ایم ایل اے لکھا گیا جس کا جواب نہیں ملا۔

    خواجہ حارث اورپراسیکیوٹر نیب کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    عدالت میں سماعت کے دوران خواجہ حارث نے کہا کہ جرح کر رہا ہوں دونوں پراسیکیوٹرز آپس میں بات نہ کریں، آپ دوران جرح بات مت کریں، اس سے میں ڈسٹرب ہوتا ہوں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مجھے عدالت کہے تومیں نہیں پوچھوں گا، آپ ڈکٹیٹ نہ کریں، عدالت نے نیب پراسکیوٹر کو دوران جرح بات نہ کرنے کی ہدایت کردی۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ علم میں ہے کمپنیز آرڈیننس 1984 کو 2017 کمپنیز ایکٹ نے تبدیل کیا؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ نہیں میرے علم میں نہیں ہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ علم میں ہے پارٹنر شپ ایکٹ 1969 چل رہا ہے؟ جس پرجے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ جی یہ میں جانتا ہوں۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ پتہ ہے کمپنیز ایکٹ کمپنی کواورپارٹنر شپ ایکٹ پارٹنرشپ کوڈیل کرتا ہے؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ میں ایکسپرٹ نہیں ہوں۔

    پراسیکیوٹر نیب نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پارٹنرشپ ایکٹ 1969 نہیں 1932 ہے ٹھیک کرلیں جس پر نوازشریف کے وکیل آپے سے باہر ہوگئے اور اپنے معاون وکیل کو جھاڑ پلا دی۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ وہ آپ کو پاگل بنا رہے ہیں اور آپ پاگل بن رہے ہیں۔

    بعد ازاں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، خواجہ حارث کل بھی واجد ضیا پر جرح جاری رکھیں گے۔

    نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور

    احتساب عدالت میں گزشتہ سماعت پر سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے اعتراض ریکارڈ کرائے تھے۔

    عدالت میں سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کی آج کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی گئی تھی۔

    نوازشریف کےخلاف ریفرنسزکی سماعت 6 ہفتوں میں مکمل کرنےکا حکم

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے احتساب عدالت کو نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزاورفلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید 6 ہفتے کی مہلت دی تھی۔

  • العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس: خواجہ حارث کی واجد ضیاء پرجرح

    العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس: خواجہ حارث کی واجد ضیاء پرجرح

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکررہے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم میاں نوازشریف احتساب عدالت میں موجود ہیں جبکہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرخواجہ حارث کی جرح تیسرے روز بھی جاری ہے۔

    واجد ضیاء نے سماعت کے آغازپرعدالت کوبتایا کہ طارق شفیع نے بتایا محمد حسین کے ورثا انہیں لاہورملنے آئے تھے، طارق شفیع سے محمدحسین کے بیٹے شہزاد حسین کا پتہ پوچھا تھا۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ طارق شفیع نے محمد شہزاد کا رابطہ نمبر نہیں دیا، جے آئی ٹی نے پتہ لگانے کی کوشش کی لیکن شہزاد سے رابطہ نہ ہوسکا، طارق شفیع سے محمد شہزاد سے متعلق سوال جے آئی ٹی رپورٹ کا حصہ ہے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ 1978کے شئیرزسیل معاہدے کے مطابق طارق شفیع، محمدحسین شرکت دار تھے، معاہدے پرعملدرآمد سے پہلےمحمد حسین فوت ہوچکے تھے۔

    واجد ضیاء نے بتایا کہ معاہدے کے ساتھ خط پرمحمد حسین کے قانونی ورثا کے دستخط تھے، طارق شفیع نے جے آئی ٹی کو بتایا محمد حسین کے قانونی ورثا زندہ ہیں۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ جوبات میں نے کی وہ طارق شفیع کے جےآئی ٹی میں بیان سے ظاہرنہیں، جےآئی ٹی نے شہزاد حسین کا پتہ ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن نہیں ملا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ جےآئی ٹی نے 1980 کے معاہدے میں عبداللہ اہلی کو شامل تفتیش نہیں کیا، ہمارے نوٹس میں آیا 1980 کے معاہدے کا گواہ عبدالوہاب ابراہیم تھا۔

    واجد ضیاء نے بتایا کہ معاہدے اورمتن کی تصدیق کے لیے گواہ عبدالوہاب کوشامل تفتیش نہیں کیا، 1980 کے معاہدے کے دوسرے گواہ لاہور سے محمد اکرم تھے۔

    انہوں نے کہا کہ محمد اکرم کوڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے، محمداکرم کے پتے سے متعلق طارق شفیع سے کوئی سوال نہیں کیا، جےآئی ٹی میں پیش کسی بھی شخص سے محمد اکرم سے متعلق سوال نہیں کیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ 1980 کے معاہدے میں دیے گئے محمد اکرم کے پتے پرسمن بھی نہیں بھیجا، محمداکرم کو ڈھونڈنے کی کوشش کوجےآئی ٹی رپورٹ میں درج نہیں کیا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ 1980 کے معاہدے پرپاکستان کے یواےای میں قونصل خانے کی تصدیق تھی، پاکستانی قونصل خانے میں منور حسین کمال نے تصدیق کی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ جےآئی ٹی نے منورحسین قونصل اتاشی کوشامل تفتیش نہیں کیا، یہ معاہدہ جعلی تھا، خواجہ حارث نے کہا کہ اگر اس معاہدے کوجعلی نہ کہتے تو یہ سوال ہی نہ پوچھتے۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ سوال میں پوچھ ہی اس لیے رہا ہوں آپ نے معاہدے کوجعلی کہا، یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہوں آپ کا جواب مستند ہے یا نہیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ معاہدےکی تصدیق کرنے والے کی تصدیق کے لیے قونصل خانے کا دورہ نہیں کیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر جرح مکمل ہونے پرنیب کے تفتیشی افسرکا بیان قلمبند کیا جائے گا۔

    ایسی دستاویزنہیں ملی کہ نوازشریف ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے مالک ہوں ‘ واجد ضیاء

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پراستغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا کہ جےآئی ٹی کوہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کی رجسٹریشن کی دستاویزنہیں ملی، ایسی دستاویزنہیں ملی کہ نوازشریف ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کےمالک ہوں۔

    انہوں نے بتایا تھا کہ نوازشریف کے ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کا براہ راست مالک ہونے کا ثبوت نہیں جبکہ حسین نوازدراصل نوازشریف کے بے نامی دارہیں۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ یہ بات ریکارڈ پرہے کمپنی کا منافع ٹرانزیکشن سے نوازشریف کوآیا جس پرنوازشریف کے وکیل نے کہا تھا کہ یہ اپنے بیان میں کہانی سنا چکے ہیں۔

    واجد ضیا کا کہنا تھا کہ گواہ عبداللہ اہلی سے رقم کا جاننے کے لیے انہیں شامل تفتیش نہیں کیا۔

    گواہ کا کہنا تھا کہ 1978 کے گلف اسٹیل کے معاہدے کے مطابق رقم 2 کروڑ 13 لاکھ درہم سے زائد تھی، 1978 کے شیئر فروخت کے معاہدے کے مطابق رقم ایک کروڑ 20 لاکھ درہم تھی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ دبئی کسٹم کے ریکارڈ کے مطابق دبئی سے جدہ اسکریپ مشینری نہیں گئی، لیٹر آف کریڈٹ کے مطابق مشینری شارجہ سے جدہ گئی، دبئی سے نہیں گئی، لیٹر آف کریڈٹ ایم ایل اے کےساتھ بھیجا گیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایم ایل اے میں 2 سوال پوچھے گئے، لیٹر میں اسکریپ مشینری کی دبئی سے جدہ ٹرانسپورٹ کا سوال پوچھا گیا، دوسرا سوال یہ پوچھا گیا کہ لیٹر آف کریڈٹ اصل ہے۔

    وکیل صفائی خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نیب پراسیکیوٹر گواہ بن جائیں ان سے سوال پوچھ لیتا ہوں، جس پر نیب پراسکیوٹر نے جواب دیا کہ آپ مجھ سےنہیں عدالت سے مخاطب ہوں۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ جو واجد ضیا کا جواب ہے وہ لکھوا دیں، ایم ایل کے تحت پہلے سوال کا جواب دیا، جواب میں دوسرا سوال شامل نہیں، جس پر واجد ضیا نے کہا کہ اس سوال کا از خود جواب دینا چاہتا ہوں۔

    واجد ضیا کے گواہپ نے بتایا کہ ایل سی میں سکینڈ ہینڈ مشینری کا ذکر ہے، ایم ایل کے جواب میں اسکریپ مشینری درج ہے۔

    واجد ضیا نے عدالت کو بتایا کہ لیٹر آف کرڈیٹ میں اسکریپ مشینری شارجہ سے جدہ جانے کا ذکر ہے، ایم ایل کے جواب میں دبئی سے اسکریپ مشینری جدہ جانے کا ذکر ہے، لیکن لیٹر آف کریڈٹ کا ذکر نہیں۔

    خواجہ حارث نے واجد ضیا کے جواب میں کہا کہ کوئی ایسی دستاویز دکھا دیں جس میں لکھا ہو ایل سی جعلی ہے۔ جس پر گواہ نے کہا کہ وہ ایم ایل اے کا جواب ہے، خواجہ حارث نے پھر کہا کہ اس میں لکھا ہے تو دکھا دیں۔

    واجد ضیاء نے سماعت کے دوران بتایا کہ لیٹر آف کریڈٹ کی کاپی متفرق درخواست سے لی۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کیا کاپی حسین نواز نے جے آئی ٹی کو بھی دی۔

    واجد نے العزیزیہ ریفرنس کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ حسین نواز نے لیٹر آف کریڈٹ کی کاپی جے آئی ٹی کو فراہم نہیں کی، ٹرانسپورٹیشن آف گڈز سے متعلق حسین نواز سے سوال کیے تھے، حسین نواز سے ایل سی سے متعلق مخصوص سوال نہیں کیا،

    احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل مل کیس کی سماعت کو 11 جون تک ملتوی کردی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایسی دستاویزنہیں ملی کہ نوازشریف ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے مالک ہوں ‘ واجد ضیاء

    ایسی دستاویزنہیں ملی کہ نوازشریف ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے مالک ہوں ‘ واجد ضیاء

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم میاں نوازشریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرخواجہ حارث نے آج بھی جرح کی۔

    واجد ضیاء پرخواجہ حارث کی جرح

    استغاثہ کے گواہ نے عدالت میں سماعت کے آغاز پر کہا کہ جےآئی ٹی نےعباس شریف فیملی کے کسی فرد کوطلب نہیں کیا، شواہد نہیں ملے عباس شریف یارابعہ نے العزیزیہ کے منافع سے حصہ لیا ہو۔

    واجد ضیاء نے بتایا کہ شواہد نہیں ملے العزیزیہ کے آپریشنل رہنے تک رابعہ کبھی سعودی عرب گئیں، حسین نوازنے جےآئی ٹی میں بیان دیا دادا ابوضعیف ہوچکےتھے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ حسین نوازنے کہا دادا نے اس لیے العزیزیہ کی ذمہ داری مجھے دے دی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ جےآئی ٹی کوہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کی رجسٹریشن کی دستاویزنہیں ملی، ایسی دستاویزنہیں ملی کہ نوازشریف ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کےمالک ہوں۔

    انہوں نے بتایا کہ نوازشریف کے ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کا براہ راست مالک ہونے کا ثبوت نہیں جبکہ حسین نوازدراصل نوازشریف کے بے نامی دارہیں۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ یہ بات ریکارڈ پرہے کمپنی کا منافع ٹرانزیکشن سے نوازشریف کوآیا جس پرنوازشریف کے وکیل نے کہا کہ یہ اپنے بیان میں کہانی سنا چکے ہیں، میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جوبات آ چکی وہ دوبارہ کیسے آ سکتی ہے، یہ سوالوں کے جواب کے بجائے وہ بتانا چاہتے ہیں جو برائے نام کرچکے ہیں۔

    ایسی دستاویز نہیں ملی کہ نوازشریف العزیزیہ کے مالک ہوں‘ واجد ضیاء

    خیال رہے کہ گزشتہ روز واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ایسی دستاویز نہیں ملی کہ نوازشریف العزیزیہ کے مالک ہوں یا نوازشریف کو شیئرہولڈر یا ڈائریکٹر ظاہر کرے۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی دستاویز نہیں ملی جو ظاہرکرے نوازشریف کاروباری یا مالی معاملات چلاتے ہوں یا مالی اداروں سے ڈیل کرتے ہوں۔

    جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ نوازشریف کا العزیزیہ کی کسی دستاویز پر دستخط کرنے کی کوئی دستاویز نہیں ملی، اورنہ ہی کسی گواہ نےبیان دیا نواز شریف العزیزیہ مل کے مالک ہیں۔

    خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے سوال کیا تھا کہ کیا کسی نے کہا کہ نواز شریف العزیزیہ اسٹیل مل کے شیئر ہولڈر ہیں؟

    واجد ضیاء نے جواب دیا تھا کہ شہباز شریف نے کہا تھا کہ حسین نواز، نواز شریف کے شیئر ہولڈر ہیں۔

    واجد ضیا کا سماعت کے دوران کہنا تھا کہ جےآئی ٹی کے نوٹس میں آیا ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ اکیلی ملکیت تھی، ان کا کہنا تھا کہ یہ بات حسین نواز کی دستاویزات کے مطابق بتا رہا ہوں، حسین نواز نے جو دستاویزات پیش کیں وہ والیم 6 میں موجود ہیں۔

    گواہ نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ یہ درست ہے ہل میٹل کا پورا نام ماڈرن انڈسٹری آف میٹل اسٹیبلشمنٹ ہے۔

    واجد نے کہا کہ حسین نوازکی دستاویزات کے مطابق ہل میٹل کے وہ اکیلے مالک تھے، جس پر گواہ نے جواب دیا کہ حسین نواز کی طرف سے دستاویزات کے مطابق وہ ہل میٹل کے سی ای او تھے۔

    گواہ کا کہنا تھا کہ میری یادداشت کے مطابق 3 دستاویزات جے آئی ٹی کے سامنے پیش کئے گئے، ایسے کوئی شواہد نہیں جو ظاہر کریں حسین ہل میٹل کے اکیلے مالک نہ ہوں، ایسا کوئی گواہ بھی نہیں آیا جو کہے حسین نواز کمپنی کے اکیلے مالک نہیں۔

    واجد ضیا نے کہا کہ یہ دستاویزات  3جون کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش کئے گئے۔

    ریفرنس کی سماعت کے دوران گواہ نے بتایا کہ جے آئی ٹی کا کوئی رکن دستاویز کی تصدیق کے لئے سعودی عرب نہیں گیا، جس پر واجد کا کہنا تھا کہ دستاویزکو ایم ایل اے سے منسلک کر کے تصدیق کے لئے نہیں بھیج۔

    سماعت کے دوران وکیل صفائی خواجہ حارث نے سوال کیا کہ آپ کی تفتیش کے مطابق ہل میٹل کب رجسٹرڈ ہوئی؟

    واجد ضیا نے جواب دیا کہ جو دستاویز کورٹ میں پیش کیں ان کے مطابق سنہ 2005 میں ہوئیں۔ 

    خواجہ حارث نے کہا کہ آپ اپنی تفتیش کا بتائیں کب قائم ہوئی؟ جس پر واجد ضیا نے بتایا کہ ملزمان کی پیش کردہ دستاویزات کے مطابق سنہ 2005 میں رجسٹرڈ ہوئی۔

    واجد ضیا نے کہا کہ اس پر از خود بھی جواب دینا چاہتا ہوں، یہ باتیں نواز شریف کے بیان میں نہیں ہیں، کسی نے نہیں کہا کہ نوازشریف بیرون ملک حسین نواز زیر کفالت تھے۔

    احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔ پیر کو بھی خواجہ حارث جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا پر جرح جاری رکھیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔