Tag: خواجہ حسن نظامی کی تحریریں

  • تاج محل ہوٹل والا قسمت بیگ

    بمبئی کے تاج محل ہوٹل میں مہاراجہ بھاؤ نگر ٹھہرے ہوئے تھے۔ برسات کا موسم تھا۔ سمندر میں صبح شام طوفان برپا رہتا تھا اور پانی کی آوازوں سے مسافروں کی بات سننی بھی دشوار تھی۔

    تاج محل ہوٹل میں ایک خانساماں ستّر اسّی برس کی عمر کا نوکر تھا، جو اپنے کام میں بہت ہوشیار اور تجربہ کارمانا جاتا تھا۔ ہوٹل والے اپنے بڑھیا مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے اسی خانساماں کو مقرر کرتے تھے۔

    اس خانساماں کا نام قسمت بیگ تھا۔ اس کی دیانت داری بھی شہرہ آفاق تھی۔ جب سے ہوٹل میں نوکر ہوا تھا، بارہا ہوٹل کے منیجر کو اس کی امانت و دیانت کے تجربے ہوئے تھے اور وہ ہوٹل کے سب نوکروں سے زیادہ اس خانساماں پر اعتماد کرتا تھا۔ ایک دن صبح کے وقت مہاراجہ بھاؤ نگر نے پلنگ پر لیٹے لیٹے قسمت بیگ سے کہا، ’’میں نے بمبئی کے چند مہمانوں کو لنچ کی دعوت دی ہے۔ منیجر سے کہہ دینا کہ دس مہمانوں کا انتظام کر دے۔‘‘

    سمندر کے پانی کا غل شور، برسات کا زمانہ، مہاراجہ بھاؤ نگر کی دھیمی آواز اور بہرہ خانساماں۔ یہ حکم کیونکر اس کے کانوں تک پہنچتا، مگر قسمت بیگ کی تمیز داری کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے بہرے پن کو ظاہر نہ ہونے دیتا تھا۔ ہونٹوں کی حرکت سے مطلب سمجھ لیتا تھا۔ بہرے آدمیوں کی طرح کان جھکا کر بات نہ سنتا تھا۔ آج ایسے اسباب جمع ہوئے کہ قسمت بیگ مہاراجہ کے حکم کو نہ سمجھا اور اس نے ذرا پلنگ کے قریب آکر نہایت تذبذب اور ادب کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر سوال کیا کہ’’وہ جو ارشاد ہوا ہے اس کی تعمیل کی جائے گی، لیکن اگر تکلیف نہ ہو تو تھوڑی سی تفصیل اور فرما دی جائے۔‘‘

    مہاراجہ بھاؤ نگر بالکل نہیں سمجھے کہ خانساماں نے ان کی بات نہیں سنی تھی اور انہوں نے خانساماں سے دوبارہ کہا کہ ’’جن دس آدمیوں کو بلایا ہے وہ اعلیٰ درجہ کے لوگ ہیں۔ لنچ کا اہتمام اعلیٰ قسم کا ہونا چاہیے۔‘‘ قسمت بیگ نے بات سمجھ لی اور ادب سے کہا، ’’جو حکم، فرمان کی پوری تعمیل کی جائے گی۔‘‘ اور یہ کہہ کر بڑی تمیز داری کے ساتھ پچھلے قدم چل کر سامنے سے ہٹ گیا۔

    مہاراجہ بھاؤ نگر دیر تک سوچتے رہے کہ انگریزی ہوٹلوں میں سب خانساماں انگریزی ادب آداب استعمال کرتے ہیں۔ یہ بڈھا کون ہے جو پرانے زمانے کے مشرقی ادب آداب کو استعمال کرتا ہے۔ اس کا حال معلوم کرنا چاہیے۔ انہوں نے فوراً بٹن دبایا اور کمرے کا خدمت گار حاضر ہوگیا۔ مہاراجہ نے حکم دیا، ’’آج جب ہم لنچ سے فارغ ہوں تو ملاقات کے کمرے میں قسمت بیگ خانساماں کو بلایا جائے۔ ہم اس سے کچھ پرائیویٹ باتیں کرنی چاہتے ہیں۔‘‘ خدمت گارنے کہا، ’’حضور وہ بہت بد مزاج آدمی ہے۔ صاحب لوگوں سے ہمیشہ لڑتا رہتا ہے۔ آپ اس سے پر ائیویٹ بات کریں گے تو وہ آپ سے بھی گستاخی سے پیش آئے گا۔ وہ نوکری کے وقت تو بہت اچھا ہے اور صاحب لوگ اس کو پسند کرتے ہیں۔ لیکن پرائیویٹ وقت میں وہ بہت بدمزاج ہو جاتا ہے۔‘‘

    مہاراجہ نے کہا، ’’ایسا کیوں ہے؟‘‘ خدمت گار نے جوا ب دیا، ’’حضور وہ کہتا ہے میں ہندوستان کا بادشاہ ہوں۔‘‘ یہ سن کر مہاراجہ کو بہت تعجب ہوا اور وہ مسکرا کر خاموش ہوگئے اور کچھ دیر کے بعد انہوں نے خدمت گار سے کہا، ’’کچھ پروا نہیں۔ قسمت بیگ سے کہہ دو کہ وہ لنچ کے بعد پرائیویٹ باتوں کے لیے ہمارے پاس آئے۔‘‘ خدمت گار نے انگریزی سلام کیا اور انگریزی طریقے سے باہر چلا گیا۔

    لنچ کے بعد
    مہاراجہ بھاؤ نگر اور ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ اور ’’بمبئی کرانیکل‘‘ اور ’’سانجھہ ور تمان‘‘ کے ایڈیٹر اور چند ہندو اور پارسی عمائد بمبئی دوپہر کا کھانا کھا کر باتوں کے کمرے میں آئے تو مہاراج نے قسمت بیگ کو بلایا۔ قسمت بیگ نہایت ادب سے حاضر ہوا اور اس نے ہندوستانی طریقے کے موافق مہاراج کو تین فرشی سلام کیے اور ہاتھ باندھ کر ادب سے کھڑا ہو گیا۔ مہاراج نے کہا، ’’قسمت بیگ! تم کون ہو؟‘‘ قسمت بیگ دانستہ مہاراج کی کرسی کے قریب کھڑا ہوا تھا تاکہ اس کے بہرے پن کا عیب چھپا رہے اور مہاراج کی بات سن سکے۔

    مہاراج کا سوال سن کر قسمت بیگ نے کہا، ’’حضور گستاخی معاف، اس کا جواب تو آپ کو بھی معلوم نہیں ہے کہ ہم سب کون ہیں اور کیوں اس دنیا میں پیدا کیے گئے ہیں۔ ہم کو بھوک، پیاس، نیند، بچپن، جوانی، بڑھاپا، تندرستی، بیماری کے انقلابات میں کس غرض سے مبتلا کیا گیا ہے۔‘‘ قسمت بیگ کی یہ عجیب تقریر سن کر سب حاضر ین مبہوت ہوگئے اور حیرت سے دیکھنے لگے کہ ایک خانساماں یہ کیسی فلسفیانہ باتیں کر رہا ہے۔

    مہاراج نے مسکرا کر کہا، ’’بے شک ہم کو اس سوال کا جواب معلوم نہیں ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ تم نے زندگی کی ان مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کیونکہ تم نے ایک سانس میں سب بڑے بڑے انقلابات کا ذکر کر دیا۔ اس واسطے میرا خیال ہے کہ تم میرے سوال کا جواب دے سکتے ہو۔‘‘

    قسمت بیگ نے کہا، ’’حضور میں ایک آدمی ہوں۔ نسل کے لحاظ سے تیموری مغل ہوں۔ پیشے کے لحاظ سے تاج محل ہوٹل کا خانساماں ہوں۔ عمر کے لحاظ سے بڈھا ہوں۔ طبیعت کے اعتبار سے کبھی بچہ ہوتا ہوں اور کبھی جوان۔ اخلاقی حیثیت میری ایک کامل انسان کی ہے۔ جھوٹ نہیں بولتا۔ چوری نہیں کرتا۔ ظلم اور بے رحمی سے بچتا ہوں۔ خدمتِ خلق کو اپنا مقصدِ زندگی مانتا ہوں۔ اگرچہ گدا ہوں لیکن دل کے تخت پر شہنشاہ ہوں۔ کچھ ارشاد ہو تو اس کا بھی جواب دوں۔‘‘

    قسمت بیگ کی مؤثر اور برجستہ تقریر کا ایک دوسرا اثر پیدا ہوا اور مہاراج اپنے مہمانوں سمیت پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور بے اختیار مہاراج کی زبان سے نکلا، ’’کیا تم تیموری شہزادے ہو؟‘‘ قسمت بیگ کو جوش آگیا اور اس نے کہا، ’’شاہ زادہ نہیں ہوں آہ زادہ ہوں۔ دنیا کی مصیبتوں کی سب زدیں میں نے اٹھائی ہیں۔ تیموری خاندان تو اب مٹ چکا ہے، جس نے باوجود انسان ہونے کے دوسرے انسانوں کو غلام بنانے کی کوشش کی تھی اور غلام بنا لیا تھا۔ آپ نہیں تو آپ کے باپ دادا بھی اس کے غلام تھے۔ یہ سوال فضول ہے اور آپ کے لیے تکلیف دہ ہے اور میں اس سوال کی کشمکش میں پڑنا اپنے دل کے لیے ایک آری سمجھتا ہوں جو میرے دل کو چیر رہی ہے۔‘‘

    یہ فقرہ سن کر مہاراج نے سر جھکا لیا اور سب لوگ خاموش ہو کر زمین کی طرف دیکھنے لگے۔ آخر کچھ دیر کے بعد خود قسمت بیگ نے کہا، ’’انسان کو اپنی موجودہ حیثیت دیکھنی چاہیے۔ آج چونکہ میں ایک خانساماں ہوں، اس لیے ارشاد کی تعمیل کرتا ہوں۔ میں سمجھ گیا کہ حضور میری زندگی کی تفصیل معلوم کرنی چاہتے ہیں۔ میں ان لوگوں میں نہیں ہوں جو ماضی پر فخر کریں یا افسوس کریں اور میں ان لوگوں میں بھی نہیں ہوں جو مستقبل کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے ہیں۔ حضور میں ماضی کا مالک ہوں۔ حال کا مالک ہوں اور مستقبل کا بھی مالک ہوں۔ یہ آسمان بھی میرا ہے۔ یہ زمین بھی میری ہے۔ یہ سمندر بھی میرا ہے اور آپ سب لوگ جو کرسیوں پر میرے سامنے بیٹھے ہیں، آپ بھی میرے ہیں اور میں خود جو آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہوں، محسوس کرتا ہوں کہ یہ وجود بھی میرا ہے۔

    دنیا کی کوئی چیز بھی میرے سوا اور کسی کی نہیں ہے۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ دوسرا کوئی موجود نہیں ہے۔ میں ہی ہوں، میں ہی تھا۔ میں ہی آخر تک رہوں گا۔ یہ سمندر ابل رہا ہے۔ بل کھا رہا ہے۔ جوش میں آرہا ہے۔ برسات ختم ہوگی، سردی آئے گی، ٹھنڈا ہو جائے گا۔ تالاب بن جائے گا۔ اس کے اندر طوفان بھی میں ہی ہوں اور اس کی ٹھنڈک بھی میں ہی ہوں۔‘‘

    قسمت بیگ کی مجذوبانہ تقریر سنتے سنتے مہاراج کو ہنسی آگئی، مگر انہوں نے ہنسی کوضبط کیا اور کہا، ’’شہزادہ صاحب! کیا آپ میرا حکم مانیں گے اور سامنے کی کرسی پر بیٹھنے کی تکلیف گوارا کریں گے۔‘‘ قسمت بیگ نے کہا، ’’ہرگز نہیں، کالج میں استاد کھڑا رہتا ہے اور شاگرد بیٹھے رہتے ہیں۔ تم شاگرد ہو اور میں استاد ہوں۔ تم سب انجان ہو اور میں دانا ہوں۔ تم سب بے خبر ہو اور میں خبردار ہوں۔ تم سب غافل ہو اور میں ہوشیار ہوں۔ تم سب ادنیٰ ہو اور میں اعلیٰ ہوں۔ تم سب بڑے ہو اور میں چھوٹا ہوں۔ تم سب امیر ہو اور میں غریب ہوں۔ تم سب فانی ہو اور میں باقی ہوں۔ تم سب بلبلا ہو اور میں پانی ہوں۔ تم سب خاک ہو اور میں ہوا ہوں۔ تم سب ایندھن ہو اور میں آگ ہوں۔ تم سب تاریکی ہو اور میں روشنی ہوں۔‘‘

    یہ کہتے کہتے قسمت بیگ نے اپنی دونوں مونچھوں کو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے پکڑا اور ان کو مروڑا اور اچھلنا شروع کیا۔ اچھلتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا، ’’میں ہوں میں۔ تم نہیں ہو۔ میں ہوں میں۔ میں ہوں میں۔ جو کچھ ہے، جو کچھ تھا، جو کچھ ہو۔ کچھ نہیں ہے۔ کچھ نہیں ہے۔ میں ہوں میں۔ میں ہوں میں۔ پھر سنو پھر کہوں۔ میں ہوں میں۔ میں ہوں میں۔‘‘

    مہاراج اور حاضرین کے جسموں پر رعشہ پڑ گیا اور ان سب پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہوگئی۔ قسمت بیگ کی دیوانہ وار باتوں اور اچھل کود سے غیر معمولی اثر ہوا۔ کچھ دیر کے بعد قسمت بیگ، مہاراج کے قریب خاموش ہوکر کھڑا ہو گیا اور اس نے نہایت ناتواں آواز میں کہا، ’’حضور سواری چلی گئی۔ میں ایک مرکب تھا اور سوار میرا اور تھا۔ میں ایک ہوٹل تھا اور مہمان کوئی اور تھا۔ میں ایک بوتل تھا اور شراب کوئی اور تھی۔ اب سنیے مجھ بیمارلاچار خانساماں کی کہانی، سنیے،

    بہادر شاہ بادشاہ کا بیٹا ہوں۔ میری ماں لونڈی تھی اور بادشاہ کی معتوب تھی۔ جب غدر 1857ء کا انقلاب ہوا تو میری عمر دس سال کی تھی۔ بادشاہ نے گھبراہٹ کے وقت اپنے بیوی بچوں کا انتظام بہت ادھورا کیا تھا اور اس وقت میرا اور میری ماں کا شاید ان کو خیال بھی نہ آیا ہو گا کیونکہ میری ماں لال قلعہ کے باہر خاص بازار میں ایک مکان میں رہتی تھیں۔ مکان شاہی تھا۔ پہرے دار اور نوکر بھی بادشاہ کی طرف سے تھے۔ خرچ بھی ملتا تھا، مگر بادشا ہ میری پیدائش سے پہلے میری اماں سے خفا ہوگئے تھے اور انہوں نے کبھی میری صورت نہیں دیکھی، نہ میری اماں کو قلعہ میں بلایا۔

    جب دہلی کے سب باشندے بھاگے اور ولسن صاحب کمانڈر کشمیری دروازہ کے راستے شہر میں داخل ہوئے تو میری ماں نے مجھ کو اپنے ساتھ لیا اور پیدل گھر سے روانہ ہوئیں۔ نوکر پہلے ہی بھاگ گئے تھے۔ سواری کا کوئی انتظام نہ تھا۔ میری والدہ نے سو اشرفیاں اپنے ساتھ لیں اور کوئی سامان نہ لیا۔ دہلی سے نکل کر ہم دونوں قدم شریف کی درگاہ میں گئے جو دہلی کی فصیل سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہے۔ مگر یہ راستہ بھی ہم کو کئی کوس کا معلوم ہوا، کیونکہ نہ مجھے پیدل چلنے کی عادت تھی نہ میری ماں کو۔ مجھے یاد ہے دہلی کے باشندے ایسی گھبراہٹ میں جا رہے تھے، گویا قیامت قائم ہے اور سب نفسی نفسی کہتے ہوئے خدا کے پاس جا رہے ہیں۔ عورتیں کپڑوں کی بقچیاں سروں پر رکھے ہوئے، چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھ پکڑے جا رہی تھیں۔ بچے رو رہے تھے۔ وہ ان کو کھینچتی تھیں اور بچے چل نہ سکتے تھے۔ مردوں کا بھی یہی حال تھا۔ کوئی کسی کا پرسان حال نہ تھا۔ سب اپنی مصیبت میں مبتلا تھے۔

    قدم شریف میں جاکر ہم ایک ٹوٹے مکان میں بیٹھ گئے۔ برسات کا موسم تھا۔ رات ہوئی۔ مجھے بھوک لگی مگر وہاں کچھ کھانے کو نہ تھا۔ میری ماں نے اپنی گود میں بٹھا لیا اور تسلی دلاسے کی باتیں کرنے لگیں۔ شہر سے بندوقوں کی آوازیں اور شہر والوں کا غل شور سن سن کر میں گھبرایا جاتا تھا اور میری والدہ بھی سہمی بیٹھی تھیں، یہاں تک کہ اسی بھوک کی حالت میں سو گیا۔

    صبح ہندوستانی فوج کے سپاہی قدم شریف میں آئے اور انہوں نے لوگوں کو پکڑنا شرو ع کیا۔ میری ماں کو بھی گرفتار کر لیا اور ایک پوربیہ ہندو ان کو اپنے ساتھ پہاڑی پر لے گیا جو قدم شریف سے کئی میل دور تھی اورہم دونوں جب پہاڑی پر پہنچے تو ہمارے پاؤں خونم خون ہوگئے تھے۔ شام کو ہمیں انگریز افسر کے سامنے پیش کیا گیا اور اس نے میری ماں سے کچھ سوالات کیے۔ مجھے یاد نہیں انگریز نے کیا کہا اور میری ماں نے کیا جواب دیا۔ اتنا یاد ہے کہ انگریز کو میری ماں نے بتا دیا کہ وہ بادشاہ کی لونڈی ہے اور بچہ بادشاہ کا بیٹا ہے اور انگریز نے حکم دیا کہ ان دونوں کو آرام سے رکھا جائے۔ آرام یہ تھا کہ ہم کو ایک چھوٹا سا خیمہ دے دیا گیا جس میں ہم رات دن پڑے رہتے تھے اور دو وقت کھانا ہم کو مل جاتا تھا۔

    جب دہلی میں انگریزی انتظام ہوگیا تو ہم دونوں کو چاندنی محل میں، جو جامع مسجد کے قریب ایک محلہ تھا، بھجوا دیا گیا، جہاں ہمارے خاندان کے اور لوگ بھی آباد ہوگئے تھے۔ میری والدہ کے نام دس روپے ماہوار گزارے کے مقرر کر دیے گئے اور میں نے اپنی والدہ کے ساتھ بچپن سے جوانی تک جیسی جیسی مصیبتیں اٹھائیں، بس میرا ہی دل جانتا ہے۔ چاند نی محل کے قریب ایک خانقاہ تھی اور میں وہاں اکثر جایا کرتا تھا۔ خانقاہ میں ایک درویش رہتے تھے۔ ان کی باتیں سنتا تھا اور ان کا مجھ پر بہت اثر ہوتا تھا۔ انہی کی باتوں سے مجھے اپنی اور کائنات کی ہر چیز کی حقیقت کا علم ہوا اور اس وقت جو کچھ میں عرض کر رہا تھا، یہ بھی انہیں کی صحبت کا اثر ہے۔

    والدہ نے خاندان ہی کے اندر میری شادی بھی کر دی۔ اولاد بھی ہوئی مگر وہ زندہ نہیں رہی۔ میں نے دہلی میں ایک خانساماں کی شاگردی اختیار کی اور یہ کام سیکھا جواب کر رہا ہوں اور جب میری والدہ اور بیوی کا انتقال ہو گیا تو میں دہلی سے بمبئی چلا آیا اور یہاں مختلف لوگوں کی نوکریا ں کیں۔ ہوٹلوں میں بھی رہا اور اب مدت سے تاج محل ہوٹل میں ہوں۔ بچپن سے میرے کان میں کچھ خرابی ہوگئی جو آج تک باقی ہے، مگر میں کوشش کرتا ہوں کہ کوئی میرے بہرے پن کو سمجھ نہ سکے کیونکہ مجھے اس عیب سے بہت شرم آتی ہے۔

    خانساماں کی یہ بات سن کر مہاراج نے ایک ٹھنڈا سانس لیا اور کہا، ’’قسمت بیگ نام کس نے رکھا؟‘‘ خانساماں نے کہا، ’’میری قسمت نے۔ ورنہ میری ماں نے تو میرا نام تیمور شاہ رکھا تھا، مگر جب میں دہلی سے بمبئی آیا تو ہر شخص کو میں نے اپنا نام قسمت بیگ بتایا۔‘‘ مہاراج نے کہا چلو میں تم کو بھاؤ نگر لے چلوں۔ جو تنخواہ یہاں ملتی ہے اس سے دگنی تنخواہ دوں گا اور تمہاری باتیں سنا کروں گا۔ کوئی کام نہیں لوں گا۔‘‘

    یہ بات سن کر قسمت بیگ نے جھک کر تین فرشی سلام مہاراج کو کیے۔ پھر کہا، ’’یہ عین بندہ نوازی ہے، لیکن جس نے اس دنیا کے انقلاب کو سمجھ لیا وہ قناعت کے دروازے پر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک دروازے کو پکڑ اور مضبوط پکڑ، دربدر بھٹکتا نہ پھر۔ اس ہوٹل میں میری عزت بھی ہے اور میری مزاج داری بھی ہے۔ صاحب لوگ بھی میری بد مزاجیوں کو برداشت کر لیتے ہیں۔ ضرورت کے موافق ہر چیز موجود ہے۔ آپ ہی فرمایئے میں آپ کے ارشاد کی تعمیل کیوں کروں اور ایک جگہ کو چھوڑ کر جہاں کوئی تکلیف نہیں ہے، آپ کے ہاں کیوں آؤں۔‘‘

    مہاراج نے آفریں کہی اور ایک ہزار روپے کا چیک لکھ کر دیا۔ کہا کہ اس کو اپنے خرچ میں لانا، آئندہ بھی ہر سال ہوٹل کے منیجر کی معرفت ہزار روپے تم کو مل جایا کریں گے۔ قسمت بیگ نے پھر سلام کیا اور چیک لے کر رونے لگا اور پچھلے قدم ہٹ کر باہر چلا آیا۔

    معلوم نہیں اس کو رونا کیوں آیا اور اسے کیا بات یاد آگئی۔

    (یہ تحریر خواجہ حسن نظامی کی غدر اور شاہی خاندان سے متعلق کتاب میں‌ خانساماں شہزادہ کے عنوان سے شامل ہے)

  • پیلی بھیت والے بزرگ میاں محمد شیر صاحب اور جنّات

    پیلی بھیت والے بزرگ میاں محمد شیر صاحب اور جنّات

    ‘‘جوانی کے شروع میں مجھے جنّات، ہمزاد اور ستاروں کو تابع کرنے کا شوق تھا۔ میں دو برس تک اس شوق میں مبتلا رہا۔ اس زمانے کا ذکر ہے کہ کسی نے مجھ سے کہا کہ پیلی بھیت میں بزرگ رہتے ہیں جن کا نام میاں محمد شیر صاحب ہے اور وہ ایسا عمل جانتے ہیں جس سے جنات، پریاں، بھوت اور ہمزاد وغیرہ آدمی کے تابع ہوجاتے ہیں۔ یہ سن کر میں پیلی بھیت گیا اور حضرت میاں صاحب سے ملا، مگر ان کی بزرگانہ اور فقیرانہ ہیبت کے سبب میری اتنی جرأت نہ ہوئی کہ اپنا مقصد ان سے کہتا، چپ چاپ ان کی محفل میں کچھ دیر بیٹھا رہا۔ یکایک وہ خود میری طرف مخاطب ہوئے اور یہ کہنا شروع کیا۔’’

    ‘‘ارے میاں دلّی والے! سنو جب ہم تمہاری عمر میں تھے تو ہمیں جنّات تابع کرنے کا شوق ہوا اور ہم کو ایک آدمی نے جنات مسخر کرنے کا عمل بتایا۔ ہم مسجد کی لمبی جائے نماز پر بیٹھ گئے، جونہی ہم نے عمل پڑھنا شروع کیا، وہ جائے نماز خود بخود بغیر کسی لپیٹنے والے کے لپٹنی شروع ہوئی اور ہم بھی اس جائے نماز کے اندر لپٹ گئے۔ پھر کسی نے ہم کو جائے نماز سمیت مسجد کے کونے میں کھڑا کر دیا۔ کچھ دیر تو ہم جائے نماز میں لپٹے ہوئے کھڑے رہے۔ آخر ہم نے بہت مشکل سے اس جائے نماز کو کھولا اور اس کے اندر سے نکلے۔ جائے نماز کو پھر اس جگہ بچھایا اور اس پر بیٹھ کر جنّات کا عمل پڑھنا شروع کیا، مگر ہمارا دل ڈر رہا تھا اور حیرت بھی تھی کہ کس نے ہمیں جائے نماز میں لپیٹ دیا۔ دوسری مرتبہ بھی یہی ہوا یعنی پھر کسی نے جائے نماز میں ہم کو لپیٹ کھڑا کرد یا اور ہمارا دل دھڑکنے لگا اور ہم بہت ڈرے۔ آخر ڈرتے ڈرتے جائے نماز کو کھولا اور باہر نکلے۔ جائے نماز کو بچھایا اور عمل شروع کیا۔ تیسری مرتبہ بھی ہم کو کسی نے لپیٹ دیا اور ہم نے پھر کوشش کرکے اپنے آپ کو اس قید سے نکالا۔’’

    ‘‘باہر نکلے تو ایک آدمی ہمارے سامنے آیا۔ اس نے غصے اور خفگی کے لہجے میں کہا۔ تُو یہ عمل کیوں پڑھتا ہے، اور ہم کو کیوں پریشان کرتا ہے….؟
    ہم نے کہا جنّات کوتابع بنانے کے لیے۔ وہ کہنے لگا۔ ‘‘لے دیکھ میں جنّ ہوں۔ آدمی صورت میں آیا ہوں۔ تُو ہم کو مسخر کرنے کی محنت نہ کر، ہم آسانی سے کسی کے قابو میں نہیں آئیں گے، تُو خدا کا مسخر ہو جا، ہم تیرے مسخّر ہو جائیں گے۔
    یہ قصّہ سنا کر میاں محمد شیر صاحب نے فرمایا،

    میاں! اس دن سے ہم نے تو جنّات تابع کرنے کا شوق چھوڑ دیا اور خدا کی تابع داری کرنے لگے اور ہم نے دیکھا کہ واقعی جو آدمی خدا کا تابع ہو جاتا ہے تو دنیا اس کی تابع ہوجاتی ہے۔’’

    میاں صاحب کی یہ بات سن کر میں نے جنات کو مسخر کرنے کا خیال دل سے نکال دیا۔

    ‘‘میرے نانا ایک مرتبہ بہادر شاہ کے بھائی مرزا جہانگیر سے ملنے الہٰ آباد گئے۔ جہاں ان کو انگریز کمپنی نے نظر بند کر رکھا تھا۔ مرزا جہانگیر نے نانا کو ایک بڑے مکان میں ٹھہرایا۔ نانا حقّہ پیتے تھے۔ اس واسطے نوکر نے اپلے کی آگ، حقہ اور تمباکو پاس رکھ دیا اور فانوس میں شمع روشن کر دی۔’’

    ‘‘نانا عشاء کی نماز پڑھ کر پلنگ پر لیٹ گئے۔ سامنے شمع روشن تھی۔ وہ لیٹے ہوئے حقہ پی رہے تھے۔ ایکا ایکی کسی نے ان کے پلنگ کو اوپر اٹھا لیا۔ پلنگ زمین سے دو گز اونچا ہوگیا۔ نانا گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور انہوں نے پلنگ کے نیچے جھانک کر دیکھا، مگر کوئی چیز دکھائی نہ دی۔ جس دالان میں ان کا پلنگ تھا، اس میں تین در تھے اور پلنگ بیچ کے در میں بچھا ہوا تھا۔ کسی نے اس پلنگ کو اونچا کر کے بیچ کے در سے اٹھایا اور آخری تیسرے در میں لے جا کر بچھا دیا۔’’

    ‘‘جب پلنگ زمین پر بچھ گیا تو نانا جان پلنگ سے اترے اور انہوں نے پلنگ گھسیٹا اور پھر بیچ کے در میں بچھا دیا۔’’

    ‘‘تھوڑی دیر کے بعد پھر پلنگ اٹھا اور خود بخود تیسرے در چلا گیا۔ نانا پلنگ کو گھسیٹ کر پھر بیچ کے در میں لے آئے۔ یہاں تک کہ تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔ تیسری مرتبہ بھی نانا پلنگ کو گھسیٹ کر بیچ کے در میں لے گئے۔ تب ایک سایہ سا نمودار ہوا جو فانوس کے پاس گیا اور شمع خودبخود گل ہوگئی۔ نانا اٹھے اور انہوں نے گندھک لگی سلائی آگ پر رکھی اور اس کو روشن کر کے شمع دوبارہ جلا دی۔ پھر وہ سایہ آیا اور اس نے شمع گُل کردی۔ غرض تین مرتبہ یہی ہوا کہ وہ سایہ شمع گُل کرتا تھا اور نانا اس کو روشن کردیتے تھے۔ جب تیسری مرتبہ نانا نے شمع روشن کی تو ایک آدمی چھت کے اوپر سے سیڑھیاں اترتا ہوا آیا اور اس نے میرے نانا کا نام لے کر کہا۔’’

    ‘‘سنو میاں غلام حسین! میں جنّ ہوں اور شمع کی روشنی سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ تم شمع گُل کر دو اور جہاں تم نے پلنگ بچھایا ہے وہاں میں رات کو نماز پڑھا کرتا ہوں۔ لہٰذا تم اپنا پلنگ بھی یہاں سے ہٹا لو۔ میں جانتا ہوں کہ تم ضدی آدمی ہو۔ میں دلّی میں تمہارے درگاہ کی زیارت کے لیے کئی مرتبہ آچکا ہوں، مگر یاد رکھو، اس مکان میں رات کے وقت جو آدمی رہتا ہے میں اس کو مار ڈالتا ہوں۔ تمہاری خیر اسی میں ہے کہ تم پلنگ یہاں سے ہٹا لو اور شمع گل کر دو، ورنہ میں تم کو مار ڈالوں گا۔’’

    نانا نے کہا۔ ‘‘بھائی جب تم جانتے ہو کہ میں ضدی آدمی ہوں تو سمجھ لو کہ جب تک جیتا ہوں نہ شمع گُل کروں گا نہ پلنگ ہٹاؤں گا۔ آج کی رات تم کسی اور جگہ نماز پڑھ لو۔ کل میں اس مکان میں نہ رہوں گا۔ یہ مرزا جہانگیر کے نوکروں نے شرارت کی کہ مجھے ایسی جگہ ٹھہرا دیا جہاں تم رہتے ہو۔’’

    ‘‘یہ بات سن کو وہ جنّ ہنسا اور اس نے کہا اچھا میاں! آج رات میں کہیں اور چلا جاؤں گا۔ مگر کل یہاں نہ رہنا۔ یہ کہہ کر وہ غائب ہوگیا۔ دوسرے دن میرے نانا مرزا جہانگیر سے ملے اور ان کو بہت بُرا بھلا کہا کہ تم نے مجھے جنّات کے مکان میں کیوں ٹھہرایا۔’’

    (مشہور ادیب اور صوفی خواجہ حسن نظامی کی آپ بیتی سے انتخاب)

  • اودے پور کا فرضی طلسم

    اودے پور کا فرضی طلسم

    نواب رضا علی خان کے مسند نشین ہونے کے موقع پر جب خواجہ حسن نظامی رام پور تشریف لے گئے تو 2 ربیعُ الاوّل 1349 ہجری، 29 جولائی 1930 بروز سہ شنبہ مولوی حکیم نجم الغنی خاں سے بھی ملنے گئے۔ اس روداد کو خواجہ صاحب ہی کی زبان قلم سے سنیے۔

    اس (ناشتہ) کے بعد مولانا نجم الغنی صاحب مؤرخ سے ملنے گیا جو موجودہ زمانے کے سب سے عمدہ اور بہت زیادہ اور نہایت محققانہ اور آزادانہ اور بے باکانہ لکھنے والے مؤرخ ہیں۔

    شمس العلماء مولانا ذکا اللہ صاحب مرحوم دہلوی نے آخر زمانے میں تاریخ کی بہت بڑی بڑی جلدیں لکھی ہیں۔ مگر حکیم نجم الغنی خاں صاحب کی کتابیں تعداد میں بھی بہت زیادہ ہیں اور ضخامت میں بھی زیادہ ہیں۔ تاریخ کے علاوہ طب وغیرہ علوم و فنون کی بھی انہوں نے بہت اچھی اچھی کتابیں لکھی ہیں۔ شہرۂ آفاق فلاسفروں اور مصنفوں کی طرح ایک نہایت مختصر اور سادہ مکان میں بیٹھے تھے۔ چاروں طرف کتابوں اور نئے مسودات کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ساٹھ ستر کے قریب عمر ہے۔ بال سب سفید ہوگئے ہیں مگر کام کرنے کی انرجی اور مستعدی نوجوانوں سے زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ بہت عمدہ پھل کھلائے، پان کھلائے اور اپنی تازہ تصانیف بھی دکھائیں۔ ایک کتاب اودے پور کی نسبت لکھی ہے۔ مولانا شبلی مرحوم نے اورنگ زیب پر ایک نظر کے نام سے بہت اچھی کتاب شائع کی تھی مگر وہ راجپوتانے کے واقعات سے بے خبر تھے۔

    مولانا نجم الغنی خاں صاحب نے راجپوتانہ کی مستند تاریخوں سے اورنگ زیب کی تاریخی حمایت کا حق ادا کیا ہے اور اودے پور کے مہا رانا کے اس غرور اور گھمنڈ کو توڑ پھوڑ کر مسمار کردیا ہے جس میں وہ آج تک مبتلا ہے۔ موجود مہارانا کے والد 1911 کے شاہی دربار میں دہلی آئے تو شہر کے باہر ٹھہرے کیونکہ ان کے ہاں‌ یہ عہد ہے کہ دہلی میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوں گے۔ انگریزوں نے بھی اودے پور کے خیالی پلاؤ کی مخالفت نہیں کی اور مہارانا کو دہلی کے اندر آنے کے لیے مجبور نہیں کیا تاکہ ان کی آن بان باقی رہے مگر مولانا نجم الغنی صاحب کی اس تاریخ کو پڑھ کر اودے پور کے سب نشے ہرن ہو جائیں گے اور وہ طلسم ٹوٹ جائے گا جو اودے پور کی فرضی روایتوں نے ہندو قوم کے دل و دماغ میں بنا رکھا ہے کہ اودے پور کا مہارانا کبھی مسلمان سلطنت کے سامنے نہیں جھکا اور کبھی مسلمانوں سے مغلوب نہیں ہوا۔

    میں نے مولانا سے یہ کتاب لے لی ہے اور میں اس کو اپنے اہتمام سے اور اپنے خرچ سے شائع کروں گا۔ مولانا نے اس کا نام تاریخِ اودے پور رکھا ہے مگر میں نے اس کے نئے نام تجویز کیے ہیں جن میں سے ایک غرور شکن ہے اور دوسرا اودے پور کا فرضی طلسم ہے۔ یہ کتاب خدا نے چاہا بہت جلدی شائع ہو جائے گی۔

    مولانا نجم الغنی‌ صاحب بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ ان کی عمر اور ان کی محنت دیکھ کر مجھے بہت غیرت آئی کہ مجھے اپنے زیادہ کام کا فخر رہتا ہے حالانکہ مولانا نجم الغنی صاحب مجھ سے زیادہ بوڑھے ہیں مگر کئی حصے زیادہ کام کرتے ہیں۔

    رخصت ہوا تو مولانا سواری تک پہنچانے آئے۔ قدیمی بزرگوں کی تہذیب و شایستگی کا وہ ایک مکمل نمونہ ہیں۔

    مولانا نجم الغنی خاں رام پوری شعر و شاعری کا بھی ذوق رکھتے تھے، نجمی تخلص تھا۔ وہ اپنی ضخیم اور وقیع تصنیفات کی بدولت زندہ و جاوید ہیں۔

  • یتیم شہزادے کی عید

    یتیم شہزادے کی عید

    اسی 1332 ہجری (1913 عیسوی) کی عیدُالفطر کا ذکر ہے۔ دہلی میں 29 کا چاند نظر نہ آیا۔ درزی خوش تھے کہ ان کو ایک دن کام کرنے کی مہلت مل گئی۔ جوتے والوں کو بھی خوشی تھی کہ ایک روز کی بکری بڑھ گئی، مگر مسلمانوں کے ایک غریب محلہ میں تیموریہ خاندان کا ایک گھرانا اس دن بہت غمگین تھا۔

    یہ لوگ عصر سے پہلے اپنے گھر کے وارث میرزا دلدار شاہ کو دفن کر کے آئے تھے۔ دلدار شاہ دس دن سے بیمار تھے۔ ان کو پانچ روپیہ ماہوار پنشن ملتی تھی۔ گھر میں ان کی بیوی اور یہ خود کناری بُنتے تھے جس میں ان کو اتنی معقول آمدنی تھے کہ خوب آرام سے بسر اوقات کرتے تھے۔ ان کے چار بچے تھے۔ تین لڑکیاں اور ایک لڑکا۔

    دو لڑکیوں کی شادیاں ہوگئی تھیں۔ ایک ڈیڑھ سال کی لڑکی گود میں تھی اور ایک لڑکا دس برس کا تھا۔ دلدار شاہ اس لڑکے کو بہت چاہتے تھے۔ بیگم نے بہت چاہا کہ لڑکا مکتب میں جائے مگر دلدار شاہ کو بچہ اس قدر لاڈلا تھا کہ انہوں نے ایک دن اس کو مکتب نہ بھیجا۔ لڑکا سارا دن گلیوں میں آوارہ پھرتا تھا۔ زبان پر گالیاں اس قدر چڑھ گئی تھیں کہ بات بات میں مغلظات بکتا تھا اور باوا جان اس کی بھولی بھولی باتوں سے خوش ہوتے تھے۔

    میرزا دلدار شاہ بہادر شاہ بادشاہ کے قریبی رشتہ دار تھے۔ مرتے وقت ان کی عمر 65 برس کی ہوگی کیوں کہ جب یہ لڑکا ان کے ہاں پیدا ہوا تو ان کی عمر 55 بر س کی تھی۔ بڑھاپے کی اولاد سب کو پیاری ہوتی ہے، خاص کر بیٹا۔ میرزا دلدار جتنی محبت کرتے، تھوڑی تھی۔

    ایک دن ان کے ایک دوست نے کہا، ’’صاحب عالم! بچّے کے لکھنے پڑھنے کی یہی عمر ہے۔ اب نہ پڑھے گا تو کب پڑھے گا۔ لاڈ پیار بھی ایک حد تک اچھا ہوتا ہے۔ آپ اس کے حق میں کانٹے بوتے ہیں۔ خدا آپ کو ہمیشہ سلامت رکھے۔ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں۔ ایک دن سب کو مرنا ہے۔ خدا نخواستہ آپ کی آنکھیں بند ہوگئیں تو اس معصوم کا کہیں ٹھکانا نہیں رہے گا۔ لکھ پڑھ لے گا تو دو روٹیاں کما کھائے گا۔ اس زمانہ میں شریفوں کی گذران بڑی دشوار ہوگئی ہے۔ کچھ آئندہ کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کو غیروں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے اور بزرگوں کی ناک کٹے۔‘‘

    میرزا دلدار شاہ اس ہم دردی سے بگڑ گئے اور بولے، ’’آپ میرے مرنے کی بد شگونی کرتے ہیں۔ ابھی میری کون سی ایسی عمر ہوگئی ہے۔ لوگ تو سو برس تک زندہ رہتے ہیں۔ رہا بچے کا پڑھانا، سو میرے نزدیک تو اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ بڑے بڑے بی اے، ایم اے پاس مارے مارے پھرتے ہیں اور دو کوڑی کو کوئی نہیں پوچھتا۔ میرا بچہ پہلے ہی دھان پان ہے۔ آئے دن کا مرضین ہے۔

    میرا دل گوارا نہیں کرتا کہ ظالم استادوں کے حوالے کر کے اس کی نازک ہڈیوں کو قمچیوں کا نشانہ بناؤں۔ جب تک میرے دَم میں دَم میں دَم ہے، عیش کراؤں گا۔ میں نہ رہوں گا تو خدا رازق ہے۔ وہ چیونٹی تک کو کھانا دیتا ہے۔ پتّھر کے کیڑے کو رزق پہنچاتا ہے۔ آدمی کے بچّہ کو کہیں بھوکا مارے گا؟ میاں ہم نے زمانہ کا بڑا گرم و سرد رنگ دیکھا ہے۔ ہمارے ماں باپ نے بھی ہم کو نہ پڑھایا تو کیا ہم بھوکے مرتے ہیں۔‘‘

    نصیحت کرنے والے بچارے یہ جواب سن کر چپ ہوگئے اور دل ہی دل میں پچھتائے کہ میں نے ناحق ان سے درد مندی کی بات کہی، لیکن انہیں خیال آیا کہ حق بات کہنے سے چپکا رہنا گناہ ہے۔ ‘الساکت عن الحق شیطان اخرس’ یعنی سچّی بات کہنے سے خاموش رہنے والا گونگا شیطان ہے۔

    اس لیے انہوں نے پھر کہا کہ ’’جناب! آپ ناراض نہ ہوں، میں خدانخواستہ آپ کا مرنا نہیں چاہتا۔ میں نے تو ایک دور اندیشی کی بات کہی تھی۔ آپ کو ناگوار گزری تو معاف فرمائیے، مگر یہ تو خیال فرما لیجیے کہ آپ کے بچپن میں اور حالت تھی اور آج کل اور زمانہ ہے۔ اس وقت قلعہ آباد تھا۔ جہاں پناہ ظلِّ سبحانی بہادر شاہ حضرت کا سایہ سَر پر تھا۔ ہر بات سے بے فکری تھی، لیکن آج تو کچھ بھی نہیں۔ نہ بادشاہی ہے نہ امیری ہے۔ ہر مسلمان کے گھر میں گدائی اور فقیری ہے۔ اب تو جو جو ہنر مندی سیکھے گا اور اپنی روٹی اپنے بازو سے کمائے گا، وہی لالوں کا لال بنے گا، ورنہ ذلّت و خواری کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔‘‘

    دلدار شاہ نے کہا، ’’ہاں یہ سچ ہے۔ میں اس کو سمجھتا ہوں، مگر آخر ہماری بھی تو اتنی عمر اسی بربادی کے زمانے میں بسر ہوگئی۔ سرکار نے پانچ روپیہ کی جو پنشن مقرر کی ہے۔ تم جانتے ہو کہ اس میں ہمارے کَے وقت نکلتے ہوں گے۔ آٹھ آنے روز تو بچّے کا خرچ ہے۔ ہم دونوں میاں بیوی روپیہ ڈیڑھ روپیہ کی روز کناری بنتے ہیں اور مزے سے گزر اوقات کرتے ہیں۔‘‘

    یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک دوسرے صاحب تشریف لائے اور انہوں نے کہا، ’’آسٹریا کے بادشاہ کا ولی عہد مارا گیا۔ جب بادشاہ کو اس کی خبر پہنچی تو وہ بے قرار ہو گیا اور ہائے کا نعرہ مار کر کہا، ظالموں نے سب کچھ لوٹ لیا، میرے لیے کچھ بھی نہ چھوڑا۔ میرزا دلدار شاہ یہ سن کر ہنسنے لگے اور بولے، ’’بھئی یہ اچھی بہادری ہے۔ بیٹے کے ناگہانی مرنے سے ایسا گھبرا گئے۔ میاں! جب بہادر شاہ حضرت کے صاحب زادے میرزا ابو بکر وغیرہ گولی سے مارے گئے اور ان کے سر کاٹ کر سامنے لائے تو بادشاہ نے خوان میں کٹا ہوا سر دیکھ کر نہایت بے پروائی سے فرمایا، الحمدُ للہ! سرخ رو ہو کر سامنے آیا۔ مرد لوگ اسی دن کے لیے بچّے پالتے ہیں۔‘‘

    جو صاحب خبر لائے تھے، وہ بولے، ’’کیوں جناب! غدر میں آپ کی عمر کیا ہوگی؟‘‘ میرزا دلدار شاہ نے کہا، ’’کوئی چودہ پندرہ برس کی۔ مجھے سب واقعات اچھی طرح یاد ہیں۔ باوا جان ہم کو لے کر غازی آباد جا رہے تھے کہ ہینڈن ندی پر ہم کو فوج نے پکڑ لیا۔ والدہ اور میری چھوٹی بہنیں چیخیں مار کر رونے لگیں۔ والد نے ان کو منع کیا اور آنکھ بچا کر ایک سپاہی کی تلوار اٹھا لی۔ تلوار ہاتھ میں لینی تھی کہ سپاہی چاروں طرف سے ان پر ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے دو چار کو زخمی کیا مگر سنگینوں اور تلواروں کے اتنے وار ان پر ہوئے کہ بچارے قیمہ قیمہ ہو کر گر پڑے اور شہید ہو گئے۔

    ان کی شہادت کے بعد سپاہیوں نے میری بہن اور ماں کے کانوں کو نوچ لیا اور جو کچھ ان کے پاس تھا، چھین کر چلتے ہوئے۔ مجھ کو انہوں نے قید کر کے ساتھ لے لیا۔ جس وقت میں والدہ سے جدا ہوا ہوں، ان کی آہ و زاری سے آسمان ہلا جاتا تھا۔ وہ کلیجہ کو تھامے ہوئے چیختی تھیں اور کہتی تھیں، ارے میرے لال کو چھوڑ دو، تم نے میرے سرتاج کو خاک میں سلا دیا، اس یتیم پر تو رحم کرو۔ میں کس کے سہارے رنڈاپا کاٹوں گی۔ یا اللہ میرا کلیجہ پھٹا جاتا ہے، میرا دلدار کہاں جاتا ہے۔ کوئی اکبر و شاہجہاں کو قبر سے بلائے۔ ان کے گھرانے کی دکھیا کی بپتا سنائے۔ دیکھو میرے دل کے ٹکڑے کو مٹھی میں مسلے دیتے ہیں۔ ارے کوئی آؤ، میری گودیوں کا پالا مجھ کو دلواؤ۔

    چھوٹی بہن آکا بھائی، آکا بھائی کہتی ہوئی میری طرف دوڑی، مگر سپاہی گھوڑوں پر سوار ہو کر چل دیے اور مجھ کو باگ ڈور سے باندھ لیا۔ گھوڑے دوڑتے تھے تو میں بھی دوڑتا تھا، ٹھوکریں کھاتا تھا، پاؤں لہولہان ہو گئے تھے۔ دل دھڑکتا تھا۔ دَم اکھڑا جاتا تھا۔‘‘

    پوچھا، ’’میرزا یہ بات رہ گئی کہ پھر تمہاری والدہ اور بہن کا کیا حال ہوا؟‘‘ میرزا نے کہا، ’’آج تک ان کا پتہ نہیں۔ خبر نہیں ان پر کیا گزری اور وہ کہاں گئیں۔ مجھ کو سپاہی اپنے ہمراہ دہلی لائے اور یہاں سے اندور لے گئے۔ مجھ سے وہ گھوڑے ملواتے تھے اور گھوڑوں کی لید صاف کراتے تھے۔ چند روز کے بعد مجھ کو چھوڑ دیا گیا اور میں نے اندور میں ایک ٹھاکر کے ہاں دربانی کی نوکری کر لی۔ کئی برس اس میں گزارے۔ پھر دہلی میں آیا اور سرکار میں درخواست دی۔ اس کی مہربانی سے میری بھی اوروں کی طرح پانچ روپے ماہوار پنشن مقرر ہو گئی۔ اس کے بعد میں نے شادی کی۔ یہ بچّے پیدا ہوئے۔‘‘

    اس واقعہ کے چند روز بعد میرزا دلدار شاہ بیمار ہوئے اور دس دن بیمار رہ کر آخرت کو سدھارے۔ ان کے مرنے کا غم سب سے زیادہ ان کی بیوی اور لڑکے کو تھا۔ لڑکا دس برس کا تھا اور اچھی طرح سمجھتا تھا کہ ابا جان مر گئے ہیں، مگر وہ بار بار امّاں سے کہتا تھا کہ ابا جان کو بلا دو۔ الغرض اس رونے دھونے میں یہ سب لوگ سو گئے۔

    سحری کو بیگم صاحبہ بیدار ہوئیں تو دیکھا کہ گھر میں جھاڑو مَلی ہوئی ہے۔ کپڑا التا، برتن بھانڈا سب چور لے گئے۔ بیچاری بیوہ نے سر پیٹ لیا۔ ہے، ہے، اب میں کیا کروں گی۔ میرے پاس تو ایک تنکا بھی نہ رہا۔ گھر کے مالک کے اٹھتے ہی چوری بھی ہوئی۔ آس پاس کے محلّہ والے ان کے رونے کی آواز سن کر جمع ہوگئے اور سب نے بہت افسوس کیا۔ پڑوس میں ایک گوٹے والے رہتے تھے۔ انہوں نے سحری کے لیے دودھ اور نان پاؤ بھیجا اور بیچاری نے ٹھنڈا سانس بھر اس کو لے لیا۔

    یہ پہلا دن تھا کہ بیوہ شہزادی نے خیرات کی سحری کھائی جس کا اس کو سب سے زیادہ صدمہ تھا۔ دن ہوا۔ چاروں طرف عید کے سامان نظر آتے تھے۔ چاند رات کی چہل پہل ہر گھر میں تھی، مگر نہ تھی اس گھر میں جہاں دودھ بیتی بچّی کو گود میں لیے بیوہ شہزادی یتیم شہزادہ کو سمجھا رہی تھی کیوں کہ وہ نئی جوتی اور نئے کپڑے مانگتا تھا۔

    ’’بیٹا تمہارے ابّا جان پردیس گئے ہیں۔ وہ آجائیں تو کپڑے منگا دیں گے۔ دیکھو تمہارے دولھا بھائی بھی بنارس گئے ہوئے ہیں۔ وہ ہوتے تو ان سے ہی منگا دیتے۔ اب کس کو بازار بھیجوں۔‘‘ لڑکے نے کہا، ’’میں خود لے آؤں گا۔ مجھ کو دام دو۔‘‘ دام کا نام سن کر دکھیاری بیوہ کے آنسو آگئے۔ اس نے کہا، ’’تمہیں خبر نہیں، رات کو گھر میں چوری ہوگئی۔ ہمارے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔‘‘

    ضدی شہزادہ نے مچل کر کہا، ’’نہیں میں تو ابھی لوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر دو چار گالیاں ماں کو دے دیں۔ مصیبت زدہ نے ٹھنڈا سانس بھر کر آسماں کو دیکھا اور بولی، ’’اچھا ٹھہرو میں منگاتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر پڑوس کے گھر سے لگی ہوئی کھڑ کی میں جا کر کھڑی ہوئی اور گوٹہ والے کی بیوی سے کہا، ’’بوا! عدّت کے دن ہیں، میں اندر تو نہیں آ سکتی۔ ذرا میری بات سن جاؤ۔‘‘ وہ بیچاری فوراً اس کے پاس آئی تو اسے سارا ماجرا سنایا اور کہا، ’’ خدا واسطہ کا کام ہے۔ اپنے بچّے کی اترن، کوئی جوتی یا کپڑوں کا جوڑا ہو تو ایک دن کے لیے مانگے دے دو۔ کل شام کو واپس دے دوں گی۔‘‘

    شہزادی اترن کہتے وقت بے اختیار ہچکی لے کر رونے لگی۔ پڑوسن کو بڑا ترس آیا۔ اس نے کہا، ’’بوا رونے اور جی بھاری کرنے کی کچھ بات نہیں۔ ننھے کی کئی جوتیاں اور کئی جوڑے فالتو رکھے ہیں۔ ایک تم لے لو۔ اس میں اترن کا خیال نہ کرو۔ اس نے تو ایک دن یونہی ذرا پاؤں میں ڈالی تھی۔ میں نے سنگوا کر رکھ دی۔‘‘ یہ کہہ کر پڑوسن نے جوتی اور کپڑے شہزادی کو دیے۔ شہزادی یہ چیزیں لے کر بچہ کے پاس آئی اور اس کو یہ سب دکھائیں۔ بچہ خوش ہو گیا۔

    دوسرے دن عید گاہ جانے کے لیے شہزادی نے اپنے بچے کو بھی گوٹا والے پڑوسی کے ساتھ کر دیا۔ عید گاہ پہنچ کر یتیم شہزادے نے گوٹا والے کے لڑکے سے کہا، ’’ابے تیری ٹوپی سے ہماری ٹوپی اچھی ہے۔‘‘ گوٹا والے لڑکے نے جواب دیا، ’’چل بے اترن کھترن پر اتراتا ہے! لے یہ بھی میری ٹوپی ہے۔ اماں نے تجھ کو خیر خیرات دے دی ہے۔‘‘ یہ سننا تھا کہ شہزادہ نے ایک زور کا تھپڑ گوٹے والے کے بچّے کے رسید کیا اور کہا ہم کو خیرات خورہ کہتا ہے۔ گوٹے والے نے جو اپنے بچّے کو پٹتا دیکھا تو اس کو بھی غصہ آگیا اور اس نے دو تین تماچے شہزادے کے مارے۔ یہ لڑکا روتا ہوا بھاگا۔ گوٹے والے نے خیال کیا کہ اس کی ماں کیا کہے گی کہ ساتھ لے گئے تھے۔ کہاں چھوڑ آئے۔ اس لیے وہ اس کو پکڑنے کو دوڑا مگر لڑکا نظروں سے غائب ہو گیا۔ ناچار گوٹے والا مجبور ہو کر اپنے گھر چلا آیا۔

    اب یتیم شہزادہ کی یہ کیفیت ہوئی کہ وہ عام خلقت کے ساتھ عید گاہ سے گھر کی طرف آرہا تھا کہ راستہ میں ایک گاڑی کی جھپٹ میں آکر گر پڑا اور زخمی ہوگیا۔ پولیس شفا خانہ لے گئی۔ یہاں گھر میں اس کی ماں کا عجب حال تھا۔ غش پہ غش آتے تھے۔ دو وقت سے بھوکے تھی۔ اس پر عید اور یہ مصیبت کہ لڑکا گم ہو گیا اور عالم یہ کہ کوئی پرسان حال نہیں، جو لڑکے کو تلاش کرنے جائے۔

    آخر بیچارا وہی گوٹے والا پھرگیا اور پولیس میں اطلاع لکھوائی۔ اس وقت معلوم ہوا کہ وہ شفاخانہ میں ہے۔ شفا خانہ جاکر خبر لایا اور شہزادی کو ساری کیفیت سنائی۔ اس وقت عجیب عالم تھا۔

    عید کی شام تھی۔ گھر گھر خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔ مبارک بادوں کے چرچے تھے۔ تحفے تحائف اور عیدیاں تقسیم ہو رہی تھیں۔ ہر مسلمان نے اپنی حیثیت سے زیادہ گھر کو آراستہ کیا تھا اور اپنے بال بچوں کو خوش و خرّم لیے بیٹھا تھا، مگر بیچاری بیوہ شہزادی دو وقت کے فاقہ سے رنجور، بچّے کے غم میں اشک بار، اندھیرے اجاڑ گھر میں بیٹھی آسمان کو دیکھتی تھی اور کہتی تھی، ’’خدایا میری عید کہاں ہے؟‘‘ اور بے اختیار ہچکیاں لے کر روتی تھی۔ ادھر شفا خانہ میں یتیم شہزادہ ماں کی جدائی میں پھڑکتا تھا۔

    یہ ہے انقلابِ ایّام کی سچّی تصویر۔ اس میں تقدیر کا نشان۔ اس قصّہ سے معلوم ہوگا کہ اولاد کی تعلیم سے غفلت کرنا اور اس کو تربیت نہ دینا کیسا خطرناک ہے۔ یہ سچّی کیفیت عبرت ہے ان لوگوں کے لیے جو عید کی خوشی میں مست و بے خبر ہو جاتے ہیں اور آس پاس کے آفت رسیدہ غریبوں کی حالت نہیں دیکھتے۔

    (غدر اور مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی جلا وطنی کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور واقعات کی ایک جھلک، جو اردو کے صاحبِ طرز ادیب خواجہ حسن نظامی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں)