Tag: خواجہ خورشید انور

  • عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کا تذکرہ

    عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کا تذکرہ

    خواجہ خورشید انور پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی بطور موسیقار مشہور نام و پہچان رکھتے تھے اور بالخصوص فلمی دنیا میں ان کی دھنوں کو سراہا جاتا تھا۔ خواجہ خورشید انور نے کئی نام ور شعرا کے تحریر کردہ گیتوں کو اپنی موسیقی سے لافانی اور یادگار بنایا۔ یہ فلمی نغمات آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں‌۔

    آج پاکستان کے عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی برسی ہے۔ خواجہ خورشید انور فنونِ لطیفہ کے بڑے شائق تھے اور ادب سے ان کو بہت لگاؤ تھا۔ فلسفہ وہ مضمون تھا جس میں خواجہ صاحب نے ایم اے کیا اور 1936ء میں انڈین سول سروس کے تحریری امتحان میں شان دار کام یابی حاصل کی، مگر انگریز سرکار کے ملازم نہیں بن سکے بلکہ انھیں قیدی بننا پڑا، کیوں کہ اُس وقت خواجہ صاحب ہندوستان کی انقلابی تنظیم کے رکن بھی تھے۔ یہ ان کے کالج کے ابتدائی زمانے کی بات ہے جب انقلابی تنظیم کے راہ نما بھگت سنگھ اور ان کے دو ساتھیوں کو لاہور کی جیل میں پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کا انتظار تھا اور خواجہ صاحب بھی تنظیم کا رکن ہونے کی وجہ سے جیل بھیجے گئے، رہائی تو جلد ہی مل گئی، مگر خواجہ خورشید انور کو انڈین سول سروس میں جگہ نہیں دی گئی۔

    خواجہ خورشید انور موسیقار ہی نہیں ایک کام یاب تمثیل نگار، اور ہدایت کار بھی تھے۔ اگر ان چند گیتوں کی بات کی جائے جو آج بھی مقبول ہیں تو ان میں مہدی حسن کی آواز میں ’مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے‘، نور جہاں کا گایا ہوا نغمہ ’دل کا دیا جلایا‘، ’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘ اور کئی دوسرے گیت شامل ہیں۔

    30 اکتوبر 1984ء کو موسیقار خواجہ خورشید انور انتقال کرگئے تھے۔ ان کا تعلق میاںوالی سے تھا جہاں انھوں نے 21 مارچ 1912 میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والد خواجہ فیروز الدین ایک مشہور وکیل تھے۔ خواجہ صاحب نے اعلیٰ‌ تعلیم تو حاصل کی تھی لیکن شہرت اور مقبولیت فن موسیقی کی بدولت ملی۔ اس فن میں ان کی باقاعدہ تربیت استاد توکل حسین خان صاحب نے کی۔ بطور موسیقار خواجہ خورشید انور کے فنی سفر کا آغاز 1939 میں آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ہوا، لیکن ان کی ترتیب دی ہوئی دھنیں پہلی مرتبہ 1941 میں فلم میں شامل ہوئیں جو بمبئی سے ریلیز ہوئی تھی۔ 1953 میں خواجہ صاحب بمبئی سے لاہور منتقل ہوگئے اور مجموعی طور پر اٹھارہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں انتظار، ہیر رانجھا اور کویل جیسی کام یاب فلمیں شامل ہیں۔ خواجہ خورشید انور نے بطور ہدایت کار ہمراز، چنگاری اور گھونگھٹ جیسی فلمیں بنائیں اور ان کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    1955ء میں فلم انتظار کے لیے انھیں بہترین موسیقار اور بہترین فلم ساز کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فلمی دنیا نے انھیں نگار ایوارڈ دیا اور پھر حکومت پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز کے حق دار ٹھہرے۔

    موسیقار وزیر افضل خواجہ صاحب کے باقاعدہ شاگرد تھے اور ان کے کام میں خواجہ صاحب کے فن اور تربیت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ وزیر افضل (مرحوم) کہتے تھے کہ خواجہ صاحب سے زیادہ مشرقی کلاسیکی موسیقی کا ادراک شاید ہی کسی اور فلمی موسیقار کو ہو۔

  • یاد نگاری: مایہ ناز موسیقار خواجہ خورشید انور

    یاد نگاری: مایہ ناز موسیقار خواجہ خورشید انور

    پاکستان اور ہندوستان میں موسیقی، گلوکاری اور فلم بینی کا شوق رکھنے والے خواجہ خورشید انور کے نام اور مقام و مرتبے سے بھی واقف ہیں۔ موسیقار کی حیثیت سے خواجہ خورشید انور نے کئی شعرا کے تحریر گیتوں کو لافانی اور یادگار بنایا۔ یہ نغمات آج بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں‌۔

    آج برصغیر کے عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی برسی ہے۔ خواجہ خورشید فنونِ لطیفہ کے بڑے شائق تھے اور ادب سے بہت لگاؤ تھا۔ فلسفہ وہ مضمون تھا جس میں خواجہ صاحب نے ایم اے کرنے کے بعد 1936ء میں انڈین سول سروس کا تحریری امتحان دیا اور شان دار کام یابی حاصل کی، مگر انگریز سرکار کے ملازم نہیں بن سکے بلکہ انھیں قیدی بننا پڑا، کیوں کہ اُس وقت خواجہ صاحب ہندوستان کی انقلابی تنظیم کے رکن بھی تھے۔ یہ ان کے کالج کے ابتدائی زمانے کی بات ہے جب انقلابی تنظیم کے راہ نما بھگت سنگھ اور ان کے دو ساتھیوں کو لاہور کی جیل میں پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کا انتظار تھا اور خواجہ صاحب بھی تنظیم کا رکن ہونے کی وجہ سے جیل بھیجے گئے، لیکن جلد ہی رہائی مل گئی، تاہم انھیں انڈین سول سروس میں جگہ نہیں دی گئی۔

    خواجہ خورشید انور موسیقار ہی نہیں ایک کام یاب تمثیل نگار، اور ہدایت کار بھی تھے۔ اگر ان چند گیتوں کی بات کی جائے جو آج بھی مقبول ہیں تو ان میں مہدی حسن کی آواز میں ’مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے‘، نور جہاں کا گایا ہوا نغمہ ’دل کا دیا جلایا‘، ’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘ اور کئی دوسرے گیت شامل ہیں۔

    30 اکتوبر 1984ء کو وفات پانے والے خواجہ خورشید انور نے 21 مارچ 1912 میں پنجاب کے مشہور شہر میانوالی میں آنکھ کھولی تھی۔ اُن کے والد خواجہ فیروز الدین ایک مشہور وکیل تھے۔ خواجہ صاحب نے بھی اعلیٰ‌ تعلیمی مدارج طے کیے اور فن کی دنیا میں ان کی باقاعدہ تربیت استاد توکل حسین خان صاحب نے کی۔

    موسیقار خواجہ خورشید انور کے فنی سفر کا آغاز 1939 میں آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ہوا، لیکن ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں پہلی فلم 1941 میں اس وقت کے بمبئی سے ریلیز ہوئی تھی۔ 1953 میں خواجہ صاحب بمبئی سے لاہور منتقل ہوگئے اور مجموعی طور پر اٹھارہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں انتظار، ہیر رانجھا اور کویل جیسی کام یاب فلمیں شامل ہیں۔ خواجہ خورشید انور نے بطور ہدایت کار ہمراز، چنگاری اور گھونگھٹ جیسی فلمیں بنائیں اور ان کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    1955ء میں فلم انتظار کے لیے انھیں بہترین موسیقار اور بہترین فلم ساز کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فلمی دنیا نے انھیں نگار ایوارڈ دیا اور پھر حکومت پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز کے حق دار ٹھہرے۔

    موسیقار وزیر افضل خواجہ صاحب کے باقاعدہ شاگرد تھے اور ان کے کام میں خواجہ صاحب کے فن اور تربیت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ وزیر افضل (مرحوم) کہتے تھے کہ خواجہ صاحب سے زیادہ مشرقی کلاسیکی موسیقی کا ادراک شاید ہی کسی اور فلمی موسیقار کو ہو۔

  • عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی برسی

    عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کی برسی

    خواجہ خورشید انور کی دھنوں نے کئی شعرا کے تحریر گیتوں کو لافانی اور یادگار بنایا۔ برصغیر کے اس عظیم موسیقار کی آج برسی ہے۔

    خواجہ خورشید فنونِ لطیفہ کے بڑے شائق تھے۔ علم و ادب سے بھی لگاؤ تھا۔ فلسفہ وہ مضمون تھا جس میں انھوں نے ایم اے کیا اور بعد میں انڈین سول سروس کے تحریری امتحان میں بھی شان دار کام یابی حاصل کی، لیکن انگریز سرکار کے نوکر نہیں بلکہ قیدی بن گئے، کیوں کہ وہ اس زمانے میں انقلابی تنظیم سے وابستہ تھے۔

    بعد میں وہ موسیقار ہی نہیں ایک کام یاب تمثیل نگار، اور ہدایت کار کے طور پر بھی پہچانے گئے۔ انھوں نے 30 اکتوبر 1984ء کو وفات پائی۔

    مہدی حسن کا ’مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے‘، نور جہاں کی آواز میں ’دل کا دیا جلایا‘، ’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘ اور کئی گیت خواجہ خورشید انور کی ترتیب دی ہوئی دھنوں کی وجہ سے آج بھی اپنے اندر کشش رکھتے ہیں۔

    وہ 21 مارچ 1912 میں میانوالی میں پیدا ہوئے تھے۔ خواجہ خورشید انور نے استاد توکل حسین خان صاحب سے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔

    ان کے تخلیقی سفر کا آغاز 1939 میں آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ہوا، لیکن ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں پہلی فلم 1941 میں ریلیز ہوئی۔ انھوں نے اس فلم کے بعد لاہور میں مجموعی طور پر 18 فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں انتظار، ہیر رانجھا اور کویل جیسی کام یاب فلمیں شامل ہیں۔

    خواجہ خورشید انور ہدایت کار بھی تھے اور اس حیثیت میں انھوں نے ہمراز، چنگاری اور گھونگھٹ جیسی فلمیں بنائیں اور ان کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    1955ء میں انھوں نے فلم انتظار کے لیے بہترین موسیقار اور بہترین فلم ساز کے صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ انھیں نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جب کہ حکومت پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز دیا گیا تھا۔