Tag: خواجہ دل محمد

  • خواجہ دل محمد: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    خواجہ دل محمد: ایک نابغۂ روزگار شخصیت

    علم و ادب کی دنیا میں خواجہ دل محمد اپنے وقت کے ایک نہایت قابل و باصلاحیت شخصیت مشہور تھے۔ وہ بیک وقت شاعر اور مصنف بھی تھے اور ایک ریاضی داں اور ماہرِ تعلیم بھی۔ آج اگرچہ ان کا تذکرہ شاذ ہی ہوتا ہے لیکن خواجہ صاحب جیسی شخصیات کے علمی و ادبی کارناموں سے انکار نہیں کیا جاسکتا بلکہ وہ علم و ادب کی دنیا کا ایک مثالی نام ہیں۔

    یہ بھی پڑھیے: خواجہ دل محمد کی نظم اور ڈپٹی نذیر احمد کی چوگوشیہ ٹوپی
    کہا جاتا ہے کہ خواجہ صاحب کے مورثِ اعلیٰ کو سلطان محمود غزنوی کے عہد میں مشرف بہ اسلام ہونے کی سعادت نصیب ہوئی اور تب ان کے بزرگ لاہور آکر آباد ہوگئے۔ ان کا آبائی وطن غزنی تھا جب کہ خاندانی پیشہ تجارت۔ اسی خاندان میں خواجہ دل محمد نے لاہور کے کوچہ ’’گیان‘‘ عقب کشمیری بازار میں فروری 1883ء میں آنکھ کھولی۔ وہ خواجہ نظام الدین کے فرزند تھے۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق قرآن کی تعلیم پائی اور ناظرہ مکمل کرنے کے بعد اسلامیہ ہائی اسکول شیرانوالہ گیٹ میں میں داخلہ لیا۔ میٹرک تک اسی اسکول سے درجات مکمل کیے۔ یہ وہ دور تھا جب انجمن حمایت اسلام نے اسلامیہ ہائی اسکول کی عمارت کے بالائی حصے میں کالج بھی قائم کیا تھا۔ خواجہ دل محمد نے بعد میں یہیں سے ایف اے اور بی اے کے امتحانات پاس کیے۔ کالج کے زمانے میں شیخ سر عبدالقادر ان کے استادوں میں سے تھے جن کی شخصیت اور علمی قابلیت سے خواجہ دل محمد بھی متاثر ہوئے۔

    خواجہ دل محمد کو ریاضی کے مضمون سے فطری مناسبت اور بہت رغبت تھی۔ اسی مضمون میں 1970ء میں ماسٹرز کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج ہی میں استاد مقرر ہو گئے۔ علمی دنیا سے ان کی وابستگی ہمیشہ بڑی گہری اور والہانہ رہی۔ وہ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت میں گہری دل چسپی لیتے تھے۔ اگرچہ خواجہ دل محمد کی قابلیت اور محنت و لگن کو دیکھتے ہوئے مختلف اوقات میں انھیں گراں قدر مشاہرے پر خدمات انجام دینے کی پیشکش ہوئی۔ لیکن وہ ہمیشہ اسلامیہ کالج سے وابستہ رہے۔ انھوں نے 35 برس تک اس کالج میں تشنگان علم کو فیض یاب کیا۔ 1940ء میں اسی کالج کے پرنسپل مقرر ہوگئے اور 1943 ء میں اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد رجسٹرار ضلع لاہور مقرر ہوئے۔ 1946ء میں خرابیِ صحت کے باعث یہ ذمہ داری چھوڑ دی۔ 27 مئی 1961ء کو خواجہ دل محمد انتقال کرگئے تھے۔

    بحیثیت استاد خواجہ دل محمد بہت کام یاب اور ہر دل عزیز رہے۔ ان کو تدریس کا وسیع تجربہ تھا اور ریاضی جیسا خشک مضمون بہت دل چسپ انداز سے پڑھاتے تھے۔ بحیثیت ریاضی داں ان کی خوب شہرت تھی اور کہتے ہیں‌ کہ اس زمانے میں ان کے پائے کے ماہرِ ریاضیات چند ہی تھے۔

    خواجہ دل محمد ملازمت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے کام بھی انجام دیتے رہے۔ ادبی سفر پر نظر ڈالیں تو وہ شاعری کی خداداد صلاحیت رکھتے تھے۔ انھوں نے ابتدا نعت گوئی سے کی اور بعد میں قومی و اصلاحی نظموں کی وجہ سے بھی پہچانے گئے۔ خواجہ دل محمد کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہی انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں میں ولولہ انگیز شاعری سے ہوا۔ طالب علمی کے زمانے میں خواجہ صاحب ان جلسوں میں نظمیں سناتے تھے جہاں اکابر شعرا جیسے حالی، شبلی، ڈپٹی نذیر احمد وغیرہم موجود ہوتے اور اپنا کلام پیش کرتے تھے۔ خواجہ دل محمد کو ان شخصیات سے داد ملی۔ خواجہ صاحب نے ان نظموں کو 1956ء میں ’’حیات نو‘‘ کے نام سے شائع کیا۔

    خواجہ دل محمد کی سیاسی اور سماجی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے۔ انھوں‌ نے قومی اور سیاسی تحریکوں میں حصہ لیا۔ 1924ء میں خلافت اور کانگریس کی متحدہ کمیٹی کے ٹکٹ پر میونسپل کمیٹی کے الیکشن میں حصہ لیا اور دامے درمے قدمے سخنے مسلمانوں کی مدد کرتے رہے اور اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں آزادی کا جوش اور ولولہ بھی پیدا کرتے رہے۔

    خواجہ دل محمد نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کی اعلیٰ جماعتوں کا نصاب تیار کرنے میں بھی حصہ لیا۔ پنجاب یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے گیارہ برس تک ممبر اور 24 برس تک فیلو آف پنجاب یونیورسٹی رہے۔ الجبرا اور ریاضی پر ان کی متعدد تصانیف تھیں‌ جو نصاب میں بھی شامل رہیں‌۔ دوسری طرف انجمن حمایت اسلام کے اسلامیہ اسکولوں میں ہندو اور انگریز مصنفین کی کتابیں اس وقت متعارف کروائی گئی تھیں مگر خواجہ دل محمد کی ان تصانیف کی طباعت کے بعد انھیں شامل کرلیا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد خواجہ دل محمد کی مرتب کردہ ریاضی کی 32 کتب مختلف مدارج کے نصاب میں شامل رہیں۔

  • جب دورانِ جلسہ ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا!

    جب دورانِ جلسہ ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا!

    ایک بار لاہور میں‌ انجمنِ حمایتِ اسلام کے جلسے میں اپنے وقت کی نہایت عالم فاضل شخصیات اکٹھی ہوئیں۔ ان میں سیاست سے ادب تک اپنے نظریات اور فن و تخلیق کی بدولت ہندوستان بھر میں مقام و مرتبہ پانے والے شامل تھے۔ اس موقع پر ایک جذباتی منظر بھی دیکھنے میں آیا۔ اس واقعے کو جیّد صحافی، شاعر اور افسانہ نگار عبدالمجید سالک نے اپنی خود نوشت سوانح "سرگزشت” میں یوں بیان کیا ہے۔

    اس اجلاس میں ایک بہت دل چسپ واقعہ ہوا، جو مجھے اب تک یاد ہے۔ خواجہ دل محمد صاحب ان دنوں کوئی انیس بیس سال کے نوجوان تھے اور اسی سال انہوں نے ریاضی میں ایم – اے کر کے برادرانِ وطن کے اس طعنے کا مؤثر جواب مہیا کیا تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا۔ خواجہ صاحب کی ایک خصوصیت خاص طور پر حیرت انگیز تھی کہ وہ ریاضی جیسے خشک مضمون کے ساتھ ہی ساتھ بحرِ شاعری کے بھی شناور تھے۔ اس سال انہوں نے ایک پاکیزہ مسدس "کلک گہر بار” کے نام سے پڑھی جس پر بہت پُرشور داد ملی اور انجمن کو چندہ بھی خوب ملا۔

    اس اجلاس میں شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد بھی دہلی سے آئے ہوئے تھے، سر پر چوگوشیہ ٹوپی، چہرے پر تعبّس، سفید ڈاڑھی، لمبا سیاہ چغہ جو غالباً ایل ایل ڈی کا گاؤن تھا۔ آپ نے تقریر شروع کی تو دل آویز اندازِ بیان کی وجہ سے سارا جلسہ ہمہ تن گوش ہوگیا۔

    آپ نے فرمایا، خواجہ دل محمد بہت ذہین اور لائق نوجوان ہیں اور شاعری فی نفسہ بُری چیز نہیں۔ حضرت حسان بن ثابت رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کے شاعر تھے لیکن میں کہتا ہوں کہ جو دماغ زیادہ عملی علوم کے لیے موزوں ہے اسے شعر کے شغل میں کیوں ضائع کیا جائے۔ اِس پر حاجی شمس الدّین اٹھے اور کہا کہ شعر چونکہ مسلّمہ طور پر نثر سے زیادہ قلوب پر اثر کرتا ہے اس لیے یہ بھی مقاصدِ قومی کے حصول کے لیے مفید ہے۔ چنانچہ خواجہ صاحب کی نظم پر انجمن کو اتنے ہزار روپیہ چندہ وصول ہوا جو دوسری صورت میں شاید نہ ہوتا۔

    اس پر مولانا نذیر احمد کسی قدر تاؤ کھا گئے اور کہنے لگے۔ حاجی صاحب چندہ جمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں، جو شخص خدمت میں ثابت قدم رہتا ہے اس کی بات قوم پر ضرور اثر کرتی ہے۔ یہ کہا اور عجیب دردناک انداز سے اپنی چوگوشیہ ٹوپی اتاری اور فرمایا کہ یہ ٹوپی جو حضور نظام خلد اللہ ملکہ کے سامنے بھی نہیں اتری، محض اس غرض سے اتارے دیتا ہوں کہ اس کو کاسہٴ گدائی بنا کر قوم سے انجمن کے لیے چندہ جمع کیا جائے۔ فقیر آپ کے سامنے موجود ہے، کشکول اس کے ہاتھ میں ہے، دے دو بابا، تمھارا بھلا ہوگا۔

    بس پھر کیا تھا، جلسے میں بے نظیر جوش پیدا ہو گیا۔ مولانا کی ٹوپی مولانا کے سَر پر رکھی گئی اور ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا۔ یہاں تک کہ حاجی شمس الدّین کی آواز اعلان کرتے کرتے بیٹھ گئی اور جب ذرا جوش کم ہوا تو مولانا نے پھر تقریر شروع کی اور ہنس کر حاجی صاحب سے کہا۔ اس نظم کے بعد ہماری نثر بھی آپ نے سُنی۔”

    یہ واقعہ بتاتا ہے کہ تحریکِ آزادی اور مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے لیے اس زمانے کے اکابرین کس قدر پرخلوص اور دردمندانہ طریقے سے اجتماعات اور چندہ اکٹھا کرنے کی مہمّات میں‌ شریک رہتے تھے۔ اس موقع پر اختلافِ رائے، کسی راہ نما یا کارکن کے اقدام اور فیصلے پر ناراضی اور مؤقف سے بیزاری کا اظہار بھی دراصل ان کے از حد خلوص اور بے نہایت دردمندی کا مظہر تھا۔ یہ ذاتی رنجش، بغض اور انفرادی فائدے یا اپنی انا کی تسکین کے لیے ہرگز نہ ہوتا تھا۔