Tag: خواجہ ناظم الدین

  • تقریب کا بائیکاٹ، چائے کا نہیں

    تقریب کا بائیکاٹ، چائے کا نہیں

    خواجہ ناظم الدّین وزیراعظم کی حیثیت سے کوئٹہ آئے تو کوئٹہ میونسپلٹی نے ٹاؤن ہال میں وزیراعظم کی تصویر کی نقاب کشائی کی تقریب منعقد کی۔

    صحافیوں کی نشستیں اسٹیج سے دور حاضرین کے پیچھے اور ایسی جگہ تھیں، جہاں سے وہ نہ دیکھ سکتے تھے، نہ سن سکتے تھے۔ انھوں نے یہ دیکھ کر تقریب کا بائیکاٹ کردیا اور تمام صحافی ہال سے احتجاجاً باہر نکل آئے اور ایک ہوٹل میں جا بیٹھے۔

    تھوڑی دیر بعد ایک معمر صحافی بولے اب تقریب تو ختم ہوگئی ہوگی۔ چلو چائے پییں، اس پر کسی نے کہا بائیکاٹ کیوں کیا تھا؟ معمر صحافی نے فوراً جواب دیا۔ تقریب کا بائیکاٹ کیا ہے، چائے کا تو نہیں۔

    (تصنیف ’صحافت وادیٔ بولان میں‘ سے اقتباس)

  • خواجہ ناظم الدّین: اعلیٰ ترین حکومتی مناصب سے بے سروسامانی تک

    خواجہ ناظم الدّین: اعلیٰ ترین حکومتی مناصب سے بے سروسامانی تک

    خواجہ ناظم الدین تحریکِ پاکستان اور قائدِ اعظم کے مخلص اور قریبی ساتھی تھے جو قیامِ پاکستان کے بعد اعلیٰ حکومتی منصب پر فائز ہوئے اور ایک شریف النفس اور ایمان دار سیاست دان کی حیثیت سے پہچانے گئے۔

    قیام پاکستان کے بعد سیاست کے میدان میں اپنی مخالفت، سازشوں اور اختیارات کی رسہ کشی نے انھیں سخت مایوس کیا۔ وہ 1964ء میں آج ہی کے دن حرکتِ قلب بند ہوجانے کی وجہ سے وفات پاگئے تھے۔

    پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب ”رودادِ چمن“ میں لکھتے ہیں: ”خواجہ ناظم الدین مرحوم نے آڑے وقت میں قربانیاں دی تھیں۔ مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان کی خدمت کی تھی۔ مثلاً جب ہندو اخبارات نے مسلمانوں کا ناطقہ بند کر رکھا تھا تو اسی ناظم الدین نے اپنی جملہ آبائی جائیداد بیچ کر مسلمانوں کا انگریزی اخبار ”اسٹار آف انڈیا“ کلکتہ سے جاری کروایا تھا اور خود قلاش بن کر بیٹھ گیا تھا۔ قربانی کے ایک ایسے مجسمے کو کس طرح بے آبرو کر کے ہمیشہ کے لیے سیاست سے نکال دیا گیا۔

    ان کو ایسے وقت خلافِ قانون اور خلافِ شرافت پرائم منسٹری سے ڈسمس کیا گیا، جب وہ ہنوز مسلم لیگ پارٹی کے سربراہ تھے اور پارٹی کا مکمل اعتماد ان کو حاصل تھا۔ ڈسمس ہو جانے کے بعد اس معصوم انسان کے پاس نہ رہنے کا گھر اور نہ معاش کا کوئی ذریعہ رہا۔ عارضی طور پر کراچی کے ایک مخیر شخص نے ان کی خستہ حالی پر رحم کھا کر ان کو سر چھپانے کے لیے ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لے کر دے دیا۔

    میں جب سندھ کا ریونیو وزیر بنا تو وہ میرے پاس درخواست لے کر آئے کہ ان کو سندھ میں زمین کا تھوڑا سا غیر آباد ٹکڑا دیا جائے، جہاں وہ مرغ بانی کر کے فاقہ کشی سے بچنے کا بندوبست کر سکیں۔ زمین تو میں نے دے دی مگر مرغی خانہ نہ بن سکا، مجبوراً دربدر خاک بسر وہ اپنا یہ حال لے کر ڈھاکہ پہنچے اور وہاں پاکستان کے دوست اور دشمن قائد اعظم کے اس قریبی ساتھی کا یہ حشر دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے۔ آخر ان کا دل ٹوٹ گیا اور وہ اپنی کہانی لے کر بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوگئے۔ جس ملک کو بنانے میں ناظم الدین نے نمایاں حصہ لیا تھا۔ اس میں ان کے لیے کوئی جگہ نہ نکل سکی۔“

    خواجہ ناظم الدین جدوجہدِ آزادی کے ممتاز راہ نما اور قائد اعظم محمد علی جناح کے بااعتماد ساتھی تھے۔ وہ ڈھاکا میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر سیاسی میدان میں قدم رکھا۔

    وہ ڈھاکا میونسپل کمیٹی کے چیئرمین، مجلس دستور ساز بنگال کے رکن اور متحدہ بنگال کے وزیر تعلیم، وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ کے مناصب پر فائز رہے۔

    1937ء میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور پھر تاعمر اسی جماعت سے وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان کے وزیرِ اعلیٰ اور قائد اعظم کی وفات کے بعد گورنر جنرل بنے، لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد انھیں پاکستان کا وزیرِ اعظم بنایا گیا، لیکن 1953ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے انھیں غیر آئینی طور پر برطرف کردیا اور وہ دلبرداشتہ ہوکر سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔

  • تحریکِ‌ آزادی: مولانا ظہورُ الحسن درس جن کی اقتدا میں بانی پاکستان نے نمازِ عید ادا کی

    تحریکِ‌ آزادی: مولانا ظہورُ الحسن درس جن کی اقتدا میں بانی پاکستان نے نمازِ عید ادا کی

    تحریکِ پاکستان کے راہ نما اور قائدِ‌ اعظم کے رفیق مولانا ظہور الحسن کا نام تاریخ میں ایک باکردار، جرات مند، کھرے اور سچّے انسان کے طور پر درج ہے۔ وہ ایک عالمِ دین اور شعلہ بیاں خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر اور متعدد کتب کے مصنّف و مؤلف بھی تھے۔

    9 فروری 1905ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے ظہور الحسن کے والد ایک نام ور عالمِ دین تھے۔ ان کی تربیت مذہبی اور دینی ماحول میں ہوئی جہاں انھوں نے اپنے بزرگوں کے قائم کیے ہوئے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔

    مولانا ظہور الحسن بھی عالمِ دین اور شعلہ بیاں خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر تھے۔ آپ کی مادری زبان سندھی تھی لیکن اردو پر دسترس رکھتے تھے۔

    ظہور الحسن درس بھی اپنے والد کی طرح عالمِ دین بننے کے بعد بندر روڈ کراچی میں واقع عید گاہ میں جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی امامت و خطابت کرنے لگے۔

    بندر روڈ کا عید گاہ میدان، برصغیر کے مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ تحریکِِِ پاکستان کے سلسلے میں 11 اکتوبر 1938ء کو صوبائی مسلم لیگ کانفرنس قائد اعظم محمد علی جناح کی زیرِ صدارت اسی میدان میں منعقد ہوئی تھی۔ 15 اکتوبر 1939ء کو علامہ درس کی کاوشوں سے اسی جگہ ایک تاریخی جلسہ منعقد ہوا جس میں پاک و ہند سے صفِ اوّل کے راہ نماؤں اور علما نے شرکت کی۔ 15 دسمبر 1941ء کو اسی عید گاہ میں علامہ ظہور الحسن درس کی صدارت میں کراچی مسلم لیگ کانفرنس منعقد ہوئی۔

    قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی نمازِ جمعہ و عیدین کا سب سے بڑا اجتماع اسی عید گاہ میدان میں ہوا کرتا تھا اور یہ علامہ درس کی سحر انگیز شخصیت کا کمال تھا کی لوگ دور دراز کے علاقوں سے آکر ان اجتماعات میں شرکت کرتے تھے۔

    قیام پاکستان کے چند دن بعد 18 اگست 1947ء کو نماز عید الفطر کا ایک عظیم الشّان اجتماع کراچی کی اسی عید گاہ میں منعقد ہوا، جس میں قائدِاعظم محمد علی جناح، نواب زادہ لیاقت علی خان، سردار عبدالرّب نشتر، خواجہ ناظم الدین، راجہ غضنفر علی خان، حسین شہید سہروردی و دیگر اہم حکومتی شخصیات اور اکابرینِ ملت نے مولانا درس کی اقتدا میں نمازِ عید ادا کی۔

    مولانا ظہور الحسن درس 14 نومبر 1972ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے اور قبرستان مخدوم صاحب، کراچی آسودۂ خاک ہوئے۔