Tag: خواجہ پرویز

  • ”پیار بھرے دو شرمیلے نین…” خواجہ پرویز کی یاد دلاتے رہیں‌ گے!

    ”پیار بھرے دو شرمیلے نین…” خواجہ پرویز کی یاد دلاتے رہیں‌ گے!

    پاکستان میں فلمی صنعت کے دورِ عروج میں خواجہ پرویز نے کئی بے مثال نغمات لکھے اور ان کے کتنے ہی گیت لازوال ثابت ہوئے۔ جب انڈسٹری پر زوال آیا تو وہ اسٹیج کے لیے اسکرپٹ لکھنے لگے اور فلمی منظر نامے بھی تحریر کیے۔ آج خواجہ پرویز کی برسی ہے۔

    مسرت نذیر کے شادی بیاہ کے گیتوں کی معروف البم کے نغمے بھی خواجہ پرویز نے ہی تحریر کیے تھے۔ استاد نصرت فتح علی خان نے بھی خواجہ پرویز کے کئی گیت گائے جو بے حد مقبول ہوئے۔ ”اکھیاں اڈیک دیاں“ انہی میں سے ایک ہے۔

    فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے گلوکاروں نے خواجہ پرویز کے گیت گائے ہیں۔ ملکۂ ترنم نور جہاں ، مہدی حسن اور کئی گلوکار اس میں‌ شامل ہیں جو بہت مشہور ہوئے۔ خواجہ پرویز نے نصف صدی ت پاکستانی فلمی صنعت کے لیے بطور نغمہ نگار کام کیا۔

    خواجہ پرویز 20 جون 2011ء کو وفات پاگئے تھے۔ اردو گیتوں کے ساتھ پنجابی زبان میں‌ بھی ان کے تحریر کردہ کئی نغمات مقبول ہوئے۔

    وہ 1932ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد خواجہ پرویز اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور میں گوالمنڈی کے علاقے میں آبسے۔ ان کا اصل نام خواجہ غلام محی الدّین تھا اور پرویز ان کا تخلص۔ فلمی دنیا میں انھیں خواجہ پرویز کے نام سے شہرت اور پذیرائی ملی۔

    خواجہ صاحب نے دیال سنگھ کالج سے گریجویشن کیا تھا۔ یہاں ان کی دوستی اس وقت کے معروف ہدایت کار ولی کے بیٹے سے ہوگئی۔ اسی کے توسط سے خواجہ پرویز کو ہدایت کار ولی نے جانا اور 1955ء میں انھیں اپنے اسٹنٹ کے طور پر ساتھ رکھ لیا۔ یوں خواجہ پرویز کا فلم انڈسٹری میں‌ سفر شروع ہوا۔ انھوں نے معاون ہدایت کار کے طور پر تین فلمیں‌ مکمل کروائیں، لیکن طبیعت شاعری کی طرف مائل تھی اور پھر معروف نغمہ نگار سیف الدین سیف کے ساتھ کام شروع کر دیا۔

    خواجہ پرویز سے ہدایت کار دلجیت مرزا نے اپنی فلم ’رواج‘ کے گیت لکھوائے۔ اس فلم میں مالا کی آواز میں ان کا گیت ’کہتا ہے زمانہ کہیں دل نہ لگانا‘ بہت مقبول ہوا۔ اس کے بعد وہ کام یابی کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے۔ ان کا ہر گیت ہٹ ثابت ہوا۔

    فلم سنگ دل میں ان کا نغمہ ’سن لے او جانِ وفا‘ اور اس کے بعد ’تمہی ہو محبوب مرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں‘ بہت مقبول ہوا۔ فلم آنسو کا گانا ’تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں‘ نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا اور پھر ’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘ نے سرحد پار بھی دلوں میں جگہ پائی اور لبوں پر جاری ہوا۔

    خواجہ پرویز کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک اور دوسروں کے مددگار اور خیرخواہ تھے۔ انھیں لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • کئی لازوال اور سدا بہار گیتوں کے خالق خواجہ پرویز کی برسی

    کئی لازوال اور سدا بہار گیتوں کے خالق خواجہ پرویز کی برسی

    پاکستان کی فلمی صنعت کے معروف نغمہ نگار خواجہ پرویز 20 جون 2011ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے فلم نگری میں اپنے چالیس سالہ کیریئر کے دوران اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ سیکڑوں گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور اکثر گیت لازوال اور یادگار قرار پائے۔

    1932ء میں ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہونے والے خواجہ پرویز قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور میں گوالمنڈی کے علاقے میں آبسے۔ ان کا اصل نام خواجہ غلام محی الدّین تھا جو پرویز تخلص کرتے تھے اور فلمی دنیا میں خواجہ پرویز کے نام سے مشہور ہوئے۔

    دیال سنگھ کالج سے گریجویشن کیا اور یہیں ان کی دوستی اس وقت کے معروف ہدایت کار ولی کے بیٹے سے ہوئی جن کے طفیل خواجہ پرویز ہدایت کار ولی سے ملے۔ انھوں نے 1955ء میں خواجہ پرویز کو اپنا اسٹنٹ رکھ لیا اور یہ فلمی سفر شروع ہوا۔

    خواجہ پرویز نے معاون ہدایت کار کے طور پر تین فلمیں‌ مکمل کروائیں لیکن طبیعت شاعری کی طرف مائل تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کی پہچان اور مقبولیت نغمہ نگاری بنی۔ انھوں نے معروف نغمہ نگار سیف الدین سیف کے ساتھ کام شروع کردیا اور ان کے اسٹنٹ بن گئے۔

    خواجہ پرویز سے ہدایت کار دلجیت مرزا نے اپنی فلم ’رواج‘ کے گیت لکھوائے۔ اس فلم میں مالا کی آواز میں ان کا گیت ’کہتا ہے زمانہ کہیں دل نہ لگانا‘ بہت مقبول ہوا۔ اس کے بعد وہ کام یابی کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے۔ ان کا ہر گیت گویا ہٹ ہوتا رہا۔

    فلم سنگ دل میں ان کا نغمہ ’سن لے او جانِ وفا‘ اور اس کے بعد ’تمہی ہو محبوب مرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں‘ بہت مشہور ہوا۔ فلم آنسو کا گانا ’تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں‘ نے مقبولیت کا گویا ریکارڈ قائم کیا اور پھر ’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘ نے سرحد پار بھی لاکھوں دلوں میں جگہ پائی۔

    خواجہ پرویز کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک اور دوسروں کے مددگار اور خیرخواہ تھے۔

    ذیایبطس کے مرض میں مبتلا خواجہ پرویز کو طبیعت بگڑنے پر لاہور کے میو اسپتال میں علاج کے لیے داخل کروایا گیا تھا، جہاں انھوں نے زندگی کی آخری سانس لی اور اپنے مداحوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔

    خواجہ پرویز لاہور میں میانی صاحب قبرستان میں مدفون ہیں۔

  • پیار بھرے دو شرمیلے نین کے خالق: خواجہ پرویز

    پیار بھرے دو شرمیلے نین کے خالق: خواجہ پرویز

    اکثر فرصت کے لمحات میں جب ہم ماضی کی یادوں سے بہلنے لگتے ہیں یا اکیلے پن اور تنہائی کا احساس ستاتا ہے تو کوئی گیت گنگنانے اور موسیقی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ کبھی آپ پر بھی ایسی کیفیت ضرور طاری ہوئی ہو گی جب آپ کے لبوں پر بے اختیار کوئی گیت، کوئی شعر گویا بول اٹھا ہو۔

    پیار بھرے دو شرمیلے نین جیسا خوب صورت گیت آپ سبھی نے سنا ہو گا اور کبھی گنگنایا بھی ہو گا۔ کیا آپ اس گیت کے خالق کا نام جانتے ہیں؟

    ان کا نام خواجہ پرویز ہے جو صرف اسی مقبولِ عام گیت کے خالق نہیں بلکہ انھوں نے اردو اور پنجابی زبان میں سیکڑوں نغمے تخلیق کیے جو ان کی شہرت کا سبب بنے۔ معروف نغمہ نگار خواجہ پرویز کی فلمی شاعری کو اپنے وقت کے نام ور گائیکوں نے اپنی آواز دی اور وہ سپر ہٹ ثابت ہوئے۔

    اس خوب صورت گیت نگار کا اصل نام خواجہ غلام محی الدین تھا جب کہ پرویز تخلص۔ تاہم فلمی دنیا میں انھیں خواجہ پرویز کے نام سے شہرت ملی۔

    ان کے لکھے ہوئے دیگر مشہور گیتوں میں سے چند یہ ہیں۔
    ‘‘تمہی ہو محبوب مرے میں کیوں نہ تمہیں پیار کروں’’ اپنے وقت کے مقبول ترین گیتوں میں سے ایک ہے۔

    ‘‘تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیں’’ فلم آنسو کا وہ گانا تھا جو بے حد مقبول ہوا۔

    ‘‘کہتا ہے زمانہ کہیں دل نہ لگانا’’ اُس زمانے کا ایک مقبول گانا تھا جس کی دھن ماسٹر عنایت نے بنائی تھی۔

    خواجہ پرویز کا لکھا ہوا گیت ‘‘پیار بھرے دو شرمیلے نین’’ فلم چاہت میں شامل تھا۔