Tag: خواندگی

  • دنیا بھر میں خواندگی کا عالمی دن

    دنیا بھر میں خواندگی کا عالمی دن

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواندگی کا عالمی دن منایا جارہا ہے، کرونا وائرس نے جہاں دنیا بھر کے تمام شعبوں کو نقصان پہنچایا وہیں تعلیم کا شعبہ بھی اس سے سخت متاثر ہوا۔

    رواں برس خواندگی کے عالمی دن کو کرونا وائرس سے تعلیم کے شعبے پر پڑنے والے اثرات سے منسوب کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق کرونا وائرس نے نئی نسل کی تعلیم اور سیکھنے کے عمل کو بری طرح متاثر کیا اور ننھے بچوں پر اس کا نقصان زیادہ ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق زیادہ تر ممالک میں آن لائن تعلیم دینی شروع کردی گئی تاہم اس میں بے شمار پیچیدگیاں سامنے آئیں، چنانچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اب تعلیم دینے کے طریقہ کار کا مستقبل کیا ہوگا۔

    علاوہ ازیں کرونا وائرس کی وجہ سے عالمی معیشت کو جس طرح نقصان پہنچا ہے، اور بے روزگاری میں کئی گنا اضافہ ہوگیا بلکہ مستقبل میں مزید ہوتا نظر آرہا ہے، اس سے یہ خدشہ بھی ہے کہ لاکھوں بچوں کی تعلیم منقطع ہوجائے گی۔

    پاکستان میں تعلیم کا شعبہ انحطاط کا شکار

    پاکستان میں کرونا وائرس سے قبل بھی تعلیم کا شعبہ انحطاط کا شکار تھا اور کرونا وائرس نے اس پر مزید کاری وار کیا ہے، پاکستان خواندگی کی شرح کے لحاظ سے دنیا کے 120 ممالک میں 113 ویں نمبر پر ہے۔

    ملک کی صرف 59.13 فیصد آبادی خواندہ ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت پاکستان میں اسکول جانے سے محروم بچوں کی تعداد 2 کروڑ 28 لاکھ ہے اور یہ تعداد پاکستان کو دنیا میں آؤٹ آف اسکول بچوں کے حوالے سے دوسرے نمبر پر کھڑا کردیتی ہے۔

    پہلے نمبر پر نائیجیریا ہے جہاں موجود 50 فیصد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔

  • کرونا وائرس کی وجہ سے 1 ارب سے زائد بچے تعلیم سے محروم

    کرونا وائرس کی وجہ سے 1 ارب سے زائد بچے تعلیم سے محروم

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواندگی کا عالمی دن منایا جارہا ہے، کرونا وائرس نے جہاں دنیا بھر کے تمام شعبوں کو نقصان پہنچایا وہیں تعلیم کا شعبہ بھی اس سے سخت متاثر ہوا۔

    رواں برس خواندگی کے عالمی دن کو کرونا وائرس سے تعلیم کے شعبے پر پڑنے والے اثرات سے منسوب کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق کرونا وائرس نے نئی نسل کی تعلیم اور سیکھنے کے عمل کو بری طرح متاثر کیا اور ننھے بچوں پر اس کا نقصان زیادہ ہے۔

    کرونا وائرس کی وجہ سے 190 ممالک نے اپنے اسکولز اور تعلیمی ادارے بند کردیے جس سے 1.27 ارب بچوں اور نوجوانوں کے سیکھنے کا عمل رک گیا۔

    اقوام متحدہ کے مطابق زیادہ تر ممالک میں آن لائن تعلیم دینی شروع کردی گئی تاہم اس میں بے شمار پیچیدگیاں سامنے آئیں، چنانچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اب تعلیم دینے کے طریقہ کار کا مستقبل کیا ہوگا۔

    علاوہ ازیں کرونا وائرس کی وجہ سے عالمی معیشت کو جس طرح نقصان پہنچا ہے، اور بے روزگاری میں کئی گنا اضافہ ہوگیا بلکہ مستقبل میں مزید ہوتا نظر آرہا ہے، اس سے یہ خدشہ بھی ہے کہ لاکھوں بچوں کی تعلیم منقطع ہوجائے گی۔

    پاکستان میں تعلیم کا شعبہ انحطاط کا شکار

    پاکستان میں کرونا وائرس سے قبل بھی تعلیم کا شعبہ انحطاط کا شکار تھا اور کرونا وائرس نے اس پر مزید کاری وار کیا ہے، پاکستان خواندگی کی شرح کے لحاظ سے دنیا کے 120 ممالک میں 113 ویں نمبر پر ہے۔

    ملک کی صرف 59.13 فیصد آبادی خواندہ ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت پاکستان میں اسکول جانے سے محروم بچوں کی تعداد 2 کروڑ 28 لاکھ ہے اور یہ تعداد پاکستان کو دنیا میں آؤٹ آف اسکول بچوں کے حوالے سے دوسرے نمبر پر کھڑا کردیتی ہے۔

    پہلے نمبر پر نائیجیریا ہے جہاں موجود 50 فیصد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔

    پاکستان میں بچوں کی تعلیم میں سب سے پہلی رکاوٹ صنفی تفریق اور دوسری غربت ہے، ملک کی 32 فیصد کم عمر بچیوں کو اسکول جانے سے روک دیا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں لڑکوں کے اسکول نہ جانے کی شرح 21 فیصد ہے۔

    بدقسمتی سے ملک میں تعلیم کا شعبہ دہشت گردی کے نشانے پر بھی رہا جس کی بدترین مثال آرمی پبلک اسکول حملہ اور چارسدہ یونیورسٹی حملہ ہے۔ علاوہ ازیں کچھ سال قبل خیبر پختونخواہ اور سابق فاٹا میں شدت پسندوں نے لڑکیوں کے متعدد اسکولوں کو تباہ کردیا تھا۔

    رواں برس جنوری میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ مجموعی شرح خواندگی پنجاب میں ہے جو 64.7 فیصد ہے، سندھ 62.2 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔

    اسی طرح بلوچستان 55.5 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ تیسرے اور خیبر پختونخواہ 55.3 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔

  • 2 کروڑ بچے اسکول نہیں جا رہے جو لمحہ فکریہ ہے: وزیر تعلیم

    2 کروڑ بچے اسکول نہیں جا رہے جو لمحہ فکریہ ہے: وزیر تعلیم

    اسلام آباد: وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا ہے کہ ملک میں خواندگی کی شرح 58 فیصد ہے اور یہ 60 سے 58 پر آئی ہے، 2 کروڑ بچے اسکول نہیں جا رہے جو لمحہ فکریہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری 70 سالہ تعلیمی کارکردگی پر بہت سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ خواندگی کی شرح 58 فیصد ہے، یہ 60 سے 58 پر آئی ہے، آگے جانے کے بجائے ہم پیچھے گئے ہیں۔

    شفقت محمود کا کہنا تھا کہ 2 کروڑ بچے اسکول نہیں جا رہے جو لمحہ فکریہ ہے، ہم توجہ دیتے تو خواندگی 100 فیصد ہوتی، ریاست معیاری و یکساں تعلیمی نظام بھی نہیں دے سکی۔

    انہوں نے کہا کہ تعلیمی نظام کو ملکی ضروریات کے مطابق نہ کر سکے، ہائر ایجوکیشن و پی ایچ ڈیز کو نوکریاں نہیں مل رہیں۔ پرائیوٹ سیکٹر و وفاق المدارس میں بہت بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

    وزیر تعلیم نے کہا کہ ریاست کی کمزوری ہے تعلیم کے مختلف نظام رائج ہوچکے ہیں، پرائیویٹ اسکولز کا انٹرنیشنل لنک کی وجہ سے نصاب الگ ہوگیا۔ کیمبرج سسٹم کی وجہ سے اے لیول اور او لیول کی ڈگریاں دینے لگے۔

    انہوں نے کہا کہ مدارس کا نظام تعلیم و سرٹیفکیشن بھی الگ تھا۔ تعلیمی نظام میں یکسانیت نہیں ہوتی تو دنیا کو دیکھنے کا نظریہ مختلف ہوگا۔ مختلف تعلیمی نظام کی وجہ سے قوم میں ذہن تقسیم ہوگئے، تقسیم ذہنوں سے ایک قوم بننے میں مشکل ہوتی ہے۔

    شفقت محمود نے مزید کہا کہ سرکاری و کارپوریٹ نظام انگریزی میں چلتا ہے اس لیے انگلش کو فوقیت ملی، اس سے ایک نظام کے لوگ معاشرے میں کامیاب ہونا شروع ہوئے، انگریزی والے ملازمتوں و کارپوریٹ ورلڈ میں کامیاب ٹھہرائے گئے۔

    انہوں نے کہا کہ غریب پیچھے رہ گیا اور امرا کا طبقہ آگے نکل گیا۔ ہم نے یکساں نظام تعلیم کی طرف بڑھنا ہے، چاہتے ہیں قوم میں ایک اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔

  • کس ملک کے طلبا سب سے زیادہ ذہین ہیں؟

    کس ملک کے طلبا سب سے زیادہ ذہین ہیں؟

    دنیا کی بیشتر آبادی اس وقت کسی نہ کسی قسم کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ خواندگی کی تعریف کے مطابق ہر وہ شخص جو تھوڑا سا لکھ اور پڑھ سکتا ہو خواندہ کہلایا جائے گا۔

    لیکن دنیا کی ترقی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی مرہون منت ہے۔ جن ممالک میں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد زیادہ ہوگی، یقیناً وہ ہر شعبہ میں ایک ترقی یافتہ ملک ہوگا۔

    دنیا کی عظیم درسگاہ آکسفورڈ کی سیر کریں *

    تاہم حال ہی میں تنظیم برائے معاشی تعاون اور ترقی او ای سی ڈی نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کن ممالک کے طلبا سب سے زیادہ ذہین اور فعال ہوتے ہیں۔

    رپورٹ میں شامل فہرست کے مطابق جاپان کے طلبا سب سے زیادہ ذہین اور مستعد ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ کے لیے طلبا کے تعلیمی امتحانات اور ان کی عملی زندگی میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں کا جائزہ لیا گیا۔

    فہرست میں شامل دیگر ممالک یہ ہیں۔

    فن لینڈ
    نیدرلینڈز
    آسٹریلیا
    ناروے
    بیلجیئم
    نیوزی لینڈ
    انگلینڈ
    امریکا
    چیک ری پبلک

    اس فہرست میں وہ ممالک شامل نہیں جن کی جامعات بین الاقوامی معیار کی اور دنیا کی بہترین جامعات میں سے ایک تصور کی جاتی ہیں جیسے سنگا پور اور جنوبی کوریا۔ ان دونوں ممالک میں خواندگی کی شرح بھی 96 فیصد سے زائد ہے تاہم یہ اس فہرست میں جگہ بنانے میں ناکام رہے۔

    ماہرین کے مطابق اس فہرست نے دنیا کے بہترین تعلیمی نظام کا دعویٰ کرنے والے ممالک کی اہلیت پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔

    پاکستان میں 2 کروڑ بچے تعلیم سے محروم *

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈگری تو کہیں سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن اہم یہ ہے کہ وہ ڈگری طلبا کو زندگی میں کیا دے سکتی ہے؟

    اس فہرست میں دنیا میں 100 فیصد شرح خواندگی رکھنے والا یورپی ملک انڈورا بھی شامل نہیں۔ مزید یہ کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ شرح خواندگی رکھنے والے سرفہرست 10 ممالک میں سے صرف 2 ممالک فن لینڈ اور ناروے ہی اس فہرست میں شامل ہوسکے۔

    japan-2

    ان دونوں ممالک میں شرح خواندگی 100 فیصد ہے اور او ای سی ڈی کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق ان دونوں ممالک کے طلبا نہایت ذہین پائے گئے ہیں۔