Tag: خودنوشت

  • کبوتر کو بچانے کے لیے بادل خاں خود بندوق کے چھرّے کا ہدف بن گئے!

    کبوتر کو بچانے کے لیے بادل خاں خود بندوق کے چھرّے کا ہدف بن گئے!

    اردو شاعری میں ادا جعفری کو ان کے منفرد لب و لہجے اور شستہ طرزِ کلام کی بدولت امتیازی مقام حاصل ہوا۔ تہذیبی شائستگی اور معیار ان کے کلام کا بنیادی وصف ہے جس کے ساتھ ادا جعفری کی غزلیں اور نظمیں روایت و جدّت کا حسین امتزاج ہیں۔

    فنونِ لطیفہ اور اردو ادب سے متعلق مزید تحریریں‌ پڑھیں

    ادا جعفری بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ والد کے انتقال کے بعد ان کی پرورش ننھیال میں ہوئی۔ ان کے شعری مجموعوں کے علاوہ 1995ء میں ایک خودنوشت بھی بعنوان "جو رہی سو بے خبری رہی” شایع ہوئی تھی جس میں انھوں نے اپنے ننھیال کے ایک پرانے اور وفادار نوکر کا تذکرہ کیا ہے جن کا نام بادل خاں تھا۔ ادا جعفری نے اُنھیں ایک ذمہ دار، اصولوں کا پابند اور بامروّت شخص بتایا ہے۔ خودنوشت سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

    بدایوں کے شب و روز کی یاد کے ساتھ بادل خاں کا ہیولا بھی سامنے آ جاتا ہے۔ بادل خاں چھوٹی حویلی اور بڑی حویلی کے باورچی خانوں کے نگران اعلیٰ تھے۔

    جب میں نے انہیں دیکھا بوڑھے ہو پہلے تھے۔ ڈھکتا ہوا رنگ۔ لحیم شحیم۔ اودھ کے رہنے والے تھے۔ بیٹے سے کسی بات پر ناراض ہو کر آئے تھے اور پھر مڑ کر نہیں گئے۔ بیٹا کئی بار منانے کے لیے آیا لیکن وہ اس کا سامنا نہیں کرتے۔ جیسے ہی اطلاع ملتی گھر کے کسی کونے کھدرے میں ایسے روپوش ہوتے کہ ڈھونڈے نہ ملتے۔ تنخواہ البتہ ہر مہینے بڑی پابندی سے پوتی پوتوں کے لیے بھیج دیتے تھے۔

    عجیب و غریب زبان بولتے تھے جسے لکنت بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بعض حروف کی صحیح ادائیگی سے معذور تھے لیکن بولتے فراٹے سے تھے۔ کوئی نیا آدمی ان کی بات نہیں سمجھ سکتا تھا۔ گھر میں اتنے عرصے سے تھے کہ مطلب بہرحال سب کو سمجھا دیتے۔

    غلّہ کی کوٹھری کے انچارج تھے۔ ہر صبح چاول، دالیں، آٹا، گھی، ترازو میں تول کر پکانے کے لیے دیتے۔ روٹی پکانے والی سے خاص طور پر لڑائی رہتی۔ کیا مجال کہ وہ مقررہ وزن سے چٹکی بھر زیادہ آٹا ترازو کے پلڑے میں ڈال سکے۔ کھانا تیار ہو جاتا تو ہانڈیوں کے ڈھکن اتار کر معائنہ کرنا بھی ضروری سمجھتے۔ روٹی کا کٹور دان بھی کھول کر ضرور دیکھتے۔

    گھٹنوں کے نیچے کمر بند سے بندھا ہوا چابیوں کا وزنی گچھا لٹکا رہتا تھا۔ غلّہ کی کوٹھڑی میں ایک تالا پڑتا جس کی ظاہر ہے کہ ایک ہی چابی ہو گی لیکن نہ جانے کہاں کہاں سے ان گنت چابیاں جمع کر رکھی تھیں جو اُن کی پوشاک کا حصہ بن چکی تھیں۔

    دیگلچیوں کے معائنے کے دوران میں خاموش رہنا گوارا نہیں تھا۔ گھر کے سب ملازم پرانے تھے۔ وفادار بھی اور ایمان دار بھی۔ لیکن ان کی کسی نہ کسی حرکت سے بادل خاں کو ہمیشہ چوری کا ثبوت ملتا رہتا تھا۔ کبھی خود ہی کہہ سن کر خاموش ہو جاتے، کبھی مالکوں تک رپورٹ پہنچانا ضروری سمجھتے۔ مجرم کو قرار واقعی سزا نہ ملتی تو لاکھ کے گھر کو خاک کرنے کے ملال کا اظہار برملا کرتے۔ انہیں گھر کی خواتین کے احساسِ ذمہ داری سے بڑے شکوے تھے۔

    ظاہر ہے کہ جس لہجے اور جن الفاظ میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتے اس کا نتیجہ اور جواب ہمیشہ زیرِ لب تبسم ہوتا تھا۔ ان کی مشکل یہ تھی کہ بیبیوں کا احترام بھی لازم تھا۔ ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے کبھی کوئی ملازمہ یا ملازم بد دل نہیں ہوا نہ کسی نے کبھی اس کی شکایت کی۔ جس کی بڑی وجہ ان کی غرابتِ گفتار تھی۔

    نماز کے سخت پابند تھے اور ہمیشہ بلند آواز سے پڑھتے۔ عربی الفاظ کی قرأت ایسی کہ سننے والے کو روزِ قیامت بھی یاد آتا اور ہنسی روکنا بھی دشوار ہوتا۔

    حویلیوں میں زندگی رواں دواں تھی اور بادل خان کی موجودگی سے خاصی بشاش بھی کہ ایک غیر معمولی واقعہ ظہور پذیر ہوا۔

    ان دنوں نانا نے صدقی کو چھرّے والی چھوٹی سی بندوق خرید کر دی تھی اور اب ننھّا شکاری تھا اور اس کا اشتیاق۔ سارا سارا دن نشانہ لگانے کی مشق جاری رہتی اور شکار کی تلاش بھی۔ مگر کسی چڑیا یا کوّے نے اس شوقِ بے پایاں کی پذیرائی معقول اور معروف طریقے سے نہیں کی۔ ادھر صدقی نشانہ باندھتے ادھر پرندہ مائلِ پرواز ہو جاتا۔ ایک دن سامنے کبوتر تھا۔ بادل خاں ادھر سے گزرے اور ٹھٹک گئے۔ اپنی زبان میں جو ہم لوگ سمجھ لیتے تھے، کہنے لگے۔ کبوتر کو مارنا جائز نہیں ہے، کیونکہ کبوتر روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دیتے ہیں۔ یہ انہیں کسی حاجی نے بتایا تھا۔

    آخر بچوں کی ضد کے آگے کبوتر کو بچانے کے لیے وہ خود ہدف بننے پر تیار ہو گئے۔ دیوار کی طرف منھ کر کے کھڑے ہوئے اور اپنی پیٹھ برہنہ کر دی۔ اب یہ سوچ تھی کہ پیٹھ کے کس حصے پر نشانہ آزمایا جائے۔ عین اس وقت جب اس کا فیصلہ ہو گیا بادل خاں نے مڑ کر تاخیر کا سبب جاننا چاہا۔ چھرّا بندوق کی نالی سے آزاد ہو چکا تھا۔ ان کی آنکھ کے نیچے پیوست ہو گیا۔ یہ دیکھ کر ہم سب تماشائیوں کا بھی خون خشک ہو گیا کہ اب نانا کو علم ہو گا اور خیر نہیں ہے۔ ہوا یہ کہ نانا نے ان کے چہرے پر پٹی بندھی دیکھی اور سبب پوچھا تو انہوں نے اپنا پیر پھسلنے اور کسی گستاخ اینٹ پتّھر کے بارے میں اتنی طویل تقریر کی کہ گھبرا کر نانا نے کچھ سمجھنے یا ہمدردی کرنے کی کوشش ہی ترک کر دی۔ بندوق کا چھرّا ان کے چہرے کو زخمی کر گیا تھا۔

    زخم کے معالج وہ خود ہی تھے۔ چنانچہ بخار آگیا اور ایسا کہ کئی دن پلنگ پر پڑے رہے۔ گھر والوں نے ان کا علاج تو کروایا لیکن ایک فروگزاشت ایسی ہوئی جو بادل خاں کی شان کے خلاف تھی۔ ان کے آرام کے خیال سے گھر کی کسی بی بی نے غلّہ کی کوٹھڑی کی دوسری چابی چند دن کے لیے ایک پرانی ملازمہ کو دے دی۔ اس سانحہ کا انکشاف جس دن ان پر ہوا اسی رات وہ بغیر اطلاع ہمارے گھر سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔

  • عام انتخابات: پاکستان کے مشہور سیاست دانوں کی آپ بیتیاں

    عام انتخابات: پاکستان کے مشہور سیاست دانوں کی آپ بیتیاں

    آپ بیتی یا خودنوشت میں مصنّف اپنی زندگی کے حالات و واقعات اور تجربات کو بیان کرتا ہے۔ آپ بیتی محض احوال و واقعات کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات یہ جذبات و احساسات، مشاہدات اور تجربات کا ایسا نمونہ ہوتی ہے جو بحیثیتِ مجموعی زندگی کے بارے میں مصنّف کے نقطۂ نظر کو بھی سامنے لاتی ہے۔

    اردو زبان میں خود نوشت یا آپ بیتیوں کو ایک صنفِ ادب کا درجہ حاصل ہے اور اگر کوئی آپ بیتی کسی مشہور شخصیت کی تصنیف کردہ ہو تو باذوق قارئین ہی نہیں‌ اکثر عام لوگ بھی پڑھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ خودنوشت کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں ادب اور ثقافت کی چاشنی کے ساتھ تہذیب اور معاشرت کے رنگ، تاریخ کے حوالے، سیاست اور سیاسی نظام کی کہانی بھی پرھنے کو ملتی ہے۔ غرض ہر موضوع پر مختلف واقعات اور قصّے پڑھنے کے ساتھ معلومات میں‌ بھی اضافہ ہوتا ہے۔

    پاکستان میں اس وقت عام انتخابات کا شور ہے۔ سیاسی جماعتیں‌ انتخابی منشور کا اعلان اور عوام کے سامنے مختلف جماعتوں کے قائدین اپنے سیاسی حریفوں پر الزامات عائد کرتے نظر آرہے ہیں۔ 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کی مناسبت سے ہم یہاں آپ کے لیے چند خود نوشت یا اُن آپ بیتیوں‌ کا ذکر کررہے ہیں جن کے مصنّفین نے کار زارِ سیاست میں‌ ایک عمر گزاری ہے۔

    اردو ادب میں بعض سیاست دانوں کی تحریر کردہ خود نوشت مشہور ہیں جو دل چسپ ہی نہیں‌ ایک مستند دستاویز کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔ ان آپ بیتیوں کو پڑھ کر ہم سیاست اور جمہوریت کے کئی راز، ملک میں‌ ہونے والے انتخابات کا احوال، دوست ممالک سے تعلقات، ان میں اتار چڑھاؤ، ملک دشمن عناصر اور پاکستان کے خلاف سازشوں کے بارے میں‌ جان سکتے ہیں۔ سیاسیاست اور تاریخ‌ کے طلباء کے لیے ان کا مطالعہ مفید ہو گا اور عام قارئین کی بھی دل چسپی کا باعث بنیں‌ گی۔

    سیاست پر مبنی ان مشہور آپ بیتیوں میں “پردے سے پارلیمنٹ تک”، “ہاں میں باغی ہوں”، “فرزندِ پاکستان”، “میری تنہا پرواز”، “بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک”، “ایونِ اقتدار کےمشاہدات”، “چاہ یوسف سے صدا”، “سچ تو یہ ہے”، “اور لائن کٹ گئی”، “اور بجلی کٹ گئی” شامل ہیں جن میں کئی انکشافات کیے گئے ہیں اور اسی لیے یہ خاص اہمیت کی حامل ہیں‌۔

    اور لائن کٹ گئی
    مولانا کوثر نیازی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں اور یہ انہی کی سیاسی روداد پر مبنی کتاب ہے۔ مولانا نے یہ کتاب 1977ء میں اپنے ایّامِ اسیری میں لکھی۔ یہ آپ بیتی ملک میں‌ بیسٹ سیلر کتاب ثابت ہوئی۔ مولانا کوثر نیازی نے اس کتاب میں سیاست دانوں، فوجی عہدے داروں اور خود اپنے بارے میں بھی کئی ہوشربا انکشافات کیے ہیں۔

    میں باغی ہوں
    یہ ممتاز سیاست داں جاوید ہاشمی کی آپ بیتی ہے۔ جاوید ہاشمی طویل سیاسی سفر میں کئی رازوں‌ کے امین ہیں اور کئی سرد و گرم دیکھے ہیں۔ ان کی وضع داری اور جمہوریت کی خاطر ان کی قربانیوں کا اپنے پرائے سبھی اعتراف کرتے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے اس خودنوشت میں‌ کئی عجیب و غریب واقعات اور ہوش ربا انکشاف بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک
    یہ راجہ انور کی خودنوشت ہے جنھوں نے جوانی میں میدانِ سیاست میں قدم رکھا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو تشکیل ہوتے دیکھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی قربت حاصل کی۔ مارشل لاء کے زمانے میں کئی بار جیل گئے اور اس آپ بیتی میں راجہ انور نے اسی دور کے شب و روز، اپنے خاندان اور اپنی سیاسی سرگرمیوں کو بیان کیا ہے۔ یہ آپ بیتی جیل اور قید خانوں کے بارے میں کئی حیران کن انکشافات کرتی ہے۔

    ایوانِ اقتدار کے مشاہدات
    گوہر ایوب کا نام سیاست اور افسر شاہی کے حوالے سے بہت معروف ہے اور وہ ایوب خان کے فرزند بھی ہیں۔ کئی اہم وزارتوں پر فائز رہنے والے گوہر ایوب کی یہ مشہور آپ بیتی ہے جس میں پچھلے پچاس برس میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر انقلاب اور تبدیلیوں کو بھی انھوں‌ نے بیان کیا ہے۔ گوہر ایوب خان نے ملکی سیاست اور سیاست دانوں‌ کے متعلق کئی انکشافات بھی کیے ہیں۔

    فرزندِ پاکستان
    یہ شیخ رشید احمد کی سرگزشت ہے جسے بڑی شوق سے پڑھا گیا۔ گزشتہ دہائیوں کی سیاسی، معاشی، معاشرتی تبدیلیوں پر اس کتاب میں شیخ رشید کے مشاہدات اور ذاتی تجربات کے ساتھ ہمیں ملکی سیاست کے کئی اہم واقعات اور انکشافات پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    چاہِ یوسف سے صدا
    پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی یہ آپ بیتی ان کی اسیری کے دوران رقم ہوئی۔ یوسف رضا گیلانی جس ملتان کے ایسے سیاسی اور پیر خاندان کے فرد ہیں‌ جو قیامِ پاکستان سے پہلے سے سیاست میں حصّہ لیتا رہا ہے۔

    سچ تو یہ ہے
    پنجاب کی سیاست کا ایک بڑا نام چوہدری شجاعت حسین کا ہے جن کی یہ خود نوشت چوہدری شجاعت کی پیدائش کے بعد سے 2008ء کے عام انتخابات تک کے حالات و واقعات کو ہمارے سامنے رکھتی ہے۔

    اور بجلی کٹ گئی
    یہ آپ بیتی مشہور سیاست داں اور سفارت کار سیدہ عابدہ حسین کے قلم سے نکلی ہے جس میں ان کی ذاتی زندگی کے ساتھ اہم سیاسی اور غیر سیاسی موضوعات پر تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ سب انگریزی زبان میں رقم کیا گیا تھا جس کا اردو ترجمہ بجلی کٹ گئی کے نام سے شایع ہوا۔

    میری تنہا پرواز
    مشہور صنعتی اور سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والی کلثوم سیف اللہ خان کی زندگی کے نشیب و فراز اور کام یابیوں کی داستان ہے۔ کلثوم سیف اللہ نے اپنی ذات، سیاست دانوں، حکم رانوں، ریاست اور دوسرے لوگوں سے متعلق اس کتاب میں کئی دل چسپ انکشافات کیے ہیں۔

    پردے سے پارلیمنٹ تک
    یہ معروف سیاست داں بیگم شائستہ اکرام اللہ کی آپ بیتی ہے جو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ اس آپ بیتی کی سیاست کے ساتھ ادب، تاریخ اور سماجی و معاشرتی لحاظ سے بھی کافی اہمیت ہے۔

  • بیگم انیس قدوائی اور ’’آزادی کی چھاؤں میں‘‘

    بیگم انیس قدوائی اور ’’آزادی کی چھاؤں میں‘‘

    یہ بیگم انیس قدوائی کا مختصر تعارف اور ان کی اُس خود نوشت کی تحریری جھلک ہے جو ایک طرف تو متحدہ ہندوستان کے حالات اور بٹوارے کی کرب انگیز کہانیاں سناتی ہے اور دوسری طرف اسے پڑھ کر ہم اس زمانے کی کئی نمایاں شخصیات اور ان کے کارناموں سے بھی واقف ہوسکتے ہیں۔

    کتاب کی مصنّف بیگم انیس قدوائی نے اس آپ بیتی میں ایک جگہ لکھا ہے۔

    "1947ء میں اپنا چوٹ کھایا ہوا، رِستا ہوا دل لے کر دہلی پہنچی تو گاندھی جی نے خاندان کی سب سے بیکار ہستی کو ایک ایسا کام سونپ دیا جس کی اہمیت کا اندازہ اب ہو رہا ہے۔ اسی کی بدولت میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اور اسی سلسلے میں انسانیت و بہیمیت کے بہتیرے مناظر نظر سے گزرے۔”

    بیگم انیس قدوائی گاندھی اور ان کی فکر سے بہت متاثر تھیں۔ گاندھی بھی ان کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ انیس کے شوہر کی بٹوارے کے موقع پر ہلاکت کے بعد گاندھی جی نے دل گرفتہ اور مایوس انیس قدوائی کے نام اپنے خط میں لکھا: "تمہارا درد اتنا وزنی ہے کہ اس کو سوچ کر ہی تکلیف ہوتی ہے، یہ درد بانٹنا مشکل ہے لیکن تم تو انیس ہو، تم ان کیمپوں میں جاؤ، جہاں ایسے ہی مایوس دلوں کی بھیڑ لگی ہے۔ جاؤ اور انہیں دلاسہ دو۔ کیوں کہ تم ہی ایسا کرسکتی ہو۔”

    انیس قدوائی نے ایسا ہی کیا اور پھر وہ ایک باشعور عورت، علم و ادب کی شوقین خاتون ہی نہیں رہیں، بلکہ ایک سماجی کارکن کے طور پر بھی شہرت پائی، ایک ایسی خاتون جس نے بلا تفریقِ مذہب و ملّت بٹوارے کے موقع پر فسادات سے متاثرہ خاندانوں کو سنبھالا اور ان کی باقی ماندہ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جو کچھ بن پڑا، وہ کیا۔

    اگر ہندوستان میں ادبی دنیا پر نظر ڈالیں تو انیسویں صدی میں خواتین نے جہاں ناول، افسانہ، مختلف موضوعات پر تحریریں‌ لکھ کر نام و مقام بنایا وہیں آپ بیتیاں بھی سامنے آئیں اور ان میں ہم متحدہ ہندوستان کے حالات، دلّی کی بربادی کا قصّہ، آزادی کی جدوجہد اور تقسیمِ ہند کے نتیجے میں جو کچھ ہوا، اس کی تفصیل پڑھ سکتے ہیں۔ بیگم انیس قدوائی کی خود نوشت نے بھی قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ ان کی یہ آپ بیتی ’’آزادی کی چھاؤں میں‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئی اور بہت مشہور ہوئی تھی۔ اس میں انیس قدوائی نے اپنے فلاحی کاموں اور اس دوران ہونے والے تجربات کے ساتھ ہندوستان کی تاریخی اور سماجی تصویر بھی پیش کی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ انگریزی میں بھی کیا گیا۔ یہ خود نوشت ایک ذاتی ڈائری کی طرح ہے جس میں 1947 میں آزادی کے دوران پیش آنے والے واقعات اور اس کے کچھ سال بعد کا احاطہ کیا گیا ہے۔

    ادیب اور سماجی کارکن انیس قدوائی بارہ بنکی کے مشہور نیشنلسٹ قدوائی خاندان کی فرد تھیں۔ وہ بھارت میں 1956 سے 1968 تک راجیہ سبھا کی رکن بھی رہیں۔ ان کے والد وکیل تھے اور معروف اخبار ’کامریڈ‘ اور ’نیو ایرا‘ میں مزاحیہ کالم بھی لکھتے تھے۔

    بیگم قدوائی 1902ء میں پیدا ہوئیں اور 1982ء تک حیات رہیں۔ ان کے خاوند کا نام شفیع احمد قدوائی تھا اور ان کے بھائی اُس وقت کے وزیرِ قانون رفیع احمد قدوائی تھے۔ خاوند کے فسادات میں مارے جانے کے بعد بیگم صاحبہ لاوارث بچّوں کو تحفظ دینے اور ان کی دیکھ بھال کے اداروں کے قیام کے لیے کوشاں رہیں۔

    یہ خود نوشت اردو نثر کی کسی بھی مصنّفہ کی سواںح اور تاریخ کی کتاب کے مقابلے میں اس لیے زیادہ اہمیت اختیار کرجاتی ہے کہ اسے ایک باہمّت، بلند حوصلہ عورت نے رقم کیا جس کا گھر بٹوارے نے چاٹ لیا تھا، لیکن اس نے اپنی زندگی کو بامقصد اور تعمیری انداز سے گزارا اور اپنے غم و اندوہ کو ایک مثبت طاقت میں تبدیل کر دیا۔

    انیس قدوائی کی اس خود نوشت میں ان کی نثر پُر زور اور شگفتہ ہے۔ وہ اپنا طرزِ تحریر خوب صورت اشعار سے اس طرح سجاتی ہیں کہ اکثر مقامات پر ان کی نثر میں اشعار کی وجہ سے معنی خیزی پیدا ہوگئی ہے۔

    اس کتاب کے پیش لفظ میں انیس قدوائی لکھتی ہیں۔ "انیسویں صدی کا صعوبت، افلاس اور افراتفری سے بھرپور دور اپنی دکھ بھری کہانیوں کی بدولت جہاں تاریخ کا جزو بنا، وہیں اس مردم خیز زمانے نے ایسی ایسی شخصیتیں بھی ہندوستان کو تفویض کیں جنہوں نے تاریخ، صحافت، علم، سیاست اور شعر و ادب کی دنیا کو بھی مالا مال کر دیا۔”

    اپنی کتاب کے مندرجات سے متعلق وہ لکھتی ہیں، "اگلے صفحات میں آپ جن قابلِ قدر ہستیوں سے روشناس ہوں گے، وہ سب انیسویں صدی کی پیداوار اور بیسویں صدی کی تاریخ ساز شخصیتیں تھیں۔ ان کی علمی قابلیت، اخلاقی کردار، تدبر، خوش ذوقی، دنیا سے محبت بھرا لگاؤ اور دینی خوش عقیدگی موجودہ دور میں شاید عجیب معلوم ہو، لیکن وہ اس وقت ہمیں آئیڈیل، موزوں اور خالص ہندوستانی پیداوار کی حیثیت سے بہت محبوب تھے۔”

    وہ مزید رقم طراز ہیں، "لکھنے کا کوئی مقصد ہونا چاہیے، لیکن ماضی کو دہراتے وقت اکثر مقصد نگاہ سے اوجھل ہو کر صرف خاکہ یا افسانہ رہ جاتا ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ قارئین اس میں سے اپنی پسند کی یا ضرورت کی کوئی بات چن لیں۔ صفحاتِ کاغذ پر اجاگر ہونے والوں کی خاک مٹی میں مل چکی۔ بس یہ اندیشہ ہے کہ کہیں یہ ویرانے دیوانوں کا تختۂ مشق نہ بن جائیں۔ بقول صفیؔ لکھنوی

    آج دیوانہ اڑاتا ہے جو ویرانے کی خاک
    کل اڑائے گا یونہی ویرانہ دیوانے کی خاک

    اس لیے اس خاک کو سمیٹ، عزت و احترام کے ساتھ نذرِ گلستاں کر رہی ہوں۔”

    بیگم انیس قدوائی نے اپنی اس خودنوشت میں ایک مقام پر لکھا، "1947ء میں اپنا چوٹ کھایا ہوا، رِستا ہوا دل لے کر دہلی پہنچی تو گاندھی جی نے خاندان کی سب سے بیکار ہستی کو ایک ایسا کام سونپ دیا جس کی اہمیت کا اندازہ اب ہو رہا ہے۔ اسی کی بدولت میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اور اسی سلسلے میں انسانیت و بہیمیت کے بہتیرے مناظر نظر سے گزرے۔ اقبال کا شعر پڑھا تو بہت مرتبہ تھا مگر اس کے صحیح معنیٰ سمجھ میں آنے کا شاید یہی وقت مقرر تھا اور میں قائل ہو گئی کہ واقعی؎

    نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

    دہلی میں لاکھوں آدمی دیکھے مگر ان میں اور ہندوستان کے اس قدیم مایہ ناز انسان میں کوئی مناسبت نہ تھی۔ یہ ایک نیا دور تھا جس میں ہماری شجاعت اور سورمائی بچہ کو قتل کر کے بھی اتنی ہی مطمئن اور خوش ہو سکتی تھی جتنا کہ کسی بڑے دشمن کو ختم کر کے ہوتی۔ مسلمان بے تحاشا بھاگ کر کسی کونے میں چھپ کر اسی طرح خدا کا شکر ادا کرتا تھا جیسے کوئی میدان مار کر آیا ہو۔ ایک دوسرا کسی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر خوشی سے ناچ جاتا تھا کہ وہ پورا سپاہی بن گیا ہے۔ ملیح چہروں والے نوجوان لڑکے کالج اور اسکولوں کو چھوڑ کر دیا سلائی، مٹی کا تیل، اینٹیں اور چاقو اکٹھا کرنا تحصیل علم سے زیادہ ضروری سمجھتے تھے۔ اور پھر

    گھر جلا سامنے اور ہم سے بجھایا نہ گیا

    یہ تھا سینتالیس، اڑتالیس کا ہندوستان جس کی تصویر میں آپ کو دکھانا چاہتی ہوں۔ اس لیے نہیں کہ پڑھنے والے لطف اندوز ہوں بلکہ اس لیے کہ:

    تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
    گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را

    اسی کتاب میں انیس قدوائی نے اپنے شوہر سے خط کتابت کا بتایا ہے جو تقسیم کے موقع پر دوسرے شہر میں مقیم تھے، وہاں وہ کیا کررہے تھے اور جب فسادات پھوٹے تو ان پر کیا بیتی یہ سب اس کتاب میں بتایا ہے۔ یہ کتاب اپنے طرزِ تحریر کے سبب ایک تصویری کہانی بن گئی ہے جس میں کرب ہے، کڑے وقت میں انسانی رویّوں کی منظر کشی ہے اور بہت کچھ جسے پڑھ کر دل بھر آئے۔

    انیس قدوائی کو طنز و مزاح اور انشائیہ نگاری سے دل چسپی اپنے والد سے ورثہ میں ملی تھی۔ "آزادی کی چھاؤں میں” کے علاوہ ان کی تصنیف "نظرے خوش گزرے” اور "اب جن کے دیکھنے کو” کے نام سے شایع ہوئیں۔ آخرالذّکر ان کے تحریر کردہ 13 دل چسپ اور یادگار خاکوں کا مجموعہ” ہے۔

  • عشق اولڑا جی جنجال

    عشق اولڑا جی جنجال

    نانا جان بہت پہلے فوت ہو چکے تھے؛ میری یادداشت کا حصہ ہونے سے بہت پہلے۔ تاہم وہ امی جان کی یادداشت کا حصہ تھے اور وہ ان کے حوالے سے اپنے بچپن کے کئی واقعات سنا چکی تھیں۔ یہ سب واقعات تقسیم سے بہت پہلے کے برسوں کے ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک واقعہ اس قحط کا بھی تھا جس کا ذکر میرے ایک افسانے ‘معزول نسل’ میں آ چکا ہے۔

    اس قحط میں سب گھر والے کڑوا باجرہ اور جوار کھانے کو مجبور تھے۔ تب گندم کہیں نہ ملتی تھی یا پھر اتنی مہنگی ملتی کہ خرید کر کھانے کے لیے وسائل دستیاب نہ تھی۔ ان دنوں لوگوں کے پاس پیسہ کم کم ہوتا تھا۔ سب کے حالات اتنے مخدوش ہو گئے تھے کہ یہ کم کم پیسہ بھی نہ رہا تھا۔

    نقد نہ ہونے کی صورت میں سدا رامیے کراڑ کی ہٹی سے کوئی بھی اناج، مرغیاں یا انڈے دے کر بدلے میں مطلوبہ جنس یا سوداسلف لیا جاتا تھا۔ کوئی اناج کہاں باقی بچا تھا؟ قحط نے کچھ ایسی مشکل کھڑی کر دی تھی کہ دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے۔

    بس ایک کڑوا باجرا اور ایک دو ٹوپے جوار کے میسر تھے اور اسی اناج سے پیٹ کی آگ بجھائی جارہی تھی۔ امی جان کے مطابق وہ یا ان کی بہنیں جب کڑوے باجرے یا جوار کی روٹی کھانے سے انکار کر دیتی تھیں تو اکثر وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ یا چادر کا پلو رکھ کر باہر نکل جاتے تھے ۔ یقیناً تب وہ اپنے آنسو چھپا رہے ہوتے تھے۔

    یہ بات مرد کی شان کے خلاف تصور ہوتی کہ وہ روئے۔ چاہے تکلیف برداشت کی حد سے بڑھ جائے اور چاہے دُکھ کا پہاڑ کچل کر رکھ دے اُسے برداشت اور ضبط سے کام لینا ہوتا۔ہاں عورت رو سکتی تھی۔ دھاڑیں مار مار کر رو سکتی تھی۔ دلہنیں ڈولی میں بیٹھتے ہوئے روئیں یا مائیں بہنیں انہیں رخصت کرتے ہوئے، کوئی بچھڑ جائے تو بین کیے جائیں یا کوئی بچھڑا ملے اور خوشی سے بھل بھل آنسو بہنے لگیں، عورت پر کوئی قدغن نہیں تھی۔

    مرد کا چاہے ضبط سے کلیجہ پھٹا جا رہا ہو،اُس کی آنکھ گیلی نہیں ہونے چاہیے۔ پتلیاں ذرا سا بھیگتیں تو فوراً طعنہ آجاتا ’کیا تم کوئی عورت ہو؟’

    نانا جان کو یوں منھ آنکھیں ڈھانپے باہر نکلتے دیکھ کر نانی جان نے رندھائی ہوئی آواز میں کہا تھا؛ ’عورتوں کی طرح روتا ہے۔ ’امی جان جب یہ بتا رہی تھیں تو خود بھی اپنے باپ کی طرح چہرہ دوپٹے سے ڈھانپے ہوئے تھیں۔

    (حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘ سے اقتباس)

  • جب کراچی کی دیواریں کسی ”ظِلُّ اللہ“ کو پکارتی نظر آئیں!

    پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اسکندر مرزا کے دور میں ایک سنسنی خیز اور ڈرامائی باب اُس وقت رقم ہوا تھا، جب اپنے سیاسی مستقبل کی خاطر ان کا بنایا گیا منصوبہ ناکام ہوگیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اسکندر مرزا متحدہ مملکت میں مختلف اعلیٰ عہدوں اور منصب پر فائز رہے اور 1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کے منصب پر فائز ہوئے۔ انھوں نے سیاسی بحران کی آڑ لے ملک کو پہلے مارشل لا کی طرف دھکیلا اور 1958ء میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریڑ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو برطرف کر کے جلا وطن کردیا۔ اسکندر مرزا کبھی وطن واپس نہ آسکے اور لندن میں عمر تمام کی۔

    کہتے ہیں اپنے دور میں اسکندر مرزا خود کو اس قدر مضبوط کر چکے تھے کہ سیاست داں، نواب اور عمائدین سمیت بڑے لوگ ان کی نظرِ کرم کے خواہاں‌ رہتے، لیکن پھر حالات بدلے اور وہ اپنے ہی جال میں پھنس گئے۔

    یہاں‌ ہم مولوی محمد سعید کی خود نوشت آہنگِ بازگشت سے ایک پارہ نقل کر رہے ہیں جس سے اسکندر مرزا کے ہوسِ اقتدار اور اس وقت کے سیاسی حالات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "مشرقی بازو کے سیاست دان یہ چاہنے لگے تھے کہ مغرب کو ایک وحدت میں سمونے کے بہ جائے کیوں نہ پورا ملک وحدانی طرزِ حکومت کے تحت کر دیا جائے۔”

    "الطاف نے ”تصورِ عظیم“ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا۔ جو طائفہ اب تک وفاقی طرز کا داعی تھا، وہ مغرب کو وحدت میں ڈھلتے دیکھ کے اس سے بدکنے لگا حتیٰ کہ ون یونٹ کے مؤیَّد جناب حسین سہروردی بھی اس کے مخالف ہو گئے۔ چوہدری محمد علی بہرکیف ایک دستور بنانے میں کام یاب ہوگئے۔”

    "چوہدری صاحب کا یہ کارنامہ واقعی قابلِ داد تھا کہ جس جنس کی تلاش میں قوم 10 برس سے نکلی ہوئی تھی، وہ ان کے عہد میں دست یاب ہوگئی، لیکن قوم کے سر سے شامتِ اعمال ابھی ٹلی نہیں تھی۔ اس کاروانِ بے موسیٰ کو ابھی کچھ اور ویرانوں میں بھٹکنا تھا۔ 1956ء کا دستور ایک کشتی میں سجا کے اسکندر مرزا کے محل تک لے جایا گیا۔ انھوں نے دستخط تو اس پر کر دیے اور اس کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت کا تاج اپنے فرقِ فرخ جمال پر سجا بھی لیا، لیکن ان کی نیت کچھ اور تھی۔ اعمال اگر نیتوں ہی کی ایک جھلک ہوتے ہیں، تو کراچی کے در و بام سے وہ نیتیں عیاں تھیں۔ رات کے سناٹوں میں اس شہر کی دیواریں پکار اٹھیں کہ اسکندر مرزا کو بادشاہ بنایا جائے۔”

    "یہ اشتہار اس کثرت سے دیواروں کی زینت بنے کہ فلمی ستاروں، مہ پاروں، شمشیر زنوں اور تاج داروں سے جو جگہ بچ گئی، وہ اسکندر مرزا کے نقیبوں نے اپنے شاہ کی آمد کے اعلان کے لیے وقف کر لی۔ صبح تک جگہ جگہ پوسٹر چسپاں ہوگئے اور یوں دکھائی دینے لگا کہ جیسے کراچی کی ہر دیوار کسی ”ظِلُّ اللہ“ کی منتظر ہے۔”

  • بڑھیا کے آنسو اور سولہ آنے

    بڑھیا کے آنسو اور سولہ آنے

    میں نے دفتر کے باہر بورڈ آویزاں کر رکھا تھا جس پر تحریر تھا "ملاقاتی ہر سوموار اور جمعرات کو صبح 9 بجے سے 12 تک بلا روک ٹوک تشریف لا سکتے ہیں۔”

    ایک روز ایک مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھے زمین ہے جسے پٹواری کو اس کے نام منتقل کرنا ہے لیکن وہ رشوت لیے بغیر کام کرنے سے انکاری ہے۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں، تین چار برسوں سے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہوں لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔

    اس کی درد ناک بپتا سن کر میں نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے 60۔70 میل دور اس گاؤں کے پٹواری کو جا پکڑا۔

    ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی، یہ بڑھیا بڑی شر انگیز ہے اور جھوٹی شکایتیں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی تصدیق کے لیے پٹواری اندر سے جز دان اٹھا لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا۔

    "حضور اس مقدس کتاب کی قسم کھاتا ہوں۔”

    گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا۔ "جناب ذرا یہ بستہ کھول کر بھی دیکھ لیں۔” ہم نے بستہ کھولا تو اس میں پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔ میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر اٹھا لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی اراضی کا انتقال کر دیا۔

    میں نے بڑھیا سے کہا۔ "لو بی بی تمہارا کام ہو گیا، اب خوش رہو۔” بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا اور پاس کھڑے نمبردار سے کہا۔ "سچ مچ میرا کام ہوگیا ہے؟”

    نمبر دار نے تصدیق کی تو بڑھیا کے آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے، اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لیے اور اپنی دانست میں نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیے۔

    اس ادائے معصومانہ اور محجوبانہ پر مجھے بے اختیار رونا آ گیا۔ کئی دوسرے لوگ بھی آب دیدہ ہو گئے۔ یہ سولہ آنے واحد "رشوت” ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا پہاڑ بھی مل جاتا تو میری نظروں میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔

    میں نے ان آنوں کو آج تک خرچ نہیں کیا کیوں کہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لیے مالا مال کر دیا۔

    (قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ سے انتخاب)

  • حضرت مسکین شاہ اور جنّ

    حضرت مسکین شاہ اور جنّ

    اردو کے ممتاز ادیبوں، معروف اہلِ قلم اور مشہور روحانی شخصیات کی کتابوں‌ میں‌ ہمیں‌ ماورائے عقل واقعات، ناقابلِ فہم اور حیرت انگیز قصائص پڑھنے کو ملتے ہیں۔ کئی روایات کو بھی مشاہیر نے اپنی خود نوشت سوانح عمریوں، آپ بیتی یا یادداشتوں پر مبنی کتابوں میں‌ جگہ دی ہے، جو پڑھنے والوں میں‌ بہت مقبول ہیں، لیکن یہ نہیں‌ کہا جاسکتا کہ ان واقعات کی حقیقت کیا ہے۔

    یہاں ہم ملتان سے تعلق رکھنے والے ادیب ڈاکٹر سید زاہد علی واسطی خود نوشت ‘‘بیتی یادیں’’ سے ایک واقعہ نقل کر رہے ہیں۔ اس ماورائے عقل اور حیرت انگیز واقعے کے راوی کی حیثیت سے مصنّف لکھتے ہیں:

    "دورانِ ملازمت مجھے شہر شہر گھومنا پڑتا تھا۔ پاک پتن جب بھی جاتا کینال ریسٹ ہاؤس میں قیام کرتا اور مغرب و عشاء کی نمازیں ڈرائیور شمشاد شاہ کے ساتھ بابا فریدالدین شکر گنجؒ کی مسجد میں پڑھتا۔

    یہ سنہ 74، 75 کی بات ہے۔ احاطہ مسجد بازار کے قریب ایک مہذب شخص کو ضرور دیکھتا۔ آپ سعید الدین صدیقی تھے جن کی عمر پچاس پچپن کے لگ بھگ تھی۔ ان کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا۔

    حضرت مسکین شاہ حیدر آباد دکن کے بزرگ ہیں جو تیرہویں صدی ہجری کے وسط میں تشریف لائے۔ حضرت مسکین شاہ کا حیدر آباد میں 1896ء میں انتقال ہوا۔ محلّہ علی آباد، اندرونِ دروازہ کی جامع مسجد الماس میں ان کا مزار مرجع خلائق ہے۔ ایک روز مسکین شاہ کا ذکر چل نکلا تو سعید الدّین صدیقی نے یہ بتا کر ہمیں چونکا دیا کہ مسکین شاہ زبردست عامل تھے اور بہت سارے جنّ ان کے تابع تھے۔ حضرت موصوف بہت جلالی قسم کے بزرگ تھے۔ ہمہ وقت دس بارہ مؤکل ہاتھ باندھے حاضری میں کھڑے رہتے تھے۔

    غیر حاضری ان کو بہت کھلتی تھی۔ ہمہ وقت ذرا کوئی مؤکل نظر نہ آیا، چیختے ‘‘ابے فلانا کہاں دفع ہوگیا۔’’ بس جیسے ہی وہ آتا نافرمانی، غیر حاضری کی سزا پاتا اور درخت سے الٹا لٹکا دیا جاتا۔ حیدر آباد سے ذرا فاصلے پر دریائے کرشنا بہتا ہے۔ اس میں مؤکل کو دس دس بارہ گھنٹے سزا کے طور پر پانی میں غوطے کھانے کی سزا ملتی۔ کسی نے بھی ان کے سامنے ہونہہ کی اور حضرت صاحب کے تیور بدلے۔ چشمِ ابرو کا اشارہ ہوا اور اس پر کوڑوں کی بارش شروع۔ ہائے ہائے کی صدائیں آنے لگتیں۔ معافیاں مانگی جاتیں۔ شاہ صاحب کا دل پسیج جاتا تو ہاتھ کا اشارہ ہوتا، کبھی فرماتے‘‘بس کر کیوں مرے جا رہا ہے۔ اب غلطی نہیں کرے گا۔’’ اور فوراً ہائے ہائے کی آوازیں بند ہو جاتیں۔

    سب مؤکل حضرت صاحب کی خواہش کے تابع تھے۔ نہ معلوم کتنے جنوں کو تو انہوں نے جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ کتنوں کو درختوں پر لٹکا لٹکا کر مارا۔ ایک ایسے ہی جنّ کو انہوں نے جلا دیا تھا۔ اس جنّ کا ایک بیٹا تھا۔ اس کی ماں نے کہا، ‘‘اگر تو اپنے باپ کا بیٹا ہے تو مسکین شاہ سے اپنے باپ کا انتقام لے کر دکھا۔’’

    اس نے بیٹے کو ملکِ فارس بھیج دیا جہاں عاملوں اور ساحروں کا بہت زور تھا۔ بیٹے نے اس فن کو بقدرِ ظرف سیکھا اور بڑے بڑے عملیات حاصل کیے۔ حضرت صاحب کو اطلاع مل گئی۔ آپ نے پیغام بھیجا، اگر تُو جان کی امان چاہتا ہے تو فوراً حیدر آباد سے نکل جا، ورنہ جلا کر راکھ کر دوں گا مگر وہ جنّ نہ مانا۔ انہوں نے فرمایا اچھا! میں خود وہاں آتا ہوں۔ آپ وہاں پہنچ گئے، عمل کیا مگر اس پر اثر نہ ہوا اور وہ عمل الٹے ان کے گلے پڑ گیا۔ آخر وہ سمجھ گئے کہ یہ نوجوان جنّ زبردست ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے ایک چلّہ کی اجازت دے۔ اس نے جواب دیا کہ ایک چلّہ کم ہے۔ میں تین چلّوں کی اجازت دیتا ہوں۔

    مہلت ختم ہونے پر انہوں نے محسوس کیا کہ ان کا اس نوجوان جنّ پر بس نہیں چلے گا۔ آپ چھپتے چھپاتے بھاگ نکلے، برہان پور کے قریب ایک بستی میں پہنچے، وہاں ایک گمنام فقیر درویش کسمپرسی کی حالت میں جنگل میں نظر آیا۔ حضرت صاحب نے محسوس کیا کہ نوجوان جنّ بس دم بھر میں آیا ہی چاہتا ہے اور مجھے اپنے عمل سے مار ڈالے گا، چلو اس درویش سے ہی مدد لوں۔ شاید التفاتِ نظر سے کچھ مل جائے۔

    آپ نے سلام کیا، نام بتایا اور دو زانو بیٹھ گئے۔ جواب ملا‘‘ہاں میں تجھے جانتا ہوں، یہاں کیوں مارا مارا پھر رہا ہے….؟’’ اگر تو اپنی حرکتوں سے باز آنے کا وعدہ کرے تو اللہ مالک ہے۔’’ یہ کہہ کر درویش نے ہاتھ کا اشارہ کیا تو نوجوان جن کی ماں سامنے کھڑی تھی۔ درویش بولا ‘‘اے بی بی تیری بات پوری ہوگئی اب اپنے بیٹے کو روک دے، وہ اس کو نہ مارے۔’’ جنّی نے بیٹے کو بلا لیا اور حکم دیا کہ دشمنی ختم کر دے۔ حضرت صاحب خوش خوش حیدر آباد آگئے، تمام مؤکل آزاد کر دیے اور یادِ اللہ میں ایسے مصروف ہوئے کہ مسجد الماس میں ہی آپ کا مدفن بنا۔

  • سائیں چھلّے شاہ اور دس روپے کا نوٹ

    سائیں چھلّے شاہ اور دس روپے کا نوٹ

    زندگی میں کبھی ایسا کوئی واقعہ بھی پیش آتا ہے جسے عقل تسلیم نہیں کرتی، اور اس کی کوئی توجیہ بھی نہیں پیش کر پاتی۔ بہت غور کرنے، سوچنے، واقعات کی کڑیاں ملانے کے باوجود ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی ایک ایسا ہی واقعہ اپنی مشہور خود نوشت سوانح عمری میں نقل کیا ہے۔

    یہ حیران کُن واقعہ اور پُراسرار ہستی کا تذکرہ مصنّف کی کتاب "شام کی منڈیر سے” میں شامل ہے۔ وزیر آغا پاکستان کے ممتاز نقاد، ادیب، شاعر، محقق اور انشائیہ نگار تھے۔ انھوں نے یہ واقعہ اس طرح بیان کیا ہے:

    "میں جھنگ میں دو سال مقیم رہا۔ پہلا سال تو میں نے مگھیانہ میں اپنے ایک عزیز کے ہاں گزارا اور دوسرا سال کالج کے ہاسٹل میں۔ میرے یہ عزیز مگھیانہ شہر کے کوتوال تھے۔ نہایت سخت مزاج تھے۔ عام طور سے پنجابی میں باتیں کرتے لیکن جب غصّہ آتا تو اردو میں منتقل ہو جائے اور اردو ایسے کرخت لہجے میں‌ بولتے کہ محسوس ہوتا پشتو بول رہے ہیں۔ البتہ اردو بولنے کے دوران گالیاں پنجابی میں دیتے۔ کہتے اردو میں گالیاں دوں تو ملزم اقبالِ جرم نہیں کرتا۔”

    ان کے مکان کے پاس ایک قدیم قبرستان تھا جس میں ایک فقیر سائیں چھلّے شاہ رہتا تھا۔ کبھی کبھی وہ میرے اس عزیز کے پاس بھی آتا اور گھنٹہ بھر اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے رخصت ہو جاتا۔ میرے یہ عزیز اس کے عقیدت مند تھے اور اسے ایک پہنچا ہوا فقیر سمجھتے تھے مگر ہم لڑکے بالے ہمیشہ اس کا مذاق اڑاتے۔”

    "ایک دن ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ مجھے اس سے خوف آنے لگا۔ ہُوا یہ کہ میں‌ گھر کے باہر ایک میدان میں چارپائی پر لیٹا سردیوں کی دھوپ سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ سائیں چھلّے شاہ دوسری چارپائی پر آکر بیٹھ گئے۔ کئی منٹ تک مجھے اپنی لال لال آنکھوں سے گھورتے رہے۔ پھر کہا، مجھے کچھ روپے دو! میں‌ بے اختیار ہنس پڑا۔ میں نے کہا، بابا جی میرے پاس روپے کہاں؟ واقعی میری جیب میں اس وقت بمشکل ایک روپے کی ریزگاری ہوگی۔ اگر روپے ہوتے بھی تو میں اسے کیوں دیتا؟ بابا نے گھور کر مجھے دیکھا اور تقریباً چیخ کر کہا۔ روپے نہیں‌ ہیں‌ تمھارے پاس؟ اور وہ دس روپے کا نوٹ کیا ہوا؟ میں نے حیران ہو کر کہا، کون سا دس روپے کا نوٹ بابا جی؟ مگر بابا جی نے میری بات کا جواب نہ دیا اور بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔”

    "دوپہر جب میں‌ نہانے کے لیے غسل خانے میں‌ گیا اور میں‌ نے قمیص کے نیچے پہنی ہوئی بنڈی کو اتارا تو اچانک مجھے یاد آیا کہ پچھلے ماہ جب میں وزیر کوٹ سے آیا تھا تو میری ماں نے بنڈی کی جیب میں‌ دس روپے کا نوٹ رکھ کر جیب کو سِی دیا تھا۔ انھیں سلانوالی کا تلخ تجربہ شاید یاد تھا۔ اس لیے انھوں نے میرے لیے واپسی کے کرایہ کا بندوبست کردیا تھا۔ میں نے جیب کو چُھوا، نوٹ جیب میں‌ موجود تھا۔ یکایک مجھے بابا جی کا سوال یاد آیا گیا اور میں‌ تادیر سوچتا رہا کہ بابا جی کو اس نوٹ کا علم کیسے ہوگیا؟ اس واقعے کو آج اڑتالیس برس ہونے کو آئے ہیں۔ تاحال مجھے اس کا جواب نہیں‌ ملا۔”

  • ایک ہزار روپیہ

    ایک ہزار روپیہ

    ’’حضرت احسان دانش کون تھے؟ کیا تھے؟ نئی نسل کو یہ بتانے، جتانے کے لیے ’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو‘ کہنا پڑ رہا ہے۔ احسان دانش شاعر تھے، ادیب تھے، محقق تھے، نقاد تھے، لُغت نویس تھے، ماہرِ لسانیات تھے، صاحبِ فن تھے۔ وہ استادوں کے استاد تھے۔

    یہ سطور ناصر زیدی کے سوانحی کالم سے لی گئی ہیں، وہ مزید لکھتے ہیں، ’’احسان دانشؔ ادب کی دنیا میں، اس مقام بلند پر پہنچے جس کی ہر شاعر حسرت، تمنّا ، خواہش ہی کرسکتا ہے۔‘‘

    احسان دانش برصغیر پاک و ہند کے مایۂ ناز، کہنہ مشق، پُر گو، صاحبِ فن شاعر تھے، اس عظیم مرتبے اور آفاقی شہرت کے حامل شاعر کو بے پناہ مقبولیت اور پذیرائی بیٹھے بٹھائے حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے لیے انہوں نے بڑی جدوجہد کی، بڑے پاپڑ بیلے، اس مقامِ عظمت تک پہنچنے کی مختصر روداد انہوں نے یوں بیان کی:

    ’’میں تو صرف محبت کا بندہ ہوں اور خلوص کو انسانیت کا زیور گردانتا ہوں، یہی میری کام یابی کا راز ہے۔ میں نہیں جانتا کہ میں کام یاب ہوں بھی یا نہیں یہ فیصلہ بہرحال قارئین کے کرنے کا ہے۔ بحمدِاللہ نہ تو مَیں کہیں ملازم ہوں نہ مجھے کوئی سرکاری وظیفہ ملتا ہے۔ نہ کوئی خطاب، نہ سند اور نہ کوئی ایسی جائیداد جو میرے کنبے کی کفالت کر سکے، لیکن وہ ذاتِ پاک جو ہر شے کو اس کی مختلف حالتوں میں ضرورتوں کے مطابق نشوونما دے کر اسے اپنے حدِ کمال تک پہنچاتی ہے، وہی میری نگہبان ہے۔ میرا قلم میری کفالت کررہا ہے۔ ہر چند کہ مَیں افلاس کے اونچے نیچے ٹیلوں میں بھٹک رہا ہوں لیکن مایوسی کا سایہ تک مجھ پر نہیں پڑتا شاید اس لیے کہ میں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی اپنی صداقت کو داغ دار نہیں کیا اور میری پوری زندگی قرض کی ندامت سے پاک ہے۔ حافظے میں فاقوں کے بے شمار نشان دھندلی دھندلی صورت میں موجود ہیں جو مجھ سے شکر گزاری کا تقاضا کرتے ہیں۔‘‘

    احسان دانش کی اسی بے لوث محبّت، ان کے اخلاص اور درد مندی کو اردو کے ممتاز ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے بھی رقم کیا ہے جو ناصر زیدی کی پیشِ نظر تحریر کو تقویت بخشتا ہے۔ قاسمی صاحب لکھتے ہیں:

    ’’یہ 1949ء کا ذکر ہے جب میرے ایک عم زاد محمد حیات، دق کے مرض میں مبتلا ہو کر لاہور تشریف لائے۔ نہایت پیارے اور خوب صورت انسان تھے۔ میں نے جی بھر کر ان کی خدمت کی مگر آخر وہ جاں بَر نہ ہو سکے اور میری ہی قیام گاہ (نسبت روڈ) پر ان کا انتقال ہو گیا۔‘‘

    ’’میں جب ان کی میّت کو اپنے گاؤں انگہ (ضلع خوشاب) میں دفنا کر لاہور واپس آیا تو ایک ڈاکٹر نے میری چھاتی کی اسکریننگ کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے پھیپھڑوں پر ایک دو داغ سے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ شاید دِق کے ایک مریض کے ساتھ شب و روز گزارنے کا نتیجہ ہے۔ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ تم فوراً مری یا ایبٹ آباد یا کوئٹہ چلے جاؤ، وہاں دو تین ماہ کے قیام کے بعد یہ داغ مٹ جائیں گے۔ بہ صورتِ دیگر یہ داغ دِق میں بھی بدل سکتے ہیں۔‘‘

    ’’میں اُن دنوں بالکل بیکار تھا۔ اپنے افسانوں کا ایک مجموعہ مکتبۂ اُردو کے مالک کے حوالے کر رکھا تھا اور اس کی طرف سے معاوضے کا منتظر تھا ورنہ میرے لیے کسی صحت افزا مقام کا رُخ کرنا مشکل تھا۔‘‘

    ’’نجانے میری اس دشواری کی اطلاع احسان صاحب تک کیسے پہنچی۔ ایک صبح کو میرے گھر کی گھنٹی بجی۔ کھڑکی میں سے جھانکا تو گلی میں حضرت احسان دانش کھڑے نظر آئے۔ میں نے جلدی سے دروازہ کھولا اور احسان صاحب سے اندر آنے کو کہا مگر انہوں نے فرمایا، ’نہیں ندیم! یہیں گلی میں میری بات سن لو۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر نے تمہیں مری یا کوئٹہ جانے کا مشورہ دیا ہے مگر تمہاری جیب خالی ہے۔ میرے پاس اس وقت ایک ہزار روپیہ ہے۔ یہ لو اور فوراً کسی صحّت افزا مقام پر چلے جاؤ اور یاد رکھو، تمہارا وجود نہایت قیمتی ہے۔‘…..“

    ’’میں احسان صاحب کی اس پیش کش پر حیران رہ گیا۔ میں ان کا عقیدت مند ضرور تھا مگر ہمارے درمیان ابھی محبت کا وہ رشتہ قائم نہیں ہوا تھا جس کے نتیجے میں ایک غریب شاعر اس والہیت سے دوسرے غریب شاعر کی مدد کو پہنچتا۔ میں نے احسان صاحب کو بتایا کہ مکتبۂ اردو میرے افسانوں کا مجموعہ شائع کر رہا ہے اور آج کل میں مجھے اس مجموعے کا معاوضہ ملنے والا ہے۔ اگر نہ ملا تو میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے یہ ایک ہزار روپیہ وصول کر لوں گا۔ تب احسان صاحب نے فرمایا، ”دیکھو ندیم! اگر تمہیں اپنی کتاب کا معاوضہ ملتا ہے تو ٹھیک ہے۔ میں پرسوں تک انتظار کروں گا۔ اس کے بعد تمہیں یہ رقم لینا ہی ہو گی۔“ میں نے احسان صاحب کی تائید کی۔‘‘

    ’’دوسرے روز مجھے معاوضہ مل گیا تو میں احسان صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہیں معاوضے کی رقم دکھائی تو ان کی تسلّی ہوئی اور مجھے سینے سے لگا کر اور میرے ماتھے کو چوم کر مجھے رخصت کیا۔ میں اس محبت کے نشے میں چُور یہ سوچتا ہوا واپس آیا کہ احسان نے بے لوث پیار کی کتنی بلیغ مثال قائم کر دی ہے!‘‘

  • وزیرِ اطلاعات اور ڈائریکٹر

    وزیرِ اطلاعات اور ڈائریکٹر

    نصف صدی تک پاکستان ریڈیو اور ٹی وی سے وابستہ رہنے والے آغا ناصر کی آپ بیتی ”آغا سے آغا ناصر“ میں پاکستان کی چند اہم شخصیات کا تذکرہ اور مختلف واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    یہاں ہم اسی کتاب سے ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    "ایک ساتھی ڈائریکٹر کو خود نمائی کا کافی شوق تھا۔ وزیرِ اطلاعات کا دورہ ہوا تو وہ اپنا نام لے کر بار بار وزیر صاحب کے ذہن میں اپنا نام رجسٹر کروانا چاہ رہے تھے۔”

    "کہنے لگے سر، آپ کو کوئی کام ہو تو پی اے سے صرف اتنا کہ دیں کہ زبیر علی سے ملا دو۔ اور میں نے پی اے کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ زبیر علی نہ ملیں تو ان کے اسسٹنٹ سے بات کر لیں کہ زبیر علی نے کہا تھا زبیر علی کی غیر موجودگی میں آپ کو بتا دیا جائے کہ زبیر علی اس وقت موجود نہیں ہیں اور آپ وزیر صاحب کو بتا دیں کہ زبیر علی کسی میٹنگ میں گئے ہوئے ہیں اور جیسے ہی زبیر علی واپس آئیں گے آپ کو اطلا ع کر دی جائے گی۔”

    "وزیر صاحب ساری بات سمجھ گئے اور جب جاتے ہوئے زبیر علی صاحب سامنے آئے تو مسکراتے ہوئے ہاتھ ملایا اور کہا، اچھا صدیقی صاحب پھر ملیں گے۔”