Tag: خودکشی سے بچاؤ

  • ٹوئٹر نے خودکشی سے بچاؤ کا فیچر ہٹا دیا

    ٹوئٹر کے بانی ایلون مسک نے دنیا بھر میں مقبول مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ کے فیچر میں ایک بہت بڑی تبدیلی کر دی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ٹوئٹر انتظامیہ نے ایلون مسک کے حکم پر خودکشی سے بچانے والا فیچر دیئر از ہیلپ ہٹادیا ہے۔

    دیئر از ہیلپ کا فیچر ان ممالک کے سرچ بار میں سب سے اوپر دکھائی دیتا تھا جہاں دماغی صحت، ایچ آئی وی، ویکسینی، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات، کووڈ 19، نسلی تعصب، قدرتی آفات اور آزادی اظہار رائے جیسے مسائل ہوں۔

    تاہم تاحال یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ ایلون مسک نے ایسا کیوں کیا ہے، ایلون مسک نے جمعے کے روز خودکشی سے بچانے اور دیگر معلومات فراہم کرنے والے فیچر کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    ٹوئٹر کی ٹرسٹ اور سیفٹی کی سربراہ ایلا ارون کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ہم اپنے پلیٹ فارم میں کچھ خامیوں اور دیگر چیزوں کو درست کر رہے ہیں، کچھ چیزیں عارضی طور پر ہٹائی گئی ہیں، امید ہے کہ جو چیزیں ہٹائی گئی ہیں وہ اگلے ہفتے تک دوبارہ آ جائیں گی۔

  • کیا آپ کسی کو خودکشی کرنے سے بچا سکتے ہیں؟

    کیا آپ کسی کو خودکشی کرنے سے بچا سکتے ہیں؟

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے وقت میں سے چند لمحے نکال اپنے ڈپریشن کا شکار دوستوں کی بات سن لیں، تو انہیں خودکشی جیسے انتہائی اقدام سے بچا سکتے ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل معروف بالی ووڈ اداکار سشانت سنگھ کی خودکشی نے جہاں ایک طرف تو کئی تنازعوں کو جنم دیا، وہیں دماغی صحت کے حوالے سے ہمارے رویوں پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔

    یہ موضوع اس وقت دنیا بھر میں زیر بحث ہے کہ کیوں ہم اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہوگئے ہیں کہ ہمارے پاس اپنے ارد گرد کے افراد کی پریشانی سننے کے لیے ذرا سا بھی وقت نہیں اور نہ ہم ڈپریشن کو بیماری ماننے کے لیے تیار ہے۔

    یہی ڈپریشن اور ذہنی تناؤ ہے جو کسی شخص کو خودکشی کی نہج پر پہنچا دیتا ہے اور اس کے لیے زندگی بے معنی بن جاتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی صحت کے حوالے سے معاشرے کا رویہ بذات خود ایک بیماری ہے جو کسی بھی دماغی بیماری سے زیادہ خطرناک ہے۔ ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار افراد کو پاگل یا نفسیاتی کہنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی جاتی اور ان کا ایسے مضحکہ اڑایا جاتا ہے کہ خودکشی انہیں راہ نجات نظر آنے لگتی ہے۔

    جب کوئی شخص کینسر یا کسی دوسرے جان لیوا مرض کا شکار ہوتا ہے تو کیا ہم ان کے لیے بھی ایسے ہی غیر حساسیت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں؟ یقیناً نہیں، تو پھر ذہنی صحت کے حساس معاملے میں اتنی بے حسی کیوں دکھائی جاتی ہے۔

    خودکشی کے خلاف کام کرنے والی عالمی تنظیم انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائڈ پریوینشن (آئی اے ایس پی) کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال خودکشی کرنے والے افراد کی تعداد جنگوں اور دہشت گردی میں ہلاک اور قتل کیے جانے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔

    ہر 40 سیکنڈ بعد دنیا میں کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی خودکشی کی کوشش کرتا ہے۔

    خودکشی کی طرف لے جانے والی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو خودکشی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔

    سائیکٹرک فرسٹ ایڈ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن میں کمی کا سب سے آسان طریقہ اپنے خیالات اور جذبات کو کسی سے شیئر کرنا ہے، بات کرنے سے دل و دماغ کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ ڈپریشن کا شکار شخص کو سب سے زیادہ ضرورت اسی چیز کی ہوتی ہے کہ کوئی شخص اسے بغیر جج کیے اس کی باتوں کو سنے اور جواب میں اس کی ہمت بندھائے۔

    کراچی کے ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق اگر ڈپریشن کے مریضوں کا صرف حال دل سن لیا جائے تو ان کا مرض آدھا ہوجاتا ہے۔ عام طبی امداد کی طرح سائیکٹرک فرسٹ ایڈ بھی ہوتی ہے اور وہ یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کو سنا جائے۔

    مغربی ممالک میں اسی مقصد کے لیے ڈپریشن کا شکار افراد کے لیے ایسی ہیلپ لائن قائم کی جاتی ہے جہاں دوسری طرف ان کی بات سننے کے لیے ایک اجنبی شخص موجود ہوتا ہے اور مریض جب تک چاہے اس سے بات کرسکتا ہے۔

    کیا یہ پہلے سے جانا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص خودکشی کا ارادہ رکھتا ہے؟

    ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا ہے کہ خودکشی کرنے والا عموماً خاموشی سے اپنے ارادے کی تکمیل نہیں کرتا، وہ لوگوں سے اس کا تذکرہ کرتا ہے کیونکہ لاشعوری طور پر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اس کی بات سن کر اس پر دھیان دے اور اسے اس انتہائی قدم سے روک لے۔

    ان کے مطابق ایسا شخص اپنے آس پاس کے افراد کو بار بار اس کا اشارہ دیتا ہے جبکہ وہ واضح طور پر کئی افراد کو یہ بھی بتا دیتا ہے کہ وہ خودکشی کرنے والا ہے۔

    یہ وہ مقام ہے جہاں دوسرے شخص کو فوراً الرٹ ہو کر کوئی قدم اٹھانا چاہیئے، اس کے برعکس اس کی بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

    انفرادی طور پر ہم کسی کو خودکشی کی نہج پر پہنچنے سے بچانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

    کراچی میں نفسیاتی صحت کے ایک ادارے سے وابستہ ڈاکٹر طحہٰ صابری کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مریض کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا، اور اگر سن بھی لے تو اسے معمولی کہہ کر چٹکی میں اڑا دیتا ہے جبکہ متاثرہ شخص کی زندگی داؤ پر لگی ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی شخص آپ کو اپنا مسئلہ بتائے تو اس کے کردار یا حالت پر فیصلے نہ دیں (جج نہ کریں) نہ ہی اس کے مسئلے کی اہمیت کو کم کریں۔ صرف ہمدردی سے سننا اور چند ہمت افزا جملے کہہ دینا بھی بہت ہوسکتا ہے۔

    اسی طرح لوگوں کو ڈپریشن کے علاج کی طرف بھی راغب کیا جائے۔ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ ماہر نفسیات سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں، ایک صحت مند دماغ ہی مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرسکتا ہے چنانچہ ذہنی علاج کی طرف بھی توجہ دیں۔

    اگر کسی نے خودکشی کا ارتکاب کر بھی لیا ہے تو اس کو مورد الزام نہ ٹہرائیں، نہ ہی ایسا ردعمل دیں جیسے اس نے کوئی بہت برا کام کر ڈالا ہو۔ اس سے دریافت کریں کہ اس نے یہ قدم کیوں اٹھایا۔ ایک بار خودکشی کا ارتکاب کرنے والے افراد میں دوبارہ خودکشی کرنے کا امکان بھی پیدا ہوسکتا ہے لہٰذا کوشش کریں کہ پہلی بار میں ان کی درست سمت میں رہنمائی کریں اور انہیں مدد دیں۔

    ایسی صورت میں بہت قریبی افراد اور اہلخانہ کو تمام رنجشیں بھلا کر متاثرہ شخص کی مدد کرنی چاہیئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی انا اور ضد کسی شخص کی جان لے لے۔

  • پاکستان میں ہر سال 10 لاکھ افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں: ماہرین

    پاکستان میں ہر سال 10 لاکھ افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں: ماہرین

    کراچی: طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال 10 لاکھ افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں، سائیکو تھراپی سے خودکشی کی سوچ کو روکا جاسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے جناح اسپتال میں ڈپارٹمنٹ آف سائیکیٹری اور پاکستان سائیکیٹری سوسائٹی کے تحت خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن منایا گیا، اس موقع پر منعقدہ سیمینار میں خودکشی اور ذہنی صحت سے متعلق آگاہی فراہم کی گئی۔

    سیمینار میں ماہرین نے شرکا کو بتایا کہ محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 10 لاکھ افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں، پاکستان میں خودکشی سے مرنے والوں کا باقاعدہ ڈیٹا موجود نہیں ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ 20 سے 29 سال کے افراد میں خودکشی کا رجحان زیادہ ہوتا ہے، سائیکو تھراپی سے خودکشی کی سوچ کو روکا جاسکتا ہے۔ کرونا وائرس سے لوگوں کے مرنے پر شور مچایا گیا تاہم خودکشی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ خودکشی مخالف شعور کو فروغ دینا چاہیئے۔

    سیمینار میں ماہرین نے ذہنی صحت پر مختلف سرگرمیوں کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پب جی گیم براہ راست کسی شخص کے رویے کو متاثر کرتا ہے، علاوہ ازیں 2 گھنٹے سے زائد اسکرین ٹائم بھی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

  • دماغی صحت کا عالمی دن: ہر 40 سیکنڈ بعد کسی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے

    دماغی صحت کا عالمی دن: ہر 40 سیکنڈ بعد کسی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔

    سنہ 1992 سے آغاز کیے جانے والے اس دن کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال خودکشی سے بچاؤ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر 40 سیکنڈ بعد کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی شخص ذہنی تناؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو خودکشی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کچھ عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آئیں ان کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔

    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    بعض بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس دماغی عارضے کا شکار ہیں۔