Tag: خودکشی

  • پھندا لگا کر پنکھے سے لٹکنے والا شخص گھنٹوں زندہ رہا

    پھندا لگا کر پنکھے سے لٹکنے والا شخص گھنٹوں زندہ رہا

    شارجہ: متحدہ عرب امارات کی ریاست شارجہ میں خودکشی کرنے والا بھارتی شخص پھندا لگا کر پنکھے سے جھولنے کے باوجود گھنٹوں زندہ رہا۔

    تفصیلات کے مطابق اماراتی میڈیا کی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ یہ واقعہ صنعتی علاقے میں پیش آیا جہاں ایک فلیٹ میں بھارتی شخص پھندا لگا کر پنکھے سے لٹک گیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے سے متعلق آپریشن روم میں ٹیلی فون پر اطلاع ملی تو فوری طور پر پولیس ٹیم، سی آئی ڈی، فرانزک اور دیگر امدادی ٹیمیں حرکت میں آ گئیں۔

    یہ بھی پڑھیں: دلہا نے شادی ہال میں خودکشی کرلی

    مذکورہ فلیٹ میں جب پولیس پہنچی تو دیکھا ایک شخص خود کوپھاندا لگا کر پنکھے سے جھول رہا تھا، پولیس کے مطابق جب خودکشی کرنے والے شخص کے گلے سے پھندا نکالا تو وہ زندہ تھا اور اس کی سانسیں چل رہی تھی۔

    فوری طور پر بھارتی شخص کو مقامی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹرز نے ہنگامی طبی امداد دی تاہم چندگھنٹوں بعد اس کی موت واقع ہوگئی۔

    حکام نے ضابطے کی کارروائی کے بعد لاش ورثاء کے حوالے کردی اور واقعے کی تفتیش شروع کردی۔

  • دماغی صحت کا عالمی دن: ہر 40 سیکنڈ بعد کسی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے

    دماغی صحت کا عالمی دن: ہر 40 سیکنڈ بعد کسی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔

    سنہ 1992 سے آغاز کیے جانے والے اس دن کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال خودکشی سے بچاؤ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر 40 سیکنڈ بعد کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی شخص ذہنی تناؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو خودکشی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کچھ عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آئیں ان کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔

    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    بعض بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

  • لاڑکانہ: طالبہ نمرتا کی پراسرارموت کا معاملہ، ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری

    لاڑکانہ: طالبہ نمرتا کی پراسرارموت کا معاملہ، ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری

    لاڑکانہ: ڈینٹل کالج کی طالبہ نمرتا کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی معمہ حل نہیں کرسکی۔

    تفصیلات کے مطابق لاڑکانہ میں زیر تعلیم کراچی سے تعلق رکھنے والی نمرتا کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آگئی.

    پولیس سرجن کے مطابق نمرتا کی گردن پر کسی چیزکے باندھنے کے نشانات ہیں، البت یہ نشانات رسی کے ہیں یا دوپٹے کے، ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا.

    رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نمرتا کے جسم پر کسی بھی تشدد کا نشان نہیں، البتہ حتمی رپورٹ آنے پرہی موت کی وجوہات سامنے آئیں گی.

    مزید پڑھیں: لاڑکانہ: میڈیکل کالج کے ہاسٹل سے 22 سالہ طالبہ کی لاش برآمد

    دوسری جانب نمرتا کے بھائی ڈاکٹر وشال نے  خودکشی کے امکان کو رد کر دیا ہے. نمرتا کے بھائی کے مطابق اس کی بہن خود کشی نہیں کرسکتی، اسے قتل کیا گیا ہے.

    ڈاکٹر وشال نے کہا کہ کمرے کے پنکھے پر اس طرح کا کوئی نشان نہیں، جس سے خودکشی کے مفروضے کو تقویت ملے.

    ادھر ایس ایس پی لاڑکانہ مسعود بنگش نے بتایا ہے کہ ہاسٹل کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرلی گئی ہیں، طالبہ کے موبائل فون کو ڈی کوڈ کیا جارہا، جلد تفصیلات شیئر کی جائیں گی.

  • کشمیریوں پر مظالم ڈھانے والے   بھارتی فوجی خودکشی کرنے لگے

    کشمیریوں پر مظالم ڈھانے والے بھارتی فوجی خودکشی کرنے لگے

    سری نگر : مقبوضہ کشمیر میں مظالم ڈھانے والے بھارتی فوجی خودکشی پر مجبور ہونے لگے ،مقبوضہ کشمیرکے علاقے اننت ناگ میں بھارتی فوج افسرنے سرکاری اسلحے سے خودکشی کرلی، بھارتی فوجی سی آرایف پی میں کمانڈنٹ تھا۔

    تفصیلات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں تعینات ایک اور بھارتی فوجی نے خود کشی کر لی ، مقبوضہ کشمیرکے علاقے اننت ناگ میں تعینات سی آر پی ایف کے ایک 33 سالہ اسسٹنٹ کمانڈنٹ نے خود کشی کر لی ۔

    ایم اروند نامی بھارتی فوجی افسر نے اپنے سروس اسلحے سے خود کو گولی مار کر خودکشی کی۔

    بھارتی حکام کے مطابق 40 ویں بٹالین کے ایم اروند جمعہ کی شام ضلع اسلام آباد میں اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائے گئے، انھوں نے 2014 میں سنٹرل ریزرو پولیس فورس میں براہ راست انٹری افسر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی تھی۔

    مزید پڑھیں : بھارتی آرمی افسر کی مقبوضہ کشمیرمیں پوسٹنگ کے خوف سے خودکشی ؟

    واضح رہے کہ سال 2018 کے دوران 80 بھارتی فوجی اہلکاروں نے خود کشی کی جبکہ جنوری 2007 سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں خود کشی کرنے والے بھارتی اہلکاروں کی تعداد 440 ہوگئی ہے۔

    یاد رہے جولائی مین بھارت میں ریلوے ٹریک سے ملنے والی آرمی افسر کی لاش معمہ بن گئی تھی ، مقامی انتظامیہ تاحال یہ طے کرنے سے قاصر ہے کہ آیا اس افسر نے خود کشی کی ہے یا اسے قتل کیا گیا ہے ۔

    بتایا جارہا تھا کہ کیپٹن پوری کی پوسٹنگ بھارتی مقبوضہ جموں اور کشمیر کے علاتے پلواما میں کردی گئی تھی جس کے سبب وہ خوش نہیں تھا اور وہاں نہیں جانا چاہتا تھا۔

  • مرد خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ وجوہ سامنے آ گئیں

    مرد خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ وجوہ سامنے آ گئیں

    کیا آپ جانتے ہیں کہ خود کشی کا رجحان عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں زیادہ ہے، اگرچہ خود کشی کی کوشش کی شرح خواتین میں زیادہ ہے تاہم عالمی اعداد و شمار کے مطابق ہر 40 سیکنڈ میں ایک مرد خود کشی کر لیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مرد ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں لیکن یہ سوال ماہرین کو پریشان کر رہا تھا کہ ڈپریشن کی کیا وجوہ ہیں، یہ جاننے کے لیے وسیع سطح پر تحقیقات کی گئیں، اور آخر کار ڈپریشن کی وجوہ سامنے آ گئیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مرد اپنے مسائل پر بات کرنے سے کتراتے ہیں، وہ مدد بھی کم ہی حاصل کرتے ہیں، اگر مرد اپنے مسائل پر کھل کر بات کریں اور ضرورت پڑنے پر بے جھجک مدد طلب کیا کریں تو ان کے اندر ڈپریشن اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر سکے گی۔

    یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے ذہنی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، مشی گن یونی ورسٹی کے ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے معاملات حقیقی زندگی کی عکاسی کم ہی کرتے ہیں۔

    ماہرین نے سوشل میڈیا پر گزارے ہوئے وقت کو تنہائی اور اداسی سے بھی جوڑا ہے، ان کا خیال ہے کہ زیادہ وقت سوشل میڈیا کی نذر کرنے سے تنہائی اور اداسی ہمارے گلے پڑ سکتی ہے۔ چناں چہ یونی ورسٹی آف پنسلوینیا کی ایک تحقیق میں تجویز کیا گیا ہے کہ ڈپریشن کا شکار شخص سوشل میڈیا پر اپنے وقت میں کمی لائے۔

    آکسفرڈ یونی ورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ مردوں کے لیے تہنائی سے نمٹنا زیادہ مشکل ہوتا ہے، تنہائی، ڈمینشیا یعنی بھولنے کا مرض، متعدی امراض وغیرہ انسانی رویے پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرد اپنے اندر کی گھٹن سے چھٹکارا نہیں پاتے، بچپن سے انھیں رونے سے بھی مرد کہہ کر منع کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے گھٹن ان کے اندر ہی رہ جاتی ہے، اور وہ تنہائی محسوس کرتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، جب کہ رونے کے عمل سے انسان ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔

    پاکستان ہی نہیں، بلکہ امریکا، برطانیہ اور یورپ تک میں لڑکوں کو سکھایا جاتا ہے کہ مرد نہیں روتے، یہ کم زوری کی علامت ہے، جس کا بعد میں ان کی نفسیات پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    ماہرین نے ڈپریشن کی ایک اور وجہ بھی معلوم کی ہے، کہ مرد عموماً یہ سوچتے ہیں کہ انھیں گھر کے سرپرست کی حیثیت سے کمانا ہے اور زیادہ کمانا ہے، معاشی ذمہ داری کا یہ بوجھ اور معاشی طور پر کام یاب بننے کی تگ و دو ذہنی صحت کا مسئلہ بن سکتا ہے، اسی طرح بے روزگاری بھی ایک وجہ ہے۔

    ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ بعض نوجوان اپنی جسمانی ساخت کو لے کر بہت زیادہ حساس ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ ڈپریشن کی طرف چلے جاتے ہیں۔

    واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال 10 لاکھ انسان خود کشی کرتے ہیں۔ خود کشی کی یہ شرح فی ایک لاکھ افراد میں 16 فی صد بنتی ہے، اس حساب سے دنیا میں ہر 40 سیکنڈز بعد ایک شخص خودکشی کرتا ہے۔

  • بدین:انٹرنیٹ پربلیک میلنگ سے تنگ آکرخودکشی کرنے والی طالبہ کا مقدمہ درج

    بدین:انٹرنیٹ پربلیک میلنگ سے تنگ آکرخودکشی کرنے والی طالبہ کا مقدمہ درج

    بدین: سوشل میڈیا پر بلیگ میلنگ سے تنگ آکر خودکشی کرنے والی طالبہ انیلا کا مقدمہ والد کی مدعیت میں درج کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق بدین میں انٹرنیٹ پربلیک میلنگ سے تنگ آکرخودکشی کرنے والی طالبہ کا مقدمہ والد کی مدعیت میں ٹنڈو غلام علی تھانے میں درج کیا گیا۔

    پولیس کے مطابق ایف آئی آر میں سوم چند کو مرکزی ملزم نامزد کیا گیا ہے جبکہ مہیش اور اشوک کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

    دوسری جانب مرکزی ملزم سوم چند نے سوشل میڈیا پرایک بیان میں تمام الزامات مسترد کرتے ہوئے گرفتاری دینے کا اعلان کیا ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر بلیگ میلنگ سے تنگ آکر لڑکی کے خودکشی کرنے کا واقعہ سامنے آیا تھا۔

    متوفی لڑکی کے ورثاء کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی کی ایک تحریر سے بلیک میلنگ کا انکشاف ہوا لڑکی کو ایک نوجوان اور اس کے ساتھی ایڈٹ شدہ تصاویر سے بلیک میل کررہے تھے۔

    انیلا کے والد کا کہنا تھا کہ 18 مئی کی رات کو بیٹی نے زہرپی لیا تھا، اسے حیدرآباد لے جایا گیا مگر وہ نہ بچ سکی۔ آخری وقت میں انیلا نے تینوں ملزموں کے نام لیے تھے۔

  • برطانیہ میں 7 سال کے دوران 300 نرسوں کی خودکشی

    برطانیہ میں 7 سال کے دوران 300 نرسوں کی خودکشی

    لندن: برطانیہ میں 7 سالوں کے دوران 300 نرسوں کی خود کشی کے واقعات نے کئی سوالات پیدا کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 7 سال کے دوران 300 نرسوں نے خودکشی کی۔ خود کشی کرنے والی نرسوں کے لواحقین خود کشی کے رحجان کو مسلسل کام کی تھکن اور نفسیاتی ڈپریشن قرار دیتے ہیں۔

    برطانوی اخبار کے مطابق ملک میں نرسوں کی خود کشیوں کے بڑھتے واقعات کے تناظر میں شہریوں نے حکومت سے نرسنگ کورس کرنے والی لڑکیوں کی تربیت کے دوران ان کی ذہنی صحت پرخصوصی توجہ دینے کے لیے مزید اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

    اخباری رپورٹ کے مطابق 22 سالہ نرس لوسی ڈی اولیویرا نے لیورپول میں 2017ء کے دوران ٹریننگ کے عرصے میں خود کشی کرلی تھی۔

    لوسی کی 61 سالہ والدہ نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ میری بیٹی کو دماغی عارضہ لاحق تھا۔ لوسی نرسنگ کورس کے دوران دیگرملازمتیں بھی کررہی تھی جب اس نے خود کشی کی تو اس وقت اس کی توجہ زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت پر مرکوز تھی۔

    لوسی کی والدہ کا کہنا ہے کہ میں اگرچہ اپنی بیٹی کو واپس نہیں لاسکتی مگر ہمیں اس طرح کے واقعات کی روک تھام اس سے عبرت حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔

  • خیبرمیڈیکل کالج، خودکشی کرنے والے طالب علم کے والد نے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کردیا

    خیبرمیڈیکل کالج، خودکشی کرنے والے طالب علم کے والد نے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کردیا

    مردان: خیبرمیڈیکل کالج کے  مبینہ طور پر خودکشی کرنے والے طالب علم تسنیم انجم کے والد نے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔

    طالب علم کے والد ڈاکٹر انجم خالد کا کہنا تھا کہ تسنیم میرا اکلوتا بیٹا تھا، وہ بہت ذہین اور قابل تھا، میٹرک اور ایف ایس سی کے امتحانات میں اول پوزیشن حاصل کرنے والا ذہنی دباؤ کی وجہ سے خود کشی نہیں کرسکتا۔

    طالب علم کے والد ڈاکٹر انجم خالد نے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا، انہوں نے خیبرمیڈیکل کے کالج پرنسپل کو شامل تفتیش کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ کالج انتظامیہ نے واقعے کے 7 روز کے بعد مجھے بیٹے کی اطلاع دی اور  میری اجازت کے بغیر ہی اُس کا پوسٹ مارٹم کر کے رپورٹ تیار کی گئی۔

    مزید پڑھیں: میں جوان ہوں،میرے اعضا عطیہ کئے جائیں، طالب علم کا خودکشی سے پہلے آخری پیغام

    یاد رہے کہ مردان کے خیبرمیڈیکل کالج اور یونیورسٹی میں زیر تعلیم فائنل ائیر کے نوجوان طالب علم تسنیم انجم نے 6 فروری کی رات ہاسٹل کے کمرے میں پھندا ڈال کرمبینہ خودکشی کی تھی، پولیس کی تحقیقات اور پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ نوجوان نے ذہنی دباؤ کی وجہ سے خودکشی کی۔

    پولیس نے تحقیقات کے لیے طالب علم کی اشیاء قبضے میں لیں تو اُن میں سے آخری پیغام یا وصیت ملی تھی جس میں تسنیم انجم کا کہنا تھا کہ میں جوان ہوں لہذا تدفین سے قبل میرے اعضاء عطیہ کیے جائیں۔

  • میں جوان ہوں،میرے اعضا عطیہ کئے جائیں، طالب علم کا خودکشی سے پہلے آخری پیغام

    میں جوان ہوں،میرے اعضا عطیہ کئے جائیں، طالب علم کا خودکشی سے پہلے آخری پیغام

    پشاور : خیبرمیڈیکل کالج پشاور کے طالب علم نے خودکشی سے پہلے آخری پیغام میں کہا میں جوان ہوں، میرے اعضا عطیہ کئے جائیں، تسنیم انجم نے گذشتہ رات ہاسٹل کمرے میں پھندا ڈال کرمبینہ خودکشی کی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق خیبرمیڈیکل کالج پشاور کے طالب علم تسنیم انجم کی خودکشی کا کیس میں پولیس نے بتایا کہ طالبعلم نےکاغذ پراپنے اعضا عطیہ کرنے کا تحریری پیغام چھوڑا ہے اور کہا میں جوان ہوں،میرے اعضا عطیہ کئے جائیں۔

    پولیس نے بتایا کہ لواحقین کےمطابق تسنیم کوکوئی نفسیاتی مسئلہ درپیش نہیں تھا، طالب علم کے لیپ ٹاپ اورموبائل فون کافرانزک معائنہ کیاجارہاہے۔

    مزید پڑھیں : پشاور: ذہنی تناؤ کے باعث طالب علم نے خود کشی کرلی

    یاد رہے سنیم انجم نے گذشتہ رات ہاسٹل کمرے میں پھندا ڈال کرمبینہ خودکشی کی تھی ، نوجوان فائنل ائیر کا طالب علم تھا جبکہ پولیس کی تحقیقات میں خود کشی کی وجہ ذہنی دباؤ ظاہر کی گئی تھی۔

  • ڈپریشن کی بڑی وجہ سامنے آگئی

    ڈپریشن کی بڑی وجہ سامنے آگئی

    ڈبلن: آئرلینڈ کے ماہرین نے کہا ہے کہ عمر رسیدہ افراد ’وٹامن ڈی‘ کی کمی کے باعث ذہنی تناؤ (ڈپریشن) کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آئرلینڈ کے ماہرین نے ذہنی تناؤ کے حوالے سے تحقیق کی جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بالخصوص عمر رسیدہ افراد میں ڈپریشن کی وجہ وٹامن ڈی کی کمی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق کے دوران 75 فیصد ڈپریشن کے مریضوں میں وٹامن ڈی کی کمی پائی گئی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وٹامنز کی کمی ہی ذہنی تناؤ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    چار سالہ تحقیق اور سروے ی رپورٹ میں ماہرین نے یہ بھی مشورہ دیا کہ عمر رسیدہ افراد معمولی اختیاط کر کے ذہنی تناؤ سے محفوظ رہ سکتے ہیں، اسی طرح نوجوان بھی وٹامنز کی مقدار کو یقینی بنائیں تو مستقبل میں بھی ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے۔

    مزید پڑھیں: وٹامن ڈی بریسٹ کینسر کی شدت میں کمی کے لیے معاون

    ماہرین کے مطابق درمیانی عمر یا پچاس سال کی عمر کے بعد ڈپریشن کی وجہ سے معیار زندگی اس قدر دشوار بنادیتا ہے کہ قبل از وقت انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

    وٹامن ڈی کیا ہے؟

    ہمارے جسم میں موجود کروڑوں خلیات کو چوبیس گھنٹے غذائیت سے بھرپور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، ان ہی سے وٹامنز پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو توانائی اور جسم کو فعال رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس کی کمی انسانی جسم کو نڈھال اور خطرناک بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    وٹامنز کیمیائی مرکبات ور اہم غذائی ضرورت ہیں جو کسی بھی خلیے کی بنیادی ضرورت کو پورا کرتے ہوئے انسان کو متحرک رکھتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: وٹامن ڈی کی کمی کے باعث ہونے والی بیماریاں

    قدرتی طور پر انسانی جسم میں کئی اقسام کے وٹامنز پائے جاتے ہیں جن میں وٹامن اے، بی، بی 6 ، بی 12، وٹامن سی، ڈی، ای اور سمیت دیگر شامل ہیں، تمام وٹامنز اہم خدمات انجام دیتے ہیں۔

    وٹامن ڈی کی اہمیت

    جسم کو درکار وٹامنز میں وٹامن ڈی سب سے اہم وٹامن ہے جو جسم کے عضلات، پٹھوں ہڈیوں اور دانتوں کو مضبوط بناتا ہے اور جسم کے اہم اعضاء جیسے دل، گردے، پھیپھڑے اور جگر کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    انسانی جسم جذبات خوشی، غمی، عزم، حوصلے کو کنٹرول کرنے والے نیورو ٹرانسمیٹرز ڈوپامن، سیروٹونن اور ایڈرینانن کے تناسب میں کمی سے انسان خودکشی کی طرف راغب ہوتا ہے، نیورو ٹرانسمیٹرز کی خرابی وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔