Tag: خودکشی

  • کمسن بچوں میں خودکشی کے اسباب اوران کا تدارک

    کمسن بچوں میں خودکشی کے اسباب اوران کا تدارک

    گزشتہ روز شہرِ قائد میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا، فیڈرل بی ایریا میں واقع ایک نجی اسکول کے طالب علم نے زندگی کے ان دنوں میں اپنی جان دینے کافیصلہ کیا جن دنوں میں کوئی انسان جینے کے لیے نئے نئے مقاصد تلاش رہا ہوتا ہے، آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کوئی کمسن ذہن خودکشی پر آمادہ ہوجاتا ہے اور اس کے سدباب کے کیا طریقے ہیں؟۔

    حبیب اللہ کی عمر 11 سال تھی ، پانچویں جماعت کے اس طالب علم نے اسکول کی بالائی منزل سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی، ذرائع کا کہنا ہے کہ بچہ شوگرکا مریض بھی تھا۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ اسکول انتظامیہ بچے کے والدین کے ساتھ تعاون نہیں کررہی اور تاحال انہیں سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں دکھائی گئی۔

    [bs-quote quote=”شوگر کے مریض تناؤ اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں، یہ حالتیں کسی بھی شخص کو خودکشی کی جانب مائل کرسکتی ہیں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”ڈاکٹر روحی افروز”][/bs-quote]

    یقیناً یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ اسکول جہاں والدین اپنے بچے کو یہ سوچ کر چھوڑ کرجاتے ہیں کہ یہاں گزارے ہوئے وقت کے دوران ان کا بچہ اچھی تعلیم او رتربیت حاصل کرکے معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنے گا، وہیں ایسا سانحہ پیش آجائے۔ یقیناً اسکول کے اوقات میں بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانا اسکول انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ انتظامیہ کو اس حادثے سے بری الذمہ قرار دیا جائے۔ ابھی تو یہ بات بھی زیرِ بحث ہے کہ آیا یہ خودکشی تھی یا قتل کی واردات ہے۔

    جب تک اس کیس کی تحقیقات آگے بڑھتی ہیں ، ہم جائزہ لیتے ہیں کہ ایسی کونسی وجوہات ہیں جن کے سبب کوئی کم عمر یا ٹین ایجر بچہ اس حد تک دلبرداشتہ ہوجاتا ہے کہ خود کشی کرنے پر مجبور ہوجائے۔

    کم عمربچوں میں خودکشی کے بنیادی اسباب


    دنیا کے نامور ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ کم عمر بچوں میں خود کشی کرنے کی وجوہات انتہائی کم ہوتی ہیں اور اگر کوئی بچہ خودکشی کررہا ہے تو اس کے لیے حالات یقیناً اس کے ارد گرد موجود افراد نے پیدا کیے ہیں۔

    اسکول میں بدمعاشی کا نشانہ بننا

    ہم میں سے اکثر اپنی اسکول لائف میں بڑے طالب علموں کی جانب سے بدمعاشی کی حد تک برے رویے کا سامنا کرچکے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جس اسکول میں ہم اپنے بچے کو بھیج رہے ہیں وہاں طرح طرح کے خاندانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے بچےآتے ہیں۔

    ایسے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ کہیں کوئی بدمعاش آپ کے بچے کو بدمعاشی کا نشانہ تو نہیں بنا رہا۔ بعض بچے اس قدر حساس ہوتے ہیں کہ ایسے واقعات پر اگر ان کی سنوائی نہ ہو تو موت کو گلےلگانا بہتر سمجھتے ہیں۔

    اچھے اسکول میں داخلہ نہ ملنا

    بعض بچوں کے والدین ان کی تعلیم کو لے کر حد سے زیادہ سنجیدہ ہوجاتے ہیں۔ عموماً پرائمری کے بعد ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بچہ کسی اچھے اسکول میں داخل ہوجائے۔ اگر بچہ ایسے اسکولوں کا امتحان پاس کرنے میں ناکام ہوجائے تو والدین نادانی میں بچے کو طنز و تشنع کا نشانہ بناتے ہیں ، جس سے بچے کی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے، یہ بھی بچوں کو خودکشی پر راغب کرنے کا سبب بنتا ہے۔

    بہن بھائیوں کا برا برتاؤ

    بعض گھروں میں بہن بھائیوں کے آپسی رویے پر توجہ نہیں دی جاتی اور ایسے ماحول میں کوئی ایک بچہ جو بہت زیادہ بولڈ نہیں ہوتا ، اپنے بہن بھائیوں کے برے رویے کا شکار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بہن بھائیوں کے خراب رویے خاندان میں تفریق کا سبب بنتے ہیں اور بعض اوقات کچھ بچے اس حد تک دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں کہ خودکشی کرلیتے ہیں۔

    کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا

    یہ رویہ عموماً ان بچوں میں نشونما پاتا ہے جہاں الگ خاندان کا رواج رائج ہے ، اور ماں باپ فکر ِ معاش میں بدحال اپنے بچے پر توجہ نہیں دے پارہے ہوتے۔ ایسے ماحول میں بچے کے اندر شدت سے تنہائی کا احساس ابھر آتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس بھری دنیا میں اسے پیار کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ یہ احساس کبھی کبھار اس قدر توانا ہوتا ہے کہ بچہ خود کشی پر مائل ہوجاتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ گاہے بگاہے بچے کو گلے لگا کر ، اسے پیار کرکے احساس دلائیں کہ آپ اس سے کتنا پیار کرتے ہیں۔

    جنسی یا جسمانی تشدد

    اگر کوئی بچہ جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار ہوا ہے یا اکثر و بیشتر ہوتا رہتا ہے تو یاد رکھیے ایسا بچہ شدید خطرے میں ہے ۔تشدد بالخصوص جنسی تشدد بچے کے ذہن میں انتہائی منفی خیالات کو فروغ دیتا ہے اور یہ خیالات بچے کو خودکشی کی جانب راغب کرتے ہیں۔

    برے والدین

    بچے پالنا یقیناً ایک بڑی ذمہ داری ہے، شادی کے بعد جوڑوں کو چاہیے کہ پہلے ایک دوسروں کو سمجھیں اور اپنے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دیں، اسکے بعد بچے پیدا کرنے کا سوچیں ۔ جن والدین میں ہم آہنگی نہیں ہوتی اور وہ آپس میں ہر وقت آمادہ پیکار رہتے ہیں، تو لازمی امر کے بچے میں اس جنگ میں نشانہ بنتے ہیں۔ بعض اوقات اس سلسلے میں بچوں کو دونوں جانب سے تشد د کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ والدین کے خراب رویے بچے میں خود کشی کے خیال کو مہمیز کرتے ہیں۔

    احساس کمتری

    بعض رشتوں کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ دکھاوے کو ہی صحیح لیکن ہم اپنے بچے پر کسی دوسرے کے بچے کو ترجیح دے دیتے ہیں، یا اپنے بچے کے سامنے کسی اور کے بچے تعریفوں میں زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں۔ خبردار ! یہ رویہ آپ کے بچے میں احساس کمتری کو جنم دے گا جو اس کے لیے جینا دشوار کردے گی، والدین کے لیے ان کا بچہ ہی دنیا کا سب سے اہم بچہ ہونا چاہیےاور انہیں اس کا علی اعلان اظہار بھی کرنا چاہیے۔

    پسندیدہ شخصیت کی موت

    کسی قریبی شخصیت کی موت بھی بچوں کو خودکشی کی جانب راغب کرسکتی ہے ، خصوصاً ٹین ایج میں ایسے معاملات دیکھنے میں آتے ہیں ، ایسے کسی افسوس ناک سانحے کی صورت میں فوری اپنے بچے کو وقت دینا شروع کریں اور اسے زندگی کے معنوں سے روشناس کرائیں۔

    بچوں میں خود کشی کی شرح

    آپ نے اپنے سرکل میں آخری بار کسی بچے کی خودکشی کے بارے میں کب سنا تھا؟ شاید کئی سال پہلے یا کبھی نہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بچے خودکشی نہیں کرتے، امریکا میں سنہ 1999 سے لے کر 2015 تک 1309 بچوں نے خود کشی کی، ان بچوں کی عمر 5 سے 12 سال کے درمیان تھی۔

    پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں خودکشی کو مذہب نے حرام اور بد ترین فعل قرار دیا ہو،ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق سنہ 2011 میں اقدام خودکشی کے 1،153 اور خودکشی کے 2،131 واقعات پیش آئے ، جن میں اکثریت 30 سال سے کمر عمر افراد کی تھی اور اس میں بھی اکثریت ٹین ایجر تھی، ہر گزرتے سال اس شرح میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

    حبیب اللہ کی خودکشی


    کراچی نفسیاتی اسپتال سے وابستہ ماہر نفسیات ڈاکٹر روحی افروز نے اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تاحال اس بچے کی خودکشی کے اسباب واضح نہیں ہیں کہ آیا اس پر اسکول کی جانب سے کوئی دباؤ تھا یا گھر کے حالات اس کی خودکشی کا سبب بنے لیکن اس کیس میں اہم بات اس بچے کو شوگر کا مرض لاحق ہونا ہے۔

    انہو ں نے بتایا کہ شوگر ایک ایسی بیماری ہے جو ایک جانب تو مریض کو جسمانی طور پر کمزور کردیتی ہے تو دوسری جانب اس کی ذہنی قوت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ڈاکٹر افروز کے مطابق شوگر کا مریض تناؤ کا شکار ہوتا ہے اور اکثر ڈپریشن کی حالت میں چلا جاتا ہے۔ یہ دونوں حالتیں ایسی ہیں جو کہ خود کشی کے لیے ماحول تشکیل دینے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ایسا مریض اپنی کمزور قوت فیصلہ کے سبب کبھی بھی خود کشی کیجانب مائل ہوسکتا ہے۔

    احتیاطی تدابیر


    اسکول کے زمانے میں ہم نے اساتذہ سے سنا تھا کہ بچوں کے سرمیں درد نہیں ہوتا، ایسا ہی کچھ رویہ ہمارا بچوں کے جذبات اور احساسات کے متعلق بھی ہوتا ہے کہ ’بچہ تو ہے اسے کیا پتا‘؟ وغیرہ وغیرہ۔ یاد رکھیے کہ بچوں میں جذبات زیادہ شدید ہوتے ہیں اوربڑوں کی نسبت انہیں زیادہ جذباتی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ درج ذیل تدابیر سے آپ اپنے یا اپنے ارد گرد کے کسی بھی بچے کو خود کشی کرنے سے بچا سکتے ہیں:

    بچے کو اس کی اہمیت کا اندازہ کرائیں، اسے بتائیں کہ وہ کتنا اہم اور ضروری ہے، کسی کو بھی اس پر فوقیت حاصل نہیں۔

    اپنے بچے سے پیار کا اظہار کریں، اسے چومیں اور گلے سے لگایا کریں، یاد رکھیں گلے لگانا ایک انتہائی سود مند نفسیاتی ٹانک ہے۔

    بچے پراسکول اور تعلیم کو مسلط نہ کریں، اگر وہ تعلیم میں کمزور ہے تو اس کی کمزوری کے اسباب معلوم کرکے انہیں دور کرنے پر    کام کریں۔

    بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑے سے گریز کریں، انہیں منفی واقعات نہ سنائیں اور نہ ہی ٹی وی اور انٹرنیٹ پر ایسا مواد دیکھنے دیں۔

    بچوں کی تنہائیوں کی حفاظت کریں، خیال رکھیں کہ آپ کا بچہ تنہائی میں کیا کرتا ہے، کیا سوچتا ہے اور کیسے عمل کرتا ہے؟۔ تنہائی کی صورت میں انہیں منفی خیالات میں الجھنے سے بچائے رکھنے کا اہتمام کریں۔

    آپ کے لیے ضروری ہے کہ بچے کو زندگی کے معانی سےر وشناس کرائیں، زندگی کے مثبت اغراض و مقاصد اس کے سامنے رکھیں۔

    بچے سے ہر معاملے پر کھل کر گفتگو کریں اور اسے اتنا اعتماد دیں کہ وہ گھر سے باہر خود پر بیتنے والی ہر بات آپ کو بتاسکے۔


    یاد رکھیے! بچے تو پھولوں کی طرح نازک ہوتے ہیں ، ان کی حفاظت اور بہترین ذہنی اور جسمانی نگہداشت بحیثیت والدین آپ کی ذمہ داری ہے جس سے آپ اپنی ذمہ داریوں کو آڑ بنا کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے، اگر آج آپ اپنے بچے کی تربیت اور حفاظت کو نظر انداز کریں گے تو خدانخواستہ کل کو پچھتاوا بھی آپ کا مقدر ہوسکتا ہے۔

  • خودکشی سے روک تھام کا عالمی دن: اسباب، علامات اور تدارک

    خودکشی سے روک تھام کا عالمی دن: اسباب، علامات اور تدارک

    احمد ایک کامیاب کاروباری شخص تھا، پھر کچھ یوں ہوا کہ اس کے حالات تیزی سے تنزلی کی طرف جانے لگے۔ اس نے ہر جانب ہاتھ پیر مارے، دوستوں اور رشتے داروں سے مدد طلب کی لیکن کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔ حالات سے مایوس ہو کر اس نے ایک دن تنگ آکر خودکشی کا سوچنا شروع کردیا، وہ اپنے چند قریبی دوستوں کو بتاتا رہا کہ اگر اس کے مسائل حل نہ ہوئے تو وہ خود کشی کرلے گا۔

    صورتحال گھمبیر سے گھمبیر ہوتی جا رہی تھی۔ رقم کا تقاضہ کرنے والوں کا دباؤ بڑھ رہا تھا، گھر والے بھی ان حالات کے لیے اسی کو قصور وار ٹہرا رہے تھے، اچھے وقتوں کے دوست اب فون اٹھانے سے کتراتے تھے کہ مبادا وہ رقم طلب نہ کرلے، بالآخر ایک دن اس نے فیصلہ کر ہی لیا۔

    میڈیکل اسٹور سے نیند کی گولیاں لیں اور اپنے بستر پر لیٹ کر اپنے معدے میں انڈیل لیں۔ اسے لگتا تھا کہ اب ایک پرسکون خاتمہ اس کے قریب ہے لیکن بروقت طبی امداد نے اس کی جان بچالی۔

    ہمارے ارد گرد ایسے ہزاروں احمد موجود ہیں، جو خودکشی کے دہانے پر ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خودکشی کے خیال کو جنم دینے کی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔

    یہ لوگ معاشرتی رویوں، گھریلو حالات، احساس کمتری، ناکام عملی یا ازدواجی زندگی، کسی بڑے صدمے یا نقصان کی وجہ سے ایک دھچکے کا شکار ہوتے ہیں اور اگر ان پر توجہ نہ دی جائے تو یہ خودکشی کی نہج پر پہنچ جاتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز نے آج خودکشی کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر مختلف ماہرین سے گفتگو کی اور ان سے جاننے کی کوشش کی کہ کسی شخص میں خودکشی کے رجحان کا اندازہ کیسے لگایا جائے؟ اور کیا ہم خودکشی کا ارادہ کیے ہوئے کسی شخص کو بچا سکتے ہیں، اگر ہاں تو کیسے؟

    سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خودکشی کرنے کے پیچھے کیا عوامل یا وجوہات ہوتی ہیں۔

    لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں؟

    خودکشی کا رجحان عموماً مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر فروغ پاتا ہے۔

    ڈپریشن کا شکار ہونا

    کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہونا جس میں موت بہت پرکشش لگتی ہو

    کسی شخص کو اس کام پر اکسایا جائے

    کسی کو مدد کی ضرورت ہو لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آئے اور وہ خود کو بے بس محسوس کرے

    کسی قسم کا ناقابل برداشت پچھتاوا، گہرا صدمہ یا بہت بڑا نقصان

    خودکشی کی خاندانی تاریخ موجود ہو تب بھی امکان ہے کہ کسی شخص میں خودکشی کا رجحان پایا جائے۔

    ماہر نفسیات ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے علاوہ دیگر دماغی امراض جیسے بائی پولر ڈس آرڈر یا شیزو فرینیا بھی خودکشی کی وجہ بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں منشیات اور الکوحل کے عادی افراد میں بھی خودکشی کا رجحان ہونے کا امکان ہوسکتا ہے۔

    اذیت پسندی جو ایک پرسنالٹی ڈس آرڈر ہے، بھی کسی کو خودکشی کی طرف مائل کرسکتی ہے۔

    ہمارے دماغ میں ڈوپامین نامی ایک کیمیائی مادہ پیدا ہوتا ہے جو ہمارے دماغ میں خوشی کی لہریں پیدا کرتا ہے۔ اس مادے کی کمی بھی ہمیں اداسی، مایوسی اور ناخوشی کی طرف دھکیل دیتی ہے اور یہیں سے ڈپریشن جنم لیتا ہے۔

    اگر ڈپریشن کی بات کی جائے تو عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے، تو کیا ڈپریشن کے ہر مریض میں خودکشی کا امکان موجود ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر سلیم بتاتے ہیں کہ ان کے پاس جب بھی کوئی ڈپریشن کا مریض آتا ہے تو وہ اس سے یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ کیا اس کے دماغ میں خودکش خیالات تو نہیں آرہے؟

    ان کے مطابق خودکشی کا رجحان رکھنے والے لوگ عموماً اس بات کو چھپاتے نہیں، وہ ڈاکٹر کو بتا دیتے ہیں، علاوہ ازیں وہ اپنے آس پاس کے افراد سے بھی اس کا ذکر کرتے ہیں تاہم اس بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا ہے کہ جب کوئی شخص ایسا اظہار کرے کہ اس کی زندگی بے فائدہ ہے، اس کا ہونا یا نہ ہونا بے معنی ہے، اور وہ اپنے آپ سے بھی غافل ہوجائے تو یہ واضح نشانی ہے اور ایسی صورت میں آس پاس کے افراد کو چوکنا ہوجانا چاہیئے۔

    خودکشی کی عام علامات

    خودکشی کی سب سے عام علامت ڈپریشن کا شکار ہونا ہے اور بذات خود ڈپریشن کے مریض میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن پر آس پاس کے افراد کو دھیان دینا بہت ضروری ہے۔

    ان علامات میں مذکورہ شخص کی اداسی، دوستوں اور رشتہ داروں سے کٹ جانا، تنہائی میں وقت گزارنا، ناامیدی، ہر شے سے غیر دلچسپی، اپنے بارے میں منفی باتیں کرنا اور اس بات کا اظہار کرنا کہ اس کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی، موت اور خودکشی کی باتیں کرنا وغیرہ شامل ہے۔

    کہاں الرٹ ہونے کی ضرورت ہے؟

    ہنسی مذاق میں مرنے کی گفتگو کرنا علیحدہ بات ہے، لیکن جب آپ دیکھیں کہ سنجیدہ گفتگو کرتے کرتے کوئی شخص موت کی باتیں کرنے لگے، کوئی پریشان شخص موت یا خودکشی کے بارے میں کہے تو یہ معمولی بات نہیں۔

    ڈاکٹر سلیم کے مطابق اس سے اگلا مرحلہ خودکشی کا طریقہ سوچنے کا ہے۔ مریض اس بات پر غور کرتا ہے کون سا طریقہ مرنے کے لیے موزوں رہے گا۔ وہ آپ کو لوگوں سے زہر یا نیند کی گولیوں کے بارے میں بھی معلومات لیتا نظر آئے گا۔

    ’خودکشی کرنے والا عموماً خاموشی سے اپنے ارادے کی تکمیل نہیں کرتا، وہ لوگوں سے اس کا تذکرہ کرتا ہے کیونکہ لاشعوری طور پر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اس کی بات سن کر اس پر دھیان دے اور اسے اس انتہائی قدم سے روک لے۔ وہ اپنے آس پاس کے افراد کو بار بار اس کا اشارہ دیتے ہیں جبکہ وہ واضح طور پر کئی افراد کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ وہ خودکشی کرنے والے ہیں‘۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دوسرے شخص کو فوراً الرٹ ہو کر کوئی قدم اٹھانا چاہیئے۔

    اے آر وائی نیوز نے اس بارے میں ذہنی صحت کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر طحہٰ صابری سے بھی گفتگو کی۔

    ان سے پوچھا گیا کہ کیا خودکشی کسی فوری واقعے کا ردعمل ہوتی ہے؟ یا ماضی میں پیش آنے والے بہت سے حالات و واقعات مل کر کسی شخص کو خودکشی پر آمادہ کرتے ہیں؟

    اس بارے میں طحہٰ صابری کہتے ہیں کہ یہ کہنا تھوڑا سا مشکل ہوگا کہ کب کس شخص کے ذہن میں خودکشی کا خیال آجائے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس بارے میں بہت سی تحقیقات ہوئی ہیں، ضروری نہیں کہ طویل عرصے سے مایوسی کا شکار رہنے والے ہی خودکشی کی کوشش کریں، یہ فوری طور پر بھی وقوع پذیر ہوسکتی ہے جیسے گھریلو لڑائیوں میں کسی شخص کا خودکشی کرلینا، امتحان میں فیل ہوجانا۔ ایسی صورت میں صرف ایک یا 2 دن میں متاثرہ شخص خودکشی کے بارے میں سوچ کر اس پر عمل کر ڈالتا ہے۔

    خودکشی کرنا کمزوری کی علامت؟

    کہا جاتا ہے کہ خودکشی کرنے والے افراد کمزور ہوتے ہیں، کیا اپنی ہی جان لینے کے ارادے پر عمل کرنا طاقت اور مضبوط قوت ارادی کی نشاندہی نہیں؟

    اس بارے میں ڈاکٹر طحہٰ بتاتے ہیں کہ یہ دونوں ہی تصورات غلط ہیں۔ کوئی انسان خودکشی اس وقت کرتا ہے جب اسے کسی سے کوئی مدد نہ مل رہی ہو اور وہ اپنی زندگی سے بے حد مایوس ہوچکا ہو۔ ایسے میں موت ہی اسے آسان راہ فرار اور ذریعہ نجات نظر آتی ہے۔ ’کمزور ہونے یا مضبوط ہونے کا اس سے کوئی تعلق نہیں‘۔

    کیا کسی شخص کی خودکشی کا ذمے دار معاشرے کو قرار دیا جاسکتا ہے؟

    ڈاکٹر طحہٰ کہتے ہیں کہ یقیناً یہ معاشرے کی ہی ناکامی ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کی مدد نہ کر سکی جب اسے لوگوں اور اداروں سے پہلے سے زیادہ مدد کی ضرورت تھی۔

    خودکشی کا رجحان کم کرنے میں ہم کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟

    بحیثیت معاشرہ خودکشی کسی ایک فرد کا عمل نہیں۔ ایک خودکشی سے پورا خاندان ذہنی دباؤ میں آجاتا ہے خصوصاً بچوں پر اس کا بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔ چنانچہ اگر کسی معاشرے میں خودکشی کی شرح زیادہ ہے تو اس کے لیے ہر شخص ذمہ دار ہے۔

    تو پھر انفرادی طور پر ہم کسی کو خودکشی کی نہج پر پہنچنے سے بچانے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟

    اس بارے میں ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ ڈپریشن اور پریشانی کا شکار لوگوں کی مدد کی جائے۔

    ڈاکٹر طحہٰ کے مطابق، ’ڈپریشن کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مریض کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا، اور اگر سن بھی لے تو اسے معمولی کہہ کر چٹکی میں اڑا دیتا ہے جبکہ متاثرہ شخص کی زندگی داؤ پر لگی ہوتی ہے‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ اگر ڈپریشن کے مریضوں کا صرف حال دل سن لیا جائے تو ان کا مرض آدھا ہوجاتا ہے۔

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا ہے کہ عام طبی امداد کی طرح سائیکٹرک فرسٹ ایڈ بھی ہوتی ہے اور وہ یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کو سنا جائے۔ جو مسئلہ وجہ بن رہا ہے اس مسئلے کو سلجھانے پر زور دیا جائے، جیسے اوپر بیان کیے گئے احمد کے کیس میں اس کی رہنمائی کی جائے کہ وہ کس طرح سے اپنا قرض اتار سکتا ہے یا اس کے پاس کیا متبادل آپشن موجود ہیں۔

    ماہرین کے مطابق جب بھی کوئی شخص آپ کو اپنا مسئلہ بتائے تو اس کے کردار یا حالت پر فیصلے نہ دیں (جج نہ کریں) نہ ہی اس کے مسئلے کی اہمیت کو کم کریں۔ صرف ہمدردی سے سننا اور چند ہمت افزا جملے کہہ دینا بھی بہت ہوسکتا ہے۔

    اسی طرح لوگوں کو ڈپریشن کے علاج کی طرف بھی راغب کیا جائے۔ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ ماہر نفسیات سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں، ایک صحت مند دماغ ہی مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرسکتا ہے چنانچہ ذہنی علاج کی طرف بھی توجہ دیں۔

    اگر کسی نے خودکشی کا ارتکاب کر بھی لیا ہے تو اس کو مورد الزام نہ ٹہرائیں، نہ ہی ایسا ردعمل دیں جیسے اس نے کوئی بہت برا کام کر ڈالا ہو۔ اس سے دریافت کریں کہ اس نے یہ قدم کیوں اٹھایا۔ ایک بار خودکشی کا ارتکاب کرنے والے افراد میں دوبارہ خودکشی کرنے کا امکان بھی پیدا ہوسکتا ہے لہٰذا کوشش کریں کہ پہلی بار میں ان کی درست سمت میں رہنمائی کریں اور انہیں مدد دیں۔

    ایسی صورت میں بہت قریبی افراد اور اہلخانہ کو تمام رنجشیں بھلا کر متاثرہ شخص کی مدد کرنی چاہیئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی انا اور ضد کسی دوسرے شخص کی جان لے لے۔

    کیا مذہب سے تعلق اس سلسلے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے؟

    اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسلام میں خودکشی کو حرام کہا گیا ہے۔ کیونکہ انسان ناامیدی اور مایوسی کی آخری حد پر پہنچ کر خودکشی کرتا ہے اور مایوسی کو کفر قرار دیا گیا ہے۔

    ’خدا سے قریب ہونا آپ کو ایک امید دیتا ہے کہ نہیں کوئی نہ کوئی ہے جو مسئلے کا حل نکال دے گا، آپ میں مثبت خیالات پیدا ہوتے ہیں کہ برا وقت جلد ختم ہوگا اور اچھا وقت بھی آئے گا‘۔

    ڈاکٹر سلیم کے مطابق عبادت کرنا اور خدا کے آگے گڑگڑانا کتھارسس کا ایک ذریعہ ہے جو انسان کو بہت ہلکا پھلکا کردیتا ہے۔

    خودکشی کی روک تھام کا عالمی ادارہ

    دنیا بھر میں خودکشی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے آئی اے ایس پی (انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائیڈ پریوینشن) کے سربراہ اس وقت ایک پاکستانی ڈاکٹر مراد موسیٰ ہیں۔ ڈاکٹر مراد اس ادارے کی سربراہی کرنے والے پہلے ایشیائی اور پہلے پاکستانی شخص ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ذہنی صحت، صحت کی پالیسی میں ترجیح نہیں ہے، اس بارے میں بہت کم تحقیق ہوئی ہے لہٰذا پاکستان میں خودکشی کی درست شرح بھی مصدقہ نہیں۔

    ان کے مطابق ہر سال ملک میں تقریباً ڈیڑھ سے 3 لاکھ کے قریب افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں جن میں سے 13 سے 15 ہزار کوششیں کامیاب ہوجاتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اندازاً پاکستان کی 20 فیصد آبادی ذہنی امراض کا شکار ہے جن میں سے 80 فیصد علاج اور درست رہنمائی سے محروم رہتے ہیں۔

    ڈاکٹر مراد کے مطابق ذہنی صحت کے بارے صحیح معنوں میں توجہ سنہ 2016 کے بعد سے دینی شروع کی گئی جب آرمی پبلک اسکول کے بھیانک حادثے میں بچ جانے والوں کی ذہنی کیفیت خطرناک سطح پر پہنچ گئی۔ اس وقت ذہنی صحت کی بہتری کی طرف توجہ دی گئی اور حکومت نے بھی اس سلسلے میں اقدامات شروع کیے۔

    خودکشی کی روک تھام کے عالمی ادارے کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈاکٹر مراد کا کہنا تھا کہ یہ سوسائٹی دنیا بھر میں ذہنی صحت کی آگاہی اور شعور کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ ادارے کی ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے جہاں مریض فون کر کے اپنے مسائل بتا سکتے ہیں۔

    ان کے مطابق ’پاکستان میں ذہنی صحت ایک متنازعہ اور نظر انداز کیا جانے والا مسئلہ ہے، اور اس مسئلے کو ایک قدم آگے بڑھ کر سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے‘۔

  • فواد چوہدری کا لاہورمیں ماڈل انعم کےمبینہ قتل پردکھ اورافسوس کا اظہار

    فواد چوہدری کا لاہورمیں ماڈل انعم کےمبینہ قتل پردکھ اورافسوس کا اظہار

    اسلام آباد : وفاقی وزیربرائے اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے ماڈل انعم تنولی کے مبینہ قتل سے متعلق واقعے کی رپورٹ آئی جی پنجاب پولیس سے طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیرفواد چوہدری نے لاہور میں ماڈل انعم تنولی کے مبینہ قتل پردکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سید امام کلیم سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔

    وفاقی وزیربرائے اطلاعات ونشریات نے کہا کہ ایسے واقعات کوقتل کے بعد خودکشی کا رنگ دیکھنے میں آتا ہے، تفتیش میں تمام پہلو ملحوظ خاطررکھنے چاہئیں۔

    فواد چوہدری نے آئی جی پنجاب پولیس کو فنکاروں کی سیکیورٹی بہترکرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آرٹسٹ پاکستانی قوم کا سرمایہ ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ آرٹسٹ اپنے فن سے ملکی ثقافت دنیا میں متعارف کراتے ہیں جبکہ اس طرح کے واقعات آرٹسٹ کمیونٹی میں تشویش کا سبب بنتے ہیں۔

    وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ فنکاروں سے ایسے واقعات کی ترجیحی بنیادوں پرتفتیش ہونی چاہیے۔

    لاہور: ڈیفنس میں 26 سالہ ماڈل گرل کی پھندا لگی لاش برآمد

    یاد رہے کہ گزشتہ روز لاہور کے علاقے ڈیفنس میں ماڈل انعم تنولی کی پھندا لگی لاش برآمد ہوئی تھی، متوفیہ دو ماہ قبل اٹلی سے واپس آئی تھی، پولیس قتل اور خود کشی کے پہلوؤں پر تفتیش کر رہی ہے۔

  • چترال میں ایک اور حوا کی بیٹی نے خودکشی کرلی

    چترال میں ایک اور حوا کی بیٹی نے خودکشی کرلی

    چترال:شمالی علاقہ جات کے حسین علاقے چترال ٹاؤن میں ایک اور23 سالہ لڑکی نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی ہے، خودکشی کی فوری وجہ تاحال معلوم نہ ہوسکی۔ گزشتہ تین ماہ میں یہ بیسویں خودکشی ہے۔

    چترال پولیس کے مطابق ہون فیض آباد کے رہائشی سفینہ بی بی دختر شیرین خان نے گلے میں اپنے گھر میں پنکھے کے ساتھ پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ چترال پولیس نے زیر دفعہ 176 ضابطہ فوجداری تفتیش شروع کردی اور تحقیقات مکمل ہونے پر مقدمہ درج کی جائے گی۔

    سفینہ بی بی کی لاش کو پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال لایا گیا ، ضروری کاروائی کرنے کے بعد لاش کو ورثا ء کے حوالہ کیا گیا۔ آزاد ذرائع کے مطابق پچھلے تین ماہ میں خودکشیوں کا یہ بیسواں (20) واں واقعہ ہے جس میں اکثر نوجوان لڑکیاں ہی خودکشی کرتی ہیں۔ اس مہینے کے پہلے ہفتے میں پانچ طلباء طالبات نے اس وقت خودکشی کی تھی جب ان کے انٹر میڈیٹ کے امتحان میں نمبر کم آئے تھے۔

    اس سے قبل ماہ اپریل میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق چترال میں چھ ماہ میں 22 خواتین نے خود کشی کی تھی جن میں سے زیادہ تر نوجوان لڑکیاں تھیں۔

    واضح رہے کہ پورے چترال میں کسی بھی ہسپتال میں کوئی سائیکاٹرسٹ، ماہر نفسیات اور دماغی امراض کا کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔ اور نہ ہی چترال میں خواتین کے لئے کوئی دارلامان یعنی شیلٹر ہاؤ س نہیں ہے جہاں نا مساعد گھریلو حالات کی صورت میں وہ پناہ لے سکیں۔

    چترال کے نوجوان طبقے اوربالحصوص خواتین میں تشویش ناک حد تک بڑھتی ہوئی رحجان پر والدین نہایت پریشان ہیں اورعوام مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کی تحقیقات کے لیے ماہرین کی ٹیم بھیجی جائے تاکہ اس کا اصل وجہ معلوم کرکے اس کی روک تھام ہوسکے

    چترال کے خواتین میں خودکشیوں کی بڑھتی ہوئی رحجان کو کم کرنے کے لیے تاحال حکومتی یا غیر سرکاری ادارے نے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا ہے تاہم سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر منصور امان نے خواتین کے لیے تھانہ چترال میں ایک زنانہ رپورٹنگ سنٹر کھولا تھا جس میں زنانہ پولیس ڈیوٹی کررہی ہیں۔

  • امریکا: نرسنگ ہوم میں فائرنگ‘4 افراد ہلاک‘ حملہ آورکی خودکشی

    امریکا: نرسنگ ہوم میں فائرنگ‘4 افراد ہلاک‘ حملہ آورکی خودکشی

    ٹیکساس: امریکی ریاست ٹیکساس میں حملہ آور نے نرسنگ ہوم میں فائرنگ کرکے چارافراد کوموت کے گھاٹ اتارکرخودکشی کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست ٹیکساس کےعلاقے رابزٹاؤن کے نرسنگ ہوم میں نامعلوم حملہ آور نے گھس کر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت 4 افراد جان کی بازی ہار گئے۔

    پولیس حکام کے مطابق 4 افراد کو قتل کرنے کے بعد حملہ آور نے خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی۔ پولیس نے واقعے کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

    خیال رہے کہ 19 مئی کوامریکی ریاست ٹیکساس میں شہرہوسٹن کے سانٹا فے ہائی اسکول میں طالبعلم کی فائرنگ سے پاکستانی طالبہ سبیکا شیخ سمیت 10 طالبعلم جاں بحق ہوگئے تھے۔

    فلوریڈا کے ہائی اسکول میں فائرنگ، 17 افراد ہلاک

    یاد رہے کہ رواں سال 15 فروری کو فلوریڈا کے ہائی اسکول میں 19 سالہ حملہ آور نے اسکول کے اندر گھستے ہی فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں 17 افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ سال 6 نومبرکو امریکی ریاست ٹیکساس کے چرچ میں مسلح شخص کی فائرنگ سے 27 افراد ہلاک جبکہ 20 افراد زخمی ہوگئے تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • فیصل آباد :قومی اورصوبائی اسمبلی نشست پرآزادامیدوار نے خودکشی کرلی

    فیصل آباد :قومی اورصوبائی اسمبلی نشست پرآزادامیدوار نے خودکشی کرلی

    فیصل آباد : قومی اورصوبائی اسمبلی کی نشست پر آزاد امیدوار مرزا محمد احمد نے مبینہ طورپر خودکشی کرلی، جس کے بعد ین اے 103 اور پی پی 103 پر انتخابات ملتوی ہوگئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق فیصل آباد میں قومی اورصوبائی اسمبلی نشست پرآزاد امیدوار محمد احمد مغل نے مبینہ طور پر خودکشی کرلی، مرزا احمد بیٹوں کے بیٹوں نے باپ کی حمایت سے انکار کیا تھا، جس پر وہ دلبرداشتہ تھے۔

    تاندلیانوالہ کے رہائشی مرزا احمد این اے 103 اور پی پی103 پر آزاد الیکشن لڑ رہے تھے۔

    امیدوار کی مبینہ خود کشی کے بعد این اے ایک سو تین اور پی پی ایک سو تین پرانتخابات ملتوی ہوگئے، عام انتخابات کے بعد حلقوں میں ضمنی انتخاب ہوگا۔

    واضح رہے کہ ملک بھر میں 25 جولائی کو عام انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ہے ، جس کی تیاریوں کو حتمی شکل دی جارہی ہے اور اس روز عام تعطیل کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری، ایک نوجوان نے خودکشی کرلی

    جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری، ایک نوجوان نے خودکشی کرلی

    برلن : جرمنی سے ملک بدر کیے جانے والے 69 افغان تارکین وطن میں سے ایک نوجوان نے خودکشی کرلی، جس کے بعد وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کے رکن ملک جرمنی کے وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی 69 ویں سالگرہ کے موقع پر افغان مہاجرین کے ملک بدر کیے جانے پر اعلانیہ خوشی اور اطمینان کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میری 69 ویں سالگرہ کے موقع پر اتنے ہی افغانیوں کو جرمنی سے بے دخل کیا گیا ہے‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ جرمنی کی دائیں بازو کی جماعت کے سربراہوں نے تارکین وطن کو ملک سے بے دخل کرنے پر ہورسٹ زیہوفر کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ جبکہ واپس افغانستان بھیجے جانے والے مہاجرین میں سے ایک نوجوان نے خود کشی کرلی ہے۔

    خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے جرمن حکومت نے افغان تارکین وطن کے 69 افراد پر مشتمل گروپ کو اجتماعی طور پر خصوصی طیارے کے ذریعے واپس افغانستان بھیجا تھا، جس میں افغان صوبہ بلخ کے ایک 28 سالہ نوجوان نے کابل میں بنائے گئے مہاجرین کیمپ میں خودکشی کرلی۔

    جرمن خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایک روز قبل وزیر داخلہ زیہوفر نے تارکین وطن سے متعلق ’نئے منصوبے‘ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے درخواست مسترد ہونے والے مہاجرین کی ملک بدری میں اضافے کا عندیہ دیا۔

    جرمنی کی دائیں بازو کی جماعت لنکے کی سربراہ اولا یلپکے کا کہنا تھا کہ ’زیہوفر کا افغان مہاجرین کو واپس بھیجنا موت کے منہ میں دینے کے برابر ہے، زیہوفر نے افغانیوں کی ملک سے بے دخلی پر مسرت کا اظہار کرکے ثابت کردیا کہ انہیں انسانیت کی کمی کا لاعلاج مرض ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جرمنی کے سابق چانسلر گیرہارڈ شروئڈر نے وزیر داخلہ زیہوفر کو عہدے نہ ہٹانے پر انجیلا میرکل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ’تارکین وطن کے معاملے پر جرمن چانسلر اور وزیر داخلہ کے مابین اختلافات پیدا ہونے میں انجیلا میرکل نے کمزور سیاسی قوت ہونے کا مظاہرہ کیا ہے کوئی وزیر ملکی چانسلر کو وارننگ نہیں دے سکتا‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • خانہ کعبہ میں نومسلم نوجوان نے خودکشی کرلی

    خانہ کعبہ میں نومسلم نوجوان نے خودکشی کرلی

    مکہ المکرمہ: نومسلم شخص نے حرمِ کعبہ کے گرد طواف کے لیے بنی منزلوں سے کود کر خودکشی کرلی، جب  ہزاروں افراد اللہ کے گھر کے طواف میں مشغول تھے۔

    تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ دو روز قبل جمعے کی رات گئے پیش  آیا جب فرانسیسی نژاد نو مسلم شخص نے خانہ کعبہ میں چھلانگ لگا کر موت کو گلے لگالیا۔ فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خودکشی کرنے والا سیکیورٹی باڑھ کو عبور کرکے چھلانگ لگا رہا ہے۔

     

    ذرائع کا کہنا ہے کہ نومسلم کی عمر  26 سال تھی۔ سعودی خبر رساں ذرائع کے مطابق نوجوان مسجد کے فرش سے ٹکرایا اور دیکھتے ہی دیکھتے چند لمحوں میں اس کا دم نکل گیا۔ سیکیورٹی حکام کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کی جارہی ہیں کہ نوجوان کی خود کشی کے پیچھے کیا عوامل کار فرما تھے اور وہ کس طرح سیکیورٹی کے لیے کیے گئے اقدامات عبور کرکے خودکشی کرنے میں کامیاب رہا۔

    ایسا ملک جہاں قانون خودکشی کرنے کی اجازت دیتا ہے

    گزشتہ سال فروری میں بھی ایک شخص نے حرمِ کعبہ میں خود پر پٹرول چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش کی تھی ، تاہم اسے بچا لیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ  کہ مکہ مکرمہ میں تین سال قبل ہونے والے کرین حادثے میں 111 حجاج شہید اور 394 زخمی ہوگئے تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • چترال:‌ چھ ماہ میں‌ 22 ویں خودکشی، ایک اور لڑکی نے اپنی جان لے لی

    چترال:‌ چھ ماہ میں‌ 22 ویں خودکشی، ایک اور لڑکی نے اپنی جان لے لی

    چترال: وادی کیلاش کے خوبصورت گاؤں بریر میں جواں سال لڑکی نے خودکشی کر کے زندگی کا خاتمہ کر لیا، یہ چھ ماہ میں خودکشی کا 22 واں کیس ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چترال میں‌ خودکشی کا ایک اور واقعہ سامنے آیا ہے، تھانا آیون کی حدود میں واقع بریر گاؤں میں بیس سالہ سعدیہ بی بی دختر بہادر خان نے خودکشی کر لی۔

    پولیس کے مطابق متوفیہ نے زہریلی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا، واقعے کے فوری بعد سعدیہ بی بی کو تحصیل ہیڈ کوارٹرز اسپتال آیون پہنچایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے موت کی تصدیق کردی، بعد ازاں اس کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز اسپتال چترال روانہ کر دیا گیا۔

    آیون پولیس کی تفتیش جاری ہے، البتہ خودکشی کی وجوہات کا تعین نہیں ہوسکا ہے، اہل خانہ کے مطابق سعدیہ منگنی ٹوٹنے کی وجہ سے دل برداشتہ تھی.

    ایک اندازے کے مطابق یہ گذشتہ چھ ماہ میں خودکشی کا 22 واں کیس ہے، بیش تر واقعات میں‌ خواتین کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا، البتہ حکومت کی جانب سے  ٹھوس اقدامات کا فقدان نظر آتا ہے.

    تھانا چترال میں خواتین ڈیسک کا قیام

    ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر چترال منصور امن نے اس ضمن میں پولیس اسٹیشن میں خواتین ڈیسک قائم کی ہے، جہاں لیڈیز پولیس کانسٹیبلز کو تعینات کیا گیا ہے.

    اے آر وائی سے بات کرتے ہوئے ڈی پی او منصور امان اور لیگل ایڈوائزور انسپکٹر محسن الملک نے کہا کہ تھانا چترال میں خواتین کا علیحدہ ڈیسک قائم کرنے کا مقصد یہی ہے کہ خواتین بلاجھجک تھانے آکر اپنا مسئلہ بیان کرسکیں، انھوں‌نے امید ظاہر کی کہ اس سے خودکشی کے کسیز میں کمی آئے گی.


    ثقافتی رنگوں سے مزین حسین وادی چترال میں ’’ جشن قاقلشٹ‘‘ کا انعقاد


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • یوٹیوب ہیڈ کوارٹرمیں خاتون کی فائرنگ کے بعد خودکشی

    یوٹیوب ہیڈ کوارٹرمیں خاتون کی فائرنگ کے بعد خودکشی

    سکرامنٹو: شمالی کیلیفورنیا میں واقع یوٹیوب کے ہیڈکوارٹر میں خاتون نے تین افراد کو گولیاں مار کر خودکشی کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان برونو میں واقع یوٹیوب کے ہیڈ کوارٹر میں خاتون کی فائرنگ سے 3 افراد زخمی ہوگئے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور خاتون نے فائرنگ کرنے کے بعد خودکشی کرلی، ملزمہ کے پاس ایک پستول تھا تاہم ان کی شناخت ظاہرنہیں کی گئی ہے۔

    مقامی پولیس کے مطابق فائرنگ کا واقعہ دوپہر کے وقت پیش آیا اور پولیس جائے وقوعہ پر 12 بجکر 45 منٹ کے قریب پہنچی۔

    مقامی میڈیا کے مطابق زخمی ہونے والے افراد میں سے ایک ملزمہ کا بوائی فرینڈ بتایا گیا ہے جس کی حالت تشویش ناک ہے اس کے علاوہ ایک 32 سالہ خاتون اور 27 سالہ خاتون بھی زخمی ہیں۔

    دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ بروقت کارروائی پرسیکورٹی اداروں کا مشکور ہوں، نیک تمنائیں زخمیوں اورمتاثرہ افراد کے ساتھ ہیں۔

    خیال رہے کہ یوٹیوب کے ہیڈکوارٹر میں 1700 افراد کام کرتے ہیں اور کمپنی کی ملکیت گوگل کے پاس ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 3 مارچ کو امریکی ریاست مشی گن کی یونیورسٹی کے کیمبل ہال میں فائرنگ کے نتیجے میں 2 افراد ہلاک جبکہ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

    فلوریڈا کے ہائی اسکول میں فائرنگ، 17 افراد ہلاک

    واضح رہے کہ رواں سال 15 فروری کو فلوریڈا کے ہائی اسکول میں 19 سالہ حملہ آور نے اسکول کے اندر گھستے ہی فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں 17 افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوگئے تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔