Tag: خود نوشت

  • ہمیں اتنا بھی ارزاں نہ کرو…!

    ہمیں اتنا بھی ارزاں نہ کرو…!

    پاکستان بننے کے ایک آدھ برس بعد پنجاب کے ایک جوان سال وزیر نے اپنے ایک اخباری دوست سے کہا: ”بھئی! کبھی ہمارا بھی رابطہ عوام سے کرواؤ۔“ چناں چہ وہ صحافی ایک روز وزیر صاحب کو لے کے موچی دروازے جا پہنچا۔

    لوگوں نے جب اپنے درمیان یوں اچانک ایک وزیر کو دیکھا، تو چاروں طرف سے امڈ آئے۔ ہر شخص مصافحے کے لیے بے قرار تھا۔ کچھ من چلے تو معانقوں پر اتر آئے۔ وزیر صاحب کچھ دیر تو یہ رابطہ برداشت کرتے رہے اور پھر اپنے کرم فرما سے کہنے لگے: ”یار، ہمیں اتنا بھی تو ارزاں نہ کرو!“

    جمہوریت کے اس حمام میں صرف ہمارے وزیر صاحب ہی ننگے نہیں پائے گئے تھے۔ امریکا کے ایک سابق صدر تھیوڈور روز ویلٹ کے بارے میں ان کے ایک دوست لکھتے ہیں کہ جب وہ رابطے کی مہم سے لوٹتے تو سیدھے اپنے محل کے غسل خانے میں جاتے اور صابن سے ہاتھ دھوتے، تاکہ مصافحوں کا میل اتر جائے۔

    (مولوی محمد سعید کی خود نوشت ’آہنگ بازگشت‘ سے اقتباس)

  • لاہور کی اینگلو انڈین خواتین

    لاہور کی اینگلو انڈین خواتین

    گڑھی شاہو کے صدر بازار میں ہر وقت گہما گہمی رہتی۔ اتوار کے روز کریانے کی دکانوں جنرل اسٹورز اور گلیوں کے نکڑ پر تازہ سبزی فروشوں کے ہاں خاصی بھیڑ ہوا کرتی۔ عورتیں بچے، بوڑھے جوان، سبھی ہاتھوں میں تھیلے تھامے گھر سے نکل پڑتے۔ میرا بھی کچھ ایسا ہی معمول تھا۔

    ٹیلی ویژن اسٹیشن جانے کی جلدی نہ ہوتی تو بھرے بازار میں ایک چکر ضرور لگا لیتا۔ گھر کے لئے سودا سلف لیا، اڑوس پڑوس میں علیک سلیک کی، لوگوں سے ملے۔

    سڑک پر اکثر کیرج فیکٹری کی طرف سے سائیکلوں پر سوار سانولے سلونے نسوانی وجود دکھائی دیتے۔ یہ خواتین اسکرٹ اور بلاؤز میں ملبوس ہوتیں۔ گھنے، گھنگھریالے شارٹ کٹ بالوں میں اور بھی بھلی لگتیں۔ یہ اینگلو انڈین خواتین تھیں۔ یہیں رہائش پذیر تھیں۔ پیدائشی لاہورن تھیں، لیکن کسی تاریخی حادثے کی وجہ سے یہ قبیل اینگلو انڈین ہی کہلاتا۔

    انگریز برصغیر سے جا چکا تھا اور ملک آزاد ہوئے بھی عرصہ ہونے کو تھا، لیکن ان کے وجود کے ساتھ تاریخ کی ایسی مہر ثبت تھی جس پر کوئی بھی معترض نہ تھا۔ کیرج فیکٹری کے راستے کے دائیں بائیں آبادیوں میں یہ لوگ رہائش پذیر تھے۔ سائیکل کے کیریئر پر ٹوکریاں رکھے بازار میں آتیں۔ بریک لگاتیں، سائیکل سے اترتیں، ٹوکری ہاتھ میں تھامے، سبزی فروشوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہو جاتیں۔ رنگ برنگے، پھولدار فراک ان کی پہچان تھے۔ بعض خواتین کے گلے میں کراس Cross جھولتا دکھائی دیتا۔ کبھی کبھار ان میں سے کچھ بغیر بازو کے فراک میں ہوتیں۔ ان کے سلیولیس Sleeveless ٹاپس اور عیاں پنڈلیوں پر کوئی بھی معترض نہ تھا۔ ہر کوئی اپنے آپ میں جی رہا تھا۔ یہ لوگ تو یہاں کے مکینوں سے بھی زیادہ مدت سے آباد تھے۔ ان کے آباء نے بھلے وقتوں میں ریلوے کے محکمے کو اپنا مسکن بنا لیا۔ یا یوں کہہ لیں انگریز کی زیرک نظر نے جہاں برصغیر میں وسیع اور جامع انفراسٹرکچر کی بنیاد فراہم کر دی وہاں پیشہ ورانہ انسانی وسائل کے صحیح استعمال کا اہتمام بھی کیا۔ اس اینگلو انڈین کمیونٹی کے محنتی افراد نے نارتھ ویسٹرن ریلویز کو ایک قابلِ رشک ادارہ بنا دیا۔ برصغیر میں ریلوے کے نظام کو بڑے مختلف انداز سے قائم کیا۔ مشرق میں بنگال آسام ریلوے لائن کا قیام عمل میں آیا، بمبئی سے بڑودہ تک ایک علیحدہ سلسلہ تھا۔ اوٹی اور اودھ کے درمیان ایک اور ریلوے کا سلسلہ تھا۔ شمال مغرب میں دلّی، لاہور، کراچی اور پشاور کو ایک نظام میں مربوط کرکے ’نارتھ ویسٹرن ریلوے‘ قائم کر دی گئی جس کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں تھا۔

    اس سارے خطے میں پڑھا لکھا اینگلو انڈین جہاں کہیں بھی تھا، لاہور کی سمت کھینچا چلا آیا اور پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا۔

    (طارق محمود کی خود نوشت ’دامِ خیال‘ سے اقتباس، مصنّف ریٹائرڈ بیورو کریٹ اور رائٹر ہیں جنھوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں بغرضِ ملازمت قیام کیا اور اس کتاب میں انھوں نے اپنے مشاہدات اور واقعات کو نہایت خوب صورتی سے بیان کیا ہے)

  • بل گیٹس کا اہم اعلان

    بل گیٹس کا اہم اعلان

    بل گیٹس نے اپنی زندگی کے نجی اوراق کھولنے کا فیصلہ کر لیا ہے، اس سلسلے میں انھوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی یادداشتیں تحریر کریں گے۔

    مائیکرو سافٹ کے شریک بانی بل گیٹس نے منگل کو ایک بلاگ پوسٹ میں اپنی زندگی کے بارے میں کتاب لکھنے کا اعلان کیا ہے، انھوں نے کتاب کا عنوان بھی بتا دیا ہے، سورس کوڈ: مائی بگننگ (Source Code: My Beginnings) 4 فروری 2025 میں فروخت کے لیے پیش کی جائے گی۔

    بل گیٹس کے لیے کتابیں لکھنا کوئی نئی بات نہیں ہے، وہ 4 کتابوں کے مصنف ہیں تاہم اپنی کہانی وہ پہلی بار سنانے جا رہے ہیں، اس کتاب میں ان کی ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالی جائے گی۔ بل گیٹس کے ترجمان نے کہا یہ ’بل کی اصل کہانی‘ ہوگی، اور اس کتاب میں 1975 میں قائم کی گئی بلاک بسٹر ٹیکنالوجی کمپنی مائیکروسافٹ اور خیراتی ادارے گیٹس فاؤنڈیشن پر توجہ مرکوز نہیں کی جائے گی۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب کے سرِ ورق پر ایک ایسے بل گیٹس کی تصویر ہوگی جو بچہ ہے اور ان کے دانتوں کے درمیان خلا ہے، اور جو آج کے بل گیٹس سے بالکل مختلف ہیں۔

    source-code-cover-bill-gates

    بل گیٹس کے مطابق لڑکپن میں وہ اپنے والدین سے لڑتے تھے، کسی اپنے کو اچانک کھونے کا احساس اور کالج سے لگ بھگ نکالے جانے جیسے واقعات یادداشتوں پر مشتمل اس کتاب میں موجود ہوں گے۔

    بل گیٹس نے ٹھیلے پر چائے بیچنے والے کو ہیرو بنا دیا، ویڈیو وائرل

    ان کا کہنا ہے کہ یہ یادداشتیں مائیکرو سافٹ یا گیٹس فانڈیشن یا ٹیکنالوجی کے مستقبل کے بارے میں نہیں، بلکہ یہ ایک انسان کی ذاتی کہانی ہے، اس میں بتایا جائے گا کہ بل گیٹس کیسے وہ انسان بنا جو آج نظر آتا ہے، اس کا بچپن کیسے تھا اور وہ جوانی میں کیا خواب دیکھتا تھا۔

  • ہماری ایک شرط ہے!

    ہماری ایک شرط ہے!

    خود نوشت اپنی حیات کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کا آئینہ بھی ہوتی ہے۔ اس حیثیت سے جب ہم دیکھتے ہیں تو مصنّف اشفاق محمد خاں کی خود نوشت ’’اپنی بیتی‘‘ سے غلام ہندوستان کے حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

    اگر کسی کو انگریزوں کے عہد میں ریکروٹمنٹ کے طریقۂ کار کو جاننے کی خواہش ہو تو اس کتاب میں اس ضمن کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے، جس سے اس کے طریقۂ کار کو جانا جا سکتا ہے۔ اپنے بابا جان علی محمد خاں کے پولیس میں جانے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے ابا جان ابھی 16 ہی برس کے تھے لیکن چونکہ وہ کھاتے پیتے ایک چھوٹے زمین دار گھرانے کے فرد تھے اس لیے ڈیل ڈول کے اعتبار سے 25 کے دکھتے تھے۔ ایک دن ایک انگریز پولیس افسر نے ان کو دیکھ کر پولیس کی نوکری کی پیشکش کر ڈالی۔ بابا جان نے کہا کہ جب تک میں اپنے والدین سے پوچھ نہ لوں اس وقت تک ہاں نہیں کہہ سکتا۔ جب والدین سے انہوں نے پوچھا تو جواب ملا:

    تم ضرور نوکری قبول کر لو مگر ہماری ایک شرط ہے کہ تم کبھی بھی کسی سے رشوت یا کمیشن نہیں لو گے اور نہ ہی کسی کا دل دکھاؤ گے اور ہمیشہ نماز کے پابند رہو گے۔

    علی محمد خاں نے ان شرائط کو بخوشی قبول کیا اور اس پر کار بند رہنے کے عہد کے ساتھ پولیس میں نوکری کے لیے انگریز افسر کو ہاں کہہ دی۔ ٹریننگ کے بعد بہت جلد قیصر باغ کوتوالی کے سب انسپکٹر بنا دیے گئے لیکن ہمیشہ اپنے عہد پر کار بند رہے۔ جب ان کو احساس ہوا کہ رشوت یا کمیشن کے بغیر بہت دنوں تک پولیس کی نوکری نہیں کی جا سکتی تو انہوں نے نوکری کو خیرآباد کہا اور 1932ء میں وظیفہ لے کر اپنے وطن قائم گنج واپس ہوگئے۔

    اس واقعے میں جہاں پولیس کے ریکروٹمنٹ کے نظام پر روشنی پڑتی ہے وہیں اس زمانے میں چل رہی رشوت اور کمیشن کے بول بالے کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کا بھی علم ہوتا ہے کہ انھیں کراہیت و خدشے کی وجہ سے مسلمان اپنے بچوں کو پولیس کی نوکری سے دور رکھنے کی کوشش بھی کرتے تھے جیسا کہ آج بھی ہوتا ہے۔

    (محقق شاہد حبیب کے مضمون سے اقتباس)

  • حجاب امتیاز علی، گوشت پوست سے عاری ڈھانچے اور انسانی ہڈیاں!

    حجاب امتیاز علی نے تاریخ، نفسیات، سائنس، علمِ نجوم اور مذاہبِ عالم کا مطالعہ جم کر کیا تھا، اِس لیے وہ کردار نگاری کی سطح پر دادی زبیدہ، جسوتی، سر جعفر، ڈاکٹر گار، زوناش اور چچا لوث جیسے بڑے رومانی کردار خلق کر پائیں۔

    یہ سب کردار حجاب کے تخلیق کردہ فنٹاسٹک ماحول میں جیتے ہیں۔ یہ حجاب کی خیالی ریاستوں شموگیہ اور کیباس کے باشندے ہیں جو اکثر چہل قدمی کرتے ہوئے حجاب کے خلق کردہ خیالی جنگل ناشپاس تک چلے جاتے ہیں۔

    حجاب امتیاز علی اپنی افتادِ طبع کی تشکیل سے متعلق خود بتاتی ہیں، ’’میری ادبی زندگی کا گہرا تعلق میرے بچپن کی تین چیزوں سے ہے۔ فضا، ماحول اور حالات۔ میرے بچپن کا ابتدائی زمانہ جنوب میں دریائے گوداوری کے ہوش رُبا کناروں پر گزرا۔

    ہوتا یہ تھا کہ کالی اندھیری راتوں میں گوداوری کے سنسان کناروں پر ہندوﺅں کی لاشیں جلائی جاتی تھیں۔ جلانے کے دوران ہڈیاں اور سَر اس قدر ڈراﺅنے شور کے ساتھ چیختے تھے کہ انہیں سن کر ہوش اڑ جاتے تھے۔ اس سرزمین پر گوشت پوست سے عاری انسانی ڈھانچے اور ہڈیاں جگہ جگہ پڑی رہتی تھیں اور چیخ چیخ کر انسان کے فانی ہونے کا یقین دلایا کرتی تھیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جب ان ساحلوں پر رات پڑتی تو ہڈیوں کا فاسفورس اندھیرے میں جل اٹھتا تھا اور میلوں فاصلے سے غولِ بیابانی کی طرح ان ویرانوں میں روشنیاں رقصاں نظر آتی تھیں۔ یہ دہشت خیز منظر ہیبت ناک کہانیوں کے لکھنے کی ترغیب دیتا تھا۔ غرض ان کا حسن اور رات کی خوف ناکی، یہ تھی فضا۔ ایسی فضا میں جو شخص بھی پلے اور بڑھے اس میں تھوڑی بہت ادبیت، شعریت اور وحشت نہ پیدا ہو تو اور کیا ہو۔

    تیسری بات حالات کی تھی۔ جنھوں نے مجھے کتاب و قلم کی قبر میں مدفون کر دیا۔ مدفون کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ اگر میں نے اس زمانے میں اپنے آپ کو ادبی مشاغل میں دفن نہ کردیا ہوتا تو میں کبھی کی ختم ہوگئی ہوتی۔ وہ زمانہ مرے لیے بے حد حزن و ملال کا تھا۔ مری والدہ ابھی جواں سال ہی تھیں کہ اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ان کی موت مرے خرمن پر بجلی بن کر گری۔ اس زمانے میں میرا ذہنی توازن درست نہ تھا۔ لڑکپن تھا، اس پر شدید ذہنی دھچکا ماں کی موت کا تھا۔ ان دونوں نے مل کر مجھے اعصابی بنا دیا تھا۔‘‘

    (ممتاز ادیب حجاب امتیاز علی کی کتاب’’میری ادبی زندگی‘‘ سے اقتباس)

  • پاکستانی مصنف کے بیٹے ‌نے کتاب چُھونے سے پہلے ہاتھ کیوں دھوئے؟ دل چسپ واقعہ

    پاکستانی مصنف کے بیٹے ‌نے کتاب چُھونے سے پہلے ہاتھ کیوں دھوئے؟ دل چسپ واقعہ

    عبدالمجید قریشی کے اردو ادب میں مقام اور ان کی خدمات کے ساتھ ان کا تعارف پڑھنے سے پہلے انہی کے قلم سے نکلا یہ دل چسپ واقعہ پڑھیے۔ یہ ان کی مقبول تصنیف ‘‘ کتابیں ہیں چمن اپنا’’ سے نقل کیا گیا ہے۔

    شرارت سبھی بچے کرتے ہیں۔ میرے بچے بھی۔ گھر کی مختلف چیزیں گاہ بہ گاہ ان کی شرارتوں کا نشانہ بنتی رہتی ہیں، لیکن جہاں تک میری کتابوں کا تعلق ہے وہ بھی انھیں ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

    بچھلے دنوں ایک دل چسپ واقعہ رونما ہوا۔ میں کھانا کھانے میں مصروف تھا کہ قریب ہی میز پر رکھی ہوئی کتاب نیچے گر گئی۔ میں نے اپنے بچے سے کہا کہ اسے اٹھا کر میز پر رکھ دو۔

    بچہ دوڑ کر باہر نکل گیا۔ مجھے اس کی اس حرکت پر بڑا غصہ آیا۔ میں نے ذرا سخت لہجے میں پوچھا کہاں جارہے ہو۔ بچے نے کہا، ‘‘ابھی آیا۔’’

    دو چار منٹ بعد لڑکا واپس آگیا۔ وہ اپنے ہاتھ دھو کر آیا تھا اور تولیے سے پونچھ رہا تھا۔

    میں نے دریافت کیا یہ کیا معاملہ ہے۔ کہنے لگا۔

    ‘‘میرے ہاتھ صاف نہیں تھے۔ ڈر تھا کہ کہیں یہ نئی کتاب میلی نہ ہو جائے۔ اس لیے ہاتھ دھو کر آیا ہوں، اب اٹھاتا ہوں۔’’ اس نے بڑی آہستگی سے کتاب کو اٹھا کر میز پر رکھ دیا۔

    ایک اور موقعے پر جب میں ایک کتاب دیکھ رہا تھا۔ میرا دوسرا بچہ آیا۔ میرے پاس کھڑے ہو کر کتاب کو دیکھا اور چلا گیا۔ کچھ دیر بعد آیا تو دونوں ہاتھوں پر صاف ستھرا تولیا پھیلایا ہوا تھا۔ کہنے لگا۔

    ‘‘تھوڑی دیر کے لیے یہ کتاب مجھے دے دیجیے، تولیے پر رکھ کے دیکھوں گا، میلا نہ ہونے دوں گا۔’’

    عبدالمجید قریشی 1921 میں پیدا ہوئے۔ وطن مشرقی پنجاب تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور محکمۂ ڈاک میں ملازم ہوئے۔ مطالعے کے رسیا اور کتاب اندوز مشہور تھے۔ ان کا ذاتی کتب خانہ مختلف موضوعات اور خاص طور پر فنونِ لطیفہ سے متعلق رسائل سے سجا رہا۔

    خود بھی نثر نگار تھے اور نہایت لطیف و دل کش اسلوب کے حامل تھے۔ ان کے مضامین اس دور کے معیاری رسائل اور اخبارات کی زینت بنتے رہے۔ وہ تین کتابوں کے مصنف ہیں جو ان کی زندگی میں شایع ہوئیں۔ سوانح عمری، آپ بیتی اور واقعات نگاری سے خاص شغف تھا۔ 2010 اس دنیا میں ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ ان کی عمرِ عزیز کے آخری ایّام ملتان میں گزرے۔

  • مشل اوباما کی کتاب نے فروخت کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا

    مشل اوباما کی کتاب نے فروخت کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا

    واشنگٹن: سابق امریکی صدر بارک اوباما کی اہلیہ مشل اوباما کی بائیو گرافی ’بی کمنگ‘ نے امریکا میں فروخت کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق مشل اوباما کی خود نوشت ’Becoming‘ نے دو ہفتوں کے اندر رواں سال امریکا میں شائع شدہ کتابوں کی فروخت کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔

    [bs-quote quote=”سابق خاتونِ اوّل کی کتاب بی کمنگ کی 20 لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ابتدائی پندرہ دن میں سابق خاتونِ اوّل کی کتاب بی کمنگ کی 20 لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں۔

    امریکا میں ڈیٹا جمع کرنے والے ایک ادارے کا کہنا ہے کہ اس سال شائع ہونے والی کتابوں میں کسی بھی کتاب کی فروخت بیس لاکھ تک نہیں پہنچی۔

    مشل اوباما کی سوانحِ حیات نہ صرف امریکا بلکہ آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، کوریا اور جنوبی افریقا میں بھی بیسٹ سیلر رہی۔


    یہ بھی پڑھیں:  دبئی کی سڑکوں پر اسٹاف کے بغیر کتابوں کے حیرت انگیز اسٹالز


    اس کتاب کا ترجمہ اکتیس زبانوں میں کیا گیا ہے، کتاب میں مشل اوباما نے اپنے شوہر کے ساتھ گزارے دنوں کی روداد بیان کی ہے بالخصوص صدارتی محل میں گزرے دنوں کا احوال مذکور کیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ اس سوانحِ حیات کو اس وقت شہرت حاصل ہوئی تھی جب اس کے ایک اقتباس میں مشل اوباما نے انکشاف کیا کہ ان کے بچے آئی وی ایف کے ذریعے پیدا ہوئے۔

    مشل اوباما کے مطابق بار بار حمل ضائع ہو جانے کے باعث انھوں نے آئی وی ایف کا طریقہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

  • ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کی خودنوشت جولائی میں دستیاب ہوگی

    ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کی خودنوشت جولائی میں دستیاب ہوگی

    ثانیہ مرزا کےمداحوں کے لیئے خوشخبری ہے کہ ثانیہ مرزا کی خودنوشت آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، امید ہے جولائی میں قارئین کی بصارتوں کی نذربنے گی۔

    ثانیہ مرزا نے ایک عام سی لڑکی سے ٹینس چمپئین تک کا سفر بڑی کامیابی سے طے کیا ہے۔ اس دوران انہیں کئی نشیب و فراز کا سامنا رہا۔ جس سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔اپنے انہی تجربات کو پوری دنیا تک پہنچانے کا فیصلہ کیا۔اور اپنی خودنوشت مرتب کرنا شروع کی جو کہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔امید ہےجولائی میں بک شیلف کی زینت بنے گی۔

    انتیس سالہ ٹینس اسٹار نے محض 16 سال کی عمر میں ومبلڈن ٹینس چمپئین شپ جیت کر شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔وومن ٹینس ایسوسی ایشن کی جانب سے انہیں بھارت کی سب سے بہترین پلئیر کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔اور یہ سب مسلسل اور انتھک محنت کا ثمر تھا۔

    ثانیہ مرزا کا کہناتھا کہ ان کی خود نوشت ٹینس کی نئی آنے والی کھلاڑیوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو گی۔اُن میں سے کوئی ایک بھی بڑا ٹائٹل حاصل کرپایا تو یہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں ہوگا۔

    خودنوشت میں ثانیہ نےاپنے کیریئر میں آنے والی تمام مشکلات، تکالیف اوررکاوٹوں کو ہی میں اکٹھا نہیں کیا بلکہ قارئین کو چند سنسنی خیز مقابلوں کی روداد بھی پڑھنے کو ملے گی۔ ٹینس کورٹ کایہ احوال ٹیننس کے مداحوں کے لیے نہایت پر کشش ہوگا۔

    ثانیہ مرزا نے 2012 میں سنگل سرکٹ سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا تاہم ڈبل سرکٹ میں اپنے پارٹنر کے ساتھ کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔ثانیہ اپنی ساتھی مارٹینا ہنگز کے ساتھ سال2015-2016 کے درمیان 41 بار ٹینس کورٹ سے فاتح بن کر لوٹیں اور یوں وومنز ڈبلز میں سر فہرست قرار پائیں۔

    اسپورٹ سے جنون کی حد تک لگاؤرکھنے والی ثانیہ مرزا نے اپنا جیون ساتھی بھی کھلاڑی چُنا۔ان کی شادی پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شعیب ملک سے ہوئی۔

    ثانیہ پاکستان و ہندوستان کی خواتین کھلاڑیوں کے لیے رول ماڈل بن چکی ہیں۔ان کی خود نوشت نوجوان لڑکیوں کے لیے حوصلہ افزاء ثابت ہواور کچھ کر گزرنے کا جنون پیدا کر جائے،تو یہ ثانیہ کی ایک اور بڑی کامیابی ہوگی۔