Tag: خوراک

  • گرمیوں میں پرسکون نیند لانے کے لیے کیا کھائیں؟

    گرمیوں میں پرسکون نیند لانے کے لیے کیا کھائیں؟

    موسم گرما میں جہاں ہمارے طرز زندگی میں تبدیلی آتی ہے وہیں ہمیں صحت کے کچھ مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کے نیند کا بے سکون ہوجانا یا بھوک میں کمی محسوس ہونا۔

    ماہرین کے مطابق نیند کے دوران جسم کا درجہ حرارت نسبتاً کم ہوتا ہے، لیکن آپ کے اردگرد درجہ حرارت زیادہ ہو تو آپ کے لیے بھرپور نیند لینا مشکل ہو جاتا ہے اور اگر نیند آ بھی جائے رات کروٹیں لیتے گزرتی ہے۔

    اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے موسم گرما میں خوراک اہم کردار ادا کر سکتی ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ اس موسم میں دن کے وقت ہمیں ہلکی اور ہائیڈریٹ کرنے والی خوراک استعمال کرنی چاہیئے، لیکن رات کو کیا کھایا جائے کہ نیند اچھی آئے۔

    رات کے کھانے کے بعد میٹھے سے پرہیز

    بہت سے لوگ رات کے کھانے کے بعد میٹھا پسند کرتے ہیں، لیکن اچھی نیند کے لیے کھانے کے بعد میٹھے سے پرہیز کریں خصوصاً جب کھانے اور بیڈ پر جانے کے درمیان زیادہ وقت نہ ہو۔ میٹھا جسم میں انسولین کے لیول کو متاثر کرتا ہے جس کی وجہ نیند بھی متاثر ہوتی ہے۔

    مصالحے دار چیزوں سے جان چھڑائیں

    مصالحے ہمارے نظام ہضم کو نقصان پہنچاتے ہیں، ان کی وجہ سے ہمیں تیزابیت، ڈکار اور قبض اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر آپ کا نظام ہضم ٹھیک نہیں تو نیند آنے میں بھی مشکل ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ مصالحے جسم کے درجہ حرارت کو بھی بڑھاتے ہیں۔

    ہربل چائے، بابونہ چائے یا گرم دودھ کا استعمال

    سونے سے پہلے بابونہ کی جڑی بوٹی کا قہوہ استعمال کریں، اس کی تاثیر ٹھنڈی ہوتی ہے اور یہ ہمارے جسم کو پرسکون کرنے میں مدد دیتی ہے جس سے نیند بہتر ہوتی ہے۔

    اس کے علاوہ آپ زیرے، سونف، دارچینی اور جیفل کو ملا کر قہوہ بھی بنا سکتے ہیں۔ یہ سب جڑی بوٹیاں بھرپور نیند کے لیے مددگار سمجھی جاتی ہیں۔

    گرم دودھ بھی صدیوں پرانا نسخہ ہے جس سے اچھی نیند آتی ہے۔ سونے سے پہلے کیفین جیسے چائے اور کافی کا استعمال نہ کریں کیونکہ اس سے نیند متاثر ہوتی ہے۔

    کیلے، خشک میوے اور شہد کا استعمال

    اگر آپ ان اشیا کو خوراک میں شامل کریں تو نیند اچھی آتی ہے۔ شہد سے دماغ کو ایسے کیمیکل ملتے ہیں جو جسم کو راحت پہنچاتے ہیں۔ کیلوں اور خشک میوں میں میگنیشیئم ہوتی ہے اور ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ ان سے ذہنی تناؤ میں کمی ہوتی ہے۔

    طرز زندگی میں تبدیلی لائیں

    ہماری نیند تناؤ اور بے چینی جیسے مسائل کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے، لہٰذا اس کے لیے صرف خوراک مفید ثابت نہیں ہوتی بلکہ لائف سٹائل کو بھی بدلنا ضروری ہے۔

    بہتر یہی ہے کہ رات کو سونے سے تین چار گھنٹے قبل کھانا کھا لیں تاکہ وہ اچھی طرح سے ہضم ہو سکے، اس کے علاوہ سونے سے پہلے ٹھنڈے پانی سے نہ نہائیں کیونکہ اس سے نیند متاثر ہوتی ہے۔

  • وہ غذائیں جو ڈپریشن اور بے چینی سے تحفظ دیں

    وہ غذائیں جو ڈپریشن اور بے چینی سے تحفظ دیں

    دنیا بھر میں کی جانے والی تحقیق سے ثابت ہوا کہ ہماری روزمرہ کی غذا نہ صرف ہماری جسمانی صحت بلکہ، ذہنی صحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، اور غیر متوازن غذائیں دماغی صحت کو ابتر بنا سکتی ہیں۔

    ہماری ذہنی صحت اور ہماری خوراک کے درمیان گہرا تعلق ہے، دراصل ہماری خوراک ہماری ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے جس میں بے چینی بھی شامل ہے۔

    کچھ کھانے ہماری بے چینی کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں، تحقیق کے مطابق جن کھانوں میں ٹرپٹوفان ہوتا ہے وہ بے چینی سے نمٹنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔

    ٹرپٹوفان امینو ایسڈ ہے جو جسم میں سیروٹونن پیدا کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے، یہ وہ کیمیکل ہے جو موڈ اور جذبات کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

    اسی طرح جن کھانوں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز ہوتے ہیں وہ بے چینی کو کم کرنے میں کافی مددگار ہوتے ہیں، یہ جسم میں سوزش بھی کم کرتے ہیں جس کا تعلق بے چینی سے
    ہے۔

    آئیں جانتے ہیں وہ کون سے کھانے ہیں جو بے چینی کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

    سالمن

    اومیگا تھری فیٹی ایسڈ سے بھرپور سالمن مچھلی دماغ میں سوزش کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے اور دماغ کو صحت مند رکھتی ہے، یہ موڈ اور جذبات کو ٹھیک کرنے اور بے چینی کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

    ڈارک چاکلیٹ

    ڈارک چاکلیٹ میں فلیوونائیڈز ہوتے ہیں جو دماغ کو ٹھیک طرح سے کام کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور سوزش کو کم کرتے ہیں، اس میں میگنیشیئم بھی ہوتی ہے جو کہ بے چینی کی سطح کو کم کرتی ہے۔

    بلو بیریز

    بلو بیریز اینٹی آکسیڈنٹس اور وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں جو کہ دباؤ کو کم کرتے اور سکون کو بڑھاتے ہیں۔

    ہلدی

    ہلدی میں کرکیومن ہوتی ہے جس میں سوزش کم کرنے والی خصوصیات ہوتی ہیں جس سے دماغ بہتر انداز میں کام کرتا ہے اور اس سے بے چینی میں کمی ہوتی ہے۔

    بادام

    بادام میگنیشیئم کا بہترین ذریعہ ہیں، جس سے مزاج میں بہتری اور بے چینی میں کمی ہوتی ہے، یہ فائدہ مند چربی اور پروٹین سے لبریز ہوتے ہیں جس سے خون میں شوگر کی سطح برقرار رہتی ہے اور سکون ملتا ہے۔

    گل بابونہ کی چائے

    گل بابونہ کی چائے سے بے چینی کم ہونا ثابت ہے اور اس سے بہتر نیند آتی ہے، اس میں اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں جس سے سوزش میں کمی ہوتی ہے اور دماغ بہتر کام کرتا ہے۔

    پالک

    پالک میں غذائی اجزا ہوتے ہیں جیسا کہ میگنیشیئم، وٹامن سی اور فولیٹ جن سے مزاج میں بہتری آتی ہے اور بے چینی میں کمی ہوتی ہے۔

    کیفیر

    کیفیر ڈیری مشروب ہے جس میں پروبائیوٹکس ہوتے ہیں جس سے جسم کی طاقت بہتر ہوتی ہے اور بے چینی میں کمی آتی ہے۔ اس میں سیروٹونن ہوتا ہے جو مزاج کو بہتر بناتا ہے اور جسم میں سکون پیدا کرتا ہے۔

  • کھانے کو آہستہ کھایا جائے یا تیز رفتاری سے؟

    کھانے کو آہستہ کھایا جائے یا تیز رفتاری سے؟

    کھانا کھاتے ہوئے اگر غذا کو آہستہ چبایا جائے تو زیادہ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں، ایسا متعدد تحقیقات میں ثابت ہوا ہے۔

    ایک حالیہ تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کھانے کو آہستہ اور چبا کر کھانا، پیٹ بھرنے اور وزن کم کرنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔

    آئیں دیکھیں کہ کھانے کو چبا کر کھانے کے کیا فوائد ہیں۔

    کم کیلوری کا استعمال

    اس حوالے سے ایک تحقیق کی گئی جس میں زیادہ اور نارمل وزن رکھنے والے افراد کو، جو مختلف رفتار سے دوپہر کا کھانا کھاتے تھے، شامل کر کے 2 گروپس میں تقسیم کیا گیا۔

    جب دونوں کا موازنہ کیا گیا تو تیز رفتار کی نسبت آہستہ کھانا کھانے والوں نے کم کیلوریز کھائیں۔

    تمام شرکا نے زیادہ آہستگی سے کھانے کے بعد زیادہ دیر تک پیٹ بھرا محسوس کیا اور تیز رفتار کھانے کے مقابلے میں سست رفتار کھانے کے ایک گھنٹہ بعد بھوک کم محسوس کی۔

    اس طرح کیلوریز کی مقدار میں یہ کمی وقت کے ساتھ وزن میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔

    دراصل کیلوری کی مقدار اور بھوک ہارمونز کے ذریعے کنٹرول ہوتی ہے، کھانے کے بعد آپ کی آنت گھریلن نامی ہارمون کے اخراج کو روکتی ہے جو بھوک کو کنٹرول کرنے کا ذمہ دار ہے۔ یہ بھوک کے مخالف ہارمونز پیپٹائڈ اور گلوکاگن نما پیپٹائڈ کے اخراج میں بھی مدد کرتا ہے۔

    یہ ہارمونز دماغ کو پیغام پہنچاتے ہیں کہ کھانا کھایا جا چکا ہے اور غذائی اجزا جسم میں جذب ہو رہے ہیں، اس کے نتیجے میں آپ کی بھوک کم ہوجاتی ہے اور اس طرح آپ کو پیٹ بھرنے کا احساس ہوتا ہے جو آپ کو کھانے سے ہاتھ روکنے میں مدد دیتا ہے۔

    اس عمل میں تقریباً 20 منٹ لگتے ہیں، لہٰذا آہستہ آہستہ کھانا آپ کے دماغ کو ان سگنلز کو حاصل کرنے کے لیے درکار وقت فراہم کرتا ہے، آہستہ آہستہ کھانا آپ کے سیر ہونے والے ہارمونز کو بڑھا سکتا ہے۔

    جلدی یا عجلت میں کھانا زیادہ کھانے کا باعث بن سکتا ہے، اس طرح دماغ کے پاس پیٹ بھرنے کے سگنل حاصل کرنے کے لیے ضروری وقت نہیں ہوتا۔

    آہستہ آہستہ چبانے کے دیگر فوائد

    غذائی اجزا کو بہتر طریقے سے جذب ہونے میں مدد ملتی ہے۔

    کھانے کے ذائقے سے بہترانداز میں لطف اندوز ہونے میں اضافہ ہوتا ہے۔

    نظام انہضام بہتر انداز میں کام کرتا ہے۔

    ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے۔

  • بلوچستان میں آٹے اور دیگر اشیائے خور و نوش کی قلت پیدا ہونا شروع

    بلوچستان میں آٹے اور دیگر اشیائے خور و نوش کی قلت پیدا ہونا شروع

    کوئٹہ: صوبہ بلوچستان میں سیلاب کی وجہ سے راستے تاحال بند ہیں جس کے بعد صوبے میں آٹے سمیت دیگر اشیائے خور و نوش اور اجناس کی قلت پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان کو ملک بھر سے ملانے والی قومی شاہراہیں بحال نہ ہوسکیں، بجلی کی فراہمی بھی تاحال منقطع ہے۔

    صوبے میں آٹا سمیت دیگر اشیائے خور و نوش اور اجناس کی قلت پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے، چند ایک مقامات پر آٹا مہنگے داموں فروخت ہو رہا ہے۔

    فلور ملز کے سامنے شہریوں کی لمبی قطاریں لگیں ہیں۔

    بلوچستان میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 22 سو سے 26 سو روپے میں فروخت ہو رہا ہے جبکہ 50 کلو آٹے کا تھیلا 5 ہزار 300 سے 6 ہزار روپے میں فروخت ہورہا ہے۔

    فلور مل مالکان کا کہنا ہے کہ بجلی نہ ہونے سے فلور ملز بند ہیں اور گندم کی پسائی نہیں ہو رہی۔

  • ویکسین کی 4 خوراکیں بھی اومیکرون سے تحفظ کے لیے ناکافی

    ویکسین کی 4 خوراکیں بھی اومیکرون سے تحفظ کے لیے ناکافی

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے حوالے سے ماہرین کا کہنا تھا کہ اس سے بچاؤ کے لیے ویکسین میں بھی تبدیلی کرنی ہوگی اور اب اس حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے۔

    حال ہی میں اسرائیل میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ ویکسین کی 4 خوراکیں بھی کرونا وائرس کی قسم اومیکرون سے بیماری سے بچانے میں مددگار ثابت نہیں ہوتیں۔

    تحقیق کے حتمی نتائج ابھی تک جاری نہیں ہوئے مگر اس میں شامل ماہرین نے بتایا کہ اگرچہ ویکسین (موڈرنا یا فائزر) کی اضافی یا چوتھی خوراک سے کچھ اثرات تو مرتب ہوتے ہیں مگر رضا کاروں میں بیماری کی شرح میں 3 خوراکیں استعمال کرنے والے افراد سے زیادہ فرق نہیں تھا۔

    ماہرین نے بتایا کہ کووڈ ویکسینز کرونا وائرس کی اقسام ایلفا اور ڈیلٹا کے خلاف تو زبردست تھیں مگر اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اومیکرون کے مقابلے میں وہ اتنی زیادہ اچھی نہیں۔

    ابھی تک اس تحقیق کا ڈیٹا جاری نہیں ہوا اور ماہرین نے نتائج کو ابتدائی قرار دیا مگر ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی نتائج کو عوامی مفاد کے لیے جاری کیا جارہا ہے۔ نتائج سے دیگر سائنس دانوں کے ان خیالات کو تقویت ملتی ہے کہ اومیکرون کے لیے کووڈ ویکسینز کے نئے ورژن کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

    اس تحقیق کا آغاز دسمبر 2021 میں ہوا تھا اور 154 افراد کو فائزر جبکہ 120 کو موڈرنا ویکسین کا بوسٹر ڈوز استعمال کروایا گیا، تحقیق کے مطابق جن افراد کو ویکسین کی چوتھی خوراک استعمال کروائی گئی ان کی اینٹی باڈیز میں اضافہ ہوگیا۔

    مگر ماہرین نے بتایا کہ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جن افراد کو چوتھی خوراک دی گئی ان میں سے متعدد اومیکرون سے بیمار ہوئے، اگرچہ یہ تعداد کنٹرول گروپ سے معمولی حد تک کم تھی، مگر پھر بھی کیسز بہت زیادہ تھے۔

    کنٹرول گروپ سے ان کی مراد وہ افراد تھے جن کو فائزر ویکسین کی 3 خوراکیں استعمال کرائی گئی تھیں۔ اسرائیل میں جنوری کے وسط تک ویکسینز کے 5 لاکھ افراد کو ویکسین کی 4 خوراکیں استعمال کروائی جاچکی ہیں۔

    خیال رہے کہ ویکسینز سے بیماری کی سنگین شدت اور اسپتال میں داخلے کے خطرے سے تحفظ ملتا ہے۔

  • غذائی ضیاع: اقوام متحدہ نے دنیا سے ہنگامی اپیل کر دی

    غذائی ضیاع: اقوام متحدہ نے دنیا سے ہنگامی اپیل کر دی

    نیویارک: اقوام متحدہ نے منگل کو دنیا بھر سے ہنگامی اپیل کی ہے کہ خوراک کے ضیاع کی مقدار کو کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں، غذا کی کمی، بھوک اور غذائیت سے محرومی دنیا کے ہر ملک کو متاثر کر رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت سے متعلق ادارے ایف اے او نے خوراک کے نقصان اور ضیاع کو بھوک اور غذائی قلت کی ایک بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے خوراک کے ضیاع کو روکنے کے لیے اقدامات کی اپیل کی ہے۔

    ادارے کے ماہرین نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا بھر کے تمام ممالک لگ بھگ 8 ارب لوگوں کے لیے کافی خوراک پیدا کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود 80 کروڑ لوگ ابھی تک بھوک کا شکار ہیں، اور 2 ارب انسانوں کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس سے صحت کے سنگین مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

    خوراک اور زراعت کے عالمی ادارے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پیدا کی جانے والی خوراک کا لگ بھگ ایک تہائی یا ایک ارب 30 کروڑ ٹن خوراک کسی کے پیٹ میں جانے کی بجائے آخر کار پرچون مارکیٹ میں پڑے پڑے گل سڑ جاتی ہے، یا صارفین کے کوڑے دانوں میں چلی جاتی ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اس نقصان کا اندازہ سالانہ ایک ٹریلین ڈالر ہے۔

    ایف اے او کی ڈپٹی ڈائریکٹر ننسی ابورٹو کا کہنا ہے کہ خوراک کے ضیاع کے نتیجے میں پانی، زمین، توانائی، مزدوری اور سرمائے سمیت وہ تمام وسائل ضائع ہو جاتے ہیں، جو اسے پیدا کرنے میں صرف ہوتے ہیں، اگر خوراک کے ضیاع کی روک تھام کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو اقوام متحدہ 2030 تک بھوک کے خاتمے سے متعلق دیرپا ترقی کے اپنے ہدف کو کبھی حاصل نہیں کر سکے گا۔

    انھوں نے مزید کہا کہ غذائی قلت کے باعث ایک جانب لاکھوں بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں تو دوسری طرف ہر تین میں سے ایک بالغ شخص موٹاپے کا شکار ہے، وہ کہتی ہیں کہ غذائیت کی کمی کا ایک اور سبب غیر صحت بخش خوراک اور ضروری وٹامنز اور معدنیات کی غذا میں کمی ہے۔

    خوراک اور زراعت کے عالمی ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019 کے دوران دنیا بھر میں پیدا ہونے والی خوراک کا 14 فی صد حصہ کھیتوں کھلیانوں سے لے کر اسے فروخت کے مراکز تک پہنچانے کے عمل کے دوران ضائع ہو گیا تھا، ایک رپورٹ کے مطابق دستیاب خوراک کا اندازاً 17 فی صد حصہ ضائع ہوا۔

  • یہ غذائیں آنکھوں کو صحت مند رکھ سکتی ہیں

    یہ غذائیں آنکھوں کو صحت مند رکھ سکتی ہیں

    آنکھیں ہماری زندگی کو رنگ عطا کرتی ہیں، اگر ہماری آنکھیں تکلیف میں ہوں تو ہماری پوری زندگی ڈسٹرب ہوجاتی ہے، لہٰذا آنکھوں کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔

    آج آپ کو ایسی غذائیں بتائی جارہی ہیں جو آپ کی آنکھوں کو صحت مند رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔

    گاجریں

    گاجروں میں بیٹا کیروٹین نامی ایک کمپاؤنڈ بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے، جو استعمال کے بعد وٹامن اے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ وٹامن آنکھوں اور نظر کے لیے بہت مفید ہے۔

    شکر قندی

    شکر قندی میں بھی گاجروں کی طرح بھرپور بیٹا کیروٹین ہوتا ہے۔ یعنی یہ بھی وٹامن اے حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ شکر قندی کا مستقل استعمال بھی نظر کو بہتر بنانے اور آنکھوں کی صحت کے لیے مفید ہے۔

    ترش پھل

    کینو، موسمیاں، چکوترے اور ایسے ہی دیگر ترش پھل وٹامن سی سے مالا مال ہوتے ہیں، جو قوت مدافعت کو بڑھانے کے لیے اہم ترین چیز ہے۔ ان میں فلیونائیڈز بھی ہوتے ہیں جو آنکھوں کو موتیے جیسے خطرناک مرض سے بچاتے ہیں۔

    ہری سبزیاں

    سبز گوبھی، پالک اور سلاد کے پتوں سمیت تمام ہرے رنگ کی سبزیوں میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو آنکھ کے مختلف امراض سے بچانے کے لیے بہت اہم ہیں۔

    دودھ کی مصنوعات

    دودھ کی مصنوعات وٹامن اے اور دوسرے کمپاؤنڈز سے بھرپور ہوتی ہیں، جو مجموعی صحت کے لیے اور بینائی کے لیے بھی بہترین ہوتی ہیں۔ دودھ اور دہی میں زنک بھی پایا جاتا ہے جو ایک اہم منرل ہے اور جسم کے ساتھ ساتھ آنکھ کے لیے بہت مفید ہے۔

    زنک کی کمی سے رات کے وقت اندھے پن کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس لیے دودھ اور اس کی مصنوعات کا استعمال اپنا روزمرہ معمول بنائیں۔

    انڈے

    انڈے، خاص طور پر زردی بھی اور زنک سے بھرپور ہوتی ہے، جو آنکھ کو صحت مند رکھتے ہیں اور انہیں خراب ہونے سے بچانے میں مدد دیتے ہیں۔ اس لیے انڈوں کو اپنی روزمرہ خوراک کا حصہ بنائیں۔

    مچھلی

    مچھلی کا استعمال آنکھوں کے لیے کافی مفید سمجھا جاتا ہے۔ مچھلیوں میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز ہوتے ہیں، جو آنکھ کو خشک ہونے سے بچاتے ہیں اور آنکھ کے پردے کو خراب ہونے سے بچا کر نظر کو بہتر بناتے ہیں۔

  • ایسٹرا زینیکا ویکسین کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    ایسٹرا زینیکا ویکسین کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    لندن: آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایسٹرا زینیکا کووڈ ویکسین کے حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آگئی جس نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے امکانات میں اضافہ کردیا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ایسٹرا زینیکا کووڈ ویکسین کا مدافعتی ردعمل دونوں خوراکوں کے درمیان طویل وقفے سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ پہلی اور دوسری خوراک کے درمیان 45 ہفتے یا 10 ماہ تک کا وقفہ بیماری سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی سطح کو بڑھا دیتا ہے۔

    تحقیق میں پہلی بار یہ ثابت کیا گیا کہ تیسرا یا بوسٹر ڈوز مدافعتی ردعمل کو مضبوط بنانے کے ساتھ کرونا کی نئی اقسام کے خلاف سرگرمیوں کو بڑھاتا ہے۔

    کووڈ ویکسین سپلائی میں کمی کا سامنا دنیا بھر میں متعدد ممالک کو ہے جس کے باعث پہلی اور دوسری خوراک کے درمیان وقفہ زیادہ ہونے کے حوالے سے بیماری سے تحفظ پر خدشات سامنے آرہے ہیں بالخصوص نئی اقسام کے ابھرنے پر۔

    بیشتر ممالک میں ایسٹرازینیکا ویکسین کی 2 خوراکوں کے درمیان 4 سے 12 ہفتوں کا وقفہ دیا گیا ہے۔

    اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نئی تحقیق میں دیکھا گیا تھا کہ دونوں خوراکوں کے درمیان زیادہ وقفہ دینا بیماری سے تحفظ میں کتنا مددگار ہے یا کتنا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔

    آکسفورڈ ویکسین ٹرائلز کے سربراہ اینڈریو پولارڈ نے بتایا کہ یہ سب تیاری کا حصہ ہے، ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو ایسٹرازینیکا ویکسین کا اضافی ڈوز دے کر مدافعتی ردعمل کو بڑھا سکتے ہیں جو بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ایک خوراک استعمال کرنے والے افراد کو ایک سال بعد بھی بیماری کے خلاف کسی حد تک تحفظ حاصل تھا۔

    ایک خوراک استعمال کرنے والے 180 دن بعد اینٹی باڈی کی سطح نصف رہ گئی جو 28 دن میں عروج پر پہنچ گئئی تھی، جبکہ دوسری خوراک کے ایک ماہ بعد اینٹی باڈی کی سطح میں 4 سے 18 گنا تک بڑھ گئی۔

    اس تحقیق میں شامل رضاکاروں میں وہ افراد تھے جو گزشتہ سال آکسفورڈ کی تیار کردہ اس ویکسین کے ابتدائی اور آخری مرحلے کے ٹرائلز شامل تھے۔

    ان میں سے 30 افراد کو ٹرائل کے دوران صرف ایک خوراک دی گئی تھی اور دوسری خوراک 10 ماہ بعد دی گئی۔ 90 افراد ایسے تھے جو پہلے ہی 2 خوراکیں استعمال کرچکے تھے اور اس تحقیق میں انہیں تیسرا ڈوز دیا گیا۔

    تمام رضا کاروں کی عمریں 18 سے 55 سال کے درمیان تھیں۔

    تحقیق میں تیسری خوراک استعمال کرنے والے افراد میں کرونا وائرس کی اقسام ایلفا، بیٹا اور ڈیلٹا کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی زیادہ سطح کو دریافت کیا گیا۔ نتائج سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ وائرل ویکٹر ویکسینز کو بوسٹرز کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

  • شوگر کے مریض اپنی غذا کیسی رکھیں؟

    شوگر کے مریض اپنی غذا کیسی رکھیں؟

    ذیابیطس کا مرض نہایت احتیاط کا متقاضی ہوتا ہے، ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مناسب اور متوازن غذا کا استعمال بے حد ضروری ہوتا ہے ورنہ ذیابیطس دیگر طبی خطرات کو بھی دگنا کرسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ پر شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کا شکار افراد کا صحت مند کھانے کی عادات اپنانا حد ضروری ہے۔

    نیوٹریشنسٹ اور ذیابیطس ایجوکیٹر دویا گپتا کا کہنا ہے کہ ٹائپ 1 ذیابیطس کے مریضوں کو خون میں گلوکوز کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوراک میں کاربو ہائیڈریٹ کی مقدار پر نظر رکھنا ضروری ہے۔

    یہ جاننا ضروری ہے کہ کھانے میں پہلے سے طے شدہ مقدار سے زیادہ کاربس نہ ہوں، پھر اس حساب سے طے کیا جائے کہ مریض کو کتنی انسولین لینے کی ضرورت ہے۔

    ذیابیطس ٹائپ 2 کے ایسے مریض جن کا وزن زیادہ ہے انہیں سب سے پہلے اپنا وزن گھٹانے کی ضرورت ہے۔

    ٹائپ 2 اور ٹائپ 1 دونوں کے مریضوں کو اپنی خوراک میں صحیح مقدار میں غذائی عناصر شامل کرنا ضروری ہے۔ ایسی غذا کا انتخاب کریں جس میں کاربس ہوں اور اس بات کا دھیان رکھیں کہ آپ کتنی مقدار میں اس کو اپنی خوراک میں شامل کر رہے ہیں۔

    مثال کے طور پر براؤن رائس، روٹی، پاستا، اوٹس، کم چینی والے غذائی عناصر اور جوار۔ ان غذاؤں سے پرہیز کریں جس میں فائبر کی مقدار کم ہو جیسے سفید چاول، سفید بریڈ۔

    کچھ بھی خریدنے سے پہلے یہ ضرور دیکھیں کہ اس میں کیا کیا غذائی عناصر شامل ہیں، ہری پتے والی سبزیاں کھائیں، ان میں ضروری وٹامنز اور معدنیات شامل ہوتی ہیں جبکہ یہ بلڈ شوگر لیول کو بھی کم متاثر کرتی ہیں۔

    سبز پتوں والی سبزیوں میں گوبھی اور پالک وغیرہ شامل ہیں۔

    ذیابیطس کے مریضوں کے لیے پھل کھانا بھی فائدہ مند ہے، ان کی قدرتی مٹھاس انہیں نقصان نہیں پہنچاتی، اس کے برعکس ڈبہ بند جوسز مصنوعی مٹھاس سے بھرے ہوتے ہیں ان سے گریز کیا جائے۔

    پروٹین سے بھرپور غذائیں جیسے انڈے، پھلیاں، کم چربی والا دودھ، گوشت اور کھٹا دہی بھی کھایا جاسکتا ہے۔

    پیکٹ والے تمام کھانوں اور فاسٹ فوڈ سے پرہیز کریں، خاص طور پر جن میں زیادہ مقدار میں چینی شامل ہو۔

    ایسے مشروبات سے پرہیز کریں جس میں زیادہ مقدار میں چینی شامل ہوتی ہے، جیسے انرجی ڈرنکس وغیرہ۔

    غذا میں نمک کی مقدار کو بھی کم کریں، بہت زیادہ نمک کھانے سے ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے جس کے نتیجے میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ذیابیطس کے مریض کے لیے یہ تمام خطرات دگنے ہوجاتے ہیں۔

    ذیابیطس کے مریض اپنے کھانے میں پہلے سے تیار شدہ گوشت اور سرخ گوشت کی مقدار کو بھی کم کرنے کی کوشش کریں، اس کے بجائے اپنی خوراک میں دال، پھلیاں، انڈے، مچھلی اور چکن شامل کریں۔

    اسنیکس کی مقدار کم سے کم کریں اور چپس، بسکٹ اور چاکلیٹ کے بجائے دہی، پھل اور سبزیاں کھائیں۔

    شوگر کے مریضوں کو باقاعدگی سے ورزش کرتے رہنا چاہیئے، ورزش جسم کے وزن کو متوازن کرنے میں مدد کرتا ہے اور انسولین کی سطح کو بھی بہتر بناتا ہے۔

    صحت مند کھانے کے ساتھ جسمانی طور پر متحرک رہنا بھی ضروری ہے، یہ ذیابیطس کو سنبھالنے اور دل کی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

  • اگلا سال آفت زدہ ثابت ہوسکتا ہے: اقوام متحدہ نے خبردار کردیا

    اگلا سال آفت زدہ ثابت ہوسکتا ہے: اقوام متحدہ نے خبردار کردیا

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ آئندہ برس بدترین انسانی بحران کا سال ثابت ہوسکتا ہے اور 12 ممالک قحط کے خطرات سے دو چار ہو سکتے ہیں۔

    ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منعقدہ کووڈ 19 سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سال صحیح معنوں میں آفت زدہ سال ثابت ہوگا۔

    وبا اور جنگوں کے باعث انسانی ضروریات میں 2 گنا اضافہ ہونے پر توجہ مبذول کروانے والے بیسلے کا کہنا ہے کہ قحط اور فاقہ کشی 12 ممالک کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔

    انہوں نے ان 12 ممالک کے نام تو نہیں دیے تاہم فی الفور اقدامات سے اس خطرے کا سدباب کیے جانے پر زور دیا ہے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل رواں سال کے وسط میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق متعدد ممالک میں کرونا وائرس کے وبائی مرض نے جاری جنگوں کے اثرات پر ایک نیا بوجھ ڈال دیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق پہلے سے زیادہ افراد غربت کی طرف چلے گئے ہیں اور وہ خوراک حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی امداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔