Tag: خوراک

  • خوراک کی تلاش کے لیے کیڑوں کی انوکھی تکنیک نے لوگوں کو حیران کردیا

    خوراک کی تلاش کے لیے کیڑوں کی انوکھی تکنیک نے لوگوں کو حیران کردیا

    ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ اتحاد میں برکت ہے، اتحاد صرف انسانوں ہی نہیں بلکہ جانوروں کو بھی برکت سے مالا مال کردیتا ہے جس کا ثبوت یہ ویڈیو ہے۔

    شمالی تھائی لینڈ کی ایک بدھ خانقاہ کے باہر ریکارڈ کی گئی یہ ویڈیو ایک بدھ راہب نے بنائی۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہزاروں کیڑے منظم طور پر حرکت کر رہے ہیں، دور سے دیکھنے میں یوں محسوس ہورہا ہے جیسے یہ کوئی لمبا سا سانپ ہے۔

    کیڑوں کے اس طرح ایک مخصوص صورت میں منظم طور پر حرکت کرنے کا ایک مقصد تو کسی شکاری کے حملے سے بچنا ہے، جبکہ دوسرا مقصد اپنی منزل تک (خوراک کی تلاش میں) جلد پہنچنا ہے۔

    مزید پڑھیں: چیونٹی آپ کے باس سے بہتر مینیجر ثابت ہوسکتی ہے

    ویڈیو ریکارڈ کرنے والے راہب کا کہنا تھا کہ میں انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا، جس طرح سے یہ حرکت کر رہے تھے وہ حیرت انگیز تھا۔ راہب کا کہنا تھا کہ وہ ایک پل کی شکل میں حرکت کر رہے تھے۔

    خیال رہے کہ سنہ 2013 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق مختلف کیڑے جب خوراک کی تلاش میں نکلتے ہیں اور اس طرح منظم طور پر حرکت کرتے ہیں تو وہ اپنی منزل تک ڈیڑھ گنا زیادہ رفتار سے پہنچتے ہیں، بہ نسبت اس کے کہ کیڑے الگ الگ اپنی راہ لیں اور ہر کیڑا دگنے وقت میں اپنی منزل تک پہنچے۔

  • سعودی حکام 40 ارب ریال کی خوراک کا ضیاع روکنے کے لیے سرگرم

    سعودی حکام 40 ارب ریال کی خوراک کا ضیاع روکنے کے لیے سرگرم

    ریاض: سعودی عرب میں ہر سال 33 فیصد خوراک ضائع ہورہی ہے جس کے سبب 40 ارب ریال کا سالانہ خسارہ ہورہا ہے، سعودی حکام نے خوراک کے ضیاع کو روکنے کے لیے مختلف اقدامات بھی کیے ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی تنظیم برائے خوراک (ایس اے جی او) کی تحقیق کے مطابق مملکت میں سالانہ 33 فیصد خوارک ضائع ہو جاتی ہے، اس خوراک کے ضائع ہونے کے سبب سالانہ 40 ارب ریال کا خسارہ ہو رہا ہے۔

    تنظیم کی جانب سے مملکت بھر میں سروے کرنے کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ ہر سال تقریباً 184 کلو گرام خوراک فی کس کے حساب سے ضائع ہو رہی ہے۔

    رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ضائع ہونے والی اشیا میں 917 ٹن آٹا اور اس سے تیار ہونے والی مصنوعات شامل ہیں۔ اس کے بعد 557 ٹن چاول ضائع ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح مرغی کا گوشت 444 ٹن سالانہ تلف کر دیا جاتا ہے جبکہ 335 ٹن سبزیاں اور پھل وغیرہ شامل ہیں۔

    سعودی عرب میں خوراک تنظیم کے اشتراک نے وزارت ماحولیات نے عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس میں اشیائے خورد و نوش کو کم سے کم ضائع کرنے اور بچی ہوئی خوراک کو مفید بنانے کے لیے مختلف نکات اور نظریات کا تبادلہ کیا گیا ہے۔

    دوسری جانب مقامی مارکیٹ میں اناج سپلائی کرنے والے ادارے کے ذمہ دار خالد الغامدی نے زراعت اور دیگر پیداواری مصنوعات کی تقسیم اور کھپت تک ہر قسم کے اناج کو مارکیٹ میں بہتر طریقے سے پہنچانے کے تمام مراحل میں مزید بہتری لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ ہمارا سب سے بڑا چیلنج 40 ارب ریال کی خوراک کو ضائع ہونے سے کم کرنا ہے۔

    اس سے قبل جنوری 2020 میں وزارت بلدیات و دیہی امور نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں تمام ریستورانوں اور شادی ہالز کو اضافی خوارک کے تحفظ کے لیے فوڈ بینکوں سے معاہدوں کا پابند بنایا گیا۔

    ریاض میں ایک فوڈ بینک کے نمائندے عبدالطیف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ سال ہم نے کھانے کے تقریباً 1.8 ملین پیکٹ محفوظ طریقے سے تیار کر کے 676 خاندانوں کی خدمت میں پیش کیے۔

    ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں بسنے والوں کے شعور میں خوراک کو کم سے کم ضائع کرنے میں مزید بہتری آئی ہے تاہم فوڈ بینکوں کے کام کو مزید بہتر بنا کر اور خوراک کو محفوظ طریقے سے ضرورت مندوں تک پہنچانے میں ابھی مزید کوششوں اور کام کی ضرورت ہے۔

  • ملک بھر میں صحت،خوراک اور توانائی کی سہولیات متاثر نہیں ہونے دیں گے، اسد عمر

    ملک بھر میں صحت،خوراک اور توانائی کی سہولیات متاثر نہیں ہونے دیں گے، اسد عمر

    اسلام آباد: وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں صحت،خوراک اور توانائی کی سہولیات متاثر نہیں ہونے دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی زیرصدارت کرونا وائر پر اجلاس ہوا جس میں اسلام آباد میں صحت اور خوراک کے انتظامات کا جائزہ لیاگیا۔

    اجلاس میں بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ اسلام آباد میں روزانہ 1000خاندانوں کو راشن فراہم کیا جا رہا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد میں3 روزہ کرونا آگاہی مہم چلائی جائے گی۔

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ عوام میں سماجی فاصلہ یقینی بنانے کے لیے آگاہی مہم چلائی جائےگی، اسلام آباد کے منتخب نمائندے، انتظامیہ، رضا کار مہم میں حصہ لیں گے، رضاکار ضلعی انتظامیہ کی قیادت میں کام کریں گے۔

    اسد عمر کا کہنا تھا کہ منڈیوں اور خوراک کا نظام متاثر نہیں ہونے دیا جائے گا، ملک بھرمیں صحت،خوراک اور توانائی کی سہولیات متاثر نہیں ہونے دیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ اسلام آبادمیں یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعےخوراک کی فراہمی یقینی بنائیں گے، ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائیں گے۔ اجلاس میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ عوام سینیٹائزر کی بجائےصابن سے ہاتھ دھوئیں۔

  • حوثی باغی یمنی عوام کے لیے بھیجے گئے امدادی ٹرکوں پر قبضہ نہیں کریں گے

    حوثی باغی یمنی عوام کے لیے بھیجے گئے امدادی ٹرکوں پر قبضہ نہیں کریں گے

    صنعا: حوثی باغی اور اقوام متحدہ کے درمیان معاہدہ طے پاگئے جس کے تحت یمن میں امداد کی مد میں خوراک کی ترسیل باآسانی ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ یا دیگر عالمی تنظیمیوں کی جانب سے جنگ زدہ یمن میں بھیجے گئے خوراک کے کنٹینرز پر حوثی باغی اکثر قبضہ کرلیتے ہیں، تاہم اب فریقین کے درمیان معاہدہ طے پاگیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کے محکمہ خوراک اور یمن کے حوثی باغیوں کے مابین جنگ زدہ علاقوں میں خوراک کی ترسیل دوبارہ شروع کرنے کا معاہدہ طے پاگیا۔

    حوثی باغیوں کے ترجمان محمد علی حوثی نے سماجی روابط کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ عالمی ادارے برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے ساتھ معاہدے کو حتمی شکل دے دی گئی۔

    واضح رہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں رواں برس جون سے خوراک کی ترسیل روک دی گئی تھی۔ اس ضمن میں ڈبلیو ایف پی کے ترجمان ہرویو ورہوسل نے کہا کہ اعلیٰ سطح کا معاہدہ ایک مثبت اور انتہائی اہم قدم ہے جس کے تحت یمن میں ہماری انسان دوست سرگرمیوں کو تحفظ ملے گا۔

    یمنی شہریوں کے لیے پہنچائی گئی امداد حوثیوں نے لوٹ لی، عبداللہ الربیعہ

    انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ تکنیکی نوعیت کے مسائل پر آئندہ چند دن میں اتفاق رائے ہوسکے گا۔ خیال رہے کہ ڈبلیو ایف پی نے 20 جون کو اپنی امدادی کارروائی بند کردی تھیں، انہیں تحفظات تھے کہ خوراک متاثرہ خاندانوں کے بجائے کہیں اور منتقل کی جارہی ہے۔

    ڈبلیو ایف پی نے خدشے کے باوجود حاملہ خواتین، غذائی قلت کے حامل بچوں اور بچوں کو دودھ پلانی والی عورتوں کے لیے خوراک کی ترسیل جاری رکھی تھی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس ڈبلیو ایف پی نے حوثی جنگجوؤں پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ خوراک چوری کرلیتے ہیں جس کی روک تھام کے لیے بائیو میٹرک رجسٹریشن کا نظام لایا جائے گا۔

  • وہ غذائیں جو جھوٹ بول کر بیچی جاتی ہیں

    وہ غذائیں جو جھوٹ بول کر بیچی جاتی ہیں

    آج کل کے تیز رفتار دور میں کسی پراڈکٹ کی کامیابی اس بات پر انحصار کرتی ہے کہ اسے کتنی اچھی طرح پیش کیا گیا، کسی پراڈکٹ کی جتنی اچھی مارکیٹنگ کی جائے گی وہ اتنی ہی زیادہ فروخت ہوگی۔

    قطع نظر اس کے، کہ کوئی پراڈکٹ ہمارے کام کی ہے یا نہیں، اگر کھانے کی چیز ہے تو ہمارے لیے صحت مند ہے یا نہیں، ہم اکثر اشیا خوش کن اشتہارات دیکھ کر انہیں خرید لیتے ہیں، ان اشیا میں کھانے پینے کی اشیا بھی شامل ہیں۔

    ہم گمراہ کن اشتہارات کے ذریعے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ فلاں جوس یا فلاں ڈبہ بند شے ہمیں صحت و توانائی فراہم کرسکتی ہے، یا کوئی کولڈ ڈرنک پیتے ہی ہمیں خوشیوں کا کوئی نیا جہاں مل جائے گا، تاہم یہ صرف ایک دھوکے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔

    مزید پڑھیں: غذائی اشیا میں کی جانے والی جعلسازیاں

    آج ہم آپ کو فوڈ انڈسٹری کے ایسے ہی کچھ دھوکوں کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جو جھوٹے اشتہارات دکھا کر ہمیں دیے جاتے ہیں اور ہم بغیر کچھ سوچے سمجھے انہیں خرید کر اپنے جسم کا ایندھن بناتے ہیں، نتیجے میں ہمیں موٹاپے، ذیابیطس اور بلڈ پریشر سمیت بے شمار بیماریاں ملتی ہیں۔

    فروٹ جوس

    ٹی وی پر چلتے ہوئے اشتہار میں تازہ پھل جنہیں درخت سے توڑا جاتا ہے، اور ان پھلوں کا رس نکالنا، کیا آپ کو واقعی ایسا لگتا ہے کہ آپ جو ڈبہ بند جوس پی رہے ہیں وہ یہی پھلوں سے نکالا ہوا رس ہے؟ تو اپنی غلط فہمی دور کرلیں۔

    گھر میں نکالا گیا فروٹ جوس تو صحت بخش ہوسکتا ہے، تاہم ڈبہ بند فروٹ جوس میں رنگ اور مصنوعی مٹھاس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ انہیں تازہ اور ذائقہ دار رکھنے کے لیے ڈالے گئے کیمیکل، چینی اور رنگ آپ کو بے شمار طبی مسائل میں مبتلا کرسکتے ہیں۔

    چینی

    کیا آپ جانتے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم چینی کی لت کے ایسے ہی عادی ہوسکتے ہیں جیسے کوکین کا عادی ہوجانا، یہی وجہ ہے کہ بڑی فوڈ انڈسٹریز اپنی مصنوعات میں چینی کا بے تحاشہ استعمال کرتی ہیں تاکہ آپ کو ان اشیا کی لت لگ جائے اور آپ بار بار وہ شے خریدیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق امریکی گروسری اسٹورز پر رکھی جانے والی 70 فیصد مصنوعات میں چینی کی آمیزش ہوتی ہے۔

    گو کہ ہمارے جسم اور دماغ کو شوگر کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ چینی کو اپنے ہر کھانے کا لازمی جز بنا لیں اور جب بھی کچھ کھائیں تو وہ میٹھا ہی ہو۔

    اعتدال میں رہ کر چینی کا استعمال جسم کے لیے فائدہ مند ہے ورنہ یہ سخت نقصان دہ بن سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: تازہ سبزیوں کی زہریلی حقیقت آپ کو پریشان کردے گی

    سوڈا ڈرنک

    سوڈا ڈرنکس کے اکثر اشتہارات میں آپ کو باور کروایا جاتا ہے کہ ایک کین پیتے ہی آپ خود کو خوش و خرم محسوس کریں گے اور آپ کے اندر مثبت خیالات پیدا ہوں گے، کچھ ڈرنکس آپ کو توانائی سے بھردیں گی اور آپ بے اختیار خطرے کو گلے لگانے کے لیے لپکیں گے۔۔ یہ صرف ایک دھوکہ ہے اور کچھ نہیں۔

    ان کولڈ ڈرنکس / سوڈا ڈرنکس کے نقصانات کے حوالے سے تمام سائنسی و طبی ماہرین متفق ہیں۔ یہ موٹاپے، معدے اور سینے مین جلن اور تکلیف کا سبب بنتی ہیں۔

    کولڈ ڈرنکس کی تیاری میں بے تحاشہ شوگر، کیمیکلز اور مصنوعی رنگ ملائے جاتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے زہر کی حیثیت رکھتے ہیں اور آہستہ آہستہ آپ کے جسم کو ختم کردیتے ہیں۔

    ڈائٹ سوڈا

    ایک اور دھوکہ ان ڈرنکس کے ساتھ ’ڈائٹ‘ کا لفظ لگا کر دیا جاتا ہے، لیکن درحقیقت یہ جسم کے لیے عام ڈرنکس سے بھی زیادہ نقصان دہ ہوتی ہیں۔

    ڈائٹ مشروبات میں شامل مٹھاس عام میٹھے کی نسبت زیادہ میٹھی ہوتی ہے جبکہ اس میں کیمیکلز بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ جسم میں جا کر آنتوں کے خلیات کو شید طور پر متاثر کرتی ہیں۔

    ڈائٹ مشروبات دل کے دورے اور فالج کے خطرے میں 43 فیصد اضافہ کر دیتے ہیں جبکہ امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی مٹھاس کی آمیزش والے مشروبات ہڈیوں کو کمزور اور بھربھرا بنا دیتے ہیں۔

    ان دھوکوں کی واقفیت حاصل کرنے کے بعد کیا اب بھی آپ یہ دھوکہ کھانا چاہیں گے؟

  • کیا آپ بھی ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ کھاتے ہیں؟

    کیا آپ بھی ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ کھاتے ہیں؟

    کیا آپ ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ تناول فرماتے ہیں؟ یہ سوال سننے میں تو عجیب سا لگتا ہے تاہم ماہرین نے حال ہی میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص مختلف غذائیں کھانے کے ساتھ ساتھ کریڈٹ کارڈ بھی کھا رہا ہے۔

    عالمی ادارہ ماحولیات ڈبلیو ڈبلیو ایف نے حال ہی میں ایک مہم شروع کی ہے جس میں انہوں نے لوگوں کو آگاہ کیا کہ ان کی غذا میں پلاسٹک کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے اور وہ تقریباً ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ جتنا پلاسٹک کھا رہے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق اس وقت دنیا کا ہر انسان ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک کھا رہا ہے اور یہ مقدار ایک کریڈٹ کارڈ جتنی ہے۔

    تحقیق کے مطابق ہر انسان سال میں کم از کم 1 لاکھ پلاسٹک کے چھوٹے ذرات (مائیکرو پلاسٹک) کھا رہا ہے جو اس کی غذا میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ مقدار ماہانہ 21 گرام اور سالانہ 250 گرام بنتی ہے۔

    لیکن یہ پلاسٹک کہاں سے آرہا ہے؟

    تحقیق کے مطابق اس وقت ہماری زمین پر استعمال ہونے والے پلاسٹک میں سے 80 لاکھ ٹن پلاسٹک سمندروں میں جارہا ہے۔

    ان میں پلاسٹک کے نہایت ننھے منے ذرات بھی ہوتے ہیں جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے۔ یہ مزید چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر نینو ذرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں اور مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔

    زراعتی مٹی میں شامل پلاسٹک ہمارے کھانے پینے کی اشیا بشمول سبزیوں اور پھلوں میں شامل ہوجاتا ہے جبکہ سمندروں میں جانے والا پلاسٹک مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کی خوراک بن جاتا ہے۔

    بعد ازاں جب یہ مچھلیاں پک کر ہماری پلیٹ تک پہنچتی ہیں تو ان میں پلاسٹک کے بے شمار اجزا موجود ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

  • خوراک کی عدم دستیابی لاکھوں افراد کو متاثر کرے گی، فوڈ سکیورٹی انفارمیشن نیٹ ورک

    خوراک کی عدم دستیابی لاکھوں افراد کو متاثر کرے گی، فوڈ سکیورٹی انفارمیشن نیٹ ورک

    نیویارک : 2018 میں قدرتی آفات، جنگ و جدل اور اقتصادی مسائل کے سبب 11 کروڑ 30 لاکھ افراد کے غذائی قلت سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق فوڈ سکیورٹی انفارمیشن نیٹ ورک نے انتباہ جاری کیا ہے کہ خوراک کی عدم دستیابی سے رواں سال لاکھوں انسان غذائی قلت کا شکار ہوں سکتے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ 2018 میں قدرتی آفات، جنگ و جدل اور اقتصادی مسائل کے سبب 113 ملین افراد ایسی صورتحال سے دوچار ہیں، یمن میں ایک کرورڑ ساٹھ لاکھ افراد کو خوارک کی اشد ضرورت ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ کانگو میں ایسے افراد کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ اور افغانستان میں لگ بھگ ایک کروڑ پانچ لاکھ ہے۔

    خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ انکشاف فوڈ سکیورٹی انفارمیشن نیٹ ورک کی جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں کیا گیا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2018 میں قدرتی آفات، جنگ و جدل اور اقتصادی مسائل کے سبب گیارہ کروڑ تیس لاکھ افراد ایسی صورتحال سے دوچار ہیں کہ انہیں فوری طور پر مدد درکار ہے۔

    مزید پڑھیں : حوثی ملیشیا امدادی خوراک لوٹ کر نقد فروخت کررہی ہے

    خیال رہے کہ رواں برس کے آغاز میں عالمی ادارہ خوراک نے یمن میں غذائی قلت سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کے عالمی ادارہ خوراک نے رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ قحط کا شکار یمنی شہریوں کے لیے بھیجی گئی خوراک کو حوثیوں کے کنٹرول والے علاقوں میں لوٹ کر نقد فروخت کیا جارہا ہے۔

    عالمی ادارہ خوراک کی رپورٹ کے تحت یمن میں پیدا ہونے والی غذائی قلت کی صورتحال مصنوعی ہے جیسے اپنے حقوق کی مسلح جدوجہد کرنے والے حوثی جنگجو لوٹ کر پیدا کررہے ہیں۔

  • پھلوں کو خراب ہونے سے بچانے والے اسٹیکرز جو کھائے بھی جاسکتے ہیں

    پھلوں کو خراب ہونے سے بچانے والے اسٹیکرز جو کھائے بھی جاسکتے ہیں

    مختلف پھلوں کو چند دن محفوظ رکھا جائے تو یہ خراب ہونے لگتے ہیں اور کھانے کے قابل نہیں رہتے جس کے بعد مجبوراً انہیں ضائع کرنا پڑتا ہے، تاہم اب ایسے اسٹیکرز تیار کیے گئے ہیں جو پھلوں کے خراب ہونے کے عمل کو سست کردیں گے۔

    ملائیشیا میں تیار کیے جانے والے یہ اسٹیکرز پھلوں کو خراب ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ یہ پھل کے خراب ہونے کی عام رفتار کے برعکس پھل کو مزید 14 دن تک تازہ اور میٹھا رکھ سکتے ہیں۔

    ان اسٹیکرز کو پپیتے، آم، سیب اور امرود سمیت مختلف پھلوں پر چپکایا جاسکتا ہے جس کے بعد یہ پھل کچھ عرصے تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔

    اسٹکس فریش نامی یہ اسٹیکرز پھلوں میں ان ہارمونز کی کارکردگی میں کمی کرتے ہیں جو پھل کو خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

    ان کو تیار کرنے کا مقصد ضائع شدہ غذا کی مقدار میں کمی لانا اور ساتھ ہی کسانوں، ہول سیلرز، ڈسٹری بیوٹرز اور ریٹیلرز کے پیسے بچانا ہے۔

    یہ اسٹیکرز سوڈیم کلورائیڈ اور موم سے تیار کیے گئے ہیں جو خوردنی ہیں اور کھائے بھی جاسکتے ہیں۔

  • خوراک کا عالمی دن: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

    خوراک کا عالمی دن: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خوراک کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان بھوک کا شکار ممالک میں 14ویں نمبر پر ہے۔

    آج کی دنیا جہاں ایک جانب اپنی تاریخ کے جدید ترین دور میں داخل ہونے پر فخر کر رہی ہے وہیں اس جدید دنیا میں عوام کی کثیر تعداد بھوک و پیاس کا شکار ہے۔

    خوراک کا عالمی دن منانے کا آغاز 1979 سے ہوا، اقوام متحدہ نے اس سال کا عنوان ’بھوک کا خاتمہ 2030 تک ممکن ہے‘ رکھا ہے۔

    گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 80 کروڑ سے زائد افراد دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں۔ 22 ممالک ایسے ہیں جو شدید غذائی بحران کا شکار ہیں، ان میں سے 16 ممالک میں قدرتی آفات کی وجہ سے غذائی بحران بڑھا۔

    مزید پڑھیں: بھوک کے خلاف برسر پیکار رابن ہڈ آرمی

    بھوک کی شرح سب سے زیادہ ایشیائی ممالک میں ہے، بھوک کا شکار ممالک میں پاکستان کا نمبر رواں برس 14 واں ہے اور یہاں کی 21 کروڑ آبادی میں سے پانچ کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں، جنہیں پیٹ بھرکر روٹی میسر نہیں۔

    پاکستان میں کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے اور 8.1 فیصد بچے پانچ سال سے کم عمری میں ہی وفات پا جاتے ہیں۔

    سنہ 2015 میں شروع کیے جانے والے پائیدار ترقیاتی اہداف میں بھوک کا خاتمہ دوسرے نمبر پر ہے۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق اگر کھانے کو ضائع ہونے سے بچایا جائے، اور کم وسائل میں زیادہ زراعت کی جائے تو سنہ 2030 تک اس ہدف کی تکمیل کی جاسکتی ہے۔

  • ضائع شدہ خوراک کو کام میں لایا جاسکتا ہے

    ضائع شدہ خوراک کو کام میں لایا جاسکتا ہے

    آپ اپنے گھر میں استعمال کیے جانے والی غذائی اشیا کے چھلکے یقیناً پھینک دیتے ہوں گے۔

    یہی نہیں بچ جانے والی خوراک بھی کوڑا دان کی زینت بن جاتی ہے جو ایک طرف تو خوراک کے ضیاع کی طرف اشارہ کرتی ہے تو دوسری جانب کچرے میں بھی اضافہ کرتی ہے۔

    اب سبزیوں اور پھلوں کے چھلکوں کو قابل استعمال بنانے کے لیے ایک بہترین شے ایجاد کرلی گئی ہے جو ان تمام اشیا کو کھاد میں تبدیل کردیتی ہے۔

    اور ہاں، اسے کسی قسم کی توانائی جیسے بجلی وغیرہ کی بھی ضرورت نہیں۔

    desktop-2

    ڈیسک ٹاپ ایکو سسٹم کہلایا جانے والا یہ سسٹم دراصل پلاسٹک کے ایک ڈبے پر مشتمل ہے۔

    آپ اپنے گھر میں پھلوں اور سبزیوں کے چھلکے اس میں ڈال دیں، کچھ دن بعد یہ کھاد میں تبدیل ہوجائیں گے جو باغبانی میں استعمال کی جاسکتی ہے۔

    پھینکی جانے والی غذائی اشیا کو کھاد میں تبدیل کرنے کے لیے نہایت قدرتی طریقہ استعمال کیا گیا ہے یعنی کیڑوں کی موجودگی۔

    وہی کیڑے جو زمین پر کسی شے کو تلف کر کے اسے زمین کا حصہ بنا دیتے ہیں، وہی ہمارے پھینکے گئے کچرے کو بھی کھاد میں تبدیل کر دیں گے۔

    desktop-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح سے گھریلو پیمانے پر کھاد تیار کر کے اسے گھر میں ہی مختلف سبزیاں اور پھل اگانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جس سے کسی ایک گھر کی غذائی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔

    علاوہ ازیں کھاد بنانے کے لیے ڈالا جانے والا کچرا آلودگی اور گندگی میں کمی کرے گا، بعد ازاں اس کھاد سے اگائے گئے پودے درجہ حرارت میں کمی، اور ماحول پر خوشگوار اثرات مرتب کریں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔