Tag: خوراک

  • سنہ 2050 تک دنیا سے غذا ختم ہونے کا خدشہ

    سنہ 2050 تک دنیا سے غذا ختم ہونے کا خدشہ

    بین الاقوامی سماجی ادارے آکسفیم نے ہولناک انکشاف کیا ہے کہ سنہ 2050 تک دنیا میں غذا و خوراک کے تمام ذرائع ختم ہونے کا خدشہ ہے اور سنہ 2030 سے غذا کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ متوقع ہے۔

    آکسفیم کی حال ہی میں شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2050 تک دنیا کی آبادی 9.8 ارب افراد تک جا پہنچے گی۔ اتنے سارے لوگوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہمیں موجودہ زراعت میں 70 فیصد اضافہ کرنا ہوگا۔

    رپورٹ کے مطابق سنہ 2030 سے غذا کی قیمتوں میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا جائے گا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مکئی کی قیمت میں 180 جبکہ چاول کی قیمت میں 130 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔

    اس ممکنہ غذائی قلت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بھی مشکل نہیں کہ دنیا میں بھوک اور غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: دنیا بھر میں 80 کروڑ افراد غذائی قلت کا شکار

    ماہرین کے مطابق یہ صرف بڑھتی ہوئی آبادی نہیں ہے جو غذائی صورتحال کے لیے تشویش ناک ہے۔ فصلوں کی نئی بیماریاں، صحرا زدگی اور زمین کا کٹاؤ بھی زراعتی زمین کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔


    امید کی کرن

    تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس خوفناک صورتحال سے بچنے کی صورت بہرحال موجود ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم زراعت کو موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے مطابق تبدیل کریں۔ زراعت میں جدید ٹیکنالوجی اور نئے ذرائع استعمال کر کے زرعی پیداوار میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

    اس کے علاوہ انفرادی طور پر ہمیں غذا کی خریداری اور اس کے استعمال پر بھی دھیان دینا ہوگا اور کوشش کرنی ہوگی کہ کم سے کم غذا ضائع کریں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سنہ 2050 تک 1 ارب افراد بھوک کے خوفناک عفریت کا شکار

    سنہ 2050 تک 1 ارب افراد بھوک کے خوفناک عفریت کا شکار

    عالمی اقتصادی ادارے کا کہنا ہے کہ سنہ 2050 تک دنیا بھر میں 1 افراد غذائی اشیا کی قلت اور اس کے باعث شدید بھوک کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    اور کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ صورتحال کیوں پیش آسکتی ہے؟ دنیا بھر میں ضائع کی جانے والی اس غذا کی وجہ سے جو لاکھوں کروڑوں افراد کا پیٹ بھر سکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: بھوک کے خلاف برسر پیکار رابن ہڈ آرمی

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق خوراک کو ضائع کرنا دنیا بھر میں فوڈ سیکیورٹی کے لیے ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں جتنی خوراک اگائی جاتی ہے اس کا ایک تہائی حصہ ضائع کردیا جاتا ہے۔

    اس ضائع کردہ خوراک کی مقدار تقریباً 1.3 بلین ٹن بنتی ہے اور اس سے دنیا بھر کی معیشتوں کو مجموعی طور پر ایک کھرب امریکی ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں ایک ہدف سنہ 2030 تک دنیا میں ضائع کی جانے والی خوراک کی مقدار کو نصف کرنا بھی ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کی معیشت جیسے جیسے ترقی کر رہی ہے، ویسے ویسے ان کی غذائی ضروریات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

    ماہرین کے مطابق اگر ہم اس خوفناک صورتحال سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی اقتصادی ترقی کو قدرتی وسائل کے مطابق محدود کرنا ہوگا۔

    ساتھ ہی ہمیں غیر ضروری اشیا کا استعمال کم کرنے (ریڈیوس)، چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنے (ری یوز)، اور انہیں قابل تجدید بنانے (ری سائیکل) کرنے کے رجحان کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا ہوگا۔

    اس کے ساتھ ہی یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے گھروں سے پھینکی اور ضائع جانے والی غذائی اشیا کی مقدار کو کس طرح کم سے کم کر سکتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • دنیا بھر میں 80 کروڑ افراد غذائی قلت کا شکار

    دنیا بھر میں 80 کروڑ افراد غذائی قلت کا شکار

    روم: اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے خوراک و زراعت ایف اے او کا کہنا ہے کہ دنیا میں اس وقت غذائی بحران جاری ہے اور 19 ممالک شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

    اٹلی کے دارالحکومت روم میں ایف اے او کی سالانہ کا نفرنس میں 30 سے زائد ممالک کے سربراہان اور نمائندگان نے شرکت کی۔

    کانفرنس میں ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف کے تحت سنہ 2030 تک صفر بھوک (زیرو ہنگر) کا ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے تاہم اس کے لیے سخت محنت، ترقی اور بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔

    مزید پڑھیں: کس بچے کو کھانا کھلائیں اور کس کو نہیں؟ صومالی والدین اذیت میں

    ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ دنیا بھر میں اس وقت 80 کروڑ سے زائد افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔

    اسی طرح دنیا بھر میں 5 سال تک کی عمر کے 15 کروڑ 50 لاکھ بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔

    ایف اے او کے مطابق دنیا میں غربت کی شکار آبادی کا 60 فیصد حصہ جنگ زدہ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار ممالک میں مقیم ہیں۔ 2 کروڑ افراد یمن، سوڈان، نائجیریا اور صومالیہ میں قحط کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں: جنوبی سوڈان قحط زدہ ملک قرار

    کانفرنس میں ماہرین کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت کی مدد اور امن کے بغیر غربت اور بھوک سے نجات ممکن نہیں۔ لوگوں کو بھوک سے بچانے کے لیے ان کے روزگار کو بچانا ہوگا۔

    ایف اے او کی یہ 3 جولائی سے شروع ہونے والی کانفرنس 8 جولائی تک جاری رہے گی جس میں دنیا بھر کی غذائی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ضائع شدہ غذائی اشیا فروخت کرنے والی سپر مارکیٹ

    ضائع شدہ غذائی اشیا فروخت کرنے والی سپر مارکیٹ

    لندن: برطانیہ میں ضائع شدہ غذائی اشیا سے سجی پہلی سپر مارکیٹ کا افتتاح کردیا گیا۔ اس سپر مارکیٹ میں وہ غذائی اشیا فروخت کی جارہی ہیں جو مختلف ہوٹلوں اور سپر اسٹورز کی جانب سے ضائع کردی جاتی ہے یا پھینک دی جاتی ہے۔

    برطانوی شہر لیڈز میں کھولی گئی اس سپر  مارکیٹ کو، جسے ویئر ہاؤس کا نام بھی دیا گیا ہے، رئیل جنک فوڈ پروجیکٹ نامی تنظیم نے قائم کیا ہے جو ضائع شدہ خوراک کو قابل استعمال بنانے پر کام کر رہا ہے۔

    sm-1

    sm-2

    مارکیٹ میں اشیا کی قیمتوں کی جگہ ’پے ایز یو فیل‘ کا ٹیگ لگا ہے یعنی آپ خوراک کے لیے جو قیمت مناسب سمجھیں وہی دے دیں۔

    یہ سپر مارکیٹ ان افراد کو مفت اشیائے خورد و نوش بھی فراہم کر رہی ہے جن کی آمدنی کم ہے اور جو اسے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

    مزید پڑھیں: امریکی عوام کا ’بدصورت‘ پھل کھانے سے گریز

    ان ہی میں سے ایک کرسٹی رہوڈز بھی ہے۔ کرسٹی اور اس کا شوہر کم تعلیم یافتہ ہیں لہٰذا ان کی آمدنی بے حد کم ہے۔ اس آمدنی میں وہ اپنی اور اپنے 3 بچوں کی کفالت نہیں کر سکتے اور ایسے میں یہ ویئر ہاؤس ان کے لیے نعمت خداوندی ہے۔

    sm-3

    sm-4

    کرسٹی کا کہنا ہے کہ اسے یہاں سے تازہ پاستہ، جوس، مٹھائیاں، سبزیاں اور سلاد مل جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ہی جیسے غریب افراد کو پھلوں سے جام بنانا بھی سکھائے گی جو اس نے ایک بار اپنے گھر پر بنایا تھا۔

    مزید پڑھیں: اولمپک ویلج کا بچا ہوا کھانا بے گھر افراد میں تقسیم

    پروجیکٹ کے سربراہ ایڈم اسمتھ کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے اسٹور پورے ملک میں کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں سے لوگ کم قیمت یا مفت خوراک حاصل کرسکیں۔

    sm-5

    sm-6

    واضح رہے کہ خوراک کو ضائع کرنا دنیا بھر میں فوڈ سیکیورٹی کے لیے ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں جتنی خوراک اگائی جاتی ہے اس کا ایک تہائی حصہ ضائع کردیا جاتا ہے۔

    اس ضائع کردہ خوراک کی مقدار تقریباً 1.3 بلین ٹن بنتی ہے اور اس سے دنیا بھر کی معیشتوں کو مجموعی طور پر ایک کھرب امریکی ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔