Tag: خوف

  • ’’آئی پی ایل کانٹریکٹ نہ چھن جائے‘‘، خوف کے مارے آسٹریلین کھلاڑیوں نے کیا کیا؟

    ’’آئی پی ایل کانٹریکٹ نہ چھن جائے‘‘، خوف کے مارے آسٹریلین کھلاڑیوں نے کیا کیا؟

    آئی پی ایل سے ملنے والی رقم چھن جانے کا خوف ایسا چھایا کہ آسٹریلین کرکٹرز محمد سراج کے غلط رویے کی حمایت کرنے لگے۔

    انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کی دولت کی چکاچوند نے آسٹریلوی کرکٹرز کے اخلاقی معیار کو پست کر دیا ور کینگروز کھلاڑی اس لیگ سے ملنے والی لمبی رقم سے محروم ہونے سے خوفزدہ ہوکر اپنے کھلاڑی کے بجائے بھارتی فاسٹ بولر محمد سراج کی حمایت کرنے لگے۔

    ایڈیلیڈ میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں بھارت کے نوجوان فاسٹ بولر محمد سراج آسٹریلین فینز کے لیے ولن بنے۔ پہلے انہوں نے لبھوشن کی طرف غصہ سے گیند پھینکی لیکن اس کے بعد تو حد پار کرتے ہوئے ٹریوس ہیڈ سے لڑ پڑے۔

    سراج نے آؤٹ کرنے کے بعد ٹریوس ہیڈ کو پویلین لوٹ جانے کا اشارہ کیا۔ آئی سی سی قوانین میں یہ بھی قابل جرمانہ ہے لیکن بولر کیونکہ بھارتی تھا اس لیے سراج کے دونوں فاؤل ملا کر بھی صرف میچ فیس کا بیس فیصد جرمانہ کیا گیا۔

    بھارتی بولر کے اس رویے پر آسٹریلوی کھلاڑی آئی پی ایل کا لمبا مال چھن جانے کے ڈر سے اپنے ساتھی کی حمایت کے بجائے محمد سراج کی خوشامد پر اتر آئے اور میچ کے بعد اس کے آگے پیچھے پھرے۔

    سب سے پہلے تو سراج کی بدتمیزی کا شکار ٹریوس ہیڈ نے ہی بولر کو گلے لگایا، پھر جوش ہیزل ووڈ بھی ان کی حمایت میں بول پڑے۔

    ہیزل ووڈ نے کہا کہ سراج گریٹ ہے، اس کے ساتھ آئی پی ایل میں بڑا مزہ آتا ہے، وہ کراؤڈ کو پرجوش کرتا ہے۔

    اگر یہ رویہ کسی اور ملک کے کھلاڑی نے کیا ہوتا تو آسٹریلیا کی پوری ٹیم اور میڈیا اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتا، لیکن کینگرو بولر کے یہ الفاظ ان کے رویے اور آئی پی ایل میں دولت کی چمک دمک کے تعلق کو نمایاں کر رہی ہے۔

    واضح رہے کہ مذکورہ واقعہ پر آئی سی سی نے ایکشن لیتے ہوئے دونوں کھلاڑیوں کو سزا سنائی ہے۔

    آئی سی سی نے محمد سراج اور ٹریوس ہیڈ کو ایک ایک ڈی میرٹ پوائنٹ دیا ہے جب کہ بھارتی فاسٹ بولر محمد سراج پر میچ فیس کا 20 فیصد جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔

  • امتحانات کی ٹینشن اور خوف کو کیسے کم کیا جائے؟

    امتحانات کی ٹینشن اور خوف کو کیسے کم کیا جائے؟

    عمر کے ہر حصے میں امتحان کا خوف کئی دن پہلے سے لاحق ہوجاتا ہے اور نہ صرف کارکردگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ کئی جسمانی مسائل کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    امتحانات کے دنوں میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ ذہنی دباؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے کمرہ امتحان میں پرچہ حل کرنے کے لیے وقت کا صحیح استعمال نہیں کر پاتے۔

    ذہنی دباؤ کی وجہ سے سر درد، بخار، ہاضمے کے مسائل، قبض، تھکاوٹ، توجہ مرکوز کرنے میں دشواری، یاد رکھنے میں دشواری، نیند کی کمی وغیرہ کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔

    کچھ والدین یہ دلیل دیتے ہیں کہ امتحانات کے دنوں میں یہ خوف اور ذہنی دباؤ طلبہ کو مزید محنت کرنے میں مدد اور بہتر نتائج دیتی ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔

    بڑھتی ہوئی پریشانی اور تناؤ بچوں میں جسمانی اور ذہنی صحت کے بہت سے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

    سب سے پہلے ضرورت ہے کہ اس ڈپریشن سے نجات حاصل کی جائے کیونکہ اگر آپ اس سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو کمرہ امتحان میں پرچہ حل کرتے وقت اعلیٰ کارکردگی دکھانا ناممکن نہیں ہوگا۔

    ماہرین تعلیم اور صحت امتحانات کے دوران کسی بھی طالب علم کو ڈپریشن پر قابو پانے کے لیے جن مفید تجاویز پر عمل کرنے پر زور دیتے ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں۔

    ورزش کریں

    کنگز کالج لندن کے ڈاکٹر برینڈن اسٹبس کا کہنا ہے کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ورزش کرنے سے مستقبل میں ذہنی صحت کے مسائل جیسے کہ بے چینی اور ڈپریشن سے بچا جا سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تیز دوڑنا دماغی صحت کو بہتر بنانے کا واحد طریقہ نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کسی بھی قسم کی جسمانی سرگرمی آپ کے لیے اچھی ہو سکتی ہے، مثال کے طور پر سیر کے لیے لے جانا، جم جانا، کسی دوست کے ساتھ کھیلنا یا یوگا کرنا۔

    امتحانات کے دنوں میں اگر آپ 15 منٹ بھی ورزش کے لیے نکالنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ عمل آپ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے بہترین تصور کیا جا سکتا ہے۔

    سکون کی نیند

    امتحانات کے دنوں میں سکون کی نیند بہت زیادہ ضروری ہے، مگر ٹینشن کے باعث غیر مناسب نیند نہ صرف امتحانات بلکہ آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے بھی مسائل پیدا کرسکتی ہے۔

    اس بات کو یقینی بنائیں کہ روزانہ 7 گھنٹے لازمی اپنی نیند پوری کریں تاکہ اگلے لمحے آپ کا دماغ تروتازہ ہو اور امتحان کی تیاری کرسکیں۔

    اپنے آپ پر یقین رکھیں

    جب ہم مسلسل نئے چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں، تو ہم اکثر پیچھے مڑ کر دیکھنا بھول جاتے ہیں کہ ہم نے کتنی مشکلات کا سامنا اور محنت کر کے کیا کچھ حاصل کیا ہے۔ اگر آپ نے امتحانات کی تیاری اچھی کی ہے تو پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں لہٰذا منفی سوچ نہ رکھیں، لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟

    مثال کے طور پر اگر آپ سوچتے ہیں کہ اگر میرے اتنے نمبر آگئے تو میں ناکام ہوجاؤں گا، اس کے بجائے یہ سوچنے کو ترجیح دیں کہ میں جو کچھ بھی حاصل کروں گا، مجھے اپنے آپ پر فخر ہوگا اور جن مضامین میں ناکام یا کمی بیشی ہوئی ہے اسے مستقبل میں مزید بہتر کرنے کی کوشش کروں گا۔

    لوگوں سے بات کریں

    دوران امتحان اپنی ذات کو صرف ایک کمرے کی حدود میں قید نہ کریں بلکہ دوران مطالعہ ہر ایک گھنٹے بعد تھوڑا سا وقفہ لے لیں۔

    انسان کے لیے اپنے خیالات اور جذبات کو کسی دوسرے انسان سے شیئر کرنا اس کی ضروریات میں شامل ہے، اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ دوستوں، گھر کے دیگر افراد یا پڑوسیوں سے بات چیت کریں مثلاً آپ کو ایسے افراد کی ضرورت ہے، جو امتحانات کے دوران آپ کی حوصلہ افزائی کرسکیں۔

    اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو جس مضمون کا آپ مطالعہ کر رہے ہیں اسے اپنے دوستوں کے ساتھ ڈسکس کریں، اس سے آپ ہی کو فائدہ ہوگا۔

    اپنے ہدف کا تعین کریں

    اگر آپ کے امتحان میں ایک ماہ، ایک ہفتہ یا چاہے جتنا بھی وقت ہے، تو اس سے قبل اس بات کو یقینی بنائیں کہ کتنے وقت میں آپ کو کتنا مضمون یاد کرنا ہے۔

    اگر آپ اپنے اہداف کا تعین کریں گے، اسے مخصوص وقت میں پورا کرنے کو ترجیح دیں گے تو امتحانات میں اعلیٰ کارکردگی حاصل کرسکتے ہیں۔

  • پیچھے دیکھنا کیوں ضروری ہے؟ ایک دل دہلا دینے والا واقعہ (ویڈیو)

    پیچھے دیکھنا کیوں ضروری ہے؟ ایک دل دہلا دینے والا واقعہ (ویڈیو)

    کچھ لوگ بہت محتاط ہوتے ہیں، وہ جہاں بھی جاتے ہیں یا کہیں بیٹھتے ہیں تو آس پاس کا بہ غور جائزہ لے لیتے ہیں، لیکن اکثر لوگ اس بات کا خیال نہیں رکھتے۔

    خصوصاً ایسی جگہوں پر جہاں ہمارا آنا جانا یا بیٹھ کر کام کرنا ایک معمول ہو، وہاں ہمارے دماغ کے اندر موجود حفاظتی نظام پر سکون حالت میں رہتا ہے۔

    لیکن کبھی کبھی ایسے واقعات جنم لیتے ہیں جو دہشت زدہ کر دینے والے ہوتے ہیں، اسی لیے بہت سارے لوگ روز ایک ہی جگہ جا کر بھی خاصی احتیاط برتتے ہیں۔

    تو بعض اوقات اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ پیچھے دیکھنا کیوں ضروری ہے؟ آسٹریلیا میں ایسا ہی ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا ہے، جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔

    آسٹریلیا میں کسی مقام پر ایک شہری اپنے عرشے پر آرام کر رہا تھا، جب اس کا ایک انتہائی ڈرپوک سانپ سے غیر متوقع طور پر سامنا ہو گیا۔

    ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آسٹریلوی کتنے اطمیان سے میز کے آگے کرسی پر لیپ ٹاپ پر کام کر رہا ہے، اور پیچھے ایک سیاہ لمبا سانپ دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھتا ہے۔

    لیکن سانپ جیسے ہی کرسی کے نیچے آتا ہے، چند لمحوں بعد کھٹکا ہوتے ہی سانپ ڈر کے مارے اچھل کر ایک طرف بھاگتا ہے، اور اسی دوران اس شخص کو بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ پیروں کے پاس کچھ ہے۔

    ڈر کے مارے آسٹریلوی شخص کے رد عمل نے سانپ کو اور ڈرایا، غیر متوقع طور پر سانپ اس سے زیادہ ڈرپوک نکلا اور آن کے آن میں رینگ کر غائب ہو گیا، تاہم آسٹریلوی شخص کے دل کی دھڑکن کچھ دیر کے لیے خوف کے مارے ضرور رک گئی تھی۔

  • کرونا کے خوف سے شہری نے اپنی جان لے لی

    کرونا کے خوف سے شہری نے اپنی جان لے لی

    نئی دہلی بھارتی شہر حیدرآباد میں کرونا وائرس ہو جانے کے خوف سے شہری نے جھیل میں کود کر خودکشی کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی شہر حیدر آباد میں 34 سالہ پلٹو پان نے حسین ساگر جھیل میں کود کر خودکشی کر لی۔پلٹو پان کا تعلق مغربی بنگال سے تھا اور وہ حیدرآباد کے دودھ باولی علاقے میں رہائش پذیر تھا۔

    پولیس کے مطابق 34 سالہ شہری کو پچھلے دس دنوں سے شدید بخار اور سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی، اس نے ایک پرائیوٹ اسپتال سے رجوع کیا جہاں معائنے کے بعد اسے گاندھی اسپتال جانے کا کہا گیا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ پلٹو پان نے اپنے دوست شری رام کو فون کر کے بلایا اور اسے تفصیلات بتائی۔بعدازاں وہ دونوں حسین ساگر پہنچے جس کے بعد لیپاکشی کے قریب پلٹو پان نے پانی میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔

    پولیس کے مطابق مرنے والے شخص کی لاش ابھی تک نہیں ملی، غوطہ خوروں کی مدد سے لاش کو تلاش کرنے کا عمل جاری ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دنوں بھارتی شہر ممبئی میں کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد خاتون نے خودکشی کر لی تھی۔

  • خوف زدہ اور فکرمند رہنے سے کیا ہوتا ہے؟

    خوف زدہ اور فکرمند رہنے سے کیا ہوتا ہے؟

    اس مشینی دور نے ہمارے طرزِ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور ہر طرف افراتفری، انتشار نظر آتا ہے۔

    ہم میں‌ سے ہر فرد طرح طرح کے مسائل اور مشکلات کا سامنا کررہا ہے جن میں گھریلو جھگڑے، عام مسائل کے علاوہ بے روزگاری یا کم تنخواہ کی وجہ سے اکثر لوگ ذہنی تناؤ کا شکار نظر آتے ہیں۔

    تنگ دستی، غربت کے ساتھ جہاں ضروریات پوری نہیں ہو پاتیں، وہیں بعض گھرانے ایسے بھی ہیں جو صحت اور علاج معالجے کے حوالے سے شدید ذہنی کرب میں مبتلا ہیں اور یہ سب ہماری ذہنی حالت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

    پاکستان میں بھی ذہنی تناؤ اور شدید ڈپریشن کے شکار لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جس کی مختلف وجوہ ہیں۔

    ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 50 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں اور پاکستان میں بھی ذہنی تناؤ کے حوالے سے رپورٹ ہونے والے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

    دماغی اور ذہنی صحت کے حوالے سے سرگرم اداروں کے محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 33 فی صد لوگ ذہنی پریشانی اور ڈپریشن میں مبتلا ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق ذہنی تناؤ سنگین مسئلہ ہے جس کا سامنا غریب ممالک ہی نہیں ترقی یافتہ اور ان ملکوں کو بھی ہے جہاں صحت اور علاج کی بہتر سہولیات
    موجود ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ذہنی امراض سے متاثر ہونے والوں میں نوجوان بھی شامل ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

    ذہنی تناؤ اور مختلف دماغی امراض کے باعث دنیا بھر میں خود کشی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے والوں میں نوجوان بھی شامل ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق ہر طرح کا دباؤ نقصان دہ نہیں ہوتا اور بعض اوقات وقتی طور پر کوئی بھی ذہنی تناؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔

    اگر مسائل ختم ہوجائیں یا کسی طرح کوئی فرد اس ذہنی تناؤ پر قابو پا سکے تو نارمل ہوسکتا ہے۔

    ذہنی تناؤ کے نتیجے میں اعصابی نظام، ہارمونز، نظامِ تنفس پر اثر پڑتا ہے۔ ہر وقت کسی بات کو سوچتے رہنا، فکرمند رہنا، غصہ آنا، مستقل چڑچڑا پن شدید ذہنی تناؤ کی علامات ہیں۔

  • فوبیا: کیا خوف سے نجات پانا ممکن ہے؟

    فوبیا: کیا خوف سے نجات پانا ممکن ہے؟

    زندگی میں نشیب و فراز اور حالات کا اتار چڑھاؤ ہماری رفتار تو کم کرسکتے ہیں، لیکن ہم آگے بڑھتے رہتے ہیں اور بُرا وقت بھی گزر جاتا ہے۔

    مشکل حالات اور کڑے وقت کا سامنا کرتے ہوئے ہم گھبراہٹ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انجانے خدشے، اندیشے ستاتے ہیں اور ہم پریشان رہنے لگتے ہیں۔

    اسی طرح جب کوئی خطرہ سَر پر ہو یا افتاد ٹوٹ پڑنے کا ڈر ہو تو ہم اس کے "خوف” میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو حاوی ہوجائے تو زندگی تکلیف دہ ہوسکتی ہے۔

    فوبیا، کسی مخصوص صورتِ حال یا چیز کے خوف کو کہتے ہیں جس میں کچھ خاص تدابیر اور طریقے اپنائے جائیں تو اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے ہر قسم کی احتیاط، کچھ چیزوں سے پرہیز اور اجتناب کرنا بتدریج بہتری کی طرف لے جاتا ہے۔

    کوشش کریں کہ انجانی اور ان دیکھی شے یا خطرے کے فوبیا کو کم سے کم وقت کے لیے سوچیں، خود کو مثبت سرگرمی کی طرف دھکیل دیں۔ اچھی اور معلوماتی کتب کا مطالعہ اور دیگر مفید مشاغل اپنائیں۔ تاہم ماہر اور مستند معالج اس حوالے سے بہتر راہ نمائی کرسکتا ہے۔

    ماہرینِ نفسیات کے مطابق اکثر فوبیا کے شکار لوگوں پر عرصے بعد کُھلتا ہے کہ وہ جس چیز سے خوف زدہ تھے، وہ کوئی ایسا خطرہ نہیں تھا کہ اس سے مسلسل پریشان رہا جاتا، لیکن اس پر توجہ دینا اور ضرورت پڑنے پر باقاعدہ علاج یا عادات و رویے میں تبدیلی لاکر گھبراہٹ اور بے چینی کی شدت سے بچنا بہرحال ضروری تھا۔

    بعض اوقات تشویش، پریشانی اور اس کے نتیجے میں گھبراہٹ کی بہت واضح اور معقول وجوہ بھی ہوتی ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، لیکن اس حوالے سے غیرمستند، غیرضروری اور سنی سنائی باتوں کو اہمیت دینے کے بجائے درست اور مناسب راہ نمائی اور مشاورت ضروری ہوتی ہے۔

    ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ اور رویوں پر برسوں کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مستقبل کا خوف یا کل کے اندیشوں سے گھبرانے کے بجائے فوبیا کے شکار افراد کو اگر اس بات پر آمادہ کرلیا جائے کہ وہ ہمت اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے ڈٹ کر‌ حالات کا مقابلہ کریں تو ان کی حالت میں بتدریج بہتری آسکتی ہے اور مسائل کے حل کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

  • بادل نے خوف طاری کردیا

    بادل نے خوف طاری کردیا

    آپ نے فضا میں گہرے اور صاف بادل تو دیکھے ہوں گے لیکن قدرت نے اپنا کرشمہ دکھاتے ہوئے بادل کا ایسا روپ بدلا جسے دیکھ کر ہر کوئی خوف زدہ ہوگیا۔

    امریکا کے "رھوڈ” جزیرے پر بادل نے ایسا روپ دھارا جس نے دیکھنے والوں پر خوف طاری کردیا۔ کیمرے کی آنکھ سے قید کیے گئے عجیب وغریب مناظر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئے۔

    صارفین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس سے قبل ایسے مناظر کبھی نہیں دیکھے، بادل کا اس طرح آسمان پر نظر آنا اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسم کی تبدیل کے باعث بادلوں کے وجود کا ظاہر تبدیل ہوتا ہے اور وہ عجیب وغریب شکل میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

    اس سے قبل بھی متعدد بار بادلوں کے کئی ٹکڑوں نے اپنا رنگ بدلا ہے۔ کئی مرتبہ شہریوں نے بادلوں کو جانور کی شکل میں دیکھا تو بعض دفع کسی کو بادل کے ذریعے اپنا نام لکھا بھی نظر آیا۔

  • کیا خوشی سے بھی خوفزدہ ہوا جاسکتا ہے؟

    کیا خوشی سے بھی خوفزدہ ہوا جاسکتا ہے؟

    خوشی ایک ایسی شے ہے جو ہر انسان اپنی زندگی میں چاہتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کچھ لوگ خوشی سے بھی خوفزدہ ہوتے ہیں؟

    انسان کو لاحق بہت سے فوبیاز یا خوف میں سے ایک خوف خوشی کا بھی ہے جسے چیئرو فوبیا بھی کہا جاتا ہے، بظاہر یہ بات حیران کن لگتی ہے کہ خوشی کی تلاش انسان کی زندگی کا اہم مقصد ہوتا ہے لیکن ایسے بھی افراد ہوتے ہیں جو اس سے بچنا چاہتے ہیں۔

    دراصل ایسے افراد کے اس خوف کی جڑیں ان کے ماضی سے پیوست ہوتی ہیں۔ ایسے افراد کے ساتھ کسی ایسے موقع پر، جب وہ بے حد خوش ہوں، کوئی دردناک واقعہ، حادثہ یا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتا ہے۔

    لہٰذا ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے انہیں ملنے والی خوشی اپنے ساتھ کوئی دکھ بھی لائے گی، چنانچہ وہ خوشی سے بچنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔

    ایسے افراد نا چاہتے ہوئے بھی تنہائی پسند بن جاتے ہیں، لوگوں سے ملنا اور محفلوں میں شرکت کرنا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ انہیں ذرا سی خوشی بھی خوفزدہ کرنے لگتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق ایسے افراد کے آس پاس رہنے والے افراد کو چاہیئے کہ انہیں خوشی کے چھوٹے چھوٹے مواقعوں سے متعارف کروائیں اور ان میں مثبت خیالات پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے قریبی افراد کی مدد سے ہی ایسے افراد اپنے خوف پر قابو پاسکتے ہیں۔

  • ترکی سے بے دخلی کا خوف، شامی پناہ گزینوں کی نئی مشکل بن گیا

    ترکی سے بے دخلی کا خوف، شامی پناہ گزینوں کی نئی مشکل بن گیا

    انقرہ : پناہ گزینوں نے انکشاف کیا ہے کہ گرفتاری کے ڈرسے گھروں سے نہیں نکلتے اورکام کاج کے لیے اپنی ٹھکانوں سے باہر بھی نہیں جا سکتے۔

    تفصیلات کے مطابق شام میں جنگ وجدل سے جانیں بچا کر ترکی میں پناہ لینے والے شامی مصیبت زدگان کے لیے اب ترکی کی سرزمین بھی تنگ ہونا شروع ہو گئی ہے، ترکی نے شامی پناہ گزینوں کی میزبانی سے منہ پھیرلیا ہے جس کے بعد پناہ گزین ترکی سے بے دخل کیے جانے کے خوف کا شکار ہیں۔

    حال ہی میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور وزیر داخلہ کے بیانات کے بعد استنبول اور دوسرے شہروں میں پولیس کی نفری بڑھا دی گئی ہے۔ استنبول میں خاص طورپر شامی پناہ گزینوں کی چھان بین کی جا رہی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پولیس ایسے شامی باشندوں کی تلاش میں ہے جن کے پاس ترکی میں پناہ لینے کا سرکاری ثبوت نہیں، مقامی سطح پراس قانونی دستاویز کوکیملک کہا جاتا ہے۔ ایسے شامی شہری جن کے پاس یہ دستاویز نہیں انہیں طاقت کے ذریعے یا تو ملک سے نکال دیا جائے گا یا انہیں ترکی کے کسی دوسرے علاقے میں دھکیل دیا جائے گا۔

    شامی پناہ گزینوں نے بتایا کہ ہم رات کو اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں، خدشہ ہوتاہے کہ پولیس ہمیں گرفتار کرکے ملک سے نکال نہ دے، جب پولیس کی تعداد زیادہ ہو تو اس وقت ہم کام کاج کے لیے اپنی ٹھکانوں سے باہر نہیں جا سکتے۔