Tag: خوفناک بیماری

  • ایسی خوفناک بیماری جس میں انسان کئی شخصیات میں تقسیم ہوجاتا ہے

    ایسی خوفناک بیماری جس میں انسان کئی شخصیات میں تقسیم ہوجاتا ہے

    ڈپریشن، اضطراب، شیزو فرینیا اور بہت سی کیفیات کو ذہنی صحت کی خرابی سمجھا جاتا ہے لیکن ایک بیماری ایسی بھی ہے جس میں انسان کئی شخصیات میں تقسیم ہوجاتا ہے۔

    ایک سے زیادہ ’پرسنلٹی ڈس آرڈر‘ کو سمجھنا۔ اختلال شخصیت کثیر (ملٹی پل پرسنالٹی ڈس آرڈر)، جسے اب اختلالِ شناخت کی خرابی یا ڈسوسی ایٹیو آئیڈینٹیٹی ڈس آرڈر (ڈی آئی ڈی) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

    یہ ایک پیچیدہ اور اکثر غلط سمجھا جانے والا ذہنی مرض ہے، جس میں ایک شخص کی شناخت دو یا اس سے زیادہ مختلف شخصیات میں تقسیم ہوجاتی ہے۔

    اگر یہ کہا جائے کہ اختلالِ شناخت کی خرابی ایک ایسی بیماری ہے جس میں ایک ہی انسان کے اندر دو یا اس سے زیادہ شخصیات ہوتی ہیں، ہر شخصیت کا اپنا الگ انداز، یادداشت اور رویہ ہوتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔

    ڈی آئی ڈی کیا ہے؟

    ڈی آئی ڈی کا مطلب "خود کو کھو دینا” نہیں، بلکہ ٹکڑوں میں بٹنا ہے یہ حالت بچپن کے کسی شدید صدمے سے جنم لیتی ہے۔ ڈی آئی ڈی کے مریض اپنے تجربات سے خود کو لاتعلق محسوس کر سکتے ہیں اور دوسروں کے اعمال یا ان کی گفتگو کو بھی بھول سکتے ہیں۔

    یہ حالت زیادہ تر بچپن میں ہونے والے شدید ذہنی یا جسمانی صدمے کی وجہ سے بنتی ہے، جس کے باعث دماغ اپنے آپ کو بچانے کے لیے الگ الگ شخصیات پیدا کرلیتا ہے۔

    یہ شخصیات اپنے الگ رویے، یادیں اور دنیا سے تعلق قائم کرنے کے منفرد طریقے رکھتی ہیں، اکثر یہ شخصیات بچپن کے کسی شدید صدمے کے نتیجے میں دماغ کی طرف سے بچاؤ کے ایک طریقے کے طور پر ابھرتی ہیں۔

    یہ بیماری صرف ایک طبی معمہ نہیں بلکہ انسانی اذیت کی عکاسی ہے، یہ ذہن کی وہ جدوجہد ہے جس میں دماغ ناقابلِ برداشت تکلیف سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔

    مریض کیا محسوس کرتا ہے؟

    ڈی آئی ڈی کے مریض کو ایسا لگتا ہے جیسے اس کے اندر کئی لوگ رہتے ہوں، ہر شخصیت اپنے وقت پر کنٹرول سنبھال لیتی ہے۔ مریض کو یاد نہیں رہتا کہ اُس وقت کیا ہوا جب دوسری شخصیت نے کنٹرول سنبھالا ہوا تھا۔ مریض خود کو اجنبی محسوس کر سکتا ہے، جیسے اس کی اپنی زندگی خود کی نہ ہو۔

    دو مشہور مثالیں

    مثال کے طور پر شرلی میسن (فلم سائبل) ایک ایسی عورت تھی جس کے اندر 16 شخصیات تھیں، جن میں ایک ڈری ہوئی بچی بھی تھی وہ تمام شخصیات اس کے بچپن کے صدمے سے جڑی ہوئی تھیں، اس کی شخصیت پر ایک فلم اور کتاب بھی لکھی گئی۔

    ڈاکٹر کورنیلیا ولبُر کی مدد سے برسوں کی تھراپی کے بعد شرلی میسن کی وہ شخصیات جزوی طور پر یکجا ہوئیں، اگرچہ بعد میں اس کیس کی سچائی پر کافی بحث بھی ہوئی مگر یہ کہانی ڈی آئی ڈی کو عوامی سطح پر متعارف کرانے کا ذریعہ بنی۔

    کم نوبل ایک برطانوی فنکارہ ہیں جنہیں ڈی آئی ڈی ہے انہوں نے بچپن میں شدید بدسلوکی کا سامنا کیا ان کے اندر 20 سے زائد شخصیات ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اندازِ فن اور زندگی گزارنے کا الگ طریقہ ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’آل آف می‘ میں اپنی کہانی اپنے الفاظ میں بیان کی ہے۔

    اس کا علاج کیسے ممکن ہے؟

    یہ بیماری ویسے تو لاعلاج ہے لیکن اس پر تھراپی یا کاؤنسلنگ کے ذریعے باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے، ای ایم ڈی آر یا انٹرنل فیملی سسٹمز تھراپی کی مدد سے کئی لوگ اپنی شخصیات کو ضم کرنے یا ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

    یہ ایک طویل اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے تاہم ان سے مریض کو اپنی شخصیات کو سمجھنے اور ان پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔

    یہ بیماری ایک حقیقت ہے کوئی فلم یا ڈرامہ ہرگز نہیں، ہمیں ایسے افراد سے ہمدردی اور سمجھداری سے پیش آنا چاہیے، یہ لوگ بہت ہمت والے ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اندر کی شدید ٹوٹ پھوٹ کے باوجود زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔

  • عجیب و غریب اور خوفناک بیماری، چہرے بگڑے ہوئے نظر آتے ہیں

    عجیب و غریب اور خوفناک بیماری، چہرے بگڑے ہوئے نظر آتے ہیں

    طبی محققین نے ایک ایسی بیماری کا انکشاف کیا ہے کہ جس میں مبتلا شخص کو سامنے والے کا چہرہ خوفناک اور بے ترتیب دکھتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس بیماری کو ‘ڈیمونک فیس سنڈروم’ کا نام دیا گیا ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محققین نے‘ڈیمونک فیس سنڈروم’ کے مریضوں کی طرف سے بیان کی گئی تفصیلات کی بنیاد پر چہروں کی تصاویر جاری کی ہیں۔

    Rare

    مریض کی اس طبی کیفیت کو ’پروسوپومیٹامارفوسیا‘ یا پی ایم او کہا جاتا ہے۔ یونانی زبان میں ’پروسوپو‘ کا لفظ چہرے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    یہ بیماری دھیرے دھیرے دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے جس کا نتیجہ خوبصورت ترین چہرے کے بگاڑ کی صورت میں نکلتا ہے۔

    حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مرض میں مبتلا شخص کو دوسرے لوگوں کے چہرے کھنچے ہوئے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ گویا ان کے ہونٹ اور ناک پھیل کر لمبے ہوگئے ہوں، پیشانی اور گال گڑھوں سے بھرے ہوں اور ٹھوڑی ٹیڑھی دکھائی دینے لگتی ہے، دوسری کیفیت میں خوبصورت چہرے بھی کالے سیاہ نظر آتے ہیں۔

    victor

    پہلی بار امریکی ریاست ٹینسی کے رہائشی 59سالہ وکٹر شارا میں اس مرض کو دریافت کیا گیا، یہ شخص نومبر 2020 کے ایک روز صبح جب گھر سے باہر نکلا تو اسے لوگوں کے چہرے مسخ اور عجیب و غریب سے دکھائے دیے جسے دیکھ کر وہ خود بھی خوفزدہ ہوگیا۔

    وکٹر جو پیشے کے اعتبار سے ایک ٹرک ڈرائیور ہے اس بات سے بہت پریشان ہوا اور ڈاکٹروں سے رجوع کیا جس کے بعد اسے پی ایم او کا مریض قرار دیا گیا۔

    faces

    رپورٹ کے مطابق اس نایاب کیفیت کے شکار افراد کی کُل تعداد صرف 75 ہے۔ بعض مریضوں میں یہ کیفیت چند دن تک رہتی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر وکٹر گزشتہ چار سال سے اس کیفیت کا شکار ہے اور اسے ہر چہرہ ڈراؤنا ہی دکھائی دیتا ہے۔

    محققین کی رپورٹ میں جاری کی گئی تصاویر جمعرات کو ’دی لانسیٹ‘ میں شائع کی گئیں۔

    اس نایاب بیماری کی علامات کے تجزیے کے مطابق محققین کاکہنا ہے کہ یہ کیفیت دماغی نظام میں خرابی کی وجہ سے ہے جو چہرے کی پروسیسنگ کو سنبھالتا ہے تاہم اس بات کو یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے۔