Tag: خونی تصادم

  • سکھر :  ڈاکوؤں کے 2 گروپوں میں خونی تصادم، 7 افراد ہلاک

    سکھر : ڈاکوؤں کے 2 گروپوں میں خونی تصادم، 7 افراد ہلاک

    سکھر: باگڑجی میں ڈاکوؤں کے دو گروپوں کے خونی تصادم میں ہلاک افراد کی تعداد سات ہوگئی، مرنے والوں میں چھ افراد کا تعلق ایک ہی گروہ سے تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سکھر میں باگڑجی تھانے کے علاقے سعید آباد کے کچے میں عطرانی جتوئی برادری کے دو گروپوں میں زمین کے دیرینہ تنازع پر جھگڑا ہوا۔

    فائرنگ کے نتیجے 7 افراد جان حق ہوگئے، مرنے والوں میں چھ افراد کا تعلق ایک ہی گروہ سے تھا، جس میں تین بھائی، باپ، بیٹا اور پوتا شامل ہیں جبکہ مرنے والوں میں دوسرے گروپ کا بابو جتوئی شامل ہے۔

    پولیس نے بتایا کہ رمضان عطرانی گروپ کے لوگ زمیں پر کام کر رہے تھے اور مویشیوں کو چارہ دے رہے تھے کہ یعقوب عطرانی گروپ کے لوگوں نے گھات لگا کر فائرنگ کردی ، جس کے نتیجے میں تین سگے بھائیوں میھر ، چھتل اور راجہ عطرانی موقع پر جانبحق ہوگئے جبکہ فائرنگ میں زخمی ہونے والا مقتولین کا بھانجہ واجد بھی راستے میں دم توڑ گیا۔

    فائرنگ کے تبادلے میں دوسرے گروپ کا بابو جتوئی بھی گولی لگنے سے جانبحق ہوگیا، فائرنگ سے ہلاک تمام 7 افرادسنگین مقدمات میں مطلوب تھے، جن میں قتل، ڈکیتی اور پولیس مقابلوں کے کیسز شامل ہیں۔

    پولیس کے مطابق دونوں گروپوں میں دیرینہ زمین کے تنازعہ چل رہا ہے کچھ عرصہ قبل بھی دونوں گروپوں کے درمیان جھگڑے میں تین افراد جانبحق ہوچکے ہیں۔

    واقعے کی اطلاع کے بعد پولیس جائے وقوعہ کی طرف روانہ ہوچکی ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ علاقے میں جاری فائرنگ کو بند کرواکے لاشوں اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جائے گا۔

  • وہ معرکہ جس میں ترک فوج دشمن کے مدمقابل آئے بغیر ہی فاتح ٹھہری

    وہ معرکہ جس میں ترک فوج دشمن کے مدمقابل آئے بغیر ہی فاتح ٹھہری

    وہ ستمبر 1788ء کی ایک رات تھی جب ایک خوں ریز تصادم نے ترک فوج کے لیے وہ راستہ آسان کر دیا جس سے گزر کر وہ غالب اور فاتح رہی، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ تر فوج نے اس میں‌ دشمن کا مقابلہ نہیں‌ کیا بلکہ آسٹریا کی فوج نے غلط فہمی کے سبب آپس میں گردنیں مار کر سلطنتِ‌ عثمانیہ کی فوج کو گویا کارانسیبیش خود ہی سونپ دیا۔ یہ شہر آج یورپ میں رومانیہ کا حصّہ ہے۔

    عثمانی ترک اور آسٹریا کی فوج کے درمیان معرکے زوروں پر تھے اور ایک موقع پر جب آسٹریا کی ایک لاکھ فوج کارانسیبیش گاؤں کے قریب خیمہ زن تھی تب یہ واقعہ پیش آیا۔

    آسٹریائی فوج کے چند جاسوسوں اور قیادت پر مشتمل ایک دستہ عثمانی فوج کی نقل و حرکت اور پیش قدمی کا جائزہ لینے روانہ ہوا اور دریائے ٹیمز عبور کر کے آگے بڑھا تو انھیں راستے میں شراب فروخت کرنے والے ملے۔ یہ جاسوس بہت تھکے ہوئے تھے۔ انھوں نے شراب پینے اور کچھ دیر سستا کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا یہ فیصلہ بڑی بدبختی اور ذلّت و رسوائی کا سبب بن گیا۔ جاسوسوں نے کچھ زیادہ شراب پی لی اور نشے میں دھت ہو کر رہ گئے۔

    تھوڑی دیر بعد آسٹریائی پیادہ فوج کا ایک اور دستہ وہاں پہنچ گیا اور انھوں نے بھی اس محفلِ عیش میں شریک ہونا چاہا، لیکن وہاں پہلے سے موجود شراب کے نشے میں دھت جاسوسوں نے انھیں اپنے ساتھ شریک کرنے سے انکار کر دیا اور دونوں کے درمیان تکرار کے بعد نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ اسی جھگڑے کے دوران کسی سپاہی سے گولی چل گئی اور پیادہ دستے کے چند سپاہیوں نے یہ شور مچا دیا کہ عثمانی فوج نے حملہ کر دیا ہے۔ ادھر نشے میں دھت جاسوس دستے کے سپاہیوں نے یہ سن کر خیال کیا کہ عثمانی فوج پیچھے سے حملہ آور ہو گئی ہے، چنانچہ وہ گھبراہٹ اور افراتفری میں وہاں سے کچھ فاصلے پر موجود پیادہ فوج کی طرف بھاگے۔ انھیں یوں اپنی طرف آتا دیکھا تو پیادہ سپاہی بھی یہی سمجھے کہ عثمانی فوجی آگئے ہیں اور ان جاسوسوں کے پیچھے ہیں۔ الغرض رات کی تاریکی میں جو شور اور افراتفری اس مقام پر تھی، اس نے کسی کو بھی کچھ سمجھنے سوچنے کا موقع نہیں دیا اور ایک غلط فہمی نے بڑی بدحواسی کو ان کی صفوں میں جگہ دے دی تھی۔ چنانچہ اس فوج نے اپنے مرکز کی جانب راہِ فرار اختیار کی۔

    آسٹریا کی فوج میں مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے سپاہی تھے۔ ان میں اکثر جرمن زبان بولتے تھے اور بعض سرب زبان اور کچھ کروشیائی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک اپنی زبان میں چیخ پکار کرنے لگا اور نشے کی حالت میں یوں بھی ان کے سوچنے سمجھنے کی طاقت پوری طرح بحال نہ تھی۔

    ادھر آسٹریائی فوج کے یہ دونوں گروہ جب اپنے گھوڑوں پر سوار اپنے فوجی پڑاؤ کی طرف بڑھے تو وہاں موجود سپاہ یہ سمجھی کہ یہ ترک ہیں اور ان پر حملہ ہوگیا ہے۔ چنانچہ انھوں نے مورچہ بند ہو کر فائر کھول دیا اور یوں ایک ہی ملک کی فوج کے مابین جنگ شروع ہوگئی۔ وہ ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے۔ پوری فوج میں افراتفری اور انتشار تھا اور حقیقت کسی کو معلوم نہ تھی۔

    اس روز رات کی تاریکی میں آسٹریا کا یہ لشکر اپنے ہاتھوں ہی مٹ گیا۔ اس معرکے میں 10 ہزار سے زائد سپاہی مارے گئے جب کہ باقی جان بچانے کی غرض سے ادھر ادھر بھاگ نکلے۔

    اس تصادم کے دو روز بعد عثمانی فوج اس مقام تک پہنچی تھی۔ جہاں آسٹریائی فوج نے خیمے لگائے تھے، وہ دراصل ایک گاؤں کا نزدیکی علاقہ تھا۔ ترکی کی فوج کو یہاں مردہ اور زخمی فوجی ملے اور ان کا اسلحہ بھی ہاتھ آیا۔

    زخمی فوجیوں کی زبانی عثمانی فوج کو صورتِ‌ حال کا اندازہ کرنے میں آسانی ہوئی اور انھوں نے پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے کارانسیبیش شہر پر باآسانی قبضہ کر لیا۔

  • جیل میں دو گروہ کے درمیان خونی تصادم، 40 قیدی ہلاک

    جیل میں دو گروہ کے درمیان خونی تصادم، 40 قیدی ہلاک

    ساؤ پاؤلو : برازیلن جیل میں خوفناک تصادم کے نتیجے میں 40 افراد ہلاک ہوگئے، دونوں گروہ کے درمیان جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب مہمانوں کی ملاقات کا وقت تھا۔

    تفصیلات کے مطابق برازیل کی جیل میں قیدیوں اور ان کے مہمانوں کے دو گروہ کے درمیان خوں ریز تصادم میں ہلاکتوں کی تعداد 40 ہوگئی۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق برازیل کی ایک خطرناک جیل میں قیدیوں کے درمیان جھڑپ سے جیل میدان جنگ بن گیا، قیدیوں نے چاقوﺅں، خار دار برشوں اور ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال کیا جس کے نتیجے میں 30 افراد ہلاک ہوگئے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ قیدیوں کے دو گروہ کے درمیان جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب مہمانوں کی ملاقات کا وقت تھا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق مہمانوں کے گروہ کے درمیان بھی جھڑپ شروع ہوگئی، پولیس نے فساد پر قابو پانے کے لیے مزید نفری طلب کی جس کے بعد ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو اسپتال منتقل کیا گیا۔

    اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے اکثر تیز دھار آلہ کی ضرب کا نشانہ بنے جب کہ کچھ قیدیوں کو گلا گھونٹ کر بھی ہلاک کیا گیا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ محکمہ جیل خانہ جات نے واقعے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی۔

    واضح رہے کہ مذکورہ جیل شمالی برازیل کی ریاست ایمیزوناس میں واقع ہے اور دو برس قبل اسی جیل میں قیدیوں کی بغاوت کو کچلنے کے دوران 56 قیدی مارے گئے تھے۔