Tag: خون کا ٹیسٹ

  • ماہرین نے کینسر کی جلد تشخیص کے لیے نیا سستا طریقہ دریافت کر لیا

    ماہرین نے کینسر کی جلد تشخیص کے لیے نیا سستا طریقہ دریافت کر لیا

    آکسفورڈ: طبی ماہرین نے کینسر کی جلد تشخیص کے لیے نیا سستا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کینسر کے محققین نے ایک نیا خون کا ٹیسٹ تیار کیا ہے جو مریضوں کے لیے تشخیص اور علاج کو بہتر بنا سکتا ہے۔

    یہ پہلا ٹیسٹ ہے جس سے نہ صرف کینسر کی موجودگی کا بلکہ جسم کے اندر بیماری کے پھیلاؤ کا بھی پتا لگایا جا سکتا ہے، یعنی یہ کہ بیماری کس اسٹیج پر پہنچ چکی ہے۔

    فی الوقت، جن مریضوں میں کینسر کی تشخیص ہوتی ہے ان کو امیجنگ اور ٹیسٹنگ سے گزرنا پڑتا ہے، اس کے بعد ڈاکٹر یہ بتا سکتے ہیں کہ آیا یہ جسم کے کسی دوسرے حصے میں پھیل چکا ہے یا نہیں، وہ کینسر جو پھیل چکا ہے اسے میٹاسٹیٹک کینسر کہا جاتا ہے، یہ جاننے کے بعد علاج شروع ہوتا ہے، ایک ہی جگہ میں ٹیومر والے مریضوں کو لوکل ٹریٹمنٹ دی جاتی ہے، جیسا کہ سرجری، جب کہ کینسر پھیلنے کی صورت میں انھیں کیموتھراپی یا ہارمون تھراپی جیسے پورے جسم کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اب خون کے اس نئے ٹیسٹ نے، 300 مریضوں میں سے 94 فی صد میں میٹاسٹیٹک کینسر کی کامیابی سے شناخت کی ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین کے تیار کردہ اس ٹیسٹ میں NMR میٹابولومکس نامی ایک نئی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے، جو خون میں بائیو مارکر کی موجودگی کی نشان دہی کرتی ہے، جسے میٹابولائٹس کہتے ہیں۔ یہ چھوٹے کیمیکلز ہیں جو ہمارا جسم قدرتی طور پر پیدا کرتا ہے۔

    اس ریسرچ پر کام کرنے والے آنکولوجسٹ ڈاکٹر جیمز لارکن نے وضاحت کی کہ میٹابولائٹس خون میں موجود کوئی بھی چھوٹے مالیکیولز، جیسا کہ گلوکوز، لیکٹک ایسڈ، یا امینو ایسڈز ہیں۔ آپ کے خون میں موجود میٹابولائٹس کے پیٹرن مختلف ہوتے ہیں، اور ان کا انحصار اس امر پر ہوتا ہے کہ آپ کے جسم میں کیا ہو رہا ہے، یعنی کوئی ایسی چیز جو کینسر جیسی بیماریوں سے متاثر ہو رہی ہو۔

    یہ ٹیسٹ یہ بتا سکتا ہے کہ آیا کسی شخص کا کینسر پھیل گیا ہے، اس صورت میں مریض کا ایک مخصوص میٹابولومک پروفائل ہوگا، جو کہ اس شخص کے کینسر سے مختلف ہوگا جو نہیں پھیلا، یا جسے کینسر ہی نہ ہو۔

    یہ ٹیسٹ خون میں میٹابولائٹس کی پیمائش کے لیے مقناطیسی فیلڈز اور ریڈیو لہروں کا استعمال کرتا ہے اور انسانی جسم میں کینسر کی موجودگی اور اس کے پھیلاؤ کا تعین ہوتا ہے۔

    محققین نے وضاحت کی کہ یہ ٹیسٹ کینسر کی متعدد اقسام کا پتا لگا سکتا ہے اور غیر مخصوص علامات والے مریضوں میں بھی کینسر کی موجودگی کی نشان دہی میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چوں کہ یہ ٹیسٹ جلد ہو جاتا ہے اور سستا ہے، لہٰذا اس سے کینسر کی جلد تشخیص میں حائل رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔

  • خون کے ایک سادہ ٹیسٹ سے شوگر کا پتا 19 سال قبل لگانا ممکن ہو گیا

    خون کے ایک سادہ ٹیسٹ سے شوگر کا پتا 19 سال قبل لگانا ممکن ہو گیا

    طبی سائنس دانوں نے کہا ہے کہ خون کے ایک سادہ ٹیسٹ سے شوگر (ذیابیطس) کا پتا 19 سال قبل لگانا ممکن ہو گیا ہے۔

    نیچر کمیونی کیشنز نامی جریدے میں شائع شدہ تحقیقی مقالے میں کہا گیا ہے کہ خون میں پائے جانے والے ایک خاص قسم کے پروٹین ’فولسٹیٹن‘ (follistatin) کی مقدار سے ٹائپ 2 ذیابیطس کا سراغ 19 سال قبل ہی لگایا جانا ممکن ہے، اگرچہ اس وقت بیماری کا معمولی خطرہ بھی نہ ہو۔

    اس ریسرچ کے نتائج سویڈن میں برسوں سے جاری ایک تحقیقی مطالعے سے حاصل ہوئے ہیں، ’مالمو ڈائٹ اینڈ کینسر کارڈیو ویسکیولر کوہورٹ‘ میں شریک 5000 افراد کے خون میں فولسٹیٹن پروٹین کی مقدار کا مطالعہ کیا گیا، جس سے یہ معلوم ہوا کہ جن افراد کے خون میں فولسٹیٹن کی مقدار اوسط سے زیادہ رہی، وہ کئی سال بعد ٹائپ 2 ذیابیطس کا شکار ہوئے۔

    تحقیقی مطالعے کے دوران ایسے لوگوں میں ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونے کا زیادہ سے زیادہ وقفہ 19 سال نوٹ کیا گیا، یعنی ذیابیطس میں مبتلا ہونے سے 19 سال پہلے ہی ان کے خون میں فولسٹیٹن کی مقدار معمول سے بڑھ چکی تھی۔

    محققین کے مطابق ریسرچ کے دوران ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا مکمل دارومدار مذکورہ افراد کے خون میں فولسٹیٹن کی اضافی مقدار پر تھا، اگرچہ وہ جسمانی لحاظ سے مکمل صحت مند بھی تھے۔

    خون کا ٹیسٹ

    تحقیق میں شامل ماہرین کا ماننا ہے کہ خون میں فولسٹیٹن کی مقدار معلوم کرنے کے لیے ایک سادہ بلڈ ٹیسٹ ترتیب دیا جا سکتا ہے، جس سے معلوم ہو سکے گا کہ کوئی شخص آنے والے برسوں میں شوگر کی بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔

    ’فولسٹیٹن‘ پروٹین

    یہ پروٹین 1980 کے عشرے میں دریافت کیا گیا تھا، یہ تقریباً تمام جسمانی بافتوں (Tissues) سے خارج ہوتا ہے لیکن اس کی زیادہ مقدار جگر سے خارج ہوتی ہے، ذیابیطس میں مبتلا افراد کے خون میں بھی اس پروٹین کی زیادہ مقدار دیکھی جا چکی ہے۔

    اس حوالے سے جانوروں پر بھی تحقیق کی جا چکی ہے، جن سے معلوم ہوا کہ انسولین کی کارکردگی متاثر کرنے میں بھی یہی پروٹین اہم کردار ادا کرتا ہے، انسولین وہ ہارمون ہے جو گلوکوز سے توانائی حاصل کرنے میں خلیوں کے کام آتا ہے۔

    انسولین کی کارکردگی متاثر ہونے کی وجہ سے ٹائپ 2 ذیابیطس لاحق ہو جاتی ہے، جس سے مرتے دم تک چھٹکارا ممکن نہیں ہوتا۔

  • خون کا ٹیسٹ کرونا وائرس کی شدت کے بارے میں بتا سکتا ہے

    خون کا ٹیسٹ کرونا وائرس کی شدت کے بارے میں بتا سکتا ہے

    کرونا وائرس کا شکار ہوجانے والے افراد میں قبل از وقت اس کی شدت کی پیشگوئی کرنا مشکل ہے اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پیماری کیا رخ اختیار کرے گی۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق خون کے ٹیسٹوں کے ذریعے کرونا وائرس کی شدت کے بارے میں جاننا ممکن ہوسکتا ہے۔

    ییل یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ خون کے ٹیسٹوں سے ایسے بائیو میکرز کی شناخت کی جاسکتی ہے جو خون کے خلیات کے متحرک ہونے اور موٹاپے سے منسلک ہوتے ہیں، جن سے کووڈ 19 کے مریضوں میں بیماری کی شدت کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔

    طبی جریدے بلڈ ایڈوانسز میں شائع تحقیق میں شامل محقق ڈاکٹر ہیونگ چون نے بتایا کہ ان افراد میں یہ حیاتیاتی سگنلز کی سطح زیادہ ہوتی ہے، ان کا آئی سی یو میں داخلے، وینٹی لیٹر کی ضرورت یا موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    اس سے قبل بھی تحقیقی رپورٹس میں کووڈ 19 کی ممکنہ سنگین بیماری کی شناخت کے لیے ڈی ڈیمیر اور مدافعتی پروٹینز کی نشاندہی کی گئی تھی، تاہم اب تک ایسا کوئی ٹیسٹ تشکیل نہیں دیا جا سکا تھا جو کووڈ کے مریضوں میں بیماری کی شدت کی پیشگوئی کر سکے۔

    اس تحقیق کے لیے محقین نے کووڈ کے 100 مریضوں کے خون میں متعدد پروٹینز کی اسکریننگ کرکے دیکھا کہ ان میں بیماری کی شدت کیا ہوسکتی ہے۔

    تمام مریضوں کے خون کے نمونے اسپتال میں داخلے کے پہلے روز لیے گئے، جبکہ ییل نیو ہیون ہاسپٹل سسٹم میں زیر علاج 3 ہزار سے زائد مریضوں کے کلینیکل ڈیٹا کا تجزیہ بھی کیا گیا۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ 5 پروٹینز ریزیزٹن، لپوکالن 2، ایچ جی ایف، آئی ایل 8 اور جی سی ایس ایف خون کے سفید خلیات کی ایک قسم نیوتھرو فلز سے منسلک ہوتے ہیں، جن کی سطح کووڈ 19 سے سنگین حد تک بیمار ہونے والے افراد میں بڑھ جاتی ہے۔

    ان میں سے بیشتر پروٹینز کو ماضی میں موٹاپے سے بھی جوڑا جاتا رہا ہے مگر کووڈ یا کسی وائرل بیماری سے تعلق پہلی بار سامنے آیا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ بائیو میکرز ایسے مریضوں میں بڑھ جاتے ہیں جن میں علامات بھی ظاہر نہ ہوں مگر بعد میں بیماری کی شدت سنگین ہوگئی، اسی طرح ان بائیو میکرز کی شرح ان افراد میں کم ہوتی ہے جن میں بیماری کی شدت معتدل رہتی ہے اور ان میں سے کسی کی موت بھی واقع نہیں ہوئی۔

    محققین کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار ہے جب دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے خون میں موجود پروٹینز کی سطح سے بیماری کی شدت کی پیشگوئی کافی پہلے کی جاسکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس طرح کی پیشگوئی جلد کرنا مریض کے علاج میں زیادہ مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

  • 20 منٹ میں کرونا وائرس کی تشخیص کرنے والا ٹیسٹ

    20 منٹ میں کرونا وائرس کی تشخیص کرنے والا ٹیسٹ

    میلبرن: آسٹریلوی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ خون کے نمونوں سے صرف 20 منٹ میں کرونا وائرس کی تشخیص کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

    میلبرن کی موناش یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک بلڈ ٹیسٹ تیار کیا ہے اور انہیں توقع ہے کہ اس دریافت سے عالمی سطح پر کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ وہ خون کے نمونوں میں سے 20 مائیکرو لیٹرز پلازما سے کووڈ 19 کے کیسز کی تشخیص کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

    اس تحقیق میں ماہرین نے ایسا سادہ خون کا ٹیسٹ تیار کیا جو خون میں کرونا وائرس کی بیماری کے ردعمل میں بننے والی اینٹی باڈیز کی موجودگی کی شناخت کرسکتا ہے۔

    محققین کے مطابق کرونا وائرس کے نتیجے میں جسم میں خون کے سرخ خلیات کا ایک اجتماع بن جاتا ہے جو خالی آنکھ سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ ٹیسٹ ممکنہ طور پر کلینیکل ٹرائلز میں ویکسی نیشن کے عمل سے گزرنے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح کو جانچنے کے لیے بھی استعمال ہوسکے گا۔

    ماہرین کے مطابق اس ٹیسٹ کی بدولت ایک سادہ لیبارٹری سیٹ اپ کے ذریعے صرف ایک گھنٹے میں 200 خون کے نمونوں کا ٹیسٹ کیا جاسکے گا، جبکہ جدید ترین آلات سے لیس اسپتالوں میں ہر گھنٹے 700 سے زائد خون کے نمونوں کی تشخیص ہوسکے گی۔