Tag: خون

  • خون کا عطیہ: لینے والے کی ضرورت، دینے والے کے لیے نعمت

    خون کا عطیہ: لینے والے کی ضرورت، دینے والے کے لیے نعمت

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خون کے عطیے کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان میں ہر سال سینکڑوں مریض بر وقت خون فراہم نہ ہونے کے سبب دم توڑ جاتے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے تحت دنیا بھر میں ہر سال 14 جون کو خون کے عطیات دینے کا دن منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں خون کا عطیہ دینے کا مثبت رجحان بڑھے۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت نے 2005 میں 58 ویں ہیلتھ اسمبلی کے موقع پر کیا جس کا مقصد محفوظ انتقال خون کو یقینی بنانا تھا۔

    یہ دن کارل لینڈ اسٹینر کی سالگرہ (14 جون 1868) سے بھی منسوب ہے جنہوں نے ’اے بی او بلڈ گروپ سسٹم‘ ایجاد کیا تھا جس کی مدد سے آج بھی خون انتہائی محفوظ طریقے سے منتقل کیا جاتا ہے۔

    رواں برس اس دن کا عنوان ہے، خون دیں تاکہ دنیا دھڑکتی رہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 10 کروڑ سے زائد افراد خون کا عطیہ دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے خون عطیہ کرنے سے انسان تندرست اور بے شمار بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق خون کا عطیہ دینے سے کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے، خون کی روانی میں بہتری آتی ہے، دل کے امراض لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے اور فاضل کیلوریز جسم سے زائل ہوتی ہیں۔

    خون کا عطیہ دنیا بھر کے ان تھیلیسمیا مریضوں کے لیے بھی زندگی کی نوید ہے جنہیں ہر کچھ عرصے بعد خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر 10 ہزار میں سے 4 سے 5 بچے تھیلیسمیا میجر یا مائنر کا شکار ہوتے ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ عطیہ کنندہ کے خون کی باقاعدگی سے جانچ مفت ہوتی رہتی ہے اور دیگر افراد کی نسبت اسے مہلک بیماریوں اور ان سے بچاؤ کے بارے میں آگاہی ملتی رہتی ہے۔

    خون کا عطیہ دیتے ہوئے مندرجہ ذیل ہدایات کو یاد رکھنا چاہیئے۔

    خون کا عطیہ 16 سے 60 سال تک کی عمر کے افراد دے سکتے ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے سے پہلے وافر مقدار میں پانی پینا از حد ضروری ہے۔

    عطیہ دینے سے قبل مناسب ناشتہ لازمی کیجئے تاکہ آپ کے خون میں شوگر کا تناسب برقرار رہے۔

    خون کا عطیہ دینے سے 24 گھنٹے قبل احتیاطاً سگریٹ نوشی ترک کر دیں۔

    اگر آپ باقاعدگی سے خون کا عطیہ دیتے ہیں تو اپنی مقررہ تاریخ سے 2 ہفتے قبل اپنی خوراک میں آئرن کی حامل اشیا کا اضافہ کردیں جن میں انڈے، گوشت، پالک وغیرہ شامل ہیں۔

    خون دینے سے 24 گھنٹے قبل فربہ کرنے والی غذائیں خصوصاً فاسٹ فوڈ کھانے سے گریز کریں۔

    اگر خون دینے کے دوران آپ کو ہاتھوں یا پیروں میں سردی محسوس ہو تو فوری کمبل طلب کرلیں۔

    یاد رکھیں اگر آپ شراب نوشی کرتے ہیں تو آخری مرتبہ شراب کے استعمال کے بعد اگلے 48 گھنٹے تک آپ خون کاعطیہ نہیں دے سکتے۔

    خون عطیہ کرنے کے بعد چند منٹ بستر پر لیٹے رہیں اور اس دوران ہلکی غذا یا جوس لیں، عموماً یہ اشیا ادارے کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے کے بعد پہلی خوراک بھرپور لیں جس میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہو، عموماً مرغی یا گائے کا گوشت اس سلسلے میں بہترین ہے۔

    خون کا عطیہ دینے کے بعد کم سے کم 3 گھنٹے تک سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔

    کم سے کم ایک دن تک بھاری وزن اٹھانے اور ایکسر سائز سے گریز کریں۔

  • وہ علامات جو جسم میں آئرن کی کمی کی طرف اشارہ کرتی ہیں

    وہ علامات جو جسم میں آئرن کی کمی کی طرف اشارہ کرتی ہیں

    جسم میں آئرن کی کمی اینیمیا (خون کی کمی) کا شکار بنانے کا اہم سبب ہے، آئرن کی کمی کے دوران جسم مناسب مقدار میں ہیمو گلوبن بنانے سے قاصر ہوجاتا ہے۔

    ہیمو گلوبن خون کے سرخ خلیات کا وہ پروٹین ہے جو آکسیجن جسم کے دیگر حصوں میں پہنچاتا ہے اور اس کی عدم موجودگی سے مسلز اور ٹشوز اپنے افعال سر انجام نہیں دے پاتے۔

    یہاں آپ کو جسم میں آئرن کی کمی کی کچھ نشانیاں بتائی جارہی ہیں جن کے ظاہر ہوتے ہی آپ فوری اقدام اٹھا سکتے ہیں۔

    جسمانی تھکن آئرن کی کمی کی سب سے عام علامت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آئرن کی کمی سے ہیمو گلوبن بننے کا عمل متاثر ہوتا ہے جو آکسیجن پھیپھڑوں سے جسم کے دیگر حصوں تک پہنچاتا ہے۔ جب اس پروٹین کی کمی ہوتی ہے تو مسلز اور ٹشوز کم آکسیجن کی وجہ سے تھکاوٹ کے شکار ہوجاتے ہیں۔

    خون کے سرخ خلیات میں موجود ہیمو گلوبن جلد کو صحت مند سرخی مائل رنگت فراہم کرتا ہے، آئرن کی کمی کے نتیجے میں ہیمو گلوبن کی مقدار کم ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں جلد زرد ہوجاتی ہے۔

    سانس لینے میں مشکل یا سینے میں درد، خصوصاً جسمانی سرگرمیوں کے دوران، آئرن کی کمی کی ایک اور علامت ہے۔ اس کی وجہ بھی ہیموگلوبن کی مقدار میں خون کے سرخ خلیات کی کمی ہونا ہے۔

    آئرن کی کمی کے نتیجے میں سر درد یا آدھے سر کا درد عام ہوجاتا ہے، جس کی وجہ دماغ تک آکسیجن مناسب مقدار میں نہ پہنچنا ہے، یہ دباؤ سر درد یا آدھے سر کے درد کا باعث بنتا ہے۔

    دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی بھی آئرن کی کمی کی ایک اور علامت ہوسکتی ہے، ہیمو گلوبن کی سطح میں کمی کے نتیجے میں دل کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے جس سے دل کی دھڑکن غیر معمولی ہوجاتی ہے یا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دل بہت تیز دھڑک رہا ہے۔ سنگین معاملات میں ہارٹ فیلیئر کا بھی خطرہ پیدا ہوتا ہے۔

    جب جلد اور بالوں کو آئرن کی کمی کا سامنا ہو تو وہ خشک اور زیادہ نازک ہوجاتے ہیں، بلکہ گنج پن کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے یا بال تیزی سے گرنے لگتے ہیں۔

    ناخن کا بھربھرا ہوجانا بھی آئرن کی کمی کی ایک ایسی علامت ہے جو زیادہ عام نہیں بلکہ یہ اینیمیا کی سطح پر نمودار ہوتی ہے۔ اس اسٹیج پر ناخن غیر معمولی حد تک پتلے ہوجاتے ہیں اور ان کی ساخت بھی بدل جاتی ہے۔

    اگر موسم سے قطع نظر ہاتھ اور پیر ٹھنڈے ہو رہے ہوں تو یہ واضح طور پر اینیمیا یا آئرن کی کمی کی علامت ہے۔

    آئرن کی کمی کی ایک عجیب ترین علامت عجیب چیزوں کو کھانے کی خواہش پیدا ہونا بھی ہے جیسے لکڑی، مٹی یا برف وغیرہ۔

    ماہرین کے مطابق مندرجہ بالا علامات کو نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ ان کے ظاہر ہوتے ہی ڈاکٹر کے مشورے سے فوری آئرن بڑھانے والی ادویات لی جائیں۔

  • کرونا وائرس سے صحتیابی: ٹام ہینکس اور اہلیہ اپنا خون عطیہ کریں گے

    کرونا وائرس سے صحتیابی: ٹام ہینکس اور اہلیہ اپنا خون عطیہ کریں گے

    معروف امریکی اداکار ٹام ہینکس اور ان کی اہلیہ ریٹا ولسن کرونا وائرس سے صحتیاب ہوجانے کے بعد اب اس مرض کی تحقیق کے لیے اپنا خون عطیہ کرنے جارہے ہیں۔

    ٹام ہینکس اور ان کی اہلیہ کرونا وائرس کا شکار ہونے والی اولین ہائی پروفائل شخصیات تھے جس نے دنیا بھر میں ان کے مداحوں نے تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔

    جوڑا اس وقت آسٹریلیا میں تھا جب ان میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی، ان دونوں کا وہیں علاج ہوا اور مکمل صحتیابی کے بعد انہیں لاس اینجلس میں ان کے گھر لوٹنے کی اجازت دی گئی۔

    صحت یابی کے بعد ایک انٹرویو میں ٹام نے بتایا کہ ان دونوں نے واپسی کے بعد ماہرین سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ اپنا پلازمہ (خون) عطیہ کرنا چاہتے ہیں، ماہرین کی رہنمائی کے بعد وہ ایک میڈیکل اسٹڈی کے لیے رجسٹر ہوگئے۔

    ان کے مطابق اس مطالعے میں شامل افراد کے خون کا تجزیہ کر کے اس میں اینٹی باڈیز کو جانچنا تھا جس سے اندازہ ہوسکے کہ آیا وہ کرونا وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں یا نہیں۔

    ٹام نے بتایا کہ اب انہیں اطلاع ملی ہے کہ ان کے خون میں اینٹی باڈیز موجود ہیں جس کے بعد اب وہ اپنا خون عطیہ کریں گے۔ انہوں نے ازراہ مذاق اس متوقع ویکسین کو ہینک ۔ سین کا نام بھی دیا۔

    اپنے انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ بیماری کے دوران ان کی اہلیہ کی طبیعت کہیں زیادہ خراب تھی اور انہیں شدید بخار تھا، تاہم اب وہ اپنی اور اہلیہ کی صحتیابی پر خوش ہیں۔

    خیال رہے کہ امریکا اس وقت کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ملک بن گیا ہے جہاں مریضوں کی تعداد 8 لاکھ 19 ہزار 175 ہوچکی ہے جبکہ ہلاکتیں 45 ہزار سے تجاوز کرچکی ہیں۔

  • ایک اور اعزاز، قومی ادارے کی پلازما تحقیق امریکا میں رجسٹر

    ایک اور اعزاز، قومی ادارے کی پلازما تحقیق امریکا میں رجسٹر

    کراچی: امریکی ادارے فوڈ ایند ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے پلازما سے متعلق پاکستانی ادارے کی تحقیق کو رجسٹرڈ کر لیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان نے ایک اور اعزاز حاصل کر لیا، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز (این آئی بی ڈی) کی میڈیکل ریسرچ کا امریکا میں بھی اعتراف کر لیا گیا، ایف ڈی اے نے این آئی بی ڈی کی پیسیو امیونائزیشن (passive immunization) کو رجسٹرڈ کر لیا۔

    اس سلسلے میں این آئی بی ڈی کے سربراہ ڈاکٹر طاہر شمسی نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ این آئی بی ڈی نے ایف ڈی اے کو پلازما تکنیک رجسٹریشن کے لیے بھیجی تھی، ایف ڈی اے نے پلازما سے علاج کا کلینکل ٹرائل پروٹوکول رجسٹرڈ کر لیا ہے، پلازما تکنیک پروٹوکول سے عالمی ادارہ صحت کو بھی مطلع کر دیا گیا ہے۔

    کرونا کے مریضوں کا علاج ، ڈاکٹرطاہرشمسی نے بڑی خوش خبری سنادی

    انھوں نے بتایا کہ کسی بھی تکینک کو مریضوں پر استعمال کرنے سے قبل منظور شدہ عالمی اور ملک کے متعلقہ اداروں سے منظوری اور رجسٹرڈ کرانا طبی ضابطہ اصول ہوتے ہیں، ملکی اور عالمی اداروں کی منظوری کے بعد ہی انسانوں پر تکنیک کا استعمال شروع کیا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر طاہر شمسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے کرونا کے صحت یاب افراد سے لیے گئے پلازما پر اپنی ریسرچ مکمل کر لی ہے، سندھ میں صحت یاب مریضوں کے پلازما میں کرونا وائرس نہیں ملا۔ یاد رہے کہ سندھ حکومت پلازما تکنیک سےعلاج کی اجازت دے چکی ہے، اس طریقے سے چاروں صوبوں میں مریضوں کا علاج کیا جائے گا، ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا تھا کہ پلازما تکنیک سے کرونا مریضوں کو آئی سی یو اور وینٹی لیٹر کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

  • کیا کرونا وائرس کے لیے برسوں پرانا طریقہ علاج مؤثر ثابت ہوسکتا ہے؟

    کیا کرونا وائرس کے لیے برسوں پرانا طریقہ علاج مؤثر ثابت ہوسکتا ہے؟

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کا علاج یا ویکسین تیار کرنے پر کام کیا جارہا ہے ایسے میں امریکی ماہرین نے اس موذی وائرس کے ایک اور طریقہ علاج کی طرف توجہ دلائی ہے۔

    امریکی ریاست میزوری کی واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن اس بات کی جانچ کر رہی ہے کہ وہ افراد جو اس وائرس سے لڑ کر صحتیاب ہوچکے ہیں، آیا ان کے خون کا پلازمہ اس وائرس کے شکار دیگر افراد کی بھی مدد کرسکتا ہے یا نہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر اس وائرس سے صحتیاب ہونے والے افراد اپنا خون عطیہ کریں اور یہ خون اس مرض سے لڑتے افراد کو چڑھایا جائے تو ان میں بھی اس وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوسکتی ہے۔

    یہ طریقہ علاج اس سے پہلے سنہ 1918 میں اسپینش فلو کی وبا کے دوران استعمال کیا گیا تھا جب طبی سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔

    واشنگٹن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ علاج نیا نہیں ہے، اسے ہمیشہ سے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور یہ خاصا مؤثر بھی ہے۔

    ماہرین نے امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کو درخواست دے دی ہے جس کی منظوری ملنے کے بعد اس طریقہ علاج کو استعمال کیا جاسکے گا۔

    ایف ڈی اے کی اجازت کے بعد ڈاکٹرز اس طریقہ علاج سے کرونا وائرس کے ان مریضوں کا علاج کرسکیں گے جن کی علامات شدید ہیں اور انہیں موت کے منہ میں جانے کا خدشہ ہے۔

    ان کے مطابق یہ طریقہ علاج فوری طور پر ان مریضوں پر استعمال کیا جائے گا جن میں وائرس کی ابتدائی علامات ظاہر ہوں گی جس کے بعد ان کے مرض کو شدید ہونے سے روکا جاسکے گا۔

  • خون کا عطیہ کینسر سمیت بے شمار بیماریوں سے بچاؤ میں معاون

    خون کا عطیہ کینسر سمیت بے شمار بیماریوں سے بچاؤ میں معاون

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خون کے عطیے کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان میں ہر سال سینکڑوں مریض بر وقت خون فراہم نہ ہونے کے سبب دم توڑ جاتے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے تحت دنیا بھر میں ہر سال 14 جون کو خون کے عطیات دینے کا دن منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں خون کا عطیہ دینے کا مثبت رجحان بڑھے۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت نے 2005 میں 58 ویں ہیلتھ اسمبلی کے موقع پر کیا جس کا مقصد محفوظ انتقال خون کو یقینی بنانا تھا۔

    یہ دن کارل لینڈ اسٹینر کی سالگرہ (14 جون 1868) سے بھی منسوب ہے جنہوں نے ’اے بی او بلڈ گروپ سسٹم‘ ایجاد کیا تھا جس کی مدد سے آج بھی خون انتہائی محفوظ طریقے سے منتقل کیا جاتا ہے۔

    رواں برس اس دن کا عنوان ’محفوظ خون، سب کے لیے‘ رکھا گیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 10 کروڑ سے زائد افراد خون کا عطیہ دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے خون عطیہ کرنے سے انسان تندرست اور بے شمار بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق خون کا عطیہ دینے سے کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے، خون کی روانی میں بہتری آتی ہے، دل کے امراض لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے اور فاضل کیلوریز جسم سے زائل ہوتی ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ عطیہ کنندہ کے خون کی باقاعدگی سے جانچ مفت ہوتی رہتی ہے اور دیگر افراد کی نسبت اسے مہلک بیماریوں اور ان سے بچاؤ کے بارے میں آگاہی ملتی رہتی ہے۔

    پاکستان میں ہر سال اندازاً 32 لاکھ خون کی بوتلوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن آگاہی نہ ہونے کے سبب اندازاً صرف 18 لاکھ بوتلیں ہی فراہم ہو پاتی ہیں۔

    خون کا عطیہ دیتے ہوئے مندرجہ ذیل ہدایات کو یاد رکھنا چاہیئے۔

    خون کا عطیہ 16 سے 60 سال تک کی عمر کے افراد دے سکتے ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے سے پہلے وافر مقدار میں پانی پینا از حد ضروری ہے۔

    عطیہ دینے سے قبل مناسب ناشتہ لازمی کیجئے تاکہ آپ کے خون میں شوگر کا تناسب برقرار رہے۔

    خون کا عطیہ دینے سے 24 گھنٹے قبل احتیاطاً سگریٹ نوشی ترک کردیجئے۔

    اگر آپ باقاعدگی سے خون کا عطیہ دیتے ہیں تو اپنی مقررہ تاریخ سے 2 ہفتے قبل اپنی خوراک میں آئرن کی حامل اشیا کا اضافہ کردیں جن میں انڈے، گوشت، پالک وغیرہ شامل ہیں۔

    خون دینے سے 24 گھنٹے قبل فربہ کرنے والی غذائیں خصوصاً فاسٹ فوڈ کھانے سے گریز کریں۔

    اگر خون دینے کے دوران آپ کو ہاتھوں یا پیروں میں سردی محسوس ہو تو فوری کمبل طلب کرلیں۔

    یاد رکھیں اگر آپ شراب نوشی کرتے ہیں تو آخری مرتبہ شراب کے استعمال کے بعد اگلے 48 گھنٹے تک آپ خون کاعطیہ نہیں دے سکتے۔

    خون عطیہ کرنے کے بعد چند منٹ بستر پر لیٹے رہیں اور اس دوران ہلکی غذا یا جوس لیں، عموماً یہ اشیا ادارے کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے کے بعد پہلی خوراک بھرپور لیں جس میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہو، عموماً مرغی یا گائے کا گوشت اس سلسلے میں بہترین ہے۔

    خون کا عطیہ دینے کے بعد کم سے کم 3 گھنٹے تک سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔

    کم سے کم ایک دن تک بھاری وزن اٹھانے اور ایکسر سائز سے گریز کریں۔

  • بہت زیادہ خون بہنے کی صورت میں کیا کرنا چاہیئے؟

    بہت زیادہ خون بہنے کی صورت میں کیا کرنا چاہیئے؟

    اکثر اوقات چوٹ لگنے یا کسی حادثے کے سبب جسم کے کسی حصے سے خون بہنا شروع ہوسکتا ہے جو اگر فوری طور پر نہ روکا جائے تو خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    بہت زیادہ خون بہنے سے جسم میں خون کی کمی واقع ہوجاتی ہے اور اس کی مقدار بہت زیادہ ہو تو موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    ایسی صورت میں خون کو فوری طور پر روکنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اگر آپ کے ارد گرد ایسی صورتحال پیش آئے تو متاثرہ شخص کی مندرجہ ذیل طریقوں سے مدد کریں۔

    زخم کو چھونے سے پہلے دستانے پہن لیں۔ خالی ہاتھ سے زخم کو مت چھوئیں۔

    خون بہنے والی جگہ سے لباس ہٹا دیں، اس کے بعد کسی صاف کپڑے یا روئی سے زخم کو 10 منٹ تک دبائے رکھیں۔ زخم پر پٹی بھی باندھی جاسکتی ہے۔

    پٹی کو بہت سخت مت باندھیں اور اسے ڈھیلا رکھیں۔ ایک پٹی باندھنے کے بعد بھی خون بہنا نہ رکے تو ایک اور پٹی باندھ دیں، اسپتال پہنچنے تک آپ پٹی کو تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔

    اگر خون بہت زیادہ بہہ رہا ہو تو مریض کا مشاہدہ کرتے رہیں، مریض کی نبض ہر 10 منٹ بعد چیک کرتے رہیں اور اگر سانس رکتی ہوئی محسوس ہو تو مصنوعی سانس دیں۔

    خون کو روکنے والا آلہ جسے رگ میں لگایا جاتا ہے استعمال کرنے سے گریز کریں۔ اس آلے کا استعمال تجربے کار ڈاکٹر کی جانب سے کیا جانا ہی بہتر ہے۔

    یاد رکھیں، ایسا حادثہ جس میں کسی شخص کا بہت زیادہ خون بہے، رونما ہوتے ہی ایمبولینس طلب کریں اور اسے اسپتال لے جائیں۔ مندرجہ بالا تمام طریقے عارضی ہیں اور ان پر اسپتال پہنچنے تک کے لیے عمل کریں۔

  • گائے کا خون پینے کی انوکھی روایت

    گائے کا خون پینے کی انوکھی روایت

    دنیا بھر میں کھانے پینے کے حوالے سے ایسی انوکھی روایات پائی جاتی ہیں جو دیگر افراد کے لیے حیران کن ہوتی ہیں، لیکن بعض روایات ایسی بھی ہوتی ہیں جو دیگر افراد کو کراہیت میں مبتلا کرسکتی ہیں۔

    کینیا میں ایسی ہی ایک روایت گائے کا خون پینے کی ہے۔

    افریقی ملک کینیا میں یہ روایت صدیوں پرانی ہے، صدیوں قبل مختلف خانہ بدوش قبائل جب صحراؤں میں سفر کرتے تھے تو پانی اور خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے گائے کا خون پیا کرتے تھے۔

    گائے کا خون ان کی جسمانی توانائی بحال کردیتا اور وہ صحرا میں کئی کئی دن بغیر کچھ کھائے پیے صرف اس خون کے سہارے سفر کیا کرتے تھے۔

    یہ روایت آج بھی کینیا کے جنگجو ماسائی قبیلے میں موجود ہے۔ آج کے جدید دور میں جب یہاں کسی تہوار کا انعقاد ہوتا ہے تو اس موقع پر گائے کا خون پیا جاتا ہے۔

    اس کے لیے گائے کو ہلاک نہیں کیا جاتا بلکہ گائے کے جسم پر زخم لگا کر اس سے نکلتے خون کو ایک مخصوص برتن میں جمع کرلیا جاتا ہے اور پھر فوراً اسے پیا جاتا ہے۔ لوگ اس خون کو دودھ کے ساتھ ملا کر بہت شوق سے نوش کرتے ہیں۔

    اس مشروب کو نہایت طاقتور اور غذائیت بھرا خیال کیا جاتا ہے۔ قبیلے کے چھوٹے بچوں اور حاملہ خواتین کو باقاعدگی سے یہ خون پلایا جاتا ہے۔

    دوسری جانب اس خون کو بطور مشروب استعمال کرنے کا تعلق اس قبیلے کی روحانی و مذہبی عقیدت سے بھی ہے۔ قبیلے کے لوگ نہایت عقیدت و احترام سے یہ مشروب نوش کرتے ہیں۔

  • بھارتی خاتون بچی کا گلا کاٹ کر خون پی گئی

    بھارتی خاتون بچی کا گلا کاٹ کر خون پی گئی

    نئی دہلی : بھارتی پولیس نے ایک خاتون کو گرفتار کیا ہے کہ جس نے مبینہ طور پر اپنی 6 سالہ بھتیجی کو ذبح کرکے اس کا خون پی لیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت کی ریاست آندرا پردیش کے ایک گاؤں میں خاتون نے اپنی بھابی سے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہونے والے جھگڑے کے نتیجے میں چھوٹی بہن کے سامنے چھ سالہ بچی کو ذبح کرکے اس کا خون پی لیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ومٹالا راسمو نامی 30 سالہ خاتون کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے جو اپنے شوہر سے زبردستی اجازت لینے کے بعد اپنے بھائی کے گھر پر رہنے آئی تھی۔

    بھارتی پولیس کا کہنا ہے کہ راسمو نے جھگڑے کے بعد اپنی چھ سالہ بھتیجی کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی لیکن مقتولہ کی ماں نے دھمکی کو سنجیدہ نہیں لیا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ملزمہ نے مبینہ طور پر تیز دھار چاقو سے ذبح کیا، بڑی کو قتل ہوتا دیکھ کر 4 سالہ سنڈیا نے ڈور کر گاؤں کے دیگر افراد کو اطلاع دی جس کے بعد گاؤں رہائشی دیگر افراد نے ملزمہ کو پکڑ کر درخت کے ساتھ باندھ کر پولیس کو مطلع کیا۔

    پولیس نے خاتون کو گرفتار کرکے تھانے منتقل کردیا ہے جبکہ بہیمانہ قتل اور مقتولہ کا خون پینے کے واقعے کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

  • اپنے خون سے ذاتی بجلی پیدا کریں

    اپنے خون سے ذاتی بجلی پیدا کریں

    دنیا جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہے ویسے ویسے بجلی بنانے کے نئے نئے طریقے دریافت ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں چینی سائنسدانوں نے انسانی خون کی روانی سے بھی بجلی تیار کرنے کا طریقہ ایجاد کرلیا۔

    چین کی فیوڈن یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک ایسا ننھا سا پاور جنریٹر ایجاد کرلیا ہے جو رگوں میں دوڑنے والے خون کی حرکت اور توانائی سے بجلی بنا سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: انسانی آنسو بجلی کی پیداوار میں مدد گار

    لیکن گھبرانے کی بات نہیں، یہ ڈیوائس آپ کے جسم کی کسی رگ میں داخل ہو کر بجلی نہیں بنائے گی، بلکہ یہ جلد کے اوپر ہی کسی فعال رگ سے منسلک کی جائے گی اور اس کے بعد یہ اس رگ میں بہنے والے خون کی حرارت اور توانائی سے بجلی پیدا کرے گی۔

    ماہرہن کا کہنا ہے کہ یہ وہی آئیڈیا ہے جس کے ذریعے ہم ہوا کی توانائی (ونڈ پاور) یا پانی کی لہروں کی توانائی (ہائیڈرو پاور) سے بجلی بناتے ہیں۔

    یہ بجلی اتنی ہوگی کہ نہ صرف آپ کا موبائل چارج کرسکے گی بلکہ آپ کے ذاتی طبی آلات جیسے دل کے اندر نصب کیا جانے والے پیس میکر وغیرہ کو بھی بجلی فراہم کرسکے گی۔

    مزید پڑھیں: موبائل فون چارج کرنے کے لیے ذاتی بجلی تیار کریں

    سب سے اچھی بات یہ ہوگی کہ یہ کسی قسم کے خاص حالات، سورج کی روشنی، ہوا یا پانی کی محتاج نہیں ہوگی۔

    گویا بہت جلد ہم اپنی ذاتی ضروریات کے لیے ذاتی بجلی بنانے کے بھی قابل ہوسکیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔