Tag: خیالات

  • شہدائے پاک فوج کے لواحقین کا اپنے خیالات کا اظہار اور عوام کو پیغام

    شہدائے پاک فوج کے لواحقین کا اپنے خیالات کا اظہار اور عوام کو پیغام

    لاہور: شہدا پاک فوج کے لواحقین نے جناح ہاؤس لاہور کا دورہ کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور عوام کو پیغام دیا۔

    شہدا پاک فوج کے لواحقین کا کہنا ہے کہ ہم فوجیوں کی مائیں ہیں، یہ سب کچھ دیکھ کر برداشت نہیں کر سکتی، میں نے بیٹے سے کہا مجھے قائد کا گھر دکھانے لے چلو، شرپسندوں نے قائد کا سارا گھر جلا دیا۔

    لواحقین نے کہا کہ آرمی چیف صاحب ان کو کبھی رہانہیں کرنا ان کی رہائی ہمارے لئے باعثِ موت ہو گی، ہمارے فوجی جوان جنہوں نے اپنی ساری زندگیاں اپنے وطن عزیز پر قربان کی، ان کی عظیم قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا۔

    شہدا پاک فوج کے لواحقین نے کہا کہ کیپٹن کرنل شیرخان کے مجسمہ کو توڑا وہ جس کی دشمن نے بھی تعریف کی، ایم ایم عالم کے جہاز کو آگ لگائی، ہمارے قائد کا گھر جلادیا، ہم آج قائدکے آگے شرمندہ ہیں ان شرپسندوں نے قائد کے دیئے ہوئے ملک کا کیا حال کردیا۔

    انہوں نے کہا کہ شرپسند خود لیڈر کہتے ہیں، ایسے دہشتگرد پالے ہوئے ہیں جو وطن عزیز کو نقصان پہنچاتے ہیں، ہمارے شہدا کی ماؤں سے پوچھو! ان کے دلوں پر کیا گزری؟ جو ان شرپسندوں نے شہدا کی عظیم یادگار تصویروں کے ساتھ کیا۔

    شہدا پاک فوج کے لواحقین نے کہا کہ میں اپنے بچوں کو شہدا کی عظیم یادگار تصویروں پر قربان کرتے ہیں، دکھ محسوس کر رہا ہوں ہمارے قائد کے گھر کی اتنی بھیانک اور ہولناک صورتحال  ہے۔

    شہدا لواحقین نے مزید کہا کہ شرپسندوں نے مقدس مقامات کا احترام نہ کیا،  مسجدکا احترام نہ کیا، انہوں نے ہر ایک مقدس مقام کو تباہ کیا، ہم اپنی پاک فوج اور وطن عزیز کے ساتھ کھڑے ہیں۔

  • اہم شخصیات کا ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں خیالات کا اظہار اورعوام کو پیغام

    اہم شخصیات کا ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں خیالات کا اظہار اورعوام کو پیغام

    پاکستان کے معروف شخصیات نے ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں اپنے خیالات کا اظہار اور عوام کو پیغام دیا ہے۔

    پاکستان کے معروف اداکار اور گیم شو ہوسٹ فہد مصطفی نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ پاک فوج عظیم ہے انکی قربانیاں ملک کیلئے ہم سب جانتے ہیں، ہر مشکل گھڑی میں پاک فوج ہمارے ساتھ کھڑی رہی۔

    اداکارفہد مصطفی کا کہنا تھا کہ پاک فوج سے بغض رکھنا پاکستان سے دشمنی کرنے کے برابر ہے، اپنی سیاست ضرور کریں لیکن پاک فوج کو درمیان میں نہ لائیں۔

    سماجی کارکن رمضان چھیپا نے کہا کہ املاک پرحملے، چادر چار دیواری کی پامالی اسلامی، سیاسی کلچر نہیں، اپنے ہی ہاتھوں سے خود کو نقصان پہنچانا کہاں کی عقلمندی ہے، اپنی ہی املاک کو جلانا کہاں کا انصاف ہے، ایسے واقعات سے دنیا بھر میں ہمارا امیج متاثر ہوتا ہے۔

    گلوکار، اداکار و میزبان فخرِ عالم نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ مجھے فخر ہے افواج پاکستان پر،میں پاک فوج کیساتھ کھڑا ہوں، پاکستان زندہ آباد۔

    اینکر پرسن شازیہ خان نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ کیا شہداکی بچیوں نے اپنی ماؤں سے پوچھا نہیں ہوگا، انہی شر  پسندوں کیلئے میرے باپ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، آج شہید کی اہلخانہ پوچھ رہے ہیں جو کام دشمن نہ کر سکا وہ تم کیسے کر گئے۔

  • ہیڈ فونز استعمال کرنے والے ہوشیار ہوجائیں

    ہیڈ فونز استعمال کرنے والے ہوشیار ہوجائیں

    ہیڈ فونز کا استعمال اب بے حد عام ہوگیا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ ہمارے خیالات اور فیصلوں کو بھی بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں؟

    امریکا کی کیلی فورنیا یونیورسٹی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہیڈ فونز کا استعمال، سننے والے کی حس سماعت کے علاوہ ذہن پر بھی عام اسپیکرز کے مقابلے میں زیادہ اثرات مرتب کرتا ہے کیونکہ یہ آوازوں کو سر یا دماغ کے اندر بھیج دیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیڈ فونز کے اسپیکر آواز کو دماغ تک اس طرح پہنچاتے ہیں جیسے وہ آپ کے سر کے اندر ہوں۔، یہی وجہ ہے کہ اس کے نتیجے میں سننے والے کمیونیکٹر ( ہیڈفون پر گانے والے یا بولنے والے فرد) کو جسمانی اور سماجی طور پر زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں اور اس گانے کے بول اور شاعری سے ان کے احساسات متاثر ہوتے ہیں۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ہیڈ فونز استعمال کرنے والے شخص کے ذہنی تصورات اور اس کے فیصلے بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں، یہ بھی یاد رہے کہ اگر کوئی اشتعال انگیز تقاریر یا کوئی تلخ الفاظ والی ویڈیو دیکھے تو یہ بھی سننے والے کے خیالات اور فیصلوں پر اثرات مرتب کریں گے۔

    اس تحقیق میں 4 ہزار سے زیادہ افراد کو شامل کرکے تجربات اور سروے کیے گئے جس میں یہ دریافت ہوا کہ عام اسپیکرز کے مقابلے میں ہیڈ فونز کا اثر سننے والوں کے تصورات، فیصلوں اور رویوں پر بہت زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق ٹریننگ پروگرامز کرنے والے اداروں کے لیے بےحد کام آسکتی ہے کیونکہ ادارے اس تحقیق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ٹریننگ پروگرام کو ڈیزائن کرسکتے ہیں۔

    مثال کے طور پر ادارے ملازمین کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں کہ وہ تحفظ کی تربیت کو ہیڈ فونز پر سنیں، جس سے ان کے رویوں میں ممکنہ طور پر بہتر تبدیلی آسکتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہیڈ فونز سننے والوں کو انگیج رکھنے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں اور وہ مخصوص کریٹیئرز یا بلاگرز کے ساتھ جڑ سکتے ہیں۔

  • ’محبت کے بغیر زندگی گزارنا دنیا کی سب سے تکلیف دہ بیماری‘

    ’محبت کے بغیر زندگی گزارنا دنیا کی سب سے تکلیف دہ بیماری‘

    لندن: آنجہانی شہزادی لیڈی ڈیانا کی آج 58 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے، شاہی خاندان سے الگ ہونے کے بعد بھی وہ مرتے دم تک شہزادی ہی کہلائی جاتی رہی کیونکہ وہ دلوں کی شہزادی تھی۔

    لیڈی ڈیانا حقیقی معنوں میں ایک شہزادی تھی۔ اس نے ساری زندگی ایک وقار اور تمکنت کے ساتھ گزاری۔ اس کے اندر ایک عام لڑکی تھی جو فطرت اور محبت سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی لیکن بدقسمتی سے وہ شاہی محل کی اونچی دیواروں میں قید تھی۔

    گو کہ دنیا کی نظر میں اس کی زندگی پریوں کی داستان جیسی تھی لیکن اس کے قریبی جاننے والوں کے مطابق شاہی محل میں گزارا جانے والا زندگی کا حصہ اس کی زندگی کا تکلیف دہ حصہ تھا۔

    ڈیانا نے اپنے کئی انٹرویوز میں ایسے خیالات کا اظہار کیا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ عام لوگوں کی طرح زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہے لیکن شاہی قاعدے قانون اس کے پیروں کی زنجیر تھے جنہوں نے اسے سانس بھی لینا دوبھر کردیا تھا۔

    ستم بالائے ستم، اسے محبت کی محرومی کا غم بھی تھا۔ اس کے شوہر شہزادہ چارلس اور اس کے درمیان کبھی محبت و الفت کا رشتہ قائم نہ ہوسکا کیونکہ چارلس جب تک ڈیانا کا شوہر رہا، اپنی محبوبہ کمیلا پارکر کے غم میں گھلتا رہا جسے وہ غیر شاہی خاندان کی ہونے کے باعث نہ اپنا سکا تھا۔

    شوہر کی بے اعتنائی نے ڈیانا کو مزید غمزدہ کردیا تھا۔ وہ کہتی تھی، ’شادی کے اس بندھن میں 3 افراد جڑے تھے، سو یہ ایک خاصا پرہجوم بندھن تھا‘۔

    آئیں لیڈی ڈیانا کے کچھ خیالات جانتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی اس کے لیے کیا تھی اور وہ اسے کیسے گزارنا چاہتی تھی۔

    وہی کرو جو تمہارا دل چاہتا ہے۔

    مجھے صرف ڈیانا کے نام سے بلاؤ، شہزادی ڈیانا کے نام سے نہیں۔

    محبت کے بغیر زندگی گزارنا دنیا کی سب سے تکلیف دہ بیماری ہے۔

    میں اصولوں پر نہیں چلتی، میں دماغ کی نہیں، دل کی سنتی ہوں۔

    اگر آپ اس شخص کو ڈھونڈ لیں جس سے آپ محبت کرتے ہیں، تو اسے کبھی نہ جانے دیں۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بار اس نے کہا تھا، ’میں اس ملک کی ملکہ بننے کے بجائے دلوں کی ملکہ بننا پسند کروں گی‘۔

    ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنا میری زندگی کا اہم حصہ ہے، اور یہی میری منزل ہے۔

    کروڑوں دلوں کی دھڑکن یہ خوبصورت شہزادی 31 اگست 1997 کو پیرس میں کار کے سفر کے دوران جان لیوا حادثے کا شکار ہوگئی اور اپنے چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ گئی۔

  • منفی خیالات سے کیسے نمٹا جائے؟

    منفی خیالات سے کیسے نمٹا جائے؟

    ہم جب بھی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو برے اور منفی خیالات ہمارے دماغ میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہم اور ہمارے ارادے کمزور پڑجاتے ہیں۔

    بعض افراد کہتے ہیں کہ جب آپ کسی چیز کے بارے میں سوچتے رہیں تو وہ ہو کر رہتی ہے، جبکہ بعض افراد کا ماننا ہے کہ ہونے والی چیز ہو کر رہتی ہے لہٰذا اہم بات یہ ہے کہ آپ اس سے نمٹنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔

    معروف امریکی مصنف مارک ٹوائن کہتے ہیں، ’میں ایک عمر رسیدہ شخص ہوں اور بہت سی بڑی اور بدترین مشکلات کے بارے میں جانتا ہوں، مگر ان میں سے زیادہ تر ایسی ہیں جو کبھی رونما ہی نہیں ہوئیں‘۔

    کیا آپ کا شکار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے جو کچھ بھی کرنے سے پہلے ایک بڑے سے ’لیکن اگر‘ کی وجہ سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں؟ تو پھر آپ کو یہ طریقے آزمانے کی ضرورت ہے۔

    غلط ہوگا، لیکن ابھی نہیں

    آپ کو اپنے آپ کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اگر کچھ برا ہوگا تو وہ بعد میں ہوگا، ابھی نہیں ہوگا لہٰذا تمام منفی خیالات کو ایک طرف رکھیں اور کام کا آغاز کردیں۔

    کچھ بھی ہوجائے میں سنبھال لوں گا

    ’آل از ویل‘ کی تکنیک کی طرح جب آپ کسی بات کو دہراتے ہیں تو آپ کا دل و دماغ اس بات پر یقین کرنے لگتا ہے اور آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد کیسی ہی صورتحال سامنے آئے آپ کا دماغ اس کا حل ڈھونڈ لیتا ہے۔

    میں خود اپنی پریشانی کا سبب ہوں

    جب بھی آپ ان خیالات سے پریشانی کا شکار ہوں، آپ کے دل کی دھڑکن بڑھ جائے اور آپ کی طبیعت خراب ہونے لگے تو آپ خود کو یاد دلائیں کہ یہ سب آپ کا اپنا پیدا کردہ ہے۔

    اپنے آپ کو یاد دلائیں کہ ’میں خود ہی اپنی پریشانی کا سبب ہوں لہٰذا مجھے خود کو پریشان کرنے کا سلسلہ بند کردینا چاہیئے‘۔

    یاد رکھیں، منفی خیالات آپ کے ارادے توڑنے کا سبب بنتے ہیں اور اگر آپ کام شروع بھی کردیں تو آپ برے نتائج کے خوف سے بہترین کارکردگی نہیں دکھا پاتے لہٰذا منفی خیالات کو روکنا بہت ضروری ہے۔