Tag: د

  • میلکم ایکس: اسلام قبول کرنے والے سیاہ فام راہ نما کا تذکرہ

    میلکم ایکس: اسلام قبول کرنے والے سیاہ فام راہ نما کا تذکرہ

    1965ء میں‌ میلکم ایکس کو آج ہی کے دن گولیاں مار دی گئی تھیں‌۔ اس روز وہ امریکہ کے شہر نیویارک کے ایک ہال میں اپنے پیروکاروں سے خطاب کرنے کے لیے پہنچے تھے۔

    میلکم ایکس کو تقریر کرنے کے لیے دعوت دی گئی اور جیسے ہی انھوں نے اپنی نشست چھوڑی، کئی گولیاں ان کے جسم میں‌ اتر گئیں۔ 39 سالہ میلکم ایکس کو اسپتال پہنچایا گیا، لیکن وہ جاں بَر نہ ہوسکے۔

    میلکم ایکس کو امریکہ کی تاریخ میں‌ ان کے ایک نعرے کی وجہ سے متنازع اور وہاں سیاہ فام امریکیوں کی تنظیم کے ایک تشدد پسند لیڈر کے طور پر شہرت ملی تھی۔

    قبولِ اسلام اور حج کی سعادت حاصل کرتے ہوئے اسلامی ممالک کا دورہ کرنے اور اہم لیڈروں سے ملاقات کرنے والے میلکم ایکس امریکی سیاہ فاموں کے مشہور لیڈر تھے۔ اپنی شہادت سے ایک سال قبل 1964ء میں انھوں نے حج کی عظیم سعادت بھی حاصل کی تھی۔ اسی حج کے بعد ان کا سخت گیر رویہ اور سفید فام امریکیوں سے متعلق ان کا نظریہ تبدیل ہوا اور وہ ایک بالکل مختلف لیڈر بن کر امریکہ لوٹے۔ انھیں اسلامی دنیا میں ملک الشبہاز کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے لیکن وہ اپنے خاندان کے دیے ہوئے نام ہی سے مشہور رہے۔

    میلکم ایکس کی زندگی میں اتار چڑھاؤ اور ایسے واقعات پیش آئے جن سے وہ گوری چمڑی والے امریکیوں سے نفرت پر آمادہ ہوتے چلے گئے۔ ان کا اصل نام میلکم لٹل تھا۔ 19 مئی 1925ء کو انھوں نے ریاست نبراسکا کے شہر اوماہا میں آنکھ کھولی۔ والد، ارل لٹل سیاہ فاموں کے حقوق کی تنظیم، یونیورسل نیگرو امپرومنٹ ایسوسی ایشن کے مقامی عہدے دار تھے۔ وہ مقامی چرچ میں مذہبی درس بھی دیتے تھے اور ان کا شمار امریکہ کی سول رائٹس موومنٹ کے بانیوں میں ہوتا تھا۔ اوماہا میں سیاہ فام کثیر تعداد میں آباد تھے جن کو کارخانوں میں معمولی ملازمتوں کے بعد گزر بسر کے لیے معقول معاوضہ ملتا تھا اور نہ ہی کوئی سہولیات حاصل تھیں۔ سفید فام ان سے نفرت کرتے تھے اور سماجی اعتبار سے یہ لوگ ہر طرح دھتکارے جاتے تھے۔ سفید فاموں کے ہاتھوں مار پیٹ اور قتل کے واقعات بھی معمول تھا۔ ہر طرح سے سیاہ فام امریکیوں کو تکلیف پہنچانے اور ہر شعبہ میں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ ایسے میں ارل لٹل سفید فاموں سے اپنے حقوق مانگنے اور امریکی سیاہ فاموں کے لیے آواز اٹھاتے تو یہ سب سفید فاموں کو ناگوار گزرتا اور ایک تنظیم کے اراکین اس کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ اس طرف سے خبردار ہونے پر ارل لٹل 1926ء میں بیوی بچوں کو لے کر شہروں میں‌ ہجرت کرتے رہے مگر ہر جگہ نسل پرستی عروج پر تھی۔ متعصب سفید فاموں نے سیاہ فاموں کو بدستور اپنا غلام بنائے رکھنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنا رکھی تھیں۔ ’’بلیک لیجن‘‘ تنظیم ان میں سب سے طاقت ور اور بااثر تھی۔ 1929ء میں اسی تنظیم کے دہشت گردوں نے ارل لٹل کا گھر جلا دیا تھا لیکن وہ اور اہلِ خانہ محفوظ رہے تھے۔ سفید فام دہشت گرد تنظیمیں جب حقوق کے لیے اس آواز کو دبانے میں ناکام رہیں تو 1931ء میں بلیک لیجن نے ارل لٹل کو مار ڈالا۔

    شوہر کی ہلاکت کے بعد میلکم ایکس کی ماں مخبوط الحواس ہو گئی کیوں کہ جمع پونجی ختم ہوجانے کے بعد بچّوں کے اخراجات، بیروزگاری اور غربت کا خوف اس کے ذہن پر سوار ہوگیا تھا۔ اسے پاگل خانے میں داخل کرانا پڑا۔ اس سیاہ فام کنبے کے حالات سے ظاہر ہے کہ میلکم ایکس کا بچپن عام بچوں کی طرح نہیں گزرا ہو گا۔ انھوں نے ذرا ہوش سنبھالا تو تشدد، قتل و غارت، ظلم و ستم اور غربت دیکھی۔ وہ ماں باپ کی شفقت و محبت بھی طویل عرصے نہ پا سکے اور والد کے بعد والدہ پاگل خانے چلی گئیں تو بہن بھائیوں کے ساتھ الگ سیاہ فام گھرانوں میں پرورش پائی۔ میلکم ایکس کو نئے گھر میں‌ بھی غربت ملی اور وہ اکثر ہوٹلوں اور دکانوں سے کھانے پینے کی چیزیں چوری کرکے پیٹ کی آگ بجھاتے۔ ایک دن پولیس نے ایسی حرکت پر پکڑ اور وہ بچہ جیل بھیجے گئے۔

    خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کے دوران ان کی تعلیم کا سلسلہ کسی طورجاری رہا۔ حیران کن طور پر وہ تعلیمی میدان میں کارکردگی کے لحاظ سے عمدہ تھے۔ تاہم بعد میں امریکی سفید فام معاشرے میں اپنے ساتھ تعصب اور ظلم دیکھ کر ان کا تعلیم سے جی اچاٹ ہو گیا اور انھیں تجربہ ہوا کہ بظاہر شریف اور پڑھے لکھے نظر آنے والے سفید فام بھی نسل پرست ا ور متعصب ہیں۔ میلکم ان سب باتوں کی وجہ سے جارحیت پسند اور معاشرے کے باغی بن گئے۔ ایک وقت آیا جب وہ جرائم کی دنیا سے وابستہ ہوئے اور منشیات فروشی کے علاوہ جوئے بازی، چوری چکاری اور اسی طرح کے جرائم سے جڑے رہے اور پھر بوسٹن میں پولیس نے ان کو گرفتار کر لیا۔ مقدمہ چلا اور ان کو دس برس قید سخت کی سزا ہو گئی۔ یہاں ان کی خوش قسمتی کہ انہیں اپنے بھائی ریجلنڈ لٹل کی صورت ایک مدد گار مل گیا۔ وہ اکثر بڑے بھائی سے ملنے آتا تھا۔ گو کہ عموماً قلاش رہتا لیکن ایمان دار اور با کردار تھا۔ ایک روز اس نے میلکم کو بتایا کہ وہ ایک تنظیم‘ نیشن آف اسلام کا رکن بن گیا ہے۔ اس نے میلکم پر زور دیا کہ وہ بھی تنظیم کا رکن بن جائے۔ اس کے بانی کے نظریات کا خلاصہ یہ تھا کہ امریکا میں آباد تمام سیاہ فام مسلمانوں کی اولاد ہیں۔ لہٰذا انہیں اپنا حقیقی مذہب، اسلام اختیار کر لینا چاہیے۔ اس حقیقی بانی کی پراسرار گم شدگی کے بعد 1934ء میں اس کے نائب، عالی جاہ محمد نے تنظیم کی سربراہی سنبھال لی تھی اور اسے ایک نسل پرست تنظیم بنا ڈالا۔ عام مسلمانوں کے نزدیک نیشن آف اسلام ایک گمراہ کُن تنظیم بن گئی اور میلکم جو دہریے بن گئے تھے اور مذہب کو بیکار شے سمجھتے تھے، اپنے بھائی ریجلنڈ لٹل کی وجہ خاصے بدل گئے۔

    میلکم ایکس اگست 1952ء میں جیل سے رہا ہوئے اور اس کے بعد امریکا بھر میں نیشن آف اسلام کے نظریات کی ترویج کو مقصدِ‌ حیات بنا لیا۔ وہ امریکی سیاہ فاموں کو حقوق و فرائض کا شعور دے کر باعزت شہری بنانا چاہتے تھے۔ میلکم ایکس پُرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ہمیشہ صاف ستھرا لباس پہنتے اور مقصد سے لگن نے ایک پُرجوش مقرر بھی بنا دیا تھا۔ وہ وقت بھی آیا کہ میلکم عام سیاہ فاموں میں مقبول راہ نما بن گئے اور نوجوان ان کی کرشماتی شخصیت کے زیر اثر بڑی تعداد میں نیشن آف اسلام میں شمولیت اختیار کرنے لگے۔ اسلامی تعلیمات میں دل چسپی کے ساتھ میلکم اس مذہب کے آزادی اور عزّت و وقار سے جینے اور اپنے حق کی خاطر ڈٹ جانے کے فلسفے سے بہت متاثر تھے اور ان کی وجہ سے کئی اہم اور مشہور سیاہ فام شخصیات بھی نیشن آف اسلام کے رکن بنے۔ لیکن میلکم ایکس رفتہ رفتہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سفید فام سیاہ فاموں کو حقوق نہیں دیتے، تو ان کو بندوق اٹھالینی چاہیے۔ ان کی مقبولیت اور جدوجہد کو دیکھ کر امریکی پرنٹ میڈیا میں میلکم کے انٹرویوز شایع ہونے لگے اور یوں وہ امریکا میں جانے پہچانے سیاہ فام لیڈر بن گئے۔ لیکن دوسری طرف حکومتِ وقت کی نظروں میں وہ ایسے خطرناک سیاہ فام لیڈر تھے جو ضرورت پڑنے پر ریاست کے خلاف ہتھیار بھی اٹھا سکتا تھا اور معاشرے کو تشدد کی راہ پر ڈال سکتا تھا۔ اسی لیے امریکی خفیہ ایجنسی اس سیاہ فام لیڈر کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے لگی۔

    ابھی یہ جدوجہد جاری تھی کہ ان کا نیشن آف اسلام کے سربراہ، عالیجاہ محمد سے ٹکراؤ ہو گیا۔ دراصل 1962ء تک میلکم ایکس اس تنظیم کے مقبول ترین راہ نما بن چکے تھے جس کی وجہ سے عالیجاہ محمد اپنے اس نوجوان ساتھی سے حسد کرنے لگا۔ اسی دوران میلکم پر یہ راز افشا ہوا کہ عالیجاہ ایک عیاش اور بدکار آدمی ہے جس پر انھوں نے 1964ء کو نیشن آف اسلام سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔

    وہ اسلام کے تصورِ حیات اور بالخصوص انسان کی برابری، مساوات اور اتحاد و یگانگت کے فلسفے سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے اور یہ وہ چیز تھی جو امریکہ کے لوگوں میں نسل پرستی اور ظاہری و طبقاتی فرق کی وجہ سے نفرت اور دوری اختیار کرنے کی روش کا الٹ تھی، اس کا عظیم مشاہدہ اور تجربہ انھیں‌ احرام باندھ کر ہوا جس نے اس امریکی سیاہ فام لیڈر کی ذہنیت ہی بدل ڈالی۔ حجاز میں انھیں حقیقی اسلامی تعلیمات کی عملی شکل دیکھنے کو ملی اور وہ انتہا پسند انسان کے بجائے متعدل مزاج بن کر امریکہ لوٹے۔

    اب میلکم سول رائٹس موومنٹ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے۔ انھوں نے مارٹن لوتھر کنگ اور دیگر سیاہ فام لیڈروں پر تنقید کرنا بند کر دی۔ باشعور سفید فاموں کی طرف بھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا تاکہ وہ امریکی معاشرے سے نسلی تعصب اور نفرتوں کا خاتمہ کرسکیں۔ اب صرف انتہا پسند سفید فاموں کا طبقہ ان کی تنقید کا نشانہ تھا۔ لیکن اس باطنی اور ذہنی تبدیلی کے ساتھ اب ان کی زندگی بہت کم تھی۔ آخر کار وہ اپنے بدخواہوں اور ناراض سیاہ فاموں کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔

    امریکہ میں ’صرف سیاہ فام‘ کا نعرہ لگانے والے اور اس کی بنیاد پر متنازع سیاہ فام راہ نما کہلانے والے میلکم ایکس کو جن دو افراد نے گولیاں ماری تھیں، ان کو بعد میں آڈیٹوریم کے باہر ہجوم نے پکڑ کر بری طرح مارا پیٹا۔ لیکن پولیس انھیں‌ چھڑانے میں کام یاب ہوگئی تھی۔

  • اکال گڑھ اور گجرات کی مہمّات

    اکال گڑھ اور گجرات کی مہمّات

    چوں کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ترقی اور حصولِ ریاست و دولت سے سب سکھ سردار جلتے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ تازہ نہالِ بوستانِ جاہ و جلال بڑھنے نہ پائے، ابھی سے اس کو کاٹ دیا جائے تو بہتر ہے۔

    زیادہ تر حسد و بغض اس وقت سردار صاحب سنگھ بھنگی کو تھا جس کا قبضہ لاہور کے تیسرے حصے سے بھی جاتا رہا تھا اور آئندہ اس کو اطمینان نہ تھا کہ حتیٰ الامکان مہاراجہ رنجیت سنگھ اس کے علاقے پر قبضہ نہ کرے گا، بلکہ اس کو یقین تھا کہ لاہور میں رنجیت سنگھ جمعیت قائم کرکے مجھ پر حملہ آور ہو گا۔

    اس فکر و اندیشہ میں اس نے فوج کو بڑھایا اور سامان جنگ کا بہت سا جمع کیا اور قریب تھا کہ وہ ایک بڑے بھاری مجمع کے ساتھ لاہور پر یورش کرے، مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جب یہ خبر پائی مناسب جانا کہ خود دشمن پر حملہ کرے اور اس کا ملک اس سے چھین لے یا اپنا تابع دار بنائے۔ چنانچہ موجودہ فوج کے ساتھ فوراً گجرات کو روانہ ہوا۔ جب فوج گجرات کے نزدیک پہنچی، صاحب سنگھ میدان میں آیا اور قلعے کے دروازے بند کرکے لڑائی شروع کی۔ مہاراجہ کی فوج نے قلعے کے چاروں طرف مورچے باندھ دیے اور توپ سے گولہ بازی شروع کی۔ بہت روز تک فریقین کی طرف سے گولہ چلتا رہا۔ گولوں کی ضرب سے بہت سی دیوار گر گئی اور صاحب سنگھ فتح سے ناامید ہو گیا۔ تب اس نے پیغام صلح کا بھیجا اور اطاعت پر راضی ہوا۔

    رنجیت سنگھ نے اس سے بڑا بھاری نذرانہ لیا اور آئندہ کے لیے وعدہ اطاعت کا لے کر محاصرہ اٹھا لیا اور لاہور کو واپس آیا۔ لاہور میں آکر خبر پہنچی کہ سردار دل سنگھ، سردار مہان سنگھ مہاراجے کے باپ کا دوست، جس کو سردار مہان سنگھ نے قصبہ اکال گڑھ فتح کرکے بخش دیا تھا، صاحب سنگھ کا دوست و رفیق بن گیا ہے اور دونوں آپس میں ایک ہو کر چاہتے ہیں کہ فوج بڑھا کر لاہور کو آئیں اور جنگ کریں۔

    چوں کہ دل سنگھ دست پروردہ و پرورش یافتہ سردار مہان سنگھ کا تھا، اس بات کے سننے سے مہاراجہ رنجیت سنگھ نہایت آزردہ خاطر ہوا اور چاہا کہ جب تک دشمن اپنے ارادے پر کام یاب ہوں، پہلے ہی سے ان کا انتظام کر لے۔

    فی الفور ایک خط بہ نام دل سنگھ بہ مضمون ’’اشتیاقِ ملاقات اور جوشِ محبت کے‘‘ لکھا اور درج کیا کہ’’ جس طرح سے میرا باپ آپ کا جانی دوست اور دلی خیر خواہ تھا، اسی طرح میں ہوں اور یہ بھی مجھ کو یقین ہے کہ آپ کو بھی بہ نظر محبت میرے باپ کے مجھ سے زیادہ کوئی عزیز نہ ہو گا اور جس طرح کہ آپ نے اور میرے باپ نے باہم محبت و اتفاق رکھ کر ملک گیری کی اور سردار و والیانِ ملک بن گئے، اسی طرح میں بھی چاہتا ہوں کہ آپ بلا تامل میرے پاس چلے آئیں اور میری ہمراہی میں فتوحات میں مشغول ہوں۔ دونوں کی سعی و کوشش سے جو ملک مفتوح ہو گا وہ نصفا نصف تصور کیا جائے گا۔ ایک مقام پر بیٹھ کر قناعت کرنا جواں مردوں اور بہادروں کا کام نہیں ہے۔ آپ میرے بزرگ اور میرے باپ کے دوست ہیں۔ مجھ کو آپ سے کچھ دریغ نہ ہو گا۔‘‘

    یہ تحریر جب سردار دل سنگھ کے پاس پہنچی، طمع کے دام میں آگیا اور فوراً صاحب سنگھ سے برگشتہ ہو کر تیار ہو گیا کہ رنجیت سنگھ کے پاس جا کر اور اس کی فوج لا کر صاحب سنگھ سے ملک چھین لے۔ غرض وہ لاہور میں آگیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پہلے ملاقات بڑے تپاک سے اس کے ساتھ کی اور قلعے کے اندر اتارا۔ جب رات ہوئی تو سپاہیوں کا پہرہ اس پر تعینات کر کے نظر بند کر لیا۔ جب وہ قید میں آگیا تو اکال گڑھ کے دخل کے لیے مہاراجہ رنجیت سنگھ مع فوج لاہور سے روانہ ہوا۔ دل سنگھ کی رانی نے یہ خبر پائی کہ رنجیت سنگھ میرے شوہر کو قید کر کے اکال گڑھ کے فتح کرنے کو آیا ہے تو فی الفور اس نے شہر کے دروازے بند کر لیے اور قلعے پر دو توپیں چڑھا دیں اور چاروں دیواروں پر فوج مامور کر کے مستعد بہ جنگ ہو بیٹھی۔ جب رنجیت سنگھ وہاں پہنچا، معاملہ دگرگوں نظر آیا جس کی امید نہ تھی۔ اگرچہ بعض آدمیوں نے منع کیا کہ اب عورت سے لڑنا مردوں کو کیا ضرور ہے، جب اس کا خاوند ہی ہمارے پاس قید ہے تو یہ ملک گویا ہمارا ہی ملک ہے۔ مگر رنجیت سنگھ اپنی ضد سے باز نہ آیا اور لڑائی شروع کر دی۔

    دونوں طرف سے توپ و بندوق چلنے لگی۔ بہت روز لڑائی ہوتی رہی۔ اکثر اوقات وہ عورت اپنی فوج کے ساتھ قصبے سے نکل کر بھی رنجیت سنگھ کی فوج پر مردانہ وار حملہ کرتی۔ ادھر تو لڑائی جاری رکھی اور ادھر اس نے اپنا وکیل صاحب سنگھ بھنگی کے پاس بہ طلب امداد و کمک کے بھیجا۔ صاحب سنگھ اسی وقت اس کی امداد کو تیار ہوا اور جودہ سنگھ حاکم وزیر آباد کو لکھا کہ وہ بھی اس امداد میں اس کے شامل ہو۔ ابھی دشمن اپنے اپنے مقام سے فوج لے کر روانہ نہیں ہوئے تھے کہ رنجیت سنگھ کو بھی کسی معتبر کی زبانی یہ خبر مل گئی اور جانا کہ اگر دو دشمن اس طرح سے اور تیسرا دشمن، جو محصور ہے، میرے مقابل ہوں گے تو فتح مشکل ہو گی۔ بہتر یہ ہے کہ اکال گڑھ کا محاصرہ چھوڑ کر پہلے ان کا انتظام کر لیا جائے۔ چنانچہ قلعے کا محاصرہ چھوڑ کر گجرات کو روانہ ہوا۔ چوں کہ جودہ سنگھ وزیر آباد یہ بھی دست پروردہ مہان سنگھ کا تھا۔ اور وزیر آباد فتح کرکے سردار مہان سنگھ نے ہی اس کو دیا ہوا تھا، ایک خط شکایتاً قدیمی احسان یاد دلا کر اس کے نام تحریر کیا کہ وہ اپنی فوج لے کر صاحب سنگھ کے شامل نہ ہو۔

    جب لشکر لے کر مہاراجہ رنجیت سنگھ گجرات کے قریب گیا تو شہر سے باہر دو میل پر آ کر صاحب سنگھ مقابل ہوا۔ دونوں فریق صبح سے شام تک لڑتے رہے، فریقین سے بہت سے بہادر کام آئے۔ اسی طرح دوسرے اور تیسرے روز خفیف لڑائیاں ہوتی رہیں۔ چوتھے روز صاحب سنگھ شہر سے باہر نہ نکلا اور محصور ہو کر لڑنے لگا۔

    مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مورچہ قائم کر کے شہر و قلعہ پر گولہ باری شروع کی۔ چند روز یہ حال رہا۔ آخر صاحب سنگھ بیدی نے، جو گورونانک کی اولاد سے صاحب زادہ بلند اقتدار تھا اور تمام مثلوں کے سکھ سردار اس کا ادب و لحاظ بہ دل کرتے تھے، درمیان میں آکر چاہا کہ کسی طرح دونوں کی آپس میں صلح ہو جائے اور صاحب سنگھ کی طرف سے رنجیت سنگھ کے پاس آکر صلح کا پیغام دیا اور اپنی طرف سے بھی نصیحت کی اور کہا کہ خالصہ جی کو کہ ایک گورو کے سکھ ہیں، آپس میں کمال محبت و اختلاط درکار ہے، نہ کہ آپس میں تلوار چلتی رہے اور ہزاروں بندگانِ خدا کا خون ہو۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے صاحب سنگھ بیدی کی بہت تعظیم کی اور نذرانہ و جرمانہ و خرچ فوج کا لینا کر کے محاصرہ اٹھا لیا اور آئندہ کے لیے یہ قرار پایا کہ صاحب سنگھ بھنگی و دل سنگھ اکال گڑھیہ کبھی رنجیت سنگھ کے برخلاف اس کی نسبت ارادہ لڑائی و فساد کا نہ کریں گے اور اس میں صاحب سنگھ بیدی نے ضمانت دی اور نذرانہ معقول اس سے وصول کیا۔

    جب یہ انتظام ہو چکا تو مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنی فوج لے کر لاہور آگیا۔ جب سردار دل سنگھ قید سے چھوٹ کر اکال گڑھ کو گیا، غم و غصہ کی حالت میں تھا۔ جاتے ہی بیمار ہو گیا اور چند روز میں مر گیا۔ اس کے مر جانے کی خبر جب رنجیت سنگھ کو پہنچی تو چاہا کہ اکال گڑھ جا کر اپنا قبضہ کرے، ایسا نہ ہو کہ صاحب سنگھ گجراتیہ، گجرات سے آکر اس علاقے کو اپنے تصرف میں کرے۔

    یہ خیال دل میں قائم کرکے بہت جلد اکال گڑھ کو روانہ ہوا۔ جب چار میل کے فاصلے پر اکال گڑھ سے پہنچا تو اپنا ایک معتبر بھیج کر دل سنگھ کی بیوہ کو اطلاع دی کہ’’ بہ استحکام رابطہ محبت کے جو قدیم سے فی مابین سردار مہان سنگھ اور دل سنگھ کے مربوط تھا، جب تک وہ دونوں سردار زندہ رہے کوشش ہوتی رہی اور اب جو وہ دونوں سرگباش ہو گئے، ہم کو چاہیے کہ جب تک زندہ ہیں اس سلسلے کو نہ توڑیں بلکہ روز بہ روز مضبوط کریں تو بہتر ہے۔

    سردار دل سنگھ کے مرنے کا مجھ کو کمال غم ہے اور محض اسی واسطے لاہور سے چل کر آیا ہوں کہ ماتم پرسی کی رسم بجا لاؤں اور اس غم و ماتم میں تمہارے ساتھ شامل ہو کر شرائط ہمدردی و غم خواری کی بجا لاؤں۔ تم کو چاہیے کہ کسی طرح کا اندیشہ دل میں نہ کرو اور نہ میری طرف سے بدظن ہو۔‘‘ دل سنگھ کی بیوہ نے جب یہ پیام سنا، اگرچہ اس کے دل میں سخت اندیشہ ہوا کہ شاید رنجیت سنگھ اپنے عہد سے پھر جائے اور شہر میں داخل ہو کراپنا قبضہ کر لے مگر اس سے بھی اس کو اطمینان تھا کہ فیصلہ اس کے شوہر کا رنجیت سنگھ کے ساتھ معرفت صاحب سنگھ بیدی کے ہو چکا تھا اور مستحکم عہد ہو چکے تھے کہ آئندہ نہ تو دل سنگھ کبھی رنجیت سنگھ کی بدی میں راضی ہو اور نہ رنجیت سنگھ کبھی اس کو تکلیف دے۔ یہ کب ممکن ہے کہ اب رنجیت سنگھ اب عہد سے، جو اس نے ایک گورو بیدی کے سامنے کیا ہے، پھر جائے۔ یہ سوچ کر اس نے کہلا بھیجا کہ بہ تقریب ماتم سردار دل سنگھ کے تمام دوست و اقربا قدم رنجہ کر رہے ہیں۔ اگر رنجیت سنگھ نے بھی تکلیف کی ہے تو بے شک آجائے، کوئی اس کو مانع نہیں۔

    جب یہ بشارت رنجیت سنگھ نے سنی بہت خوش ہوا اور مع اپنی فوج کے شہر میں گھس گیا۔ جاتے ہی شہر اور قلعے کا انتظام کر لیا۔ اپنے سپاہی خزانہ و ذخیرہ وغیرہ مقامات پر مامور کردیے۔ دل سنگھ کی بیوہ اوراس کے خرد سال بچوں کو نظر بند کر لیا۔ دل سنگھ کی فوج جو شہر کے باہر اتری ہوئی تھی یہ خبر پا کر جا بجا متفرق ہو گئی۔ اس ضبطی میں رنجیت سنگھ کو بہت سا خزانہ ملا اور بہت سے ہتھیار وغیرہ اور سامان ملک داری کا حاصل ہوا۔ جب دل سنگھ کے تمام علاقے پر دخل پا چکا، اس میں سے دو گاؤں سردار دل سنگھ کے بیٹوں اور بیوہ کے خرچ کے لیے وا گزار کیے جس سے وہ پرورش پائیں۔

    (ماخوذ: ’’تاریخِ پنجاب، کنہیا لال‘‘)