Tag: داؤد رہبر

  • دو سو معانقے

    دو سو معانقے

    امریکا میں جس چیز کو میں ترسا ہوا ہوں، وہ ہے گرمیٔ قلب، سچی بات کیوں نہ کہہ دوں، یورپ کی اقوام نے (جن میں اہالیان امریکا شامل ہیں) صاحب دماغی تو ایسی دکھائی ہے کہ قدرت بھی انگشت بدنداں ہے لیکن صاحب دلی ان اقوام میں کمیاب ہے۔

    مجھے انگلستان اور امریکا میں مسلسل یہ محسوس ہوا کہ میرے مغربی ہم نشینوں کے دلوں کی بیٹریاں کمزور ہیں اور اہلِ مشرق کے دلوں سے تار جوڑ کر یہ اپنی بیٹریاں چارج کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

    انصافاً یہ کہہ دینا بھی ضروری ہے کہ اہلِ مشرق کی روحانی بیٹریوں کی طاقت بھی اب جواب دینے کو ہے، تاہم ہمارے ہاں دل اب بھی گرم ہیں سرد نہیں ہوئے، ہمارا معاشرہ اب بھی ٹھٹھے اور معانقے والا معاشرہ ہے۔

    میرا تو اب یہ حال ہے کہ ہر ہم جنس کو اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ معانقہ آمادہ آدمی ہے یا دھکا آمادہ؟ جو نگاہ مجھ سے کہے دفع ہو جا میں اس کی طرف اپنی نگاہ دوسری بار کیوں اُٹھاؤں ، انگریز دو سو سال ہندوستان پر قابض رہا، میرا گمان غلط نہیں کہ دو سو سال میں ہمارے دیس کے لوگوں اور انگریزوں کے درمیان دو سو معانقے بھی نہ ہوئے ہوں گے۔

    (معروف اسکالر، ادیب، شاعر اور ماہرِ موسیقی داؤد رہبر کی کتاب پراگندہ طبع لوگ سے ایک پارہ)

  • جب امریکی ماہرِ نفسیات ڈاکٹر اجمل کی گفتگو سے مرعوب نظر آیا!

    جب امریکی ماہرِ نفسیات ڈاکٹر اجمل کی گفتگو سے مرعوب نظر آیا!

    اعلیٰ‌ تعلیم یافتہ ڈاکٹر اجمل پنجاب یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر اور بعد میں‌ صدرِ شعبہ رہے۔ ڈاکٹر صاحب وسیعُ المطالعہ، نہایت قابل اور بڑے نکتہ سنج تھے جن کی گفتگو بھی سحر انگیز ہوتی تھی۔ ڈاکٹر اجمل کے لیکچرز اور ان کے علمی مضامین شاگردوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوتے تھے۔ ہر کوئی ان سے مرعوب نظر آتا۔ ڈاکٹر صاحب ایسی سحر انگیز اور عالمانہ انداز میں گفتگو کرتے تھے کہ سننے والے کا جی نہیں بھرتا تھا۔

    اردو زبان کے نام وَر ادیب، شاعر اور ماہرِ موسیقی ڈاکٹر داؤد رہبر بھی اجمل صاحب کے حلقۂ احباب میں شامل تھے۔ انھوں نے ڈاکٹر اجمل کی گفتگو سے متعلق ایک واقعہ نہایت دل چسپ پیرائے میں رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "بوسٹن میں میرے مہربان دوست ڈاکٹر محمد اجمل صاحب اپنے عزیز اشرف جان صاحب کے ہاں آ کر ٹھہرے تو میں نے انہیں اپنے ہاں تناول کی دعوت دی۔”

    "ڈاکٹر جڈ ہوورڈ کو بھی بلایا، یہ نفسیات کے پروفیسر تھے، ڈاکٹر اجمل صاحب بھی پنجاب یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر رہ چکے ہیں، لندن یونیورسٹی میں انہوں نے تحلیلِ نفسی کی اعلیٰ تعلیم پائی۔ میں ان کو چھیڑ کر کہا کرتا تھا پاکستان میں پاگل کہاں! آپ کی پریکٹس وہاں نہ چلے گی۔”

    "بوسٹن میں انہوں نے ڈاکٹر جڈ ہوورڈ سے تین گھنٹے گفتگو میں ایسی زندہ دلی کا ثبوت دیا کہ کیا کہنے! دوسرے روز ڈاکٹر ہوورڈ سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا تمہارے دوست کی وسعتِ نظر اور گفتگو کی جولانی میری زندگی کا ایک خاص تجربہ ہے، میں نے امریکا میں نفسیاتی ڈاکٹروں کے حلقوں میں ایسا چومکھی ذہن والا کوئی آدمی نہیں دیکھا۔”

    "پروفیسر ہوورڈ اور ڈاکٹر اجمل کے آفاقِ ذہنی کے تفاوت کی وجوہ میں سب سے بڑی وجہ ڈاکٹر اجمل کے تجاربِ زندگی کا تنوع ہے جو ڈاکٹر ہوورڈ کو خواب میں بھی نصیب نہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں کون ہے جس کی گفتگوئیں نانبائیوں، حلوائیوں، نائیوں، کمہاروں، پہلوانوں، کنجڑوں، سقوں، لوہاروں، موچیوں، لکڑہاروں، جولاہوں، بھٹیاروں، کوچوانوں، قلیوں، بھڑبھونجوں، بھانڈوں، میراثیوں، ہیجڑوں، درزیوں، عطاروں، طبیبوں، موذنوں اور مولویوں سے نہ رہ چکی ہوں۔”

    "ہندوستان اور پاکستان کے مسالہ دار کھانے، آم پارٹیاں، نہاری پارٹیاں، پوشاکوں کی رنگا رنگی، پنجابی اور سندھی اور پشتوں اور بلوچی اور مارواڑی اور انگریزی بولیوں کے زمزمے اور سب سے بڑھ کر وہاں کی ٹریفک کی سنسنی خیز اُودھم زندگی کا ایسا بارونق تجربہ، اور اس پر بہترین تعلیم، ڈاکٹر اجمل کا ذہن باغ و بہار کیوں نہ ہو۔”

  • "ہمارا معاشرہ اب بھی ٹھٹھے اور معانقے والا معاشرہ ہے!”

    "ہمارا معاشرہ اب بھی ٹھٹھے اور معانقے والا معاشرہ ہے!”

    اردو ادب میں ڈاکٹر داؤد رہبر کا نام ایسے قلم کار کے طور پر لیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی عمر کا کم و بیش سارا شعوری حصّہ علم و ادب کی تحصیل، جمع و تدوین، تخلیق، تشریح و وضاحت میں گزرا۔ وہ دیارِ غیر میں رہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنی مٹّی اور یہاں تمدن کے ساتھ اقدار اور ثقافت کے حوالے سے تشنگی بھی ان کی تحریروں سے جھلکتی ہے۔

    اردو زبان کے اس نام ور ادیب، ماہرِ موسیقی اور شاعر نے امریکا میں رہتے ہوئے جب اپنی کتاب پراگندہ طبع لوگ پیش کی تو اس میں ’’مہاجرت‘‘ کا دکھ بھی ظاہر ہوگیا۔ یہاں جو اقتباس ہم پیش کررہے ہیں، وہ اسی دکھ اور حسرت کا اظہار ہے۔

    ” امریکا میں جس چیز کو میں ترسا ہوا ہوں، وہ ہے گرمیِ قلب۔ سچی بات کیوں نہ کہہ دوں، یورپ کی اقوام نے (جن میں اہلِ امریکا شامل ہیں) صاحب دماغی تو ایسی دکھائی ہے کہ قدرت بھی انگشت بدنداں ہے، لیکن صاحب دلی ان اقوام میں کم یاب ہے، مجھے انگلستان اور امریکا میں مسلسل یہ محسوس ہوا کہ میرے مغربی ہم نشینوں کے دلوں کی بیٹریاں کمزور ہیں اور اہلِ مشرق کے دلوں سے تار جوڑ کر یہ اپنی بیٹریاں چارج کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔”

    "انصافاً یہ کہہ دینا بھی ضروری ہے کہ اہلِ مشرق کی روحانی بیٹریوں کی طاقت بھی اب جواب دینے کو ہے، تاہم ہمارے ہاں دل اب بھی گرم ہیں، سرد نہیں ہوئے۔ ہمارا معاشرہ اب بھی ٹھٹھے اور معانقے والا معاشرہ ہے۔”

    "میرا تو اب یہ حال ہے کہ ہر ہم جنس کو اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ معانقہ آمادہ آدمی ہے یا دھکا آمادہ؟ جو نگاہ مجھ سے کہے دفع ہو جا، میں اس کی طرف اپنی نگاہ دوسری بار کیوں اُٹھاؤں، انگریز دو سو سال ہندوستان پر قابض رہا، میرا گمان غلط نہیں کہ دو سو سال میں ہمارے دیس کے لوگوں اور انگریزوں کے درمیان دو سو معانقے بھی نہ ہوئے ہوں گے۔”

  • نصیر خاں ٹھیکے دار اور طنبورہ

    نصیر خاں ٹھیکے دار اور طنبورہ

    آگرے کی گائیکی پر خاکسار نے خاص ریاض کیا۔

    اُن دنوں خیال آیا کہ والد صاحب کی الماری پر جو مرمّت طلب طنبورہ پڑا ہے، اس کی مرمّت کرانی چاہیے۔ اس کے تونبے میں ایک دراڑ تھی، زنہار ہمّت نہ ہوئی کہ والد صاحب سے اس خواہش کا ذکر کروں، وہ ہر گز اجازت نہ دیتے۔

    ماڈل ٹاؤن میں مکانات کی تعمیر کا ایک ٹھیکے دار نصیر خاں تھا، جس کی تعلیم چوتھی جماعت تک ہوئی تھی۔ یہ داغ کے رنگ میں غزل کہنے کی کوشش کرتا تھا۔ بعض شعر واقعی اچھے نکال لیتا تھا لیکن وزن اس کے بعض مصرعوں کا ٹھیک نہ ہوتا تھا۔ اس کی عمر چالیس کے قریب تھی اور راقم کی پندرہ۔

    اس نے شاعری میں راقم کو استاد کیا۔ وقتاً فوقتاً ایک اٹھنی بطور اجرتِ اصلاح یا نذرانۂ شاگردی دیا کرتا تھا۔ راقم نے سوچا کہ طنبورہ مرمّت کرانے کا کام نصیر خاں کی مدد سے نکالا جائے۔

    ایک صبح والد صاحب جب کالج کو روانہ ہوئے۔ نصیر خاں تانگے پر طنبورہ رکھ کر اس کو دھنی رام اسٹریٹ میں پرتاب سنگھ کی دکان پر لے گیا۔ وہاں مرمّت میں کئی روز لگے۔ راقم بے تاب سنگھ بن کر یاد دہانی کو وہاں جاتا رہا، ٹوٹا ہوا تونبا مرمت یوں کرتے ہیں کہ اس کو کھول کر اس کے جوڑ بٹھا کر اندر مہین بوریا گوند سے جما دیتے ہیں۔ جب ٹھیک سے پیوستہ ہو جاتا ہے تو اس کو پھر اپنی جگہ جما کر باہر رنگ و روغن کر دیتے ہیں۔ کئی روز بعد نصیر خاں تانگے پر طنبورہ لے کر آیا۔ چوری چوری میں نے اس کو اپنے کمرے میں رکھا۔

    دو ایک روز میں والد صاحب کو خبر ہوئی تو اس جسارت پر حیران رہ گئے۔ خفا ہوئے تو راقم نے مزید جرأت کی اور کہا کہ مجھ کو پونا کے میوزک کالج میں داخل کرا دیجیے، اس کے جواب میں ناصحِ مشفق نے سمجھایا کہ اہلِ فن جس محلے میں رہتے ہیں وہاں کی آمد و رفت میں ایک خاص خطرہ ہے۔ لیجیے ہمارا خواب پریشاں ہو کر رہ گیا، لیکن اب مانتا ہوں کہ اچھا ہی ہوا۔ خطرۂ خاص سے قطع نظر گانے بجانے کے پیشے میں آج کل بھارت اور پاکستان دونوں میں جو سیاست ہے، اس سے اللہ بچائے۔

    ایک تفریحی شغل کے طور پر سنگیت کا جو مزہ ہم نے لیا، اس میں یک گونہ آزادی رہی۔ پھر یہ کہ زندگی کے مشاغل میں بھی تنوع رہا۔ راگ سے روٹی کمانی نہ پڑی۔ راگ وسیلۂ فرحت ہی رہا۔

    (ممتاز ماہرِ موسیقی، ادیب اور محقق داؤد رہبر کی یادوں سے ایک ورق)

  • ڈاکٹر داؤد رہبر: انھوں نے اپنے ملک اور ثقافت سے دور رہ کر بھی اردو سے اپنا ناتا نہیں توڑا

    ڈاکٹر داؤد رہبر: انھوں نے اپنے ملک اور ثقافت سے دور رہ کر بھی اردو سے اپنا ناتا نہیں توڑا

    اردو ادب کی کثیر الجہت شخصیت ڈاکٹر داؤد رہبر کی زندگی کا کم و بیش سارا شعوری حصّہ علم و ادب کی تحصیل، جمع و تدوین، تشریح اور تخلیق میں گزرا۔

    نثر کے علاوہ شاعری بھی ان کا حوالہ ہے لیکن اس کا ذکر کم کم ہوا ہے۔اردو زبان کے نام ور ادیب، مضمون نگار، ماہرِ موسیقی اور شاعر کا آج یومِ وفات ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر نے 5 اکتوبر 2013 کو داعئ اجل کی آواز پر لبیک کہا۔ وہ امریکا میں سکونت پذیر تھے۔

    داؤد رہبر 1926ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ جامعہ کیمبرج سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اورینٹل کالج لاہور اور بعد ازاں کینیڈا، انقرہ اور امریکا کی جامعات سے تعلیم مکمل کی اور درس و تدریس کے ساتھ علمی و ادبی موضوعات پر لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

    ڈاکٹر محمد داؤد رہبر ایک لائق باپ کے لائق بیٹے تھے۔ ان کے والد پروفیسر محمد اقبال پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے سربراہ تھے، فرانسیسی اور دوسری مغربی زبانوں پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ ان کی خصوصی توجہ اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث داؤد رہبر جلد ہی علم و فضل کے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں پہنچنے کی تمنا کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر نے اپنے ملک اور کلچر سے دور رہنے کے باوجود اردو سے اپنا ناتا نہیں توڑا تھا۔

    اکرام چغتائی نے اپنے تذکرے میں ان کے بارے میں لکھا، ’’داؤد رہبر کثیر تصانیف مصنف ہیں اور ان کے موضوعات میں حیران کن تنوع پایا جاتا ہے، ان کی کتب اور مقالات کی جامع فہرست پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نوعمری ہی میں ان کے مقالات برصغیر کے معتبر علمی جرائد میں چھپنا شروع ہو گئے تھے۔ داؤد نے لاہور سے عربی میں ایم اے کیا، کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ پھر انقرہ یونیورسٹی میں تقرری ہوئی، بقیہ زندگی کینیڈا اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دیے، کتابیں لکھیں اور مقالات تحریر کیے۔‘‘

    ان کی تصانیف میں تسلیمات(مضامین)، باتیں کچھ سُریلی سی اور نسخہ ہائے وفا (موسیقی پر مضامین)، پراگندہ طبع لوگ (عام آدمی کی کہانیاں)، مشاعرے کا فاتح- نواب میرزا داغ دہلوی، کلچر کے روحانی عناصر اور شعری کلیات شامل ہیں۔